حضورتاج الشریعہ ازہری میاں صاحب ﷦۔۔۔کچھ یادیں کچھ باتیں

مفتی محمد اسلم رضا میمن شیوانی تحسینی،مفتیٔ حنفیہ ،متحدہ عرب امارات


حضور تاج الشریعہ حضرت علّامہ مفتی محمد اختر رضا خان اَزہری ﷦عالَمِ اسلام کی عظیم علمی وروحانی،بلکہ ہمہ جہت عبقری شخصیت ہوئے۔ آپ کے چہرے کا نور دیکھنے والے کی آنکھوں کو خیرہ کرتا۔ آپ حسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حُسنِ سیرت واَخلاق کے بھی پیکر تھے۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ سے میرا رشتۂ اکتسابِ فیض اُس وقت شروع ہوا، جب میری عمر تقریباً ۱۵؍ برس تھی۔ جب بھی آپ کراچی تشریف لاتے اور مجھے علم ہوتا، میں ضرور آپ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کرتا۔ دَورانِ طالب علمی جب درجۂ رابعہ میں داخلہ کے سلسلے میں میرا ’’جامعہ اشرفیہ ،مبارکپور‘‘ جانا ہوا، چونکہ میں وہاں ماہِ شوّال کے ابتدائی دنوں میں پہنچ گیا تھا، اور ابھی تعلیمی سال کے آغاز میں دیر تھی، لہذا میں بریلی شریف حاضر ہوا، اور تقریباً گیارہ(۱۱)دن حضور تاج الشریعہ کے خاص مہمان خانہ میں ٹھہرنے کا شرف حاصل ہوا، جبکہ ضیافت کا اہتمام بھی حضور کے دَولت خانے سےکیا جاتا تھا۔
حضرت روزانہ صبح ناشتہ کے بعد’’بخاری شریف ‘‘سے درسِ حدیث دیا کرتے، اور اپنے’’حاشیہ بخاری شریف‘‘کے لیے اہم نوٹس بھی لکھواتے۔ مجھے بھی ان دُروس میں نہ صرف شرکت، بلکہ تلاوتِ حدیث کی سعادت بھی حاصل ہوا کرتی، جب کبھی مجھے پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی، تو دیگر احباب سے پوچھتے کہ ’’اسلم رضا کہاں ہے؟‘‘ یہ حضرت کی شفقتیں تھیں، جو آج بھی میرے لیے انتہائی حسین روحانی شُعور واحساس کا سبب ہیں۔
آپ نے سیّدی اعلیٰ حضرت ﷦ کی کئی عربی کتب ورسائل کا اردو اور عربی میں ترجمہ کیا ہے۔ آپ کی یہ عادت کریمہ تھی کہ دَورانِ سفر بھی سلسلۂ تحریر جاری رکھتے۔ 1429ھ2008/ء کے اوائل میں کراچی تشریف لانے سے قبل، مجھے حکم بھجوایا کہ: ’’اسلم رضا کراچی میں ہوں، تو اُن سے کہہ دو کہ تیار رہیں! کچھ لکھوانا ہے‘‘۔ جب آپ کراچی تشریف لاکر، پیر کالونی میں حافظ اسلم صاحب کےہاں قیام پذیر ہوئے، تو مجھے یاد فرمایا اور کہا: ’’اعلیٰ حضرت کے عربی رسالہ ’’أنوار المنّان في توحید القرآن‘‘ کا اردو ترجمہ کر رہا ہوں، جو ابھی کچھ باقی ہے، آپ روزانہ صبح آ جایا کریں، میں وہ لکھواتا رہوں گا‘‘۔ حسبِ ارشاد میں روزانہ ناشتہ کے وقت حاضر ہوتا ، حضور فی البدِیہ اِملاء کراتے اور میَں لکھتا جاتا، اس طرح چند نشستوں میں یہ کام مکمل ہوا۔ پھر حضرت نے اس کا مسودّہ میرے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’اسے کمپوز کروا لو!‘‘ میں نے 1427ھ2006/ءسے کراچی میں قائم اپنے ادارہ ’’ادارۂ اہلِ سنّت‘‘میں اسے کمپوز، پروف ریڈ اور نصوص کی تخاریج سے آراستہ کروا کر شائع کر دیا۔
ایک بار میں نے عرض کی کہ:’’حضور! آپ دیوبندیوں وغیرہ کے رد پر مشتمل، سرکار اعلی حضرت ﷦ کے کچھ اردو رسائل کا عربی ترجمہ کر چکے ہیں، اب اگر بالخصوص غیر مقلّد سلفیہ کے رَد میں سیّدی اعلیٰ حضرت کی کتاب’’قوارع القَهّارعلى المجسِّمةالفُجّار‘‘ کی تعریب کر دیں تو بہت اچھا ہو!‘‘ آپ نے کمال شفقت کے ساتھ اس گزارش کو قبول فرما کر، جلد ہی اس کام کی تکمیل فرما دی، پھر یہ کتاب دِمشق اور مصر سے چھپ کر عرب ممالک میں کئی گمراہوں کے لیے ہدایت کا سامان بنی، والحمدلله ربّ العالمین!
بعض احباب مجھ پر حضرت کی عنایتیں دیکھ کر کہتے کہ: ’’حضور یہ اسلم رضا تو آپ کا مرید بھی نہیں ہے؟!‘‘ تب آپ ارشاد فرماتے کہ :’’یہ صدر العلماء علّامہ تحسین رضا صاحب کے مرید ہیں، تب ایک ہی بات ہے، اُن کا مرید ہمارا مرید ہے!‘‘۔
