حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ ایک ہمہ جہت شخصیت

علامہ محمد قاسم عمر رضوی مصباحی،خطیب و امام مسجد سلام، لیچول بریکپن،ساؤتھ افریقہ


بھلا کہے جسے دنیا اسے بھلا سمجھو
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

وارث علوم اعلیٰ حضرت نبیرہ حجۃ الاسلام جانشین حضور مفتی اعظم ہند شہزادہ حضور مفسر اعظم سیدی و سندی مرشدی و آقایء حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والاصفات محتاج تعارف نہیں، تاریخ اسلام کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ایسی بے شمار شخصیات نظر آتی ہیں جن کو اللہ رب العزت نے بے شمار فضل و کمال اور عزت و وقارسے نوازا ایسی ہی خداداد فضل و کمال کی حامل شخصیات میں امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت عظیم المرتبت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات والاصفات بھی ہے جو اپنے دور کی ایک بے مثال اور جامع فضل و کمالات شخصیت نظر آتی ہے ایسی جامع کمالات شخصیت کہ بہت دور دور تک ایسی جامع کمالات شخصیت کا پایا جانا مشکل ترین نظر آتا ہے جو بیک وقت صرف ایک فن یا ایک طرح کے علم میں ماہر نہیں بلکہ بیک وقت کئی علوم و فنون پر دسترس تامہ رکھتی تھی ساتھ ہی ساتھ آپ زہد و تقوی استقامت علی الدین اور محبت خدا و عشق رسول جیسی صفات سے متصف تھے اور آپ کا یہ طرہ امتیاز رہا کہ آپ فقیہ ابن فقیہ ابن فقیہ ،محدث ابن محدث ابن محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ولی ا بن ولی ابن ولی ہوئے۔

اور یہ رب قدیر کا فضل عظیم ہے کہ آپ کے خانوادے کی ہمہ جہات اور عظیم شخصیات میں وقت کے ایک عظیم فقیہ و محدث، زہد و ورع اور علم و عمل کے پیکر مجسم اور آپ کے علوم وفنون کے سچے جانشین منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئے جسے آج دنیا شیخ الاسلام و المسلمین حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے بہترین القابات سے جانتی اور پہچانتی ہے ، جو سیدی اعلیٰ حضرت کے علوم و فنون ، زھد و ورع، تقوی و استقامت علی الدین کے مظہر اتم ہیں، یہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل رہا کہ جو عزت و وقار اور مقبولیت عامہ دیگر بہت سے مقبولان خدا ورسول کو عمر کے اخیر حصے میں ملی وہ آپ کو اپنی جوانی کے ایام ہی میں ودیعت کر دی گئی ۔جس کی بہترین ترجمانی وقت کے عظیم فقیہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:’’حضرت مفتیٔ اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی زندگی کے آخری پچیس سالوں میں جو مقبولیت و ہر دل عزیز ی حاصل ہوئی وہ آپ کے وصال کے بعد ازہری میا ں(حضور تاج الشریعہ رحمۃاللہ علیہ) کو بڑی تیزی کے ساتھ ابتدائی سالوں ہی میں حاصل ہو گئی، اور بہت جلد لوگوں کے دلوں میں ازہری میاں نے اپنی جگہ بنا لی‘‘۔( تجلیات تاج الشریعہ ص68،مطبوعہ رضا اکیڈمی ،ممبئی ،انڈیا)

حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کی ہر دلعزیزی و مقبولیت عامہ جو کہ محبوب خدا و رسول عز و جل و صلی اللہ علیہ والہ و سلم ہونے کی روشن دلیل ہے، علماء و مشائخ عرب و عجم کی زبانی پیش خدمت ہےاور بھلا آپ پر رب العالمین کا فضل عظیم کیوں نہ ہو کہ آپ نے وقت کے ولی کامل حضور مفتی ٔاعظم ہند و مفسر اعظم ہند کے زیر تربیت شریعت و طریقت کی اعلیٰ منزلوں کو طے کر نےکا شرف حاصل کیا۔

حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ پر خصوصی طور پر ان مذکورہ دونوں اولیاء کاملین کی خاص توجہ و نوازشات کا اندازہ آپ اس بات سے اچھی طرح لگا سکتے ہیں جو ہمارے قصبے’’ پوکھریراشریف ،بہار‘‘ کے ایک جید باعمل عالم دین حضور مفتی شبیہ القادری مد ظلہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا حال جو حضور مفسر اعظم جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پرملال کے موقع پر وقوع پزیر ہوا کچھ اس طرح رقمطراز ہیں: ’’ اس وقت حضور مفتیٔ اعظم ہند اپنے رشد وہدایت کے محبوب اسفار پر ’’مظفر پور، بہار‘‘ کے’’ دارالعلوم کنہواں‘‘ میں تھے حضرت کے پابوسوں اور عقیدت کیشوں میں ایک میں بھی دریوزہ گر کرم حضور مفتیٔ اعظم ہند تھا ۔جیسے ہی حضرت جیلانی میاں رضی اللہ عنہ کے وصال کی خبر سرکار مفتی ٔاعظم ہند کے زیر سماعت آئی ایسا محسوس ہوا کہ غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں۔حضور مفتی اعظم ہند نے انا للّٰہ و انا الیہ راجعون کی تلاوت فرمائی اور فوراً کھڑےہو گئے اور نماز عصر ادا فرمائی اور زاد سفر بندھوا کر فوراً بریلی شریف کے لئے روانہ ہو گئے۔‘‘

