تاج الشریعہ کے خاندانی حالات

مولانا محمد حنیف خاں رضوی بریلوی


مورث اعلیٰ:

تاج الشریعہ کے مورث اعلیٰ جو سب سے پہلے ہندوستان آئے وہ شہزادہ سعید اللہ خاں ولی عہد ریاست قندھار(افغانستان)ہیں،آپ ہندوستان کے شہر لاہور میں(جواب پاکستان میںہے) آکر مقیم ہوئے۔(حیات اعلیٰ حضرت)

شجرۂ نسب:

شجرۂ نسب اس طرح ہے:تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خاںبن مفسر اعظم مولانا براہیم رضا خاںبن حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں بن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںبن ائیس الاتقیا مفتی نقی علی خاں بن امام العلمامولانا رضا علی خاںبن حافظ کاظم علی خاںبن محمد اعظم خاںبن سعادت یارخاںبن شہزادہ محمد سعید اللہ خاں (شجاعت جنگ)

سعید اللہ خاں کو حکومت مغلیہ کی طرف سے لاہور میں شیش محل دیا گیا اور شش ہزاری منصب بھی عطا ہوا۔(حیات اعلیٰ حضرت)

پھر آپ نے چنددن کے بعد دہلی کی طرف رخ کیا۔یہاں آپ کو’’ شجاعت جنگ‘‘ کا خطاب ملا۔
جب روہیل کھنڈ میں بغاوت کے آثار نمودار ہوئے تو باغیوں کی سرکوبی حکومت کی طرف سے آپ کے سپرد ہوئی، آپ نے یہاں آکر اس بغاوت کو ختم کیا تو حکومت کی طرف سے آپ کو بریلی میں رہنے کا حکم ملا اور آپ کو یہاں کا صوبے دار (گورنر)بنا دیا گیا۔اوریہاں آپ کو ایک جاگیر دی گئی تھی جس کا بڑا اور مشہور مقام دھنیلی تھا جو ضلع رام پور میں ہے۔(سیرت اعلیٰ حضرت)

آپ نے جب بڑھاپے کی وجہ سے ملازمت چھوڑ دی تو آخری عمریا د الٰہی میں گزاردی ۔جس میدان میں یاد الٰہی کے لیے آپ کا قیام تھا وہیں وصال کے بعد دفن ہوئے،بعد میں مسلمانوں نے اس میدان کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔آپ کی نسبت سے یہ قبرستان شہزادے کا تکیہ کہلاتا ہے اور محلہ معمار ان میں واقع ہے۔ (سیرت اعلیٰ حضرت)

آپ کے بیٹے سعادت یارخاں آپ کی حیات ہی میں دہلی حکومت کے وزیر مالیات(وزیر خزانہ)ہو چکے تھے ،آپ نہایت عزت کے ساتھ اس عہدہ پر فائز رہے اور پوری دیانت کے ساتھ اس عہدہ کو اعزاز بخشا۔دہلی میں آپ نے اپنی وزارت کی دو نشانیاں چھوڑ یں: ایک بازار سعادت گنج۔دوسری سعادت خاں نہر۔ (سیرت اعلیٰ حضرت)

آپ کے صاحبزادے محمد اعظم بھی حکومت کی طرف سے معزز عہدوں پر فائز ہوئے مگر آپ کی طبیعت میں فقیر ی اور بے نیازی تھی، لہذا آپ بہت جلد بریلی واپس آگئے اور عبادت و ریاضت اختیار کر لی،اپنے دادا جان حضرت سعید اللہ خاں کے مزار کے قریب گوشہ نشین ہو گئے اور یہیں آپ کا وصال ہوا۔ (حیات اعلیٰ حضرت)

آپ جن دنوں تکیہ معماران میں گوشہ نشین تھے اس زمانہ میں آپ کے بیٹے حافظ کاظم علی خاں بدایوں کے تحصیل دار تھے اور یہ عہدہ اِس زمانے کے ڈی۔ایم کے برابر تھا۔حافظ صاحب اپنے والد ماجد سے ملاقات کے لیے ہر جمعرات کو یہاں سلام کے لیے آتے اور گراں قدر رقم پیش کرتے تھے۔ایک مرتبہ جاڑے کے موسم میں آئے تو دیکھا کہ والد صاحب ایک دہرے کے پاس تشریف فرما ہیں اور کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے مگر آپ کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں،حافظ صاحب نے اپنی قیمتی چادر اتار کر آپ کو اڑھادی،آپ نے اس کو اتار کر آگ کے الاؤ میں ڈال دیا۔حافظ صاحب نے دل میں سوچا کہ یہ تو قیمتی چیز ضائع ہو گئی۔اس سے تو کسی غریب کو دے دیتا کہ اس کا بھلا ہو جاتا،یہ وسوسہ آنا تھا کہ حضرت محمد اعظم خاں نے آگ کے بھڑکتے شعلوں میں ہاتھ ڈال کر وہ چادر کھینچ لی اور فرمایا:’’کاظم‘‘لے اپنی چادر ،فقیر کے یہاں دھکّر پھکّر کا کام نہیں،دیکھا تو چادر بالکل صحیح سالم تھی ،آگ نے اس پر کچھ بھی اثر نہیں کیا تھا۔ (حیات اعلیٰ حضرت)

حافظ کاظم علی خاں صاحب جیسا کہ آپ نے پڑھا بدایوں کے تحصیل دار تھے،دوسوسواروں کی بٹالین خدمت میں رہتی تھی،آٹھ گاؤں جاگیر معافی میں ملے تھے جو آزادی ہند کے بعد ۱۹۵۴ء تک آپ کے خاندان میں رہے۔

آپ کے زمانہ میں مغلیہ سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور انگریزوں سے کچھ نوک جھونک شروع ہوگئی تھی،آپ چاہتے تھے کہ کسی طرح کوئی تصفیہ ہو جائے،اس کے لیے آپ نے کلکتہ کا سفر بھی کیاتھا۔

آپ حضرت مولانا انوار الحق فرنگی محلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مرید تھے جو اعلیٰ حضرت کے مرشد گرامی حضرت سیدنا شاہ آل رسول احمدی مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاذتھے۔

حافظ کاظم علی خاں صاحب کے دوصاحبزادے تھے،ایک مولانا رضا علی خاں ،دوسرے حکیم تقی علی خاں۔

حکیم تقی علی خاں نے فن طب میں مہارت حاصل کی اور ریاست جے پور میں طبیب خاص ہوئے۔

امام العلماء علامہ مفتی رضا علی خاں

مولانا رضا علی خاں(یہی اعلیٰ حضرت کے حقیقی دادا ہیں)آپ کی ولادت ۱۲۲۴ھ؍۱۸۰۹ء میں ہوئی۔شہرٹونک (راجستھان)میں مولوی خلیل الرحمن صاحب مرحوم و مغفور سے علوم دینیہ حاصل کر کے۲۲سال کی عمر میں فراغت حاصل کی ۔پھر مسند افتا کو رونق بخشی، اطراف واکناف میں شہرت حاصل کی،صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے،اس خاندان میں آپ ہی دولت علم دین لائے،تو اس خاندان کے ہاتھ سے تلوارچھوٹی اور تلوار کی جگہ قلم نے لے لی،اب اس خاندان کا رخ ملک کی حفاظت سے دین کی حمایت کی طرف ہوگیا۔ آپ نے عربی زبان میں جمعہ اورعیدین کے خطبے لکھے جو بعد میں انہوں نے اپنے شاگرد مولوی محمد حسن علمی کو دیدیے اور انہوں نے اردو اشعار اضافہ کر کے شائع کر دیے جو آج تک چھپ رہے ہیں۔

آپ شیخ المشائخ حضرت مولانا فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مرید تھے جو سلسلہ مجددیہ نقش بندیہ کے عظیم بزرگ تھے اور علم حدیث میں سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی کے تلمیذ رشید تھے۔

کرامات:
آپ صاحب کشف تھے ،آپ کی بعض کرامتیں یہ ہیں:

(۱) آپ کا گزر ایک مرتبہ بریلی شہر میں کوچہ سیتارام کی طرف سے ہوا ،ہولی کا زمانہ تھا،ایک ہندو عورت نے دو منزلہ سے ہولی کا رنگ آپ پر ڈال دیا،ایک مسلمان نوجوان نے اوپر چڑھ کر کچھ سختی کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا: بھائی اس پر کیوں تشدد کرتے ہو،اس نے مجھ پر رنگ ڈالا ہے خدا اس کو رنگ دے گا، یہ فرمانا تھا کہ وہ عورت قدموں پر آکر گرپڑی،معافی مانگی اور مسلمان ہوگئی،حضرت نے وہیں اس نوجوان کے ساتھ اس کا نکاح کردیا۔

(۲)حضرت کے رشتہ داروں میں ایک صاحب وارث علی خاں آزاد مزاج شخص تھے ،ایک مرتبہ حاضرخدمت ہوئے اور کچھ رقم بطور قرض مانگی،آپ نے رقم تو دیدی مگر ساتھ ہی فرمایا:اس کو بے جانہ خرچ کیا جائے،اقرار کیا اور چلے گئے۔مگر اسی روز ان روپیوں کو لے کر ایک طوائف کے یہاں چلے گئے،جب زینے پر پہنچے تو دیکھا کہ حضرت کا عصا اور چھتری رکھی ہے ، الٹے پاؤں واپس آئے۔دوسرے بالاخانے پر گئے وہاں بھی ایسا ہی دیکھا۔تیسرے بالاخانے پر پہنچے تو وہاں بھی یہی ماجرا تھا،آخر کار واپس آئے اور فوراً حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر سچے دل سے توبہ کی۔

(۳)۱۸۵۷ء کے بعد جب انگریز بریلی پر قابض ہو گئے تو انہوں نے مسلمانوں پر سخت ظلم کیے،لوگ ڈر کے مارے پریشان پھرتے تھے ،زمین دار لوگ تو اپنے مکان چھوڑ کر گاؤں وغیرہ چلے گئے لیکن آپ محلہ ذخیرہ جسولی میں اپنے مکان پر ہی مقیم رہے اور پنج وقتہ نمازیں مسجد میں ادا کرتے تھے،ایک دن آپ مسجد میں تھے کہ انگریزوں کا گزر اس طرف سے ہوا،انہوں نے سوچا کہ کوئی مسلمان مسجد میں ضرور ہوگا لاؤ اس کو پکڑ کر ماریں پیٹیں۔وہ اندر آئے پوری مسجد دیکھی کہیں کوئی نظر نہیں آیا حالانکہ آپ مسجد میں موجود تھے،اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اندھا کردیا۔

عادات وخصائل:

آپ بہترین واعظ اور خطیب تھے ،آپ کی تقریر دلوں پر اثر کرتی تھی،کسی سے باتیں کرتے تو نہایت نرمی سے کرتے،سلام میں پہل کرتے۔قناعت پسند تھے ،تواضع اور بردباری آپ کا شیوہ تھا،علم فقہ میں مہارت تامہ حاصل تھی۔

رد فرق باطلہ:ـ

مولوی اسمعیل دہلوی کی رسوائے زمانہ کتا ب ’’تقویۃ الایمان ‘‘جب منظر عام پر آئی تو بریلی میں آپ ہی کے حکم سے اس کا رد لکھا گیااور تمام بریلی کے علما ئے کرام سے اس کی تصدیق کرائی گئی،پھر کتابی شکل میں اس کو شائع کیا گیا ،اس مجموعے کانام ’’تصحیح الایمان رد تقویۃ الایمان‘‘رکھا گیا،اس کے مرتب آپ کے شاگرد ملک محمد علی خاں ہیں۔مطبوعہ نسخہ تو نایاب ہے البتہ قلمی نسخہ رضا لائبریری رامپور میں ہے۔ (حیات مفتی اعظم)

مرزا عبد الوحید بیگ لکھتے ہیں:

۱۷۷۴ء میں حافظ الملک حافظ رحمت خاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شہید ہو جا نے کے بعد روہیل کھنڈکا علاقہ شجاع الدولہ اور اس کے بیٹے آصف الدولہ کے قبضہ و اقتدار میں ۲۶سال رہا ۔روہیل کھنڈ کا مرکز بریلی تھا ،آصف الدولہ کے عہد حکومت میں بریلی شہر کے اندر رافضیت کو بہت فروغ ملا ،محلہ چھیپی ٹولہ میں کالا امام باڑا اور مسجد آصفیہ اسی زمانے کی یادگار ہیں ۔رافضیت کا فروغ اتنا ہوا کہ بہت سے غیر پختہ عقیدے والے سنی بھی تعزیہ کی طرف راغب ہو گئے اور انھوں نے بریلی کی جامع مسجد کے صحن کے برابر میں ایک سہ دری میں تعزیے اور علم رکھ دیے ۔حکیم مرزا حسن جان بیگ عہد آصفیہ کے خاتمہ پر جامع مسجد کے متولی ہوئے تو انھوں نے سہ دری میں تالا لگوا دیا تاکہ تعزیہ داری کی بدعت حدود مسجد میں نہ ہو سکے ،ان کے انتقال کے بعد مو لا نا مرزا مطیع بیگ برادرمولانا مرزا غلام قادر بیگ استاذ اعلیٰ حضرت جامع مسجد کے متولی ہو ئے تو انھوں نے امام العلما مو لا نا رضا علی خاں کی ہدایت کے مطابق سہ دری سے تعزیے اور علم الگ کر ا دیے اور اس سہ دری کا نام نبی خانہ رکھ دیا جس کا نام پہلے کے لوگوں نے امام باڑا رکھ دیا تھا ، شہر کے بعض جاہلوں نے متولی صاحب کے اس اقدام پر بہت شور مچا یا اور ان کو بد عقیدہ کہنا شروع کر دیا ،امام العلماکا بریلی کے عوام بڑا ادب و احترام کرتے تھے ،امام العلما نے رد بدعت اور رافضیت میں ایک فتویٰ جاری کیا اور تحریر فر ما یا کہ متولی کا اقدام درست ہے اور یہ سنی حنفی مسلک پر ہیں ،اس فتوے پر بریلی کے دوسرے علما نے بھی دستخط کیے ۔اس کے بعد امام العلما خود جامع مسجد تشریف لاتے تھے اور سہ دری جس کا نام نبی خانہ رکھ دیا گیا تھا اس میں محفل میلاد کا انعقاد ہر جمعرات کو کرتے اور اس میں وعظ فر ما تے ،آپ کے اس وعظ کی محفلوں کے ذریعہ بریلی کی جامع مسجد سے تعزیہ داری کا وبال ختم ہوا اور جہلا نے رافضیت سے توبہ کر لی۔(حیات مفتی اعظم ص۲۴)

جنگ آزادی میں نمایاں کردار :

آپ آزادی پسند تھے،انگریزی اقتدارکو بالکل پسند نہیں فرماتے تھے،علمائے کرام نے جب فتوی جہاددیا تو آپ نے اسکی بھر پور حمایت کی اور عوام کو انگریزوں کے خلاف طیار کیا ۔ مجاہدین کی پوری مدد کی۔مجاہدین کو گھوڑے پہنچانے میںآپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔

انگریزآپ کو بڑے بڑے حریت پسند علما کی صف میں شمارکرتے تھے،انگریز مورخ ملی سن لکھتا ہے:

برطانوی حکام جب تمام ہند پر قبضہ کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے تھے تو اس وقت فضل حق خیر آبادی ،احمد اللہ شاہ مدراسی ،امام بخش صہبائی اور رضا علی بریلوی جیسے مولوی تسلط کے خلاف اپنی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔

علمائے اہل سنت کے فتوی جہاد کا تمام ہندوستان میںاثر تھا،مگر کچھ انگریزوں کے دلال اور نجدی وہابی عقائد کے علم بردار اس کے خلاف تھے ۔خاص طور پر بریلی میں مولوی احسن نانوتوی جوبریلی کالج کے ملازم تھے ان کو امام العلما سے دشمنی تھی،اس لیے کہ آپ ہی کی تحریک پر بریلی میں تقویۃ الایمان کا رد لکھا گیا تھا اور بریلی بلکہ روہیل کھنڈ میںوہابیت دم توڑ چکی تھی۔ ان حالات میں جب کہ امام العلما انگریزوں کے خلاف میدان میں آچکے تھے احسن نانوتوی کو موقع اچھا لگاکہ فتوی جہاد کی مخالفت کر کے اپنے آقا انگریزوں کو خوش کیاجائے اور امام العلما کا اثر رسوخ بھی ختم کر دیا جائے۔یا پھر اگر میدان میںآئیں گے توانگریز کے ظلم کا شکار ہو کر دم توڑ دیں گے اور میدان صاف ہو جائے گا۔پھر وہابیت کے جراثیم پھیلانے کے مواقع خوب خوب میسر آئیں گے۔

یہ تمام چیزیں سوچ کر نا نوتوی نے پروگرام بنایا کہ بریلی کی نو محلہ مسجد میںجمعہ کے دن تقریر کی جائے جہاں مجمع بھی خوب بڑا ہوتا ہے۔

لہذا نانوتوی نے انگریزوںکی حمایت میں اور فتویٔ جہاد کے خلاف جمعہ میں تقریر کر ڈالی۔امام العلما نے بریلی کے عوام کو پیغام بھیج دیا کہ اس مولوی کا بائیکاٹ کردیا جائے ۔یہ پیغام اتنا پرُ اثر تھا کہ سارے شہر کے مسلمان اس کے خلاف ہو گئے بلکہ جان کے بھی دشمن بن گئے۔لہذانانوتوی صاحب کو جان بچاکر بریلی سے بھاگنا پڑا۔