1429ھ2008/ء میں کراچی میں قیام کے دوران ہماری دستار بندی بھی فرمائی، اور خلافت (اجازتِ سلسلہ) کا اعلان بھی فرمایا۔ اسی سال کے اَواخر میں جب مجھے ابوظبی اوقاف کے تحت شروع ہونے والے فتویٰ سینٹرکی طرف سے، بحیثیت حنفی مفتی (عربی، اردو کے لیے) پیشکش ہوئی، تب میں نے حضرت سے دعا کے لیے درخواست کی، آپ نےخوب دعاؤں سے نوازا۔ جب باقاعدہ طور پر میں ابوظبی منتقل ہوا، تو حضور جب بھی U.A.Eتشریف لاتے، مجھ فقیر کو ضرور یاد فرما کر حاضری کا حکم فرماتے، اس طرح میں آپ کی زیارت سے مشرّف ہوا کرتا۔
چند بار ابوظبی، عرب امارات میں ہمارے غریب خانے پر بھی قدم رنجا فرمایا، تب میں نے اپنےبیٹے مصطفیٰ رضا کی آپ سے تحنیک کروائی۔ الحمدللہ میرے پانچوں بچے حضور تاج الشریعہ کے مرید ہیں، اور ان سب کے لیے حضرت نے تحریری سند واجازتِ حدیث شریف بھی عنایت فرمائی ہے۔
2010ء میں جب حضرت ابو ظبی تشریف لائے، تو ابتداءً میرے ہاں تشریف فرما ہوئے، یہیں کچھ آرام کے بعد تازہ وضو کے ساتھ غالباً مغرب یا عشاء کی نماز ادا فرمائی، اس دَوران آپ کے کئی عقیدت مند، اور وہ عرب علماء جن سےحضرت کا سابقہ تعارف تھا، قرب وجوار سے آپ کی زیارت وصحبت کی غرض سے حاضر ہوئے تھے، ان سب کے ساتھ12-10گاڑیوں میں ایک جلوس کی شکل میں، یمن کے مشہور و معروف عالمِ دِین حبیب علی جُفری صاحب کی طرف روانہ ہوئے، جہاں انہوں نے حضرت سے خصوصی وقت لے کر، نہایت خوبصورت محفل سجا رکھی تھی۔ بڑے بڑے علماء، مشایخ اور اَحبابِ اہلِ سنّت کو یہ کہہ کر دعوت دے رکھی تھی، کہ آج ہمارے گھر ایک چاند کا ٹکڑا اُترنے والاہے۔
اس مجلس میں حضرت کا بڑے پرتپاک طریقے سے استقبال کیا گیا، حضرت کے تقویٰ وپرہیزگاری اور علمی وجاہت کا انتہائی لحاظ رکھتے ہوئے، اُن مسائل میں جن میں آپ ایک امتیازی ومحتاط موقف رکھتے تھے (جیسے وڈیو، تصویر کشی اور مروّجہ دف کی حرمت وغیرہ) اس بارے میں کمال اہتمام کا مظاہرہ کرتے ہوئے، میزبان نے علی الاعلان فرمایا کہ آج حضور کی آمد پر ہم ان سارے کاموں سے اجتناب کریں گے، تاکہ حضرت کو اِیذا نہ ہو، اور پھر وہاں اس اعلان پر خوب عمل بھی ہوا۔ قبلہ جُفری صاحب کے ہاں حضورتاج الشریعہ نے عربی میں نعت شریف پڑھی، اور نہ صرف عام لوگوں نے، بلکہ اوقاف ابوظبی کے زیرِ اہتمام فتویٰ سینٹرکے مفتیانِ کرام نے بھی، حضرت سے بعض شرعی مسائل میں رَہنمائی حاصل کی۔
اس مناسبت سے حبیب علی جفری صاحب نے، وہاں موجود علمائے کرام کے لیے حضرت سے اجازتِ حدیث کی درخواست کی، جسے آپ نے قبول فرماتے ہوئے تمام موجود علماء وطلّاب کو اجازتِ حدیث شریف عطا فرمائی۔
محفل کے اختتام پر حضرت نے تازہ وضو کرنا چاہا، تو میزبان انہیں اپنے خاص کمرہ میں لے گئے، اور جب آپ نے جرابیں اتاریں، تو حبیب علی جفری صاحب نے انہیں اُٹھا لیا، بعدِ فراغت جب حضرت باہر آکر تشریف فرما ہوئے، تو حبیب علی جفری صاحب آپ کے قدموں میں بیٹھ کر جرابیں پہنانے لگے، حضرت نے بہت منع کیا کہ آپ سیّد زادے اور عالمِ دِین ہیں، لیکن میزبان مُصِر رہے اور بالآخر حضرت کو اپنے ہاتھوں سے جرابیں پہنائیں۔ میزبان نے اپنے خاص معاملات کے لیے حضرت سے دعا کی درخواست کی، آپ نے انہیں خوب دعاؤں سے نوازا۔
اس کے بعد بھی حضرت وقتاً فوقتاًمتحدہ عرب امارات تشریف لاتے رہے، جہاں حضرت کی بارگاہ میں مجھ فقیر کی بارہا حاضری ہوتی رہی، اور آپ کی زیارت وصحبت کا شرف بھی ملتا رہا۔
اللہ کریم اہلِ سنّت میں ایسے علماء ومشایخ کی کثرت فرمائے! اور ہمیں ان سے فیضیاب فرمائے، آمین!۔

Menu