شیر میسور ٹیپو سلطان کی بارگاہ میں

تحریر:  نبیرہ صدر الشریعہ مفتی فیضان المصطفی قادری مد ظلہ العالی


ہندوستان کا مرد آہن شیر میسور ٹیپو سلطان تاریخ اسلام کا ایک نمایاں کردار رہا ہے۔ جس نے اسلامیان ہند کو حوصلوں اور ولولوں کے ایک بحر بیکراں سے ہمکنار کیا تھا۔ اس بطل جلیل کی بارگاہ میں حاضری کی دیرینہ خواہش تھی۔ اس سفر میں ایک دن کا فارغ وقت مل گیا تو ہم نے یہ سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

جمعہ 3 مارچ کو لکھنو جامعہ امام اعظم میں نماز جمعہ کے قیام کے ازدحام سے فارغ ہوتے ہی ہم ائیر پورٹ روانہ ہوئے اور رات ڈھلنے سے پہلے پہلے بنگلور پہنچ گئے۔ چار مارچ کی صبح میں کچھ وقت ملا تو قاضی شہر بنگلور مفتی اسلم صاحب نے جامعہ حضرت بلال اور اپنا دار القضا دکھانے کے لیے بلا لیا۔ موصوف کے دار القضا میں کچھ لمحے گزارے جہاں ان کا دبدبہ دیکھنے کو ملا۔ بعد ظہر مدرسہ صوفیہ حمیدیہ میں ختم بخاری شریف اور شب میں جلسہ تھا۔ عصر تک ختم بخاری کی نورانی تقریب مکمل ہوئی۔ اس کے بعد بنگلور کے علمائے کرام سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ رہا۔ جلسے کے بعد بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔

یہاں یادگار سلف حضرت علامہ مفتی محمد علی صاحب سے مل کر بہت اچھا لگا کیونکہ انھوں نے حضور مفتی اعظم ہند کی موجودگی میں سات سال تک منظر اسلام میں تدریس کی ہے۔ حضرت دونوں تقریب میں ساتھ ساتھ رہے۔ انھوں نے ایک عجیب بات بتائی کہ ایک بار بریلی شریف میں منظر اسلام کا سالانہ جلسہ ہورہا تھا۔ جس کے لیے بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر علماء بھرے ہوئے تھے اسی پر سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمہ بھی تشریف فرما تھے۔ دوران جلسہ علمائے کرام سے بھرا اسٹیج ٹوٹ کر نیچے آگیا اور اتنے قرینے سے زمین بوس ہوا کہ اس کی ہیئت میں کچھ فرق نہ آیا نہ کسی عالم کو کوئی چوٹ آئی۔ سبحان اللہ۔

رات ڈھل۔چکی تھی۔ علمائے کرام روانہ ہوئے اور ہم بستر پر دراز ہوگئے۔ اگلی صبح میسور کے سیر کی تھی۔

ہم صبح ناشتہ کرکے نکل گئے۔

میسور ہائی وے پر یہاں سے کوئی سو کیلومیٹر دور سری رنگاپٹنم واقع ہے جو ہماری منزل تھی۔

میسور ہائی وے پر چنپٹن کے مقام پر نبیرئہ غوث اعظم قطب دکن حضور سید عاقل شاہ قادری کا مزار پر انوار ہے جو ٹیپو سلطان کے والد سلطان حیدر علی کے پیر ومرشد تھے۔ ان کی بارگاہ میں حاضری دی۔ پھر ایک دیڑھ گھنٹے کی راہ طے کرکے سری رنگاپٹنم میں داخل ہوگئے۔ یہاں پہنچتے ہی احساس ہوا کہ موجودہ حکومت نے سلطان اور ان کے آثار کے ساتھ سوتیلا برتاو کیا ہے۔

سری رنگاپٹنم کی حدود میں داخل ہوتے ہوئے عالم تصورات میں سلطنت خداداد کے دبدبے کا ایک زبردست خاکہ گھوم رہا تھا۔ جب مقبرے پر پہنچے تو خود کو اس بطل جلیل کی دہلیز پر پاکر بہت تسکین محسوس کی۔ مقبرے کے سامنے سلطان کی تعمیر کردہ مسجد اقصی ہے۔ جس کی امامت کے لیے سلطان نے ایسے امام کی شرط رکھی تھی جس کی تہجد کی نماز قضا نہ ہوتی ہو۔ اور دلچسپ بات یہ کہ جب کوئی ایسا امام نہ ہوتا تو سلطان خود امامت کرتے۔ افسوس یہ ہے کہ تاریخ ہند نے ان کی ایسی شبیہ متعارف کرائی ہے جو ایک داڑھی منڈے جرنیل کی صورت میں ہے۔ میسور کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ شبیہ غلط ہے۔ ایک مورخ (جس کا حوالہ معلوم نہیں) لکھا کہ سلطان ٹیپو شریعت کے بہت پابند تھے اور تہجد بھی قضا نہ ہوتی تھی۔ اس مسجد اقصی کے موجودہ امام حضرت مولانا عنایت الرحمن رضوی ہیں۔ جو حضور تاج الشریعہ کے مرید ہیں۔ ہم تو رضوی امام پاکر خوش ہوگئے اور احباب سے کہہ دیا کہ اب ان کی اقتدا میں ظہر ادا کرکے ہی نکلیں گے۔ نماز کے بعد ان سے ملاقات کی۔ انھوں نے ہمیں چائے پلا کر سلطان کے آثار کے متعلق کچھ باتیں بتائیں۔

