امام احمد رضا اور قادیانیت کاتعاقب

تحریر:شرف ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرفؔ قادری علیہ الرحمہ


۱۳۳۶ھ میں ایک استفتاآپ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی لڑکی کا نکاح مرزائی سے کر دیا ہے، حالاںکہ اسے علم ہے کہ تمام علماے اسلام فتویٰ دے چکے ہیں کہ مرزائی کافر و ملحد ہے۔ اس کے جواب میں امام احمد رضاقدس سرہ فرماتے ہیں:

’’اگر ثابت ہو کہ وہ (لڑکی کا باپ) مرزائیوں کو مسلمان جانتا ہے اِس بنا پر یہ تقریب کی تو خود کافرو مرتد ہے، علماے حرمین شریفین نے قادیانی کی نسبت بالاتفاق فرمایا:

مَنْ شَکَّ فِی عَذَابِہٖ وَکُفْرِہٖ فَقَدْ کَفَرَ

’’جو اس کے کافر ہونے میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔‘‘

اس صورت میں فرضِ قطعی ہے کہ تمام مسلمان موت و حیات کے سب علاقے اس سے قطع کر دیں۔

…بیمار پڑے پوچھنے کو جانا حرام،مر جائے تو اس کے جنازے پر جانا حرام،اسے مسلمانوں کے گورستان میں دفن کرنا حرام،اس کی قبر پر جانا حرام۔(فتاویٰ رضویہ:طبع مبارک پور، ج۶،ص۵۱)

۱۳۳۵ھ میں محمد عبدالواحد خاں مسلم ممبئی اسلام پورہ نے سوال کیا کہ قادیانیوں سے کس پیراے میں بحث کی جائے؟ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’سب میں بھاری ذریعہ اس کے رد کا اول اول کلماتِ کفر پر گرفت ہے جو اس کی تصانیف میں برساتی حشرات الارض کی طرح اہلے گہلے پھر رہے ہیں۔ انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی توہینیں، عیسیٰ علیہ السلام کو گالیاں، ان کی ماں طیبہ طاہرہ پر طعن اور یہ کہنا کہ یہودی کے جو اعتراض عیسیٰ اور ان کی ماں پر ہیں ان کا جواب نہیں، (اس کے علاوہ متعدد کفر گنوائے۔)

دوسرا بھاری ذریعہ ان خبیث پیشین گوئیوں کا جھوٹا پڑنا جن میں بہت چمکتے روشن حرفوں سے لکھنے کے قابل دو واقعے ہیں:

(۱)لڑکے کی پیدائش کی خبر نشر کی لیکن لڑکی پید اہوئی۔

(۲)محمدی بیگم سے نکاح کی پیشین گوئی کی لیکن وہ بھی جھوٹی ہوئی۔

غرض اس کے کفر حدو شمار سے باہر ہیں، کہاں تک گنے جائیں؟ اور اس کے ہوا خواہ ان باتوں کو ٹالتے ہیں اور بحث کریں گے تو کاہے میں؟ کہ عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انتقال فرمایا، مع جسم اٹھائے گئے یا صرف روح؟ مہدی و عیسیٰ ایک ہیں یا متعدد؟ یہ ان کی عیاری ہوتی ہے، ان کفروں کے سامنے ان مباحث کا کیا ذکر؟‘‘(ایضاً:ص۳۱۔۳۲)

۱۳۳۹ھ میں ڈیرہ غازی خاں سے عبدالغفور صاحب نے استفتا بھیجا کہ ایک قادیانی کہتا ہے کہ ابن ماجہ شریف کی حدیث کے مطابق ہر صدی کے بعد مجدد ضرور آئے گا۔ لاہوری پارٹی کا موقف یہ ہے کہ مرزا وقت کا مجدد ہے،ا س کے جواب میں امام احمد رضا بریلوی نے تحریر فرمایا:

