سرکار تا ج ا لشریعہ ۔۔۔۔کچھ با تیں کچھ یا دیں

نبیرۂ صدرالشریعہ علامہ ابو یوسف محمد قادری، طیبۃ العلما ء ،گھو سی، مئو ،یو پی


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جون پو ر کے علمی وادبی پر بہا ر وزر خیز زمین پر عند لیبا ن گلشن نبو یہ علیہ التحیۃ والثنا ء حا ضر با ش ہو تے اور اپنی تشنہ لبی دور کرتے، جا نے والوں میں ایک وہ بھی تھا جس کو دنیا اس وقت’’ امجد علی‘‘ کہتی تھی ۔مگر وہ مستقبل کا’’ فقیہ اعظم‘‘ تھا اس کی بلندی کا ستا رہ اوج ثریا کو چھو نے والا تھا، وہ حا کم اسلام کے عظیم منصب پر فا ئز ہو نے والاتھا، جوں ہی وہ بچہ علم وفن کے ما ہ تمام کی با رگا ہ عرش جاہ میں علوم شرعیہ کے نور سے ضیاء باریوں کی تحصیل کرنے زا نو ئے ادب تہ کرتا ہے توا س پر غزالی ٔ زمن حضرت علامہ ہدا یت اللہ صاحب رام پو ری قدس سرہ کی نگا ہ پڑتی ہے اور تھوڑی دیر کے لئے جبین نیر با ر پر ٹھہر جا تی ہے، وہ مرد قلندر تعمق نظری یا ضیا ئے قلبی سے دیکھ لیتا ہے کہ سعادت مندی ونیک بختی کا آفتا ب عالم تاب قوت با لقویٰ کے حجا ب میں تبسم ریز ہے اور طلوع پذیری کی ساعت کا منتظر ہے اس مرد حق آگا ہ نے علوم وفنو ن کے جوا ہر پا رے کے ترا ش وخرا ش میں اپنی ساری محنتیں لگا دیں، پھرا ن لمحا ت سعید کا نزول اجلال بھی ہو گیا جس کی علمی تا بنا کیوں نے ایک جہا ں کے قلوب واذہا ن کو نیر با ر بنا دیا جس کی خیرات کی نو را نیت اب تک چمک رہی ہے۔

