سیدی مفتیٔ اعطم ہند علیہ الرحمہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حیات وکارنامے:
سراج السالکین زبدۃ العارفین چشم و چراغ خاندان برکات حضرت سیدنا شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی صاحب سجادہ آستانہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مقدسہ کی عظیم بشارت اور مجدد اعظم دین وملت ، سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری برکاتی محدث بریلوی کی دعائے جمیل کا مجمع البحرین تھے تاجدار اہل سنت شہزادۂ اعلیٰ حضرت ابوالبرکات آل الرحمن محی الدین مفتی اعظم حضرت علامہ شاہ محمد مصطفی رضاخاں قادری برکاتی نوری بریلوی۔ قدست اسرارہم العالیہ۔
ولادت اور نام:
ایک مرتبہ سیدنا اعلیٰ حضرت اپنے مرشد کی بارگاہ اقدس میں مارہرہ مقدسہ کی نورانی حویلی میں رات کو آرام فرماتھے ، صبح کو فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہوئے اور جب مسجد کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگے تو نبیرۂ مرشد اعظم صاحب سجادہ آستانہ برکاتیہ نور العارفین حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری قدس سرہ سے ملاقات کا شرف خاصل ہوا،آپ کو مخاطب فرماتے حضرت نورالعارفین نے بشارت سنائی اور مبارک باد دیتے ہوئے فرمایا: مولاناصاحب آپ کے یہاں ایک عظیم فرزند کی ولادت ہوئی ہے ، وہ بچہ نہایت مبارک ہے ، ہم نے اس کانام آل الرحمن ابوالبرکات محی الدین جیلانی رکھاہے ۔ آپ اجازت دیں تو میں اس کو داخل سلسلہ کرلوں، آپ نے عرض کیا: وہ آپ کا غلام زادہ ہے، لہذا اس کو غلامی میں قبول فرمالیں۔ حضرت نے بعد نمازفجر مصلی امامت پر ہی غائبانہ مرید فرمایا اور ساتھ ہی اپنا جبہ وعمامہ عطا فرماکر ارشاد فرمایا ہم جلد ہی بریلی آکر اس بچہ کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کریں گے۔
سیدنا اعلیٰ حضرت نے بریلی شریف آکر ساتویں دن ’’محمد‘‘ نام پر آپ کا عقیقہ کیا اور عرفی نام ’’مصطفی رضا‘‘ تجویز فرمایا۔
خلافت:
اس نوید وبشارت کے چھ ماہ بعد جمادی الآخرہ۱۳۱۱ھ میں حضرت نورالعارفین بریلی تشریف لائے اور آپ کو گود میں لے کر خلافت سے سرفراز فرمایااور جدید وقدیم تیرہ سلاسل کی اجازت عطا فرمائی، ساتھ ہی ارشاد فرمایا: یہ بچہ مادر زاد ولی ہے ، فیض کے دریا بہائے گا۔
اس کے بعد سیدنا اعلیٰ حضرت نے بھی اپنے لخت جگر کو تمام سلاسل کی اجازت عطا کی ، اس طرح خاندان برکات کے دو چشم و چراغ سے آپ نے بلاواسطہ فیض پایا۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے قرآن کریم کی تعلیم اپنے والد ماجد سیدنا اعلیٰ حضرت ، عم محترم حضرت مولانا محمد رضاخاں ،برادر مکرم حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں علیہم الرحمہ سے پائی اور فارسی وابتدائی عربی کی تعلیم بھی انہی حضرات سے حاصل کی۔ پھر جب مدرسہ اہل سنت قائم ہوا تو اپنے والد معظم سیدنا اعلیٰ حضرت اور آپ کے علاوہ مندرجہ ذیل حضرات سے بھی درس لیا۔
۱۔ برادر اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضاخاں
۲۔ استاذ الاساتذہ مولانا شاہ رحم الہٰی منگلوری
۳۔ شمس العلما مولانا ظہور الحسین فاروقی رام پوری
۴۔ شیخ العلما مولانا سید شاہ بشیر احمد علی گڑھی
آپ کی فراغت۱۳۲۸ھ/ ۱۹۱۰ء میں بہ عمر اٹھارہ سال ہوئی اور والد محترم کے دست مبارک سے دستار حاصل کی، پھر ۱۲؍ سال مجدد اعظم امام احمدرضا کی خدمت میں حاضر رہے اور جملہ علوم و فنون میں دستگاہ اور مہارت تامہ حاصل کی ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بطور خاص اعلیٰ حضرت اپنی تصانیف کے ذریعہ رد فرق باطلہ کا فریضۃ انجام دے رہے تھے اور علم و عرفان کے دریا بہارہے تھے۔ اس وقت اپنے والد ماجد کی خدمت میں پورے طور پر شریک کار تھے ۔ آپ کی بہت سے تصانیف اسی زمانہ کی یادگار ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جن علوم وفنون کو آپ نے اساتذہ کی خدمت میں رہ کر حاصل کیا تھا ان میں مہارت تامہ اور عبقریت حاصل کرنے کا یہی زمانہ ہے جو اعلیٰ حضرت کی خدمت میںرہ کربلاشرکت غیر آپ کے حصہ میں آیا۔
فتویٰ نویسی :
سیدنا اعلیٰ حضرت کی خدمت میں رہ کر آپ نے بطور خاص فتویٰ نویسی کے علم و فن میںبھی مہارت حاصل کی، ان دونوں کا ثبوت آپ کے فتاویٰ اور تصانیف میں موجود ہیں۔
فتویٰ نویسی کا آغاز حیرت انگیز طور پر ہوا۔ واقعہ یوں ہے کہ جب آپ فارغ التحصیل ہوئے تو کسی دن دارالافتا میں تشریف لائے ، دیکھا کہ تلمیذ اعلیٰ حضرت ملک العلما مولانا ظفرالدین بہاری فتویٰ لکھنے کے سلسلہ میں فتاویٰ رضویہ کے مطالعہ میں مشغول ہیں ، آپ نے فرمایا: فتاویٰ رضویہ دیکھ کر فتویٰ لکھتے ہیں؟۔ ملک العلما نے جواب دیا: اچھا تو آپ بغیر دیکھے لکھ دیں تو جانوں، آپ نے فوراً مراجعت کتب کے بغیر مدلل فتویٰ تحریر فرمادیا ، یہ رضاعت کا مسئلہ تھا ۔
فتویٰ جب اصلاح کے لیے مجدد اعظم امام احمد رضا کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: یہ کس نے لکھا ہے؟ عرض کیا گیا: چھوٹے میاں نے ، (اس وقت تک آپ گھر اور باہر اسی عرفیت سے مشہور تھے) آپ نے طلب فرمایا: حضور مفتی اعظم حاضر ہوئے تو دیکھا کہ اعلیٰ حضرت نہایت مسرور ہیں ، پیشانی اقدس سے بشاشت نمایاں ہے ۔ فرمایا: اس پر دستخط کرو، دستخط کرانے کے بعد آپ نے تحریری طور پر اس کی تصدیق وتصویب فرمائی اور یوں تحریر کیا:
صح الجواب بعون الملک الوہاب ۔
دستخط ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(امام احمد رضا)
ساتھ ہی پانچ روپے انعام میں عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا:
