وائے حسرتا ! دین کا نگہبان جاتا رہا

 علامہ محمد لیاقت رضا نوری ،سربراہ اعلیٰ دارالعلوم رضویہ غریب نواز ،اجین ،انڈیا


حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلستان اسلام کے ایک گلاب لاجواب تھے سلطنت سلوک و عرفان کے ایک گوہر نایاب تھے جس جہت سے ان کی کتاب حیات کی ورق گردانی کی جاتی ہے شش جہات سے کمال و جمال کے ماہِ تمام نظر آتے ہیں افسوس صد افسوس علم و عمل کا وہ آفتاب عالم تاب اپنی آفاقی تابانیوں کی خیرات بانٹ کر اجل کی گھٹاؤں میں روپوش ہوگیا اور عالم اسلام کی آنکھیں برنگ گل کر گیا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کی کن کن خوبیوں کی کا تذکرہ کیا جائے اورکن کن محاسن کاذکر ترک کیا جائے یہ کام بڑا مشکل ہے بس اتنا کہوں گا کہ ہر زاویے سے لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ کے مظہر کامل و اکمل تھے اور اس دور میں امیرالمؤمنین فی التصوف کے درجہ پر فائز تھے ۔ کتاب و سنت کے عالم بھی تھے اور کامل طور پر عامل بھی تھے یعنی علم و عمل کے ایک بحر بیکراں کو دنیا تاج الشریعہ کہتی تھی اور یہ کہنا حق بجانب بھی تھا کیونکہ آپ کی زندگی شریعت کاملہ سے عبارت تھی اور شریعت بیضہ کی صفت احسن و اجمل سے ذات متصف تھی۔ گویا شریعت و ذات میں تساوی وعینیت کی نسبت ہوچکی تھی اور یہ خاصہ مابہ الامتیاز کی منزل میں تھا۔ اس لئے تو بڑے اطمینان کے ساتھ سارے اوراد و وظائف کی تلاوت سے قلب و جگر کو منور و تاباں کرلیا دلائل الخیرات کی قرأت کی خوشبو سے مشام جان وروح کو عطر بیز و نیر بخش بنالیا وضو علی الوضو جو نورعلی نور ہے، اس کی نورانیت سے بھی کامل پاکیزگی و طہارت حاصل کرلی۔ وقت کا سوال کیا جواب پاتے ہی اللہ، اللہ کے ذکر میں محو ہو کر دنیا و ما فیہا سے بالکل بے نیاز ہوگئے۔ اسی درمیان میں مؤذن کی سحر کن صدائے دل آفرین مغرب کی اذان سماعت کو پر بہار بنا دیتی ہے۔ اللہ اکبر! اللہ اکبر! کے ذریعہ خداوند قدوس کی کبریا ئیت کے اعلان کا سورج مطلع وجود پر نمودار ہو جاتا ہے، ادھر گلشن لبہائے مبارک پر وہی گلاب لاجواب کھل اٹھتا ہے اور اللہ اکبر کی تکرار کی بھینی بھینی نکہتوں سے پوری فضا مہک اٹھتی ہے۔’’ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۰﴾ ‘‘کے خطاب پر لبیک کہتے ہوئے مستحقین انعام کی جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور ’’موت المؤمن راحت‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں ۔جس سے عالم اسلام میں ایک حشر برپا ہوجاتا ہے ، جہانِ دین و سنیت کیلیے یہ اتنا بڑا نقصان ہے جس کی تلافی محال نہیں تو مشکل یقینی ہے۔ اللہ عزوجل اس کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

عمر رواں کا قافلہ کتنا سبک خرام ہے
آگئیں چند ہچکیاں اور سفر تمام ہے

تصوف کے آئینے میں امیرالمؤمنین فی التصوف کے جمال جہاں آرا کی چند جھلکیوں کی زیارت سے اپنی آنکھیں نور بار بناتے ہیں۔ تصوف کیا ہے اس سے متعلق حضرت ابوالقاسم نصیر آبادی فرماتے ہیں :’’التصوف ملازمۃ الکتاب والسنۃ ‘‘( طبقات کبری /ص:۱۲۲) تصوف کی حقیقت کتاب وسنت پر کامل عمل ہے ۔