مفتی شعیب رضا نعیمی علیہ الرحمہ

از: مشتاق احمد اویسی امجدی


تم نہیں ہوتوسونی ہے بزم سخن

تم سے شاداب تھے آگہی کے چمن

               [حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ]

یوں تو شخصتیں روز آتی ہیں اور اپنی حیات مستعارکے لیل ونہار پورے کرکے روپوش ہوجاتی ہیں،کچھ دنوں بعد لوگ انہیں بھول جاتے ہیں مگرکچھ ہستیاں وہ ہوتی ہیں جو اس دار فانی سے داربقا کوکوچ کرتے کرتے بندگانِ خداپراتنا گہرا اثر چھوڑجاتی ہیں کہ برسوں ان کی یادوں سے اہل ایمان کے قلوب پرنور نظر آتے ہیں، انہیں نفوس قدسیہ میں ایک عظیم ذات داماد حضور تاج الشریعہ فقیہ عصرمحسن ملت حضرت مولانامفتی محمد شعیب رضا نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ہے ۔

          آپ انتہائی باوقاروباکردار ،ذہین وفطین ،شکیل ووجیہ اور باعمل عالم ،جماعت اہل سنت کے بے لوث داعی ، مذہب اہل سنت کے وسیع النظر مبلغ اور گلشن ازہری کے مہکتے پھول تھے،بڑی نسبت اور اونچا علمی قدرکھنے کےساتھ ساتھ آپ اخلاق حسنہ کے پیکر اور خصائل نبیلہ کےحامل تھے۔

خاندانی پس منظر:

                 آپ نے ایک معزز زمین دار شیخ صدیقی گھرانے میں آنکھ کھولی، آپ کی پیدائش 27 کتوبر 1974ء میں ضلع بجنور تحصیل نجیب آباد مقام دودھلہ میں ہوئی،آپ کا پورا نام:’’محمد شعیب رضا ‘‘ہے، آپ کے والدماجد حاجی شفیق احمد مرحوم صحیح العقیدہ اورشریف النفس انسان تھے۔

شجرۂ نسب:

          آپ کا شجرہ پدری اس طرح ہے’’محمد شعیب رضا بن حاجی شفیق احمد بن شبیر احمد بن نثار احمد‘‘۔

تعلیم وتربیت:

          آپ نے ابتدائی تعلیم علاقائی مدرسوں میں حاصل کی،،باضابطہ درس نظامی کی تکمیل  1993ء میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے کی ۔مرکزی دارالافتاء بریلی شریف سے حضور تاج الشریعہ ۔علامہ رضا  تحسین رضا خاں اور علامہ قاضی عبد الرحیم بستوی علیہم الرحمہ سے فتویٰ  نویسی سیکھی اور سند ا فتاء سے نوازے گئے ۔   ۱۹۹۹ ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سےM. Th کی ڈگری حاصل کی،  1412ءمیں شہادۃالسیرو السلوک دارا العلوم المدرسۃ العالیہ گورنمنٹ  اورینٹل کالج رامپور سے حاصل کی،1992ء جامعہ دارالسلام مراد آبادسے عربی میں ڈپلوما کورس کیا،1993 ء میں جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا۔

اساتذہ کرام:

آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں استاذ الفقہا حضرت علامہ مفتی ایوب نعیمی اور استاذ المعقولات علامہ ہاشم مرادآ بادی کے اسما سر فہرست ہیں ۔

دینی وملی خدمات:

          جب زبان وبیان ،تفکر وتدبر کے ہتھیار سے مکمل لیس ہوگئے تو میدان عمل میں قدم رکھا اور پوری تندہی کے ساتھ فرزندان اسلام کی اصلاح،مسلک حق مسلک اعلی حضرت کی تعمیر وترقی میں لگے رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اکناف عالم میں مقبولیت کی سند حاصل کر لی۔