پروفیسر ایوب قادری جواحسن نانوتوی کے سوانح نگار ہیں لکھتے ہیں :

اگرشہر کوتوال شیخ بدر الدین کی فہمائش پر مولانا بریلی نہ چھوڑتے تو ان کی جان کو بھی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔(سوانح احسن نانوتوی ،ص ۵)

اس کے بعد ایوب قادر ی نے لکھا ہے کہ:

پھر نانوتو کی تقریر کے ردعمل میں انگریزوں کے خلاف نومحلہ مسجد میں مولوی رحیم اللہ خاں نے عیدکے دن سخت تقریر کی جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت جوش پیدا ہو گیا۔ اس موقع پرجنرل بخت خاں بھی موجود تھے۔اسی موقع پر انگریزوں کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے جہاد کمیٹی بنائی گئی جس میں سر فہرست امام العلما مولانا رضا علی خاں کا نام رکھا گیا اور آپ کو سرپرست بنایا گیا اورجنرل بخت خاں کو مجاہدین کی فوج کا کمانڈر انچیف نامزد کیا گیا۔ خان بہادر خاں جو نواب حافظ رحمت خاں کے پوتے تھے وہ اس تمام کا روائی کے سربراہ تھے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب جنگ آزادی کا بگل بجا توہر جگہ انگریزوں سے جنگ چھڑ گئی مگر بریلی ہی ایسا مقام تھا جہاں انگریزوں کو شکست ہوئی، باقی مقامات کے حالات ناگفتہ بہ تھے ۔بہر حال بریلی کی فتح کے بعد امام العلما کی تجویز پر خان بہادر خاں کو بریلی کا حکمراں مقررکیا گیا اور ان کی تاج پوشی بریلی کے بازار چوک میں ہوئی۔ اس کے بعد جلد ہی پورے روہیل کھنڈ کو انگریزوں سے آزاد کرالیا گیا اور ایک مضبوط حکومت قائم ہو گئی۔

مگر یہ آزادی کا دور صرف ایک سال ہی رہا، ۲۱؍جون ۱۸۵۷ء میں بریلی فتح کیا گیا تھا۔ اور ۷جون ۱۸۵۸ء کو دو بارہ انگریزوں نے ہر طرف سے جمع ہوکر پوری طاقت سے حملہ کیااور بریلی ہر قبضہ کر لیا۔

قارئین اندازہ کریں کہ بریلی پر انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد کیا کیا ظلم ڈھائے ہوں گے،بتایا جاتا ہے کہ سیکڑوں لوگوں کو پھانسی دے دی گئی اور ان کی لاشوں کو درختوں پر لٹکا دیا گیا۔

امام العلما کی گرفتاری بلکہ آپ کا سر قلم کرنے پر انعام بھی رکھا گیا مگر یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا بندہ اپنے رب کی حفاظت میں رہا اور کوئی ان تک پہنچ ہی نہ سکا۔ آخر کا ر آپ کی ایک بڑی جائداد جو ضلع رام پور میں تھی جس کا مرکزی مقام دھنیلی تھا وہ ضبط کر لی گئی۔ (حیات مفتی اعظم ،ص۲۷)

وصال:

آپ کا وصال ۲؍جمادی الاولیٰ ۱۲۸۲ھ کو ہوا،سٹی قبرستان بریلی میں دفن ہوئے۔

رئیس الاتقیاء مفتی نقی علی خاں

ولادت وتعلیم:
آپ کی ولادت ۱۲۴۶ھ میں بریلی شہر کے محلہ ذخیرہ جسولی میں ہوئی۔
اپنے والد ماجد مولانا رضا علی خاں سے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کیے،کسی دوسری جگہ آپ کو علم حاصل کرنے کے لیے نہیں جانا پڑا۔
آپ جلیل القدر عالم و فاضل،گہری نگاہ رکھنے والے مفکر،بے مثال مصنف اور کامیاب مناظر تھے،ہندوستان کے جید علما میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا۔
اعلیٰ حضرت نے آپ کو تاج العلماء ،راس الفضلا،حامی سنت، ماحی بدعت،بقیۃ السلف ،حجۃ الخلف فرمایا۔اور ساتھ ہی تحریر کیا کہ فراست صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملہ میں جو فرمایا وہی ظہور میں آیا۔ اس کے علاوہ سخاوت، شجاعت، علو ہمت، کرم و مروت ،صدقات خفیہ، مبرات جلیہ،بلندی اقبال،دبدبہ و جلال،موالات فقرا،امردینی میں عدم مبالات اغنیا،حکام سے عزلت،رزق موروث پر قناعت وغیرہ ذلک۔
پھر فرمایا: مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ذات گرامی صفات کو خالق عز وجل نے حضرت سلطان رسالت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ کی غلامی وخدمت اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دشمنوں پر شدت وغلظت اور سختی کے لیے بنایا تھا۔(جواہر البیان)
رد فرق باطلہ:
رئیس الاتقیا مولانا نقی علی خاں نے خاص طور پر وہابیت کے رد و ابطال میںکتابیں لکھیں جن میں’’ اصول الرشاد‘‘۔’’ ازالۃ الاوہام‘‘۔’’ اور تزکیۃ الایقان رد تقویۃ الایمان‘‘ نہایت اہم ہیں ۔ آخر میںحضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تعلق سے احسن نانوتوی نے جب شش مثل کا شوشہ چھوڑا تو آپ نے اس کی سرکوبی میں پوری جرأت ایمانی کے ساتھ مقابلہ کیا اور آخر میں ایک مناظر ہ دینی’’اصلاح ذات بین‘‘کااعلان شائع فرمایا جس کے جواب میںنانوتوی اوراس کے حامیوں کی طرف سے خاموشی کے سوا کچھ بھی سامنے نہ آیا، پھر یہ فتنہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ (حیات مفتی اعظم ،ص۲۵)
آپ کے بہت سے کارناموں میں سب سے مشہور کارنامہ اعلیٰ حضرت جیسے جلیل القدر امام کی تعلیم و تربیت ہے جو صدیوں ان کا نام نامی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔
کرامت:
ایک بار بریلی میں بارش نہیں ہوئی مخلوق خدا بہت پریشان تھی، فصلیںتباہ برباد ہونے لگیں،جانوروں کے لیے چارہ میسر نہیں ہوتا تھا،خشک سالی کے باعث گرانی بہت بڑھ گئی تھی،مخلوق خدا اضطراب و بے قرار تھی ۔حضرت رئیس الاتقیا ء مرجع خلائق تھے، ایک روز اہل بریلی کثیرتعداد میں آپ کے دولت خانہ پرحاضرہوئے قحط کے باعث ہونے والی پریشانیوں کا آپ سے تذکرہ کر کے ملتجی ہوئے کہ حضور دعافرمادیں کہ بارش ہو جائے تاکہ قحط کی تباہی سے بچ سکیں۔
آپ نے فرمایا تم سب میرے ساتھ چلو، لہذا تمام لوگ آپ کے ہمراہ چلنے لگے، اہل شہر نے آپ کو سڑکوں پر پیدل چلتے نہ دیکھا تھا، لوگ تعجب سے دیکھنے گئے ہجوم آپ کے ساتھ تھا۔ لوگ ہجوم سے پوچھتے کہ ماجرہ کیا ہے ؟تو ہجوم جواب دیتا: حضرت بارش کے لیے دعا کرنے جا رہے ہیں ،جدھر سے حضرت گزرتے لوگ وجہ پوچھتے اور شامل ہجوم ہو جاتے۔
ایک مقام پر کسی غیر مسلم نے سنا کہ حضرت بارش کے لئے دعا کرنے جا رہے ہیں تواس نے پھبتی کسی کہ’’ میاں جب تک بارش نہ ہو واپس نہ لوٹنا ‘‘۔آپ راستہ طے کرتے ہوئے عید گاہ بریلی پہنچے ،وہاں پر پہنچ کر دیکھا گیا کہ مخلوق خدا کا ازدحام ہوگیا ہے ۔ شہر کے غیر مسلم بھی عید گاہ کے باہر اس نظارہ کو دیکھ رہے تھے۔
آپ نے عید گاہ میںمجمع کثیر کے ہمراہ نماز استسقا ادافرائی ۔ نماز ادا کرنے کے بعد جب آپ نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے تویکایک آسمان پر بادل چھاگئے ،ابھی دعا سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ بارش کا آغاز ہو گیا۔ دعا سے فارغ ہو کر مخلوق خدا اپنے اپنے گھروں کی طرف چلی ،اتنی بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ آپ مکان پر تشریف لائے۔ بارش رکنے کے بعد وہ غیر مسلم جس نے آپ پر پھبتی کسی تھی گھبرایا ہوا آیا اور آپ سے معافی کی درخواست کی ،آپ نے خدام سے فرمایا کہ کہہ دو! تمہارے کہنے کا ہم نے برا نہیں مانا تھا ،تم معانی کے خواستگار ہو تو کہہ دیتے ہیں معاف کیا۔اس روز کے بعد سے لگاتار بارش ہوتی رہی اور شہر و مواضعات کا قحط دورہوا۔ (حیات مفتی اعظم ص۴۲)
آپ اپنے خاندان اور احباب میں سلطان عقل مشہور تھے ،اور اعلیٰ حضرت کی والدہ وزیر عقل کہی جاتی تھیں۔والدہ کا نام ’’حسینی خانم‘‘تھا۔اورآپ مغلیہ خاندان کی بڑی غیور،انتہائی ہوش مند اور رائے صائب رکھنے والی خاتون تھیں۔
اعلیٰ حضرت کے نانا کا نام نواب اسفندر یار بیگ تھا۔آپ لکھنؤ کے رہنے والے تھے،پھر بریلی میں آکر آباد ہوگئے تھے۔
اعلیٰ حضرت کے والد ماجد امام المتکلمین ،خاتم المحققین،رئیس الاتقیاء،وغیرہاالقاب سے یاد کیے جاتے تھے۔ اعلیٰ حضرت نے آپ کی تصانیف کی تعداد ۲۵؍لکھی ہے۔
سوال: ان میں سے کچھ اہم اور مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں :
(۱)الکلام الاوضح(سورۂ الم نشرح کی تفسیر دوجلدیں)(۲) جواہر البیان (ارکان اسلام کی فضیلت میں)(۳) سرور القلوب (۴) اصول الرشاد(۵)ہدایۃ البریہ(۶)اذاقۃ الآثام(۷)احسن الوعا۔ یہ سب کتابیں امام احمد رضا اکیڈمی بریلی شریف سے چھپ گئی ہیں۔
آپ بریلی بلکہ روہیل کھنڈ کے عظیم مفتی تھے اور فتوی نویسی آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔
بیعت خلافت:
آپ مارہرہ مطہرہ میں آقائے نعمت ،دریائے رحمت،سید الواصلین، سند الکاملین،قطب اوانہ،امام زمانہ،حضور پر نور سیدنا شاہ آل رسول قدس سرہ سے بیعت ہوئے اور اسی وقت خلافت سے بھی نوازے گئے۔
مارہرہ شریف حاضری کے وقت اسٹیشن سے قصبہ جاتے ہوئے راستہ میں یکہ پلٹ گیا، آپ کے شدید چوٹ آئی اور کولہا اتر گیا۔مگر برکات مارہرہ سے وہیں ٹھیک بھی ہوگیا۔آپ۵؍جمادی الآخرہ ۱۲۹۴ء؍۱۸۷۷ء میںمارہرہ مطھرہ حاضر ہوئے۔
حج وزیارت:
آپ ۲۲؍شوال ۱۲۹۵ھ کو بیماری کی حالت میں ہی حج بیت اللہ اور زیارت روضہ انور کے لیے روانہ ہوئے،اعلیٰ حضرت ،آپ کی والدہ ماجدہ اور چند احباب ساتھ تھے۔ گھر سے روانہ ہوکر ممبئی پہنچے اور جہاز پر سوار ہوگئے ۔
آگے کا واقعہ خود بیان فرماتے ہیں:
ابھی جہاز نے چند ہی گھنٹے سفر طے کیاتھا کہ زور کاطوفان آگیا ، جہاز ڈگمگا نے لگا یہ دیکھ کر تمام مسافر پریشا ن ہوگئے ہوا کارخ اور طوفان کی شدت دیکھ کر ہر ایک کادل کانپ رہاتھا ،اسی اثنا میں جہاز کے کپتان نے اعلان بھی کردیا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر دعا کر ے اور جان کی حفاظت کرے ،جہاز میں پانی داخل ہوگیا ہے اور جہاز کے ڈوب جانے کا شدید اندیشہ ہے ،یہ اعلان سن کر سب کے سامنے موت کا منظر رقص کرنے لگا ،ایک دوسرے کاسب منھ تکنے لگے کچھ تودھاڑیں مارکر رونے لگے ،یہ حالات دیکھ کر میں بھی بے چین ہوگیا، اہل وعیال کی طرف دیکھ کر پریشانی سے چہرہ سوکھنے لگا ،میری پریشانی کا عالم دیکھ کر فرزند ارجمند مولوی احمدرضاخان نے مجھ سے اطمینان بخش لہجے میں کہا :ابا حضور! آپ قطعی پریشان نہ ہوں ،جہاز نہیں ڈوبے گا، میں نے حیرت سے پوچھا بیٹا وہ کیسے ؟کہا :ابا حضور! میں نے سر کاردوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف پڑھی ہے کہ جو مسافر سفر کی دعا پڑھ لے اور سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھ کر سواری پر سوار ہوتو واپس ہونے تک فرشتے ا ن کے لئے دعائے عافیت اور دعائے سلامتی کرتے رہتے ہیں، مسافر اللہ کی امان میں سفر کرتا ہے۔ الحمدللہ میں نے سفرکی دعا پڑھ لی ہے ۔
اعلیٰ حضرت کے والد ماجد فرماتے ہیں :اگرچہ میں نے بھی وہ دعا پڑھ لی تھی مگرگفت وشنید میں شہزادے کاانداز طمانیت اور سکونِ دل دیکھ کر میں حیرت میں پڑگیا اور اس نوخیز عمر میں حدیث پاک سے اتنی محبت اور اس پر اس درجہ مستحکم ایمان کاعالم دیکھ کر دنگ رہ گیا اور اللہ تعالیٰ کی پناہ، یکایک طوفان کازور پھر تیز ہوگیا ،اس منظر کو دیکھ کر سب کے رونگٹے پھر کھڑے ہو گئے اور سب کو یقین ہوگیا کہ اب جہاز ڈوب ہی جائے گا ،مولوی احمد رضاخان کے چہرے پر بے چینی کی کوئی لکیر اب بھی نہ دیکھی گئی بلکہ آنکھیں بند کرکے یہ شعر بلند آواز سے گنگنا نے لگے:
آنے دویا ڈبو دواب تو تمہاری جانب
کشتی تمہیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیے ہیں
میں نے دیکھا کہ دفعۃًاللہ نے کرم فرمایا، طوفان رک گیا اور رفتہ رفتہ جہاز بڑھا اور بڑھتا ہی چلاگیا، پھر رحمت الٰہی سے بآسانی جہاز ساحل تک بھی پہنچ گیا ،اس درجہ کم عمری میں مستحکم ایمان اور عمل بالسنتہ کاخوبصورت عکس مولوی احمدرضاخان میں دیکھ کر میں نے اس انمول نعمت پر اللہ کاشکر اداکیا ۔ (ماہنامہ الرضا بریلی )
حرمین شریفین زادہما اللہ تعالیٰ شرفاً و تعظیماً میںشیخ الاسلام حضرت علامہ سید احمد زینی دحلان مکی شافعی،شیخ حرم حضرت علامہ عبد الرحمن سراج حنفی،امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمل اللیل علیہم الرحمۃ والرضوان سے خاص طور پر ملاقات کا شرف حاصل رہا اور سندات حدیث و فقہ بھی ان حضرات سے حاصل کیں۔
وصال:
آخری ذی قعدہ ۱۲۹۷ھ بروز جمعرات ۵۱؍برس ۵؍ماہ کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: وصال کے دن صبح کی نماز پڑھ لی تھی اور ابھی ظہر کا وقت باقی تھا کہ وصال فرمایا۔ آخری وقت میں سب نے دیکھا کہ آنکھیں بندکیے متواتر سلام فرماتے تھے،جب چند سانس باقی رہے تو ہاتھوں کو اعضا ئے وضو پر یوں پھیرا جیسے وضو فرمارہے ہیں،اس طرح حالت بے ہوشی میں وہ اپنے طور پر نماز ظہر بھی ادا فرما گئے۔ جس وقت روح پا ک نے جدائی فرمائی فقیر سرہا نے حاضر تھا۔ واللہ العظیم!ایک نور علانیہ نظر آیا کہ سینے سے اٹھ کر چمک دار بجلی کی طرح چہرے پر دمکا اور جس طرح سورج کی کرنیں آئینے میں جنبش کرتی ہیں یہ حالت ہوکر غائب ہوگیا،اس کے ساتھ ہی روح بدن میں نہ تھی۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :آپ کی زبان فیض ترجمان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ’’اللہ‘‘تھا اور آخری تحریر’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘تھی جو ایک کاغذ پر وصال سے دو دن پہلے لکھی تھی۔
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:وصال کے بعد میںنے خواب میں دیکھا کہ حضورپرنور مرشد بر حق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت والد ماجد قدس سرہ الاماجد کے مرقد پر تشریف لائے،میں نے عرض کیا: حضور یہاں کہاں؟فرمایا:آج سے ۔یا اب سے یہیں رہا کریں گے۔’’رحمھما اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ‘‘
اعلیٰ حضرت نے آپ کی تاریخ ولادت اور وصال کی جو تاریخیں نکالی ہیں ان میں سے مختصر طور پر دو دو جملے یہ ہیں:
تاریخ ولادت ۱۲۴۶ھ ’’افضل سباق العلماء ، اقدم حذاق الکرماء‘‘۔
تاریخ وصال۱۲۹۷ھ ’’کان نھایۃ جمع العظماء ، خاتم اجلۃ الفقھا‘‘۔
اعلیٰ حضرت کے خاندانی افراد
اعلیٰ حضرت کے دادا امام العلما حضرت مولانا رضا علی خاں کے دوسرے بھائی رئیس الحکما حکیم محمدتقی علی خاں تھے جو بڑے بہادر اور فن طب میں خاص مہارت رکھتے تھے،آپ کا نکاح دہلی کے مشہور حکیم محمد واصل خاں کی صاحبزادی سے ہو اتھا،آپ مہاراجہ جے پور کے طبیب خاص تھے۔آپ کے چار لڑکے ہوئے:
(۱)مہدی علی خاں(۲)حکیم ہادی علی خاں(۳)فتح علی خاں(۴)فدا علیٰ خاں
ان میں مہدی علی خاں کا نکاح مولانا رضا علی خاں کی صاحبزادی یعنی اعلیٰ حضرت کی پھوپھی سے ہوا۔ان کے بیٹے احمد حسن خاں تھے۔
دوسرے بیٹے حکیم ہادی علی خاں کانکاح ریاست ٹونک میں عبد العلیم خاں کی لڑکی سے ہوا جن سے چار اولاد یں ہوئی۔
(۱)ہدایت علی خاں(۲)سردار ولی خاں(۳)محبوب علی خاں(۴)صدیق النساء بیگم
تیسرے بیٹے فتح علی خاں کی اولاد میں سات افراد:
(۱)فرحت علی خاں(۲)امراؤ ولی خاں (۳)اصغر علی خاں اور چارلڑکیاں۔
چوتھے بیٹے فدا علی خاں کی اولاد میں پانچ اشخاص:
(۱)فراست علی خاں(۲)مصاحب بیگم(۳)قادری بیگم(۴)حیدری بیگم(۵) ایک اور بیٹی۔
احمد حسن خاں کے دو بیٹے تھے،نور الحسن خاں۔ابو الحسن خاں۔
نور الحسن کی بیٹی زبیدہ بیگم اشفاق علی خاں کی زوجہ تھیں۔اور ابوالحسن خاں کے بیٹے محمد حسن خاں عرف مچھن میاں تھے اور بیٹی زہرہ بیگم زوجہ اعجاز ولی خاں ۔
حکیم ہادی علی خاں کے بیٹے سردار ولی خاں کے چھ اولادیں ہوئیں:
چار بیٹے:(۱) مولوی تقدس علی خاں(۲) مولوی اعجاز ولی خاں(۳) عبد العلی خاں (۴)مقدس علی خاں ۔ دوبیٹیاں (۱)حمیدہ فاطمہ(۲)محبوب فاطمہ
دوسرے بیٹے ہدایت علی خاں کے ایک بیٹے ریاست علی خاں تھے۔
تیسرے بیٹے محبوب علی خاں لاولد رہے۔
فتح علی خاں کے بیٹے امراؤ ولی خاں کے ایک بیٹے حفاظت علی خاں تھے جن کے دو اولاد ہوئی:(۱)سردار علی خاں۔سردار بیگم
فرحت علی خاں کے چار بیٹے ہوئے:(۱)محمد ولی خاں (۲)شرافت علی خاں(۳)شہزاد علی خاں(۴) فاروق علی خاں
فدا علی خاں کے ایک بیٹے فراست علی خاں تھے اور چار بیٹیاں ۔
حافظ کاظم علی خاں(اعلیٰ حضرت کے پردادا)کی ایک صاحبزادی زینت بیگم تھیں جن کا عقد محمد حیات خاں سے ہوا تھا۔یہ یوسف زئی قبیلے سے تھے، ان کے دو بیٹے تھے: نعمت علی خاں عرف بزرگ علی خاں(۲)کو چک علی خاں۔
نعمت علی خاں کے بیٹے حاجی وارث علی خاں تھے جن کا عقد اعلی حضرت کی بڑی بہن حجاب بیگم سے ہوا،ان کے دو بیٹے حاجی واجد علی خاں اور شاہد علی خاں تھے،اور تین بیٹیاں تھیں(۱) کنیز خدیجہ ،یہ علی احمد خاں کی زوجہ ہیں(۲)کنیز عائشہ۔یہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خاں کی زوجہ ہیں(۳) کنیز فاطمہ
رئیس الاتقیا مفتی نقی علی خاں کی شادی نواب اسفندریار بیگ کی صاحبزادی حسینی خانم سے ہوئی۔آپ کے تین بیٹے تھے:(۱) اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں(۲)استاذ زمن مولانا حسن رضا خاں(۳)مولانا محمد رضا خاں۔اور تین ہی بیٹیاں تھیں(۱)حجاب بیگم۔ان کا نکاح حاجی وارث علی خاں سے ہوا۔(۲)احمدی بیگم۔یہ شاہ ایران خان کے نکاح میں آئیں۔ (۳)محمدی بیگم یہ کفایت خاں کی زوجہ تھیں۔
اعلیٰ حضرت کی ولادت اوربچپن
اعلیٰ حضرت ۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۴؍جوب۱۸۵۶ء موافق ۱۱؍جیٹھ سدی۱۹۱۳؍ سمبت کو بروز ہفتہ ظہر کے وقت بریلی شہر کے محلہ جسولی میں ہوئی۔
