حضور مفسر اعظم ہند ہمہ گیر شخصیت

از: محمد فیضان رضا علیمی


اللہ وحدہ لاشریک کا بے پناہ فضل و احسان ہے کہ اس نے اس دنیا میں بے شمار علما و فضلا کو بھیج کر ہماری دینی و دنیوی پریشانیوں کے حل کی راہ ہموار کی اور کرم بالاے کرم ہے اس کے محبوب حضورِ اکرم، صاحبِ لولاک ﷺ کا کہ آپ نے صاحبان علم و فضل کے لیے ” العلماء ورثة الانبياء “ کا تمغہ عطا کرکے ان کی عزت و عظمت اور شان و وقار میں اضافہ فرمادیا۔

اس دنیاے فانی میں کچھ ایسی قدرآور اور یکتاے روزگار شخصیات جلوہ فگن ہوئیں جن کی حیات زیست کے روشن و تابناک اور درخشندہ ابواب آج بھی زمین پر بسنے والے افراد و اشخاص، اقوام و ملل اور عوام و خواص کو دعوت عمل اور پیغام فکر و نظر دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، ان شخصیات کے تابندہ نقوش ہر دور و عصر کے انسانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے رہےہیں۔ انہیں عبقری اور منفرالمثال ہستیوں میں ایک ذات ماضی بعید کے ایک یگانۂ زمانہ فرد ِفرید، علم و فضل، زبان و ادب، تقوی و طہارت، فکر و نظر، صدق و صفا اور تحقیق و تدقیق میں اپنی مثال آپ، حضور مفسر اعظم ہند، لسانِ اعلی حضرت، والدِ تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی ابراہیم رضا خان قادری معروف بہ جیلانی میاں علیہ الرحمة و الرضوان کی ہے۔ جنھوں نے خدمت دینیہ کے ہر میدان میں بالعموم اور خصوصاً فن تفسیر میں جو گراں قدر، بے مثال خدمات انجام دیے ہیں کہ رہتی دنیا تک اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

ولادتِ باسعات:
حضرت مفسر اعظم ہند قدس سرہ کی ولادت باسعادت ۱۰۔ ربیع الآخر۔۱۳۲۵ھ کو بریلی شریف میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی علامہ حامد رضا خان نے آپ کا نام محمد ابراہیم رضا خان رکھا جبکہ خاندانی روایت کے مطابق آپ کا عقیقہ محمد نام پر ہوا اور اسی خاندانی روایت کے مطابق چار سال چار ماہ اور چار دن کی عمر ہوئی تو بسم اللہ خوانی کا اہتمام کیا گیا جس میں خاندان کے جملہ افراد کے علاوہ شہر بریلی شریف کے علما و مشائخ کی بھی تشریف آوری ہوئی تھی۔ حسنِ اتفاق کہ جس دن آپ کی بسم اللہ خوانی ہوئی وہ ۱۴۔ شعبان المعظم۔ ۱۳۲۹ھ کا دن تھا۔ حضور سیدی اعلی حضرت نوراللہ مرقدہ نے بسم اللہ خوانی کرائی اور اسی وقت اپنے اس ننھےپوتے کو داخل سلسلہ فرمالیے، حاضرین کی موجودگی ہی میں آپ نے جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت عطا فرمائی اور موجودین کو مخاطب کرکے فرمایا ”اے لوگوں میرا یہ نونہال ایک دن میری زبان بنےگا“ اور زمانہ نے دیکھا کہ اللہ رب العزت کی مہربانی اور فیضِ امام سے حضور مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خان قادری علیہ الرحمہ امام اہل سنت قدس سرہ کی زبان بن افق عالم پر جلوہ فگن ہوئے۔ اور زبان بھی ایسی اعلی اور افضل قسم کی کہ تاحینِ حیات مشن اعلی حضرت کو آپ ہی کی طرح خوب عام و تام کیا اور دنیا میں بسنے والے انسانوں کے ہر ایک مسئلہ کو اپنی خدا داد صلاحت اور فیضِ دادا جان کی برکت سے دین و شریعت کی روشنی میں حل فرما کر لسان اعلی حصرت ہونے کا کما حقہ حق ادا کیا۔