تمہاری مہربنوادیتاہوں ،اب فتوی لکھا کرو، اپنا ایک رجسٹر بنالو اس میں نقل بھی کرلیا کرو۔ [پندرہ روزہ رفاقت ، فروری ۱۹۸۲ئ]
مہر جب بن کر آئی تو اس میں تحریر تھا۔
(ابو البرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن عرف محمد مصطفی رضا)
فقیہ اعظم شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی فرماتے ہیں:
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اعلیٰ حضرت نے بھی پہلا فتویٰ رضاعت کا لکھا اور ان کے آئینہ جمال وکمال مفتی اعظم نے بھی پہلا فتویٰ مسئلہ رضاعت ہی کا لکھا۔
خاص بات یہ ہے کہ اس پہلے فتوے پر اعلیٰ حضرت نے نہ ایک لفظ گھٹایا نہ ایک لفظ بڑھایا۔ یعنی کوئی اصلاح نہ کی ۔ پہلا فتویٰ ہی حضرت مفتی اعظم نے ایسا صحیح اور مکمل لکھا کہ کہیں اس میں کوئی انگلی رکھنے کی جگہ نہ تھی۔
آغاز کا جب یہ عالم ہے انجام کا عالم کیا ہوگا۔ [ایضاً]
پھر اس آغاز کا انجام اس طرح ظہور پذیر ہوا کہ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد جب اہل ہند اس فقیہ فقید المثال کے بوقت ضرورت فتاویٰ او ربر وقت رہنمائی سے محروم ہوگئے تو بریلی کی وہ عظیم مسند افتا جو تقریباً سو سال سے امت مسلمہ کی رہنمائی کررہی تھی ا س کو زینت بخشنے کے لیے اعلیٰ حضرت کے دونوں شہزاد گان حجۃ الاسلام اور مفتی اعظم نے اہم رول ادا کیا۔ مگر حجۃ الاسلام ملک وملت کے دوسرے مسائل حل کرنے میں مصروف ہوئے توپھر یہ منصب محض آپ کے سپرد ہوا اور اس وقت کے جلیل القدر علما وفقہا نے بالاتفاق آپ کو مفتی اعظم کاخطاب دیا۔ حالاں کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں سیدنا اعلیٰ حضرت کے جلیل القدر خلفا وتلامذہ موجود تھے ۔ اس کے باوجود حجۃ الاسلام کے حکم سے سیکڑوں علما کی موجودگی میں اعلیٰ حضرت کے ساتویں عرس کے موقع پر ۱۳۴۷ھ/۱۹۲۸ء کو اس عظیم اجتماع میں جو تجاویز پاس ہوئیں ان کے نمبر(۳) میں آپ کو صدرالعلما اور مفتی اعظم لکھا گیا۔ [جہان مفتی اعظم ص ۱۲۶]
اس کے بعد مفتی اعظم کاخطاب اس طرح عام ہوا کہ علما وفقہا،عوام و خواص اور ارباب علم و دانش اسی سے یاد کرتے ہیں اور آج تک یہی زبانوں پر جاری و ساری ہے ۔یعنی اب یہ بہ منزلہ عَلَم ہوچکا ہے ۔
فقیہ اعظم شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق صا حب امجدی لکھتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے اپنی حیات طیبہ میں سیکڑوں مسائل لکھوائے ۔اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد آپ کے آستانہ پر آنے والے ہزار ہا ہزار مسائل لکھنے والے صرف دو تھے۔ ایک حضرت مفتی اعظم ، دوسرے حضرت صدرالشریعہ ۔حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہ اگرچہ حضرت مفتی اعظم کے استادتھے اور خود زبردست مفتی تھے ، مگر مسائل ان دونوں حضرات کے یہاں ارسال فرمادیتے۔بہت کم ایسا اتفاق ہوتاکہ خودکوئی فتویٰ تحریر فرماتے،اور جب حضرت صدرالشریعہ اجمیر شریف چلے گئے تو تنہا مفتی اعظم آستانے پر آنے والے تمام مسائل کو لکھا کرتے ۔ اس زمانے میں لوگ دین دار،آج کی بہ نسبت بہت زیادہ تھے ۔ہر معاملے میںحکم شرعی دریافت کرتے تھے اور دینی مدارس وہ بھی اہل سنت کے، بہت ہی کم تھے ۔ آج بحمدہ تعالیٰ بہ کثرت ہیں اور تقریباً ہر مدرسے میں دارالافتا ہے ۔اب اندازہ لگائیںکہ حضرت مفتی اعظم کتنے مسائل لکھتے رہے ہوں گے؟ پھر فتویٰ کی شان وہ تھی، مفتی اعظم کاقلم ہے اور مضمون اعلیٰ حضرت کا ۔اس وقت ملک کے طول و عرض میں بہت سے مفتی تھے۔ کسی کے یہاںوہ جامعیت جو مفتی اعظم کے فتویٰ میں تھی،نہیں ملتی،اورنہ ملے گی ۔گیارہ سال تین ماہ خدمت میں حاضررہا ۔اس مدت میں چوبیس ہزار مسائل لکھے ہیں، جن میں کم از کم دس ہزار وہ ہیں جن پرحضرت مفتی اعظم کی تصحیح و تصدیق ہے ۔ عالم یہ ہوتا کہ دن بھر بل کہ بعدمغرب بھی دو دو گھنٹے تک حاجت مندوںکی بھیڑ رہتی۔یہ حاجت مند خوش خبری لے کر نہیںآتے۔ سب اپنا اپنا دکھڑا سناتے، غم آگیں واقعات سننے کے بعددل و دماغ کا کیا حال ہوتاہے وہ سب کو معلوم ہے ۔اتنے طویل عرصے تک اس غم آفریںماحول سے فارغ ہوکر بعد عشا پھر تشریف رکھتے اور میں اپنے لکھے ہوئے مسائل سناتا ۔ میں گھسا پٹا نہیں، بہت سوچ سمجھ کر جانچ تول کر مسئلہ لکھتا مگر واہ رے مفتی اعظم! اگر کہیں ذرا بھی غلطی ہے،یا لوچ ہے، یا بے ربطی ہے،یا تعبیر غیر مناسب ہے ، یا سوال کے مطابق جواب میں کمی بیشی ہے ،یاکہیں سے کوئی غلط فہمی کا ذرا بھی اندیشہ ہے ، فوراً اس پر تنبیہ فرمادیتے اورمناسب اصلاح۔ تنقید آسان ہے مگر اصلاح دشوار۔جو لکھا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے ، اس کو کوئی بھی ذہین نقاد کہہ سکتا ہے مگراس کو بدل کر کیا لکھا جائے؟ یہ جوے شیر لانے سے کم نہیں ہے ۔ مگر ستر سالہ مفتی اعظم کا دماغ اورعلم ایسا جوان تھا کہ تنقید کے بعد فوراً اصلاح فرمادیتے اور ایسی اصلاح کہ پھر قلم ٹوٹ کر رہ جاتا ۔
کبھی ایسے جاں فزا تبسم کے ساتھ کہ قربان ہونے کاجذبہ حد اضطرار کو پہنچ جائے،کبھی ایسے جلال کے ساتھ کہ اعصاب جواب دے جائیں، مگراس جلال کو کون سا نام دیں جس کے بعد مخاطب کی جرات رندانہ اور بڑھ جاتی۔ کیا کیجیے گا اگرجلال سے مرعوب ہوکر چپ رہتے تو اورجلال بڑھتا رہتا ،یہاں تک کہ مخاطب کو عرض و معروض کرنا ہی پڑتا۔ یہ جلال وہ جلال تھاکہ جو اس کامورد بنا کندن ہوگیا ۔
یہ مجلس آدھی رات سے پہلے کبھی ختم نہ ہوتی۔بارہا رات کے دو بج جاتے اور رمضان شریف میں سحری کا وقت تو روز ہوجاتا۔