مجدد کا کم از کم مسلمان ہونا تو ضروری ہے اور قادیانی کافر و مرتد تھا، ایسا کہ تمام علماے حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا کہ جو اس کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر۔ لیڈر بننے والوں کی ایک ناپاک پارٹی قائم ہوئی جو گاندھی مشرک کو رہبر، دین کا امام پیشوا مانتے ہیں، گاندھی پیشوا ہو سکتا ہے نہ مجدد۔ (ایضاً:ص۸۱)

امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۳۲۰ھ میں مولانا شاہ فضل رسول بدایونی رحمہ اللہ تعالیٰ کی تصنیف لطیف ’’المعتقد المنتقد‘‘ پر قلم برداشتہ حاشیہ لکھا، اپنے دور کے مبتدعین نوپیدا فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے مرزاے قادیانی کے متعدد کفر گنوائے اور آخر میں فرمایا:

’’اس کے علاوہ اس کے بہت سے ملعون کفر ہیں، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس کے اور دوسرے تمام دجالوں کے شر سے محفوظ رکھے۔‘‘(المعتقدالمنتقد:مطبوعہ مکتبۂ حامدیہ لاہور،ص۲۳۹)

۱۳۲۴ھ میں امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حرمین شریفین کے علماے اہلِ سُنّت کی خدمت میں ایک استفتا بھیجا جس میں چند فرقوں اور ان کے عقائد کا تذکرہ تھا، ان میں سر فہرست مرزائیوں کا ذکر تھا۔(حسام الحرمین:ص۷/۱۵،مطبوعہ مکتبۂ نبویہ لاہور)

اس کے جواب میں حرمین شریفین کے علما نے مرزائیوں اور مرزائی کو کافر قرار دیا۔

اس کے علاوہ انھوں نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور ردّ مرزائیت میں مستقل رسائل بھی لکھے:

(۱)جزاء اللّٰہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ:

اس رسالۂ مبارکہ میں عقیدۂ ختم نبوت پرایک سو بیس حدیثیں اور منکرین کی تکفیر پر جلیل القدر ائمہ کی تیس تصریحات پیش کیں۔

(۲)المبین ختم النبیین:

اس رسالے میں بیان فرمایا کہ خاتم النبیین میں الف لام استغراق کے لیے ہے یعنی ہمارے آقا و مولا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمام انبیاے کرام کے خاتم ہیں۔جو شخص اس استغراق کو نہیں مانتا اسے کافر کہنے کی ممانعت نہیں ہے،ا س نے نصِ قرآنی کو جھٹلایا ہے جس کے بارے میں اُمت کا اجماع ہے کہ اس میں نہ کوئی تاویل ہے نہ تخصیص۔ (فتاویٰ رضویہ:ج۶،ص۵۸،طبع مبارک پور)

(۳)قھر الدیان علیٰ مرتد بقادیان:

اس میں جھوٹے مسیح، مرزاے قادیانی کے شیطانی الہاموں کا رد کر کے عظمتِ اسلام کو اجاگر کیا ہے۔

(۴)السوء والعقاب علی المسیح الکذاب:

۱۳۲۰ھ میں امرتسر سے ایک سوال آیا کہ ایک مسلمان اگر مرزائی ہو جائے تو کیا اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی؟ اس کے جواب میں امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس رسالے میں دس وجہ سے مرزاے قادیانی کا کفر بیان کر کے متعدد فتاویٰ کے حوالے سے یہ حکم تحریر فرمایا:

’’یہ لوگ دینِ ا سلام سے خارج ہیں اور ان کے احکام بعینہٖ مرتدین کے احکام ہیں… شوہر کے کفر کرتے ہی عورت فوراً نکاح سے نکل جاتی ہے۔‘‘

(مجموعہ رسائل ردِ مرزائیت:ص۴۴،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہو ر )

(۵)الجرازالدیانی علی المرتد القادیانی:

یہ امام احمد رضا بریلوی کی آخری تصنیف ہے جو آپ نے وصال سے چند دن پہلے تحریر فرمائی۔

آپ کے صاحب زادے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’الصارم الربانی علی اسراف القادیانی‘‘ تحریر فرمائی، جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا مسئلہ تفصیل سے بیان کیا اور مرزا کے مثیل مسیح ہونے کا زبردست ردّ کیا۔ یہ رسالہ سہارن پور سے آنے والے سوال کے جواب میں لکھا گیا۔

امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ اس رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بحمداللہ! اس شہر (سہارن پور) میں مرزا کا فتنہ نہ آیا اور اللہ عزوجل قادر ہے کہ کبھی نہ لائے۔ (ایضاً:ص۲۶)

’’قادیانی ایسے کو خدا کہتا ہے:

٭  جس نے چار سو جھوٹوں کو اپنا نبی کہا، ان سے جھوٹی پیشین گوئیاں کہلوائیں۔

٭  جس نے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) ایسے کو عظیم الشان رسول بنایا جس کی نبوت پر اصلاً دلیل نہیں بلکہ اس کی نفی نبوت پر دلیل قائم جو (خاک بدہن ملعون) ولدالزنا تھا۔

٭  جس کی تین دادیاں نانیاں زناکار کسبیاں، ایسے کو (خدا مانتا ہے)

٭  جس نے ایک بڑھئی کے بیٹے کو محض جھوٹ کہہ دیا کہ ہم نے بن باپ کے بنایا اور اس پر فخر کی ڈینگ ماری کہ یہ ہماری قدرت کی کیسی کھلی نشانی ہے؟

ایسے کو (خدا مانتا ہے)

٭  جس نے ایک بدچلن عیاش کو اپنا نبی کہا۔

٭ جس نے ایک یہودی فتنے کو اپنا رسول کر کے بھیجا۔

٭  جس کے پہلے فتنے نے دنیا کو تباہ کر دیا۔

٭  ایسے کو (خدا مانتا ہے) جو اس (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو ایک بار دنیا میں لاکر دوبارہ لانے سے عاجز ہے۔

٭  وہ جس نے ایک شعبدہ باز کی مسمریزم والی مکروہ حرکات، قابلِ نفرت حرکات، جھوٹی بے ثبات کو اپنی آیات بیّنات بتایا۔‘‘

(فتاویٰ رضویہ:شیخ غلام علی لاہور،ج۱، ص۷۴۲)

٭ ایسے کو (خدا مانتا ہے) جس نے اپنا سب سے پیارا بروزی خاتم النبیین دوبار قادیان میں بھیجا مگر اپنی جھوٹ، فریب، تمسخر، ٹھٹول کی چالوں سے اس کے ساتھ بھی نہ چوکا، اس سے کہہ دیا:

تیری جورو کے اس حمل سے بیٹا ہوگا جو انبیا کا چاند ہوگا، بادشاہ اس کے کپڑوں سے برکت لیں گے، بروزی بے چارہ اس کے دھوکے میں آکر اسے اشتہاروں میں چھاپ بیٹھا، اسے تو یوں ملک بھر میں جھوٹا بننے کی ذلت و رسوائی اوڑھنے کے لیے یہ جل دیا اور جھٹ پٹ میں اُلٹی یہ کل پھرا دی، بیٹی بنا دی، بروزی بے چارہ کو اپنی غلط فہمی کا اقرار چھاپنا پڑا اور اب دوسرے پیٹ کا منتظر رہا۔

اب کی یہ مسخرگی کی کہ بیٹا دے کر امید دلائی اور ڈھائی برس کے بچے ہی کا دم نکال دیا، نہ نبیوں کا چاند بننے دیا، نہ بادشاہوں کو اس کے کپڑوں سے برکت لینے دی۔

غرض کہ اپنے چہیتے بروزی کا کذاب ہونا خوب اُچھالا اور اس پر مزید یہ کہ عرش پر بیٹھا اس کی تعریفیں گا رہا ہے۔ (ایضاً)

مرزاے قادیانی کی جھوٹی نبوت کو محمدی بیگم کی وجہ سے سخت دھچکا لگا، بقول مرزاے قادیانی:

اسے اِلہام ہوا کہ اپنی رشتے کی بہن احمدی بیگم کی بیٹی محمدی بیگم سے نکاح کا پیغام بھیجو، مرزا نے جھٹ پیغام بھیج دیا اور تشہیر بھی کر دی کہ میرا نکاح محمدی بیگم سے ہوکر رہے گا۔ا س کی بدقسمتی کہ پیغامِ نکاح رد کر دیا گیا، منت سماجت بھی کی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ مرزا صاحب دھمکیوں پر اتر آئے کہ اگر محمدی بیگم کا نکاح دوسری جگہ کر دیا گیا تو اڑھائی سال میں اس کا باپ مر جائے گا اور تین سال میں اس کا شوہر ہلاک ہو جائے گا یا اس کے برعکس ہوگا۔

ان سب کوششوں کا نتیجہ کیا نکلا؟ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ سے سنیے:

’’اب قادیانی کے ساختہ خدا کو اور شرارت سوجھی، چٹ بروزی (مرزا) کو وحی پھنٹا دی کہ زَوَّجْنَا کَھَا محمدی (بیگم) سے ہم نے تیرا نکاح کر دیا، اب کیا تھا بروزی جی ایمان لے آئے کہ اب محمدی (بیگم) کہاں جا سکتی ہے؟ یوں جل دے کر بروزی مرزا کے منھ سے اسے اپنی منکوحہ چھپوا دیا تاکہ وہ حد بھر ذلت جو ایک چمار بھی گوارا نہ کرے کہ اس کی جورو اس کے جیتے جی دوسرے کی بغل میں، یہ مرتے وقت بروزی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہوا اور رہتی دنیا تک بے چارے کی فضیحت و خواری و بے عزتی و کذابی کا ملک میں ڈنکا ہوا۔‘‘

ادھر تو عابد و معبود کی یہ وحی بازی ہوئی، ادھر سلطان محمد آیا اور نہ عابد کی چلنے دی اور نہ معبود کی، بروزی جی کی آسمانی جورو سے بیاہ کر، ساتھ لے، یہ جا وہ جا، چلتا بنا، ڈھائی تین برس پر موت کا وعدہ تھا، وہ بھی جھوٹا گیا، الٹے بروزی جی زمین کے نیچے چل بسے وغیرہ وغیرہ خرافات ملعونہ۔

یہ ہے قادیانی اور اس کا ساختہ خدا، کیا وہ جانتا تھا یا اب اس کے پیرو جانتے ہیں؟ حَاشَ لِلّٰہٖ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ (ایضاً:۷۴۳)

مرزائیوں کے احکام:

امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:

٭قادیانی مرتد منافق ہیں… مرتد منافق وہ شخص ہے جو کلمۂ اسلام پڑھتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے،ا س کے باوجود اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا کسی نبی کی توہین کرتا ہے یا ضرورتِ دین میں سے کسی شے کا منکر ہے۔(احکام شریعت:طبع کراچی،ج۱،ص۱۱۲)

٭قادیانی کے پیچھے نماز باطل محض ہے۔(ایضاً:ص۱۲۸)

٭قادیانی کو زکوٰۃ دینا حرام ہے اور اگر ان کو دے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔(ایضاً:ص۳۹)۱

٭قادیانی مرتد ہے، اس کا ذبیحہ محض نجس و مردار، حرامِ قطعی ہے۔( ایضاً:ص۱۲۲)

٭مسلمانوں کے بائی کاٹ کے سبب قادیانی کو مظلوم سمجھنے والا اور اس سے میل جول چھوڑنے کو ظلم و ناحق سمجھنے والا اسلام سے خارج ہے۔ (ایضاً:ص۱۷۷)

ردِ مرزائیت میں امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوئوں کو ہر موافق و مخالف نے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ پروفیسر خالد شبیر احمد، فیصل آباد، دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے اپنی تالیف ’’تاریخ محاسبۂ قادیانیت‘‘ میں ردِ مرزائیت سے متعلق امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ بڑے اہتمام سے نقل کیا اور فتوے سے پہلے اپنے تاثرات یوں قلم بند کیے:

’’اس فتویٰ سے جہاں مولانا کے کمالِ علم کا احساس ہوتا ہے وہیں مرزا غلام احمد کے کفر کے بارے میں ایسے دلائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی ذی شعور مرزا صاحب کے اسلام اور اس کے مسلمان ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘‘(تاریخ محاسبۂ قادیانیت:ص۴۵۵،مطبوعہ فیصل آباد)