وہ انفس و آ فاق کا تابند ہ ستا رہ
روشن ہے اسی سے میرے افکا ر کی دنیا

حضور صد الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن جہا ں علوم شرعیہ کا حصول فر ما تے وہیںاپنے با طن کو نو ر بخش بنا نے، علم وعر فا ن کے بحر بیکرا ں ، علوم طریقت وتصوف کے کو ہ گرا ں، حضرت سرکا ر آسی علیہ الرحمۃ کے میخا نۂ صدق وصفا میں رو زانہ بلانا غہ حا ضری دیتے ہیں اور شرا ب سلو ک کے چند قطرے حلق وجو د میں اتا ر کر عشق ومستی کے نشہ میں مدہو ش ہوتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہو ش وخرد کی دنیا میں پہنچنے کے اسبا ب وعلل کو مہیا کر نے میں لگے رہتے ہیں اور ایک روز منزل مقصو دپا لیتے ہیں۔ جو ہری جو ہر شنا س ہو تا ہے اور اس کی حفا ظت کیا کرتا ہے ،اس کو ضا ئع کسی حا ل میں نہیں ہو نے دیتا سر کا ر آسی علیہ الرحمۃ نے فرا ست مو منا نہ، نگا ہ عاشقا نہ اور نور عارفانہ سے صد ر الشریعہ کو پہچا ن لیاتھا کہ اس وجو دمسعود کے نہا ں خا نہ میں رب ذوالجلال نے طریقت وتصوف کے کیسے کیسے لؤلو ومر جا ن کو ودیعت کر رکھا ہے ۔بس حجا ب کثیف کو اٹھا نے کی ضرورت ہے، جہا ں تصوف اس نو ر سے نو ر با ر ہو جا ئے گا اور صبح قیا مت تک اپنی ضیا ء باریاں با نٹتا رہے گا۔ اتنا جا ننے کے بعد مخدوم کا خا دم پر اپنا سر ما یۂ حیا ت لٹا دینا اور حیا ت جا ودا نی کے لعل ویا قوت کو پا لینا کو ئی تعجب خیز امر نہیں۔ سر کا ر آ سی علیہ الرحمۃ نے ایساہی کیا اور حضرت صدر الشریعہ کو اپنی نگا ہ عرفا ن کا مرکز بنالیا۔سنتے تھے کہ پیا سا دریا کے پا س جاتا ہے لیکن کبھی نہ سنا ،نہ دیکھا کہ دریا پیا سے کے پا س جا ئے، اس کے لئے بے قرار ہو، اس پر سب کچھ لٹا نے کو چا ہے۔ مگر یہاں دیکھا کہ خود دریا پیا سے پر برس رہا ہے یہی وجہ ہے کہ سرکا ر آسی ’’مخلص‘‘ کے لفظ سے صدرا لشریعہ کو خطا ب فر ماتے ۔حسن اتفاق کہہ لیا جا ئے کہ کثرت مطا لعہ و مجا ہدہ کے با عث صدر الشریعہ چا ر روز تک چشمۂ عرفا ن کا طوا ف نہ کر سکے پانچویں دن جب حا ضری ہو ئی، تو سر کا ر آسی نے سوال کیا کہ:’’ اے مخلص اتنے دن کہا ں تھے ؟ ‘‘عرض کیا حضور کتب بینی میں کچھ زیا دہ ہی مصروف تھا جس کے باعث خدمت عالیہ میں حا ضری نہ دے سکاسرکا رآسی ارشا د فر ماتے ہیں ’’مخلص ‘‘ با ب افعال سے ہے اور اس کی ایک خاصیت سلب ما خذ بھی ہے ۔صدر الشریعہ فر ما تے ہیں سر کا ر آسی علیہ الرحمۃ اکثر محقق علی الاطلاق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوا ن کے فتاویٰ کو بغور مطا لعہ فر ما تے اور ارشاد فر ما تے تزکیۂ قلب کے لئے یہا ں آؤ، اس جگہ زنگ آلو د قلوب کی تطہیر ہو تی ہے، اسے صیقل کر کے منور ومجلّٰیٰ بنا دیا جا تا ہے مگر مسائل شرعیہ کی عقدہ کشا ئی کے لئے مولانا احمد رضا صاحب کے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹاؤ ، لاینحل مسائل کا حل وہیں ہو تا ہے کیوں کہ انہیں دین کی صحیح سمجھ ملی ہے۔