پیدائشی نام’’محمد‘‘رکھا گیا اور دادا حضور نے آپ کا نام عرفی’’احمدرضا‘‘ تجویز فرمایا۔تاریخی نام’’المختار‘‘ہے جس سے ۱۲۷۲ کا عدد نکلتا ہے۔گھروالے آپ کو’’امّن میاں‘‘کے نام سے پکارتے تھے۔
اعلیٰ حضرت نے خود اپنی سنہ پیدائش قرآن کریم کی آیت {اولئک کتب فی قلوبھم الایمان و أیدھم بروح منہ} سے نکالی جس کے عدد ۱۲۷۲ ہوتے ہیں۔
اس آیت کا ترجمہ اور مطلب ہے کہ ’’ یہی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش کر دیا ہے اور اپنی طرف سے روح کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی‘‘۔آپ کے دادا حضور نے عقیقہ کے دن ایک اچھا خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ فرزند فاضل و عارف ہوگا۔آپ کی پیدائش کے وقت آفتاب منزل غفر میں تھا جس کو مبارک ساعت سمجھا جاتا ہے۔
تعلیم وتربیت:
پہلے دن جب بسم اللہ شریف کے بعد آپ کو استاذ محترم الف،ب،ت پڑھاتے ہوئے’’لا‘‘تک پہنچے تو آپ خاموش ہوگئے،استاذ نے فرمایا:کہو،لام الف،آپ نے عرض کیا:یہ دونوں تو میں پڑھ چکا ،اس کو دوبارہ کیوں پڑھایا جا رہا ہے ،آپ کے دادا حضور بھی اس مجلس میںتھے وہ سمجھ گئے کہ بچہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ تنہا تنہا حروف پڑھانے کا سبق ہے، اس میں یہ دو حرفوں والا لفظ کیسے آگیا جب کہ میں ان دونوں حرفوں کو علاحدہ علاحدہ پڑھ چکا ہوں، لہذا دادا حضور نے فرمایا:بیٹاتمہارا خیال صحیح ہے،مگر جو تم نے پہلے پڑھا وہ الف نہیں تھا،ہمزہ تھا ،کیونکہ الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے جو کسی کے ساتھ مل کر پڑھا جاتا ہے، لہذا لام کے ساتھ اس کو ملادیا تاکہ اس کو پڑھا جا سکے۔
آپ نے عرض کیا :جب الف ساکن ہوتا ہے تو اس کو لام کے ساتھ اتنی دور آکر کیوں ملا یا؟اس سے پہلے با،تا،ثا وغیرہ گزرے ان میں سے کسی کے ساتھ ملادیا جاتا۔
دادا حضور نے جواب دیا: بیٹا!الف اور لام میںصورت اور سیرت دونوں اعتبار سے مماثلت ہے ،اس لیے اس کے ساتھ ملادیا۔آپ نے فرمایا جب دونوں کو ملا کر لکھتے ہیں تو دونوں کے شوشے بسااوقات یکساں ہوتے ہیں ،جیسے : لا،لا
پھر سیرت کے اعتبار دونوں میں مماثلت اور قلبی تعلق کواس طرح بیان فرمایا: کہ جب’’الف،لام،لکھوپھر دیکھو الف کے درمیان میں لام ہے اور لام کے بیچ میں الف،یہ دونوں میں قلبی تعلق ہے ،اس لیے یہاں الف کو لام کے ساتھ ملاکر لکھا گیا۔
سبحان اللہ!یہ سبق پہلے دن کا تھا جس سے آپ کی ذہانت اور دادا حضور کے معارف علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
(حیات اعلیٰ حضرت)
ایک دن ایسا ہوا کہ استاد نے قرآن کریم میں ایک جگہ کچھ اعراب بتایا مگر آپ نے اس کے خلاف پڑھا۔انہوں نے دو بارہ سخت لہجہ میں بتایا،آپ نے پھر پہلے کی طرح پڑھا۔قریب کمرہ میں دادا حضور تشریف رکھتے تھے،آپ کو اپنے پاس بلالیا ،چونکہ آپ کو بھی غلطی محسوس ہو رہی تھی لہذا دوسرا قرآن کریم منگا کر دیکھا،دونو ںکو ملاکر واضح ہوا کہ کاتب کی غلطی سے زیر کا زبر ہو گیا ہے اور صحیح زیر ہے جو بچہ پڑھ رہا تھا۔
پھر داد ا حضور نے فرمایا: امن میاں!تم یہ بتاؤ کہ تم استاد کے کہنے مطابق کیوں نہیں پڑھ رہے تھے ۔آپ نے عرض کیا:میں ارادہ تو کرتا تھا مگر زبان پر جاری ہی نہیں ہوتا تھا۔یہ سن کر دادا حضور نے تبسم فرماکر سر پر ہاتھ پھیرا اور دل سے دعا دی۔
پھر فرمایا:یہ بچہ صحیح پڑھ رہا تھا ،کاتب نے غلط لکھ دیا تھا،پھر اپنے قلم فیض رقم سے اس کی تصحیح فرمادی۔
آپ کی تعلیم کے دوران ایسے حیرت ناک واقعات دیکھ کر ایک دن استاذ محترم نے تنہائی میں پوچھا:صاحبزادے سچ سچ بتادو میں کسی سے کہوں گا نہیں کہ تم انسان ہو یا فرشتہ؟آپ نے عرض کیا:خدا کا شکر ہے کہ میں انسان ہی ہوں،اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شامل حال ہے۔
آپ کی درسگاہ میں آنے والے بچے نے ایک دن سلام کیا تو استاد نے جواب میں کہا:جیتے رہو،آپ نے کہا یہ تو جواب نہ ہوا،آپ بھی السلام علیکم کے جواب میں وعلیکم السلام کہیے،استاد یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔
آپ نے ۴؍سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل پڑھ لیا تھا۔چھ سال کی عمر میں پونے دو گھنٹے تقریر فرمائی۔
آپ بچپن میںبچوں کے ساتھ نہ کھیلتے،محلہ کے بچے اگر گھر میں آکر کبھی کھیلنے لگتے تو ان کے کھیل میں کبھی شریک نہ ہوتے صرف دیکھا کرتے۔
آپ کے زمانے میں بچوں میں پتنگ اڑانے کا عام رواج تھا،آپ پتنگ کبھی نہ اڑاتے،اتفاق سے کٹی ہوئی پتنگ گھر کے آنگن میں آکر گرجاتی تو اس کو اٹھاتے اور والد صاحب کے پلنگ کے نیچے رکھ دیتے ،والد صاحب آتے اور دیکھتے تو پوچھتے یہ پتنگ یہاں کس نے رکھی ہے ،عرض کیا جاتا: امن میاں نے رکھی ہے، یہ سن کر فرماتے،انہوں نے پتنگ خود نہ اڑائی،میرے اڑانے کے لیے رکھ دی،پھر فرماتے :ہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں کھیل کود کے لیے پیداہی نہیں فرمایا۔
آپ کی زبان کھلی تو صاف تھی،بچوں کی طرح کج مج نہ تھی ،غلط الفاظ آپ کی زبان سے سنے ہی نہ گئے۔آپ کے بچپن کی یہ عادت تھی کہ اجنبی عورتیں نظر آجاتیں تو کرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپا لیتے،یہ تھا فطری تقوے کا مظاہرہ۔
بچپن میں آپ سے متعلق بزرگوں کی پیشین گوئیاں :
پہلا واقعہـ :جب آپ کی پیدائش کے بعد آپ کے دادا حضورکی گود میں آپ کو دیا گیا تو فرمایا:یہ میرا بیٹا بہت بڑا عالم ہوگا۔
دوسرا واقعہ:ایک دن کسی نے آپ کے دروازہ پر آواز دی،اعلیٰ حضرت کی عمر اس وقت دس سال کی قریب تھی،آپ باہر تشریف لے گئے،دیکھا کہ ایک بزرگ فقیر صفت کھڑے ہیں،آپ کو دیکھتے ہی فرمایا: آؤ اور سرپر ہاتھ پھیراپھر فرمایا:تم بہت بڑے عالم ہوگے۔
تیسرا واقعہ:بچپن کے زمانہ میں آپ کی ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی،انہوں نے آپ کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کئی مرتبہ غور سے دیکھا پھر فرمایا: تم رضا علی خاں صاحب کے کون ہو؟،آپ نے جواب دیا:میں ان کا پوتا ہوں،فرمایا: جبھی ،یہ فرماکر فوراً تشریف لے گئے۔
چوتھا واقعہ:اعلیٰ حضرت خود بیان فرماتے ہیں کہ میں اپنی مسجد کے سامنے کھڑا تھا، اس وقت میری عمر ساڑھے تین سال کی ہوگی،میں نے دیکھا کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے،معلوم ہوتا تھا کہ عربی ہیں،مجھ سے عربی زبان میںبات چیت کی،میں نے بھی عربی زبان میں جواب دیے،میں نے اس کے بعد پھر اس بزرگ ہستی کو نہ دیکھا ۔
پانچواں واقعہ:بریلی شہر اخوندزادہ مسجد میں ایک مجذوب رہا کرتے تھے۔بشیر الدین ان کا نام تھا ،جو کوئی ان کے پاس جاتا کم سے کم پچاس گالیاں اس کو سناتے تھے ،اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:مجھے ان کی خدمت میں حاضری کا شوق ہوا،ایک رات گیارہ بجے اکیلا ان کی خدمت میںجا پہنچا اور فرش پر جا کر بیٹھ گیا،وہ حجرے میں چار پائی پر بیٹھے تھے،مجھے بغور پندرہ بیس منٹ دیکھتے رہے اور پھر مجھ سے پوچھا:تم مولوی رضا علی خاں کے کون ہو؟میں نے کہا:میں ان کا پوتا ہوں،فوراً وہاں سے جھپٹے اور مجھے اٹھا کر لے گئے اور چار پائی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: آپ یہاں تشریف رکھیے،پھر پوچھا کیا مقدمہ کے لیے آئے ہو؟میں نے کہا:مقدمہ تو ہے لیکن میں اس کے لیے نہیں آیا ہوں،میں تو صرف دعائے مغفرت کرانے کے لیے حاضر ہواہوں،قریب آدھے گھنٹے تک کہتے رہے:اللہ کرم کرے،اللہ کرم کرے، اللہ کرم کرے۔اللہ رحم کرے،اللہ رحم کرے،اللہ رحم کرے۔
اس کے بعد میرے منجھلے بھائی مولوی حسن رضا خاں ان کے پاس مقدمہ کے لیے حاضر ہوئے تو ان سے بھی خود ہی پوچھا:کیا مقدمے کے لیے آئے ہو؟انہوں نے عرض کیا:جی ہاں،فرمایا: مولوی صاحب سے کہنا:قرآن شریف میں یہ بھی تو ہے:(نصر من اللہ و فتح قریب)۔بس دوسرے ہی دن مقدمہ فتح ہوگیا۔
تقریب روزہ کشائی:
آپ کے روزہ کھولنے کی تقریب بڑے دھوم دھام سے ہوئی،سارے خاندان اور احباب کی دعوتیں ہوئیں، کھانے پکے،افطار یاں بنیں،ان میں فیرنی بھی تھی جس کے پیالے ایک کمرے میں جمانے کے لیے رکھے گئے تھے،رمضان المبارک گرمی کے زمانے میں تھے،آپ نے اپنی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا حالانکہ آپ کی عمر بہت چھوٹی سی تھی،ٹھیک دوپہر کے وقت چہرہ ٔمبارک پر ہوائیاں اڑنے لگیں،آپ کے والد ماجد نے دیکھا تو اس کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کر دیے،پھر ایک پیالہ فیرنی کا اٹھا کر دیا کہ لو کھالو،آپ نے عرض کیا:میرا تو روزہ ہے ،انہوں نے فرمایا:چھوٹے بچوں کے روزے یوں ہی ہوتے ہیں،کمرہ بالکل بند ہے کوئی نہیں دیکھ رہا ،تم یہ کھالو،آپ نے عرض کیا:جس کے لیے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے ۔یہ سن کر والد ماجد کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ بچہ خدا کے عہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔
تعلیم کی طرف قلبی میلان:
آپ بغیر کسی تقاضے کے خود برابر پڑھنے کے لیے اپنی درسگاہ میں حاضری دیتے اور کبھی ناغہ نہیں کرتے ،جمعہ کے دن بھی پڑھنا چاہا تو والد ماجد کے منع فرمانے سے رُک گئے۔قرآن پاک اور ابتدائی اردو تو ایک صاحب نے پڑھائی جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا البتہ درس نظامی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ سے حاصل کی جو آپ کے والد ماجد کے دوست اور بڑے متقی و پرہیز گار عالم تھے۔
اس کے بعد والد ماجد نے آپ کی تعلیم اپنے ذمہ لے لی جو عظیم عالم زبردست مفتی اور مصنف تھے پھر مکمل تعلیم والد ماجد ہی سے حاصل کی۔
آپ کے والد ماجد آپ کو درسی کتاب پوری نہ پڑھاتے بلکہ جب وہ یہ دیکھتے کہ امن میاں مصنف کے طرز تحریر اور طریقے سے خوب واقف ہو گئے ہیں اور اپنا سارا سبق مطالعہ میں نکال لیتے ہیں تو اس کتاب میں اگر کچھ مشکل مقامات ہوتے تو ان پر عبور کرا دیتے اور پھر دوسری کتاب شروع کرادیتے۔شاید ہی کوئی کتاب پوری پڑھی ہو۔
ازدواجی زندگی:
اعلیٰ حضرت کی شادی کے بارے میںحضرت مولانا حسنین رضا خاں صاحب لکھتے ہیں:
تعلیم مکمل ہوجانے کے بعد اعلیٰ حضرت قبلہ کی شادی کا نمبر آیا ،ہمارے نا نا فضل حسن صاحب کی منجھلی صاحبزادی سے نسبت قرار پائی ،شرعی پابندیوں کے ساتھ شادی ہو گئی ،یہ ہماری محترمہ اما جان رشتے میں اعلیٰ حضرت قبلہ کی پھوپھی زادی تھیں ،صوم و صلاۃ کی سختی سے پابند تھیں ۔نہایت خوش اخلاق ،بڑی سیر چشم ،انتہائی مہمان نواز ،نہایت متین اور سنجیدہ بی بی تھیں ۔اعلیٰ حضرت قبلہ کے یہاں مہمانوں کی بڑی آمد رہتی تھی ،ایسا بھی ہوا کہ عین کھانے کے وقت ریل سے مہمان اتر آئے اور جو کچھ کھانا پکنا تھا وہ سب پک چکا تھا ،اب پکانے والیوں نے ناک بھوں سمیٹی ،آپ نے فوراً مہمانوں کے لیے کھانا اتار کر باہر بھیج دیا اور سارے گھر کے لیے دال چاول یا کھچڑی پکنے کو رکھوا دی گئی کہ اس کا پکنا کو ئی دشوار کام نہ تھا ،جب تک مہمانوں نے باہر کھانا کھایا گھر والوں کے لیے بھی کھانا تیار ہو گیا ،کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو ئی کہ کیا ہوا ۔اعلیٰ حضرت قبلہ کی ضروری خدمات وہ اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں خصوصاً اعلیٰ حضرت کے سر میں تیل ملنا یہ ان کا روز مرہ کا کام تھا جس میں کم و بیش آدھا گھنٹا کھڑا رہنا پڑتا تھا ،اور اس شان سے تیل جذب کیا جا تا تھا کہ ان کے لکھنے میں اصلاً فرق نہ پڑے ،یہ عمل ان کا روزانہ مسلسل تا حیات اعلیٰ حضرت برابر جاری ،سارے گھر کا نظم اور مہمان نوازی کا عظیم بار بڑی خاموشی اور صبر و استقلال سے برداشت کر گئیں۔اعلیٰ حضرت قبلہ کے وصال کے بعد بھی کئی سال زندہ رہیں مگر اب بجز یاد الٰہی انہیں اور کوئی کام نہ رہا تھا ۔اعلیٰ حضرت قبلہ کے گھر کے لیے ان کا انتخاب بڑا کامیاب تھا ۔رب العزت نے اعلیٰ حضرت قبلہ کی دینی خدمات کے لیے جو آسانیاں عطا فر مائی تھیں ان آسانیوں میں ایک بڑی چیز اما ںجان کی ذات گرامی تھی۔قرآن پاک میں رب العزت نے اپنے بندوں کو دعائیں اور مناجاتیں بھی عطا فر ما ئی ہیں تا کہ بندوں کو اپنے رب سے مانگنے کا سلیقہ آ جا ئے ،ان میں سے ایک دعا یہ بھی ہے ’’ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ و قنا عذاب النار ‘‘ہمارے پر وردگار ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور جہنم کے عذاب سے بچا ۔
تو دنیا کی بھلائی سے بعض مفسرین نے ایک پاک دامن ہمدرد اور شوہر کی جاں نثار بیوی مراد لی ہے ۔ہماری اما جان عمر بھر اس دعا کا پورا اثر معلوم ہو تی رہیں ۔اپنے دیوروں اور نندوں کی اولاد سے بھی اپنے بچوں جیسی محبت فر ما تی تھیں ،گھرانے کے اکثر بچے انہیں اما جان ہی کہتے تھے ۔اب کہاں ایسی پاک ہستیاں (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہا و علیٰ بعلہا وابنیہا )
(سیرت اعلیٰ حضرت۴۹،۵۰)
فراغت اور فتویٰ نویسی:
آپ ۱۳؍سال ۱۰؍ماہ اور ۵؍دن کی عمر میں فاضل اجل اور عظیم عالم و مفتی ہو گئے تھے۔جس دن پڑھ کر فارغ ہوئے اسی دن رضاعت کے مسئلہ پر فتوی لکھا ،اس میں یہ واضح کیا کہ وہ کو نسی صورتیں ہیں کہ کوئی بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے تو وہ اس کی رضاعی ماں ہو جاتی ہے۔
جس دن پہلا فتوی لکھا تو والد ماجد نے اس کو دیکھا جو بالکل صحیح تھا،لہذا اسی دن سے آپ کو فتوی لکھنے کے لیے بٹھادیا اور خود سبکدوش ہوگئے۔
مولوی اعجاز ولی خاں صاحب کا بیان ہے کہ اعلیٰ حضرت قبلہ کی عمر کا چودھواں سال تھا، افتاء کا کام حضرت نے اپنے ذمہ لے لیا تھا کہ ایک شخص رامپور سے حضرت اقدس امام المحققین مولانا نقی علی خاں صاحب کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے اور جناب مولانا ارشاد حسین صاحب مجدّدی کا فتویٰ جس پر اکثر علماء کی مواہیر و دستخط ثبت تھے پیش خدمت کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ کمرے میں مولوی صاحب ہیں ان کو دے دیجیے، جواب لکھ دیں گے۔ وہ کمرے میں گئے اور آکر عرض کیا کہ کمرے میں مولوی صاحب نہیںہیں فقط ایک نو عمر صاحبزادہ صاحب ہیں۔ فرمایا: انہیں کو دے دیجیے وہ لکھ دیں گے۔ انہوں نے کہا حضور میں تو جناب کی شہرت سن کر آیا تھا۔ حضرت نے فرمایا :آج کل وہی فتویٰ لکھا کرتے ہیں، انہیں کو دے دیجیے۔ اعلیٰ حضرت نے جو اس فتویٰ کو دیکھا تو ٹھیک نہ تھا ،انہوں نے اس جواب کے خلاف جواب تحریر فرمایا اور اپنے والد ماجد صاحب کی خدمت میں پیش فرمایا، حضرت نے اس کی تصدیق وتصویب فرمائی۔ پھر وہ صاحب اس فتوے کو دوسرے علماء کے پاس لے گئے، ان لوگوں نے حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین صاحب کی شہرت دیکھ کر انہیں کے فتوے کی تصدیق کی۔ جب والی رامپور نواب کلب علی خاں صاحب رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں وہ فتویٰ پہنچا ،آپ نے شروع سے اخیر تک اس فتویٰ کو پڑھا اور تمام لوگوں کی تصدیقات دیکھیں۔ جب یہ دیکھا کہ سب علماء کی ایک ہی رائے ہے صرف بریلی کے دو عالموں نے اختلاف کیا ہے تو حضرت مولانا شاہ ارشاد حسین رام پوری کو یاد فرمایا، حضرت تشریف لائے نواب صاحب نے فتویٰ ان کی خدمت میں پیش فرمایا، حضرت مولانا صاحب کی دیانت اور انصاف پسندی دیکھیے کہ صاف فرمایا :فی الحقیقۃ وہی حکم صحیح ہے جو ان دو صاحبوں نے لکھا۔ نواب صاحب نے پوچھا پھر اتنے علماء نے آپ کے فتوے کی تصدیق کس طرح کی؟ فرمایا: ان لوگوں نے مجھ پر اعتماد میری شہرت کی وجہ سے کیا اور میرے فتویٰ کی تصدیق کی، ورنہ حق وہی ہے جو انہوں نے لکھا ہے۔
