حضورتاج الشریعہ ۔۔۔یادوں کے جھروکوں سے

پیرسید محمد طاہرحسن زیدی یوسفی رضوی،لاہور ،پاکستان


بسم اللہ الرحمن الرحیم

بے حدحمد وثنا ء واسطے لم یزل ولم یزال اللہ تبا رک وتعالیٰ جل مجدہ الکریم ،سبحانہ القدیم مطلق وبسیط وبیحد کے،بے حد درودوسلام واسطے ذات بے مثل وبے مثا ل وبے مثیل وبے عیب وبا کما ل وباجما ل محبوب پروردگا رسید وسردار وتا جدارحضرت احمد مختا ر سیدنا المجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کے،بے حدرحمتیں حضرت سیدنا پیرا ن پیر دستگیر السید الشیخ الشا ہ السلطا ن عبد القا درالجیلا نی الحسنی والحسینی غوث الثقلین وغیث الکو نین رحمۃ اللہ علیہ کی پرنو رہستی پہ اور بے حد برکتیں ہمارے ولی ٔ نعمت کشف الامہ ،سرا ج الامہ ،مہبت انوار الٰہیہ ،مر کز علوم جلیلہ ،منبت علوم خفیہ ،مجدد دین وملت ،امام اہلسنت ،اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ،الشیخ ،الامام احمد رضا خا ں القادری ثم البریلی رحمۃ اللہ علیہ کی تربت پر نور پہ کہ جن کے وسیلۂ جلیلہ سے ہمیں عشق رسول کریم ﷺ ،محبت اولیائے کرام اورا دب اہل بیت وصحا بہ کرام وازواج رسول عطا ہوا۔
سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے اِس جہا ن فا نی سے اُس جہا ن لافا نی میں جلو ہ فر ما ہو نے کے بعد مسند ولایت بریلی شریف کی زینت پہلے حجۃ الاسلام مو لانا الشا ہ حا مد رضا خا ں القادری رحمۃ اللہ علیہ اور پھرمفتیٔ اعظم ہند مو لانا الشا ہ مصطفیٰ رضا خا ں القا دری رحمۃ اللہ علیہ بنے۔ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی اکثر صفا ت ذکیہ حجۃ الاسلام کی شخصیت میں عیا ں تھیں اور اکثر صفا ت ذکیہ مفتیٔ اعظم ہند کی شخصیت میں ،مگر مسند اعلیٰ حضرت کسی ایسی ہستی کی منتظر تھی جس میں حضرت حجۃ الاسلام اور حضرت مفتی ٔاعظم ہند کے ظا ہری وبا طنی کما لات بدرجۂ اتم موجو د ہوں اور وہ ہستی مظہر اعلیٰ حضرت ،آفتا ب قا دریت بن کر آسمان ولایت پہ پو ری آب وتا ب کے ساتھ رو شن ہو ۔پھر حق تعالیٰ نے کرم کی گھٹا ئیں ظا ہر فر ما دیں ۔حضرت احمد جام چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ان دو مصرعوں میں قلم بند فر ما یا ؎