وادی رضا کی کو ہ ہما لہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے

صدر الشریعہ فر ما تے ہیں کہ اتنا سنناتھا کہ میرے نہا ں خا نہ قلب وجگر میں اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا خا ں علیہ الرحمۃ والرضوا ن کی محبت کا نو ر جگمگا نے لگا، ان کی عبقریت کے زلف گرہ گیر کا اسیرہو تا چلا گیا مگر شرف لقاء سے فیضیا ب نہ ہو سکا ۔’’کل امر مھو ن بأوقاتہ‘‘ کے تحت منتظر کرم ہی رہا ۔یہ ان دنو ں کی با ت ہے جب پٹنہ میں میں درس وتد ریس کی خدما ت کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے لئے مطب بھی چلا یا کرتا تھا، کہ کعبہ قلب ونظر کا ورود مسعود پٹنہ کی سرزمین پر ہوا مولانا عبد الوحید صاحب نے آکر یہ مژدہ جا ودا نی سنا یا کہ بریلی شریف سے مو لانا احمد رضا قدس سرہٗ کی طلعت با ریا ں ہو ئی ہیں چلئے آپ کو بیعت وارادت کے دل آویز سلسلہ میں جڑوا دوں۔ ان مسرت آمیز کلما ت نے میری سما عت میں فر حت وانبساط کارس گھو ل دیا، جس سے اندرون قلب وجگر میں خو شیوں کی لہر دوڑ گئی، تمنا ؤں کے بر آنے کی امیدیں جا گ اٹھیں ،آرزوؤں کے چمن میں شادابیوں کا اجا لاآگیا ،پھر کیاتھا ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہو ئے کعبۂ قلب ونظر کی طرف چل پڑا ۔تصورا ت کی ایک حسین وجمیل دنیا تھی جس میں گم تھا ،اتنے میں منزل مقصود پر پہنچ جا نے کی آواز سما عت سے ٹکرا تی ہے اور بیدا ری کا پیغا م مسرت سنا تی ہے ، قر بت کی برکت کا حصول ہوا، سلام و مصا فحہ سے فراغت ملی اورا سی جگہ با زارقادریت میں دست حق پرست پر بک گیا،اور ہمیشہ کے لئے اعلیٰ حضرت کا غلام بے دام بن گیا اور تا دم حیا ت گنگنا تے رہے ؎

جب تک بکا نہ تھاتو کو ئی پو چھتا نہ تھا
تم نے خرید کر مجھے انمو ل کر دیا

فر ما ن رسول ﷺ ’’من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ ‘‘کے تحت مو لانا عبد الوحید صا حب کے متعلق صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ لب کشا ئی ان کلما ت جلیلہ کے ذریعہ فر ما تے کہ:’’ ان کا مجھ پر بڑا احسا ن اور کرم ہے کہ انہوں نے میری ملا قات بحر العلم والادب نجم العشق والعرفان محقق علی الاطلاق سیدی وسندی سر کا ر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رضی اللہ عنہ سے کروادی‘‘۔حضور صدر الشریعہ کے عشق وجنون کی صداقت کا یہ اثر تھا ،وارفتگی وشیفتگی کی یہ کیفیت ہی تو تھی، جس نے رب کی با رگا ہ میں سند قبو لیت حا صل کر لیا اور ہمیشہ کے لئے صحبت کی بر کا ت کی نو را نیت سے نوربار ہو تے رہے ۔حضور صد الشریعہ نے اپنے مطلو ب ومقصوداور محبوب شیخ پر اپنا سب کچھ وار دیا اور بارگا ہ شیخ میں مقبو ل بھی ہو گیا ۔جب صدر الشریعہ کی حیا ت پر بہا ر کا مطا لعہ کیا جا تا ہے تو امیر خسرو علیہ الرحمۃ کی یا دوں کے ما ہ ونجوم مسکرا نے لگتے ہیں ۔ معین الملۃ والدین حضرت خو اجہ اجمیری رضی اللہ عنہ کا زمانہ تصورات کے با م ودر کو مشکبا ر ومعطر کر جا تا ہے، صدر الشریعہ کو امام عشق ومحبت سرکا ر اعلیٰ حضرت سے جوعقیدت و لگا ؤ اور عشق ومحبت تھی وہ صبح روشن کی طرح عیاں ہے بس یو ں سمجھیں جیسے پروا نے شمع پر قر با ن ہو جا تے ہیں، صدر الشریعہ بھی قر با ن ہو چکے تھے ۔پروانے جب شمع پر نثا ر ہوتے ہیں تو اسکی لذت وچاشنی بھی وہی محسوس کر تا ہے دیکھا ہو گا کہ شمع اس کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے اور اپنے رنگ میں اتنا رنگ دیتا ہے کہ پروا نے کا وجود عنقا ہو جا تا ہے اب پروا نے کے اندر وہی کیفیت ہو تی ہے وہی رنگ ہو تا ہے جب ایک مرید کی یہ کیفیت ہو جا تی ہے تو صوفیا ء اس کو فنا وبقا سے تعبیر کرتے ہیں۔یہی حا لت کچھ صدر الشریعہ کی تھی امام اہلسنت نے اتنا نوا زا اتنی عطا کی برسات کی کہ اپنا رنگ چڑھا دیا ۔
اعلیٰ حضرت نے اپنے مرید صادق کو صدرا لشریعہ کا خطا ب عطا فر ما کر اہل دنیا کو جتا دیا کہ میرے بعد جو کچھ ہیں وہ صدرالشریعہ ہیں۔ اپنا وکیل با لبیعت بھی بنا دیا سرکا ر مفتیٔ اعظم رضی ا للہ عنہ فر ما تے ہیں کہ :’’جب تک صدر الشریعہ بریلی شریف تشریف نہیںلائے تھے، ہم دو بھا ئی تھے ان کی آمد کے بعد ہم تین بھائی ہو گئے ۔‘‘مزید ارشا دفرما تے ہیں:’’ صدر الشریعہ نے بریلی ہی کواپنا گھر سمجھا اور اپنی خا نقا ہ بھی بریلی ہی کو جا نا ۔اعلیٰ حضرت کے احب الخلفا ءسے جانے جا تے رہے ۔‘‘محقق علی الاطلا ق اعلیٰ حضرت سے صدر الشریعہ کی محبت وعقیدت کا انداز ہ اس سے بھی لگا یا جا سکتا ہے آپ نے اپنی اولاد کو اپنا مرید نہیں بنا یابلکہ دامن اعلیٰ حضرت ومفتیٔ اعظم رضی اللہ عنہمامیں ڈا ل دیا اور سب کو با رگا ہ رضا کا غلام بے دام بنا دیا ۔خلفا ئے اعلیٰ حضرت میں صدر الشریعہ منفر دو تنہا ہیںجنہیں یہ خصو صیت حا صل ہے کہ نسلاً بعد نسل سب کے سب اسی دربا ر عالی کے غلام وعا شق ہیں اور کیوں نہ ایساہو عشق وعرفا ن کا سلطا ن ،علم وعمل کا آسما ن ،شریعت وطریقت کا برہا ن،حق وبا طل کا فر قان، عقا ئد وایما ن کا در با ن ،عرب وعجم کا ارما ن سیدی وسندی سرکا ر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فا ضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان جسے اپنا کہیں ؎