غم کی شدت بھی کہنے کی نہیں اور خدا کی یاد بھی بھولنے کی نہیں، اویس قرنی کی شمع محبت سے جس کا دل روشن ہو جائے اس کے سامنے دنیا کا کوئی غم غم نہیں ہے بلکہ اس کے نفس نفس سےاللہ اللہ کی صدا نکلتی ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ:’’ ٹھیک بارہ بجے شب میں مسجد رضا بریلی شریف پہونچ گئے نوافل و فرائض ادا کرنے کے بعد محلہ خواجہ قطب میں جا کر تعزیت کی، اسی دوران میں خبر پرسی کرتے ہوئے کسی نے تذکرہ کیا کہ وارث علوم اعلیٰ حضرت علامہ اختر رضا خان (رحمۃ اللہ علیہ)کو حضور جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے علمی اور دینی سارےاثاثے کا امین و وارث بنا کر سارے سلاسل کی اجازت و خلافت بھی تجویز فرما دی ہے۔ حضور مفتیٔ اعظم ہند کے دل کی بات تھی حضرت نے ارشاد فرمایا : ’’الحمد للّٰہ‘‘

علامہ شبیہ القادری صاحب قبلہ مزید فرماتے ہیں:’’گرچہ اس زمانہ میں حضرت تاج الشریعہ (رحمۃ اللہ علیہ) مصر میں رفعت علوم کی منزلیں طے کر رہے تھے، کسی نے خوب کہا ہے

دور رہ کر بھی پاس ہے کوئی

اہتمام نظر کو کیا کہئے

حضور مفتیٔ اعظم ہند نے ’’الحمدللّٰہ ‘‘فرما کر حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرجع عالم، فقیہ اعظم شیخ الانام ،اہل زہد و تقویٰ کے امام ، خلوص و للہیت و دین متین کے پیکر،پاسدار شرع اسلاف کے عکس جمیل ہونے پر مہر لگا دی اور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے سارے صفحات حیات پر ایسا صاف و شفاف رنگ و روغن چڑھا دیا جو تا حشر مشک بار رہے گا۔حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اوپر رب قدیر کے فضل عظیم کا ذکر تحدیث نعمت کے طور پر کچھ اس طرح کرتے ہیں :

نگاہ مفتیٔ اعظم کی ہے یہ جلوہ گری
چمک رہا ہے جو اختر ؔہرار آنکھوں میں

آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور مقبولیت عام و خاص اور عظیم درجات پر فائز ھونے کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں محدث مکۃالمکرمہ شیخ سید محمد بن علوی عباسی مالکی نے اپنی ایک تقریر میں حضرت تاج الشریعہ دامت برکاتہم العالیہ کو محدث حنفی ، محدث عظیم، عالم کبیر وغیرہ القاب کے ساتھ یاد کیا اور کہا کہ:’’ میں حضور تاج الشریعہ (رحمۃاللہ علیہ) کو اس مقام پر فائز محسوس کرتا ہوں جس سے الفاظ و حروف کی تعبیر آشنا نہیں‘‘۔(تجلیات تاج الشریعہ)

مشہور و معروف مبلغ و مصنف مصری عالم دین شیخ خالد ثابت مصری اپنی کتاب انصاف الامام میں لکھتے ہیں: ’’ ترجمہ: میں نے شیخ کبیر اختر رضا ازھری (رحمۃ اللہ علیہ) کے چہرے کی طرف دیکھا اس حال میں کہ حسن و جمال ان کو گھیرے ہوئے ہے اور سکینہ ووقار ان پر غالب ہے، اور میں نےصحیح عربی زبان میں ان کے کلمات سنے جو حق مبین کو بلند کرتے ہوئے ان کے منہ سے قوت و ثقاہت کے ساتھ نکل رہے ہیں تو میں نے خود کو پایا کہ میں کہ رہا ہوں ’’سبحان اللہ، ذریۃبعضھا من بعد‘‘ایسی ذریت جس کا بعض بعض سے ہے۔

یہ ایک عربی محاورہ ہے جس کا مطلب ہوا کہ: حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اجداد کے فضل و کمال کے وارث و مظہراتم ہیں۔ (انصاف الامام، ص 167،ناشر، دارالمقطم ، قاہرہ)

