ایک عاشق رسول کا سفر آخرت

مولانا حسان المصطفیٰ قا دری ،گھوسی،انڈیا


شام ہی سے مو سم کا مزاج اداس تھا،آسمان پر با دلوں کے کا لے اور سرخ پہا ڑ بھی اپنی بے بسی کا اعلا ن کر رہے تھے ،ادھر جیسے ہی سورج اپنی روشنیوں سمیت روپو ش ہو ا،علم کے سور ج نے بھی اپنی کرنیں سمیٹنی شروع کر دیں۔اللہ تعالیٰ کے حکم :’’کل نفس ذائقۃ المو ت‘‘ کا اظہا ر اللہ کے ایک محبوب بندہ کے ذریعہ پھر ہو نے والاتھا،ملک الموت کو حکم دے دیا گیا ،بندہ بھی با وضو عشق رسالت میں سرشار ہو کر سرور کا ئنا ت ﷺ کے دیدار کی آرزوسجا ئے منتظر حکم الٰہی رہا۔فر شتۂ اجل نے جیسے ہی اجا زت طلب کی ،آ پ نے اللہ اکبر کہا اور رو ح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

ایک عر صہ تک دنیا کو اپنی روشنی سے منوروتاباں کرنے والاعلم کا آفتا ب وما ہتا ب دنیا کو تا ریک وبے سہارا کر کے ڈوب چکا تھا ۔ شام کے ٹھیک سات بج کر با رہ منٹ ہو ئے تھے ، جب اس ولیٔ کا مل نے اپنی روشن آنکھو ں کو ہمیشہ کے لئے بند کر لیاتھا ۔بیس جو لائی جمعہ کی وہ شام اہلسنت وجما عت پر غم واندوہ کا پہا ڑ بن کر ٹوٹی ،ہر طرف صف ماتم بچھ گئی تھی ،دیوا نو ں کی آنکھیں اشک با ر تھیں ،دل خو ن کے آنسو رو رہا تھا ۔حز ن وملا ل کی اس کیفیت سے آسما ن کی آنکھیں بھی برس پڑی تھیں ،معتقدین زار وقطا ر رو رہے تھے ،مریدین آہ وبکا کر رہے تھے ۔ ہما رے نین بھی سا ون بھا دوں برسا رہے تھے ،وا حسرتا ! شریعت کا علم بردا ر چلا گیا ،ہا ئے افسوس ! مسلک اعلیٰ حضرت کا پاسبا ن چلا گیا ۔ اب کون ہے جس پر امت محمد یہ اعتما د کرے ۔کو ن ہے جو ملت کی تطہیر اور حما یت حق کا فر یضہ انجا م دے ؟ کو ن ہے جسے دیکھ کر بے چین روح قرار پا ئے ۔اب کو ن ہے جسے لوگ اپنافیصل تسلیم کریں ؟ اب کس کے سائے میں فقہ کی گتھیاں سلجھیں ؟

وصال کی خبر جیسے ہی عام ہو ئی ،لوگو ں پر ایک عجیب سی کیفیت طا ری ہو گئی ،ہر طرف اداسی اورسو گو اری چھا گئی تھی ،جو جہاں تھا وہیں مغموم تھا ،یتیمی کی کیفیت سے سبھی دوچار تھے ۔چہا ر جا نب سے لوگ بریلی شریف کے لئے نکل پڑے تھے ،جو جہا ں تھا وہیں سے پابہ رکا ب تھا ۔اپنے محبوب کے دیدا ر کے لئے ہم بھی حضور محدث کبیر مد ظلہ کی معیت میں نکل پڑے تھے،چار گا ڑیوں کا ہما را قا فلہ طلوع فجر سے پہلے بریلی شریف پہنچ گیا تھا ۔جمعہ کی را ت ہی سے زیا رت کا سلسلہ جا ری تھا ،حضور تا ج الشریعہ کے دیدار کے لئے انسا نو ں کا ایک ہجو م امڈ پڑا تھا ،موسلا دھا ر با رش سے بھی عوام کے جذ با ت سرد نہیں ہو رہے تھے ،لوگ قطا ر درقطا ر آتے اور دیدا ر سے مشرف ہو کر دوسری طرف سے نکل جا تے ۔ہجو م کی کثرت کی وجہ سے لو گو ں کو حجرے میں آنے سے رو ک دیا گیا تھا اور کھڑ کیو ں کے ذریعہ ہی دیدا ر کی لذت سے قلب وجگر کو تسکین کا سامان فرا ہم کیا گیا ۔حضور کی زیا رت کے لئے لو گ گھنٹو ں پا نی میں کھڑے رہے ،اور کتنے ہی افرا د گھنٹوں انتظا ر کے با وجو د زیا رت سے محروم رہے ۔اکا برین ،سادات کرا م ،مشا ئخ عظا م بھی بڑی جدو جہد اور مشقت کے بعد اس در تک پہنچتے ،البتہ خواص کی رسا ئی اندر حضور کے کمرے تک تھی ۔زیا رت کے بعد حضور تا ج الشریعہ کے با رے میں لو گو ں کا یہ عام بیان تھا: ’’کہ حضور کا نو را نی چہرہ گلا ب کی طرح کھل رہا تھا ،ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ حضور ابھی آنکھیں کھو ل دیں گے ،ابھی کچھ بول دیں گے‘‘ ۔حضور محدث کبیر مدظلہ العالی بھی بریلی شریف پہنچ کر سب سے پہلے زیا رت کیلئے در دولت پرحا ضر ہو ئے ۔زیا رت کے بعد حضرت کا یہ تا ثر تھا : ’’ایسا معلو م ہو رہا تھا کہ حضور کے چہرۂ مبا رک سے نو ر کی با رش ہو رہی ہو ،چہرے سے بیما ری کی کیفیت بالکل عیاں نہیں ہو رہی تھی ،اس قدر خو ب  صورت نظر آرہے تھے گو یا کبھی بیما ر ہی نہ رہے ہوں۔‘‘