میرا امجد مجد کا پکا
اس سے بہت کچیا تے یہ ہیں

حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوا ن نے جو فکر وشعور عطا کیا تھا عشق ومحبت اور عقیدت وانسیت کی جو دیپ جلائی تھی ،وارفتگی وشیفتگی کا جو گلشن سجا یا تھا، اس کا اثر اب تک با قی ہے اور ان شاء اللہ صبح قیا مت تک باقی رہے گا ۔صدر الشریعہ کے بعد والد نا المکرم مخدومنا المعظم جانشین حضورصدر الشریعہ ممتا زالفقہا ء محدث کبیر سیدنا حضرت علا مہ ومو لانا ضیا ء المصطفیٰ قادری امجدی مدظلہٗ نے صدر الشریعہ کی اتبا ع کرتے ہو ئے اس سلسلہ عقیدت ومحبت کو برقرار رکھا ۔حضور مفتیٔ اعظم ہند جب تک بقید حیا ت رہے اپنی اولاد کو ان کی غلا می کا اسیر بنایا ۔جب متقیٔ زمانہ ،عارف باللہ حضرت مفتیٔ اعظم ہند رضی اللہ عنہ حیا ت ظاہری سے پردہ فر ما گئے تو ان کے جانشین برحق ،وارث علوم اعلیٰ حضرت سرکا ر تا ج الشریعہ رضی اللہ عنہ کی آغوش ارادت میں ڈا ل دیا اور سب کو ا ن کی ارادت کا زلف گرہ گیر کا اسیر بنا دیا۔ کسی ایک کو بھی اپنی بیعت وارادت میں نہ لیا یہاں تک کہ میرے تینو ں بچے قطب الارشاد حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی ارادت وغلامی میں ہیں۔

