جن سے روشن تھے نگاہوں کے قصور

مفتی محمد مسیح الدین حشمتی ،الجا معۃ الغو ثیہ ،بلرامپور ،انڈیا


بسمہٖ تعالیٰ وتقدس

یہ آج دہر میں کس کی وفا ت کا غم ہے:حسب معمو ل بعد نما زمغرب اصح الکتب بعد کتا ب اللہ بخا ری شریف کے مطا لعہ میں مصروف تھا ، تعلیقا ت زاہرہ سے بھی استفادہ ہو رہا تھا کہ ایک صاحب دوڑے ہو ئے آئے۔ان کی آنکھیں پر نم تھیں ،چہرہ اداس تھا ،رندھی ہو ئی آوا ز میں کہنے لگے کہ حضور تا ج الشریعہ اب اس ظا ہری دنیا میں نہیں رہے ،یہ جانکا ہ خبر سنتے ہی بدن میں رعشہ طا ری ہو گیا ،قوت گو یا ئی کچھ دیر کے لئے جوا ب دے گئی ،بس وہ منور چہرہ جس سے نگا ہوں کے قصور جلا پا تے تھے ،جس سے جہا ن سنیت رو شن وتا بند ہ تھا ،سامنے تھا ،آنکھو ں نے اشکوں کا سو غات پیش کیا ،تعلیقات زاہرہ بند کی ،کلمہ استر جا ع پڑھا ،الجا معۃ الغو ثیہ کے صحن میں بیٹھے اساتذہ کو خبر دی ،چند ہی لمحو ں میں جا معہ کے طلا طم میں سکو ت چھا گیا ،مو ت العالم مو ت العالم کا حقیقی معنی ومفہوم نگاہو ں کے سامنے تھا ،طلبہ واسا تذہ سب کی آنکھیں اشکبا ر تھیں ،چہروں پر گہرے رنج والم کے آثار صا ف دکھائی دے رہے تھے اور مرشد اجاز ت کے سانحہ ارتحا ل سے دلو ں میں جو درد وکرب اٹھ رہاتھا وہ حیطہ تحریر وضبط تعبیر سے با ہر ہے۔

یہ آج دہر میں کس کی وفا ت کا غم ہے
فسردہ چہرے ہیں چشم حیا ت پر نم ہے

صدا ئے بلبل رنگیں میں سوز ما تم ہے
ہے گل بھی چا ک بدا ماں صبا بھی بر ہم ہے

یہ آج کو ن اٹھا خا کدا ن گیتی سے
کہ جس طرف بھی نظر جا ئے ہو کا عالم ہے

یہ زند ہ تھے تو دھڑکتی تھی نبض دور زماں
وفا ت پا ئی تو مو ت ان کی مو ت عالم ہے

خلا ء کا پر ہو نا مستقبل قریب میں متوقع نہیں:

دنیا میں آنے جا نے کا سلسلہ بڑا ہی قدیم سلسلہ ہے ،ہر دن ہزا روں جا تے ہیں اور لاکھو ں آتے ہیں ،نہ سب کا آنا بڑی اہمیتوں کا حا مل ہو تا ہے اور نہ سب کا جا نا عظیم صدمے کا با عث ہو تا ہے ،مگر انہیں آنے جا نے والوں میںکچھ ہستیاں ایسی بھی ہو تی ہیںجن کے آنے پر ایک عالم فر حا ں وشاداں ہو جا تا ہے اور جا نے پر بے شما ر آنکھیں اشکبا ر ہو جا تی ہیں ،اور ایسی با برکت ہستیا ں روز نہیں کبھی کبھی پیدا ہو تی ہیں ،وارث علوم اعلیٰ حضرت ،کنز الکرا مت ،جبل الاستقا مت ،غو اص بحر معرفت ،حا وی علوم قدیمہ وجدیدہ ، ما ہر فصا حت وبلا غت ،مرشد منہا ج طریقت ،خضر شوارع شریعت ،مجمع البحرین حضور تا ج الشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری علیہ الرحمۃ والرضو ان کی با برکت ذات ایسی ہی نا در الوجو د ذات تھی کہ جس کے وجو د مسعود سے سارا عالم سنیت فر حا ں وشاداں تھا ،وہ بہجت زمن اور برکت زماں تھے ،ان کے جا نے سے اہلسنت وجما عت میں جو عظیم خلا ء رونما ہو اہے اس کا پر ہو نا مستقبل قریب میں متوقع نہیں۔