کشتگا ن خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جا نِ دیگر است

تسلیم ورضا کے خنجر سے ذبح ہو نے والا(نور مصطفیٰ ﷺ)ہر زمانے میں ایک نئی صورت میں ظا ہر ہو تا ہے۔ چناں چہ وہی نور مصطفیٰ ﷺ جو سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی جبین ناز کو منو ر کر چکا تھا، اور آپ کے بعد حضرت حجۃ الاسلام ،مفتی ٔاعظم ہند اور مفسر اعظم ابرا ہیم رضا خاں القادری رحمہم اللہ علیہم کی پیشا نیوں کو تاب نا ک وروشن کر چکا، تو۲۳؍ نومبر ۱۹۴۳ء بروز منگل بریلی شریف کے محلہ سو داگراں آستا نۂ اعلیٰ حضرت پہ ایک مرتبہ پھر چمک اٹھا ۔
جی ہا ں! حضرت اقدس ،قبلۂ عالم ،سلطا ن الفقہا ء ،جا نشین مفتی ٔ اعظم ،شیخ الاسلام والمسلمین ،فخر الازہر،مفتی ٔاعظم ،بد رالطریقہ، تا ج الشریعہ ، المفسر،المحدث ،المفکر،المبلغ ،المعلم،المتکلم،المتصوف،العارف،الشیخ ،الامام، قطب العالم سیدی اسما عیل رضا المعروف بہ مفتی الشا ہ اختر رضا خا ں القادری الازہری نوری بر کا تی محدث بریلی شریف رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با سعادت ہو ئی ۔حسن با طنی تو اللہ پا ک ہی جا نے حسن ظا ہری کا عالم یہ تھا کہ بڑے بڑے ما ہ جبیں ونا زنیں کہہ اٹھے ؎