نواب صاحب نے جب فتویٰ پڑھا ،اتفاق سے اس وقت اعلیٰ حضرت کے خسر جناب شیخ فضل حسین صاحب افسر ڈاک خانہ جات وہاں تشریف رکھتے تھے۔ ان سے پوچھا کہ آپ جانتے ہیں یہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کو ن شخص ہیں؟ جناب شیخ صاحب موصوف نے فرمایا وہ حضور کا ہی عزیزہے ،جناب شیخ موصوف ریاست رامپور میں گورنمنٹ کی طرف سے ڈاک خانہ جات کے ایک افسر تھے اور نواب صاحب اور ریاست کے بہت ہمدرد تھے، جس کی وجہ سے نواب صاحب کے دل میں ان کی بڑی وقعت تھی۔ جب نواب صاحب کو معلوم ہوا کہ یہ مفتی مولانا احمد رضا خاں صاحب شیخ صاحب کے رشتہ دار ہیں اور ان کے والد جناب مولانا نقی علی خاں صاحب شیخ صاحب کے سمدھی ہیں تو نواب صاحب نے فرمایا کہ آپ اپنے رشتہ دار کو بلوائیے، ہم ان کو دیکھنا چاہتے ہیں، چنانچہ حسب طلب و دعوت جناب شیخ صاحب جب اعلیٰ حضرت قبلہ رامپور تشریف لے گئے ،جب جناب شیخ صاحب اپنے ساتھ نواب صاحب کے یہاں اعلیٰ حضرت کو لے گئے تو جس وقت اعلیٰ حضرت نواب صاحب کے یہاں پہنچے ،چونکہ دبلے پتلے تھے، نواب صاحب نے دیکھ کر بہت تعجب کیا اور اپنے ساتھ پنگڑی پر بٹھا لیا اور بہت لطف ومحبت سے باتیں کرنے لگے۔ اسی دوران میں نواب صاحب نے یہ مشورہ دیا کہ ماشاء اللہ آپ فقہ و دینیات میں کمال رکھتے ہیں، بہتر ہو گا کہ مولانا عبدالحق صاحب خیر آبادی سے منطق کی کتابیں پرھ لیں۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ جناب والد ماجد صاحب نے اجازت دی توتعمیل ارشاد کی جائے گی، اسی دوران جناب مولانا عبدالحق صاحب خیر آبادی بھی تشریف لے آئے۔
نواب صاحب نے اعلیٰ حضرت کا ان سے تعارف کرایا اور اپنی رائے کا اظہار فرمایا۔ اعلیٰ حضرت سے علامہ خیرآبادی نے دریافت کیا منطق کی کتابیں کہاں تک پڑھی ہیں؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: ’’قاضی مبارک‘‘تک ۔ یہ سن کر علامہ خیر آبادی نے دریافت کیا کہ ’’تہذیب‘‘ پڑھ چکے ہیں؟ جس دماغ اورشان سے مولانا نے یہ سوال کیا، اسی انداز سے اعلیٰ حضرت نے جواب دیا : کیا آپ کے یہاں، قاضی مبارک کے بعد ’’تہذیب‘‘ پڑھائی جاتی ہے؟ یہ جواب سن کر مولانا نے خیال فرمایا کہ ہاں یہ بھی کوئی شخص ہے۔ اس لیے اس گفتگو کو چھوڑ کر دوسرا سوال کیا کہ بریلی میں آپ کا کیا شغل ہے؟ فرمایا: تدریس، افتا، تصنیف۔ فرمایا: کس فن میں تصنیف کرتے ہیں؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: جس مسئلہ دینیہ میں ضرورت دیکھی اور خصوصاً رد وہابیہ میں۔
زمانہ طالب علمی میں تصنیف و تالیف اور اساتذہ:
آپ نے اپنے تعلیمی دور میں صرف آٹھ سال کی عمر میں فن نحو کی مشہور کتاب ہدایۃ النحو کی شرح لکھی جو کہیں غائب ہو گئی، اسی طرح۱۰؍سال کی عمر میں اصول فقہ کی مشہور کتاب مسلم الثبوت پر حاشیہ لکھا جب آپ مسلم الثبوت پڑھتے تھے۔
اسی طرح صفات باری تعالیٰ کے تعلق سے آپ نے عربی زبان میں ایک کتاب’’القول النجیح ‘‘نام سے لکھی ،یہ کتاب بھی آپ کے طالب علمی کے زمانے کی ہے ،لیکن اس کا نام تاریخی نہیں۔پھر اس پر آپ نے ایک حاشیہ’’السعی المشکور ‘‘ کے نام سے ۱۲۹۰ھ میں لکھاجب آپ کی عمر مبارک ۱۸؍ سال تھی۔
آپ جب مسلم الثبوت پڑھ رہے تھے تو آپ کے درس میں مسلم الثبوت کا ایسا نسخہ تھا جس پر کوئی حاشیہ نہ تھا،اور عام طور پر اس زمانہ میں درسی کتابوں پر حواشی نہیں تھے ،ایک دن آپ اس مقام کا مطالعہ کر رہے تھے جس کا سبق اگلے دن ہونے والا تھا، آپ نے دیکھا کہ اس مقام پر حاشیہ میں اعلیٰ حضرت کے والد ماجد نے کتاب پر ایک اعتراض لکھ کر چھوڑ دیا ہے ،اس کا جواب کچھ نہیں لکھا۔آپ کی نظر جب اس اعتراض پر پڑی تو آپ کی طبیعت و ذہانت اس طرح مائل ہوئی کہ کتاب کی تقریر اس طرح کی جائے کہ یہ اعتراض ہی نہ پڑے۔لہذا آپ اسی غور و خوض میں پڑ گئے،کافی محنت کے بعد رات کو ایک بجے اس کا حل سمجھ میں آگیا،نہایت خوشی میں بے اختیار آپ کے ہاتھوں سے تالی بج گئی،اس سے سارا گھر جاگ گیا،اور کیا ہے کیا ہے کا شور مچ گیا۔آپ نے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر ماجرا بیان کیا اور پھر مسلم الثبوت کی عبارت کی ایسی تقریر کی کہ وہ اعتراض ہی نہ پڑا،والد ماجد نے یہ سن کر گلے سے لگایا اور فرمایا: امن میاں تم مجھ سے پڑھتے نہیں ہو بلکہ پڑھاتے ہو۔ (سیرت اعلیٰ حضرت)
درس نظامی مکمل کرنے کے بعد ایک مرتبہ آپ کا رام پور جانا ہوا تو وہاں چھ ماہ رہ کر ماہر علم ریاضی حضرت مولانا عبد العلی صاحب رامپور ی سے شرح چغمینی کے چند اسباق پڑھے۔آپ کے یہ استاذ رام پور میں ’’ریاضی داں‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔یہ کتاب علم ہیئت میں ہے۔
طریقت کی تعلیم ایک ہی نشست میں مرشد گرامی حضور خاتم اکابر ہند حضرت سیدنا شاہ آل رسول احمدی مارہروی قدس سرہ سے ایسی پائی کہ مرشد اعظم نے اپنے رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ تھوڑی دیر کو خدام درگاہ بھی سکتے میں رہ گئے۔پھر مرشد گرامی کے وصال کے بعد آپ کے پوتے اور سجادہ نشین حضور سرکار نو رابوالحسین احمد نوری سے بعض علم طریقت اور تکسیر و جفر کا علم حاصل کیا۔
اعلیٰ حضرت فرماتے تھے کہ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۴ھ میں شرف بیعت سے مشرف ہوا، تعلیم طریقت حضور پر نور پیر و مرشد برحق سے حاصل کی ،۱۲۹۶ھ میں حضرت کا وصال ہوا تو قبل وصال مجھے حضرت سیدنا سید شاہ ابوالحسین احمد نوری اپنے ابن الابن ولی عہد سجادہ نشین کے سپرد فرمایا۔ حضرت نوری میاں صاحب سے بعض تعلیم طریقت و علم تکسیر و علم جفر وغیرہ علوم میں نے حاصل کیے۔
اس طرح آپ کے اساتذہ کی تعداد چھہ ہوئی۔البتہ پہلی مرتبہ والدین کریمین کے ساتھ حج بیت اللہ کے موقع پر مندرجہ ذیل حضرات مشائخ کرام سے حدیث وفقہ کی سندیں حاصل کیں،اس لحاظ سے یہ حضرات بھی آپ کے اساتذۂ کرام میں شامل مانے گئے ہیں:
(۱)شیخ الاسلام حضرت علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی
(۲) شیخ حرم حضرت علامہ عبد الرحمن سراج حنفی مکی
(۳)امام شافعیہ حضرت علامہ حسین بن صالح جمل اللیل علیہم الرحمۃ والرضوان
اب کل تعداد ۹؍ہوگئی۔
پہلے حج کے واقعات:
آپ جب پہلی مرتبہ والدین کریمین کے ساتھ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے تو راستے کا واقعہ آپ سن چکے ۔مزید اس طرح ہے:
آپ نے پہلا حج ۱۲۹۵ھ میں کیا جب آپ کی عمر کو ۲۳واں سال تھا،مکہ مکرمہ کی حاضری کے دوران ایک دن نماز مغرب کے بعد مقام ابراہیم کے پاس امام شافعیہ حضرت حسین بن صالح جمل اللیل بغیر کسی تعارف کے آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دولت کدہ پر لے گئے ،دیر تک آپ کی پیشانی کو پکڑے رہے اور فرمایا: انی لأجد نور اللّٰہ في ھذا الجبین۔بیشک میں اللہ کا نور اس پیشانی میں پاتا ہوں ۔پھر صحاح ستہ(بخاری شریف،مسلم شریف ،ترمذی شریف،ابوداؤد شریف، نسائی شریف، ابن ماجہ شریف) کی سند اجازت عطا فرمائی اور فرمایا: تمہارا نام ضیاء الدین احمد ہے۔
آپ نے ایک رات مسجد خیف شریف منیٰ میں گزاری تو رات کو جاگتے میں مغفرت کی بشارت سے سرفراز ہوئے۔ اسی حج کے موقع پر جب زیارت روضہ انور کے لیے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے تو شوق دیدار میں روضہ شریف کے مواجہ میں درود شریف پڑھتے رہے اور یقین کیا کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ضرور عزت افزائی فرمائیں گے اور اپنے دیدار سے مشرف فرمائیں گے۔لیکن پہلی شب ایسا نہ ہوا تو افسردہ خاطر ہوکر ایک غزل لکھی، یہ غزل مواجہ اقدس میں پڑھی اور انتظار میں باادب بیٹھ گئے ،قسمت جاگ اٹھی اور اپنی آنکھوں سے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا دیدار پرانوار کیا۔ (حیات اعلیٰ حضرت )
بیعت وخلافت کا واقعہ:
ایک دن اعلیٰ حضرت قبلہ کسی خیال میں روتے روتے سو گئے،خواب میں آپ کے دادا حضور مولانا رضا علی خاں صاحب قبلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: وہ شخص جلد ہی آنے والا ہے جو تمہارے اس درد کی دوا کرے گا۔چنانچہ اس خواب کے دوسرے یا تیسرے دن تاج الفحول حضرت مولانا عبد القادر صاحب بدایونی علیہ الرحمہ تشریف لائے،ان سے بیعت کے متعلق مشورہ ہوا اور یہ طے ہو اکہ جلد ہی مارہرہ شریف چل کر بیعت ہو جانا چاہئے۔
پھربریلی چار حضرات مارہرہ شریف کے لیے روانہ ہوئے: حضرت تاج الفحول،اعلیٰ حضرت کے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خاں،اعلیٰ حضرت کے استاذ حضرت مولانا غلام قادر بیگ ، اور اعلیٰ حضرت۔
ٹرین کے ذریعے سفر طے ہوا،جب اعلیٰ حضرت اپنے والد ماجد کے ساتھ مارہرہ شریف مرشد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مرشد اعظم نے فرمایا: آئیے ہم تو کئی روز سے آپ کا انتظار کر رہے تھے ۔پھر مرید فرماکر خلافت سے بھی نواز دیا۔
بعض مریدین جو اس وقت حاضر تھے انہوں نے عرض کیا:حضور اس بچے پر یہ کرم کہ مرید ہوتے ہی تمام سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمادی،نہ کوئی ریاضت کا حکم، نہ چلہ کشی کرائی،فرمایا: سنو!یہ بالکل تیار آئے تھے انہیں صرف نسبت کی ضرورت تھی ،وہ مرید ہو کر پوری ہو گئی ،لہذا ان کو خلافت دے دی گئی۔
سوال کا جواب دے کر حضور مرشد گرامی آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور ارشاد فرمایا:فکر تھی، کل میدان قیامت میں اللہ رب العزت مجھ سے فرمائے گا کہ اے آل رسول !تم دنیا سے ہمارے لیے کیا لائے ؟تو میں کیا پیش کروں گا ۔خدا کا شکر ہے کہ وہ فکر دور ہو گئی ،اب میں اس سوال کے جواب میں احمد رضا کو پیش کروںگا۔
ذہانت وقوت حافظہ کے واقعات:
مولوی احسان حسین صاحب جو اعلیٰ حضرت کے ابتدائی عربی کتابوں میں ساتھی تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ شروع ہی سے اعلیٰ حضرت کی ذہانت کا یہ حال تھا کہ استاذ سے کبھی چوتھائی کتاب سے زیادہ نہیں پڑھی،چوتھائی کتاب کے بعد بقیہ تمام کتاب از خود پڑھ کر اور یاد کر کے سنا دیتے تھے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے بہت شاندار قوت حافظہ عطا فرمائی تھی۔
پہلاواقعہ:اعلیٰ حضرت کے نام کے ساتھ بعض ناواقف لوگ حافظ لکھ دیا کرتے تھے،چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا: بندگان خدا کا کہنا غلط نہ ہو لہذا آپ نے ماہ رمضان المبارک میں مغرب اور عشا کے درمیان کا وقت اس کے لیے خاص کر دیا کہ کوئی شخص آپ کو ایک بار سنا دیتا ۔یا خود آپ حفظ کی نیت سے یاد فرما لیتے اور پھر ہر رات تراویح میں سنا دیتے۔ اس طرح پورے مہینے میں قرآن پاک مکمل حفظ فرمالیا اور سنا بھی دیا۔
دوسرا واقعہ: مولوی محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حکیموں کے زیادہ اصرار کی وجہ سے مسہل کے دن آپ نے فرمایا اچھامیں خود اپنے ہاتھ سے نہیں لکھوں گا ،لہذا ایک مکان میں تشریف لے گئے اور مجھے بلاکر دروازہ بند کر دیا۔اب جو فتوی لکھانا شروع کیا تو کچھ مضمون لکھ کر فرمایا: الماری سے فلاں کتاب کی فلاں جلد نکالو۔اکثر کتابیں مصر کی کئی کئی جلدوں میں تھیں۔مجھ سے کتابیں حوالے کے لیے نکلواتے جاتے اور فرماتے جاتے،اتنے صفحے لوٹ لو اور فلاح صفحہ پر اتنی سطر وں کے بعد یہ مضمون شروع ہوا ہے اسے نقل کر دو۔میں وہ فقرہ دیکھ کر پورا مضمون لکھتا اور سخت حیران رہتا کہ وہ کون ساوقت ملاتھا کہ جس میں صفحہ اور سطر گن کر رکھے تھے۔غرض کہ ان کا حافظہ اور دماغی باتیں ہم لوگوں کی سمجھ سے باہر تھیں۔
تیسرا واقعہ:یہی مولوی محمد حسین صاحب میرٹھی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ میرٹھ سے بریلی آیا تو معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت کی طبیعت ناساز ہے ،ڈاکٹروں نے لوگوں سے ملنے اور باتیں کرنے سے منع کر دیا ہے،اس وجہ سے شہر کے باہر ایک کوٹھی میں مقیم ہیں اور وہاں عام لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں،چونکہ مجھ سے لوگ واقف تھے مجھے پتہ بتادیا۔جب میں وہاں پہنچا تو کوٹھی کا دروازہ بند تھا،میں نے دستک دی،ایک صاحب آئے اور نام پتہ پوچھ کر اندر گئے اور مجھے اندر جانے کی اجازت مل گئی ،اندر جاکر دیکھا ایک بڑا مکان ہے اور صرف دو ایک آدمی ہیں۔نماز مغرب پڑھ کر حضرت اپنے پلنگ پر رونق افروز ہوئے اور ہم لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔اس کے تھوڑی ہی دیربعد چار حضرات پہنچے۔مفتی اعظم مونالا مصطفیٰ رضا خاں ،صدر الشریعہ مولانا امجد علی ،مولوی حشمت علی خاں،اور ایک صاحب کوئی اور۔ یہ چاروں حضرات پلنگ کے پاس جو کرسیاں تھیں ان پر بیٹھ گئے ،اعلیٰ حضرت نے ایک گڈی خطوط کی مولانا امجد علی صاحب کو دے کر فرمایا:آج تیس خط آئے تھے،ایک میں نے کھول لیا ہے ،یہ باقی۲۹؍ آپ گن لیجیے،انہوں نے گن کر ان میں سے ایک لفافہ کھولا جس میں چند ورق پر بہت سے سوالات تھے وہ سب سنائے ،آپ نے پہلے سوال کے جواب میں ایک جملہ ارشاد فرمایا، وہ لکھنے لگے، لکھ کر عرض کیا: حضور!آپ نے آگے کا ایک جملہ بول دیا ،انہوں نے لکھ کر پھر کہا: حضور! اسی طرح سلسلہ وار آگے کے جملے ارشاد فرماتے رہے اور وہ لکھتے رہے۔لیکن یہ سب ان کو تنہا نہیں بلکہ باقی تینوں حضرات نے بھی ایک ایک لفافہ کھول لیا تھا اور اپنے اپنے سوالات سنا دیے تھے،جس طرح پہلے صاحب کو ایک ایک جملہ لکھوار رہے تھے اسی طرح باقی تین حضرات کو بھی ،کہ وہ ایک ایک جملہ لکھتے پھر کہتے حضور!اس طرح چاروں کو علاحدہ علاحدہ مضمون کے فتاویٰ لکھواتے جا رہے تھے اور میں دیکھ رہا تھا ،بلکہ حقیقۃً مجھے دیکھ کہ پسینہ آگیا،پھر یہ کہ میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص نے اسی حالت میںکچھ مسئلے پوچھ لیے، یہ دیکھ کر مجھے سخت ملال ہوا اور غصہ بھی آیا کہ اس شخص کو ایسی حالت میں سوال کرنے کا کچھ خیال نہیں ،مگر اعلیٰ حضرت نے ذرہ بھر بھی ملال نہ فرمایا:بہت اطمینان سے ان کے بھی جواب دیے۔اس طرح اسی نشست میں وہ ۲۹؍خطوط کے جواب پورے کیے گئے ،بعد میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے جو کام کرنے اور بات کرنے کو منع کر دیا تھا اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے صرف اتنا مان لیا تھا کہ رات کو اپنے ہاتھ سے تحریر نہیں فرمائیں گے،لیکن جو طریقہ آپ نے اپنا یاتھا وہ تو اور مشکل اور حیران کن تھا۔