بارہاایسا ہوتاکہ حکم کی تائید میںکوئی عبارت نہ ملتی تو میں اپنی صواب دید سے حکم لکھ دیتا، کبھی دور دراز کی عبارت سے تائید لاتا،مگرمفتی اعظم ان کتابوں کی عبارتیںجو دارالافتا میں نہ تھیں، زبانی لکھوادیتے ۔میں حیران رہ جاتا۔یااللہ کبھی کتاب کامطالعہ کرتے نہیں، یہ عبارتیں زبانی کیسے یادہیں،پیچیدہ سے پیچیدہ ، دقیق سے دقیق مسائل پر ایسی تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتاکہ اس پر بڑی محنت سے تیاری کی ہے ۔
سب جانتے ہیں کہ کلام بہت کم فرماتے تھے، مگر جب ضرورت ہوتی توایسی بحث فرماتے کہ اجلہ علما، انگشت بدنداں رہ جاتے ۔کسی مسئلہ میں فقہاکے متضاداقوال ہیں تو سب دماغ میں ہر وقت حاضررہتے۔ سب کے دلائل ،وجوہ ترجیح اور قول مختار مفتیٰ بہ پر تیقن اور ان سب اقوال پر اس کی وجہ ترجیح سب ازبر۔
باب نکاح میں ایک مسئلہ ایسا ہے، جس کی بہتر صورتیں ہیں اورکثیرالوقوع بھی ہیں۔پہلی بار جب میںنے اس کولکھا، سوال مبہم تھا، میںنے بیس شق قائم کرکے چار ورق فل اسکیپ کاغذپر لکھا ۔ جب سنانے بیٹھا تو فرمایا: یہ طول طویل شق در شق جواب کون سمجھ پائے گا؟ پھر اگر لوگ ناخدا ترس ہوئے تو جو شق اپنے مطلب کی ہوگی اس کے مطابق واقعہ بنالیں گے۔ آج یہاںہندوستان میںیہ صورت رائج ہے ،اسی کے مطابق حکم لکھ کر بھیج دیں۔ یہ قید لگاکر کہ آپ کے یہاں یہی صورت تھی تویہ حکم ہے ۔یہ جواب فل اسکیپ کے آدھے سے بھی کم پر مع تائیدات آگیا ۔اس واقعہ نے بتایا کہ کتب بینی سے علم حاصل کرلینا اور بات ہے اور فتویٰ لکھنا اور بات ہے۔ (جہان مفتی اعظم۲۵۲۔۲۵۳)
مفتی نظام الدین صاحب مصبا حی تحریر فر ما تے ہیں :
فقہی مسائل میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ حالات زمانہ کے بدلنے کی وجہ سے احکام بھی بدل جاتے ہیں، اس لیے ایک بالغ نظر فقیہ و ماہر مفتی اس بات پر بھی گہری نظر رکھتا ہے کہ اس کے سامنے جو مسئلہ پیش کیا گیا ہے وہ انھیں مسائل سے ہے یا نہیں ، اور اگر انھیں مسائل سے ہے تو کیا ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جن کی بنا پر احکام میںتبدیلی ضروری ہوتی ہے ؟ ان دونوں امور کا فیصلہ نہایت اہم ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر مفتی اس پر قدرت نہیں رکھتا ، اور یہی وجہ ہے کہ ایک مفتی کے لیے حالات زمانہ سے باخبر رہنا بہت ہی ضروری قرار دیا جاتا ہے ، حتیٰ کہ فقہا فرماتے ہیں:من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل جو اپنے اہلِ زمانہ سے نا آشنا ہو وہ جاہل ہے۔ اس کو ایک مثال کی روشنی میں آپ یوں سمجھ سکتے ہیں: ایک عالمِ دین نے گورکھ پور اور مبارک پور کے ایک مخصوص اجتماع میں فتاویٰ رضویہ جلد سوم کے حوالے سے یہ مسئلہ بیان کر دیا کہ پینٹ شرٹ پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور ایسی نماز دوہرانی واجب ہے ، اس کے باعث لوگوں میں بے پناہ بے چینی بڑھ گئی ، کیوں کہ روزانہ ہزار ہا لوگ پینٹ شرٹ میں ملبوس ہو کر نمازیں ادا کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر وقت اپنا یہ لباس اتار کر علما و صوفیہ کا لباس زیب تن کر کے نماز ادا کرنے کا التزام کریں ۔
مولانا نے حوالہ صحیح دیا تھا ، مگر موجودہ حالات کے لحاظ سے مسئلہ صحیح نہ بتایا ، کیوں کہ جس زمانہ میں وہ فتویٰ لکھا گیا تھا اس وقت کے حالات یہ تھے کہ یہاں کی ہر قوم عام طور سے پینٹ ، شرٹ سے نفرت کرتی تھی، اور یہ لباس انگریزوں کا شعار خاص تھا ، مگر آج حالات اتنے زیادہ بدل چکے ہیں کہ ہر قوم اس لباس کو اختیار کر چکی ہے ۔ مسلمان بھی عام طور پر پہنتے ہیں ، بل کہ بہت سے مقامات پر یہ علما و صلحا کا بھی لباس ہو چکا ہے ۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ جب شعار بدل گیا تو اب حکم بھی بدل جائے گا ۔ خود مجدد اعظم اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے فتاویٰ رضویہ جلد دہم نصف اول میں شعار کے بدلنے سے حکم کے بدلنے کا فتویٰ دیا ہے اور اسلاف سے اس کی شہادت بھی پیش فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں فتاویٰ رضویہ میں بہت سے احکام میں حالات زمانہ کے بدلنے سے احکام کے بدل جانے کا فتویٰ دیا گیا ہے ۔ فتاویٰ مصطفویہ میں بھی اس کے متعدد نظائر پائے جاتے ہیں ۔ ہم یہاں بہ طور نمونہ صرف دو نظیریں پیش کرتے ہیں:
(الف) جو ان ساس اور بہو کے احکام میں تبدیلی :
ساس اور بہو محرمات سے ہیں یعنی ان خواتین سے ہیں جن سے داماد اور خسر کا نکاح ہمیشہ کے لیے حرامہے ۔ساس کی حیثیت داماد کے حق میں ماں کی ہوتی ہے اور بہو کی حیثیت خسر کے حق میں بیٹی کی ہوتی ہے لیکن لوگوں میں خدا نا ترسی عام ہونے کی وجہ سے اب ان کے کچھ احکام بدل گئے ہیں ۔حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ساس یعنی بیوی کی ماں کا ہاتھ تعظیماً چومنا جائز ہے نہیں ؟
تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ہر گز نہ چا ہیے جب کہ یہ اور وہ دونوں جوان ہوں یا دونوں میں سے ایک جوان ہو اور خوف فتنہ ہو، چومنا تو چومنا اس صورت میں تو ہاتھ میں ہاتھ بھی نہ لینا چاہیے ۔شہوت ہی سے ہاتھ میں ہاتھ لینا ناجائز نہیں ،بے شہوت بھی ناجائز ہے جب کہ شہوت سے امن نہ ہو ۔
شہوت اس وقت نہیں اس وقت خالص تعظیم و تحیت ہی کے لیے بوسہ لیا، یا پاک محبت ہی سے ہاتھ میں لیا مگر ہاتھ میں ہاتھ آنے سے شہوت سے مامون نہیں تو چومنا کیسا ؟محض مصافحہ ہی جائز نہ ہوگا ۔
محرمات نسبیہ سے خلوت جائز ہے اور رضاعیہ صہریہ سے ناجائز جب کہ وہ جوان ہو :