قاضی زکریا انصاری فرماتے ہیں:’’ التصوف علم تعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق وتعمیر الظاہر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ ‘‘(علی الھامش الرسالۃ القشیریۃ/ص:۷) تصوف ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے نفوس کا تزکیہ، اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کو سنوار نے کا اصول معلوم کیا جاتا ہے تاکہ سعادت ابدیہ کا حصول ہو۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں:’’ التصوف استعمال کل خلق سنی وترک کل خلق دنی ‘‘(النصرۃ النبویۃ/ص۲۲) تصوف نام ہے ہر پیداشدہ اچھائیوں سے لیس ہوجانے اور ہر پیداشدہ رزائل کو ترک کردینے کا۔ حضرت ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’ التصوف تدریب النفس علی العبودیۃ وردھا لاحکام الربوبیۃ ‘‘(نور الحقیق /ص۹۳) تصوف ، بندگی پر نفس کو مائل کرنے اور احکام ربوبیت تک اس کو پہنچانے کا نام ہے۔ ابن عجیبہ فرماتے ہیں:’’ التصوف ہوعلم یعرف بہ کیفیۃ السلوک الی حضرت ملک الملوک وتصفیۃ البواطن من الرزائل وتحلیتھا بانواع الفضائل واولہ علم ووسطہ عمل وآخرہ موھبۃ‘‘ (معراج التشوف الی حقائق التصوف /ص:۴) تصوف وہ علم ہے جس کے توسل سے مالک حقیقی کی بارگاہ تک پہنچنے کی کیفیت رزائل سے باطن کو پاک کرنے اورفضائل سے اس کو آراستہ کرنے کی معرفت کا حصول ہوتا ہے اس کا اول زینہ علم ہے دوسرا زینہ عمل ہے اور اسکا آخر عطیہ ہے۔
تصوف کی تعریف کی روشنی میں حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو دیکھتے ہیں ان کی حیات پاکیزہ کا ایک ایک حرف پڑھتے ہیں تو ان کی حیات کو تزکیۃ النفس کی دولت بے بہا سے لبریز پاتے ہیں، اخلاقیات کا گلستان سرسبزوشاداب نظر آتا ہے، ظاہر وباطن کی تعمیرات کی یہ کیفیت ہے کہ مدینۃ النور کا مظہر اتم اور جلوۂ مجسم دکھائی دیتا ہے ،جس سے روشن ہے کہ وہ سعادت ابدیہ کا پری پیکر تھا۔ حقیقت تو یہ ہے اس کی بنیاد خیر پر تھی ،جہاں رزائل کے گردوغبار کی بھی رسائی نہیں تھی۔ نفس عبادت و ریاضت سے مملو تھا، جہاں سے احکام ربانیہ کی نورانیت کے فوارے پھوٹتے تھے۔ظاہر ، باطن کا ترجمان ہوتا ہے جس کے مشاہدے کے بعد باطن کی کیفیات کا ادراک ہوجاتا ہے، جس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ باطن فضائل کا آماجگاہ اور رزائل سے مبرا تھا ،مقام قرب کے درجات حاصل تھے علم و فن میں مرجع خلائق کی حیثیت تھی ،اخلاص و عمل میں اوج ثریا پر مقام تھا:’’اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمَآءُ ؕ ‘‘ کے تحت :’’ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ‘‘’’ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ ‘‘ کے مطابق’’ راضیۃ مرضیۃ ‘‘کے مقام پر تھے یعنی خدا ان سے راضی تھا اور وہ خدا سے راضی تھے ۔
آپ کےدامن حیات میں علم، عمل اورہبہ کے جواہر پا رے کی نورانیت فضائے وجود کو لالہ زار بنا رہی تھی۔ کتاب و سنت کے اتنے بڑے عالم وعامل تھے کہ عالم اسلام میں کوئی آپ کا ثانی نہیں تھا ہر اعتبار سے امیرالمؤمنین کی حیثیت رکھتے تھے ۔ تصوف کی بنیاد کیا ہے؟ صاحب کتاب فرماتے ہیں:’’ فعماد التصوف تصفیۃ للقلب من اوضار المادۃ و قوامہ الانسان بالخالق العظیم فالصوفی من صفا قلبہ للہ وصفت للہ معاملتہ فصفت لہ من اللہ تعالیٗ کرامتہ ‘‘(قواعد التصوف /ص:۲ ) تصوف کی بنیاد گندے مادے سے قلب کا پاک ہونا ہے اور انسان کے تعلق کا قیام خالق عظیم کے ساتھ ہونا ہے ،تو صوفی وہ ہے جس کا قلب خالص اللہ کے لئے صاف ہے ۔یعنی ماسوا خدا کے اس میں کسی کی گنجائش نہیں ہے اور اس کے سارے معاملات پروردگار عالم سے منسلک ہیں، پس اس کی بزرگی اللہ عزوجل سے ہی منسوب ہے ۔