جن کی عظمت کے نشا ں ہیں چا رسُو:

وارث علوم اعلیٰ حضرت ،جانشین حضور مفتی ٔ اعظم ہند ،حضور تا ج الشریعہ بدرا لطریقہ علیہ الرحمۃ کی ذات کسی کے تعا ر ف کی محتا ج نہیں،آ پ کی ذات پو ری دنیا میں یکساں مقبول تھی ،جیسے ہند وسندھ میں بستی بستی قریہ قریہ تا ج الشریعہ تا ج الشریعہ کی گو نج تھی ایسے یو رپ و افریقہ بلکہ عر ب وعجم کے تقریبا ً ہر خطہ اور ہر علاقہ میں آپ کی عبقریت کی دھوم مچی ہو ئی تھی کیوں کہ مقبو لیت ومحبو بیت کے مشہور اسبا ب آپ میں بد رجہ اتم مو جو د تھے ،اللہ جل مجدہ الکریم نے جہاں خا ندا نی وجا ہت عطا فر ما ئی تھی وہیں حسن وجما ل کا ایسا حسیں پیکر بنایا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی تھیں ،پھر علمی اور روحا نی شرافت وکرا مت ان سب پر مستزا د تھی۔
شیخ الانس والجن ،غو ث الثقلین ،سید الاولیا ء سیدنا الشیخ محی الدین عبدالقادر جیلا نی رضی اللہ عنہ کا فیضا ن سلسلہ چشتیہ ،اشرفیہ ،رضویہ ، بر کا تیہ ، سہروردیہ ،نقشبندیہ ،اور رفا عیہ وغیرہ جملہ سلاسل حقہ پر ساون بھا دوں کی طرح برس رہا ہے ،سب کی روحا نی کھیتیاں اسی ابرکرم سے سرسبز و شاداب ہیں ،سرکا ر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فرما تے ہیں :

مزرع چشت وبخا را وعراق واجمیر
کو ن سی کشت پہ برسا نہیں جھا لاتیرا

با رگا ہ غو ث سے جس کو صدقہ حا صل ہو جا ئے وہ تمام سلاسل کے عشا ق کی نظروں میں محبوب ہو جا تا ہے ،یہ با رگا ہ غو ث کا ہی صدقہ تھا کہ حضور تا ج الشریعہ کی نما زجنا زہ میں چشتی ،اشرفی ،رضوی ،برکاتی ،سہروردی ،نقشبند ی اور رفاعی وغیرہ جملہ سلاسل حقہ کے منتسبین ومریدین کا سیلا ب امنڈ آیا،اورا س کثرت سے عوام اہلسنت کی شرکت ہو ئی کہ زمانہ ورطہ حیرت میں ہے ،بلا شبہ حضور تا ج الشریعہ کی با برکت ذات با رگا ہ غوث میں مقبو ل ومحبوب تھی ۔آپ نے نما زجنا زہ میں سب کو بلا کر قادری فیضا ن سے ما لاما ل فر ما یا ،آپ کی با برکت ذات میں اس شعر کے جلو ے صاف نظر آئے۔

