غموں کی شام آئی

مفتی محمدراحت خاں قادری،دار العلوم فیضان تاج الشریعہ، بریلی شریف، انڈیا


۶/ذی قعدہ۱۴۳۹ھ/۲۰/جولائی۲۰۱۸ءبروز جمعہ کو حضرت علامہ محمدرحمت اللہ صدیقی، مدیر اعلیٰ پیغام رضا ممبئی ہمارے یہاں مہمان تھے، گزرے ہوئے کل (جمعرات کے دن) ظہر کے بعد سے لے کر ہم لوگ(حضرت علامہ محمدرحمت اللہ صدیقی، مدیر اعلیٰ پیغام رضا ممبئی، حضرت علامہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نجم القادری، جامعہ رضویہ پٹنہ اور راقم محمد راحت خاں قادری) رات کو ساڑھے گیارہ بجے تک رضا نگر سوداگران مرشد کی گلیوں میں ایک ساتھ رہے اس دن حضورتاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی طبیعت میں افاقہ تھا اور عین مغرب کی اذان کے وقت حضرت اسپتال سے گھر تشریف لاچکے تھے۔ جانشین حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی محمد عسجد رضا خان قادری دامت برکاتہم العالیہ سے ہم لوگوں کی تین ملاقاتیں مرکزی دارالافتا میں ہوئیں اور مختلف مسائل پر گفتگو بھی ہوئی تھی ہم لوگ وہاں سے کل کو دوبارہ حاضر ہونے کے قصد سے رخصت ہوگئے۔

سیدالایام جمعہ کا مبارک دن تھا جو معمول کے مطابق گزر چکا تھا،مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد فوراً دیار مرشد میں حاضر ہونے کا پہلے سے ہی قصد تھا بعد عصر تقریباً مغرب سے آدھا گھنٹہ قبل مولانا محمد رحمت اللہ صدیقی صاحب نے حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم نشتر فاروقی ایڈیٹر ’’ ماہ نامہ سنی دنیا‘‘ بریلی شریف کو فون کرکے خیریت معلوم کی اور بعد مغرب اپنے حاضر ہونے کی خبر دی انھو ںنے سب خیریت بتائی اور کہا تشریف لائیں ہم منتظر ہیں۔ لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ آج کی شام ہمارے لیے دوسری شاموں کی طرح نہیں ہے بلکہ آج کی شام تو رنج و غم کی شام تھی، جی ہاں کسی کو خبر نہیں تھی کہ آج کی شام عالم اسلام پرغموں کا ایسا سیلاب آجائے گا۔

ہم لوگوں نے نماز مغرب باجماعت ادا کی جیسے ہی نماز پڑھ کر اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو سب سے پہلا فون ’’محترم محمد امین رضا خاں تحسینی‘‘ کا آیا جو مجھ سے یہ کہہ رہے تھے کہ: ’’لوگ حضور تاج الشریعہ دام ظلہٗ کے متعلق جھوٹی خبریں بہت اڑا رہے ہیں جس سے مریدین و معتقدین ڈر جاتے ہیں حضور عسجد میاں صاحب سے عرض کرکے اس متعلق سوشل میڈیا پر اعلان جاری کروا دیجئے تاکہ لوگ افواہوں سے پریشان نہ ہوں‘‘۔

میں نے کہا ہم لوگ تو دیار مرشد میں جا ہی رہے ہیں حضرت سے عرض کردیں گے ابھی ان کا فون کٹ نہیں پایا تھا کہ فونوں کا نہ رکنے والاسلسلہ شروع ہو گیا ابتداء میں تو دو چار لوگوںکو سختی سے منع کیا جب فون آنے کی کثرت ہوئی تو راقم (محمدراحت خاں قادری) مولانا محمد رحمت اللہ صدیقی کے ساتھ فوراً حضرت کے دولت کدہ کا قصد کرکے نکلا اب دل کی دھڑکنیں تیز ہوچکی تھیں طرح طرح کے خیالات آرہے تھے لیکن ان تمام باتوں کو جھوٹی افواہیں سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا کچھ آگے بڑھے تو روڈوں پرٹوپی والے لوگوں کی کثرت نظر آنے لگی جس سے تشویش میں اور اضافہ ہوا یہاں تک کے جب ہم بڑے بازار قطب خانہ روڈ پر پہنچے تو روڈ جام کی کیفیت اختیار کرچکا تھا حضرت کے گھر سے کافی دور بائک کھڑی کرکے حضرت کے دروازے پر پہنچے تو اب پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ہرایک کے غم گین اور مرجھائے ہوئے چہرے کسی عظیم حادثہ کی خبر دے رہے تھے وہاں سے ایک دوافراد سے تصدیق کے بعد فورا واپسی کا قصد کیا، اب تو روڈ سے پیدل چلنا بھی دشوار تھابہر حال دیکھتے ہی دیکھتے حضرت کے مریدین ومعتقدین، اعزا و اقربا اور خلفا و تلامذہ سے بریلی کی گلیاں اور سڑکیں بھر گئیں حضرت تو اس شعر کا مصداق بن کر:

اختر قادری خلد میں چل دیا
خلد وا ہے ہر اک قادری کے لیے

تاج الشریعہ

اپنی خالق حقیقی سے جاملے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اور ہم غلاموں کو روتا بلکتا غمگین چھوڑ گیے۔

’’مغرب سے قبل حضرت نے دلائل الخیرات شریف سنی اور پڑھی، چائے نوش فرمائی، حاجت سے فارغ ہوئے، خادمان کو وضو کروانے کا حکم دیا ان تمام چیزوں سے فارغ ہونے کے بعد بستر پر لیٹ گیے اپنے ہاتھ، پیروں کو سیدھا کیا مؤذن نے مغرب کی اذان پڑھنا شروع کی حضرت نے بھی اللہ اکبر اور اللہ، اللہ کی صدائیں بلند فرمائیں اور روح مبارک قفص عنصری سے پرواز کرگئی‘‘۔ (بروایت شہزادۂ تاج الشریعہ حضرت مفتی عسجدرضا خاں قادری، حضرت مفتی عبدالرحیم نشترفاروقی)

جمعہ کے دن ۶/ذی قعدہ۱۴۳۹ھ/۲۰/جولائی۲۰۱۸ءتاریخ تھی حضرت کا انتقال چونکہ جمعہ کا دن گزار کر غروب آفتاب کے بعد ہوا ہے اور چاند کی تاریخ غروب آفتاب کے بعد بدل جاتی ہے اس لحاظ سے حضرت کے وصال پر ملال کی تاریخ ۷/ذی قعدہ۱۴۳۹ھ تھی۔ اس حادثہ پرمریدین و معتقدین غم سے نڈھال رہے تو شہزادۂ تاج الشریعہ دام ظلہ کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے جملہ پس ماندگان مریدین و معتقدین و محبین خلفا و تلامذہ، احباو اقربا کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے حضرت کے درجات کو بلند فرمائے۔آمین

Menu