فقیہ کبیر حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اللہ کے ماسوا کے لیے وہاں کوئی جگہ نہیں پاتے ہیں۔ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کے وہاں دلکش و بے نظیر جلوے نظر آتے ہیں۔ بارہا کا مشاہدہ رہا ہے کہ جب کوئی ذاتیات پر حملہ آور ہوتا تو خموش ہو جاتے اور اس کا کوئی جواب نہیں دیتے ایسا لگتا کہ’’ موتو اقبل ان تموتوا‘‘ کی تصویر پر تنویر ہیں، نفس کا بالکل خاتمہ ہوچکا ہے مگر جب عظمت اسلام کی بات آتی ، عوام اہلسنت کے ایمان و عقائد کے تحفظ کا مسئلہ ہوتا توقفل سکوت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا اور بلا خوف و خطر احقاق حق کا فریضہ انجام دیتے اور اس معاملے میں کسی کی پروا ہ نہیں کرتے۔ وہ کون ہے؟ کہاں کا ہے؟ کس پوزیشن کا ہے؟ اس کی نسبی حقیقت و وقعت کیا ہے؟ اس سے قطع نظر ہو کر اسلام کے حکم کا اظہار فرما دیتے ۔ نبی کریم ﷺفرماتے ہیں:’’ افضل الجہاد الکلمۃ الحق عند سلطان الجائر ‘‘ (مشکوۃ شریف ) ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہہ دینا افضل جہاد ہے ۔یقینا وہ اپنے زمانے کے مجاہد اعظم تھے جو کہتے وہی کرتے ، ’’ لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ‘‘ کا مصداق نہیں بنتے اور گالیاں دینے والوں کا جواب نہ دے کر’’اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ‘‘کا مظاہرہ فرماتے ۔
تصوف کی اہمیت وافادیت کیا ہے کہتے ہیں کہ تکالیف شرعیہ سے متعلق جو احکام ہیں ،جس کا تعلق براہ راست انسان کی ذات سے ہے، وہ احکام دو قسم کے ہیں :ایک احکام جن کا تعلق اعمال ظاہرہ سے ہے اور ایک وہ جس کا تعلق اعمال باطنہ سے ہے۔ کچھ احکام کا تعلق انسان کے بدن و جسم سے ہے اور کچھ احکام کا قلب سے ہے۔ اعمال جسمیہ بھی دو قسم میں منقسم ہیں ۔اوامر ونواہی ۔ تو اوامر الٰہیہ جیسے نماز، زکٰوۃ، حج وغیرہ اور نواہی جیسے قتل، زنا ، چوری ،شراب پینا وغیرہ وغیرہ۔ اعمال قلبیہ کی بھی دو قسمیں ہیں اوامرونواہی ۔ اوامر جیسے ایمان باللہ ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب والرسل، اخلاص ، رضا ، صدق، خشوع اور توکل ۔ نواہی جیسے کفر، نفاق، کبر، عجب ، ریا، غرور، کینہ، حسد وغیرہ وغیرہ۔
دوسری قسم کا تعلق قلب سے ہے، جو قسم اول سے اہم ہے، جیسا کہ رسول اللہﷺ کے فرمودات عالیہ سے روشن ہے۔ آقا علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ وہی القلب ‘‘(رواہ البخاری فی کتاب الایمان) خبردار ! کہ جسم کے اندر گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، وہ صحیح ہے تو پورا جسم سلامت ہے وہ فاسد ہے تو پورے اعضائے جسمانی خراب ہیںاور وہ قلب ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اعضائے جسمانی کی تندرستی کا مدار قلب کے تصفیہ پر موقوف ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:’’ لایدخل الجنۃ من کا ن فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر ‘‘(مسلم شریف کتاب الایمان ) کہ جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ واضح ہے کہ اس کا تزکیہ ہی دخول جنت کا باعث ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ ان اللہ لاینظر الی اجسادکم ولا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم ‘‘(مسلم شریف ، کتاب البر والصلہ) اللہ عزوجل تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ وہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میل کچیل کے دور کردینے کا نام تصوف ہے جس سے تزکیہ نفس وقلب کی افادیت ووقعت کا پتہ چل جاتا ہے اُسی جانب کلام الہی بھی مُشیر ہے ارشاد ربانی ہے :’’ یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾ اِلَّا مَنۡ اَتَی اللّٰہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿ؕ۸۹﴾ ‘‘( الشعراء ۸۸، ۸۹) قیامت کے روز مال و اولاد نفع بخش نہیں ہونگے مگر اس کیلئے جس کو رب قدیر نے عقل سلیم عطا فرمائی ہے۔ اسی طرح فواحش سے متعلق ارشاد ربانی ہے:
’’قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ‘‘( الاعراف ، جز آیت ۳۳)
’’وَ لَا تَقۡرَبُوا الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ ۚ‘(الانعام ، جز آیت ۱۵۱)
’’الفواحش الباطنہ کما قال المفسرون ھی الحقد والریاء والحسد و النفاق‘‘ (کتاب الحقائق عن التصوف /۱۵ )
مفسرین فرماتے ہیں کہ فواحش سے مراد کینہ، دکھاوا ، بد خواہی اور نفاق ہے اس لئے فقہاء کرام نے بھی ان امور کے عمل کو حرام قرار دیا ہے جیسا کہ امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’انھا فرض عین‘‘ (الاشباہ والنظائر للسیوطی /۵۵۴)’’ فتقیۃ القلب و تہذیب النفس من اھم الفرائض العینیۃ و اوجب الاوامر الالٰہیۃ بدلیل ماورد فی الکتاب والسنۃ واقوال العلماء‘‘ (کتاب الحقائق عن التصوف /۸ تا ۱۵) قلب کو متقی بنانا اور نفس کو مہذب کرنا فرائض عینیہ میں اہم ہے اور اوامر الٰہیہ کا وجوب ان دلائل سے ثابت ہے جو کتاب وسنت اور اقوال علماء سے وارد ہیں واضح ہو گیا کہ کفر ، نفاق ، کبر ، عجب، ریا، غرور، کینہ، حسد، لالچ، خیانت،غصہ ، دشمنی ، ظلم ، سرکشی، حرص ، بخالت ، شدت بیجا، دہشت گردی ، تہمت ، بڑائی، خیانت ، مداہنت، تکبر ، مکر، فریب ، دھوکہ اور اس طرح کے تمام خبائث امراض قلبیہ ہیں جن کا جاننا فرض عین ہے اور ان امور کا ازالہ کرنا بھی فرض عینیہ میں شامل ہے ان بیماریوں کا پالنا حرام ہے۔ اس کے برعکس استغفار، تقویٰ ،ا ستقامت ، صدق ، اخلاص، زہد، ورع ، توکل ، رضا ، تسلیم ،ادب ،عاجزی و انکساری، فروتنی و بردباری ، صبروشکر، اخلاق و فکر، ذکر و اذکار، مراقبہ و مشاہدہ، نیتِ اخلاق اور اس کے علاوہ جتنے فضائل و کمال ہیں جن کا تعلق صحت قلبیہ سے ہے ان کی معرفت بھی ضروری ہے اور اس سے تہی دست ہونا درست نہیں ہے اس کو عملی جامہ پہنانا درجات عالیہ کے حصول کا باعث ہے۔
حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ احکام جسمانیہ کے بھی عالم تھے اور اعمال قلبیہ سے بھی آشنا اور دونوں کے عامل بھی ۔ علوم ظاہرہ کے بھی بحر بیکراں تھے اور علوم باطنہ کے بھی مہر درخشاں، ظاہر و باطن کے نور علمیہ سے اندر و باہر منور تھا آفتاب عمل نے دونوں جہان کو تابندہ و تابناک بنا رکھا تھا یہی وہ وجہ تھی کہ آپ کے وجود مسعود سے تجلیات ربانی کی نورانیت کے فوارے پھوٹتے تھے اور وہ نورانیت سارے جہان کو دعوت نظارہ پیش کرتی تھی جب چلتے تو سنت نبویہ علیہ التحیۃ والثناء کے پھول جھڑتے کلام فرماتے تو صداقت مدینہ کی نورانیت بکھر جاتی جلوس فرماتے تو دیار حبیب کی یاد تازہ ہوجاتی جلوت میں ہوتے تو بہار نورانیت اوج پہ ہوتی خلوت نشینی فرماتے تو ذکر واذکار کے کہکشاں کی جلوہ گری ہوجاتی۔ وہ باطن و ظاہر کے حسن و خوبی اور کمال و جمال کا ایک ایسا آفتاب عالم تاب تھا جس کی روشنی سے جہانِ شریعت بھی نور بارتھی اور دنیائے طریقت میں بھی اجالاتھا معرفت کے ماہ و نجوم افلاک ہدایت پر تبسم ریز تھے حقیقت کا شہر نور علی نور تھا ۔
