حضورتاج الشریعہ ۔۔۔نادر زمن شخصیت

علامہ عبد الوہا ب اکرم قادری،نائب امیر جماعت اہل سنت پاکستان ،کراچی


نحمدہ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم
اما بعدفا عوذبا للّٰہ من الشیطن الرجیم ۔بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ‘‘
صدق اللہ مو لا نا العظیم ۔ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی ۔یا ایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ۔

حمد وصلو ٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلو قات انسان بنا یا ،اور افضل ترین امت ، مسلما ن اور صا حب ایمان بنا یا ،او رحضور علیہ السلام کی غلامی اور آپ علیہ السلام کے امتی ہو نے کا شرف و اعزاز عطا فر مایا ،کہ پچھلی سا ری امتیں مقتدی نبیوں کی امت ہو ئیں ،الحمدللہ! اس رب نے ہمیں امام نبی کا امتی بنا یا ،حضور علیہ السلا م کا عشق ہما رے سینوں میں جاں گزیں فر مایا ،ہمیں فخر ہے اور نا ز ہے کہ حضور علیہ السلام کے امتی ہو نے کے ساتھ ساتھ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے مقلد اور سیدنا غو ث اعظم رضی اللہ عنہ کے مرید ہیں ۔اور الحمدللہ! اہلسنت وجما عت حنفی بریلوی ہیں ،اورا س نسبت بریلوی پر ہمیں نا زاور فخر ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اس بریلی کی سر زمین سے جن قیمتی اور نا یا ب ترین ہستیوںکو پیدا فر مایا ان میں سے ایک عظیم ہستی جن کا آج ہم ذکر کر رہے ہیں ،وہ ذات حضور تا ج الشریعہ ،فقیہ اعظم ،تا جد ار اہلسنت ، نا ئب اعلیٰ حضرت ،جانشین مفتی ٔ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خا ں صا حب کی ہے۔
قر آن کریم کے مطا لعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تخلیق فر مایا ،اورا ن میں سے جن سے چاہی اللہ نے محبت اور دوستی فر ما ئی ،اور ارشا د با ری تعالیٰ ہوا ۔’’یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخۡتَارُ‘‘ وہ اللہ جسے چاہتا ہے تخلیق فر ما تا ہے ،جن کو اپنا دوست بنا یا ۔یقینا ً ان پر اللہ کا کرم ہو ااورا للہ اپنے پیا روں پر خو ب کرم فر ما تا ہے ،قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فر ما ن ’’ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ‘‘یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا فر ما تا ہے ۔ یقیناً وہ اپنے پیا روں کو اور دوستوں کو خو ب فضل عطا فر ماتا ہے ،صرف اس کے پیا رے اورا س کے دوست ہی اس کے فضل ورحمت سے فیض یا ب نہیں ہو تے بلکہ حق یہ ہے کہ جو ان محبوبو ں ،ان بر گزیدہ بندوں اورا ن ولیوں کے دا من سے وا بستہ ہو تے ہیں ۔اللہ انہیں بھی فیض یا ب فرما تا ہے ۔
قر آن کریم کی آیت مبا رکہ جو میں نے تلاوت کی اس میں اللہ تعالیٰ نے ارشا د فر ما یا کہ ’وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ‘‘ یہ فر مان اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر علیہ السلام کا قر آن کریم میں بیا ن فر مایا ہے ،بصورت وحی حضور علیہ السلا م پر نا زل فر مایا ہے ۔اس کا سبب تمام صاحبا ن علم جا نتے ہیں کہ جب مو سیٰ علیہ السلا م حضرت خضر علیہ السلام کے ان کاموں پر صبر نہ کر سکے کہ جن پر اعترا ض نہ کرنے اور خا موش رہنے کی شرط آپ نے رکھی تھی اور اسی شرط پر اپنا ہم سفر بنایا تھا ۔
