ام المؤمنین سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا

از: اشرف الفقہاء مفتی محمد مجیب اشرف علیہ الرحمۃ


اسلام اور مسلمانوں کی وہ بڑی محسنہ، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے پہلی زوجۂ مطہرہ، خاتونِ جنت سیدتنا فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ، مسلمانوں کی سب سے پہلی ماں سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد ہیں۔ جن کی بہت بڑی اسلامی خدمتیں اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر جانی و مالی قربانیاں قیامت تک اسلام اور مسلمانوں کے لیے مایۂ افتخار ہیں۔

یہ فخر عورتوں ہی کو حاصل ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے، اسلام قبول کرنے، اسلام کی حمایت میں اپنا زر و مال قربان کرنے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے ہر طرح سکون و اطمینان پیدا کرنے میں ایک خاتون ہی کا حصہ ہے جسے دُنیا حضرت خدیجہ کے نام سے یاد کرتی ہے ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اس وقت(ہوا) جب کہ آپ کی عمر چالیس سال کی تھی اور حضور کی عمر شریف پچیس سال کی تھی۔ حضرت خدیجہ اس سے قبل ابوہالہ بن زرارہ اور عتیق بن عائد کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔ عتیق کے بعد آپ کا ارادۂ نکاح نہ تھا۔ مکۂ معظمہ کے بعض شریفوں اور سرداروں نے پیغامات بھی بھیجے مگر آپ نے انکار کردیا تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی امانت داری و دیانت کیشی کے پیش نظر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بہت سامال شام کی تجارت کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمتِ اقدس میں پیش کیا، سفرِ تجارت سے واپسی پر مال و اسباب میں بہت بڑے منافع کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق اور نبوت و رسالت کی نشانیوں کو اپنے غلام میسرہ سے معلوم کیا تو بے قرار ہوگئیں اور خود ہی نکاح کا پیغام بھجوایا، جو مقدراتِ ایزدی سے فوراً قبول ہوگیا اور حضور (ﷺ) نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس سے قبل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کوئی نکاح نہ فرمایا تھا اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی زندگی میں دوسرا نکاح نہ کیا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ نکاح کے زمانے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نبوت و رسالت کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ اسلام کی دعوت شروع نہیں ہوئی تھی۔ آپ غارِ حرا میں تشریف لے جاکر اللہ عزوجل کی عبادت فرمایا کرتے، کئی کئی روز کاکھانا لے جاکر غارِ حرا میں عبادت کے لیے مصروف؛ توشہ ختم ہوجاتا، پھر مکان حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے آتے، پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے کھانا وغیرہ کئی روز کا تیار کرکے رُخصت فرما دیتیں۔ غرض یہ کہ ابتدائی زمانہ سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا؛ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مزاجِ اقدس کے مطابق خدمات انجام دیتی رہیں۔

نزولِ وحی(قرآن مجید نازل ہونے) کی وہ ابتدا جس میں بارِ نبوت و رسالت اور وحی کے عظیم اثرات سے آپ متاثر ہوئے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لاکر ’’زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ‘‘ ( مجھے کمبل اڑھادو، مجھے کمبل اڑھادو) فرماتے ہوئے اظہارِ کلفت فرمایا تو اس وقت یہی حضرت سیدتناخدیجہ تھیں جنھوں نے تسلی کے حقوق کو اس طرح ادا فرمایا:

كَلَّا وَاللَّهِ، مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ؛ إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ،

( بخاری:الجزء رقم :۱، الصفحة رقم:۷، حدیث :۳)

’’عرض کرتی ہیں (یارسول اللہ) قسم اللہ کی اللہ تعالیٰ آپ کو غمزدہ نہیں فرمائے گا ، (اس لیے کہ آپ) صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، ہر ایک کا (خواہ یتیم ہو، مسکین ہو ، فقیر ہو، اپنا ہو، بیگانہ ہو) بار اُٹھاتے ہیں، مالی امداد فقیر کی کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور ایسے امور پر جو حق کے لیے ہوں اعانت فرماتے ہیں (پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مشقت و ملال میں ڈال دے)‘‘

سیدتنا خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مندرجہ بالا الفاظ پر غور فرمائیے، کتنے ہی معانی اور شعبہ ہاے اخلاق کو لیے ہوئے ہے۔

رسولِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس و صحبت نے جو فہم و فراست و معرفت آپ میں پیدا کردی تھی فوراً زبان پر آگئیں جس سے عورتوں پر آپ کے مرتبہ کی بلندی ظاہر ہوتی ہے۔