چوتھا واقعہ: ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ پیلی بھیت حضرت محدث سورتی قدس سرہ سے ملنے گئے ،گفتگو کے دوران ’’عقود الدریہ‘‘ کتاب کا ذکر نکلا،محدث سورتی نے فرمایا: میرے کتب خانہ میں ہے، اتفاق سے یہ کتاب اعلیٰ حضرت کے یہاں نہیں تھی،آپ نے چلتے وقت اس کو منگوایا کہ ساتھ لے جائیں،محدث سورتی نے فرمایاکہ جب مطالعہ فرمالیں تو واپس بھیج دیں کہ میرے یہاں یہی چند کتابیں ہیں جن کو دیکھ کر فتوی لکھتا ہوں ۔اعلیٰ حضرت جانے کے لیے تیار تھے کہ ایک صاحب اعلیٰ حضرت کے معتقد تھے انہوں نے اپنے یہاں دعوت کر کے بہت اصرار کے ساتھ روک لیا،رات کو اعلیٰ حضرت نے وہ ضخیم کتاب جو دو جلدوں میں تھی مطالعہ فرمالی اور صبح کو چلتے وقت محدث سورتی کو وہ واپس کر دی، محدث صاحب نے کہا: میرے یہ کہنے کا شاید آپ کو ملال ہواکہ مطالعہ کے بعد واپس کر دیں، اعلیٰ حضرت نے فرمایا: میں نے رات کو اس کا مطالعہ کر لیا ہے، اب ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں رہی،محدث سورتی نے فرمایا:بس ایک مرتبہ دیکھ لینا کافی ہوگیا؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے امید ہے دو تین مہینے تک تو جہاں کی عبارت کی ضرورت ہوگی فتاوی میں نقل کر دوں گا اور مضمون تو ان شاء اللہ تعالیٰ عمر بھر کے لیے محفوظ ہو گیا۔
پانچواں واقعہ: جس زمانہ میں حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب اعلیٰ حضرت کے فتاویٰ لکھتے تھے اور اعلیٰ حضرت زبانی لکھواتے تھے انہی دنوں میں ایک دن اعلیٰ حضرت نے صدر الشریعہ کو فتوی لکھوایا اور فتاوی قاضی خاں کی ایک لمبی عبارت زبانی بول دی، حضرت محدث سورتی بھی اس مجلس میں موجودتھے ،ان کو یہ دیکھ کر سخت تعجب ہوا،ادھر مغرب کا وقت ہو گیا،نماز کے لیے جب اعلیٰ حضرت جانے لگے تو محدث صاحب نے صدر الشریعہ سے فرمایا تم نماز کے فورا ًبعد فتاوی قاضی خاں اندر سے منگوا لینا،لہذا نماز کے بعد اعلیٰ حضرت تو اندر تشریف لے گئے اور محدث صاحب نے کتاب منگا کر جب عبارت دیکھی تو پوری عبارت بعینہ وہی تھی جو اعلیٰ حضرت نے لکھوائی تھی۔ (حیات اعلیٰ حضرت)
اولاد اعلیٰ حضرت
آپ کی سات اولادیں ہوئیں۔تین صاحبزادے(۱)حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں (۲)محمود رضا خاں ،ان کا صرف پانچ ماہ چند دن کی عمر ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ ۱؎(۳) مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خاں۔اور پانچ صاحبزادیاں ۔
مصطفائی بیگم۔کنیز حسن ۔کنیز حسین۔کنیز حسنین۔مرتضائی بیگم تھیں۔
(۱)مصفائی بیگم، ان کا عقد اعلیٰ حضرت کے بھانجے حاجی شاہد علی خاں سے ہوا۔ان کا انتقال اعلیٰ حضرت کی حیات میں ہوا۔ان کی صرف ایک لڑکی زوبی بی تھیں۔
(۲) دوسری کنیز حسن۔ان کانکاح حمید اللہ خاں ولد حاجی احمد اللہ خاں رئیس پرانا شہر بریلی سے ہوا۔ان کی دو اولاد ہیں ہوئیں۔(۱)عتیق اللہ خاں (۲) ایک صاحبزادی رفعت جہاں بیگم۔
(۳) تیسری کنیز حسین،ان کا نکاح اعلیٰ حضرت کے بھتیجے حکیم حسین رضا خاں ابن مولانا حسن رضا خاں سے ہوا۔ان کے تین لڑکے تھے۔
(۱)مرتضیٰ رضا خاں (۲)مولوی ادریس رضا خاں(۳)جرجیس رضا خاں
(۴) چوتھی کنیز حسنین عرف چھوٹی بیگم۔ان کی شادی بھی اعلیٰ حضرت کے دوسرے بھتیجے مولوی حسنین رضا خاں سے ہوئی،ان کی ایک صاحبزادی شمیم بانو زوجہ جرجیس رضا خاں تھیں۔
(۵)پانچویں صاحبزادی مرتضائی بیگم ۔یہ مجید اللہ خاں بن حاجی احمد اللہ خاں رئیس پرانہ شہر کے نکاح میں تھیں۔ان کے تین لڑے اور دو لڑکیاں ہوئیں۔
(۱)رئیس میاں(۲) سعید میاں (۳) فرید میاں (۴) مجتبائی بیگم(۵) مقتدائی بیگم۔
حجۃ الاسلام کی اولاد:
حجۃ الاسلام کی شادی آپ کی پھوپھی زادی کنیز عائشہ سے ہوئی تھی۔آپ کی چھہ اولادیں ہوئیں:دو صاحبزادے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؎ جامع صغیر میں ایک حدیث اس طرح منقول ہے کہ:جس کے یہاں تین لڑکے پیدا ہوئے اور اس نے ان میں سے کسی کا بھی نام ’’محمد‘‘نہیں رکھا تووہ جاہل اور نادان ہے۔اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا:بحمدہ تعالیٰ میرے یہاں اس وقت تک دو لڑکے ہوئے ہیں ،میں نے ان دونوں کا نا م محمد رکھا۔ ان میں بڑے ’’حامد رضا خاں‘‘کے نام سے معروف ہوئے ،اور یہ بحمدہ تعالیٰ باحیات ہیں،اللہ تعالیٰ ان کو اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام کی برکت سے ہر بھلائی عطا فرمائے۔ان کی ولادت ۲۵؍ ذو الحجہ ۱۲۹۲ھ کو ہوئی۔دوسرے چھوٹے بیٹے جو ’’محمود رضا خاں ‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ان کے بارے میں ہم اللہ تعالیٰ کے یہاں ثواب کے طالب ہیں،اللہ تعالیٰ ان کو ہمارے لیے آگے بھیجا ہوا اجر وثواب بنائے اور ذخیرۂ آخرت فرمائے،آمین بجاہ المولی الکریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ۔یہ پانچ مہینے کچھ دن باحیات رہے اور پھر سفر آخرت اختیارکیا۔یہ ایسے حسین وجمیل تھے کہ دیکھنے والا دیکھ کر کہتا:میری آنکھ نے ان جیسا نہیں دیکھا۔اورحدیث میں ہے کہ:’’نظر آدمی کو قبر میں اور اونٹ کوہانڈی میں داخل کردیتی ہے‘‘ اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے۔(حاشیہ تیسیر شرح جامع صغیرقلمی’’عربی سے اردو‘‘)
نوٹ:غالباً یہ تحریر اعلیٰ حضرت کے قلم سے ۱۳۰۰ہجری کے آس پاس کی ہے کہ اس میں حضور مفتی اعظم کا تذکرہ نہیں، کیوں کہ آپ کی ولادت ۱۳۱۰ھ میں ہوئی۔نیز ’’محمود‘‘ کے عدد ۹۸ ہوتے ہیں ،لہذا عین ممکن ہے کہ محمود رضا خاں کی ولادت ۱۲۹۸ھ کی ہو،اور ’’محمود‘‘ آپ کا تاریخی نام ہو۔
(۱)مولوی ابراہیم رضاخاں عرف جیلانی میاں(۲)مولوی حماد رضا خاں عرف نعمانی میاں ۔چار صاحبزادیاں:
(۱)ام کلثوم،زوجہ حکیم حسین رضا خاں(۲) کنیز صغریٰ بیگم،زوجہ مولوی تقدس علی خاں(۳) رابعہ بیگم عرف نوری،زوجہ مشہود علی خاں(۴)سلمیٰ بیگم:زوجہ مشاہد علی خاں
حضرت جیلانی میاں کا عقدحضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خاں کی بڑی صاحبزادی سے ہوا۔ اور حضرت نعمانی میاں کا نکاح جناب سید حسن صاحب محلہ ملوک پور کی صاحبزادی سے ہوا۔
حضرت جیلانی میاں کی آٹھ اولادیں ہوئیں۔پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں۔
(۱)ریحان ملت مولانا ریحان رضا خاں رحمانی میاں(۲) تاج الشریعہ مولانا اختر رضا خاں ازہری میاں
(۳)تنویر رضا خاں(مفقود الخبر) (۴) مولانا قمر رضا خاں
(۵)مولانا منان رضا خاں (۶) سرفراز بیگم
(۷)سرتاج بیگم (۸) دلشاد بیگم
حضرت نعمانی میاں کی اولاد میں صرف تین کے نام معلوم ہوئے:
(۱)حمید رضا خاں(۲)مسرت بی بی(۳)نصرت بی بی
اعلیٰ حضرت کے بھائی استاذ زمن مولانا حسن رضا خاں کی اولاد کے بارے میں بتائیے!
استاذ زمن کے دو صاحبزادے تھے:(۱)حکیم حسین رضاخاں،(۲) مولانا حسنین رضا خاں
حکیم حسین رضا خاں کی اولاد پہلی زوجہ اعلیٰ حضرت کی صاحبزادی سے تین صاحبزادے،(۱) مرتضی رضاخاں (۲)ادریس رضاخاں،(۳)جرجیس رضا خاں۔
دوسری زوجہ حجۃ الاسلام کی صاحبزادی سے دو اولاد یں:
(۱) یونس رضا خاں(۲)غوثیہ بیگم زوجہ خلیق میاں۔
مولانا حسنین رضا خاں کی اولاد پہلی زوجہ اعلیٰ حضرت کی صاحبزادی سے ایک صاحبزادی شمیم بانو زوجہ جرجیس رضا خاں۔ دوسری زوجہ سے تین بیٹے اور ایک بیٹی۔
(۱)مولانا سبطین رضا خاں(۲)مولانا تحسین رضا خاں(۳)مولانا حبیب رضا خاں(۴)ایک بیٹی زوجہ مولانا اخترخاں ازہری میاں
اعلیٰ حضرت کے چھوٹے بھائی مولانامحمد رضا خاں کی صرف ایک صاحبزادی تھیں:فاطمہ بیگم زوجہ مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضاخاں
حضور مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا خاں کی سات اولاد یں ہوئی ۔چھہ صاحبزادیاں اور ایک صاحبزادے:
(۱)انواررضا خاں(۲)نگار فاطمہ(۳) انوار فاطمہ(۴) برکاتی بیگم(۵) رابعہ بیگم(۶)ہاجرہ بیگم(۷)شاکرہ بیگم۔
آپ کے صاحبزادے انوار رضاخاں بچپن ہی میں انتقال فرما گئے جس کا نہ صرف والدین بلکہ پورے خاندان بلکہ جملہ متوسلین و اہل قرابت کو صدمہ ہوا۔
اعلیٰ حضرت کے اجداد میں اعظم خاں تین بھائی تھے۔اب تک اعظم خاں کی اولاد کا ذکر ہوا۔ باقی دو بھائی معظم خاں اور مکرم خاں کی اولاد کے کچھ احوال لاس طرح ہیں:
معظم خاں کے ایک بیٹے میاں شہزاد احمد خاں تھے،ان کے بیٹے علیم اللہ خاں ہوئے،علیم اللہ خاں کی چھہ اولادیں تھیں۔چار صاحبزادے اور دوصاحبزادیاں:
(۱)بخش اللہ خاں(۲)عنایت اللہ خاں(۳)حکیم خلیل اللہ خاں(۴)احمد اللہ خاں(۵) اصغری بیگم زوجہ مولانا حسن رضا خاں(۶)پری جان
حکیم خلیل اللہ خاں کی چار اولادیں تھیں:
(۱)جمیل اللہ خاں(۲) عقیل میاں(۳)نفیس بیگم (۴) اسما بیگم۔
جمیل اللہ خاں کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔عقیل میاں لاولد رہے۔ اور اسماء بیگم بھی لاولد رہیں۔نفیس بیگم کی پہلی شادی جناب دلاور حسین خاںساکن موضع جوا جواہر پور سے ہوئی۔یہ اعلیٰ حضرت کے رشتہ میں بہنوئی ہوئے۔ساتھ ہی اعلیٰ حضرت سے مرید تھے او بہت جاں نثار تھے،اعلیٰ حضرت نے ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار فرمایا اور گاؤں پہنچ کر خود نماز جنازہ پڑھائی،ان کے چھوٹے بھائی مولوی تجمل حسین خاں تھے ،لہذا نفیس بیگم کادوسرا نکاح ان سے ہوا۔
مکرم خاں کے بیٹے غلام دستگیر خاں تھے ،آپ کے تین بیٹے ہوئے:
(۱)غلام فرید خاں (۲)قطب الدین خاں(۳)ایک صاحبزادے ، نام معلوم نہیں ہو سکا۔
غلام فرید خاں کی ایک بیٹی یاقوتی جان تھیں جو شیخ فضل حسین کے نکاح میں آئیں۔یہی اعلیٰ حضرت کے ساس اور خسر ہیں۔اس طرح اعلیٰ حضرت کی ساس پہلے رشتہ میں آپ کی پھوپھی ہوئیں۔اعلیٰ حضرت کے خسر شیخ فضل حسین شیخ عثمانی تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭
حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خانصاحب
ولادت:
آپ کی ولادت باسعادت شہر بریلی میں ماہ ربیع الاول ۱۲۹۲ھ/مئی ۱۸۷۵ء کو ہوئی ۔ خاندانی دستور کے مطابق ’’ محمد ‘‘ نام پر عقیقہ ہوا اور یہ ہی آپ کا تاریخی نام بھی ہوگیا ، عرفی نام حامد رضا تجویز ہوا ، اور لقب حجۃ الاسلام ہے ۔
آپ حسن سیرت اور جمال صورت دونوں کے جامع تھے ، اپنے عہد کے بے نظیر مدرس ،محدث اور مفسر تھے ، عربی ادب میں انفرادی حیثیت کے مالک ، اور شعر و ادب میں پاکیزہ ذوق رکھتے تھے ، اپنے اسلاف اور آباء و اجداد کے کامل و اکمل نمونہ تھے ، بزرگوں کا احترام اور جھوٹوں پر شفقت آپ کا شعار دائم تھا ۔
زہد و تقوی ، توکل و استغناء میں اتمیازی شان کے مالک اور اخلاق و کردار کے بادشاہ تھے ۔
حسن صورت:
ہندوستان کے اکابر علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ نگاہوں نے حجۃ الاسلام سے زیادہ حسین چہر ہ نہیں دیکھا ۔ پھر اس پر لباس کی سج دھج مزید بر آں تھی ۔جو لباس بھی آپ زیب تن فرماتے وہ بھی آپ کے جمال سے جگمگا اٹھتا۔ جس مقام سے گزر ہوتا تو لوگ حسن صوری دیکھ کر انگشت بدنداں رہ جاتے اور سارا ماحول غزلخواں ہوتا۔
ع دم میں جب تک دم ہے دیکھا کیجئے
حسن سیرت :
آپ پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے ، متواضع اور خلیق اور بلند پایہ کردار رکھتے تھے ۔
شب برأت آتی تو سب سے معافی مانگتے حتی کہ چھوٹے بڑے اور خادمائوں اور خادموں اور مریدوں سے بھی فرماتے کہ اگر میری طرف سے کوئی بات ہو گئی ہو تو معاف کر دو اور کسی کا حق رہ گیا ہو تو بتادو ۔ آپ ’’ الحب فی اللہ و البغض فی اللہ ‘‘ اور’’ اشداء علی الکفار ورحماء بینہم ‘‘ کی جیتی جاگتی تصویر تھے ، آپ اپنے شاگردوں اور مریدوں سے بھی بڑے لطف و کرم اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ اور ہر مرید اور شاگرد یہی سمجھتا تھا کہ اسی سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔
ایک بار کا واقعہ ہے کہ آپ لمبے سفر سے بریلی واپس ہوئے ۔ ابھی گھر پر اترے بھی نہ تھے اور تانگہ پر بیٹھے ہوئے تھے کہ بہاری پور بریلی کے ایک شخص نے جس کا بڑا بھائی آپ کا مرید تھا اور اس وقت بستر علالت پر پڑا ہو تھا آپ سے عرض کیا کہ حضور روز ہی آکر دیکھ جاتا ہوں لیکن چونکہ حضور سفر پر تھے اس لئے دولت کدے پر معلوم کر کے ناامید لوٹ جاتا تھا ، میرے بھائی سرکار کے مرید ہیں اور سخت بیمار ہیں چل پھر نہیں سکتے ۔ ان کی بڑی تمنا ہے کہ کسی صورت اپنے مرشد کا دیدار کرلیں ۔ اتنا کہنا تھا کہ آپ نے گھر کے سامنے تانگہ رکوا کر اسی پر بیٹھے ہی بیٹھے اپنے چھوٹے صاحبزادے نعمانی میاں صاحب کو آواز دی اور کہا سامان اتروائو میں بیمار کی عیادت کر کے ابھی آتا ہوں ۔ اور آپ فورا اپنے مرید کی عیادت کیلئے چلے گئے ۔
بنارس کے ایک مرید آپ کے بہت منہ چڑھے تھے اور آپ سے بے پناہ عقیدت بھی رکھتے تھے ، اور محبت بھی کرتے تھے ،ایک بار انہوں نے دعوت کی، مریدوں میں گھرے رہنے کے سبب آپ ان کے یہاں وقت سے کھانے میں نہ پہنچ سکے ان صاحب نے کافی انتظار کیا اور جب آپ نہ پہونچے تو گھر میں تالا لگا کر اور بچوںکو لیکر کہیں چلے گئے ۔ جب ان کے مکان پر پہونچے تو دیکھا کہ تالا بند ہے، مسکراتے ہوئے لوٹ آئے، بعد میں ملاقات ہونے پر انہوں نے ناراضگی بھی ظاہر کی اور روٹھنے کی وجہ بھی بتائی ۔ آپ نے بجائے ان پر ناراض ہونے یا
اسے اپنی ہتک سمجھنے کے انہیں الٹا منایا اور دلجوئی کی ۔
آپ خلفائے اعلیٰ حضرت اور اپنے ہم عصر علماء سے نہ صرف محبت کرتے تھے بلکہ ان کا احترام بھی کرتے تھے جبکہ بیشتر آپ سے عمر اور علم و فضل میں چھوٹے اور کم پایہ کے تھے ، سادات کرام خصوصاً مارہرہ مطہرہ کے مخدوم زادگان کے سامنے تو بچھ جاتے تھے اور آقائوں کی طرح ان کا احترام کرتے تھے ۔
طالب علمی کا زمانہ میں شب و روز مطالعہ و مذاکرۃ جاری رہا ۔ اور ۱۹؍ سال کی عمر شریف ۱۳۱۱ھ/ ۱۸۹۴ میں فارغ التحصیل ہوئے جب فارغ ہوئے تو والد ماجد امام احمد رضا نے فرمایا ۔ ان جیسا عالم اودھ میں نہیں۔
فراغت کے بعد مسلسل ۱۵؍ سال ۱۳۲۶ ھ تک والد ماجد کی خدمت میں حاضر رہے اور تصنیف و تالیف ، فتوی نویسی اور دیگر مضامین عالیہ سے خدمت دین فرمائی ۔