تعلیم و تربیت:
آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے گھر میں دادی جان سے ہوئی، آپ کی دہانت و فطانت کا کمال یہ تھا کہ پورا ناظرہ قرآن مجید دادی جان اہلیہ محترمہ اعلی حضرت علیہا الرحمہ سے ۳۔ سال کی قلیل مدت میں حاصل کرلیا۔ جب آپ اپنی عمر کی ساتویں منزل پر پہنچے تو آپ کے دادا جان نے جامعہ رضویہ منظر اسلام جو آپ کے ہی والد ماجد کا قائم کردہ ادارہ ہے اس میں داخل کرادیا۔ جہاں آپ نے وقت کے ماہر اور قابل اعتماد اساتذہ کرام کی نگرانی میں پورے وثوق اور دل لگی کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو رواں دواں رکھا اور اپنی عمر کے ۱۹ ویں سال کی ٹھوڑی مدت میں تمام علوم و فنون سے فارغ التحصیل ہوگئے۔ (عموماً یہ عمر لڑکپن کی ہوتی ہے اور اس وقت اس عمر کے طلبہ رابعہ، خامسہ تک بڑی مشکل سے پہنچ رہے ہوتےہیں۔) اور جامعہ رضویہ منظر اسلام کے سالانہ جلسۂ دستار بندی کے پر بہار موقع پر ملک و بیرون ملک سے آئے ہوئے سیکڑوں علما و مشائخ کی موجودگی میں جانشینِ اعلی حضرت، غزالیِ دوراں، حجة الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے آپ کے سر انور پر دستار علم و فضل کا حسین سہرا باندھا اور قوم و ملت کے رو برو زبان ِاعلی حضرت کو علم و فضل اور جاہ و جمال کا تاج ور بنا کر پیش کردیا۔

افسوس صد افسوس کے جس نبیرہ کو سیدی امام اہل‌ سنّت نے بڑے ارمان اور لاڈ پیار سے پروان چڑھایا اس کو اپنے دست مبارک سے دستار علم و فضل نہ باندھ سکے کہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ۱۳۴۰ھ میں ہوا تھا جبکہ حضور جیلانی میاں نوراللہ مرقدہ کی دستار بندی ۱۳۴۴ھ میں ہوئی۔ نہ جانے اس موقع پر آپ بنفس نفیس موجود ہوتے تو کیا سے کیا کرتے کہ جب یہ نونہال پیدا ہوا تھا تو اس کی خوشی میں آپ نے علما و مشائخ، طلبۂ منظر اسلام اور شہر کے افراد کی ایسی دعوت کی تھی کہ اس سے پہلے اس طرح کی دعوت کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس کی انفرادیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ جو جس علاقے اور جس صوبے کا تھا، جس کو جو غذا زیادہ محبوب و پسندیدہ تھی سیدی اعلی حضرت نے اسی غذا کو اس کے دسترخوان پر پیش کیا تاکہ کشادہ دلی اور خوش طبیعت ہو کر شکم شیر ہوسکے۔ یہ تو پیدائش کی خوشی کا عالم تھا اور اب تو یہ نوردیدہ علم و فضل کی بیش بہا دولت سے اپنے قلوب و اذہان کو معمور کرچکا ہے۔ اس موقع پر سرکار اعلی حضرت کی کیسی خوشی ہوتی اس کو رقم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ خیر مرضی مولی کے تحت آپ چار سال قبل ہی داعی اجل کو لبیک گئے۔ جس کا صدمہ خود مفسر اعظم ہند کو بھی رہا۔

حضور مفسر اعظم ہند جیلانی میاں رحمةاللہ علیہ کی تعلیم و تربیت اسی نہج پر ہوئی جو آپ کے خاندان کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ اگر چہ آپ جامعہ رضویہ منظر اسلام کے مدرسین سے ۱۲ سال تک مروجہ نصاب تعلیم حاصل کیا لیکن تفسیر،حدیث اور فقہ کی تعلیم والد ماجد حضرت حجة الاسلام قدس سرہ سے خصوصی طور پر حاصل کیا۔ اور والد ماجد نے جہاں درسیات کے علوم و فنون سے آشنا کرایا وہیں عظمت و ناموسِ رسالت علیہ التحیہ و الثناء پر جان و مال نچھاور کرنے کا جذبۂ صادق بھی عطا کیا۔