اس زمانہ فساد میں جب کہ جوان وحسین خصوصاً بیوہ ساس اور رضاعی ماں بہنوں کو میرے نزدیک مس کرنا نظر سے غلیظ تر ہے ،مکروہ تر ہونا اور ہمارے قاعدہ مذہب یعنی سد باب فتنہ کا اس سے غیر آبی ہونا ظاہر ۔وکم من احکام تختلف باختلاف الزمان جیسے دوسرے کی باندی کے نامحرم کے ساتھ سفر وخلوت کو اس زمانہ میں بوجہ غلبہ اہل فساد علامہ حصکفی نے علامہ ابن الکمال سے نقل فرمایا کہ یہ ناجائز ہے اور یہی مفتی بہ ہے شامی میں ہے :
لم یذکر محمد الخلوۃ والمسافرۃ با ماء الغیر ،وقد اختلف المشائخ فی الحل وعد مہ وہما قولان مصححان اقول : لکن ھذا فی زمانہم لما سیذکرہ الشارح عن ابن کمال انہ لاتسافر الا مۃ بلا محرم فی زماننا لعلبۃ اھل الفساد وبہ یفتی فتامل اھ۔
(تلخیص فتاویٰ مصطفویہ ،ص۵۲۵: تا۰ ۵۳)
حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے اس فتویٰ کو در مختار ،رد المحتارر ،عنایہ ،مجتبیٰ کشف الحقائق ، حدیقہ ندیہ ،قنیہ ،استحسان القاضی الصدر الشہید ،اشباہ،شرح اشباہ کی فقہی عبارتوں سے مزین بھی کیا ہے جنھیں ہم نے اختصار کے پیش نظر نقل نہیں کیا ہے ۔
جرمانہ کا حکم :
ابتداے اسلام میں مجرم سے جرمانہ لینا جائز تھا بعد میں یہ اجازت منسوخ ہو گئی اور منسوخ پر عمل کرنا ناجائز وگناہ ہے ۔لیکن حضرت سیدی مفتی اعظم علیہ الرحمۃوالرضوان نے لوگوں میں بے پناہ جرات وبے باکی بڑھ جانے کی وجہ سے بعض صورتوں میں مجرم سے جرمانہ لینے کی اجازت دی ہے ۔جیسا کہ آپ کے جاری کردہ درج ذیل فتوے سے بخوبی عیاں ہے ۔
تعزیر بالمال ناجائز ہے ۔جرمانہ کرنا نہ چاہیے ۔مگر فتاویٰ خلاصہ میں فرمایا :
سمعت من ثقۃ ان التعزیز با خذ المال ان رای القاضی اوالوالی جازو من جملۃ ذلک رجل لایحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ با خذ المال ۔
فتاویٰ خلاصہ کے اس ارشاد سے ایسے شخص پر جرمانہ کی اجازت والی وقاضی کے لیے معلوم ہوئی اگر وہ اس میں مصلحت پائیں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ۔تو جو نماز ہی نہیں پڑھتے ان پر بدرجہ اولیٰ ۔ مگر یہ اخذ انز جار تک ہوگا کہ اس طرح سے اس کی اصلاح ہو جائے تو بعد اصلاح واپس کردیں اور اگر واپس کرنے سے پھر اس شخص کی وہی حالت ہوجانے کا صحیح اندازہ ہوتو کسی نیک کام میں اس کی طرف سے لگا دیں ،یہاں قاضی کہاں ۔یہاں اعلم علما ے بلد سنی صحیح العقیدہ غیر فاسق قائم مقام والی ہے۔ اس کی اجازت سے یہ تعزیر کی جاسکتی ہے۔ جس کی اصلاح ہوجائے اور واپس کرنے پر پھر اس کے بگڑ جانے کا اندیشہ نہ ہوتو بعد اصلاح اسے اس کی رقم واپس دے دی جائے اور جس کے بگڑنے اور تعزیر کی ہیبت ہی جانے کا اندیشہ ہو اس کی رقم کسی نیک کام میں صرف کردی جائے۔ اگر اس سے اجازت لے لی جائے تو اچھا ہے اور اگر وہ اجازت نہ دے تو بھی اس کی طرف سے کسی نیک کام میں لگا دی جائے کہ اسے ثواب پہنچے ۔
(۳) غیر منصوص مسائل کے احکام کا استخراج :
جب کوئی مسئلہ نو پیدا ہو اور اس کا حکم شرعاً منصوص نہ ہو تو اس کے بارے میں امت کی صحیح شرعی رہ نمائی ایک ماہر فقیہ کر سکتا ہے ۔اس خصوص میں جب ہم حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فتاویٰ کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کا مقام صف علما میں بلند نظر آتا ہے ،آپ سے یہ سوال دریافت کیا گیا کہ نماز جنازہ کی امامت پر اجرت لینا جائز ہے کہ نہیں؟ تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ امامت نماز جنازہ پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے ۔الفاظ یہ ہیں :
طاعت پر اجرت ٹھہرانا حرام ہے۔ یہی اصل مذہب ہے متاخرین نے بہ خوف ضیاع بعض طاعات کا استثنا فرمایا وہ وہی ہیں جن میں ضرورت ظاہرہ ہے ۔پھر خاص طاعت پر ہی عقد کرنا تو برا ہی ہے۔ کسی کے نزدیک بھی نہ چاہئے امامت صلاۃ جنازہ ان طاعات میں نہیں ہوگی ۔جن کا متا خرین کرام نے استثنا کیا کہ اس میںجماعت شرط وواجب نہیں ۔ایک کے ادا کر لینے سے نماز ادا ہو جائے گی اور کوئی واجب ترک نہ ہوگا۔
خلاصہ میں فرمایا:
’’ان کان الامام علی طھارۃوالقوم علی غیر طھارۃ صحت صلوۃ الامام ولاتعاد الصلوۃ علیہ فی التجر ید ھٰذا دلیل علی ان الجماعۃ لیست بشرلصلاۃ الجنازۃ‘‘
بزازیہ میں فرمایا ۔حلیہ میں ہے:
الجماعۃ فیھالیست بشرط حتی لو صلی الامام بجماعۃ فیھا وکان علی طھارۃ دونھم لا تعاد لان حق المیت تادی بصلوٰۃ الامام وبالعکس تعادلان صلوتہ غیر جائزۃ فکذ اصلوتھم لانھابناء علی صلا تہ۔
ہندیہ میں ہے:
الصلاۃ علی الجنازۃ تادی باداء الامام وحدہ لان الجماعۃ لیست بشرط الصلوٰۃ علی الجنازۃ کذا فی النھایۃ۔
(ان فقہی عبارات کا حاصل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ کے لیے جماعت شرط نہیں ہے ، کوئی شخص تنہا ادا کر لے تو بھی فرض کفایہ اداہو جائے گا)نیز فرماتے ہیں:
یہاں تک کہ عورت اگرچہ جاریہ ہو ، امامت کرے ، جب بھی نماز کا اعادہ نہ ہوگا ، مردوں کی نماز اس کے پیچھے نہ ہوگی مگر اس کی اپنی ہو جائے گی اور وہ اداے فرض کو کفایت کرے گی۔
اس کے بعد حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے برہان ، انتباہ، شرح اشباہ، در مختار ، رد المحتار، بحر ، بدائع اور فتاویٰ عزیزیہ، ہدایہ، فتاویٰ بزازیہ، وغیرہ کی عبارتوں سے اپنے موقف کو اچھی طرح ثابت فرما دیا ، پھر اخیر میں فرمایا:
یہاں امامت صلاۃ جنازہ پہر وہی اجرت ٹھہرا رہا ہے اور اجرت بھی کیا، نکاح خوانی کے حقوق ، تو یہ ناجائز در ناجائز ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ مصطفویہ، ص۱۹۷،۱۹۸،۱۹۹)