اجازت و خلافت :
نور الکاملین خلاصۃ الواصلین سیدنا حضرت مولانا الشاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ سے آپ کو خلافت و اجازت حاصل تھی ، اور پھر آپ کے حکم سے امام احمد رضا قدس سرہ نے بھی حجۃ الاسلام کو جملہ علوم ، اذکار واشغال ،اوراد و اعمال کی اجازت سے نوازا۔
علم و فضل :
آپ اپنے علم و فضل کے اعتبار سے بلا شبہ نائب امام احمد رضا تھے ، اہل علم میں آپ کی مقبولیت صرف بڑے باپ کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس بنیاد پر بھی تھی کہ وہ علوم دینیہ کے بحر بیکراں تھے ، جملہ علوم عقلیہ و نقلیہ میں دستگاہ کامل حاصل تھی تھے اور ایک عرصہ تک آپ نے منظر اسلام میں درس دیا ، تفسیر و حدیث ، فقہ واصول اور کلام و منطق وغیرہا میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ، بالخصوص آپ کا درس بیضاوی ، شرح عقائد اور شرح چغمینی بہت مشہور تھا ۔
حج و زیارت:
آپ نے اپنی عمر کے اکیسویں سال ۱۳۲۳ھ میں حج و زیارت کی سعادت حاصل کی ، اور اپنی والدہ ماجدہ ، نیز عم محترم حضرت مولانا محمد رضا خانصاحب کے ساتھ روانہ ہوئے ، اس سفر سراپا ظفر میں امام احمد رضا جھانسی تک آپ کے ساتھ رہے ۔
امام احمد رضا جھانسی سے واپس تشریف لے آئے لیکن گھر آکر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی ، آخر کار والدہ ماجدہ سے اجازت لیکر خود بھی روانہ ہوگئے اور بمبئی سے سب کے ساتھ جدہ روانہ ہوئے ۔ اس طرح حجۃ الاسلام نے یہ حج اپنے والد ماجد کی معیت میں ادا کیا ۔
اس حج کی برکات نہایت عظیم و جلیل ہیں ۔ امام احمد رضا نے تفصیل سے الملفوظ میں ان کو بیان فرمایا ہے ۔ مختصرا یوں ہے ۔ حرم مکہ کے پہلے روز کی حاضری کا ذکر اس طرح فرمایا ۔
پہلے روز جو حاضر ہوا تو حامد رضا ساتھ تھے ۔ محافظ کتب حرم ایک وجیہہ و جمیل عالم نبیل مولانا سید اسماعیل تھے ۔ یہ پہلا دن ان کی زیارت کا تھا ۔ حضرت مولانا موصوف سے کچھ کتابیں مطالعہ کیلئے نکلوائیں ۔ حاضرین میں سے کسی نے اس مسئلہ کا ذکر کیا کہ قبل زوال رمی کیسی؟ مولانا نے فرمایا یہاں کے علماء نے جواز کا حکم دیا ہے ۔ حامد رضا خاں سے اس بارے میں گفتگو ہو رہی تھی ، مجھ سے استفسار ہوا ۔ میں نے کہا خلاف مذہب ہے ۔ مولاناسید صاحب نے ایک متداول کتاب کا نام لیا کہ اس میں جواز کو علیہ الفتوی لکھا ہے ۔ میں نے کہا کہ ممکن ہے روایت جواز ہو مگر علیہ الفتوی ہر گز نہ ہوگا ۔ وہ کتاب لے آئے اور مسئلہ نکلا اور اسی صورت سے نکلا جو فقیر نے گزارش کی تھی۔ علیہ الفتوی کا لفظ نہ تھا ۔ حضرت مولانا نے کان میں جھک کر مجھے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟اورحامد رضا کو بھی نہ جانتے تھے مگر اس وقت گفتگو انہیں سے ہو رہی تھی ۔ لہذا ان سے پوچھا ۔ انہوں نے میرا نام لیا ۔ نام سنتے ہی حضرت مولانا وہاں سے اٹھ کر بے تابانہ دوڑتے ہوئے آکر فقیر سے لپٹ گئے ۔ ( الملفوظ ص ۱۰، ۱۱، جلد دوم )
امام احمد رضا کے حضور وہ بھی ایک مکی عالم نبیل محافظ کتب حرم سید محمد اسماعیل سے رمی قبل زوال کے عدم جواز پر حضرت حجۃ الاسلام نے فصیح عربی میں گفتگو کا حق ادا کردیا اور ’’ الولد سرّ لابیہ ‘ ‘ کا وہ شاندار مظاہرہ پہلی بار حرم مکہ میں کیا کہ معاصر علماء کا یہ قول فیصل قرار پایا ۔
’’ اعلیٰ حضرت ( امام احمد رضا ) کے بعد اگر واقعی کوئی عالم اور ادیب تھے تو وہ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں تھے۔ ‘‘
( مولانا حسنین رضا خاں خلیفۂ اعلیٰحضرت کا ارشاد)
امام احمدرضا قدس سرہ کا یہ دوسرا حج مبارک تھا ، اچانک اس حج کیلئے جانا اور حکمت الہٰیہ کا راز کھلنا یوں بیان فرماتے ہیں ۔
حکمت الہٰیہ یہاں آکر کھلی ۔ سننے میں آیا کہ وہابیہ پہلے سے آئے ہوئے ہیں جن میں خلیل احمد انبیٹھی اور بعض وزراء ریاست و دیگر اہل ثروت بھی ہیں ۔ حضرت شریف تک رسائی پیدا کی ہے اور مسئلہ علم غیب چھیڑا ہے اور اس کے متعلق کچھ سوال اعلم علما ء مکہ حضرت مولانا شیخ صالح کمال سابق قاضی مکہ و مفتی حنفیہ کی خدمت میںپیش ہوا ہے ۔ میں حضرت موصوف کی خدمت میں گیا ۔ میں نے بعد سلام و مصافحہ مسئلہ علم غیب کی تقریر شروع کی اور دو گھنٹہ تک اسے آیات و احادیث و اقوال ائمہ سے ثابت کیا اور مخالفین جو شبہات کیا کرتے ہیں ان کا رد کیا ۔اس دو گھنٹے تک حضرت موصوف محض سکوت کے ساتھ ہمہ تن گوش ہو کر میرا منہ دیکھتے رہے ۔ جب میں نے تقریر ختم کی چپکے سے اٹھتے ہوئے قریب الماری رکھی تھی وہاں تشریف لے گئے اور ایک کاغذ نکال لائے جس میں مولوی سلامت اللہ صاحب رامپوری کے رسالہ ’’اعلام الاذکیا‘‘ کے اس قول کے متعلق کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو’’ ہو الاول و الآخر و الظاہر و الباطن و ہو بکل شیٔ علیم،‘ لکھا ، چند سوال تھے اور جواب کی نا تمام سطریں لائے ۔
مجھے دیکھا اور فرمایا ’’ تیر اآنا اللہ کی رحمت تھا ورنہ مولوی سلامت اللہ کے کفر کا فتوی یہاں سے جا چکتا ‘‘ میں حمد بجالایا اور فرو د گاہ پر واپس آیا ۔ مولانا سے مقا م قیام کا کوئی تذکرہ نہ آیا تھا ۔اب وہ فقیر کے پاس تشریف لانا چاہتے ہیں اور حج کا ہنگامہ اور جائے قیام نا معلوم ۔
آخر خیا ل فرمایا کہ ضرور کتب خانے میں آیا کرتا ہوگا۔ ۲۵؍ذو الحجہ ۱۳۲۳ھ کی تاریخ ہے بعد نماز عصر کتب خانے کی سیڑھی پر چڑھ رہا ہوں ،پیچھے سے ایک آہٹ معلوم ہوئی دیکھا تو حضرت مولانا شیخ صالح کمال ہیں ۔بعد سلام و مصافحہ کتب خانے میں جاکر بیٹھے ، وہاں حضرت مولانا سید اسماعیل او ران کے نو جوان سعید رشید بھائی سید مصطفی ان کی والد ماجد سید خلیل اور بعض حضرت جن کے اس وقت نام یاد نہیں تشریف فرما ہیں ۔ حضرت مولانا شیخ صالح کمال نے جیب سے ایک پرچہ نکالا جس پر علم غیب کے متعلق پانچ سوال تھے ( وہی سوال جن کا جواب مولانا نے شروع کیا تھا اور تقریر فقیر کے بعد چاک فرمادیا تھا ) مجھ سے فرمایا: یہ سوال وہابیہ نے حضرت سیدنا کے ذریعہ سے پیش کئے ہیں اور آپ سے جواب مقصود ہے ۔ میں نے سید مصطفی سے گزارش کی کہ قلم دوات دیجئے ۔ حضرت مولانا شیخ کمال ومولانا سید اسماعیل و مولانا سید خلیل سب اکابر نے کہ تشریف فرما تھے ارشاد فرمایا کہ ہم ایسا فوری جواب نہیں چاہتے بلکہ ایسا جواب کہ خبیثوں کے دانت کھٹے ہوں ۔ میں نے عرض کی: کہ اس کیلئے قدرے مہلت چاہیئے ۔ دو گھڑی دن باقی ہے اس میں کیا ہو سکتا ہے ۔ حضرت مولانا شیخ صالح کمال نے فرمایا کل سہ شنبہ ، پرسوں چہار شنبہ ہے ۔ان دو روز میں ہو کہ پنجشنبہ کو مجھے مل جائے کہ میں شریف کے سامنے پیش کردوں۔ میں نے اپنے رب کی عنایت او راپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اعانت پر بھروسہ کر کے وعدہ کر لیا اور شان الہی کہ دوسرے ہی دن بخار نے پھر عود کیا ۔ اسی حالت میں رسالہ تصنیف کرتا اور حامد رضا خاں تبیض کرتے ۔ چہا ر شنبہ کے دن کا بڑا حصہ یوں بالکل خالی نکل گیا اور بخار ساتھ ہے بقیہ دن میں اور بعد عشا ء بفضل الہی و عنایت رسالت پناہیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہ کتاب کی تکمیل و تبیض سب پوری کرادی ’ ’ الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ ‘‘ اس کا تاریخی نام ہوا اور پنجشنبہ کی صبح ہی کو حضرت مولانا شیخ صالح کمال کی خدمت میں پہونچا دی گئی ۔
(الملفوظ،۱۱،۱۲،۱۳،ج ۲)
حجۃ الاسلام علیہ الرحمۃ و الرضوان اس علمی شاہکار کے منصہ شہور پر آنے کا ایک اہم سبب ہیں ۔پوری کتاب کی تبیض آپ ہی نے فرمائی ۔ پھر امام احمد رضا کے حکم سے اس پر تمہید قلم برداشتہ تحریر کی جسے امام احمد رضا نے بہت پسند فرمایا ۔
تمہید میں حجۃ الاسلام نے پوری کتاب کا خلاصہ چند سطور میں پیش کردیا ہے ۔ اس کے بعد آپ نے الدولۃ المکیۃ کا از اول تا آخر ترجمہ فرمایا ۔ جو آپ کی دونوں زبانوں پر قدرت کا مظہرہے ۔
ترجمہ پڑھ کر اصل کتاب کا گمان ہوتا ہے اور مزید خوبی یہ ہے کہ نثر کا ترجمہ نثر میں ہے اور نظم کا نظم میں ہے ۔
اس کے علاوہ’’ الاجازت المتینہ لعلماء مکۃ والمدنیۃ‘‘ ۔ اور’’ کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم‘‘ پر بھی آپ نے تمہید یں تحریر فرمائیں جو آپ کی عربی دانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔
دار العلوم منظر اسلام کا اہتمام :
اس دار العلوم کا جب قیام عمل میں آیا تو سب سے پہلے اس کا اہتمام آپ کے عم محترم استاذ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاںصاحب قبلہ علیہ الرحمۃ کے سپر دہوا ۔ جب آپ کا وصال ۱۳۲۶ھ میں ہوگیا تو مستقل اس کاا ہتمام حجۃ الاسلام کے سپرد کر دیا گیا جو آج بھی ان کی اولاد میں چلا آرہا ہے ۔
آپ کے زمانہ میںدارلعلوم منظر اسلام نقطۂ عروج پر تھا اور اس وقت کے مدارس میں امتیازی شان کا مالک ۔ ۱۳۵۳ھ/ ۱۹۳۴ء کے سالانہ اجلاس میں بیس طلبہ فارغ التحصیل ہو ئے تھے جو اس زمانہ کے لحاظ سے ایک خاصی تعداد تھی۔
اسفار:
آپنے امام احمد رضا کی معیت میں سفر حج و زیارت توکیا ہی تھا لیکن دوسرے اہم مواقع پر بھی آپ امام احمد رضا کے ساتھ رہے۔ ندوہ کے رد میں ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ء میں جلسہ’’ دربار حق و صداقت‘‘ پٹنہ میں منعقد ہو اجس میں ہندوستان کے سیکڑوں علماء ربانیین جمع ہوئے تھے ۔ اس وقت حجۃ الاسلام بھی امام احمد رضا کے ساتھ تھے ۔
۱۳۲۲ھ/۱۹۰۵ء میں سفر جبل پور کے لئے جب امام احمد رضا تشریف لے گئے تو بھی آپ ساتھ تھے۔
ان اسفار کے علاوہ آپ کے بے شمار اسفار وہ ہیں جو آپ نے امام احمد رضا قدس سرہ کے وصال کے بعد متحدہ ہندوستان میں کئے ۔ پوری زندگی ملی و مسلکی خدمات کی لگن سینہ میں موجزن رہی ، سفر لکھنؤ اور سفر لاہور آپ کے ان اسفار میں ہیں جن میں آپ نے حق و باطل کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا تھا ۔
مشاہیر تلامذہ
حضرت علامہ حضورمفتی اعظم ہند مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں ۔ م ۱۴۰۲ھ
علامہ مولانا حسنین رضا خاں بریلوی خلیفۂ امام احمد رضا۔ م ۱۴۰۱ھ
شاہ عبد الکریم صاحب تاجی ناگپوری پیرو مرشد بابا ذہین شاہ تاجی ، مدفون کراچی م۱۳۶۶ھ
مولانا مفتی ابرار حسن صدیقی تلہری ، مدیر شہیر ماہنامہ یاد گار رضا بریلی ۔
محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد شیخ الحدیث جامعہ رضویہ منظر اسلام لائل پور م ۱۳۸۲ھ
مولانا محمد عبد الغفور ہزاروی شیخ القرآن پاکستان ۔ م۱۳۹۰ھ
مولانا مفتی عبد الحمید قادری م۱۳۹۳ھ
مفسر اعظم ہند مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں، فرزند اکبر م۱۳۸۵ھ
مولانا شاہ رفاقت حسین مفتی اعظم کانپور ، امین شریعت ، صوبہ بہار م ۱۴۰۳ھ
مولانا غلام جیلانی ، مانسہرہ پاکستان
صدر المدرسین جامع معقول و منقول مولانا غلام جیلانی اعظمی
مولانا تقدس علیخاں رضوی سابق مہتمم دار العلوم منظر اسلالم بریلی شریف م۱۴۰۳ھ
مولانا محمد علی آنولوی حامدی نائب مدیر ماہنامہ یاد گار رضا
مولانا قاری غلام محی الدین ہلدوانی نینی تال
مشاہیر خلفاء
۱۔ مولانا ظہیر الحسن اعظمی مدفون اودے پور
۲۔ مولانا حافظ محمد میاں صاحب اشرفی رضوی علیم آباد ضلع دربھنگہ بہار ۱۳۵۴ھ / ۱۹۳۵
۳۔ مولانا عنایت محمد خاں غوری فیروزپوری
۴۔ مولانا مفتی ابرار حسن صدیقی تلہری مدفون ضلع شاہجہاں پور
۵۔ مولانا و لی الرحمن پوکھر یروری مظفر پوری ۱۳۴۰ ھ / ۱۹۵۱ء
۶۔ مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں بریلی خلف اصغر مدفون کراچی ۱۳۷۵/ ۱۹۵۶ء
۷۔ مولانا قاری احمد حسین فیروزپوری مدفون گجرا ت ۱۳۷۹ھ / ۱۹۶۰ء
۸۔ مولانا سردار والی خاں عرف عزو میاں بریلوی مدفون ملتان
۹۔ مولانا حشمت علی خاں لکھنوی ، پیلی بھیتی م ۱۳۸۰/ ۱۹۶۱ء
۱۰۔ مولانا سید ابو الحسنا ت محمد احمد الوری مدفون دربار داتا لاہور م ۱۳۸۰ ھ /۱۹۶۱
۱۱۔ محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد لائل پوری م ۱۳۸۲ ھ / ۱۹۶۲ء
۱۲۔ مولانا شاہ مفتی محمد اجمل سنبھلی م ۱۳۸۳ھ ۱۹۶۳ء
۱۳۔ مولانا محمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں صاحب سجادہ خلف اکبر ۱۳۸۵ / ۱۹۶۵
۱۴۔ مولانا سید ریاض الحسن صاحب جودھپوری مدفون حیدآباد سندھ م ۱۳۹۰ھ ۱۹۷۰ء
۱۵۔ مولانا مفتی محمداعجاز ولی خاں رضوی بریلوی مدفون لاہور م ۱۳۹۳ھ / ۱۹۷۳
۱۶۔ مجاہد ملت مولانا شاہ محمد حبیب الرحمن قادری دھام نگری م ۱۴۰۱ھ / ۱۹۸۱ء
۱۷۔ محدث مولانا محمد احسان علی مظفر پوری ، م ۱۴۰۲ھ / ۱۹۸۲
۱۸۔ مولانا محمد سعید شبلی فیروزپوری ، م ۱۴۰۳ھ / ۱۹۸۲ء
۱۹۔ مداح الرسول صوفی عزیزی احمد بریلوی م ۱۴۰۵ھ/ ۱۹۸۴
۲۰۔ مولانا ریحان رضا خاں رحمانی میاں بریلوی نببیرئہ اکبر م ۱۴۰۵ھ/ ۱۹۸۴
۲۱۔ مولانا شاہ رفاقت حسین مفتی اعظم کانپور امین شریعت بہار م ۱۴۰۳ھ / ۱۹۸۳
۲۲۔ مولانا رضی احمد ماہر رضوی مدھوبنی بہار
۲۳۔ مولانا شاہ ابو سہیل انیس عالم امین شریعت بہار
۲۴۔ مولانا قاضی فضل کریم قاضی شریعت بہار
۲۵۔ شیخ الحدیث مولانا عبد المصطفی اعظمی ، م ۱۴۰۶ھ / ۱۹۸۶
۲۶۔ یادگار سلف مولانا الحاج تقدس علی خاں رضوی بریلوی مدفون پیر جوگوٹھ سندھ
۲۷۔ مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی قادری رضوی بانی و سربراہ سنی رضوی سوسائٹی انٹر نیشنل
۲۸۔ مولانا مفتی ظفر علی نعمانی کراچی ۔
۲۹۔ مولانا سید محمد علی اجمیری مقیم حیدر آباد ۔ سندھ ۔
۳۰ ۔ مولانا محمد علی آنولوی
تصانیف
۱۔ مجموعہ فتاوی قلمی
۲۔ الصارم الربانی علی اسراف القادیانی (۱۳۱۵ھ)
۳۔ نعتیہ دیوان
۴۔ تمہید اور ترجمہ الدولیۃ المکیۃ ۱۳۲۳ھ /۱۹۰۵
۵۔ تمہید الاجازت المتینہ لعلماء بکۃ و المدینۃ ۱۳۴۰ھ / ۱۹۰۶ء
۶۔ تمہید کفل الفقیہ الفاہم ۱۳۴۰ ھ
۷۔ تاریخی نام ، خطبہ الوظیفۃ الکریمہ ۱۳۳۸
۸۔ سد الفرار
۹۔ سلامۃ اللہ لاہل السنۃ من سبیل العناد و الفتنۃ ۱۳۳۲ھ / ۱۹۱۳
۱۰۔ حاشیہ ملا جلال قلمی
۱۱۔ کنز المصلی پرحاشیہ ۱۳۳۲ھ / ۱۹۰۵
۱۲۔ اجلی انوار الرضا ۱۳۳۴ھ / ۱۹۱۵ء
۱۳۔ اثار المبتدعین لہدم حبل اللہ المتین
۱۴۔ وقایہ اہل سنت ،
وصال
آپ ۱۷؍ جمادی الاولی ۱۳۶۲ھ مطابق ۲۲مئی ۱۹۴۳ء بعمر ۷۰ سال عین حالت نماز میں دوران تشہد دس بجکر ۴۵ منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
اولاد امجاد
حضور حجۃ الاسلام قدس سرہ کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیا ں تھی ، صاحبزاگان کے نام یہ ہیں ۔
(۱) مفسر اعظم ہند حضرت مولانا ابراہیم رضا خاں جیلانیؔ میاں
(۲) حضرت مولانا حماد رضا خاں نعمانیؔ میاں ۔
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما رحمۃ واسعۃ
fkfk
