شان تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ
مفتی عبد الحلیم ناگپوری صاحب،شانتی نگر، نا گ پو ر
ولایت کا معیار تقویٰ:بر صغیر ہند وپاک میں اسلام کی سر بلندی اورا س کی ترویج واشاعت صوفیا ئے کرا م ہی کی مر ہو ن منت ہے۔جنہو ں نے علم وعمل ،رشد وہدایت کے انوا ر سے ایک جہا ں کو منور کیا اور ہزاروں گم گشتگان را ہ کو راہ را ست سے ہم کنار کیا ۔تشنگا ن علم ومعرفت کو اپنے علمی اور رو حا نی جا م سے شاد کیا ۔جن کی آفا قی تعلیما ت ،روحا نی اوراخلا قی عظمت نے جوق در جوق لوگو ں کو دامن اسلا م میں پنا ہ لینے پر مجبو ر کر دیا ،جن کی دینی ،علمی ،فکری ،روحانی اور اصلا حی خد ما ت کو آب زر سے لکھا جا ئے تب بھی ان کی شخصیت کا حق کما حقہ ادا نہ ہو پا ئے۔وہ ایسے پا کیز ہ خصلت انسان ہو تے ہیں جن کے قلوب و اذہا ن پر روز اول ہی سے ما حو ل وعوامل اثر انداز نہیں ہو تے ۔وہ ہر حا ل میں اپنی حیا ت کو ہر قسم کی آلو دگیوں اور نا شا ئستہ حر کتوں سے پا ک وصاف رکھتے ہیں ۔وہ سما ج میں اتنے ارفع واعلیٰ مقا م پر فا ئز ہو تے ہیں کہ معا شرے اور سو سا ئٹی میں کتنی ہی بد کا ریاں پھیل جا ئیں لیکن ان کا مقدس دامن ان آلو دگیوں سے داغدار نہیں ہو تا ۔ان کا ذہن ان بری با توں کو قبو ل نہیں کرتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غلط با توں سے وہ اپنے آپ کو اتنا دور رکھتے ہیں کہ دلائل وبرا ہین کے ذریعہ کو ئی ان کو کتنا ہی مطمئن کرنے کی کوشش کرے یا اپنی چرب زبا نی سے ان پر اثر ڈا لنا چا ہے تو اس کو اس میں محرومی کے سوا کچھ ہا تھ نہیںآتا ۔وہ ایسی با توں سے اجتنا ب فر ما تے ہیںجو نسل انسا نی میں نفرت وعداوت ،نفاق ودشمنی کا بیج بو تی ہیں ۔اور آپس میں منا فرت کی آگ بھڑ کا تی ہیں کیوں کہ وہ عوام الناس کی اصلاح کا فریضہ انجا م دینے میں فر حت وانبساط محسوس کرتے ہیں۔
ایسے ہی نیک طینت ،پا کیز ہ خصلت اور مقدس نفوس میں امام اہلسنت محب عرب وعجم ،پیر طریقت ،رہبر سنیت ،مجدد دین وملت ، پروانہ شمع رسالت حضرت علامہ ومولانا الشا ہ اما م احمد رضا خا ں بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سچے وارثو ں میں جانشین حضور مفتی ٔ اعظم ہند حضرت علامہ ومولانا اختر رضا خاں ازہری معروف بہ حضور تا ج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ستو دہ صفا ت بھی ہے۔
حضور تا ج الشریعہ حضرت علامہ ومو لانا مفتی اختر رضا خا ں قادری ازہری علیہ الرحمۃ سے ہما ری ملا قا ت اس وقت ہو ئی جب حضرت اسکول میں پڑھتے تھے ،جب بھی میں بریلی شریف ان کے گھر مفسر اعظم ہند استاذ محترم حضرت ابرا ہیم رضا خا ں صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے جا تا دروا زے پر دستک دیتا تو ازہری میاں تین سوال کرتے۔
