از: مخدوم اہل سنت ،خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ، ۱۹۴ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے ۔آپ نے اپنی ذہانت اور بیمثل حافظہ کے باعث سولہ سال کی عمر میں عبداللہ بن مبارک، وکیع بن الجراح اور دیگر اصحابِ امام اعظم ابو حنیفہ کی کتب کو یاد کر لیا تھا اور آخر عمر میں تین لاکھ احادیث کے حافظ ہو چکے تھے۔ امام بخاری شافعی مذہب کے مقلد تھے۔ حافظ ابو عاصم نے اور امام تاج الدین سبکی نے انہیں طبقات شافعیہ میں شمار کیا۔ غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی نے بھی انکا شمار ائمہ شافعیہ میں کیا ہے۔ (ابجدالعلوم:۸۱۱)
حفظ وضبط میں امام بخاری کا کوئی ثانی نہ تھا۔امام بخاری کے استاد ابو مصعب بن ابوبکر نے کہا، امام بخاری حدیث میں امام احمد بن حنبل سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔
آپ کے استاد امام احمد بن حنبل نے فرمایا ،ارض خراسان نے امام بخاری جیسا کوئی دوسرا پیدا نہ کیا۔ امام مسلم نے کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ امام بخاری جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ امام ترمذی نے کہا ، میں نے اسانید اور علل کے علم میں امام بخاری سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔ امام بخاری سے علمِ حدیث حاصل کرنے والوں میں امام مسلم، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن خزیمہ شامل ہیں۔ رحمہم اللہ تعالیٰ
امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں کسی حدیث کو لکھنے سے پہلے غسل کر کے دو نفل پڑھتے پھر اس حدیث کی صحت کے متعلق استخارہ کرتے ۔اسی لئے رب کریم نے صحیح بخاری کو بے پناہ مقبولیت عطا فرمائی ہے ۔۲۵۶ھ میں آپ کا وصال ہوگیا۔
صحیح بخاری کو ’اصح الکتب بعد کتابُ اللہ ‘کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کی دوسری کتابوں کی بنسبت اس میں زیادہ صحیح حدیثیں ہیں، ضعیف حدیثیں کم ہیں نیز اس کی حدیثیں صحت کی قوت میں بنسبت دوسری کتابوں کے زائد ہیں۔
اصح الکتب کا یہ مطلب لینا کہ بخاری میں جو کچھ ہے خواہ حدیث نہ ہو، امام بخاری کا قول، ان کی تحقیق ہو ، سب حق ہے ،یہ’ اصح کتب‘ کے معنی کی تحریف ہے۔ جس نے بھی بخاری کو’ اصح کتب‘ کہا، وہ صرف احادیث کے اعتبار سے کہا ،امام بخاری کے فرمودات کو اس میں کسی نے داخل نہیں کیا۔(مقدمہ نزہۃ القاری:۱۴۴)
امام بخاری ، رسولِ خدا اکی نماز کا طریقہ روایت کرتے ہیں،
عن محمد بن عمرو بن عطاء انہ کان جالساً مع نفر من اصحاب النبی ﷺ فذکرنا صلوۃ النبی ﷺ فقال ابوحمید ن الساعدی انا کنت احفظکم لصلوۃ رسول اللہ ﷺ رأیتہ اذا کبر جعل یدیہ حذومنکبیہ واذا رکع امکن یدیہ من رکبتیہ ثم ہصر ظہرہ فاذا رفع راسہ استوی حتی یعود کل فقار مکانہ واذا سجد وضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضہما واستقبل باطراف اصابع رجلیہ القبلۃ فاذا جلس فی الرکعتین جلس علی رجلہ الیسری ونصب الیمنی فاذا جلس فی الرکعۃ الاخرۃ قدم رجلہ الیسری ونصب الاخری وقعد علیٰ مقعدتہ۔
محمد بن عمرو بن عطاء روایت کرتے ہیں ،میں رسول کریم اکے بعض صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے رسولِ خدا اکی نماز کا ذکر کیا تو حضرت ابو حمید ساعدی صفرمانے لگے، میں تم سب سے زیادہ آقا ومولیٰ اکی نماز کو جانتا ہوں ۔میں نے دیکھا کہ آپ جب تکبیر کہتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے، جب رکوع کرتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور کمر کو برابر کرتے پھر رکوع سے سر مبارک اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے یہانتک کہ ہر عضو اپنی جگہ آ جاتا۔
پھر آپ ا سجدہ کرتے تو ہاتھوں کو زمین پر بچھائے بغیر رکھتے اور ان کو پہلوؤں سے نہ ملاتے اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ رو رکھتے۔ آپ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا کر لیتے اور سرین کے بل بیٹھتے۔
(صحیح بخاری باب سنۃ الجلوس فی التشھد)
اس حدیث میں حضرت ابو حمید ساعدی ص نے رسول خدا اکی نماز کا طریقہ بتایا اور اس میں صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کا ذکر کیا۔ اسکے بعد رکوع کی کیفیت بیان کی تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے اور کمر سیدھی کرنے کا ذکر کیا مگر رفع یدین کا ذکر نہیں کیا۔
اسی طرح رکوع سے سیدھے کھڑے ہو کر سجدے میں جانے کا ذکر کیا لیکن رفع یدین کا کوئی ذکر نہیں کیا اور کسی صحابی نے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا کہ تم نے رکوع کی رفع یدین کا ذکر کیوں نہیں کیا۔پس صحیح بخاری کی اس حدیث سے ثابت ہو کہ صرف نماز کی ابتدا میں رفع یدین کرنا رسولِ خدا اکی نماز کا طریقہ ہے اس کے سوا رکوع وسجود کے رفع یدین منسوخ ہو چکے۔
حضرت ابو حمید ساعدی ص سے یہ حدیث دیگر کتب میں بھی مروی ہے جن میں رکوع کے رفع یدین کا ذکر ہے لیکن ان کی اسناد ومتن مجروح ومضطرب ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی روایت مکمل صحیح ہوتی تو امام بخاری اسے اپنی صحیح میں جگہ دیتے لیکن انہوں نے اس صحیح ترین روایت کو صحیح بخاری میں روایت کیا۔
اسی بناء پر جب حافظ ابن حجر نے ابوحمید ساعدی ص کی حدیث سنن ابی داؤد کے حوالے سے بیان کی تو فرمایا، اصلہ فی البخاری۔
’’ اس کی اصل حدیث بخاری میں ہے‘‘۔ اور بخاری کی حدیث میں رکوع سے قبل اور بعد والا رفع یدین نہیں ہے۔ (الدرایہ:۱۵۳)الحمد للہ حمداً کثیراً۔