حضور مفتیٔ اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا خاں صاحب
ولادت :
مرجع العلماء و الفقہاء سیدی حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ شاہ محمد مصطفی رضا صاحب قبلہ نور اللہ مرقدہ کی ولادت با سعادت ۔ ۲۲؍ذوالحجہ ۱۳۱۰ھ بروز جمعہ صبح صادق کے وقت بریلی شریف میں ہوئی ۔
پیدائشی نام ’’ محمد ‘‘ عرف ’’مصطفی رضا‘‘ ہے ۔ مرشد برحق حضرت شاہ ابو الحسین نوری قدس سرہ العزیزنے آل الرحمن ابو البرکات نام تجویز فرمایا اور چھہ ماہ کی عمر میں بریلی شریف تشریف لاکر جملہ سلاسل عالیہ کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور ساتھ ہی امام احمد رضا قدس سرہ کو یہ بشارت عظمیٰ سنائی کہ
یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گااور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا ۔ یہ بچہ ولی ہے ۔
حصول علم :
سخن آموزی کے منزل طے کرنے کے بعد آپ کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز ہواا ور آپ نے جملہ علوم و فنون اپنے والد ماجد سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ ۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ محمد حامد رضا خاںصاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان۔ استاذ الاساتذہ علامہ شاہ رحم الہی منگلوری ۔ شیخ العلماء علامہ شاہ سید بشیر احمد علی گڑھی ۔ شمس العلماء علامہ ظہور الحسین فاروقی رامپوری سے حاصل کئے اور ۱۸؍ سال کی عمر میں تقریباً چالیس علوم و فنون حاصل کر کے سند فراغت حاصل کی ۔
تدریس :
فراغت کے بعد جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف ہی میں مسند تدریس کو رونق بخشی۔،تقریبا ًتیس سال تک علم و حکمت کے دریا بہائے ۔ بر صغیر پاک و ہند کی اکثر درسگاہیں آپ کے تلامذہ و مستفیدین سے مالا مال ہیں۔
درس افتاء :
فن افتاء کی مثالی تعلیم کا خاکہ خود تلامذہ ہی کی زبانی سنئے ۔
نائب مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
میں گیارہ سال تین اہ خدمت میں رہا، اس مدت میں چوبیس ہزار مسائل لکھے جن میں کم از کم دس ہزار وہ ہیں جن پر حضور مفتی اعظم کی تصحیح و تصدیق ہے ۔ میں گھسا پٹا نہیں ، بہت سوچ سمجھ کر جانچ تول کر مسئلہ لکھتا تھا ، مگر واہ رے مفتی اعظم اگر ذرابھی غلطی ہے ، یا لوچ ہے ،یا بے ربطی ہے، یا تعبیرنا مناسب ہے ،یا سوال کے ماحول کے مطابق جواب میں کمی بیشی ہے، یا کہیں سے کوئی غلط فہمی کا ذرا سابھی اندیشہ ہے تو فوراً اس پر تنبیہ فرماتے اور مناسب اصلاح فرماتے۔ تنقید آسان ہے مگر اصلاح دشوار، مگر ستر سالہ مفتی اعظم کا دماغ اور علم ایسا جوان تھا کہ تنقید کے بعد فوراً اصلاح فرمادیتے اور ایسی اصلاح کہ پھر قلم ٹو ٹ کر رہ جاتا ۔ بار ہا ایسا ہوتا کہ حکم کی تائید میں کہیں عبارت نہ ملتی تو میں اپنی صواب دید سے حکم لکھ دیتا ۔ کبھی دور دراز کی عبارت سے تائید لاتا مگر مفتی اعظم ان کتابوں کی عبارت جو دارالافتاء میں نہ تھیں زبانی لکھوادیتے ۔ میں حیران رہ جاتا ،یا اللہ کبھی مطالعہ کرتے دیکھا نہیں ، یہ عبارتیں زبانی کیسے یاد ہیں ۔
مفتی محمد مطیع الرحمن صاحب پورنوی رقمطراز ہیں:۔
آپ درس افتاء میں محض نفس حکم سے آگاہ نہیں فرماتے بلکہ اس کے مالہ و ماعلیہ کے
تمام نشیب و فراز ذہن نشین کراتے، پہلے آیات و احادیث سے استدلال فرماتے ،پھر اصول فقہ سے اس کی تائید دکھاتے اور پھر قواعد کلیہ کی روشنی میں اس کا جائز ہ لے کر کتب فقہ سے جزئیات پیش فرماتے ۔ پھر مزید اطمینان کے لئے فتاوی رضویہ سے امام احمد رضا کا ارشاد نقل فرماتے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ اقتباس آپ کی شان فقاہت اور کمال تبحر کا بین ثبوت اور اس بات کا روشن بیان ہیں کہ آپ مفتی ہی نہیں بلکہ مفتی ساز اور فقیہ ہی نہیںبلکہ فقیہ النفس تھے ۔
مجاہدانہ زندگی :
آپ کی ۹۲ سالہ حیات مبارکہ میں زندگی کے مختلف موڑ آئے۔ کبھی شدھی تحریک کا قلع قمع کرنے کیلئے جماعت رضائے مصطفی کی صدارت فرمائی اور باطل پرستوں سے پنجہ آزمائی کیلئے سر سے کفن باندھ کر میدان خارز ارمیں کود پڑے، لاکھوں انسانوں کو کلمہ پڑھایا اور بے شمار مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت فرمائی ۔ قیام پاکستان کے نعرے اور خلافت کمیٹی کی آوازیں بھی آپ کے دور میں اٹھیں اور ہزاروں شخصیات اس سے متاثر ہوئیں ۔ نسبندی کا طوفان بلا خیز آپ کے آخری دور میں رونما ہوا اور بڑے بڑے ثابت قدم متزلزل ہوگئے لیکن ہر دور میں آپ استقامت فی الدین کا جبل عظیم بن کر ان حوادث زمانہ کا مقابلہ خندہ پیشانی سے فرماتے رہے ۔
آپ نے اس دور پر فتن میں نسبندی کی حرمت کا فتوی صادر فرمایا جبکہ عموما دینی ادارے خاموش تھے ، یا پھر جواز کا فتوی دے چکے تھے ۔
وصال:
۱۳؍ محر الحرام ۱۴۰۲ ھ / ۱۱ ؍نومبر ۱۹۸۱ ،بدھ کا دن گزار کر شب میں ۱؍ بج کر چالیس منٹ پر ۹۲ سال کی عمر شریف میں وصال فرمایا اور جمعہ کی نماز کے بعد لاکھوں افراد نے نماز جنازہ اسلامیہ کالج کے وسیع میدان میں ادا کی اور امام احمد رضا کے پہلو میںدفن کر دیا گیا ۔
عبادت و ریاضت :
سفر و حضر ہر موقع پر کبھی آپ کی نماز پنجگانہ قضا نہیں ہوتی تھی،ہر نماز وقت پر ادا فرماتے ، سفر میں نماز کا اہتمام نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن حضر ت پوری حیات مبارکہ اس پر عامل رہے۔ اس سلسلہ میں چشم دید واقعات لوگ بیان کرتے ہیں کہ نماز کی ادائیگی و اہتمام کیلئے ٹرین چھوٹنے کی بھی پرواہ نہیں فرماتے تھے ، خود نماز ادا کرتے اور ساتھیوں کو بھی سخت تاکید فرماتے۔
زیارت حرمین شریفین :
آپ نے تقسیم ہند سے پہلے دو مرتبہ حج و زیارت کیلئے سفر فرمایا، اس کے بعد تیسری مرتبہ ۱۳۹۱ ھ / ۱۹۷۱ ء میں جب کہ فوٹو لازم ہو چکا تھا لیکن آپ اپنی حزم و احتیاط پر قائم رہے لہذا آپ کو پاسپورٹ وغیرہ ضروری پابندیوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا اور آپ حج و زیارت کی سعادت سے سرفراز ہوئے ۔
فتوی نویسی کی مدت :
آپ کے خاندان کا یہ طرئہ امتیاز رہا ہے کہ تقریبا ً ڈیڑھ سو سال سے فتوی نویسی کا گراں قدر فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ ۱۸۳۱ ھ میں سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے جد امجد امام العلماء حضرت مفتی رضا علی خاں صاحب قدس سرہ نے بریلی کی سر زمین پر مسند افتاء کی بنیاد رکھی ، پھر اعلیٰ حضرت کے والد ماجد علامہ مفتی نقی علی خاں صاحب قدس سرہ نے یہ فریضہ انجام دیا اور متحدہ پاک و ہند کے جلیل القدر علماء میں آپ کو سر فہرست مقام حاصل تھا ، ان کے بعد امام احمد رضا قد س سرہ نے تقریبا نصف صدی تک علوم و معارف کے دریا بہائے اور فضل و کمال کے ایسے جوہر دکھائے کہ علمائے ہندہی نہیں بلکہ فقہائے حرمین طیبین سے بھی خراج تحسین وصول کیا اور سب نے بالاتفاق چودہویں صدی کا مجدد اعظم تسلیم کیا ۔
آپ کے وصال اقدس کے بعد آپ کے فرزند اکبر حجۃ الاسلام نے اس منصب کو زینت بخشی اور پھر باقاعدہ سیدنا حضور مفتی اعظم کو یہ عہدہ تفویض ہوا جس کا آغاز خود امام احمد رضا کی حیات طیبہ ہی میں ہو چکا تھا ۔
آپ نے مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک فتوی نو عمری کے زمانے میں بغیر کسی کتاب کی طرف رجوع کئے تحریر فرمایا : تو اس سے متاثر ہو کر امام احمد رضا نے فتوی نویسی کی عام اجازت فرمادی اور مہر بھی بنو ا کر مرحمت فرمائی جس پر یہ عبارت کندہ تھی ’ ’ ابو البرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن محمد عرف مصطفی رضا‘‘ یہ مہر دینی شعورکی سند اور اصابت فکر کا اعلان تھی ۔ بلکہ خود امام احمد رضا نے جب پورے ہندوستان کے لئے دار القضاء شرعی کا قیام فرمایا تو قاضی و مفتی کا منصب صدر الشریعہ ، مفتی اعظم اور برہان الحق جبل پوری قدس اسرارہم کو عطا فرمایا ۔
غرضکہ آپ نے نصف صدی سے زیادہ مدت تک لاکھوں فتاوی لکھے ۔ اہل ہندو پاک اپنے الجھے ہوئے مسائل آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتے اور ہر پیدا ہونے والے مسئلہ میں فیصلہ کے لئے نگاہیں آپ ہی کی طرف اٹھتی تھیں ۔ آپ کے فتاوی کا وہ ذخیرہ محفوظ نہ رہ سکا ورنہ آج وہ اپنی ضخانت و مجلدات کے اعتبار سے دوسرا فتاوی رضویہ ہوتا۔
تصنیفات و ترتیبات
آپ کی تصانیف علم و تحقیق کا منارئہ ہدایت ہیں ۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں حق تحقیق ادا فرماتے ہیں ، فقیہ ملت حضرت مفی جلال الدین صاحب قبلہ علیہ الرحمہ نے آپ کی تصانیف کا تعارف تحریر فرما یا ہے اسی کا خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے ۔
۱۔ المکرمۃ النبویۃ فی اللفتاوی المصطفوی ( فتاوی مصطفویہ)
یہ پہلے تین حصوں میں عالی جناب قربان علی صاحب کے اہتمام میں شائع ہو اتھا ۔
اب یہ ۷؍ جلدوں میں مرتب ہو کر امام احمد رضا اکیڈمی سے شائع ہو چکا ہے ۔
۲۔ اشد العذاب علی عابد الخناس (۱۳۲۸)
تحذیر الناس کا رد بلیغ
۳۔ وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰)
بسط البنان اور تحذیر الناس پر تنقید اور۱۳۲سوالا ت کامجموعہ
۴۔ الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی (۱۳۳۱)
تفسیر نعمانی کے مولف پر حکم کفر وارتداد گویا یہ حسام الحرمین کا خلاصہ ہے ۔
۵۔ النکتہ علی مراۃ کلکتہ (۱۳۳۲)
اذان خارج مسجد ہونے پر ائمہ کی تصریحات کا خلاصہ ۔
۶۔ صلیم الدیان لتقطیع حبالۃ الشیطان (۱۳۳۲)
۷۔ سیف القہار علی عبد الکفار (۱۳۳۲)
۸۔ نفی العار عن معائب المولوی عبد الغفار (۱۳۳۲)
۹۔ مقتل کذب وکید (۱۳۳۲)
۱۰۔ مقتل اکذب و اجہل (۱۳۳۲)
اذان ثانی کے تعلق سے سے مولوی عبد الغفار خاں رامپور ی کی متعدد تحریروں کے رد میںیہ رسائل لکھے گئے ۔
۱۱۔ ادخال السنان الی الحنک الحلق البسط البنان (۱۳۳۲)
۱۲۔ وقایۃ اہل السنۃ عن مکر دیوبند و الفتنۃ (۱۳۳۲)
اذان ثانی سے متعلق آیک کانپوری دیوبندی کا رد
۱۳۔ الہی ضرب بہ اہل الحرب (۱۳۳۲)
۱۴۔ الموت الاحمر علی کل انحس اکفر (۱۳۳۷)
موضوع تکفیر پر نہایت معرکۃ الآراء بحثیں اس کتاب میں تحقیق سے پیش کی گئی ہیں ۔
۱۵۔ الملفوظ ، چار حصے (۳۳۸ا)
امام احمد رضا قدس سرہ کے ملفوظات
۱۶۔ القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹)
اذان کے بعد صلوۃ پکارنے کا ثبوت
۱۷۔ الطاری الداری لہفوات عبد الباری (۱۳۳۹)
امام احمد رضا فاضل بریلو ی اور مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے درمیان مراسلت کا مجموعہ
۱۸۔ طرق ا لہدی و الارشاد الی احکام الامارۃ و الجہاد (۱۳۴۱)
اس رسالہ میں جہاد، خلافت ، ترک موالات ، ، نان کو آپریشن اور قربانی گائو وغیرہ کے متعلق چھہ سوالات کے جوابات ۔
۱۹۔ فصل الخلافۃ (۱۳۴۱)
اس کا دوسر ا نام سوراج در سوراخ ہے اور مسئلہ خلافت سے متعلق ہے ۔
۲۰۔ حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ (۱۳۴۲)
بعض لیڈروں کا رد جنہوں نے حج بیت اللہ سے ممانعت کی تھی اور کہا تھا کہ شریف مکہ ظالم ہے ۔
۲۱۔ القسورۃ علی ادوار الحمر الکفرۃ (۱۳۴۳)
جس کا لقبی نام ظفر علی رمۃ کفر
اخبار زمیندار میں شائع ہونے والے تین کفری اشعارکارد بلیغ ۔
۲۲۔ سامان بخشش (نعتیہ دیوان) ( ۱۳۴۷)
۲۳۔ طرد الشیطان (عربی)
نجدی حکومت کی جانب سے لگائے گئے حج ٹیکس کا رد ۔
۲۴۔ مسائل سماع
۲۵۔ سلک مرادآباد پر معترضانہ رمارک
۲۶۔ نہایۃ السنان ،
بسط البنان کا تیسرارد
۲۷۔ شفاء العی فی جواب سوال بمبئی
اہل قرآن اور غیر مقلدین کا اجتماعی رد
۲۸۔ الکاوی فی العاوی و الغاوی (۱۳۳۰)
۲۹۔ القثم القاصم للداسم القاسم (۱۳۳۰)
۳۰۔ نور الفرقان بین جند الالہ و احزاب الشیطان (۱۳۳۰)
۳۱۔ تنویر الحجۃ بالتواء الحجۃ
۳۲۔ وہابیہ کی تقیہ بازی
۳۳۔ الحجۃ الباہرہ
۳۴۔ نور العرفان
۳۵۔ داڑھی کا مسئلہ
۳۶۔ حاشیہ الاستمداد ( کشف ضلال ویوبند)
۳۷۔ حاشیہ فتاوی رضویہ اول
۳۸۔ حاشیہ فتاوی رضویہ پنجم
بعض مشاہیر تلامذہ
بعض مشہور تلامذئہ کرام کے اسماء اس طرح ہیں جو بجائے خود استاذ الاساتذہ شمار کئے جاتے ہیں۔
۱۔ شیر بشیۂ اہل سنت حضرت علامہ محمد حشمت علی خاں صاحب قدس سرہ
۲۔ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ و الرضوان
۳۔ فقیہ عصر مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خاں صاحب بریلی شریف علیہ الرحمۃ و الرضوان
۴۔ فقیہ عصر شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی دامت علیہ الرحمہ
۵۔ محدث کبیر علامہ محمد ضیاء المصطفی اعظمی شیخ الحدیث الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور
۶۔ بلبل ہند مفتی محمد رجب علی صاحب نانپاروی ، بہرائچ شریف
۷۔ شیخ العلماء مفتی غلام جیلانی صاحب گھوسوی
مستفیدین اور درس افتاء کے تلامذہ کی فہرست نہایت طویل ہے جن کے احاطہ کی اس مختصر میں گنجائش نہیں، صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ آسمان افتاء کے آفتاب و ماہتاب بنکر چمکنے والے مفتیان عظام اسی عبقری شخصیت کے خوان کرام کے خوشہ چین رہے جس سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضور مفتی اعظم ہند کو افتاء جیسے وسیع و عظیم فن میں ایسا تبحر اور ید طولیٰ حاصل تھا کہ ان کے دامن فضل و کرم سے وابستہ ہو کر ذرے ماہتاب بن گئے ۔
بعض مشاہیر خلفاء
۱۔ مفسر اعظم ہند مولانامحمد ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں بریلی شریف
۲۔ غزالی دوراں علامہ سید احمد سعیدصاحب کاظمی، ملتان پاکستان
۳۔ مجاہد ملت علامہ حبیب الرحمن صاحب رئیس اعظم اڑیسہ
۴۔ شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں صاحب، پیلی بھیت
۵۔ رازی زماں مولانا حاجی مبین الدین صاحب امروہہ ،مرآد اباد
۶۔ شہزادۂ صدر الشریعہ مولانا عبد المصطفی صاحب ازہری کراچی ، پاکستان
۷۔ شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق صاحب امجدی گھوسی، اعظم گڑھ
۸۔ شمس العلماء مولانا قاضی شمس الدین احمد صاحب جونپور
۹۔ محدث اعظم پاکستان مولانا محمد سردار احمد صاحب لائل پور ، پاکستان
۱۰۔ خطیب مشرق مولانا مشتاق احمد صاحب نظامی الہ آباد۔
۱۱۔ پیر طریقت مولانا قاری مصلح الدین صاحب کراچی پاکستان
۱۲۔ استاذ العلماء مولانا محمد تحسین رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۳۔ قائد ملت مولانا ریحان رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۴۔ تاج الشریعہ مولانا محمد اختر رضا خاں صاحب بریلی شریف
۱۵۔ پیر طریقت مولانا سید مبشر علی میاں صاحب بہیڑی بریلی شریف
۱۶۔ فاضل جلیل مولانا سیدشاہد علی صاحب الجامعۃ الاسلامیہ رامپور

Menu