مجاھد آزادی مولانا سید کفایت علی کافی شہید مراد آبادی
علامہ غلام مصطفیٰ رضوی ، مالیگاؤں
1- مجاہدِ جنگِ آزادی 1857ء مولانا سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نگینہ ضلع بجنور کے سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
2- علماے بدایوں و بریلی سے حصولِ علم کیا۔حدیث کا درس حضرت شاہ ابوسعید مجددی رام پوری تلمیذِ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے لیا۔ مولانا حکیم شیر علی قادری سے طب کی تعلیم حاصل کی۔
3- آپ مجاہدِآزادی مفتی عنایت احمدکاکوری تلمیذِ شاہ محمداسحاق دہلوی تلمیذ ونواسۂ شاہ عبدالعزیز محدِث دہلوی کے دست راست تھے۔مفتی عنایت احمد کاکوری نے بریلی اور مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی نے مرادآباد کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف1857ء میں جہاد کے فتاویٰ جاری کیے۔ آپ نے ذکیؔ مرادآبادی[1864ء] جو امام بخش ناسخؔ کے شاگرد تھے، سے اصلاح سخن لی-
4- مرادآباد میں شورش کے ایام میں مولانا کافیؔ حالات کی رپورٹ بذریعۂ خط جنرل بخت خاں کو بھیجتے رہے۔ علماے کرام نے جب “جنگی مشورتی کمیٹی” بنائی تو مولانا کافی اس کے اہم رکن تھے- اس کمیٹی نے مراد آباد کے اندر و باہر انگریز کے خلاف جہاد کے فتاویٰ تقسیم کروائے- انگریز کی مخالفت میں نواب مجدُالدین خاں عرف مجو خاں کو حاکمِ مراد آباد مقرر کیا گیا اور مولانا کافی کو “صدرِ شریعت”
5- مولانا وہاج الدین مرادآبادی [شہادت1858ء] بھی حریت پسند اور قائدینِ جہادِ آزادی1857ء میں تھے، آپ اور مولانا کافیؔ نے مل جُل کر مرادآباد میں ماحول سازی کی اور لوگوں کو جہاد کے لیے آمادہ کیا۔ انگریزی مظالم کے خلاف آواز بلند کی اور راے عامہ ہم وار کی۔ آنولہ ضلع بریلی میں حکیم سعیداللہ قادری کے یہاں قیام پذیر رہ کر اطراف میں حریت کی صدا بلند کرتے رہے۔یہاں سے بریلی گئے اور خان بہادر خاں نبیرۂ حافظ الملک حافظ رحمت خاں روہیلہ سے ملاقات کی،ان سے جہاد کے عنوان پر تبادلۂ خیال کیا۔
6- واضح ہو کہ روہیلہ پٹھانوں کا یہ قبیلہ بڑا جری و بہادر تھا، اعلیٰ حضرت محدث بریلوی کا بڑھیچ قبیلہ اوپر جا کر روہیلوں سے جا ملتا ہے۔ مولانا کافیؔ بریلی سے مرادآباد آئے اور تگ ودو میں لگے رہے۔
7- مرادآباد کورٹ میں جان انگلسن مجسٹریٹ نے پھانسی کی سزا سنائی- 22 رمضان المبارک 1274ھ/6 مئی 1858ء کو مرادآباد میں پھانسی دی گئی- اس وقت زبان پر نعتیہ اشعار جاری تھے:
کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا پر رسول اللہ کا دینِ حَسَنْ رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
مولانا سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشقِ محبوبﷺ سرد نہ کرسکا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری آپ کی نعت گوئی کے مداح و قدر داں تھے- فرماتے ھیں:
کافی امامِ نعت گویاں ھیں رضا ان شاء اللہ میں وزیر اعظم
مولانا عمر نعیمی کا بیان ہے کہ: مولانا کافی شہید کا جسم اطہر قبر سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا گیا……. یہ واقعہ شہادت کے تیس سال بعد کا ہے کہ قبر کسی طرح کھل گئی تو دیکھا کہ: حضرت مولانا کافی شہید کا جسم اطہر بوقتِ شہادت جیسا تھا ویسا ہی موجود ہے- (1857ء کے مجاہد شعرا، امداد صابری)
٢٢ رمضان المبارک یومِ شہادت پر ہم آپ کی بارگاہِ رفعت میں محبتوں/عقیدتوں کی سوغات پیش کرتے ہیں- علامہ سلمان رضا فریدی مصباحی کا منظوم تہدیہ نذر کرتے ہیں:
سخن کی آبرو ہے آج بھی لہجہ کفایت کا نہ بھولے گا جہاں، وہ “دار” پرنغمہ کفایت کا
فنا کی حد سے باہر ان کی خودداری کا ہے جوہر لباسِ موت میں کردار ہے زندہ کفایت کا
ترانہ عزم و ہمت کا لکھا، پھانسی کے پھندے پر بلالِ مصطفیٰ سے ملتا ہے شجرہ کفایت کا
سلاموں کے گہر ، اُس مردِ حُر کی استقامت پر شجاعت خیز ہے اب تا ابد قصّہ کفایت کا
ضمیر اپنا نہ بیچا، حق پرستی پر رہے قائم اصولِ رہبری کا چرخ ہے، رستہ کفایت کا
چراغ حق نوائی لے کے طوفاں کو ہزیمت دی نشانِ جرأت حسنین ہے اسوہ کفایت کا
کہا “سلطانِ اہلِ نعت” اُن کو اعلیٰ حضرت نے نبی کے عشق سے روشن ہے یوں خامہ کفایت کا
چلو ہم ان کی سیرت کو بنائیں مشعلِ ہستی تَنِ فکر و عمل پر اوڑھ لیں جامہ کفایت کا
وہ تیور جس سے کٹ جاتی ہیں مایوسی کی زنجیریں فریدی منتقل ہو قوم میں ورثہ کفایت کا