زیا رت کا یہ سلسلہ وقتاً فوقتاًموقوف ہو نے کے بعد اتوار کے رو زتک جا ری رہا ۔اسی دن طلوع فجر کے بعد تقریباً چار بج کر پینتا لیس منٹ پر غسل کا اہتمام کیا گیا ۔حضور تا ج الشریعہ علیہ الرحمۃ کی اہلیہ مکرمہ مخدومہ اما ں جی مدظلہا کے حکم سے جن افراد کو غسل میں شرکت کا حکم دیا گیا تھا ،وہ یہ ہیں : حضور محدث کبیر حضرت علا مہ مفتی ضیا ء المصطفیٰ قادری مدظلہ ،جانشین حضور تاج الشریعہ حضور علامہ عسجد رضا خا ں صاحب قبلہ،شہزادۂ امین شریعت حضرت علامہ سلما ن رضا خاں قادری ،دامادتاج الشریعہ حضرت علامہ منسوب رضا خا ں صاحب ،داما د شہزادۂ تا ج الشریعہ حضرت علا مہ عاشق حسین صاحب کشمیری ۔ان کے علا وہ انجینئر برہان میاں ،سید کیفی وغیرہ بھی موجو دتھے ۔حضور محدث کبیر نے اپنا جا نشین اپنے شہزا دہ حضرت علامہ مفتی جما ل مصطفیٰ قا دری صاحب کو مقرر کر دیا اور فر ما یا کہ میں حضور کو اس حا ل میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکو ں گا ۔غسل کے بعدحضورکو کفن زیب تن کیا گیا اور شیشہ کے غلا ف سے آراستہ فریزر بیڈپر حضور کے جسد مبا رک کو رکھ کر ،بیڈ کو آنگن میں کر دیا گیا ،تا کہ مخصوص لو گ زیا رت سے اپنی آنکھیںٹھنڈی کر سکیں۔

تقریباً سا ڑھے سات بجے خا ندان والوں نے اشک با ر آنکھوں اور مغموم دل کے ساتھ آخری دیدار کیا ۔آٹھ بج کر بیس منٹ پر ایک شور بلند ہوا ۔سسکیاں آہ وفغا ں میں تبدیل ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جنا زہ کا ندھو ں پر اٹھا لیا گیا ۔مستورات اور گھر والوں نے یتیمی کا احساس لئے ، دردو کرب کے عالم میں اپنے محبوب اور دنیا وآخرت کے سہا را کو آنسوؤں کے ساتھ رخصت کیا ۔جنا زہ کیا اٹھا ،علم کی ایک دنیا اٹھ گئی ۔لاکھو ں کا اژدھا م تھا ،علم کی یہ شمع تو کروڑوں دلوں کو منور کر کے بجھ گئی تھی ،لیکن پروا نوں کا ہجو م ویسا ہی تھا ۔علم کا یہ پہا ڑ کا ندھو ں سے ہو تے ہو ئے ازہری گیسٹ ہا ؤس کے مین گیٹ پر لا یا گیا ،یہاں سے جنا زہ مبا رک کو گا ڑی کے ذریعہ اسلا میہ انٹر کا لج لے جا نا تھا ،بہت ہی احتیا ط کے ساتھ جنا زہ کو گاڑی پر رکھا گیا ۔حضور علا مہ عسجد میاں صاحب،علامہ سلما ن رضا صاحب ،بر ہان میاں ،علا مہ عاشق حسین صاحب ،سلما ن حسن ، حسام میاں گا ڑی پر چڑھ کر جناز ہ کے چاروں طرف کھڑے ہو گئے ،اور دیوا نو ں کے ہجو م میں ایک عاشق صادق کا جنا زہ بہت ہی دھو م سے اپنی منز ل کی طرف روانہ ہو گیا ۔