امام طریقت یا شیخ ارادت کے لیے چند شرطیں ہیں۔ اول شرط ہے : ’’ان یکون عالما بالفرائض العینیۃ ‘‘یعنی فرائض عینیہ کا عالم ہو۔ نماز ، روزہ، حج ، زکوٰۃ، معاملات ، بیوع و تجارات ، عبادات ، عقیدہ ٔاہل سنت یعنی توحید و رسالت اورمقتضیات و مبادیات کا عالم ہو۔ بیشمار دعویداران تصوف اس زمانے میں پائے جاتے ہیں جو اپنی صوفیت کا پرچار کر رہے ہیں اول بنیادی شرط کو اس کی حیات مستعار میں تلاش کرنے کی سعی کریں گے اور جتنا زیادہ کریں گے تاریکیاں اتنا ہی زیادہ بڑھتی جائیں گی اکثر خانقاہیں علوم دینیہ کے واقفین سے محروم ہیں لیکن حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیںکہ حدیث دانی میں مثال نہیں ، فقہ کے جزئیات وکلیات پرعبوریت میں مثال نہیں، تفسیر کے نکت و باریکی پہ درک میں مثال نہیں، تصوف کے علوم کی معرفت میں اوج ثریا کے کمال کے حصول میں مثال نہیں، علوم و فنون کی جامعیت کا کیا کہنا کہ پوری دنیا مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اس کے باوجود کبھی پرچار نہیں کیا واضح ہوا کہ جو ہوتا ہے اس کو اعلان کی حاجت نہیں ۔ سلسلۂ قادریت کو اتنا فروغ دیا کہ پوری دنیا میں اس کا ڈنکا بجا دیا۔ دوم شرط ہے:’’ ان یکون عارفا باللّٰہ تعالیٰ‘‘ عارف باللہ ہو ۔ تیسری شرط یہ ہے :’’ ان یکون خبیرا بطرائق تزکیۃ النفوس ووسائل تربیتھا‘‘ نفوس کے پاک کرنے کے طریقے اور تربیت کے وسائل سے باخبر ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے:’’ ان یکون ما ذونا بالارشاد من شیخہ‘‘ (کتاب الحقائق والتصوف) شیخ کامل سے ارشاد وارادت کی اجازت ہو ۔ حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ ان تمام شرائط کے مجمع البحرین تھے آپ کی ذات میں ان تمام شرائط کا آفتاب خط نصف النہار پر گامزن تھا۔
حدیث میں ہے عن عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ:’’ وھوالاسلام والایمان والاحسان، فالاسلام طاعۃ وعبادۃ والایمان نور و عقیدۃ والاحسان مقام مراقبۃ ومشاہدۃ ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘ (مسلم شریف ، کتاب الایمان) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دین، اسلام و ایمان اور احسان کے مجموعے کا نام ہے اسلام طاعت و عبادت کو کہتے ہیں ایمان نور و عقیدے کا نام ہے اور احسان مقام مراقب ومشاہد سے عبارت ہے جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے کہ اللہ عزوجل کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اگر دیکھنا ممکن نہ ہو تو خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ذات تینوں صفات سے کامل متصف تھی یقینا آپ قطب الارشاد کے درجہ پر فروکش تھے ۔یہی وہ جماعت ہے جس سے متعلق رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عباد اللہ لآناسا ماھم بانبیاء ولا شھداء یغبطھم الانبیاء والشھداء یوم قیامۃ بمکانھم من اللہ قالوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فخبرنا من ھم قال ھم قوم تحابوا بروح اللہ علیٰ غیر ارحام بینھم ولااموال یتعاطونھا فو اللہ ان وجوھھم لنور اوانھم لعلی نور ولا یخافون اذا خافت الناس ولا یحزنون اذا حزن الناس وقرأ ھذہ الآیۃ: اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ‘‘(یونس /۶۲، رواہ ابو داؤد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے کہا رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے چند لوگ ایسے ہونگے جو نہ ہی جماعت انبیاء سے ہوں گے نہ گروہ شہداء سے ہونگے لیکن بروز حشر انبیاء