بریلی کے نیر تاباں حضور تاج الشریعہ

شیخ الحدیث مفتی محمد فیاض احمد سعیدی، ناظم اعلیٰ جامعہ سراج الحرمین ، لاہور


شہر بریلی سمندر کی طرح ہے جس کی نہریںبنجر زمینوں میں سر سبزی وشادابی لاتی ہیں ایک ایسا سورج ہے جس کی تپش عشق سے کھیتی اپنے قد پہ کھڑی ہوتی ہے ایک ایسا چاند ہے جس کی ٹھنڈی چاندنی دلوں میں عشق رسالت مآبeکی شیرینی گھولتی ہے جس سے تیار ہونے والے چمن میں گلہائے رنگارنگ اپنی دل فریب خوشبو سے جہاں بھر کو معطر کئے ہوئے ہیں یہ وہ حوض ہے جہاں محبت نبویﷺکے جام پلائے جاتے ہیں ،جس کے نشہ سے مخمور ہوکر عظمت رسولeپر مر مٹنے کا لازوال جذبہ پیدا ہوتا ہے ،بادہ خوار بے خودی کے عالم میں یوں پکارتا ہے ؎

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

اس جذبہ عشق و مستی سے سر شار زندگی گزارنے کے بعد کوئی حسرت باقی نہیں رہتی بلکہ دم آخری یہ پیغام دے کر جاتا ہے ؎

انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیرسے کام
للہ الحمدمیں دنیا سے مسلمان گیا

لحد کی شب دیجور کے لئے چراغ لے کر یوں گویا ہوتے ہیں ؎

لحد میں عشق رخ شاہ کا داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے

اسی خانوادہ کے چمکتے تارے جنہیں چالیس علوم وفنون پر ملکہ حاصل تھا ،تقریبا ۷۵کتابوں کے مصنف تھے۔ عربی اردو ، انگریزی تین زبانوں پر کامل دسترس تھی، جو تین سال جامعہ ازھر مصر میں تعلیم حاصل کرکے کسی نئی تحقیق کے درپے نہ ہوئے اور نہ ہی جامعہ کی سند نے انہیں خبط علم میں مبتلا کیا بلکہ آپ اقبال کے شعر میں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ نعرہ زن ہوئے: ؎

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوۂ تابش مصر
سرمہ ہے میری آنکھوں کا خاک مدینہ و نجف

آپ علیہ الرحمہ بڑے ملنسار مہمان نواز ،عجز و انکساری کا مرقع تھے لیکن ؎

ہوحلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہے مؤمن

کی مجسم تصویر تھے، جسے بعض لوگ شر پسندی سے تعبیر کرتے ہیں، اقبال فرماگئے ؎

شائستہ آداب و فا ہم بھی ہیں لیکن
جو پاؤں پہ جھک جائے وہ سر لائیں کہاں سے

تو میری مراد شیخ الاسلام والمسلمین ،نبیرۂ اعلیٰ حضرت،حضور تاج الشریعہ ہیں ۔

حضور تاج الشریعہ کوسب حضرات گرامی (بزگانِ خاندان)کے کمالات علمی وعملی سے گراں قدر حصہ ملا ہے فہم وذکا، قوت حافظہ وتقویٰ سیدی اعلیٰ حضرت سے ،جودت طبع و مہارت تامہ (عربی ادب ) میں حضور حجۃ الاسلام سے، فقہ میں تبحر واصابت رائے سرکار مفتی اعظم ھند سے ، قوت خطابت وبیان والد ذی وقار مفسر اعظم ھند سے یعنی :وہ تمام خوبیاں آپ کو وراثۃً حاصل ہیں جن کی رہبر شریعت و طریقت کو ضرورت ہوتی ہے۔ (پیش گفتار شرح حدیث نیت،ص:۴)
ہم ذیل میں سوال و جواب کی صورت میں آپ کے سوزدروں کو صفحہ قرطاس پہ منتقل کرنے کی سعادت سے بہر یاب ہوں گے ۔
عبید رضا: جان جاناںﷺہمارے قریب ہیں؟
حضور تاج الشریعہ ؎

میری جان سے بھی وہ نزدیک تر ہیں
وہ مولائے ہر بے قرار مدینہ

عبید رضا : اللہ جل شانہ تک بندہ بارگاہ نبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بغیر پہنچ سکتا ہے ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

بارگاہ خدا میں کیا پہنچے ؟
گرگیاجونبی کےزینےسے

عبید رضا: وسیلہ ضروری ہے ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

اِبْتَغُوْا فرماکے گویا رب نے یہ فرمادیا
بے وسیلہ نجدیو ہر گز خدا ملتا نہیں

’’وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ‘‘(المائدہ:۳۵) آیۃ کی طرف اشارہ ہے۔
عبید رضا : بارگاہ رسالت مآب ﷺسے نعمت مانگنا کیسا ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