فقہاے متاخرین نے بوجہ ضرورت شرعیہ امامت پر اجارے کی اجازت دی ہے ، اس سے بہ ظاہر یہ متبادر ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھانا بھی امامت ہے ، اس لیے یہاں بھی اجارہ جائز ہونا چاہیے ۔ لیکن حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے اس فتوے میں جب یہ صراحت ہو گئی کہ امامت نماز جنازہ پر اجارہ ناجائز ہے تو وجہ فرق واضح ہو کر یہ سامنے آگیا کہ نماز جمعہ و عیدین کے لیے امام ماذون ضروری ہے ، اس کے بغیر یہ نمازیں ادا ہی نہیں کی جا سکتیں اور نماز پنج گانہ کی ادائیگی اگرچہ بغیر امام و جماعت کے تنہا تنہا بھی ممکن ہے مگر جماعت ان نمازوں کی بھی واجب ہے اور جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی بغیر امام کے نہیں ہو سکتی اس لیے ان تمام نمازوں میں شرعاً امام کی ضرورت ہے ۔ لہذا اس امامت کے لیے اجارہ جائز ہوا ۔ لیکن اس کے بر خلاف نمازِ جنازہ کے لیے امامت شرط نہیں جیسا کہ فتاویٰ مصطفویہ میں نقل کیے گئے جزئیات سے بہ خوبی ثابت ہوتا ہے اس لیے یہاں امام کی ضرورت نہیں پائی جاتی اور جب ضرورت نہیں تو اس پر اجارہ کی اجازت بھی نہ ہوگی۔
یہ مسئلہ بجاے خود بہت اہم ہے اور صراحت کے ساتھ اس کا حکم کتب فقہ میں مذکور نہیں ہے مگر یہ دقت نظر ہے حضور سیدی مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کہ آپ نے الجماعۃ لیست بشرط لصلوۃ الجنازۃ سے اس کا استخراج فرمایا ۔ ایسے جزیے سے اس مسئلہ کا استخراج وہی فقیہ اعظم کر سکتا ہے جس کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ فرمایا ہو ۔ من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔
بارگاہِ رسالت کا ادب و احترام :
آپ کے فتاویٰ میں بارگاہِ رسالت کا ادب و احترام بے پناہ پایا جاتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ آپ کی حیات مبارکہ اس شعر کی مصداق تھی ۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
سراج العارفین حضرت علامہ مولانا غلام آسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنے نام کے شروع میں برکت کے لیے لفظ محمد شامل کر لیا تھا ۔ اس پر سیدی حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تنبیہ فرمائی کہ یہاں اسمِ رسالت نہیں ہونا چاہیے ۔ علامہ فرماتے ہیں کہ میں نے فوراً عرض کیا کہ حضور پھر محمد عبد الحئی کا کیا حکم ہوگا ۔ اس کے جواب میں حضرت نے فرمایا ، کجا عبد الحی و کجا غلام آسی؟ علامہ فرماتے ہیں ، یہ جواب سن کر میں حیرت زدہ رہ گیا اور حضرت کے تفقہ فی الدین کی عظمت دل میں خوب خوب رچ بس گئی۔
حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے اپنے ارشاد سے یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ جس نام کے شروع میں لفظ محمد لایا جائے ، اگر اس نام کا اطلاق لفظ محمد پر درست ہو تو وہاں لفظ محمد لانا درست ہوگا ، اور اگر نام کا اطلاق لفظ محمد پر درست نہ ہو تو وہاں لفظ محمد شروع میں لانا درست نہ ہوگا ۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم عبد الحی ہیں لہذا محمد عبد الحی کہنا درست ہے ، لیکن غلام آسی نہیں ہیں ، اس لیے محمد غلام آسی کہنا نامناسب ہے۔
جس شخصیت نے اپنے فتاویٰ میں بارگاہِ رسالت کے ادب کے تعلق سے ایسی باریک بینی اور دقت نظر کا التزام کیا ہو وہ یقینا رضاے مصطفی ہوگی اور بجا طور پر بارگاہِ رسالت سے اس انعام کی مستحق ہوگی کہ خلق خدا اسے مفتی اعظم کے نام سے یاد کرے۔(جہان مفتی اعظم ۴۴۰۔۴۴۷)
مفتی مطیع الرحمن صاحب تحریر فرماتے ہیں:
امام احمد رضا کے بعد اجتہاد کے متقاضی جن نئے مسائل سے امت مسلمہ دوچارہوئی اس میں انجکشن سے روزہ ٹوٹنے نہ ٹوٹنے۔ راکٹ کے ذریعہ چاند پر پہنچ سکنے نہ پہنچ سکنے۔حج فرض کے لیے فوٹو کھنچوانے کا جواز عدم جواز اور لاؤڈاسپیکر کی آواز پر اقتدا کی صحت و عدم صحت کے مسئلے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
اس لیے ہم اس مقالہ میں وقت کی قلت کا لحاظ رکھتے ہوئے بہت ہی اختصار کے ساتھ ترتیب وار انھیں چند مسائل میں حضور مفتی اعظم کی قوت اجتہاد اور فقاہت نفس کاجائزہ لینے اور دوسرے مفتیانِ کرام کے فتاویٰ سے آپ کے فتاویٰ کے تقابل پر اقتصار کریں گے۔
انجکشن سے روزہ ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا مسئلہ جب پہلی بار مفتیان کرام کے سامنے آیاتو بیشتر حضرات متردد رہے ۔کچھ حضرات نے یہ فتویٰ دیا کہ روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا کیوںکہ انجکشن کی سیال دوائیں معدہ میں بھی پہنچتی ہیں اور خارج سے کسی چیز کا معدہ میں پہنچنا مفسد روزہ ہے ۔ اور کچھ حضرات نے یہ فتویٰ صادر فرمایاکہ گوشت میں انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ہاں رگ میں لگوایا جائے تو فاسد ہوجائے گا کیوںکہ دوائیں گوشت سے معدہ میں نہیں پہنچتی ہیں اور رگ سے پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا انجکشن گوشت میں لگوایاجائے خواہ رگ میں کسی بھی صورت میں اس کی دوائیں معدہ تک منفذ کے ذریعہ نہیں پہنچتی ہیں بل کہ مسامات کے ذریعہ پہنچتی ہیں، اس لیے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ جیسے ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے میں اس کی تری مسامات کے ذریعہ بسا اوقات معدہ تک پہنچ جاتی ہے اور روزہ فاسد نہیں ہوتاہے ۔آنکھوں میں دواڈالنے سرمہ لگانے سے اس کا ذائقہ حلق میں محسوس اور رنگت تھوک میں دکھائی دے تو روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ۔
