فن تخریجِ حدیث میں پہلی تصنیف!!
تحریر : نثار مصباحی
19 جمادی الأولی 1439ھ کے دن احمد بن صدیق غماری (متوفی 1380ھ) کی کتاب “حصول التفریج بأصول التخریج” کا ٹائٹل اور چند سطری تعارف میری نظر سے گزرا جس میں یہ دعوی کیا گیا تھا کہ یہ اس فن کی پہلی مستقل تصنیف ہے.!!
اگر دنیا میں موجود/دست یاب یا مطبوع کتابوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ دعوی درست ہو سکتا ہے. لیکن اگر علی الاِطلاق یہ دعویٰ ہے تو درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اس فن کی پہلی مستقل تصنیف ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ قبل امامِ فقہا و محدثین اعلی حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی -قدس سرہ- نے “الروض البہیج فی آداب التخریج” کے نام سے لکھی تھی.!!
امام احمد رضا قدس سرہ کی اس تصنیف کے بارے میں 1907ء/1325ھ سے پہلے ہی مولانا رحمن علی ناروی الہ آبادی (ولادت 1244ھ – وفات 1325ھ) نے “تذکرۂ علماے ہند” (فارسی) میں لکھا کہ:
“اگر پیش ازیں کتابے دریں فن یافتہ نشود پس مصنف را موجدِ تصنیفِ ہذا می تواں گفت” (تذکرۂ علماے ہند، فارسی ، ص ۱۷، مطبوعہ نول کشور لکھنؤ، ۱۹۱۴ء)
اگر اس فن میں اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں ملتی ہے تو مصنف (امام احمد رضا) کو اس فن کا موجِد کہا جا سکتا ہے.!!
مولانا رحمان علی کی یہ بات درست ہے. اب تک کی دریافت اور تحقیق کے مطابق تخریجِ حدیث کے اصول و آداب پر “الروض البہیج” پہلی کتاب ہے۔
چوں کہ اس فن میں امام احمد رضا کی کتاب سے پہلے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی اس لیے اس فن میں پہلی مستقل تصنیف امام احمد رضا کی “الروض البہیج” ہی قرار پائے گی۔
مگر افسوس!! یہ کتاب بھی اعلی حضرت قدس سرہ کی ان کتابوں میں سے ہے جو مفقود ہو چکی ہیں یا مفقود کے حکم میں ہیں. آج تک اس کا کوئی قلمی نسخہ دریافت نہ ہو سکا اور نہ کچھ خبر ہے.
اسی طرح ان کی ایک اور تصنیف “مدارج طبقات الحدیث” تھی. یہ رسالہ عربی زبان میں تھا۔ اس میں امامِ اہلِ سنت نے احادیث کے مدارج اور کتبِ حدیث کے طبقات پر گفتگو کی تھی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کی کتبِ حدیث کی چہار طبقاتی تقسیم کے خلل اور نقائص بھی بیان فرمائے تھے۔ مگر افسوس کہ یہ کتاب بھی مفقود کے حکم میں ہے.
بعض ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب (مدارج طبقات الحدیث) سے متعلق تھوڑا سا حصہ حضرت تاج الشریعہ -رحمہ اللہ- کو ملا، جو اردو میں تھا۔ اس پر حضرت نے تعریب و تحقیق کا کام کیا، اور پھر یہ “الهاد الكاف”(معرب) کے خاتمے میں شائع ہوا۔ مگر اصل رسالہ جو عربی میں تھا وہ اب تک مفقود ہے۔
اگرچہ عربی زبان میں تخریجِ حدیث کے موضوع پر اب بہت سی کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں لیکن -ہمارے معلومات کی حد تک- اردو زبان میں اہلِ سنت کی طرف سے برادرِ گرامی مفتی ازہار احمد ازہری مصباحی کی کتاب “اصول تخریجِ حدیثِ رسول” پہلی باقاعدہ تصنیف ہے. مگر ہمارے کرم فرما مولانا رضوان طاہر فریدی کے مطابق : مفتی ازہار احمد امجدی سے قبل پاکستان سے ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس “اصولِ تخریج” کے نام سے ایک (کتاب) تالیف کرچکے ہیں جو 2003 میں مکتبہ امینیہ فیصل آباد سے مطبوع ہوئی۔
بعض اہلِ علم کا یہ دعوی ہے کہ اصول تخریج پر ڈاکٹر محمود الطحان نے اپنی کتاب “أصول التخریج و دراسۃ الأسانید”، احمد بن صدیق غماری کی کتاب “حصول التفریج بأصول التخریج” سے پہلے لکھی ہے۔
مگر یہ دعوی درست نہیں۔
کیوں کہ :
احمد بن صدیق غماری کی وفات 1380ھ میں یعنی 1960ء کے آس پاس ہوئی۔ اور ڈاکٹر محمود الطحان کی ولادت 1935ء کی ہے۔ یعنی احمد غماری کی وفات کے وقت ڈاکٹر طحان بمشکل 25 سال کے تھے۔ احمد بن صدیق غماری نے اپنی کتاب کب لکھی یہ تحدید کے ساتھ مجھے معلوم نہیں۔ البتہ اتنا واضح ہے کہ اگر ڈاکٹر محمود الطحان نے غماری کی کتاب سے پہلے اپنی کتاب لکھی تھی تو اس کا مطلب ہے کہ اپنی عمر 25 سال ہونے سے پہلے ہی وہ اپنی کتاب لکھ چکے تھے، وہ بھی ایسے فن میں جس میں کوئی کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی تھی!!!!