مزرع چشت وبخا را وعراق واجمیر
کو ن سی کشت پہ بر سا نہیں جھا لاتیرا

آپ کی وفا ت مو ت العالم مو ت العالم کی سچی مصداق بھی تھی ،موت العالم مو ت العالم کا قول زبا ن زد ہے ،عالم وطنی اعتبا ر سے کہیں کا ہو ، مگر رشد وہدا یت اور تبلیغ اسلا م کے اعتبا ر سے وطن کی خصوصیت حا ئل نہیں رہتی بلکہ حسب حیثیت ایک عالم اس سے مستفیض ومستنیر ہو تا ہے ، اور اس کی وفا ت پر درک وادرا ک کے اعتبا ر سے عالم کی مو ت کہا جا تا ہے مگر ظا ہری نگا ہو ں سے اس کا مشا ہدہ صد یو ں میں ہو اکرتا ہے ، جیسے دریاکوکو زے میں بھرنے کی کہا وت بڑی مشہو ر ومعروف ہے،صدیو ں پہلے نگا ہو ں نے اس کا مشا ہدہ اجمیر معلی میں کیا تھا ،اسی طرح حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی نما زجناز ہ میں ان ظا ہری نگا ہو ں نے مو ت العالم مو ت العالم کا منظر دیکھا ۔

ایساکہا ں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے:

محبو بیت ومقبو لیت کے اسبا ب میں آخر الذکر سبب علمی تبحر نے آپ کو ایسی منزل پر فا ئز کر دیا تھا جہا ں بڑے بڑے قد والے بو نے نظر آتے تھے ،جس مسئلہ پر قلم اٹھا یا تو حق تحقیق ادا کر دی ،درجنوں کتا بیں اور ہزاروں فتا ویٰ تحریر فر ما ئے مگر تا حیات قلم احتیا ط کا دامن تھا مے رہا ،کبھی بز رگو ں کے خلا ف نہ گیا ،بلکہ جن کے قلم نے اس را ستے میں ٹھوکریں کھا ئیں ان کو مضبو ط ترین دلائل کی رو شنی میں متنبہ کیا ،چا ہے چلتی ٹرین پر فرا ئض وواجبا ت اور ملحق بو اجبا ت کے ادا ئیگی کا مسئلہ ہو ،یا پھر مکبر الصوت (لاؤڈ اسپیکر) کی اقتدا ء کا مسئلہ ہو ،یا ٹی وی اور مووی کے جو از کا مسئلہ ہو ،یا احسا ن الٰہی ظہیر کی کتاب البریلویہ کا رد بلیغ ہو یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد گرامی کے اسم پر تحقیقی کام ان سب میں آپ کے قلم نے جس قوتِ استدلال کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل دید ہے بلکہ اس میں تحقیق رازی اور غزالی کا حقیقی پرتو نظر آتا ہے امام بصیری علیہ الرحمہ کے مشہور زمانہ قصیدہ بردہ شریف کی شرح کرتے ہوئے جب آپ رطب اللسان ہوتے تھے تو ایسا لگتا تھا امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کی ہر فن مولاشخصیت کا عکس جمیل ہمارے درمیان موجود ہے اشعار کی لغوی، اعرابی اور بلاغی تشریح کے ساتھ جو معانی اور مفاہیم آپ نے بیان فرمائے ہیں وہ آپ کی تبحر علمی کے ساتھ خداداد قوت حافظہ پر بدرجہ اتم دال ہے اور ان سب کے ساتھ بوقت ضرورت جو تعاقب ماقبل کے شارحین کا آپ نے فرمایا ہے وہ اہل علم کو دعوت نظارہ اور دعوت مطالعہ پیش کر رہے ہیں ضیافت طبع کے لیے ایک تعاقب بطور مثال نقل کیا جا رہا ہے قصیدہ بردہ شریف کا مشہور شعر ہے ؎