مولوی ہر گز نہ شد مو لائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد

امام اہل سنت امام احمد رضا فا ضل بریلوی رضی اللہ عنہ سے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ کی جو والہا نہ ،عا شقا نہ اور عارفا نہ عقیدت ومحبت تھی وہ جگ ظا ہر ہے۔ اس انمو ل اور لازوا ل رشتہ الفت ومحبت اور وابستگی ووارفتگی کو جا نشین صدر الشریعہ محدث کبیر مد ظلہ العالی نے کتنے احسن و اجمل وانو کھے اور نرا لے انداز میں بحسن وخو بی آگے بڑھا یا ،وہ آپ ہی کا حصہ ہے ۔حضور مفتیٔ اعظم ہند کے بعدحضور تاج الشریعہ تک ان کے بعد جا نشین سرکارتاج الشریعہ حضرت علامہ ومولانا عسجد رضا خا ں صاحب ’’میاں حضور‘‘ مد ظلہ العالی والنو را نی سے والہا نہ عقیدت ومحبت ہے ۔ لفظو ں میں اس کی تعبیر ممکن نہیں ۔اتنا جا ن لیں کہ ان سے عقیدت ومحبت ہی آپ کا متا ع لازوال ہے ۔سر کا ر تا ج الشریعہ کی قدرو منزلت حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی کی نگا ہو ں میں کیا ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتبا سات سے بحسن وخو بی ہو جا ئے گا جس کا تذکرہ جمیل آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔
سوال:۔تا ج الشریعہ کی عالمی سطح پرمذہبی حیثیت کیا تھی ؟
جواب:میرا ماننا یہ ہے کہ پو ری دنیا میں جہا ں جہا ں سنی صحیح العقیدہ مسلما ن ہیں وہ تا ج الشریعہ کو اپنارہنما اور پیشوا مانتے ہیں۔ فی زما ننا جتنے جانشینان اسلا ف واکا بر ہیں ،ان سب میں تا ج الشریعہ متعدد جہتوں سے فا ئق وبر تر ہیں۔ آج بھی سنی دنیا میں ان کا فتویٰ ،ا ن کا بیا ن اور ان کا فیصلہ اہم سمجھا جا تا ہے۔فتنوں کے اس دور میں جس قدر حز م واحتیا ط اور تصلب دینی تا ج الشریعہ کے اندر آپ پا ئیں گے وہ کہیں اور نہیںملے گا ۔ مزید فر ماتے ہیں :اس وقت بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت ،حجۃ الاسلام اور مفتیٔ اعظم رضی اللہ عنہم کا کو ئی سچا علمی اور عملی جا نشین ہے تو وہ تا ج الشریعہ ہیں ۔تنہا میرا جھکا ؤ تا ج الشریعہ کی طرف نہیں ہے بلکہ زمانہ ان کے قدمو ں میں ہے ۔وہ خا نوا دہ رضویہ کی جا ن اور سنیوں کی شان ہیں ۔

اہل حق کی شان ہیں اختر رضا
سنیوں کی جا ن ہیں اختر رضا

وارث علوم اعلیٰ حضرت ،قاضی القضا ۃ فی الہند ،غسا ل کعبہ ،شیخ اکبر ،قطب الارشاد سرکا ر تا ج الشریعہ نے اس نا چیز پر نو ازشا ت وکرم نواز یوں کی جو گل ا فشانیا ں کی ہیں تا دم حیا ت فر مو اش نہیں کر سکتا ۔