          مذہب ومسلک میں آپ انتہائی متصلب تھے،اعلی حضرت اور مسلک اعلی حضرت کا گن گانا آپ کی زندگی کا نصب العین تھا،آپ نے بے خوف لومۃ لائم اپنی پوری زندگی مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ واستحکام میں صرف فرمائی ،مسلک اعلیٰ حضرت کے خلاف جوکوئی، جہاں کہیں سر ابھارنے کی کوشش کرتا آپ  وسائل کی پرواہ کیے بغیر اس کی سرکوبی کے لیے نکل پڑتے اور بزرگوں کے نام کا وسیلہ لے کر ہر فتنہ وفساد کر کیفر کردار تک پہونچانے میں ہرممکن کوشش فرماتے،آپ اپنی تحریر و تقریر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں میں سنیت کی روح پھونکنا چاہتے تھے،مشربی اختلافات میں حد درجہ محتاط رہتے جب کبھی مشربی انتشار کی مسموم ہوا چلتی تو آپ مضبوط چٹان بن کر بنرد آزما ہوتے اور تدبرانہ صلاحیت بروئے کار لاکر ’’کونوا عباد اللہ اخوانا‘‘ کا پیغام لا زوال پیش کرتے ہوئے نظر آتے ۔

تبلیغی اسفار

 آپ اخاذ طبیعت کے مالک تھے ،اولا چند سالوں تک وارث علوم اعلیٰ حضرت ،جانشین مفتی اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے ساتھ ہند وبیرون ہند کے بیشتر تبلیغی دوروں میں ساتھ رہتے تھے،اس دوران آپ کو حضور تاج الشریعہ سے بہت کچھ حاصل کرنے کا موقع ملا ،بعد میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ایما پر آپ نے ہندوستان کے علاوہ افریقی ممالک اور دبئی وغیرہ کے متعدد سفرکیے ،آپ پہلی بار ۳؍مارچ  ۲۰۰۵ء کو ملاوی تشریف لے گئے ،بعدہ ۱۷؍مارچ۲۰۰۹ء،۱۲؍جون ۲۰۱۰ء،۲۰؍دسمبر ۲۰۱۱ء سے 26؍فروری ۲۰۱۱ء،۲۰؍نومبرو۲۳؍نومبر ۲۰۱۲ء،۹؍اگست و؍نومبر 2016ءکی مختلف تاریخوں میں ملاوی تشریف لے گئے اور دعوت دین کی خدمت انجام دی ۔آپ ساوتھ افریقہ کے مختلف شہروں میں پہنچےمثلا ۳؍مارچ ۲۰۰۹ءکو پہلی بار جا نا ہوا،بعدہ ۲۲؍اپریل۲۰۱۰ء،۸؍فروری ۲۰۱۰ء۲۲؍فروری ۲۰۱۱ء،۸؍دسمبر۲۰۱۱ء،۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۳ء ، ۲۳؍جنوری۲۰۱۵ءمیں بھی تشریف لے گئے ،ان ممالک کے علاوہ لیلانگ وے ۳؍مارچ ۲۰۰۵ء،موزمبک 16؍مارچ ۲۰۰۹ء،زمباوے۸؍مارچ ۲۰۰۹ء۹،۸مئی ۲۰۱۰ءمیں بھی تشریف لے گئے ،جہاں پر آپ نے کئی عیسائیوں کو داخل اسلام کیا ،اور کئی بدمذہبوں سے توبہ کرائی اور داخل سلسلہ رضویہ کیا،اور پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ دین وسنیت کی تبلیغ اور فکر رضا کی ترویج واشاعت کرتے رہے .