منزہ عن شریک فی محاسنہ
فجو ھرالحسن فیہ غیر منقسم

علامہ باجوری اور علامہ خرپوتی رحمہما اللہ نے مشہور شعر کی شرح کرتے ہوئے ایک اعتراض نقل فرمایا کہ یہ کہنا کہ حضور سید عالم ﷺکی مقدس ذات اپنے تمام محاسن میں شریک سے منزہ اور پاک ہے فاسد اور غلط ہے کیونکہ تمام انبیاء کرام علیہ السلام محاسن نبوت و رسالت اور غیراللہ کی پرستش نہ کرنے میں سرکار دو عالم ﷺ کے شریک ہیں لہٰذا سید عالمﷺ کے لیے منزہ عن شریک کا دعویٰ صحیح نہیں اس اعتراض کے جواب میں علامہ خرپوتی رحمہ اللہ نے کوئی معقول جواب نہ دیتے ہوئے صرف اس بات پر اکتفا فرمایا کہ یہ حکم حکم ادعائ ہے علامہ خرپوتی رحمہ اللہ کی عبارت یہ ہے:’’ولقائل ان یقول:ان ہذاالحکم، ای کونہ علیہ السلام منزہاعن شریک فی کل محاسنہ فاسد،لانہ کان سائر الانبیاء شریکالہ فی محاسن عن النبوۃ والرسالۃ وعدم العبادۃلغیراللہ ۔ اللہم ان یقال:انہ ادعائی فلیتامل ۔‘‘(الفردۃفی شرح البردۃ/ص: ۲۰۶،۲۰۷)

حضور تاج الشریعہ رحمہ اللہ نے ’’فی محاسنہ‘‘ کی ایسی توضیح و تشریح فرمائی کہ یہ اعتراض سرے سے وارد ہی نہیں ہوتا ملاحظہ فرمائیں کہآپ علم کے کیسے بحر زخار تھے؟ آپ فرماتے ہیں کہ محاسن کی جو اضافت ضمیر کی طرف کی گئی ہے وہ اضافت تخصیص کا فائدہ دے رہی ہے جو اس بات پر واضح قرینہ ہے کہ یہاں وہ محاسن ہرگز مراد نہیں جو سید عالمﷺ اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں بلکہ یہاں محاسن سے وہ محاسن مراد ہیں جو سید عالمﷺ کے ساتھ خاص ہیں، یعنی منزہ عن شریک کا وہ حکم مخصوص فضائل و کمالات کے اعتبار سے ہے ۔عام فضائل و کمالات سے نہیں لہذا اب علامہ باجوری اور علامہ خرپوتی رحمہما اللہ نے جو اعتراض نقل فرمایا وہ سرے خارج ہو جاتا ہے حضورتاج شریعہ کی عبارت یہ ہےکہ:’’والاضافۃتفید الاختصاص ، فہی قرینہ علی ان المراد بھا محاسنہ ﷺ المقتصۃبہ، دون المشترکۃ بینہ وبین سائرالانبیاء صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین فلا مساغ فی الاعتراض الذی ذکرہ العلامۃ الباجوری و العلامۃ الخربوتی‘‘(الفردۃفی شرح البردۃ/ص: ۲۰۶)سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن پر گفتگو کرتے ہوئے حضور تاج الشریعہ نے بڑے اچھوتے اور نرالے انداز میں علامہ خرپوتی کا تعاقب فرمایا ہے اور ساتھ ہی اس سلسلے میں آپ نے جو محتاط طریقہ اپنایا ہے دور حاضر کے نوجوان علماء کے لئے اہم نصیحت ہے:’’انہﷺ الفاتح لباب النبوۃ وبہ ختمت النبوۃ، المفتح لباب الجود ،وسبب فی کل موجود،المفیض علی الکل من بحرعلمہ ودیم کرمہ ،الواقف للجمیع عند الحدالذی ہو غایۃ ذی الغایۃ ۔ ومبدہ ﷺ فی الترقی الی غیر النہایۃ ، فھو الفاتح لما اغلق وھو الخاتم لماسبق، وکل ذالک مقرر معلوم ۔ وقولہ فی الجواب ’’انہ ادعائی‘‘لیس کما ینبغی ۔‘‘(الفردۃفی شرح البردۃ/ص: ۲۰۷)