نیابت و جانشینی:
یوں تو حضور جیلانی میاں علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری نے بسم اللہ خوانی کے وقت ہی جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما دی تھی اور آپ کے والد ماجد نے بھی ۱۹ سال کی عمر شریف میں ہی اپنی خلافت اور بزرگوں کی عنایتوں کو آپ کے حوالہ کر دیا تھا لیکن باضابطہ تحریر یخلافت و اجازت ، نیابت و جانشینی اور اپنی ساری نعمتیں علامہ حامد رضا خان قادری نے اپنی وفات سے ڈھائی ماہ قبلہ ۲۵۔ صفر المظفر۔۱۳۶۲ھ میں عرس رضوی شریف کے پربہار موقع پر علما و مشائخ کی موجودگی میں سپرد کردیا۔اور اپنی وصیت کے مطابق مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کو اپنا نائب، خانقاه عالیہ رضویہ کا سجاده اور جامعہ رضویہ منظرِ اسلام کا مہتمم نامزد فرمایا۔ ایسے وقت میں منظر اسلام کا اہتمام قانونی طور سے حضور مفسر اعظم ہند کے قبضے میں آیا جب دارالعلوم کی حالت بہت حد تک خراب ہوچکی تھی۔ آپ نے اس یادگارِ اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کو حیات تازه دینے کی خاطر سخت جد و جہد کی۔ محدثِ اعظمِ پاکستان مفنی سردار احمد لاہوری اور دیگر مشاہیر علماے کرام دارالعلوم کو خیرآباد کہ چکے تھے یہی نہیں بلکہ ان اساتذہ کے ہمراہ کچھ ذہین و فطين طلباے عظام بھی مدرسہ سے رخصت ہوگے تھے ایسے وقت میں منظرِ اسلام کی حالت خزاں رسیدہ چمن کے مانند تھی۔ آپ نے اپنی محنت شاقہ اور شب و روز کی کوشیشوں سے قابل اور ذی استعداد اساتذہ کو دارالعلوم میں لانا شروع کیا جن میں آپ استاد گرامی محدتِ جلیل علامہ احسان علی فیض پورم اور نامور مفتی حضرت علام سيد افضل حسين مونگیری صاحب ومفتی محمد جہانگیر خان صاحب ( قدس سرہم) جیسے علما تھے جن کو دارالعلوم میں خاص اور اعلی مناصب پر فائز فرمایا۔ منظرِ اسلام کی آبیاری کا ایسا جوش و جذبہ دل و دماغ میں موجزن تھا کہ خود بھی درس و تدریس میں لگ گئے۔ اوپر ذکر ہوا کہ جس وقت آپ نے مدرسہ کا کمان سنبھالا تھا اس وقت ادارہ مالی اور فردی دونوں اعتبار سے کمزور ہوچکا تھا آمدنی کی کمی کی وجہ سے کئی بار ایسا موقع آیا کہ آپ نے مدرسین اور دیگر عملے کی تنخواہ کی ادائیگی کے لیے گھر کے زیورات تک بیچ دیا۔

آپ علیہ الرحمہ کی جہد مسلسل اور شہرہ آفاق مقبولیت نیز خدا داد صلاحیت کی دولیت مسلمانان اہل سنت و جماعت رفتہ رفتہ دارالعلوم سے قریب ہوتے گئے اور مالی اعتبار سے آپ کا دست و بازو بنتے گئے جس کا ثمرہ اللہ پاک ایک دن دیکھا کہ اب دارالعلوم اپنی پرانی شان و شوکت کے ساتھ رواد دواں ہوگیا۔ اور اک اچھی خاصی تعداد ادارہ کے مخلصین اور محبین کی ہوگئی۔ آپ نے اہل سنت کے افکار و نظریات کو نشر کرنے اور ادارہ کی مالی حالت مضبوط کرنے کے لیے ماہنامہ اعلی حضرت کا اجرا فرمایا جو بحمدہ تعالی اب تک پابندی کے ساتھ مرکز اہل سنت کی ترجمانی کر رہا ہے اللہ کرے ایسا تاقیامت قائم رہے۔