اب وقت جدا ئی حضرت خضر علیہ السلام نے ان تینو ں کا موں کی حکمتو ں کو بیان فر مایا جس کے سبب سے حضرت خضر علیہ السلام وحضرت مو سیٰ علیہ السلام میں جدا ئی کا وقت آچکا تھا ۔اور ارشاد فر مایا کہ وہ جو تیسرا کا م یعنی دیوار کی تعمیر کا کام جو میں نے کیا تھا وہ اس لئے کیا تھا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزا نہ پو شیدہ تھا اور میں نے اس اندا ز سے اس کو تعمیر کر دیا تھا کہ جب یہ بچے جو ان ہوں تو اپنے خزانے کو پا لیں ۔اگر وہ دیوار گر جا تی تو ظا لم لو گ اس خز انے کو لو ٹ لیتے ۔
حضرت خضر علیہ السلام نے اس کام کرنے کی حکمت یہ بیان فر ما ئی کہ ’’وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا‘‘کہ ان کا با پ نیک آدمی تھا ۔مفسرین کرام نے تحریر فرمایاہے کہ یہ اس کے سگے والد کی با ت نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ اس کے پانچویں پشت کے والد کی یا پھر ساتویں پشت کے والد کی با ت ہو رہی ہے کہ جو نیک اور صالح تھا ،جو اللہ کا ولی اور نیک بند ہ تھا ،اللہ نے اس کی برکت اورا س کے سبب سے ان بچوں پر یہ فضل فر مایا ،جب اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی پا نچویں یا ساتویں نسل اور نیچے بھی اپنے ولی کے فیض کو اورا س کے سبب سے اس کی آل پر کرم کو جاری فرما تا ہے ،سبحان اللہ قر با ن جا ئیے اس ذات کے جس کاہم تذکرہ کر رہے ہیں ،جو پانچو یں نسل میں اپنے جد امجد کی نسبت سے ولایت کا فیض ہی نہیں پا رہے ہیں بلکہ ہر نسل میں ولایت کا فیض سا تھ لئے ہو ئے ہیں ۔
حضور تا ج الشریعہ خود اپنے علم ،اپنے تقویٰ ،اپنے عمل،اپنے قول وفعل میں نا بغۂ روز گا ر شخصیت تھے کہ جن کی عظمت علمی کا اعتراف بڑے بڑے علما ء کرتے ہیں ،جس کے تقویٰ وطہا رت کا تذکرہ بڑے بڑے اولیا ء کرتے ہیں ۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ خود عالم باعمل ،اللہ کے ولی ہیں ،آپ کے والد مفسر قرآن مولانا ابرا ہیم رضا خا ں صاحب عالم با عمل ،اللہ کے ولی ہیں۔ان کے والد حجۃ الاسلام مو لانا حا مد رضا خاں علیہ الرحمۃ عالم با عمل اور اللہ کے ولی ہیں ۔ان کے والد امام احمد رضا خا ں فا ضل بریلوی رضی اللہ عنہ مجدد دین وملت ،عالم با عمل ،اللہ کے ولی ہیں ۔ ان کے والد فقیہ عصر مفتی نقی علی خا ں علیہ الرحمۃ عالم با عمل اور اللہ کے ولی ہیں ۔ان کے والد علامہ رضا علی خا ں صاحب علیہ الرحمۃ علم وعمل ،تقویٰ و طہا رت کے پیکر ہیں ۔قرآن کریم تو یہ بتا رہا ہے کہ کسی ولی کی کئی اولادوں کے یعنی کئی نسلوں کے نیچے بھی اس کا فیض ملتا ہے ،یعنی اللہ تعالیٰ ولی کی اولاد ہو نے کی وجہ سے ان پر فضل فر ما تا ہے۔
اب غور کیجئے جو ہر نسل میں ولایت کا فیض لئے ہو ئے ہوں اور جو کئی نسلوں سے دین کی خدمت کرنے اور تقویٰ وطہا رت میں لوگو ں کے لئے علم وعمل میں مثا ل بننے والی ہستیا ں ہو ں اور جو ایسے عظیم والدین اوراور ایسے عظیم با پوں کی اولاد ہوں توا للہ تعالیٰ کا ان پر کتنا کرم ہو گا اللہ تعالیٰ کاان پر کس قدر انعام ہو گا ،حق یہ ہے کہ الفا ظ میں ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔
حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمۃ ۱۹۴۳ء میں بریلی شریف میں پیدا ہو ئے ۔آپ نے اپنی والدہ ماجدہ سے قرآن کریم نا ظرہ پڑھا اور اپنے گھر میں ہی دارالعلوم منظرالاسلام سے فا رغ التحصیل عالم دین ہو ئے،اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن سے ہی ذہنی ذکا وت، علمی عظمت،تقویٰ وطہا رت اور عامل سنت ہو نے کا شرف وسعادت عطا فر ما ئی ۔اور الحمدللہ !ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اپنی جو انی میںہی ۱۷ سال کی عمر میں فا رغ التحصیل ہو کر نہ صرف یہ کہ ایک عالم با عمل کی حیثیت سے دنیا کے سامنے تشریف فر ما ہو ئے بلکہ اس چھو ٹی سی عمر میں ہی اس حصول علم دین کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربی زبا ن پر عبو ر اور علم فقہ میں کمال کی جو نعمت عطا فر ما ئی وہ آ گے چل کر آپ کی حیثیت کو لو گو ں میں ضرب المثل بنا گئی ،یہی وجہ ہے کہ جب ۱۹۶۳ء میں آپ جا معہ ازہر میں مزید علم دین کے حصول کے لئے تشریف فر ما ہو ئے ،اور پھر ۱۹۶۶ء تک تین سال لگا تا ر آپ نے جا معہ از ہر میں علم دین حاصل فر ما یا ،علم دین تو آپ وہا ں تشریف فرما ہو کر حاصل فر ما ہی رہے تھے ،لیکن آپ کے قول وفعل ،کردار واخلا ق ،تقویٰ وپرہیز گا ری کے سبب سے صرف آپ کے ساتھ کے طلبا ء ہی نہیں ،بلکہ جا معہ ازہر کے تمام اساتذہ آپ پر شفقت اور آپ سے محبت ہی نہیں بلکہ آپ کی عقیدت میں مبتلا تھے،اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے سند فرا غت حاصل فر مائی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر خا ص انعام واکرا م فر مایا۔
حضورتاج الشریعہ کو ما ضی میں کی جا نے والی ایک رپورٹ کے مطا بق دنیا میں مقبو ل ترین ،مشہو ر ترین اور محبوب ترین ۵۰۰ شخصیا ت میں سے ایک شما ر کیا گیا ،لیکن انتہا ئی حیرت کی با ت یہ ہے کہ آپ کی اس شہرت اور لوگو ں کے دلو ں میں محبت اور عقیدت کی وجہ میڈیا کے ذریعے حاصل ہو نے والی تشہیر نہیں تھی،میڈیا کے ذریعےحا صل ہو نے والی شہرت نہیں تھی،اخبا رات میں بیا نا ت ،ٹی وی اور جلسوں میں تقریر کا عمومی سلسلہ اور تصویریں اور ویڈیو بنا نے کا معاملہ اور سوشل میڈیاپر تشہیری مہم کا معا ملہ آپ کی ذات کے ساتھ بالکل بھی وابستہ نہیں تھا ، اس کے با وجو د یہ محض آپ کی شخصیت کی محبوبیت تھی ،جس کا سبب آپ کا علم وعمل تھا،کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی محبت کولوگوں کے دلوں میں نقش فر مایا تھا ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے ولیوں کی محبت لوگو ں کے دلوں میں پیدا فر مادیتا ہے۔
حضور تا ج الشریعہ کی ولایت پر آپ کے چہرے کا نور ،آپ کی زبا ن سے نکلنے والے کلما ت اور آپ کا اٹھنے والاہر قدم بطو ر دلیل اور سند تھا ،اہل علم،علما ئے کرا م ،پیران عظا م ،مشائخ آپ کی سیرت طیبہ ،آپ کے معمولات زندگی ، آپ کے معاملات کو دیکھ کر یہ کہنے پر مجبو ر تھے کہ آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضور مفتی ٔ اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سچے جا نشین ہیں۔بلکہ آپ کو دیکھ کر ،آ پ کو سن کر اور آپ کو پڑھ کر اعلیٰ حضرت کے حسن ،اعلیٰ حضرت کے علم اور اعلیٰ حضرت کے عمل کی عظمت کا لوگ اعترا ف کیاکرتے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے اس محبوبیت کا اظہا ر آپ کی ذات کے ساتھ اس طرح بھی فر ما یا کہ آپ ان خوش نصیب لوگو ں میں شریک ہو ئے جو باوجود یہ کہ نجدی عقائد کی تردید اور وہابی نظریے کی مخا لفت میں بہت مشہو راور معروف تھے،اور عشق مصطفیٰ ﷺ کی ترویج واشا عت کے لئے اپنے صبح وشام کو وقف کئے ہو ئے تھے ،اس کے با وجو د اللہ نے آپ کو ان خو ش نصیبو ں میں داخل فر ما یا کہ جن کو خود سعودی حکو مت نے دعوت دے کر بلا یا اور کعبۃ اللہ شریف کے اندر جا نے اور نما زادا کرنے کا شرف اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب علیہ السلام کے کرم سے آپ کو عطا کیا گیا ۔