حضور مفتی اعظم نے اس فتویٰ میں جہاں فقہ کے اس ضابطہ کلیہ خارج سے کوئی چیز غیر منفذ کے ذریعہ معدہ تک پہنچے تو روزہ فاسد نہیں ہوتاہے ۔ سے استدلال فرمایاہے۔اورٹھنڈے پانی سے غسل کرنے،آنکھوںمیں دواڈالنے ،سرمہ لگانے جیسے امثال و نظائر سے کام لیا ہے، وہیں اس بات کی طرف بھی واضح اشارہ فرمادیاہے کہ شریعت مطہرہ کاکوئی حکم کسی طبی تحقیق پر مبنی ہو تو اس سے صرف نظر کرکے فتویٰ صادر کردینا غلطی کا باعث بن جاتا ہے ۔فساد روزہ کا حکم دینے والے مفتیان کرام نے اگر یہ تحقیق کرلی ہوتی کہ گوشت یا رگ سے معدہ تک منفذ نہیں ہے تو فتویٰ دینے میں ان سے یہ غلطی نہیںہوتی۔بہرحال اس فتویٰ سے آپ کی مجتہدانہ صلاحیتوں کاکافی سراغ ملتا ہے۔
جب چاندکی دھرتی پر پہلا قدم رکھنے کے لیے روس وامریکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جدوجہد کررہے تھے تو چاند کو خدائی درجہ دینے اوراس کی عبادت و بندگی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بعض مفتیان کرام بھی اسے روس و امریکہ کاجنون اور بکواس کہہ رہے تھے۔ان کا استدلال یہ تھاکہ چاند آسمان کے اندر ہے اور آسمان تک کسی غیر مسلم کا پہنچنا محال شرعی ہے، اس لیے روس یا امریکہ کے چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوجانے کا خیال اسلامی اصول کے خلاف ہے ۔
بیشتر علماے کرام گومگو کی کیفیت سے دوچار خاموش تھے لیکن مفتی اعظم نے فرمایا جب چاند کی طرف نگاہ اٹھائی جاتی ہے تو وہ آسمان کے نیچے دکھائی دیتا ہے ۔صحابی رسول رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کے مطابق بھی سورج، چاند اور ستارے سبھی آسمان میں مسخر ہیں۔جیسا کہ تفسیر مدارک میں{ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَسْبَحُوْنَ} (سورہ انبیا:۳۳)کی تفسیر میں ہے ۔ عن عباس ان المراد بالفلک السماء والجمہور علی ان الفلک موج مکفوف تحت السماء تجری فیہ الشمس والقمروالنجوم (ص ،۷۱۵پارہ ۱۶۔ دارالمعرفہ،بیروت) یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف یہ ہے کہ فلک سے مراد آسمان ہی ہے جب کہ جمہورکے مسلک کے مطابق سورج ،چانداور ستارے سب زمین وآسمان کے درمیان ایک موج مکفوف میں تیررہے ہیں ۔ الغرض مسلک جمہورکی روشنی میں مشاہدہ اور روایات دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ چاند آسمان کے نیچے ہے اور جب آسمان کے نیچے ہے تو چاند پر پہنچنے سے آسمان پر پہنچنا کہاں لازم آتا ہے کہ چاند پر پہنچنا محال شرعی ہوجائے ۔ ہمارے نزدیک انسان کا چاند تک پہنچنا ممکن ہے ۔اور اگرکسی مشینی ذریعہ سے انسان چاند تک پہنچ جائے تو اس سے اسلام کاکوئی اصول مجروح نہیں ہوگا۔
حضور مفتی اعظم کے اس فتویٰ سے جہاں آپ کی مجتہدانہ صلاحیت کانشان ملتا ہے، وہیں تفاسیر پر گہری نظر اور اسلامی اصولوں سے پوری واقفیت کا بھی اندازہ لگتا ہے جو اجتہاد کے لوازم ہیں۔
حضور مفتی اعظم کے اس فتویٰ سے نئے مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں عالم اسلام کے بڑے بڑے مفتیان کرام پر آپ کا علمی تفوق اور قوت اجتہاد میں برتری روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ہندوستانی حکومت نے شروع شروع میں حج کے لیے بھی پاسپورٹ پر فوٹو لازمی قرار دیا تو تمام مفتیان کرام اس خصوص میں فوٹو کھنچوانے کے جواز و عدم جوام سے متعلق شش و پنج میں مبتلا ہوگئے۔بعض حضرات نے جواز کا فتویٰ دیا اورلکھا حج فرض کی ادائیگی ضروری ہے جو فوٹو کھنچوائے بغیر نہیں ہوسکتی اور فوٹو کھنچوانا شرعاً ممنوع و محظور ہے ۔ تو الضرورات تبیح المحظورات کے تحت ناجائزو گناہ نہیں رہنا چاہیے مباح ہوجاناچاہیے ۔ نیز حج فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی میںتاخیر کرنا از روے شرع بلیۃ(آزمائش) ہے اور فوٹو کھنچوانا بھی بلیہ مگر حج کی ادائیگی میں تاخیر کے بلیہ سے فوٹو کھنچوانے کا بلیہ اَہْوَنْ (زیادہ ہلکی) ہے ۔ کیوںکہ حج کی ادائیگی میںتاخیرگناہ و فسق ہے ۔
اس لیے’’ من ابتلی ببلیتین وہما متساویتان یاخذبایتہماشاء وان اختلفتایختاراہونہمالان مباشرۃ الحرام لاتجوزالا للضرورۃ ولاضرورۃ فی حق الزیادۃ‘‘ (الاشباہ والنظائرج۱۔ ص۲۶۱ القاعدۃ الخامسہ:الضرریزال،کراچی)
کے تحت فوٹو کھنچوا کر ادائیگی حج کی اجاز ت ہونی چاہیے ۔ جیسے کسی کاکسی پر کوئی حق ہو اور وہ جھوٹ بولے بغیر حاصل نہ ہوسکتا ہو تو شریعت نے اسے احیائے حق کے لیے جھوٹ بولنے کی رخصت دی ہے۔ باوجودیکہ عام حالات میں جھوٹ بولنا گناہ ہے ۔اسی طرح فوٹو کھنچوانا بھی اگرچہ گناہ ہے مگر چوںکہ حج فرض اس کے بغیر ادا نہیں ہوسکتاہے تو اسقاط فرض کے لیے فوٹو کھنچوانے کی بھی رخصت ہونی چا ہئے ۔ ہاں حج نفل کے لیے فوٹو کھنچوانا جائز نہیںہوگا۔ لیکن حضور مفتی اعظم نے فرمایا : حج کے لیے امن طریق بالا تفاق شرط ہے ۔ایک روایت کے مطابق نفس وجوب کی شرط اور دوسری اصح اور راجح روایات کے مطابق وجوب ادا کی شرط۔رد المحتار میں ہے ۔
’’وقد منا عن اللباب انہ من شروط وجوب الاداء فی شرحہ انہ الا صح ورجحہ فی الفتح و روی عن الامام انہ شرط وجوب‘‘
(ردالمحتارج۔۳ص ۴۶۲،کتاب الحج ، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
اور امن مطلق ہے جو حسی و شرعی دونوںکو شامل ہے تو جس طرح امن حسی نہ ہو یعنی راہ میں لوٹ مار سے جان ضائع ہونے کاظن غالب ہو تو پہلی روایت کے مطابق حج ہی فرض نہیں اور دوسری اصح اور راجح روایت کے مطابق حج فرض ہے مگر ادا کرنا فرض نہیں۔اس میں تاخیرجائزہے ۔اسی طرح امن شرعی نہ ہو یعنی ارتکاب حرمت کرنا پڑے۔جیسے عورت کو شوہر یامحرم کی ہمراہی نصیب نہ ہو یا عورت عدت کی حالت میں ہو توایک روایت کے مطابق حج ہی فرض نہیں اور دوسری اصح اور راجح روایت کے مطابق حج فرض ہے مگر ادا کرنا فرض نہیں۔اس میں تاخیرجائز بل کہ واجب ہے۔فوٹو کھینچوانے میںبھی ارتکابِ حرمت ہے توایسی صورت میں بھی امن شرعی مفقود ہوا۔لہٰذا پہلی روایت کے مطابق سرے سے حج ہی فرض نہیںہوگا اور دوسری اصح اور راجح روایت کے مطابق حج فرض ہوگا مگر ابھی ادا کرنا فرض نہ ہوگا۔اس میں تاخیر جائز بل کہ واجب ہوگی۔ پہلی روایت کے مطابق حج فرض ہی نہیں تو فوٹو کھنچوا کر حرام کامرتکب ہوناغیر فرض کے لیے ہے جس کے معصیت ہونے میں شبہہ نہیں۔ دوسری اصح اور راجح روایت کے مطابق حج اگرچہ فرض ہے مگر ابھی ادا کرنا فرض نہیں۔ تو اب بھی درحقیقت غیر فرض ہی کے لیے فوٹو کھنچوانا ہوگا۔ اس لیے ا س صورت میںبھی گناہ سے مفر نہیں۔