سید عالم ﷺکے محاسن یہ ہیں کہ آپ ﷺفاتح باب نبوت ہیں اور آپ ہی پر باب نبوت کو بند بھی کر دیا گیا ہے ،جود و کرم کے جملہ ابواب آپ سے کھلتے ہیں، آپ کی ذات کے سبب تکوین کائنات ہے، آپ ہر ایک کو اپنے بحر علم اور بحر کرم سے سیراب کرنے والے ہیں، جملہ مخلوقات کے محاسن ذی حد اور محدود ہیں جبکہ سید عالمﷺ کے فضائل و کمالات روزافزوں ترقی پر ہیں اور آپ کے یہ ایسے محاسن ہیں جو مشہور ومعروف اور مسلم ہے لہٰذا ن فضائل و کمالات کے پیش نظر منزہ عن شریک فی محاسنہ کے جواب میں حکم ادعاءکہناعلامہ خرپوتی کے شایان شان نہیں بلکہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے لیسہ کما ینبغی فرماکر سمندر کو کوزے میں سمیٹ دیا ہے یعنی جب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات فاتح نبوت ہے اور خاتم نبوت ہے تو اب اس اعتبار سے خاص وصال نبوت میں بھی آپ کی ذات مقدسہ منزہ عن الشریک ٹہری پھر مطلق بناکر نبوت کو بنیاد بنا کرمنزہ عن الشریککے دعوے کو دعویٰ ادعائی کیسے کہا جا سکتا ہے بلکہ جب محمد سید عالم ﷺ کی بابرکت ذات ہی جملہ محاسن و کمالات کی منبع اور مبد اءہے ، مخلوق میں جس کو جو بھی شرافت و کرامت ملی یا آئندہ ملے گی سب اسی ذات مقدسہ کا صدقہ ہوگا ، آپ کی ذات سبب تکوین جملہ کائنات کائنہ الیٰ یوم القیامۃ ہےتو اب اس اعتبار سے مخلوق میںکوئی وصف کمال میں آپ کا شریک نہ ہوگا۔لہذ ا’’منزہ عن شریک فی محاسنہ ‘‘کا حکم اپنی جگہ درست ہے ،اسے ادعائی بتانا غیر مناسب ہوگا۔

ا یں سعادت بزورِ بازو نیست:

آپ جہاں میدان فقہ کے میر اور حدیث، فن حدیث ،تفسیر،فن تفسیر ،منطق وفلسفہ ،علوم عربیہ، نحو، صرف ،بلاغت وغیرہ علوم متداولہ میں بے مثل و بے نظیر تھے ،وہیں آپ کو مختلف زبانوں میں کلام پر قدرت تامہ بلکہ ملکہ تامہ حاصل تھا جس پر امام اہلسنت حضور اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کی کئی کتابوں کی تعریب اور ترجمہ شاہد عدل ہیں تراجم کو دیکھنے کے بعد دل یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ تعریف ترجمہ نہیں بلکہ مستقل کتابیں ہیں۔
ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ترجمہ نگاری کی ایک ادنیٰ جھلک ملاحظہ فرمائیں:

کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع
مولیٰ کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے

’’انہ لم یان للقائلین ان یتکلم معی بمقالہم وہو ﷺ منذ ذالک الحین مطلع علیٰ القول والقائل وعلیٰ کل رطب و یابس‘‘

حضور تاج الشریعہ کی بندہ پروری :

