حضور تاج الشریعہ ! آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
علامہ ڈاکٹرغلام مصطفیٰ نجم القادری،پٹنہ ،انڈیا
بے مثالی کی ہے مثال وہ حسن
خوبیٔ یار کا جواب کہاں
آج کل تقریبا پوری دنیا ایک شخصیت کی رخصت پر نڈھال،غم سے رنجوراور شدت جدائی پر ملال آگیں بنی ہوئی ہے۔ وہ شخصیت ہے وارث علوم اعلیٰ حضرت ،جانشین حضور مفتیٔ اعظم ،فخرازہرحضرت علامہ الشاہ مفتی محمداختررضاخان قادری بریلوی علیہ الرحمہ کی جنہیں دنیاتاج الشریعہ کہہ کربھی یہ برملا اعتراف کرتی ہے کہ ۔۔۔ع
حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
کسی کے جانے پر یادوں کا یہ تسلسل۔۔۔ جلسہ تعزیت کا یہ اژدھام۔۔۔اورمختلف انداز میں خراج عقیدت کی اتنی دھوم دھام شاید زمانے نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اور حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ ان کے مخالفین و حاسدین بھی پوری دلجمعی سے اس کارخیر میں شریک ہیں۔ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ دنیا اس شخصیت کو بھلا نہیں پارہی ہے اور بلالحاظ مکتبہ فکر ہر چہرے پر افسردگی۔۔۔ ہر دل میں وصال کا ملال اور ہر آنکھ میں مفارقت کے آنسو جھلملارہے ہیں۔
اس تعلق سے میرا وجدان بولتا ہے کہ یہ عنایت خداوندی اور فیضان کرم مصطفوی ہے۔ حدیث مصطفیٰ ﷺہے :’’من کان اللہ کان اللہ لہ ومن کان اللہ لہ کان لہ ا لکل ‘‘جو اللہ کا ہوجاتا ہے،اللہ اس کا ہوجاتا ہے اور جس کا خدا ہوجاتاہے کائنات اس کی ہوجاتی ہے۔ یہ جلوہ ایمان کی وہ برکت ہے جس کو نبی محترمﷺ نے اپنی زبان مبارک سے صدیوں پہلے یوں لفظوں کا گوہر عطا فرمایاتھا :’’من احب للّٰہ وابغض للّٰہ واعطی للّٰہ ومنع للّٰہ فقداستکمل الایمان‘‘جو محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے، دشمنی کرے تو صرف اللہ کے لیے، کسی کو دے تو صرف اللہ کے لیے اور منع کرے تو صرف اللہ کے لیے تو اس نے یقینا اپنا ایمان مکمل کرلیا۔ اور جس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا اس کے لیے قرآن مجید یوں مژدہ سنارہاہے :’’اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجۡعَلُ لَہُمُ الرَّحۡمٰنُ وُدًّا‘‘بے شک وہ جو ایمان اور نیک عمل والے ہیں اللہ تعالی لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔ اور اس محبت کی تفسیر وہ حدیث ہے جس میں پیارے مصطفی ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:’’ اللہ تعالی جبرئیلی اعلان کے ذریعے عرش وفرش کی مخلوقات تک اس کی آواز پہونچا دیتا ہے اور پھر ہرمخلوق بے چوں وچرا اس محبوب شخصیت سے محبت کرنے لگتی ہے۔‘‘
عالمی محبت اور آفاقی مقبولیت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جلسہ کے جس پوسٹر میں آپ کا نام چھپ جاتاتھا دیوانوں کی اتنی بھیڑ اکٹھی ہوجاتی کہ سنبھالنا مشکل ہوجاتا، آپ بیرون ملک کے دورے پر ہوتے مگر یہاں نعرہ لگتا تھا’’بستی بستی قریہ قریہ–تاج الشریعہ تاج الشریعہ‘‘اور بعد وفات دنیا کے کونے کونے سے لوگ نماز جنازہ پڑھنے کی سعادت لوٹنے کے لیے کشاں کشاں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کی تعداد میں بریلی شریف حاضر ہوگئے۔ اور اس کے بعد سے محفل ایصال ثواب کا ایسا تانتا لگا ہے کہ رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ یہاں پر میں اگر حالات حاضرہ کے تناظرمیں یہ کہوں تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا کہ دنیا اگر آنکھ تو روشنی کا نام تاج الشریعہ ہے، دنیا اگر جسم ہےتو جان کا نام تاج الشریعہ، دنیا اگرہے دل تو دھڑکن کانام تاج الشریعہ ہے۔ ایک شخصیت اور ایسی کشش۔۔۔ ایک ذات اور ایسی مقناطیسیت۔۔۔ایک ہستی اور ایسا کھنچاو کہ بس یوں لگتاہے کہ ؎
کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے
اضافی اور ذاتی خوبیوں نے مل کر علم کو عمل سے اور عمل کو علم سے ایسا ہم آغوش کردیا کہ ہر طرف عشق کے جلوہ ہائے صد رنگ مسکرانے لگے۔ حالانکہ وہ دین کے معاملے میں اتنے سخت تھے کہ سختی بھی تھرانے لگے مگر دین وایمان کی اسی شدت وصلابت نے انہیں اتنا اونچا اٹھایا کہ عرش کی بلندی بھی رشکیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ اس طرح جاتے جاتے اپنی خاموش زبان سے ہم سب کو یہ پیغام دے گئے کہ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر پر ڈٹ جاؤ دنیا تمہارے قدموں میں ہوگی۔ مضطرب حالات میں بھی شریعت کا دامن نہ چھوڑنا، زمانہ تمہاری مٹھی میں ہوگا، مسائل شرعیہ کی وضاحت میں استقامت علی الشریعہ کی فولادی دیوار بن جانا، قدرتی انعام سے مالامال ہوجاؤگے۔
تاج الشریعہ کے امتیازی اوصاف ان کی بلندی درجات کاروشن مینار ثابت ہوئے۔اعلیٰ حضرت کے تفکر وتصلب، حضور حجۃ الاسلام کے تدبر وتحمل، حضور مفسر اعظم کے احقاق حق وابطال باطل اور حضور مفتیٔ اعظم ہند کے تفقہ وتصوف کو آج اگر کوئی ایک جگہ ایک ذات اور ایک وقت میں دیکھنا چاہے تو وہ حضور تاج الشریعہ کو دیکھ لے۔ اگر اپنے ذاتی و اضافی کمالات میں سے کسی میں بھی کمزور ہوتے تو زمانہ انہیں دبوچ لیتا مگر وہ تووفور علم وعمل کی بدولت اتنے مضبوط اعصاب کے مالک تھے کہ طوفان آتا اور گزر جاتا، بجلیاں چمکتیں اور ماند پڑ جاتیں، بلائیں آتیں اور لوٹ جاتیں، آندھیوں کی زد پر مسکرانا اور حق کا آوازہ بلند کرنا کوئی تاج الشریعہ سے سیکھ لے۔
آپ کے مورث اعلیٰ حضرت علامہ مفتی رضا علی خان علیہ الرحمہ والرضوان نے دین وشریعت کی خدمات و اشاعت کا جو سنگ بنیاد رکھا تھا عہد بہ عہد آپ کی نسل میں جیالے افراد پیدا ہوتے رہے اور قلعہ تعمیر ہوتارہا۔ دوسوسال سے زیادہ کا عرصہ ہورہاہے حضرت رضا علی سے حضور تاج الشریعہ تک مگر کہیں بھی نہ کوئی لالچ ہے نہ کوئی امید، نہ کوئی دنیاوی غرض ہے نہ کوئی مطلب، نہ کسی سے کوئی ضرورت ہے نہ کوئی حاجت۔ بے لوث دینی خدمات کا عالمی ریکارڈ ان حضرات نے قائم کیاہے اور کمال یہ ہے کہ اس دوسوسال کے دورانئے میں نہ کہیں پر کوئی لچک ہےنہ لوچ، نہ مداہنت ہے نہ حالات کا چہرہ دیکھ کر فیصلہ لینے اور فتوی دینے کی کوئی بات۔ جس نے جو بھی کہا اور لکھا کتاب وسنت کا چہرہ دیکھ کر کہا اور لکھا۔ اس وقت خانوادۂ رضا شجر سایہ دار کی طرح دنیائے سنیت کے لیے سائبان بنا ہوا ہے۔ اور اکابر کا اعتراف یہ ہے کہ جو اس سائے میں آجاتا ہے اس کا دین وایمان محفوظ ہوجاتاہے۔ دنیا ارباب بصیرت سے خالی نہیں ہے مگر بصیرت جس پر ناز کرے وہ ہیں تاج الشریعہ ۔ استاذ وپیر جس پر مسرت برسائیں وہ ہیں تاج الشریعہ، اور خود جامعہ ازہر جیسی آفاقی یونیورسٹی جس پر فخر کرے وہ ہیں تاج الشریعہ۔
بے مثالی کی ہے مثال وہ حسن
خوبیٔ یار کا جواب کہاں
اور لوگ کام انجام دیتے ہیں تاج الشریعہ نے کارنامہ انجام دیا ہے۔ آپ کا ہر کام اور کارنامہ اخلاص کے نور سے ایسا معمور ہے کہ آپ کا نام بھی انہیں بزرگوں کے نام کے جلو میں تاباں ودرخشاں ہے اوررہے گا۔آج ہم اپنے کردار کی زلفیں سنوارنے کے لیے جن کی سیرت سے اجالالیتے اور بانٹتے ہیں۔ حضور اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’’من صار بالعلم حیا لم یمت ابدا‘‘جو علم کے ذریعے زندہ ہوجاتا ہے کبھی نہیں مرتا۔ حضور تاج الشریعہ نے جو علمی کام انجام دئے ہیں، تلامذہ کی جو مضبوط ٹیم چھوڑی ہے، اداروں کی شکل میں دین وسنیت کا جو تاج محل آپ نے تعمیر کیا ہے، اورترجمہ وحواشی اورمستقل تصنیف کی شکل میں۱۰۰ کے قریب جوشاہکار کتابیں آپ نے چھوڑی ہیں اس کے فیوض وبرکات میں تاج الشریعہ کا نام اپنی تمام تر نغمگی اور گونج کے ساتھ زندہ وتابندہ رہے گا۔ آپ نے اپنے علمی وثوق رسوخ،جذبہ عمل ، قوت فکر،آفاقی تخیل سے دنیا کو جس طرح سرشار وسرمست کیا ہےیہ آپ ہی کاحصہ ہے۔اورسچ یہ ہے کہ ؎
ۭیہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
زمانہ گزرتارہے گا آپ کی یادوں کی آنچ تیز ہوتی رہے گی۔ آج ہر صالح فکر اخبار ورسالہ جو ان پر نمبر نکالنے اور دستاویزی شکل دینے میں مصروف ہے یہ سب کیا ہے؟ یہ سب ان کے نکتہ ایمان وعمل کی تفسیر وتاثیر نہیں تو اور کیا ہے۔
جداکے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری
خدا کی رحمتیں ہوں اے میر کارواں تم پر