پھریہ مسئلہ اور اس طرح کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ قاعدہ کلیہ بیان فرمایا جب امتثال مامور بہ ارتکاب حرام کو مستلزم ہو تو مامور بہ کو مؤخر کرنا واجب ہو جاتا ہے اور حرام سے پرہیز کرنا لازم رہتا ہے کہ پرہیز ہی راجح ہے ۔ یہاں تک کہ امتثال مامور بہ کے لیے اگر ارتکاب حرام کرے گا تو فاسق ہوجائے گا ۔ اوراس کی تائید میں غنیہ شرح منیہ اور اس کے علاوہ دوسری کئی کتابوں سے یہ نظیر پیش کی موضع ستر میں قدر درہم سے زیادہ نجاست لگی ہو تو اس کادھونا فرض ہے۔اور دوسرے کے سامنے ستر کھولنا حرام ہے ۔اب اگر دوسرے کے سامنے ستر کھولے بغیر دھونے کی کوئی صورت نہ ہوتو ستر کھولنا جائزنہیں۔
غنیہ شرح منیہ(کتاب الطہارت :کیفیۃ الاستنجاء بالماء ) میں ہے :
’’لا یجوز الکشف عند احد اصلاً لانہ حرام یعذر بہ فی غسل طہارۃ النجاسۃ اذا لم یمکنہ ازالتہا من غیر کشف۔ و قال البزازی ومن لم یحدث منہ ترکہ ولو علی شط نہرلان النہی راجح عل الامر حتی یستوعب النہی الا زمان ولم یقتض الامر التکرار۔و قال قاضی خان قالوا من کشف العورۃ للاستنجاء یصیر فاسقا الخ۔‘‘
(ص ۱۶،کتاب الطہارۃ، باب الوضووالغسل ،نول کشور، لکھنو۱۸۷۸ء )
اس مقام تک حضور مفتی اعظم نے اپنے مدعا کو مدلل طورپر ثابت کیا ہے اور ضمناً اس فتویٰ میں پیش کی گئی دلیلوںکے جواب کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے ۔مگر اب اس کے بعد بالقصد اس فتویٰ کی دلیلوں کو رد کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ۔ فرماتے ہیں:
۱۔ ہم ثابت کر آئے ہیں کہ فوٹو کھنچوانے کی شرط پر ایک روایت کے مطابق سرے سے حج ہی فرض نہیںہوگا اور دوسری اصح اور راجح روایت کے مطابق حج اگرچہ فرض ہے مگر ابھی ادا کرنا فرض نہیں۔تو ضرورت ہی متحقق نہیں ہوئی۔ اس لیے الضرورات تبیح المحظورات سے استدلال صحیح نہیں۔
۲۔ جب یہ ثابت ہوچکاکہ ابھی اداکرنا بہرحال فر ض نہیںتو تاخیر میں سرے سے گناہ ہی نہیں اور جب گناہ ہی نہیں تو بلیتین (دونوں آزمائشیں)کا تحقق کہاں ہوا ہے؟ بلیہ تو صرف فوٹو کھنچوانا ہوا۔ اوربالفرض ادائیگی بھی فرض ہو تو بھی تاخیرگناہ کبیرہ نہیں بل کہ اس کے صغیرہ ہونے میں بھی اختلاف ہے ۔
در مختارمیں ہے:
’’ علی الفور فی العام الاول عند الثانی فیفسق وترد شھادتہ بتاخیرہ ای سِنِین لان تاخیرہ صغیرۃ وبارتکابہ مرۃ لا یفسق الا بالاصرار‘‘۔
شامی میں ہے :
’’فیکون التاخیر مکروہاً تحریماً لا حراماً لان الحرمۃ لا تثبت الا بقطعی‘‘۔
(ج۳۔ص ۴۵۴کتاب الحج ، دارالکتب العلمیہ ،بیروت)
اور فوٹو کھنچوانا حرام ہے تو تاخیر ہی اہون بلیتین (دو آزمائشوں میں زیادہ ہلکی)ہوگی نہ کہ فوٹو کھنچوانا۔
۳۔ حق العبد اور حق اللہ دونوںکی روایت متعذر ہونے کی صورت میں حق العبد کی رعایت کو ترجیح حاصل ہے۔لہٰذا جب احیاے حق جھوٹ پر موقوف ہو تو جھوٹ نہ بولنے میں حق العبد فوت ہوگا۔ اور جھوٹ بولنے میں حق اللہ فوت ہوگا اور ایسی کوئی صورت نہیں کہ دونوں حقوق کی رعایت ہوسکے لہٰذا حق العبد کی رعایت کو مقدم رکھ کر جھوٹ بولنے کی رخصت دی جائے گی۔ صورت متنازعہ میں حج نہ کرنے سے حق اللہ فوت ہوگا اور فوٹو کھنچوانے سے بھی حق اللہ فوت ہوگا۔اور حق اللہ میںنہی کی رعایت امر پر ترجیح رکھتی ہے ۔لہٰذایہ قیاس قیاس مع الفارق ہے۔ بل کہ صورت متنازعہ میںجب واجب الادا نہیں تو حج کو مؤخر کرنے سے حق اللہ فوت ہی نہیں ہوگا۔البتہ قریب مرگ اپنی طرف سے حج کے لیے وصیت نہ کرے تو حق اللہ فوت ہوگا۔الخ
فقہی اصول اور ضوا بط کے سلسلہ میں حضور مفتی اعظم کی جلا لت علمی اور مہا رت تا مہ اصحا ب فقہ وافتا پررو شن ہے ، مفتی محمد یا مین صا حب مرادآبا دی لکھتے ہیں :
قول امام ابویوسف پر عمل سے آدمی حنفیت سے خارج ہوجاتا ہے یا نہیں؟ :
ایک اصولی استفتا حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ سے کیا گیاکہ وقائع و حوادث تو بہت ہیں ۔اگر کسی مسئلے میں امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نہ ملے یا اختلافی مسائل میں امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر عمل کرے تو کیا اس کی وجہ سے وہ حنفیت سے خارج ہوجائے گا ؟ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ نے ٹھوس دلیلوں کے ذریعہ بیان فرمایا کہ وہ حنفیت سے خارج نہ ہوگا۔امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کا مقلد رہے گا۔ آپ رقم فرماتے ہیں:
قول امام ابویوسف یا قول امام محمد یا ان کے سوا امام زفر وغیرہ تلامذہ حضور امام الائمہ کاشف الغمہ امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر عمل سے حنفی ، یوسفی یا زفری وغیرہ نہ ہوجائے گاکہ مذہب نہیں مگرامام اعظم کا ان کے اقوال امام اعظم ہی کے اقوال ہیں۔جو جس سے مروی ہوا اس کی طرف منسوب ہوا، جس مسئلہ میں امام کاکوئی قول نہیں ملتا امام ابویوسف مضطرب ہوتے اور حیران رہتے خودان سے یہ منقول ہوا :