کہہ دیا قاسم انا دونوں جہاں کے شاہ نے
یعنی درحضور پہ بٹتی ہے نعمت خدا

’’انما انا قاسم واللہ یعطی‘‘ اللہ جل شانہ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں۔(بخاری،رقم:۱۷)
عبید رضا: فقیروں کو نعمتیں ملتی ہوں گی بادشاہوں کو تو نہیں؟
حضور تاج الشریعہ ؎

تاج خود را کاسہ کردہ گوید ایں جا تاجور
ان کے در کی بھیک اچھی ہے سروری اچھی نہیں

اقبال نے خوب فرمایا ؎

کرم اے شہ عرب وعجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ جن کو عطا کیا تو نے دماغ سکندری

استاد زمن علامہ حسن رضا خاں فرماتے ہیں ؎

منگتاتو ہے منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے
جس کو میرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو

عبید رضا: مدعا کہاں ملتا ہے؟
حضور تاج الشریعہ ؎

اختر خستہ عبث در در پھرا کرتا ہے تو
جز در احمد کہیںسے مدعا ملتا نہیں

سحر بیان اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؎

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

عبید رضا: شفاعت کے بارے میں کچھ ارشاد !
حضور تاج الشریعہ ؎

گنہ گارو نہ گھبراؤ کہ اپنی
شفاعت کو شفیع المذنبین ہیں

عبید رضا: مکہ افضل ہے یا مدینہ ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

خدا نے یاد فرمائی قسم خاک کف پاکی
ہوامعلوم طیبہ کی دو عالم پر فضیلت ہے

عبید رضا: میلاد شریف کی شیرینی پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں !
حضور تاج الشر یعہ ؎

جن کو شرینیٔ میلاد سے گھن آتی ہے
آنکھ کے اندھے انہیں کوا کھلا جاتے ہیں

عبید رضا: اختیارات مصطفےٰ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں کیا عقیدہ ہو نا چاہئے ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

جہاں بانی عطا کردیں بھری جنت ہبہ کردیں
نبی مختار کل ہیں جس کو جو چاہیں عطا کردیں

عبید رضا : عشاق مصطفیﷺکے لیے پیغام !
حضور تاج الشریعہ ؎

نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کردیں
پدر مادر برادر مال وجان ان پر فدا کردیں

عبید رضا: فرنگی تہذیب کے دلدادہ نادان مسلمانوں کے لیے پیغام !
حضور تاج الشریعہ ؎

طوق تہذیب فرنگی توڑ ڈالو مؤمنو
تیرگی انجام ہے یہ روشنی اچھی نہیں

عبیدرضا: فرقت طیبہ کا زخم کیسے ٹھیک ہوگا؟
حضور تاج الشریعہ ؎

داغ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا
کاش گنبد خضراء دیکھنے کو مل جاتا

عبید رضا: قسمت نے یاوری کی آستانۂ سرکارﷺ پر پہنچا دیا تو کوئی اور خواہش ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

میرا دم نکل جاتا ان کے آستانے پر
ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا

عبید رضا: موت کی خواہش تو اچھی نہیں!
حضور تاج الشریعہ ؎

موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں
موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا

عبید رضا : سفر طیبہ کس انداز سے کریں گے ؟
حضور تاج الشریعہ ؎

خلد زار طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا
پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جا تا

عبید رضا: جب گنبد خضراء کے انوار نظر آئے تو؟
حضور تاج الشریعہ ؎

دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی
اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا

عبید رضا: مدینہ منورہ کے راستوں کے بارے میں ارشاد !
حضور تاج الشریعہ ؎

دل میرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزاروں پر
انکے نقش پا سے یوں مل کے مستقل جاتا

دل پہ وہ قدم رکھتے نقش پا یہ دل بنتا
یا تو خاک پا بن کر پاسے متصل جاتا

عبید رضا :در جاناںﷺپرکوئی حسرت جو ادھوری رہ گئی ہو؟
حضور تاج الشریعہ ؎

ان کے در پہ اختر کی حسرتیں ہوئیں پوری
سائل در اقدس کیسے منفعل جاتا

عبید رضا: آخری خواہش دم واپسیں!
حضور تاج الشریعہ ؎

گل ہو جب اختر خستہ کا چراغ ہستی
اس کی آنکھوں میں تیر اجلوۂ زیبائی ہو

Menu