سحر یا د ہو تم خیال شام ہو تم
جو بن گیا جز ء لب وہ نام ہو تم

مجھے وہ پر بہار ودل کش ،پر کیف ونو ر با ر اور روح پرور دل آویز زمانہ یا د آتا ہے ۹۰ کی دہا ئی تھی ۔مو سم بڑا سہا نا تھا، فر حت وانبساط کے فوارے پھو ٹ رہے تھے، نشا ط وطرب کا ماحو ل تھا، ا س کی وجہ یہ تھی کہ حسن وجمال کا با دشاہ ،سیرت وکردار کا شہنشاہ ،علم وفن کا کو ہ گرا ں ، شعروسخن کا بحربیکرا ں ،زہد وتقویٰ کا نیر تا باں ،بیعت وارادت کا اختر یعنی سر کا ر تاج الشریعہ رضی اللہ عنہ وجو د مسعود کا آفتا ب عالم تا ب مدینۃ العلما ء گھو سی کی علمی اودبی سرزمین پر طلوع پذیر تھا اور اپنی جلو ہ خیزیوں سے فضا ؤں کو عروس بہا ر بنا رہا تھا۔ جب وہ آفتا ب کما ل اور ماہتا ب بے مثل وبے مثا ل ہما رے غریب خا نہ پر جلوہ با ر ہوا اور اپنے جما ل دل آرا ء سے مکا ن کو پر نو ر بنا دیا تو بندہ اور میری ہم شیرا ئیں سب کے سب اس مرد قلندر کے دست حق پر ست پر مر ید ہو گئے ۔اس نا چیز نے اپنا ہا تھ حضور تاج الشریعہ کے مقدس وبا برکا ت ہا تھوں میں دے کر آپ کی غلا می کا قلا دہ اپنی گر دن میں ڈال لیا اور ان کے فیوض وبر کا ت سمیٹ کر اپنے دامن حیا ت کو مرغ زار ولالہ زار بنا لیا ۔
۲۰۰۶ء میں پہلا اتفاق تھا کہ پدر بزرگوا ر حضور محدث کبیر مد ظلہ العالی کے ساتھ شرعی کو نسل آف انڈیا بریلی شریف کے زیر اہتمام فقہی سیمینار میں شرکت کی غرض سے بریلی شریف حا ضر ہو نے کا شرف ملا ۔امام عشق ومحبت کے مزار پر انوا ر پر عاشقا نہ ووالہانہ حاضری نصیب ہو ئی، وہا ں سے چلا تو مخدومنا المکرم سیدی و سندی ،ملجا ئی وما وا ئی سرکا ر حضور تا ج الشریعہ کی با رگا ہ عرش جا ہ میں شرف یا بی ہو ئی ۔دست وقدم بو سی کی نو را نیت سے حیا ت مستعار کو درخشندگی ملی، جب دیدار پر انوار سے فا رغ ہوا تو اپنے مستقر’’ ازہری گیسٹ ہا ؤس ‘‘چلا آیا ۔شام کے وقت میرے قیام گا ہ پر حضور تا ج الشریعہ کے خا دم کی تشریف آوری ہو ئی انہوں نے پیغا م مسرت وشا دما نی سنایا کہ سرکا ر آپ کو یا دفر ما رہے ہیں ۔ اس غلام بے دام کی تو قسمت ہی جا گ اٹھی کہ مخدوم با وقا ر کا حکم آیا ہے ،ادب کے سانچے میں ڈھل کر آنکھو ں کے بل چلتےہو ئے با رگا ہ مرشد میں حا ضر ہوا سلام و مصافحہ اور دست بو سی وقدم بو سی کے فرا ئض سے سبک دوش ہوا ۔
سرکار تا ج الشریعہ اپنے اندر والے حجرۂ مبا رکہ میں ماہر ہفت لسا ن حضرت علامہ ومو لانا مفتی عاشق الرحمٰن مد ظلہ العالی سے محو کلام تھے ۔ سرا ج الصوفیا ء ،منیر الاتقیا ء حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ نے بیٹھنے کا حکم صادر فرمایا اس کے بعد علامہ عاشق الرحمٰن صاحب قبلہ سے نا چیز کا تعارف کروایا مخدومنا المکرم نے عربی زبا ن میں چند سوالات کئے جو ابات پر بے انتہا خو شی کا اظہا ر فر ما یا اور بہت ساری دعا ؤں سے بہرہ مند فر ما یا ۔