مفسر اعظم کا لقب:
خانوادہ اشرفیہ کے چشم و چراغ حضور محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ آپ کی تقریر سے بہت متاثر تھے ملک کی کئی بڑی بڑی کانفرنسوں میں حضور محدث اعظم ہند نے آپ کا تعارف کرایا اور آپ کو مفسر اعظم کے لقب سے یاد فرمایا سیدنا محدث اعظم ہند نے سب سے پہلے کلکتہ کی ایک عظیم الشان کانفرنس ميں آپ کو اس لقب سے یاد فرمایا اور موجودہ علماے کرام نے اس کی تائید و توثیق کی۔ علما و سامعین نے تعرۂ تکبیر و رسالت اور مسلک اعلى حصرت زندہ باد پائندہ کے نعروں سے خوشی کا اظہار کیا اور اب ہر پوسٹر اور اشتہار میں آپ کے اسم مبارک کے ساتھ ”مفسر اعظم ہند“ کا لقب لکھا جانے لگے اور علما و عوام آپ کو نام سے کم اس لقب سے زیادہ یاد کرنے لگے۔

تفسیری انداز بیان:
آپ کی مفسرانہ خدمات پر جب نظر پڑتی ہے تو زبان حال بے ساختہ یہ جملہ نکلتا ہے “یقینا اعلی حضرت کی زبانِ فیصِ ترجمان تھے علامہ ابراہیم رضا اور اپنے وقت کےمفسر اعظم بھی” آئیے زمانہ کے اتنے بڑے مفسر کی تفسیری انداز و بیان کو ذرہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ امینِ شریعت ثالث، مفتی اعظم ہالینڈ، فقیہ اہل سنت مفتی عبدالواجد نیر قادری علیہ الرحمہ اپنی کتاب “حیات مفسر اعظم” میں لکھتے ہیں ” آپ کے تفسیر کرنے کا انداز یہ ہوتا تھا کہ پہلے چند آیات کریمہ کی تلاوت فرماتے، کنزالایمان سے ترجمہ سناتے، بعض دوسرے مترجمین کے ترجموں کا موازنہ ترجمۂ اعلی حضرت سے کرتے پھر آیات متلوہ کی لفظی و معنوی مطابقت قرآن پاک کی جن دوسری آیتوں سے ہوٹی ان آیتوں کی تلاوت و ترجمہ فرما کر اگر حضرت امام بخاری نے تلاوت کردہ آیت کریمہ سے متعلق کوئی باب باندھا ہے تو اس میں سے دو ایک حدیث پاک کا متن اور ترجمہ پیش کرتے، اس کے بعد مسلم شریف اور دیگر کتبِ صحاح کی ان حدیثوں کو پڑھتے جو تلاوت کردہ آیات کریمہ کے مفہوم و معنی کے متعلق ہوتیں اور ان حدیثوں پر امام نووی، قاضی عیاض، ملا علی قاری اور شیخ محدث دہلوی (قدس سرہم) کی تشریحات پیش فرما کر نتیجہ نکالتے اور نہایت شرحِ صدر کے ساتھ عوام کے سامنے بیان کرتے۔ آپ کے اس طریقۂ استدلال پر حاضرین علما و خطبا اش اش کرنے لگتے، مرحبا اور نعرۂ تکبیر و رسالت سے فضا گونج اٹھتی۔ “ ) حیات مفسر اعظم ہند ص: ۱۳۳)