خود رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرمایا:

وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ

(بخارى: الجزء رقم :۴، الصفحة رقم:۱۶۴،حدیث :۳۴۳۲ /مسلم :الجزء رقم :۷، الصفحة رقم:۱۳۲،حدیث:۲۴۳۰ )

’’زمین کی عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بن خویلد ہیں۔‘‘

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بلند مرتبہ اس اہم واقعہ سے بھی اچھی طرح ظاہر ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حسبِ معمول غارِ حرا میں مصروفِ عبادت تھے اور آپ حضور کے لیے کھانا تیار کرکے خود لیے جارہی تھیں کہ حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام فوراً پہلے ہی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں :

   يَا رَسُوْلَ اللَّهِ، هٰذِهِ خَدِيْجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ ، أَوْ طَعَامٌ، أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا، وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ، وَلَا نَصَبَ۔
 

(بخاری: الجزء رقم:۵، الصفحة رقم:۳۹،حدیث:۳۸۲۰ / مسلم : الجزء رقم:۷، الصفحة رقم:۱۳۳،حدیث: ۲۴۳۲)

  ’’یارسول اللہ! یہ حضرت خدیجہ اپنے ساتھ برتن میں سالن اور کھانا لیے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہورہی ہیں، جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوجائے تو اُن کو اُن کے رب کی طرف سے سلام کہیے اور میری طرف سے بھی، اور انھیں جنت کے اُس مکان کی بشارت دیجیے جو موتی کا بناہوگا جس میں نہ چیخ و پکار ہوگی نہ کوئی مشقت و مصیبت۔‘‘
  

سبحان اللہ ! اس مقدس خاتون کا کیا پوچھنا جسے خداے عزو جل اور جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطہ سے سلام کہیں اور جنت کی بشارت دیں۔
 

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے یہ اوصاف و مناقب اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت کے حقوق ادا کردینا ایسے نہ تھے جو قلبِ اقدسِ مصطفیٰ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) میں جگہ نہ کرتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ چناں چہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفاتِ شریفہ کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت خدیجہ کی بالیں (سرہانے) پر جلوہ افروز ہوئے، اپنے کرب و اضطراب اور آپ کی جدائی کی تکلیف کااظہار فرمایا، جنت میں اپنے نکاح میں رہنے کی بشارت دی، جب وفات پا گئیں توخود قبر میں رکھا اور وفات کے بعد بھی بہ کثرت آپ کی یاد فرماتے رہتے۔ ام المؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :

  كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ، ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً، ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ،   

( بخاری :الجزء رقم :۵، الصفحة رقم:۳۸،حدیث:۳۸۱۸ )
 

’’رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہ کثرت حضرت خدیجہ کی یاد فرمایا کرتے کبھی کبھی بکری ذبح فرماتے پھر اس کے حصے فرماکر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سہیلیوں کے یہاں ارسال فرماتے۔‘‘

اعزہ اور قریب تر عزیز کی یاد کاکتنا پیارا طریقہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے دوستوں اور سہیلیوں کو تحائف اورکھانے پینے کی چیزیں بھیج کر یاد باقی رکھی جائے، جن کے ساتھ وفات پانے والے کے تعلقات تھے۔ یہیں سے موجودہ رسم ’’برسی‘‘ وغیرہ کی گتھی بھی سلجھ سکتی ہیں۔ جن میں لوگ وفات پانے والے کی یاد میں اعزہ و احباب کو یاد کرلیا کرتے ہیں۔

  ایک اور شَرَف سیدتنا ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ بھی حاصل تھا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تمام اولاد اطہار (سواے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جو ام المؤمنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تھے) حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پیدا ہوئیں، لڑکوں میں حضرت قاسم، حضرت عبداللہ، حضرت طاہر اور لڑکیوں میں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپ کی اولاد امجاد سے ہیں۔

اس ذاتِ اقدس ام المؤمنین سیدتنا خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نکاح کے بعد ساری عمر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت کرتے ہوئے بعثت کے دس سال بعد ہجرت سے قبل مکۂ معظمہ میں وفات پائیں اور مقام حجوں (جنۃ المعلیٰ) میں مدفون ہوئیں، رضی اللہ تعالیٰ عنہا وارضاہا عنا۔

    (ماہ نامہ مدنی تجلیات : ناگ پور ، شمارہ اپریل مئی۱۹۶۶ء،ص۳۸۔ مضامین اشرف الفقہاء، مطبوعہ نوری مشن مالیگاؤں ۲۰۲۰ء)

Menu