یقیناً آپ علم و عمل، زہد و ورع، استقامت علی الدین اور پاسداریٔ شرع متین میں اپنے اسلاف کا عکس جمیل نظر آتے ہیں حق گوئی و بے باکی آپ کا اس دور پر فتن میں طرۂ امتیاز رہا، تبلیغ و ارشاد اورقوم مسلم کے ایمان و عقائد کی حفاظت کے معاملے میں آپ نے کبھی بھی کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنے فرض منصبی کو بحسن و خوبی سر انجام دیا ۔آپ کے فتویٰ نویسی کی ایک خاص صفت جس میں آپ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت کے عکس جمیل نظر آتے ہیں وہ ہے آپ کا غیر متبدل فتویٰ نویسی کا عظیم ملکہ جو یقیناً رب تعالیٰ کے فضل خاص سے آپ کے حصے میں آیاتھا۔

صرف آپ کے معاصرین علماء و مشائخ کرام ہی نہیں بلکہ آپ کے اکابرین نے بھی آپ کے، علم و فضل ، زہدو تقویٰ اور شریعت مطہرہ پر ثابت قدمی کو بسر و چشم سراہا اور آپ کو عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھنا باعث فخر سمجھا ہے ۔ جن میں سے محدث مرادآبادی( بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور)، حضور مجاہد ملت ،عظیم فقیہ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی وغیرہم کی ذوات قدسیہ قابل ذکرہیں۔

آپ کے وصال شریف کی خبر نے پورے عالم اسلام کو سوگوار کر دیا دنیا کے مختلف ممالک میں آپ کے ایصال ثواب اور تعزیت کی محافل منعقد ہوئیں۔ جن میں اہل علم و دانش ،علماء و صلحاء، کی عظیم جماعت کے زیر سایہ عوام اہل سنت و محبان تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے محسن و رہنما کی بارگاہ میں اپنے شکستہ دلوں اور بھیگی پلکوں کے سہارے خراج عقیدت پیش کرنے کا شرف حاصل کیا۔

دنیا بھر میں علماء کرام نے اپنےاپنے انداز میں اس نابغہ روز گار شخصیت یادگار اعلیٰ حضرت کی ذات والاصفات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ کے اوصاف جمیلہ سے عوام اہلسنت کو روشناس کرایا ۔عرب کے مختلف ممالک سے اجلہ علماء و شیوخ نے حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال پر تعزیتی پیغام بھیج کر اہل سنت کے اس عظیم خسارہ کا اظہار اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ جس کا تذکرہ یہاں طوالت مضمون کے پیش نظر مشکل ترین ہے۔

غرضیکہ عرب و عجم کے اجلہ علماء و مشائخ کی ایک کثیر تعداد ہے جنہوں نے آپ کے اوصاف جمیلہ اور فضائل و کمالات عظیمہ کو اپنے اپنے مخصوص انداز میں قلمبند کیا ہے جس کو پڑھنے کےبعد قارئین کے دلوں میں اس مرد قلندر جنہوں نے احقاق حق و ابطال باطل کا بے مثال اور لائق صد افتخار نمونہ پیش کیا۔اس کی محبت کا چراغ دل میں روشن ہوکر قلب و جگر کو دائمی سکون بخشتا محسوس ہوتا ہے۔بلا شک و ریب حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اجدادکرام کے فضل و کمال، زہدو ورع، علم و عمل کے مظہر اتم تھے۔ نور ولایت سے آپ کا رخ زیبا اتنا دلکش و پر ضیاء لگتا کہ زائرین بوقت زیارت بزبان حال یہ کہا کرتے تھے کہ۔۔۔ع

یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری

20اگست 2018ء شب ہفتہ بوقت اذانِ مغرب مرکز عقیدت مرکز اہل سنت و جماعت بریلی شریف میں ’’اللہ اکبر ‘‘کا ورد کرتے ہوئے اس عارف باللہ ولی کامل کروڑوں دلوں کی دھڑکن نے اپنے متعلقین ،متوسلین و مریدین اور عقیدت مندوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر داعی اجل کو لبیک کہا،

انا للّٰہ و انا الیہ راجعون

آپ اپنے وصال مبارک سے چند مہینوں قبل ایک شعر میں فرماتے ہیں :

دیکھنے والوں جی بھر کے دیکھو مجھے
پھر نہ کہنا کہ اختر میاں چل دیئے

کیا خبر تھی کہ آپ اپنے چاہنے والوں کو یہ کہ کر خبر دار کرنا چاہتے ہیں کہ اب وقت رخصت آنے والاہے موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو چھٹکارا نہیں یہ اور بات ہے کہ ہرموت برابر نہیں ہوتی جیسا کہ اس کی جانب استاذ زمن علامہ حسن رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر اشارہ کرتا ہے کہ :

جب تیری یاد میں دنیا سےگیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے

آپ علیہ الرحمہ اس مذکورہ شعر کے کامل مصداق اور اس کی مکمل تفسیر و تصویر نظر آئے وقت وصال ایسا لگا کہ یہ شعرگویا آپ ہی کے لئے کہا گیا ہے۔
واہ واہ سبحان اللہ موت ایسی کہ جس پر موت خود ناز کرے :

باوضو ہو کر ادب سے سن کے مغرب کی اذان
بول کر بے ساختہ اللہ اکبر چل دیئے

Menu