اَپ کی حیات کےدواہم یادگاری اسفار:

   یوں تو آپ کی زندگی میں اسلام کی سربلندی کے لیے سرفروشی کے کئی واقعات ہیں لیکن مندرجہ ذیل دو واقعات جوآپ کی مجاہدانہ کردار  پر واضح دلیل ہیں قارئین ضرور پڑھیں اور ان کی ہمت کا اندازہ لگائیں۔

پہلا واقعہ سرزمین مہاراشٹر کا ہے:

           اس کی تفصیل یہ ہے کہ ناسک سے ۷۰؍کیلو میٹر دورضلع احمد نگر واقع ہے اسی ضلع میں ’’سنگم نیر‘‘شہر ہے  جہاں اہل سنت وجماعت کی تعداد کم ہے،وہاں کےایک دیوبندی مولوی مفتی سالم نے علمائے اہل سنت کو چیلنج کیا ،اکابرین اہل سنت بالخصوص اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کے خلاف تازیبا کلمات استعمال بکے ،جب یہ خبر اہل ناسک کو ہوئی تو بڑا صدمہ پہنچا ،علماکی میٹینگ ہوئی ،ہر آدمی پریشان تھا کیونکہ ایسی جگہ جہاں اپنوں کی تعداد کم ہے وہاں جاکر پروگرام کرنا اور جواب دینا آسان نہیں ہے ،ان حالات میں بڑافیصلہ لینا سب کے بس کی بات نہیں،ایسے وقت میں مرد حق آگاہ ،مسلک رضا کے بے باک سپاہی حضرت مولانا مفتی محمد شعیب رضا نعیمی نے جان پر کھیل کر وہاں جانے کا فیصلہ کیا ،آپ کے ساتھ شہر ناسک کے ذمہ دار علماومفتیان کرام مثلامفتی سید رضوان شافعی کوکنی ،مولانا سید آصف اقبال ،مفتی رحمت علی امجدی ،مفتی محبوب عالم ،مفتی شمس الدین ،مفتی مشتاق احمد قادری امجدی وغیرہم اوران کے علاوہ امام احمدرضا لرننگ اینڈریسرچ سینٹر کے اراکین جناب اقبال خطیب ،مجاہد خان،توصیف سر،عابد خان ،عبد المبین شیخ وغیرہ دسیوں گاڑیوں کے قافلے کیساتھ سنگم نیرپہونچے ، جب دیوبندی مولوی کو خبر ہوئی کہ حق کے سپہ سالار وں کی آمد ہوگئی ہے تو دیوبندی مولوی ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔جب کسی صورت دیوبندی مولوی سا منا کرنے کو تیار نہ ہوئے تو سنیوں نے آنا فانا ایک جلسہ کیا جس میں مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے رد وہابیہ میں ایک مفصل،مدلل تقریر فرمائی اور یہ ثابت کردیاہم رضا کے شیر کسی کو چھیڑتے نہیں اور اگر کوئی چھیڑتاہے تو اسے چھوڑتے نہیں ۔

دوسرا واقعہ سرزمین اڈیسہ کا ہے:

          ہوا یوں کہ  16؍فروری ۲۰۱۵ء بھدرک اڈیسہ کے ایک جلسے میں وہاں کے احباب کی دعوت پر تشریف لے گئے ،جلسہ ابھی شروع ہی ہوا تھا ،تھوڑی دیر بعد آپ اسٹیج پر تشریف لائے ،آپ کے خطاب کا اعلان ہوا ،جیسے آپ نے خطبہ پڑھا ایک بدنام زمانہ فسادی مولوی ،جس نے بھدرک وغیرہ کے مذہبی حالات کو کافی خراب کر رکھاتھا،اس کی بد کرداری اور فاسقانہ عمل کے سبب عوام الناس سے علماء کا وقار خطرے میں ہے ،اس کے چیلوں نے آپ پر جان لیوا حملہ کیا ،چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی ،سب کو اپنی فکر تھی،ایسے میں اس علاقے کے ایک پیر جو سادات سے تھے انہوں نے اپنے مریدوں کے ساتھ آپ کو اپنے گھیرے میں لیکر محفوظ مقام تک پہنچایا لیکن ان حالات سے مفتی صاحب کبھی پزمردہ خاطر نہ ہوئے اور نہ ہی حوصلہ پست ہوا بلکہ آپ کی تبلیغی کوششوں میں اور سختی پیدا ہوئی اور آپ نے یہ سمجھ لیا کہ گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔

تحریری خدمات:

 کتب بینی اور ملکی وغیرملکی تبلیغی دورے آپ کے محبوب مشاغل تھے،تبلیغی اسفار کی کثرت کے. باوجود تحریر وقلم سے خاصا شغب رکھتے تھے چنانچہ مرض الموت سے قبل آپ نے دو اہم تحقیقی عربی کتب کے ترجمے کیے جو ماہنامہ سنی دنیا میں قسط وار چھپ چکے ہیں جسے قارئین نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور داد وتحسین سے نوازا۔

تعمیری  خدمات:

آپ نے مختلف مقامات پر مسلک اعلی حضرت کی ترویج واشاعت کے لیے اپنی بابرکت قیادت میں متعدد قلعے بھی قائم فرمائے ،شہر گلشن آباد ناسک،مہاراشٹر میں فقہ حنفی کا مفتی ساز منفرد ادارہ ’’امام احمدر ضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر ‘‘آپ ہی کی مرہون منت ہے جو مسلک اعلی حضرت کا حقیقی ترجمان اور صوبہ مہاراشٹر کا فقہی حنفی کا مفتی ساز ادارہ  ہے ۔

بارگاہ غوثیت میں عزت افزائی:

 تقریبا وصال سے ایک سال قبل خوش قسمتی سے بغداد شریف بارگاہ غوثیت مأب میں حاضری کا شرف حاصل کیا جب وہاں کے شیوخ اور متولیان سے آپ کا تعارف ہوا اور آپ نے عربی زبان میں امام احمدرضا قدس سرہ کے بارے میں انہیں بتایاکہ سرزمین ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کو جو فروغ امام احمدرضا قدس سرہ اور ان کے خانوادے سے ملا ہے شاید ہی کسی اور ذات یا خانوادہ سے ملاہوگا،پھر چند حوالہ جات پیش فرمائیں جس سے وہاں کے شیوخ کافی متاثر ہوئے اور آپ کا سلسلہ عالیہ قادریہ کی اجازت وخلافت اور بہت کچھ تبرکات سے نوازا جو یقینا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں آپ کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے ۔

زیارت حرمین شریفین:

آپ نے 2008 اور 2009 میں حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا وعزا کی زیارت و حاضری کا شرف حاصل کیا۔

عقد مسنون:

          حضورتاج الشریعہ کی چوتھی صاحبزادی محترمہ قدسیہ باجی سے ذی الحجہ 1423 ھ مطابق 26 فروری ۲۰۰۳ء کو آپ کا نکاح ہوا، علامہ تحسین رضا خاں علیہ الرحمہ نے نکاح پڑھایا، نکاح کے گواہ الحاج سراج رضا خاں نوری اور حافظ عبد السبحان نعیمی بنے۔

اولاد امجاد:

          مفتی صاحب کا ایک بیٹا حمزہ رضا اور دو بیٹاں نوارفاطمہ اور نور بہجت ہیں ۔

بیعت و اجازت:

          حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور حضرت کی بارگاہ سے مختلف سلاسل کی آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل تھی۔

وصال پرملال:

          افسوس صد افسوس علم وفضل کا روشن مینار اور مسلک اعلی حضرت کا بے باک نقیب،مذہب اسلام کا بے لوث داعی ومبلغ ہزاروں عاشقوں کو روکتابلکتا چھوڑکر۱۵؍رمضان المبارک 1438 ھ بمطابق ۱۱؍جون 2017ء بروز اتوار داعی اجل کو لبیک کہا اوراپنے مالک حقیقی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون

نماز جنازہ:

16 رمضان المبارک بعد نماز فجر تقریبا 5:30 بجے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی اقتدا میں ایک جم غفیر نے جنازے کی نماز ادا کی۔

مزارپرانوار:

          اعلیٰ حضرت کے آبائی قبرستان جہاں علامہ شاہ رضا علی خان، علامہ نقی علی خاں، علامہ حسن رضا خاں جیسی مقدس ہستیاں آسودۂ خاک ہیں،آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اسی قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا جہاں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔

ابررحمت ان کے مرقد پر گوہر باری کرے

حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری

ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر

Menu