تصنیف و تالیف:
حضور مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کثرتِ مشغولیت، تبلیغی اسفار اور ادارہ کے ہمہ وقت جد و جہد کرنے کی وجہ سےتصنیف و تالیف کا بہت زیادہ کام انجام نہ دے سکیں لیکن اس قدر مصروفیت والی زندگی سے وقت نکال کر آپ ہمیشہ مختلف موضوعات و عنوانات پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔زیادہ تر تحریریں عظمت انبیاعلیہم السلام، رفعت اولیاء اللہ رضی اللہ عنہم، اصلاحِ عقائد و اعمال، رد وہابیت اور امن و امان سے متعلق مضامینی شکل میں ہوتیں تھیں، جو ہر ماہ ماہنامہ اعلی حضرت میں معارف القرآن ، معارف الحدیث، ہفوات مودودی اور شذرات کے زیر عنوان شائع ہوتا رہتاتھا، اس کے علاوہ کچھ خاص عنوانین پر آپ نے مستقل طور پر تفصیلی مضامین تحریر فرمائے جسے کتابی شکل دیا گیا جس کی تعداد تقریباً بیس ہیں البتہ حیات مفسر اعظم مصنفہ مفتی عبدالواجد نیر قادری میں درج فہرست ۱۵ کی ہے جسے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۔ حواشی تحفہ حنفیہ، ۲۔ترجمہ الدررالسنیہ،۳۔ نعمہ اللہ،۴۔ حجة اللہ، ۵۔ ذکر اللہ، ۶۔ فضائل درود شریف، ۷۔تفسیرِ سوره بلد، ۸۔ تشریح قصیدة نعمانیہ، ۹۔ معارف القرآن، ۱۰۔ زیارت قبور، ۱۱۔ نورالصفا، ۱۲۔ آیات متشابات، ۱۳۔ گلزا را حادیث، ۱۴۔ چہل انوارِ رسالت اور ۱۵۔ رحمت اللہ وغیرہا ۔

چند واقعات قبل وفات:
حضرت مفسر اعظم ہند کی آخری ایام میں زبان بند ہوگئی تھی مگر آپ تحریراً دین و سنیت کی خدمت انجام دیتے تھے۔ وفات سے چند ماہ قبل آپ کافی کمزور ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود متعدد مقامات کے دورے کئے اور دین و سنیت کی تلیغ کا فریضہ انجام دیا آخری ایام میں جو واقعات قبل وفات رونما ہوئے ان میں مختصر یہ ہیں۔

حضور مفسر اعظم ہند کے وصال سے قبل کلکتہ سے ایک مرید کا خط آیا انہوں نے حضور مفسر اعظم ہند کو تین مرتبہ سرکار ابد قرار کے ہمراہ دیکھا حضور مفسر اعظم ہند نے یہ خط دیکھا اور تبسم فرمایا آپ تیسری صاحب زادی نے جب یہ خط پڑھا تو انہیں محسوس ہوا کہ ہمارے ابا جان جلد ہی ہم سے رخصت ہونے والے ہیں۔ مفسر اعظم ہند قدس سرہ کے ایک اور مرید نے خواب میں دیکھا جو بہار باڈر نیپال سے تعلق رکھتے تھے کہ حضور مفسر اعظم ہند اور حضور مفتی اعظم ہند ایک ساتھ جلوہ گر ہیں، تھوڑے وقفے کے بعد مفسر اعظم اٹھ کر چلنے لگے تو اس مرید نے خواب میں کہا حضور پان کھا کر جایے حضور مفسر اعظم ہند نے مڑ کر پان لے لیا اور چلے گئے مرید بہت فکر مند ہوا ۔ اور جب وہ بریلی شریف آیا تو اسے معلوم ہوا کہ حضور مفسر اعظم ہند وصال کر گئے۔

اس آپ کا وصال ۱۱ / صفر المظفر ۱۳۸۴ھ بروز بدھ بوقت ۷ بجے صبح میں ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ اسلامیہ انٹر کالج کے گراؤنڈ میں نائب مفتی اعظم ہند مفتی سيد افضل حسین صاحب مونگیری علیہ الرحمہ نے پڑھائی اور خانقاه عالیہ رضویہ میں لاکر مفتی اعظم ہند کے دائیں جانب دفن کر دیا گیا۔

ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

Menu