غزوۂ بدر: ناموسِ رسالت ﷺ کیلئے جاں نثاری کا تابندہ باب
علامہ غلام مصطفٰی رضوی ،مالیگاؤں
رمضان المبارک ٢ ہجری کی ساعتیں تھیں… رسول گرامی وقار ﷺ نے اسلامی لشکر کی تشکیل دی… ہوا یوں کہ مدتوں تک کفارِ مکہ نے جور و ستم کے پہاڑ توڑے… خاتم النبیین ﷺ کے اعلانِ نبوت سے ایوانِ شرک میں جو زلزلہ آیا؛ اس نے کفار کو حواس باختہ کر دیا… وہ آمادۂ ستم ہوئے… ظلم کی انتہا کر دی… بالآخر جانبِ طیبہ ہجرت ہوئی…
رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے… فضا مشکبار ہو گئی… وارفتگیِ شوق میں لوگ مکانوں سے نکل آئے… صف در صف استقبال کو جمع ہو گئے… ان اشعار سے فضا میں انقلاب کا غلغلہ ہوا…
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَینا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ وَجَبَ الشُّکرُ عَلَیْنَا مَا دَعیٰ للہ داعی
ہم پر چاند طلوع ہو گیا… وداع کی گھاٹیوں سے… ہم پر خدا کا شکر واجب ہے… جب تک اللہ سے دعا مانگنے والے؛ مانگتے رہیں گے…
انقلاب آیا… دل و نگاہ نورِ ایمان سے جگمگا اُٹھے… قدیم نوشتوں میں جائے ہجرت کا بیان موجود تھا… صدیوں سے اہلِ مدینہ منتظر تھے… کہ رسول اللہ ﷺ آئیں گے… ہجرت گاہِ ناز کو اپنے مقدس قدموں سے معمور کریں گے…
اُدھر کفارِ مکہ شمعِ اسلام بجھانے کے لیے پَر تول رہے تھے… گاہ بہ گاہ فتنہ و سازش رچ رہے تھے… اہلِ ایمان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا… کفار طیش میں تھے… شرارِ بولہبی؛ چراغِ مصطفوی بجھانے پر آمادہ تھا…
بدر کے میدان میں کفر مکمل تیاری کے ساتھ آیا… فوج و سپاہ ساتھ لایا… ہتھیار بھی بہتر تھے اور سواریاں بھی مستعد… افرادی قوت سے بھی لیس تھے…
رسول اللہ ﷺ کے جاں نثار جوشِ ایمانی سے لبریز تھے… ہتھیار کم تھے… فرسودہ اسلحے اور کم سواریاں… لیکن نصرتِ حق کا یقین کامل تھا… رسول اللہ ﷺ کے لیے جاں وار دینے کا عزم تھا… دُشمنانِ رسول سے احتساب کا وقت تھا… ظلم کی کلائیاں موڑنی تھی… ستم کے بادل چھٹنے کو تھے…
بدر کی وادی میں قافلہ فروکش ہوا… یوم الفرقان کی صبح ہونے والی تھی… یہ وہ لمحہ تھا کہ اجابت کی منزل قریب تھی… لب مصطفیٰ ﷺ کیا وا ہوئے فرشتگانِ رحمت صف در صف وارد ہوئے… مہاجرین صحابہ بھی ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے وارفتگیِ شوق میں نثار ہونے تیار تھے… اُدھر انصاری صحابہ کا اشتیاق بھی دیدنی تھا… قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
“یارسول اللہ ﷺ! خدا کی قسم ہم وہ جاں نثار ہیں کہ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندر میں کود پڑیں…”
حضرت مقداد اسود رضی اللہ عنہ نے عرض کی: “یارسول اللہ ﷺ! ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ اور آپ کا خدا جا کر لڑیں… بلکہ ہم لوگ آپ کے دائیں سے… آپ کے بائیں سے؛ آگے سے… پیچھے سے لڑیں گے…” (سیرت مصطفیٰ، ص١٧١، بحوالہ بخاری شریف غزوۂ بدر)
بدر کی وادی حدت گرمی سے تپ رہی تھی… ایک ہزار کفار سامنے تھے… اِدھر اہل حق ٣١٣ تھے… مقابلہ ہوا… دہشت گردی کے پاؤں اُکھڑ گئے… ٣١٣ غالب آئے… ناموسِ رسالت ﷺ کے شیدائی جان وار دینے کا پیغام دے گئے… آج بھی پیغام بدر تازہ ہے… آج بھی معرکۂ حق و باطل میں بدر کے ذرات حق کی نُصرت کی گواہی دے رہے ہیں…
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
یاسیت کے نوحے بند کیجئے… قوم کو زندگی کی حرارت تقسیم کیجئے… ناموسِ رسالت ﷺ کے لیے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا پیغام دیجئے… اُمیدوں کے اسباق تازہ کیجئے… اپنی محافل میں غیرتوں کے درس دیجئے… عزیمت بتائیے… شجاعت کے ابواب وا کیجئے… ان شاء اللہ قوم کا ضمیر بیدار ہوگا… گستاخی کی فضا چھٹ جائے گی… عشقِ رسول میں نذرانۂ دل و جاں نذر کرنے کا ذوق جاگے گا… اعلیٰ حضرت کہتے ہیں…
شورِ تکبیر سے تھرتھراتی زمیں جنبشِ جیش نُصرت پہ لاکھوں سلام نعرہاے دلیراں سے بن گونجتے غرّش کوسِ جرأت پہ لاکھوں سلام وہ چقا چاق خنجر سے آتی صدا مصطفیٰ تیری صولت پہ لاکھوں سلام