عاشق خواجۂ اجمیر ہیں سبطین رضا
از: محمــــــــد اشــــــــرف رضا قادری –مدیر اعلی سہ ماہی امین شــــــــریعت
بریلی کا تعلق اجمیر معلی سے اتنا پاکیزہ اور مستحکم ہے جو نہ ٹوٹا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہےکیوں کہ دونوں فکریں بغداد مقدسہ کی مرہون منت ہیں، اسی پر سارے عقائد کو قیاس کر لیا جائے، حضور اعلیٰ حضرت نے جو کچھ تاجدار اجمیر کی مدح سرائی میں کہا ہے اگر اس کو یکجا کر دیا جائے تو اس کا کوئی جواب نہ ہوگا، سچ تو یہ ہے کہ حضور اعلیٰ حضرت کے قلم سے نکلا ہوا ہر لفظ و ہر حرف حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کی محبت کا عکاس اور ان کے مشن کا ترجمان ہے ، آیئے اسی خانوادے کے ایک چشم و چراغ حضور امین شریعت کے دل میں خواجۂ اجمیری کی جو محبت تھی اسے ملاحظہ فرمائیں۔
یہ کڑی اس ذات عالی مرتبت کی ہے جو ایک اعلیٰ علمی گھرانہ میں عدم سے وجود کی جانب جلوہ بار ہوئی، جس نے فکر و شعور کی تابناکیاں شعر و سخن اور لوح و قلم کے مالک کے آنگن میں پائی ،زیور علم و ادب ،فکر و فن، اور تہذیب و تمدن سے جس کو سرکار مفتیٔ اعظم ہند نے مزین کیا۔ جب ہر اعتبار سے فیض بخش بن گیا تو زینت بزم درس و تدریس نظر آئے، ناگپور تشریف لائے اور وہاں جامعہ عربیہ میں بیٹھ کر علم و ہنر کا جوت جگانہ شروع کر دیا اور اس کے ذریعے لاکھوں عندلیبان علوم نبویہ کی تشنہ لبی دور کر دی، جب چھتیس گڑھ کے صحراء جہل میں قدم رکھا تو نور علمی سے اس کو جگمگا دیا ، جو بیک وقت مدرس بھی ہے ، مقرر بھی ہے، خطیب بھی ہے، لوح و قلم کا سلطان بھی ہے، شعر و سخن کا آسمان بھی ہے، زہد و تقویٰ کا شہاب ثاقب بھی ہے، عبادت و ریاضت کا روشن آفتاب بھی ہے، صحافت کا علمبردار بھی ہے، درس و تدریس کا شہسوار بھی ہے، ماہر علوم و فنون بھی ہے، شریعت کا نگہبان بھی ہے، طریقت کا پاسبان بھی ہے، فہم و فراست کا مالک بھی ہے، بصارت و بصیرت کا مخزن بھی ہے، منصب ولایت کا تاجدار بھی ہے، سلطنت صوفیت کا سالار بھی ہے، محفل معرفت کی شمع فروزاں بھی ہے، افلاک حقیقت کا نیر تاباں بھی ہے، جس کو دنیا امین شریعت ، شبیہ مفتیٔ اعظم حضرت علامہ الشاہ مفتی محمد سبطین رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان نبیرئہ استاذ زمن جگر گوشۂ علامہ حسنین رضا علیہما الرحمہ کے نام سے جانتی پہچانتی اور مانتی ہے۔
حضور امین شریعت کے نہاں خانۂ قلب و جگر میں سلطان الہند، عطائے رسول، معین الملۃ و الدین سیدنا غریب نواز علیہ الرحمہ کی محبت و عقیدت کی قندیلیں کس آب و تاب کے ساتھ روشن تھیں، انہیں اجمیر شریف سے کتنا پیار تھا اس کا اندازہ لگانا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے اور کیوں نہ ہوتا وہ حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کو غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی کرامت کی شکل میں دیکھتےتھے، جب جب ان کی نگاہ ناز غریب نواز کی