یہی وجہ تھی کہ آپ میں علم دوستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اصاغر علماء کو ان کی حد سے بڑھ کر نواز تے تھے فقیر حشمتی بیس سال قبل دارالعلوم مخدومیہ سنبھل کےسالانہ اجلاس میں تقریر کر رہا تھا،بمشکل آدھا گھنٹہ کی تقریر ہوئی ہو گی کہ حضور تاج الشریعہ بدرالطریقہ علیہ الرحمہ کی آمد آمد ہوگئی۔ میں نے چاہا کہ تقریر ختم کردوں مگر سرکار کی طرف سے اجازت ملی ،حوصلہ بڑھا اور پھر سرکار کی موجودگی میں مکمل بیان ہوا بعد میں سرکار نے حضرت مولانا شہاب الدین رضوی صاحب سے فرمایا کہ مولانا مسیح الدین نے نہایت عمدہ اور علمی تقریر کی ۔ اسی طرح آنند اور پٹلاد، گجرات میں ممبر شریف پر حضور تاج الشریعہ کے ورود مسعود کے بعد فقیر کی تقریر ہوئی، جلسے کے اختتام پر حضور نے مجھے بلوایا اور اپنے مبارک ہاتھوں کشمش کے چند دانے عطا فرمائے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔بلاشبہ ہم جیسے ہزاروں علماء کی نگاہوں کے قصور آپ کی ذات مقدسہ سے منور و مجلیٰ تھے۔ وہ ہمارے علمی اور روحانی پیشوا تھے ہم میں ان کی ذات مثل شمع تھی ہم پروانے ان پر نثار رہتے تھے ،وہ ہمارے محور و مرکز تھے، ہم سب انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے، وہ بھی ہم سب کے لئے باران رحمت اور ابر کرم تھے۔

ایک دن آپ کے کاشانۂ اقدس پر معمول کے مطابق علماء کرام کی انجمن اکتساب فیض کیلئے سجی ہوئی تھیں فقیر حشمتی کے علاوہ محسن و کرم فرما مسلک اعلحضرت کے بےباک ناشر اور مبلغ حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ حشمتی صاحب قبلہ مدظلہ العالی، حضرت علامہ مفتی اختر حسین علیمی صاحب قبلہ ،حضرت علامہ مفتی قدرت اللہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ، مفتی کمال اختر صاحب قبلہ اس انجمن میں حاضر تھے انسداد صلح کلیت کے حوالے سے بہت ہی مفید اور کارآمد نصیحتیں کیں اور جب ہم لوگ قدم بوسی کے بعد واپس ہونے لگے،اصاغر نوازی اور علم دوستی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے جملہ حاضر علمائے کرام کو لفافوں کی شکل میں تبرکات فرمایا اس دو رقط الرجال میں ایسی علم دوستی و ذرہ نوازی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

یہ حضرت کی عظیم علم دوستی اور ذرہ نوازی ہی تھی کہ متعدد علماءذوی الاحترام، بالخصوص علامہ مولانا مفتی محمد عاشق علی صاحب قبلہ کشمیری کی موجودگی میں محسن و کرم فرما حضرت مولانا عبدالمصطفیٰ حشمتی صاحب مدظلہ العالی کی صرف ایک گزارش پر فقیر حشمتی کو 23 صفر المظفر 1434 ھجری بمطابق 8 دسمبر 2012 بروز شنبہ بعد نماز عشاء تقریبا رات دس بجے اپنے کاشانۂ ا قدس پر تمام سلاسل حقہ کی اجازت اور خلافت عطا فرمائی۔فالحمدللّٰہ علیٰ ذالک

آتا ہے فقیروں پر انہیں پیار کچھ ایسا
خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتے کا بھلا ہو

میں اس کرم کے کہا ںتھا قابل حضور کی بندہ پروری ہے:
تاج الشریعہ کی ذات ستودہ صفات ہر زاویہ سے بے مثل اور بے مثال تھی۔ ابر رحمت ان کی مرقد پر گہرباری کرے حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے اور ان کے فیوض و برکات سے عوام اہل سنت کو مستفیض رکھے۔ علامہ عسجدرضا خان صاحب قبلہ مد ظلّہ العالی کو قاسم فیضان تاج الشریعہ اور ان کا عکس جمیل بنائے۔آمین

Menu