اور اگر با ت حضور تا ج الشریعہ کی عظمت علمی کی کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربی ،اردو ،فارسی اور انگریزی زبا نوں پر عبور عطا فر ما یا تھا ،آپ کی قریب قریب ۷۵تصا نیف میں سے عربی ،اردو یہاں تک کہ انگریزی زبا ن تک میں تصانیف مو جو د ہیں ، اور انگریزی میں بھی آپ کی تحریریں اور تقریریں مو جو دہیں ۔اورا ردو کے علا وہ عربی میں آپ کی شاعری اور عربی زبا ن اورعربی علم و ادب میں آپ کا مقام بڑا منفرد ہے۔جس کی وجہ سے علما ء عرب میں آپ کی ایک بڑی انفرادی حیثیت ہے ،باوجود اس کے کہ آپ عجمی تھے ،لیکن اللہ تعالیٰ نے علما ء عرب کے دلوں میں آپ کی محبت کو نقش فر مایا ۔اور یہ اس لئے بھی ہوا کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عربی زبا ن میں بھی عبو ر عطا فر مایا تھا وہیں آپ نے اپنے اسلا ف کے اس طر زعمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا طرۂ امتیاز رہا کہ حق گو ئی ، بے با کی اور احقا ق حق اور ابطا ل با طل میں کبھی بھی کسی موقع پردقیقہ فروگزا شت آپ نے نہیں فر ما یا ۔اور آپ کی یہ حق گو ئی اور بے باکی ہی آپ کی ولایت اور آپ کے عالم با عمل اور صوفی ٔ با صفا ہو نے کی بہت واضح اور روشن دلیل رہی۔
ہم لوگو ں میں سے جن لوگو ں نے ان کی زیا رت کی ۔الحمدللہ وہ اس با ت کے معترف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تقویٰ وطہا رت کو،ان کے علم وعمل کو ان کے چہرے پر نورا نیت کے ذریعے ظا ہر فرما دیا تھا ،اور حضور علیہ السلا م کا وہ فر ما ن کہ اللہ کا ولی وہ ہو تا ہے کہ جس کو دیکھ کر اللہ یاد آجا ئے ،سبحان اللہ جب لو گ آپ کا چہرہ دیکھتے تھے تو ان کی زبا نوں پر سبحا ن اللہ اور ما شا ء اللہ کے الفا ظ ہو تے تھے اور باقی دوسرے مقامات پر تو یہ معاملہ ہندو پاک کے جلسوں میں محا فل میں تو یہ معا ملہ کو ئی ما نع نہیں رکھتا۔
الحمدللہ! یہ فقیر اپنے مشا ہدہ سے یہ با ت عرض کر رہاہے کہ جب ۲۰۱۴ء کے حج کے موقع پرحضور تا ج الشریعہ طواف ودا ع فر ما نے کے لئے مسجد حرا م شریف میں تشریف فرما ہو ئے،یہ فقیر بھی وہاں موجو د تھا ،میں اللہ کو گوا ہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ طواف روک کر اور پیچھے مڑ مڑ کے حضور تا ج الشریعہ کے چہرے کی زیا رت کر رہے تھے ،اور ایک دوسرے سے سوال کر رہے تھے کہ یہ کون بزرگ ہیں ، اللہ کی قسم آپ کا چہرہ اس روشن ترین اور منور ترین منظر میں ایسا ظا ہر ہو رہا تھا کہ گو یا خود آپ کے چہرے کے اندر کو ئی بہت پا وروالابلب روشن ہو۔
سبحا ن اللہ !اللہ تعالیٰ نے آپ کو تقویٰ وطہا رت کے سبب سے وہ نو رانی چہرہ عطا فر ما یا تھا جوآپ کی حقا نیت پر ، آپ کی سچا ئی پراور آپ کے مومن کا مل ہو نے اور اللہ کے ولی ہو نے اور عالم با عمل ہو نے پر دلالت کرتا تھا ۔