نماز جنا زہ کے لئے ۱۰بجے کا وقت مقرر تھا ۔اسلامیہ انٹر کا لج کا وسیع میدان نما زجنا زہ کے لئے منتخب کیا گیا تھا ۔پورا شہر بریلی ابن آدم سے بھر چکا تھا ،اسلامیہ انٹر کا لج ،روڈ ،گلیاں ،آس پا س کے مکا نا ت کی چھتیں ۔اسلا میہ انٹر کا لج کے بغل میں راجکیہ انٹر کا لج ہے ،وہا ں بھی آدمیوں کا سیلا ب تھا ،بلکہ جسے جہاں جگہ ملی ،وہیںا س نے صف لگا لی۔بتایا جا تا ہے کہ کئی کلو میٹردور تک صف لگا ئی گئی تھی،بلکہ گا ڑیوں ،بسوں میں بھی لوگ صف بستہ کھڑے تھے۔اسلا میہ انٹر کا لج کے سامنے والے روڈ پر بھی انسا نو ں کی بھیڑ تھی ۔اس لئے جناز ہ کی گا ڑی کو کا لج کے اندر لے جا نے کی بجا ئے کالج کے سامنے پو لیس چو کی کے پا س ہی رو ک دیا گیا ،اورو ہیں جناز ہ رکھ کر نما ز پڑھا نے کا فیصلہ کیا گیا ،تا کہ میت سے آگے ہو نے والے لاکھو ں عقیدت مندوں کی نماز یں ضا ئع نہ ہوں ۔دیوا نو ں کے اژدھا م کی وجہ سے گا ڑی سے جنازہ اتا رنا انتہا ئی مشکل کام تھا ،اس لئے یہ فیصلہ ہوا کہ جنا زہ گا ڑی ہی پر رہنے دیا جا ئے ،اور کرا ہت دور کرنے کے لئے گا ڑی سے متصل ہی چھو ٹے ٹرک کے مثل ایک گا ڑی اور لگا دی جا ئے،جس پر امام کھڑا ہو جا ئے اور اس کے پیچھے ایک صف لگا دی جا ئے ،اس طرح کو ئی کراہت بھی نہ ہو گی اور جنا زہ اتا رنے کی مشقت اور بے ادبی سے بھی بچا جا سکے گا ۔دس بج کر پچاس منٹ پر جا نشین حضور تا ج الشریعہ حضور عسجد میاں صاحب نے نما زجنا زہ پڑھا ئی ۔لاکھو ں لو گو ںنے ما ئک کے بغیر حضور کی نما ز جنا زہ ادا کی ۔حضور کے جنا زے میں انسا نو ں کی تعدا دکتنی تھی ؟ یہ انداز ہ لگا نا بڑا مشکل ہے،البتہ جناز ہ کی تعداد پر واویلامچا نے والو ں کے لئے حضور نجیب میاں مدظلہ العالی کا یہ جوا ب ہمیںبہت پسند آیا ۔ آپ فر ما تے ہیں :کچھ لو گ کہتے ہیں کہ جنا زہ میں صرف لاکھ ،ڈیڑھ لاکھ لو گ پہنچے تھے۔ارے میاں سن لو! حضور تا ج الشریعہ کے جناز ہ میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ تو صرف حا سدین پہنچے تھے۔

نماز جنازہ کے بعد ایک مشکل ترین مرحلہ تد فین کا تھا ۔تدفین کے لئے ازہری گیسٹ ہا ؤس کا انتخا ب کیا گیا تھا ،ازہری گیسٹ ہا ؤس روضۂ اعلیٰ حضرت سے بالکل قریب ہے ۔حضور تا ج الشریعہ کی وصیت بھی تھی کہ میرا انتقا ل جہا ں کہیں بھی ہو ،میری قبر کسی ولی کا مل کے قریب بنا ئی جا ئے ۔یہ وصیت آپ کی پوری ہو ئی اور امام اہلسنت رضی اللہ عنہ کے جوا ر میں آپ کی آخری آرام گا ہ بنا ئی گئی ۔تقریباً با رہ بجے مقررہ جگہ پر جناز ہ لایا گیا ،سا ڑھے بارہ بجے تد فین کا عمل شروع ہو ا۔علا مہ عسجد رضا صاحب ،علامہ سلما ن رضا صاحب ،انجینئر بر ہا ن میاں صاحب قبر میں اترے ،اور علا مہ عاشق حسین صاحب ،مولانا سلما ن صاحب اور دیگر حضرات نے جسم مبا رک کو اٹھا کر قبرمیں اتا را ۔اورا س طرح سرور کا ئنا ت ﷺ کا ایک سچا عاشق ،علم کا کو ہ گراں ،شریعت ومسلک کا پاسباں ہم اہلسنت وجماعت کو تڑپتا ،بلکتا ، اور سسکتا چھوڑ کر آنکھو ں سے اوجھل ہو گیا ۔

ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر با ری کرے
حشر تک شان کریمی ناز بردا ری کرے

Menu