دیکھی ہے جس نے ایک جھلک حسن یا ر کی
وہ پھر رہا ہے تا ر گریباں لئے ہو ئے

۲۰۰۹ ء میں جب جا معہ ازہر سے فرا غت کے بعد لو ٹا تو والد گرامی وقار محدث کبیر مدظلہ العالی با رگا ہ حضور تا ج الشریعہ میں عر ض گزار ہو ئے کہ حضور۲۴؍ اکتو بر کو ابو یوسف کی شادی خا نہ آبا دی ہے میری تمنا ئے قلبی یہ ہے کہ حضور ہی نکا ح پڑھائیں، تو قطب الارشا د حضور تا ج الشریعہ فر ما نے لگے ابو یو سف کی شا دی ہے تب تو مجھے آنا ہی ہو گا۔ تب محدث کبیر دام ظلہ النو را نی نے عر ض کیا حضور ۲۲؍ اکتو بر کو عرس امجدی بھی ہے نگا ہ التفا ت فر ما کر تقریبا ت میں شرکت کی برکت سے فیض یا ب فر ما دیں تو چا ر چا ند لگ جا ئے۔ حضور تا ج الشریعہ نے دعوت قبو ل فر ما لی۔ جب وقت قریب آیا تو اپنے وقت کا قطب ،عالم اسلام کا مقتدیٰ حضور تا ج الشریعہ اپنی پو ری شان و شوکت اور آن با ن کے ساتھ طلعت بار ہو ئے۔ اس ملیح دل آرا ء کے حسن وجما ل کی نورا نیت نے تقریبا ت میں ضیا ء با ریاں عطا فر ما دیں۔یہ سب شیخنا المکرم اور مخدومنا المعظم کی کرم نوا زیا ں تھیں ۔

معطر ہے اسی کوچے سے ابـ تک اپنا صحرا بھی
کہاں کھو لے ہیں گیسو یا ر نے خو شبو کہاں تک ہے

۲۰۱۲ء میں فقہی سیمینار میںشرکت کی غرض سے بریلی شریف کی مقدس زمین پر حا ضری ہو ئی تو آبرو ئے اہل سنت ،مسیحا ئے امت ، ترجما ن مسلک اعلیٰ حضرت سرکا ر تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ نےخا ص نظر فر ما تے ہو ئے مجھ نا چیز کا ہا تھ اپنے مقدس وپر نو ر دست غو ثیت میں لے کر سلسلہ عالیہ قا دریہ برکاتیہ رضویہ مصطفویہ کی خلا فت واجا زت سے بہرہ مند فر ما یا اور ڈھیر ساری دعا ؤں سے میرے خا لی دامن کو پر فر ما یا ۔
حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی اتنی کرم نوا زیا ں جس کو رقم کر نے کے لئے ایک دفتر درکا ر ہے ۔علم وفن کا وہ تا جدا ر،اہل حق کا علمبردار ، شریعت کا نگہبان ،طریقت کا پاسبا ن،احقاق حق وابطا ل با طل کا نیر اعظم ،زہد وتقویٰ سیرت وکردار کا اختر اکرم ،تصنیف وتا لیف کا جو ہر، شعرو سخن کا گو ہر،اور کرم نوا زیوں کا بحر بیکرا ں ۷؍ ذی القعدہ ۱۴۳۹؁ھ مطا بق ۲۰ ؍ جو لائی ۲۰۱۸ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔

ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر با ری کرے
حشر تک شان کریمی نا زبرداری کرے

Menu