مسجد کے بالکل سامنے مقبرہ ہے جس میں سلطان ٹیپو ان کے والد حیدرعلی اور والدہ تینوں کی قبریں ہیں۔ حیدر علی کا انتقال 1781 میں ہوا اور 1783 میں والدہ کا انتقال ہوا 1784 میں سلطان نے یہ پرشکوہ مقبرہ بنایا۔ سلطان کو سلطنت اپنے والد سے ملی تھی۔ انھوں نے اس کا نام “سلطنت خداداد” رکھا تھا۔ آنھوں نے اس پورے خطے پر اسلامی ریاست کا دبدبہ قائم کردیا تھا جس کے سبب مغربی استعمار کی راہ میں سری رنگا پٹنم سب سے بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ برسوں ان سے معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ سلطان کی جرات و ہمت اور حرب وضرب کی مہارت کے سامنے ان کی دال نہ گلی۔ لیکن میر صادق جیسے غداروں نے سلطان کی صفوں کو کمزور کردیا۔ چنانچہ جس سلطان نے اپنی جرات ودلیری سے ہر دشمن کے دانت کھٹے کر دیے تھے وہی سلطان فرنچ آرمی سے لڑتے لڑتے بالآخر 4 مئی 1799 کو شہید ہوگئے۔ ان کے شہید ہوتے ہی سلطنت خداداد قصہ ماضی بن گئی۔ اور سقوط سری رنگا پٹنم کا تکلیف دہ تصور ایک حقیقت بن گیا۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہر کشور کشا اپنے مفتوحین کے ساتھ کرتے ہیں۔ فرنچ آرمی نے سلطان کا محل دھماکے سے اڑا دیا۔ ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا اور سلطان کے باقیات سے ہیرے جواہرات لوٹ لے گئے۔

ہم نے سلطان کی قبر پر حاضری دی۔ کچھ گردوپیش کا جائزہ لیا۔

سلطان کے مقبرے پر ایک شعر کندہ ہے:

نہ شادی داد سامانے نہ غم آورد نقصانے

بدیں جانباز سلطانے کہ آمد شد چو مہمانے

یعنی اس سلطان بے نیاز کو دولت دنیا سے خوشی ہوتی نہ اسکے نقصان سے کوئی غم ۔ وہ جانباز تو ایک مہمان کی مانند آیا اور چلا گیا۔ درج ذیل کندہ اشعار بھی پڑھنے کے لائق ہیں:

زہے گنبدی کز شکوہ بنا

 فلک زیر دستش بود در علو

تو خواہی مہ وخواہ خورشید خواں 

فلک داغ کردید از رشک او

بود شمسہ اش نور چشم فلک

قمر یافتہ ضوء تعلیم ازو

تراوش کناں بحر رحمت ز خاک

گروہی ز کرو بیاں کرد او

اس مقبرے کے وسط میں نواب حیدر علی مدفون ہیں ان کی داہنی طرف سلطان ٹیپو اور بائیں طرف والدہ ۔ اس مقبرے کے چاروں طرف مختلف عمارتیں ہیں ۔

ہم مقبرے کی حاضری سے فارغ ہوکر میوزیم دیکھنے گئے جس میں سلطان کے بہت سارے آثار آویزاں کیے گئے ہیں۔ جن سے سلطان کی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔ یہ میوزیم اس عمارت میں واقع ہے جسے سلطان نے انگلش فوجوں کو شکست دینے کے بعد 1784 میں “دریائے دولت” کے نام سے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں سے نکلے تو سلطان کے کردار وعمل اور غیرت وحمیت کی کچھ داستانوں اور بہت ساری یادوں سے دل کی دنیا آباد کیے واپس ہوئے۔ رات ہی ہاویری کے لیے روانہ ہونا تھا کہ 6 مارچ کو جامعہ حبیبیہ قادریہ میں ختم بخاری اور جلسہ میں شرکت کے لیے مدعو تھا۔ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کو اپنے اسلاف کے تصدق حمیت دینی وغیرت ایمانی سے سرشار فرمائے ۔ آمین

Menu