مزید لکھتے ہیں:

’’ذیل کا فتویٰ بھی آپ کی علمی استطاعت، فقہی دانش و بصیرت کا ایک تاریخی شاہ کار ہے جس میں آپ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے کفر کو خود ان کے دعاوی کی روشنی میں نہایت مدلل طریقے سے ثابت کیا ہے، یہ فتویٰ مسلمانوں کا وہ علمی و تحقیقی خزینہ ہے جس پر مسلمان جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔‘‘ (ایضاً:ص۴۶۰)

بعض غیر ذمہ دار افراد نے محض مخالفت براے مخالفت کے نقطۂ نظر سے امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے سروپا باتیں منسوب کر کے غیر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا او ریہاں تک لکھ دیا:

’’مرزا غلام قادر بیگ جو انھیں (امام احمد رضا بریلوی کو) پڑھایا کرتے تھے، نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کے بھائی تھے۔‘‘(احسان الٰہی ظہیر،البریلویہ :عربی، ْص۱۹۔۲۰،طبع لاہور)

امام احمد رضا بریلوی کے ابتدائی استاذ اور مرزاے قادیانی کے بھائی کا نام ایک ہے، جس کی بنا پر یہ مغالطہ دیا گیا، حالاںکہ یہ دونوں الگ الگ شخص ہیں۔

حضرت مولانا مرزا غلام قادر بیگ رحمہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بھائی مرزا مطیع بیگ کے پوتے مرزا عبدالوحید بیگ (بریلی) نے اپنے ایک مقالے میں اس الزام تراشی کا جواب دیا ہے۔ ان کا بیان ہے کہ مرزا غلام قادر بیگ لکھنؤ کے محلہ جھوائی ٹولہ میں یکم محرم، ۲۵جولائی ۱۲۴۳ھ/ ۱۸۲۷ء کو پیدا ہوئے، ان کے والد لکھنؤ سے بریلی منتقل ہو گئے تھے،ہمارا خاندان نسلاً ایرانی یا ترکستانی مغل نہیں ہے مرزا اور بیگ کے خطابات اعزاز شاہانِ مغلیہ کے عطا کردہ ہیں۔ مرزا غلام قادر بیگ طبابت کرتے تھے اور دینی تعلیم بلا معاوضہ دیا کرتے تھے، د وسرے طالب علم آپ کے مطب پر پڑھنے آتے لیکن آپ امام احمد رضا بریلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کو ان کے مکان پر ہی درس دیتے تھے، پھر ایک وقت آیا کہ انھوں نے اصرار کر کے امام احمد رضا رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہدایہ کا درس لیا اور فخر سے فرمایا کرتے تھے کہ:

’’میں علم و فضل کے شہنشاہ کا شاگرد ہوں، ان شاء اللہ! روزِ قیامت بھی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگردوں کی مبارک صف میں شامل ہوں گا۔‘‘

حضرت مرزا غلام قادر بیگ کا انتقال بریلی شریف میں یکم محرم، ۱۸؍ اکتوبر ۱۳۳۶ھ/ ۱۹۱۷ء کو نوے سال کی عمر میں ہوا۔ محلہ باقر گنج میں واقع حسین باغ میں دفن کیے گئے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔

جناب مرزا عبدالوحید بیگ (بریلی) لکھتے ہیں:

’’ہمارے خاندان کا کبھی بھی کسی قسم کا کوئی واسطہ و تعلق مرزا غلام احمد قادیانی کذاب سے نہیں رہا اس لیے یہ کہنا کہ حضرت مولانا غلام قادر بیگ صاحب رحمۃ اللہ علیہ مرزا غلام احمد قادیانی کذاب کے بھائی تھے، انتہائی لغو، بے بنیاد اور کذبِ صریح ہے۔‘‘

(عبدالوحید بیگ،مرزا، ماہ نامہ سنی دنیا بریلی شریف،شمارہ جون ۱۹۸۸ء)

Menu