الحمدللہ! حق یہ ہے کہ حضور تا ج الشریعہ آج کے دور میں اپنی مثا ل آپ تھے اور اس میںکو ئی شک نہیں ہے اور کم از کم میں اس با ت کے لئے قسم کھا سکتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں علما ء کرا م اورہزاروں مشا ئخ عظام سے ملا قا تیں کیں ،لیکن حق گو ئی ،بے با کی ، عقیدہ ٔ حق کی ترجما نی اور تقویٰ وطہا رت میں جس عظیم ترین مینا ر کی بلندی پر میں نے تا ج ا لشریعہ کو پایا آپ کے سوا کسی دوسری ہستی کو مثا ل کے طو ر پر بھی آپ کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ حق یہ ہے کہ حضور مفتی ٔ اعظم ہند کہ جن کے تقویٰ وطہا رت کی لو گ مثا ل دیا کرتے تھے آپ نے اپنے آپ کو ان کا سچا جا نشین ثا بت کیا اور دنیا کے سامنے عالم با عمل ہو نے کی تمثیل پیش فر ما دی ۔
آج کے اس پر فتن دور میں حضور تا ج ا لشریعہ علیہ الرحمۃ جیسی ہستی ہمیں چرا غ لے کر ڈھو نڈنے سے نظر نہیں آتی ، اور ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نیا بت کا شرف عظمت علمی کے اعتبار سے اورحضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی نیابت کا شرف اپنے تقویٰ وطہا رت وولا یت وکرا مت کے اعتبا ر سے جس طرح عطا فرما یا تھا ۔وہ پکا ر پکا ر کر اعلا ن کرتا تھا کہ یہی امام احمد رضا کا جانشین ہے اور یہی مفتی ٔ اعظم کا جانشین ہے ۔
تا ج الشریعہ کا لقب آپ کی ذات پر ایسا چمکتا تھا کہ واقعتاً آپ کی تحقیقات ،آپ کی تصنیفا ت ،آپ کے فتا ویٰ اور آپ نے جو دین متین کی خدمت کرتے ہو ئے اس میں تحقیق فر ما ئی ہے ،مسائل فقہ میں اپنی مثا ل آپ ہیں ۔اور آج کے دور کے بڑے بڑے علما ء آپ کے فتوے کو اپنی آنکھو ں سے لگا تے اور اس کی حقا نیت وصدا قت کو دل کے ساتھ تیقن اور یقین رکھتے تھے اور ہندوستا ن بھر کے علما ء اور دنیا بھر کے اہلسنت علما ء احکامات شریعت میں حرف آخر تصور کرتے تھے۔ آپ کا ہر فتویٰ اور ہر عمل عزیمت پر مبنی ہو تا تھا اور تقویٰ کے عروج اور قرآن وسنت کے نو ر سے منور ہو تا تھا ،حقیقت یہ ہے کہ آپ کے پردہ فر ماجا نے کے بعد جو خلا ء اہلسنت وجماعت میں علم ،عمل، تقویٰ و طہا رت ، پا کیز گی اور ولا یت کے اعتبا ر سے پیدا ہوا ہے یہ کبھی بھی پو را نہیں ہو سکتا ۔بقول شاعر ؎

علم وعرفان وعمل کا سورج دور افق میں ڈوبـ گیا
جا نے کتنی صدیو ں تک اب لو گ سحر کو ترسیں گے

اللہ تعالیٰ آپ کے فیضا ن ولایت سے ہم سب کو فیض یا ب فر ما ئے ،میرے پیرو مرشدقبلہ سید شا ہ ترا ب الحق قادری علیہ الرحمۃ آپ سے بے پنا ہ محبت وعقیدت کا اظہا ر فر مایاکرتے تھے اور ہر معاملے میں ہمیں آپ سے وا بستگی اور آپ کے دامن سے جڑے رہنے کی تلقین فر ما یا کرتے تھے ،اور حضور تا ج الشریعہ بھی شاہ صاحب سے بے پنا ہ محبت فرما تے تھے ،ہما رے شیخ فر ما یا کرتے تھے اور یہ تعلیم دی اور بتا یا کہ اعلیٰ حضرت فا ضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خا نوا دہ کاہر فرد بالخصوص حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ اعلیٰ حضرت کے سچے جا نشین اور مفتی ٔ اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے سچے جا نشین ہیں ۔اور آپ کے دامن کی نسبت ایک صاحب ایمان کے لئے سنی صحیح العقیدہ مسلما ن کے لئے دنیا و آخرت میں فخر و اعزاز کی بات ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے فیضا ن ولایت سے فیض یا ب فر ما ئے ۔آمین

Menu