نصاب حسن درحد کامل است
زکوٰ تم دے کہ مسکین وفقیرم

’’گو یا آپ کا نصاب حسن اپنی حد وںتک پہنچ چکا، اب مجھ مسکین و فقیر کو بھی اس حسن کی زکوٰۃ عطا فر ما ئیے۔‘‘۴؍سال،۴؍ما ہ، ۴؍دن کی عمر میں والد گرامی مولانا ابراہیم رضا صاحب رحمۃا للہ علیہ نے جا معہ منظر الاسلام شریف میں آپ کی ’’بسم اللہ ‘‘شریف کی اور طلبا ء کو دعوت عام دی گئی ۔ رسم بسم اللہ شریف قبلہ نانا جا ن حضرت مفتی ٔ اعظم ہند الشا ہ مصطفیٰ رضا خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ادا فر ما ئی ۔ابتدا ئی کتب والد گرا می سے اور نا ظرہ قر آن کریم والدہ ما جدہ سے مکمل فر ما یا ۔جا معہ منظر الاسلام شریف سے درس نظا می کی تکمیل کے بعد جا معہ الازہر قا ہرہ مصر سے فن تفسیر وحدیث میں اکتساب علم کیا ۔مصر کے صدر کرنل جما ل عبد النا صرسے اول پو زیشن حا صل کرنے پر جامعہ ازہر ایوا رڈ حا صل کر کے بریلی شریف لوٹے ۔
۳ ؍نومبر ۱۹۶۷ء کو آپ کا عقد مسنون ہوا اورا سی سال آپ نے دارالعلوم منظر الاسلام میں تدریس شروع فر ما ئی اوراگلے ہی برس صد ر المدرس اور صدر رضوی دارالافتا ء مقرر ہو ئے ۔بچپن ہی میں آپ حضرت نانا جا ن مفتی ٔ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پہ مشرف بہ بیعت ہو ئے اور صرف ۱۹؍برس کی عمر میں حضرت مفتی ٔا عظم ہند علیہ الرحمۃ نے آپ کو سلاسل اربعہ میں خلا فت واجازت سے نوازا ۔آپ کو خلیفۂ اعلیٰ حضرت بر ہا ن ملت حضرت مفتی بر ہا ن الحق جبل پو ری رحمۃ اللہ علیہ ،تا جد ار ما رہرہ شریف سید شاہ آل مصطفیٰ برکا تی رحمۃ اللہ علیہ ،احسن العلما ء حضرت سید حیدر حسن میاں بر کا تی رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے والد گرا می مفسر اعظم ابرا ہیم رضاخا ں قادری رحمۃ اللہ علیہ نے جمیع سلاسل میں خلا فت و اجا زت سے نوازا ۔
غالباً ۱۹۸۹ء میں آپ نے پاکستا ن کا دورہ فر مایا اس دورہ کے دورا ن ہما رے ایک عزیز سید سمیع شاہ قادری صاحب جو کہ حضرت کے ابتدا ئی خلفا ء میں سے تھے کے گھر میں قیام بھی فر ما یا اور ہما رے محلہ کی مسجد رحما نیہ قادری ۲۔بی ؍۳ ٹا ؤن شپ لاہور میں خطبۂ جمعہ بھی ارشاد فر مایا ۔میں اس وقت بہت چھوٹا تھا معلوم نہیں تھا کہ یہ بزرگ کو ن ہیں ؟ بس سب سے یہ کہتا تھا آج ہما ری مسجد میں بڑے خوبصورت با با جی آئے ہیں ۔اسی دورہ میں آپ نے ہما رے مرشد معظم حضرت علا مہ پیر سید محمد ذوالفقارحسین شاہ یو سفی صاحب کی مسجد کا بھی افتتاح فر مایا ۔ قبلہ مرشد معظم فر ما تے ہیں:’’ میں اس وقت نو جو ان تھا اور آٹو گرا ف لینے کے لئے حضرت کی گا ڑی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا آپ نے جب ڈا ئری پہ آٹو گرا ف دے دیئے تو کسی نے کہا حضور یہ گا ڑی کے ساتھ ساتھ جو نو جوان ہے یہ سید زاد ہ ہے ۔حضرت جلال میں آگئے فر مایا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتا یا ۔گا ڑی رکو ائی با ہر تشریف لائے اور با ادب ہا تھ با ندھ کر کھڑے ہو گئے پھر جب تک میں نے اصرار کر کے حضرت کو گا ڑی میں نہیں بٹھا یا حضرت میری ڈائری ہاتھوں میں بلند کئے با ادب کھڑے رہے۔‘‘