۱۔کو ن ہو ؟ ۲۔کہا ں سے آئے ہو ؟ ۳۔کیوں آئے ہو ؟
جب ہم ان سوا لوں کے تشفی بخش جو اب دے دیتے تو دروازہ کھل جا تا اور ہم اپنی ضرورت کے مطا بق وہا ں رکتے اور استاذ گرا می حضرت مو لانا ابرا ہیم رضا خا ں صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ کی بر کتوں سے اپنے قلب کو منور ومجلّٰی کرنے کی سعی کرتے اور اجا زت طلب کر کے وا پس چلے آتے۔
حضور تا ج الشریعہ درس نظامی کی تعلیم کے لئے منظر اسلام تشریف لائے اور اللہ تعالی اورا س کے پیا رے حبیب ﷺ کے فضل وکرم سے اساتذہ سے پڑھے اور یہا ں تک کہ خو دمسند تدریس پر فا ئز ہو ئے۔
حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے بریلی شریف میں صرف دو اساتذہ سے پڑھا ۔
۱۔بحر العلوم حضرت مفتی افضل حسین مو نگیری علیہ الرحمۃ ۲۔حضور حا فظ جہا ں گیر صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ
پھر اس کے بعدآپ جا معہ از ہر مصر چلے گئے۔
دنیا نے دیکھا کہ آپ علیہ الرحمۃ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عکس جلیل تھے اور مفتی ٔا عظم ہند کے بالکل آئینہ تھے ۔حضور مفتیٔ اعظم ہند کا تقویٰ دنیا میں مشہو ر ہے یہا ں تک کہ اپنے ہی نہیں بلکہ غیر بھی آپ کے تقویٰ کے قا ئل تھے ۔عبد الرحیم را ئے پوری ،جو تبلیغی جما عت کا امیر تھا ،کہتا تھا :’’ایسا متقی میں نے دنیا میں کسی کو نہیں دیکھا ،انہو ں نے آج تک کسی غیر محرم کے ہا تھ کو بھی نہیں دیکھا ۔‘‘
حضور تا ج الشریعہ با لکل اپنے نا نا جا ن کے آ ئینہ تھے۔مفتی ٔا عظم ہند کے تقویٰ کو دیکھنا ہو تو حضوراز ہری میا ںکو دیکھ لو ۔مفتیٔ ا عظم ہند کی زندگی دیکھنی ہو تو انہیں دیکھ لو ۔حضور ازہری میاں کی زند گی دیکھنے کے بعد مفتیٔ اعظم ہند کی یا د تا زہ ہو جا تی ہے اور مفتی ٔا عظم ہند کا تقویٰ تو غیر نے بھی قبو ل کیا اور حضور از ہری میاں کے تقویٰ کی مثا ل اور ان کی زندگی کیسی تھی اس کا بخو بی اندازہ آپ حضرت کے تعلیمی دور کے ایک واقعہ سے لگا سکتے ہیں ۔حضورا زہری میاں اس وقت جوا ن اور عالم شباب میں تھے یہ اور مولانا شمیم از ہری دو نو ں ’’از ہر‘‘ میں ساتھ رہے ،ایک ساتھ تعلیم حا صل کی ۔مو لانا شمیم ازہری فر ما تے ہیں :’’مصر میں جشن جمہو ریہ منا یا جا رہا تھا اور وہا ں کا طریقہ یہ تھا کہ از ہر کے تمام طلبہ لا ئن میں کھڑے ہو تے تھے اور مصر کی حکو مت کا ایک نما ئندہ ان سے ہا تھ ملا تا تھا اور طلبہ اس کو مبا رک با د دیتے ۔تا ج الشریعہ بھی لائن میں تھے اور علا مہ شمیم از ہری بھی اورا س وقت جو ملک کا نما ئندہ بن کر آیا تھا وہ ایک خا تو ن تھی اور وہ لائن میں کھڑے تمام طلبہ سے یکے بعد دیگرے ہا تھ ملا رہی تھی ،جب وہ میرے (مو لانا شمیم از ہری کے) پا س پہنچی تو میں (مولانا شمیم ) حضرت کو ترچھی نگا ہو ں سے دیکھ رہا تھا اور پھر میں (مو لانا شمیم)نے اس خا تو ن سے ہا تھ ملا لیا اور اس کے بعد وہ تا ج الشریعہ کے قریب آئی تو حضور تا ج الشریعہ پیچھے ہٹ گئے اور ہا تھ نہیں ملا یا ۔‘‘