آمد سے قبل کے ہندوستان پر جاتی اور آج کے ہندوستان کا نقشہ سامنے آتا تو بے ساختہ پکار اٹھتے ، یا سیدی غوث اعظم تیرے قدموں پر کائنات کی ساری رعنائیاں قربان ہوں، کہ تو نے ہندوستانیوں کو صنم خانے سے نکال کر کعبے کا پاسبان بنا دیا ہے، تیرا یہ احسان عظیم ہے کہ معین الملۃ و الدین کو ہندوستان عطا کیا ، جن کے مساعیٔ جمیلہ کی بنیاد پر ہمارے ایمان کا حسین و خوبصورت تاج محل دعوت نظارہ پیش کر رہا ہے ، حضور امین شریعت ایک مقام پر اپنے خطاب میں فرماتے ہیں کہ ’’ حضور غریب نواز علیہ الرحمہ نے غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تبلیغ اسلام کے لئے اجازت طلب کی اس وقت غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہندوستان کی ولایت عطا کئے جانے کا اظہار فرمایا چونکہ اعلان تو اسی وقت کر دیا گیا تھا، جب آپ نے اپنے سر اور اپنی آنکھوں پر قدم مبارک رکھنے کا بے خودی و وارفتگی میں اظہار فرمایا تھا ، غوث پاک نے ولایت بغداد حضرت ابوعمر سہروردی کے سپرد کر دی تھی ، اس لئے ہندوستان کو آپ کے لئے منتخب فرمایا اور ہمارے نصیبہ کو اوج ثریا تک پہونچا دیا، ہم ہندوستانی اسلام کو انہی دو شخصیتوں کے نام سے منسوب کرتے ہیں، آج خانۂ خدا میں جو بہار ہے مدارس اسلامیہ میں قال اللہ و قال الرسول کا جو جام سرمدی چھلک رہا ہے بندے کی جبین تقدس پر عبادت و ریاضت کی قندیلیں جو تبسم ریز ہیں ، خانقاہوں سے عشق و عرفان کے جو پھوارے پھوٹ رہے ہیں، فضائے ہند پرنکہت اسلامی کی جو بھینی بھینی خوشبوئیں پھوٹ رہی ہیں، گنگ و جمن کی لہروں سے لالہ کے صدائے دل نواز کی جو گونج سماعت سے ٹکرا رہی ہے ، یہ غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت و کرامت کا اثر ہے اور سلطان الہند معین الملۃ و الدین سیدنا خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے مساعیٔ جمیلہ کا نتیجہ ہے ، ایک ہندوستانی ہندی ہونے کی حیثیت سے ان احسانات کو فراموش نہیں کر سکتا ، زمانۂ دراز کے بعد طوفان بدتمیزی نے معین الدین اور محی الدین کے روشن کردہ چراغ حقانیت کو گل کرنے کی ناپاک کوشش کی تو اس وقت ان دونوں بزرگوں کی کرامت بن کر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ جلوہ بار ہوئے اور اس ضیائے اسلام کی درخشندگی کو بچایا بھی اور اس میں دو بالگی بھی لایا اسی کو ہم مسلک اعلیٰ حضرت سے تعبیر کرتے ہیں ، در حقیقت یہ امانت کی حفاظت کا صلہ ہے بلکہ یہ بھی انہی دو بزرگوں کا احسان ہے کہ ہمیں ایمان بھی دیا اور اس کی حفاظت بھی کی ‘‘ اس کی ترجمانی استاذ زمن نے یوں کی:
گلشن ہند ہے شاداب کلیجے ٹھنڈے
واہ اے ابر کرم روز برسنا تیرا