اسی دورے کا ایک واقعہ جس کے راوی ہما رے استاذ گرامی حضرت علامہ پیر سید محمد عرفا ن مشہدی شاہ صاحب ہیں، پیش خدمت ہے ۔ عرفا ن شاہ صاحب قبلہ نے حضرت سے عرض کی آپ ہما رے دارالعلوم محمدیہ رضویہ ، بھکھی شریف کو بھی رونق بخشیں حضرت آما دہ ہو گئے ۔ شاہ صاحب نے عرض کی حضور یہ ایک چھوٹی سی گا ڑی میری ذاتی ہے اور ایک گا ڑی جو بڑی بھی ہے اور آرام دہ بھی کرایہ پہ منگو ائی ہے جنا ب جس میں جا نا پسند فر ما ئیں ۔حضرت نے مسکرا کر بہت گہرا جملہ ارشا دفر مایا، فر ما نے لگے۔’’سیدوں کے ساتھ ہی جا ؤں گا ‘‘ شاہ صاحب فر ما تے ہیں سفر شروع ہو گیا راستے میں ایک جگہ حضرت کا استقبال تھا ہزاروں عاشقان اعلیٰ حضرت جمع تھے ۔ہما ری گا ڑی کئی سو کلو میٹر چل کر خوب گرم ہو چکی تھی لیکن اس کے با وجود فدا یا ن بریلی شریف نے ہما ری گا ڑی کو اپنے کا ندھوں پر اٹھا لیا اور تقریباً ۱۰ ؍سے ۱۵ ؍منٹ اٹھا کر چلتے رہے میں نے حضرت سے عرض کی حضور یہ ٹلنے والے نہیں ہیں آپ ہی حکم فر ما ئیے کہ گا ڑی زمین پر رکھ دیں چناں چہ حضرت کے حکم پر گا ڑی زمین پہ رکھ دی گئی ۔خوب شا ندا ر استقبا ل ہوا اور ہم آگے کی طرف بڑھ دیئے ۔گجرا ت سے کچھ آگے بڑھے تو سڑک کے ایک کنا رے پہ کم وبیش ۷۰ ؍برس کے دیہا تی بزرگ کو دیکھا جن کی کمر پہ بیلوں سے چلا نے والالکڑی کا بھا ری بھر کم ہل لدا ہوا تھا اور بزرگی اوروزن کی وجہ سے ان کا جسم کا نپ رہا تھا ۔حضرت نے دور سے دیکھ کر شاہ صاحب کو فر ما یا کہ میاں گا ڑی روک کر اس بزرگ کااحوال معلوم کرو ۔ شاہ صاحب فر ما تے ہیں اس بزرگ کے عشق اعلیٰ حضرت نے مجھے آ ب دیدہ کر دیا ۔میں نے پو چھا با با جی یہاں کیوں کھڑے ہو اور کب سے کھڑے ہو ۔بابا جی بو لے کئی گھنٹوں سے کھڑا ہوں کسی کا انتظار کررہا ہوں ۔پوچھا کاندھوں سے ہل ہی اتار دیتے وہ بو لے میں بہت بو ڑھا ہوں اور یہ بہت وزنی ہے ایک دفعہ اتار دوں تو دوبا رہ اٹھا نہیں پا ؤں گا ۔پو چھا کس کا انتظا ر کر رہے ہو ۔بو لے کہ وہ جن مولو ی صاحب کا سلام میری مسجد میں پڑھاجا تا ہے ’’مصطفیٰ جا ن رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ سنا ہے کہ آج اس رستے سے ان کا پو تا گزرے گا ۔میں ان کو دیکھنے آیا ہوں ۔شاہ صاحب روتے ہو ئے حضرت کے پاس حا ضر ہو ئے اور سارا حا ل سنا یا حضرت نے اتر کر بزرگ سے ملا قات کی یوں معلو م ہو تا تھا جیسے اس بزرگ کی آج عید ہو گئی تھی ۔اسی دورے میں’’ ادارہ منہا ج القرآن ،ما ڈل ٹا ؤن، لاہو ر‘‘ کی ایک تقریب میں تشریف فر ما ہو نا بھی جنا ب کے شیڈو ل میں شامل تھا، لیکن راستے میں اسی ادارے کی چھپی ہوئی ایک کتا ب ’’فرقہ واریت کا خا تمہ‘‘ آپ کو پیش کی گئی اور اس کے طا ئرا نہ مطا لعہ کے بعد آپ رستے ہی سے وا پس تشریف لے آئے اور قلم اختر شمشیر اعلیٰ حضرت بن کر جنبش میں آگیا جس کے زخم آج بھی صلح کلیوں کو بے چین کئے ہو ئے ہیں ۔ہم نے اپنے چند اشعار میں اس کا ذکر یوں کیا کہ ؎