علامہ شمیم از ہری کا کہنا ہے :’’حضرت نے مجھ سے با ت کرنا بند کر دی ۔یہاں تک کہ سلام کا جو اب بھی نہیں دیتے اور ایسے ہی کئی دن گز ر گئے ۔میں گھبرا گیا کہ اما م اہلسنت کی یا دگار اور مجھ سے نا را ض رہیں۔لہٰذا میں حضرت کے قدمو ں میں گر گیا اور رو نے لگا تو حضرت نے اپنا دست شفقت میرے سر پر پھیرا اور کہا :’’شمیم ! میں تم سے اپنے نفس کے لئے نا را ض نہیں ہو ابلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خو شنو دی کے لئے نا را ض ہو اتھا کیوں کہ وہ خا تو ن جس سے تم نے ہا تھ ملا یا وہ تمہا ری محرم نہیں تھی بلکہ وہ تمہا رے لئے غیر محرم تھی اور تم نے اپنا ہا تھ اس کے ہا تھ میں دے دیا ؟‘‘
اس طرح انہو ں نے ازہری میاں کے سا منے تو بہ کی اور معافی ما نگی تو حضرت نے انہیں معا ف فر ما دیا۔آپ خیا ل کریں اس عمر میں جب جو انی کی عمر تھی اور شبا ب کا عالم تھا اور آپ طا لب علم تھے ۔عموماً طا لب علم کی زند گی ان با توں کا خیا ل نہیں رکھتی مگر اس وقت بھی آپ شریعت مطہرہ کے کیسے پا بند تھے۔اللہ اللہ۔ہم نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے آ ج دنیا ئے سنیت ان کا سوگ منا رہی ہے کو ئی جیتا ہے تو اپنے لئے اور اپنے خا ندان کے لئے جیتا ہے جب وہ مرتا ہے تو پو را خا ندا ن اس کاسو گ مناتا ہے ۔کو ئی جیتا ہے تو اپنے شہر وملک کے لئے اور جب وہ مرتا ہے تو سارا شہر وملک سوگوا ر ہو تا ہے۔مگر حضور از ہری میاں کا جینا تو اللہ و رسول ﷺ کے لئے تھا اور سنیت کو فروغ دینے کے لئے تھا ۔آج ان کی رحلت پر پو ری دنیا رو رہی ہے۔ایک عالم اپنے لئے نہیں جیتا بلکہ وہ اپنی زند گی قوم کے حو الہ کر دیتا ہے ۔ ایک عالم ربا نی پو ری قوم کے لئے جیتا ہے وہ مسلک وملت کے لئے جیتا ہے جیسا کہ کہا گیا ’’مو ت العالم مو ت العالم ‘‘یعنی ایک عالم کی موت ایک عالم یعنی جہا ن کی مو ت ہے۔اس لئے کہ ایک عالم اپنے لئے نہیں جیتا بلکہ ساری قوم کے لئے جیتا ہے ۔
ازہری میا ں علیہ الرحمۃ کی زند گی مذکو رہ با لاقول کی مصداق ہے کہ آپ کا جینا دین متین کی سر بلندی کے لئے تھا اسی وجہ سے ساری قوم کی آنکھیں آپ علیہ الرحمۃ کے وصا ل پر ملا ل پر اشک با ر تھیں۔تا ج الشریعہ اپنے لئے نہیں بلکہ قوم کے لئے ،مسلک کے لئے ، ملت کے لئے جی رہے تھے اسی وجہ سے ساری دنیا سوگو ار ہے۔اللہ تعا لیٰ ان کی قبر پر انوار وتجلیا ت اور رحمتو ں کا نزول فر ما ئے۔آمین ثم آمین یا رب العالمین بجا ہ النبی الامین ﷺ