ایک تو یہ نہایت مستبعد ہے۔ اوپر سے تاریخی حقائق بھی اس کے خلاف ہیں۔ کیوں کہ ڈاکٹر محمود الطحان نے “أصول التخریج” کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ محمد بن سعود یونیورسٹی کے شعبۂ حدیث میں تدریس کے دوران انھوں نے یہ کتاب لکھی ہے۔ اور وکیپیڈیا کے مطابق انھوں نے لگ بھگ 1971 کے بعد اور 1980 کے آس پاس کے سالوں میں کل 7 سال اس یونیورسٹی میں تدریس کی ہے۔ اور وہیں تدریس کے زمانے میں 1977ء میں اپنی شہرۂ آفاق کتاب “تیسیر مصطلح الحدیث” لکھی ہے۔ اور اس کے ایک دو سال بعد یعنی 1978 یا 1979ء میں “أصول التخریج و دراسۃ الأسانید” تصنیف کی۔!!! خود ڈاکٹر محمود الطحان نے “أصول التخریج و دراسۃ الأسانید” کے ابتدائیہ میں اپنے نام کے ساتھ جو تاریخ لکھی ہے وہ 1978ء/1398ھ ہے۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان کی یہ تصنیف احمد غماری کی وفات کے کم از کم 18 سال بعد وجود میں آئی ہے۔ اور ان دونوں میں بہر حال اس معاملے میں تقدم احمد غماری ہی کو حاصل ہے۔
ہاں، ڈاکٹر محمود الطحان کی کتاب “أصول التخریج” کے بارے میں دو باتیں یہاں مقام کی مناسبت سے قابلِ ذکر ہیں:
۱- مباحث اور معنویت کے اعتبار سے ان کی یہ کتاب احمد غماری کی کتاب سے زیادہ جامع ہے۔ اور احمد غماری کی کتاب ناتمام ہے، جیسا کہ مطالعے سے واضح ہے اور محمود سعید ممدوح نے بھی اس کی تقدیم میں اس کی صراحت کی ہے۔
۲- جب ڈاکٹر محمود الطحان نے یہ کتاب لکھی اس وقت غماری کی کتاب بلکہ اس فن کی کوئی بھی کتاب ان کے علم میں نہیں تھی۔ اور وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اس فن کی پہلی کتاب لکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ “أصول التخریج” کے ابتدائیہ میں انھوں نے ذکر کیا۔
شاید ان کی اسی بات کی وجہ سے بعض اہلِ علم یہ دعوی کر بیٹھے کہ ڈاکٹر محمود الطحان نے اپنی کتاب احمد غماری کی کتاب سے پہلے لکھی ہے۔ جب کہ یہ دعوی صرف غلط فہمی اور قلتِ اطلاع کا نتیجہ ہے۔
حاصلِ کلام یہ کہ فن تخریج حدیث پر پہلی کتاب امام احمد رضا خان محدث بریلوی (متوفی 1340ھ) کی “الروض البہیج فی آداب التخریج” ہے۔ جو اب تک مفقود ہے۔
اور احمد بن صدیق غماری (متوفی 1380ھ) کی کتاب “حصول التفریج بأصول التخریج” اس فن کی دوسری کتاب ہے۔ یہ کتاب اگرچہ مطبوع ہے مگر نامکمل ہے۔
اور اس فن کی تیسری کتاب ڈاکٹر محمود الطحان مرحوم کی “أصول التخریج و دراسۃ الأسانید” ہے جو مطبوع و مشہور اور بہت سی دانش گاہوں میں داخلِ نصاب ہے۔
ان کے بعد عربی اور غیر عربی متعدد زبانوں میں اس فن پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، جن کا استقصا دشوار ہے۔