خا رجی کا نپ اٹھے گا محشر کے دن ،رافضی کا کلیجہ دہل جا ئے گا
سامنے آئیں گے میرے اختر رضا،فتنۂ احمدیت مسل جا ئے گا

الخوا رج،روافض و تفضیلیہ ،احمدی ،قادیا نی ومنہا جیہ
قلم اختر چلا مثل سیف رضا ،شجرہ گستا خ کا ہر کھنگل جا ئے گا

سنیت کا نشاں ،قادریت کی جاں ،حیدری تیر اور رضویت کی کما ں
چل جا ئیگا ،کفر چھٹ جائیگا ،یوں اندھیرا اجا لے میں ڈھل جا ئے گا

غالباً ۲۰۰۳ء میں حضرت پا کستا ن تشریف لائے ،شادباغ، لاہور کے گو ل با غ میں حضرت نے خطا ب فرما یا ۔ہم اس وقت i.com کے اسٹوڈنٹ تھے، روما ل میں کیمرہ چھپا کے لے گئے کہ چھپ کر حضرت کی کچھ تصاویر بنا لیں گے ۔بڑی مشکل سے اپنی کاروائی میں کامیاب ہو گئے ۔گھر آکر کیمرے کی ریل دھلوائی چار تصا ویر حضرت کی بنا ئی تھیں تمام تصاویر صحیح سلا مت آگئیں لیکن حضرت کی چار وں تصا ویربالکل سیاہ رنگ کی آئیں یعنی سوا ئے اندھیرے کے کچھ نہیںآیا ۔کچھ عرصے کے بعد حضرت پھر پا کستا ن تشریف لائے اور شا دبا غ، لا ہور میں اویس قرنی صاحب کے گھر رونق افروز ہو ئے ۔ہما رے ایک دوست با ہر سے تصویر کھینچنے والاکا فی مہنگا مو با ئل لائے تھے وہ مو با ئل لے کر ہم اویس قرنی صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ تین گھنٹے انتظا ر کرنے کے بعد بر آمدے میں حضرت کی کرسی رکھی گئی اور ہمیں صحن میں گزرتے گزرتے حضرت کی زیا رت کا مو قع ملا ۔تین مرتبہ حضرت کے سامنے سے گزرے اور تینوں مرتبہ مو با ئل سے حضرت کی تصویر لینے کی کو شش کی لیکن تینوں مرتبہ حضرت کے سامنے آتے ہی مو با ئل بند ہو جا تا ۔بالآخر نا کا م ہو کر وا پس آگئے اگلے روز اپنے مر شد معظم کی خدمت میں حا ضر ہو ئے اوردونو ں واقعا ت یعنی گزشتہ برس کے کیمرے والے اور پھر مو با ئل کے بند ہو نے والے واقعات عرض کردیئے۔مرشد معظم کا فی دیر روتے رہے اور پھر آنسو صاف کر کے ارشا دفر ما نے لگے۔’’شاہ جی! آپ نے شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور تا ج الشریعہ کو کیا سمجھ رکھا ہے وہ کو ئی عام پیر یا مو لوی نہیں ہیں وہ اس وقت کے قطب ہیں اورا س وقت اس زمانے میں ہما رے امام ہیں ۔وہ بالکل اسی طرح ہما رے امام ہیں جس طرح سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہما رے امام ہیں ۔لہٰذا آئندہ ایسی غلطی نہ کرنا ۔‘‘
حضور تا ج الشریعہ وہ صاحب استقا مت با کرا مت امام اہلسنت ہیں جنہوں نے کعبۃ اللہ شریف کو اپنے ہا تھوں سے غسل دیا۔ آخری زما نے میں کا فی علیل رہے اور با لآخر ۷؍ذیقعد ۱۴۳۹ہجری بمطا بق ۲۰ ؍جو لائی ۲۰۱۸ ء شب ہفتہ بوقت مغرب اذان کا جو اب دیتے ہو ئے اللہ اکبر!اللہ اکبر!پکا رتے ہو ئےواصل الیٰ اللہ ہو گئے۔تقریباًسواکروڑ عاشقان مصطفیٰ نے آپ کے جانشین حضرت صاحبزادہ عسجد رضا خاں القادری صاحب کی اما مت میں نمازجنا زہ بروز اتوار بریلی شریف میں ادا کی اور حضرت کو مزار اعلیٰ حضرت کے قریب ازہری گیسٹ ہا ؤس میں دفنا یا گیا ۔آپ کا در با ر گوہربا رمرکز تجلیات ومرجع خلا ئق ہے۔

میرے اختر کی جا نب کو ئی بد اصل نہ بریلی کے رخ بد نسل جا ئے گا
یاد رکھنا میرے دوستو! تم سبھی ،فیض لینے اصل سے اصل جا ئے گا

میرے سمنا نی یوں میرے کا م آئینگے ،شاہ اختر رضا کرم فر ما ئیں گے
طا ہرؔ خستہ جا ں ،نا قص ونا تواں ،رنگ تا ج الشریعہ میں ڈھل جا ئے گا

الحمدللہ !بندۂ نا چیز کو ۲۰۱۸ء میں حضرت صاحبزادہ عمرا ن رضا خا ں سمنا نی میاں سے خلا فت واجا زت سلسلہ قادریہ بر کا تیہ نوریہ میں حاصل ہو ئی اور فقیر کا تعلق حضور تا ج الشریعہ سے جُڑ گیا ۔(جزا ک اللہ )

Menu