حضور امین شریعت علیہ الرحمہ جہاں جہاں خطاب کے لئے تشریف لے جاتے اپنے خطاب میں سیدنا خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کا ذکر جمیل ضرور کرتے ، ایک مقام پر استقامت علی الدین پر گفتگو فرماتے ہوئے کہا کہ ہمیں حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کی زندگی سے درس عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ کہاں سنجر، کہاں ہندوستان ، اشارہ پاتے ہی رخت سفر باندھ لیا اپنے احباب، جائے پیدائش، گھر بار، کسی چیز کا خیال ذہن و فکر میں نہیں لایا، وہاں سے پیدل چلے ،جنگلوں ، چٹیل میدان، صحرا بیابان، سنگلاخ وادیاں، سب سے گذرنا پڑا، دشت و جبل کی خاک چھاننی پڑی اسلام کی ترویج و اشاعت کے شوق نے تمام کٹھنائیوں سے گزرنے پر مجبور کر دیا اور پیشانی پر بل بھی نہیں لایا ، جب کفرستان میں وارد ہوئے مصائب و آلام کا طوفان ٹوٹ پڑا، سحر کاریوں کی آندھیاں اٹھیں ، جادو گری کی بجلیاں چمکیں، سنگ باریاں بھی ہوئیں، زہریلے ، ہلاکت کن جانوروں کے سیلاب بھی امڈے ، اس کے باوجود عزم و استقلال میں ذرہ برابر فرق نہ پڑا، اس ناگفتہ بہ حالات میں بھی نماز کی پابندی برقرار رہی ، روزے معمولات کے مطابق ادا ہوتے رہے ، تسبیح و تہلیل کی صدائیں بلند ہوتی رہیں ، تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہا، ذکر و اذکار کی محفلیں سجتی رہیں، حوادثات کے باران آتش کو استقامت علی الدین پر اثر انداز نہیں ہونے دیا، اس کا ثمرہ یہ ہوا کہ نوے لاکھ کافروں نے اسلام قبول کر لیا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سلطان الہند کی زندگی کی نورانیت کو اپنی حیات کے لئے آئیڈیل بنائیں ، حضور امین شریعت قدس سرہ جب خواجہ ٔپاک کا تذکرہ فرماتے تو ذاتی نام کم لیتے زیادہ تر وصفی نام کا ورد کرتے ، شہر حضور غریب نواز کا ذکر جمیل ہوتا تو اجمیر معلی، اجمیر شریف اور اجمیر مقدس جیسے لفظ کا استعمال کرتے، حضور امین شریعت علیہ الرحمہ متعدد بار اجمیر معلی کی زیارت سے مشرف ہونے حاضر دربار ہوئے ، ایک مرتبہ تذکرہ کے دوران فرمایا کہ قربان جائوں حضور اعلیٰ حضرت کی شان عظمت و رفعت پر جنہوں نے شاید مشاہدات کی ضو باریوں میں رقم فرمایا کہ جب کوئی حاجت ہو اور ضرورت کی تکمیل کے سارے راستے ظاہرا مسدود دکھائی دیں اس وقت حضور غریب نواز علیہ الرحمہ کی چوکھٹ پر حاضری دے اور اپنی حاجت کی تکمیل کا مطالبہ خدا وند قدوس سے کرے تو خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ کی چوکھٹ کی برکت سے اللہ عز و جل اس کی حاجت پوری فرما دے گا، فقیر جس ضرورت سے حاضر ہوا اس کی تکمیل ہوئی ، بڑی عالیشان بارگاہ ہے ہر وقت فیضان کا بحر بیکراں معجزن ہے آنے والے روتے آ رہے ہیں جاتے وقت لبوں پر مسکراہٹ کے ترانے لے جا رہے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ ہند کے سلطان ہیں اور قیام قیامت تک رہیں گے ، ان کلمات فاضلہ کی سماعت سے واضح ہو جاتا ہے کہ بریلی غوث کا دیوانہ ہےاور غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے بڑی کرامت کی ایک عظیم نشانی کا نام غریب نوازہے۔
خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
کبھی محروم نہیں مانگنے والا تیرا