وشہداء ان کی ذات پر رشک کریں گے ان کے ان درجات کے باعث جو اللہ عزوجل نے انہیں عطا کیا ہوگا صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہمیں اس جماعت سے متعلق اطلاع دیجئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ایک ایسی قوم ہےجو اللہ کی توفیق کے سبب بغیر کسی رشتہ داری کے آپس میں ایک دوسرے سے بے انتہا پیار کرتے ہیں عدم مال کے باوجود فیاضی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی حتی المقدور کوشش کرتے ہیں۔ خدا کی قسم ان کا چہرہ پر نور ہوگا یا وہ لوگ نوری لباس میں ہونگے جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ غمگین ہونگے تو ان کی جبین اقدس پر غموں کے آثار بھی نہیں ہونگے اس کے بعد اس آیت کی تلاوت کی خبردار! بے شک جو اللہ کے اولیاء ہوتے ہیں انہیں کوئی خوف ہوتا ہے نہ کوئی غم۔
حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چہرۂ مبارک اتنا پرنور تھا کہ دیکھ کر کتنوں نے کفر سے توبہ کرلی اور کلمہ پڑھ کر مسلمان بن گئے اس تاثرکے ساتھ کہ جس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اداؤں میں ڈھلنے والوں کا رخ لالہ اتنا نور بار ہے تو اس نبی اکرم نور مجسم ﷺکا روئے انور کتنا تابناک ہوگا۔ محقق علی الاطلاق فاضل بریلوی علیہ الرحمہ، سرکار ابدقرارﷺکے نور کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں:

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عین نور تیرا سبـ گھرانہ نور کا

حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ کی حیات کا ایک ایک لمحہ اس بات پر شاہد عادل ہے کہ خوف و ہراس، حزن و ملال اور رنج و غم سے سدا مبرا رہے اور قوم و ملت سے اس قدر محبت و پیار کرتے کہ ہر لمحہ ان کے ایمان و عقیدے کے تحفظ میں لگے رہے اور آخری دم تک نگہبانی فرمائی اور کسی شب خون مارنے والے کو اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ اس حدیث رسول ﷺ کی بنیاد پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی پور نور جماعت میں شامل ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما قال قیل یا رسول اللہﷺ ای جلسائنا خیر قال من ذکر کم اللہ رویتہ وزاد فی علمکم منطقۃ وذکرکم فی الآخرۃ عملہ۔‘‘ (رواہ یعلی ورجالہ رجال الصحیح کما فی جمع الزوائد ، جلد ۱/۲۲۶ )
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺسے سوال ہوا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے ہم نشینوں میں بہتر کون ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں جس کی رویت اللہ کی یاد دہانی کرادے اور تمہارے فکری علم میں اضافہ فرما دے اس کا عمل آخرت کی یاد کا گلشن سجادے۔ حضور تاج الشریعہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جو دیکھتا اس کو خداوند قدوس کی یاد آجاتی علم فکری کی بالیدگی میں شباب کا رنگ چڑھ جاتا اور ان کے عمل کی زیارت سے آخرت کی یادوں کا بانکپن جاگ اٹھتا وہ علم و فن کا کوہ ہمالہ ، زہد و تقویٰ کا ستارہ ، شریعت کا نگہبان، مسلک حق کا ترجمان ، آسمان عرفان کا مہر درخشاں، راہ سلوک کا ماہِ تاباں، عبادت و اطاعت کا اختر، صدق و وفا کا پیکر ،رضویت کا آفتاب ، برکاتیت کا مہتاب حیف صد حیف ہمارے درمیان سے چلا گیا۔

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

ابر رحمت تیری مرقد پر گہر باری کرے

حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

Menu