ہر وہ امر جس میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی قول مروی نہ ہوا قیامت تک مضطرب ہی رہے گا۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت ہوا کہ وہ بعض مسائل میں مضطر ب وحیران و پریشان ہوتے اور فرمایا کرتے ہر وہ مسئلہ جس میں ہمارے شیخ کا کوئی قول نہیںہمارا اس میں یہی حال ہے ۔ایسی جگہ کبھی یہ امام ابو یوسف یاامام کے اصحاب سے کوئی صاحب جو فرمائیںوہ بھی امام ہی کا ارشادہے کہ یہ جو کچھ فرماتے ہیں آخرانھیں اصول و قواعد سے جن پر امام اعظم کے مذہب کی بناہے۔ یہ حادثہ اگر امام اعظم کے عہد میں حدوث پاتا امام کے حضورپیش ہوتا انھیںاصول سے امام کا بھی ہر ارشاد ہوتا قول دو طرح کا ہوتا ہے۔ صوری و ضروری ، صوری وہ جو مقول منقول ہو، ضروری وہ جس کا قائل نصاً قائل نہیں لیکن ضمناً ضرور قائل ہے ۔ (فتاویٰ مصطفویہ ، ص ۴۷۰)
ایمرجنسی دور میں نسبندی کی حرمت کابے لاگ فتویٰ :
ایمرجنسی دور کے یادگار فتویٰ کو مقررین نے بے تکے انداز میں بیان کرکے اس کی معنوی خوبیوں پرپردے ڈال دیے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حق گوئی و بے باکی کے علاوہ اس فتویٰ کی معنوی حیثیت بہت اہم ہے ۔ قصہ یہ ہے کہ -۷۷،۱۹۷۶ء میں ایمرجنسی نافذ ہوئی اس دور میں حکومت نے نسبندی کا جبری قانون نافذ کیا ۔لوگ سخت اضطراب ، بے چینی، بے یقینی، خوف اور گھٹن محسوس کررہے تھے۔کانگریسی مفتیوں کے فتویٰ جواز کی وجہ سے حکومت نے نسبندی کے عمل میں مزید شدت پیدا کردی تھی۔ایسے حوصلہ شکن ماحول میں ایک درویش صفت مفتی نے بے لاگ فتویٰ دے کر حکم شرعی سے لوگوںکو آگاہ کیا ۔اور بہ چند وجوہ اسے حرام قرار دے کر حکومت کے عزم و استقلال میں زلزلہ پیدا کردیا۔ فتویٰ میں حضور مفتی اعظمنے نسبندی کے حرام ہونے کی جو وجہیں تحریر کی ہیں۔ وہ بہت اہم ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ حضرت علیہ الرحمۃ کی نظر کتنی دقیق تھی۔ آپ نے نس بندی کے حرام ہونے پر جو وجہیں ذکر فرمائی ہیں۔ میںیہاںصرف انھیںپراکتفا کرتاہوں ۔
(۱) نسبندی میں اللہ کی پیداکی ہوئی چیز کو بدلناہے ۔جو قرآن وحدیث کی نص سے ناجائز و حرام ہے ،
(۲) اس میں بے وجہ شرعی ایک نس اور عضوکاٹا جاتا ہے ۔
(۳) نسبندی میں بے ضرورت شرعی دوسرے کے سامنے ستر وہ بھی غلیظ سترکھولا جاتا ہے۔
(۴) ستر و غلیظ سترکو اس میں چھوا جاتاہے ۔
(۵) قاطع توالدہونے کی وجہ سے معنی خصا (خصّی ہونا) میںہے ۔اوریہ نص قرآن و حدیث سے حرام ہے ۔
(۶) کثرت اولادکو مفلسی کا باعث سمجھنا بھی وجہ منع ہے ۔ ( فتاویٰ مصطفویہ ، ص :۵۳۱)
درجہ بالاوجوہ سے نس بندی کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر ہوا ۔وہ بھی ایسے وقت میں جب فتویٰ دینا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔سچ کہا ہے کسی نے ؎
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
حضورمفتی اعظم کی طرف بعض فتاویٰ کا غلط انتساب :
مفتی آل مصطفی صا حب مصبا حی لکھتے ہیں :
کچھ لوگوںنے جوش عقیدت میں بعض بے بنیاد فتوے کا انتساب حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کی طرف کردیا ہے ۔اس سلسلے میں اسٹیج کے مقررین نے زیادہ چرب زبانی دکھائی ہے اوراس پر غور وفکر نہیں کیا ہے کہ منسوب فتوے کی تہہ سے کیسی کیسی بوالعجبیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ ۲۷۔۲۸ تاریخ کو چاند کی رویت کا مسئلہ بھی انھیں منسوب فتاویٰ میں سے ایک ہے ۔ چند سال قبل راقم الحروف نے تذکرہ مشائخ قادریہ کے مصنف اور بعض دیگرعلما کو اس فتویٰ سے متعلق خط تحریرکیا تھاکہ اس فتویٰ کااصل ماخذ کیاہے ؟میرایہ مطالبہ آج بھی باقی ہے۔مجھے کہیں سے کوئی جواب موصول نہیںہوا۔ بہرحال اس تعلق سے خواجہ علم و فن علامہ خواجہ مظفرحسین صاحب مدظلہ العالی اور فقیر راقم الحروف نے بہت تفصیل سے مقالے تحریر کیے ہیں۔ جو ماہنامہ اشرفیہ اور ماہنامہ کنزالایمان میںطبع ہوئے ہیں اور ہیئت و شریعت کی روشنی میںیہ ثابت کیاگیاہے کہ ۲۷۔۲۸ تاریخوں میں چاند اور سورج کے درمیان اتنی دوری نہیںہوتی کہ چاند قابل رویت ہوسکے۔ بلفظ دیگر ان تاریخوں میں چاند کا دیکھنا ناممکن ہے ۔
اسی طرح بعض مقالے میں ایسا فتویٰ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کی طرف صراحۃ منسوب دیکھا گیا جو فتویٰ یعنی فتوے کے الفاظ مفتی اعظم کے نہیں ، بل کہ مفتی افضل حسین علیہ الرحمۃ یا کسی دوسرے عالم و مفتی کے ہیں۔ ہاں مفتی اعظم کی ان فتاویٰ پر تصدیق موجود ہے۔
ظاہر ہے کہ فتویٰ کی تصدیق کامطلب حکم پر مہر تصدیق ثبت کرنا ہے ۔نہ کہ الفاظِ فتویٰ و اسلوبِ فتویٰ کو بعینہ الفاظ و اسلوب ِ مصدق بتانا۔ ہرمفتی کا اپنا اپنا اسلوب بیان ہوتا ہے ۔ حضورمفتی اعظم کااسلوب بیان نرالا تھا، ان کے فتاویٰ میں امام احمد رضا علیہ الرحمۃکے اسلوب نگارش کی بھرپور جھلک موجود ہے ۔ اس لیے ایسے انتساب سے بھی گریز کیا جانا چاہیے ۔
اس بات کا اعتراف ہے کہ زیرنظر عنوان کے لیے جو وقت درکارتھاوہ مجھے مل نہ سکا۔ مصروفیات کی بنیادپراطمینان سے لکھنا نصیب نہ ہوا۔ ورنہ اس بطل جلیل کے افتا میں مہارت کے ایسے مزید شواہد پیش کرتا کہ آنکھیںٹھنڈی ہوجاتیں اورآنے والی نسل کے لیے فن افتا میں مشق و تمرین کے لیے نسخہ کیمیا اثر ثابت ہوتا ۔ پھر بھی جو کچھ نقل کیا گیا ہے، اس سے بہت کچھ اخذکیا جاسکتاہے ۔ مولیٰ تعالیٰ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کے فیضانِ کرم و سحاب فقہ سے ہم پر بھی بارش برسائے ۔ آمین
(جہان مفتی اعظم۵۱۸۔۵۲۰)
علو م ومعا رف :
مفتی شبیر حسن صاحب لکھتے ہیں:
الولد سر لابیہ ۔مفتی اعظم جملہ علوم و فنون میں دسترس و مہارت تامہ و کاملہ رکھتے تھے۔ یہ محض عقیدت ہی نہیں ہے بل کہ حقیقت کا اظہار و بیان ہے ۔فقیر کی نگاہ سے کوئی مستقل کتاب معقولات میں حضرت موصوف کی نہیں گزری لیکن ان کی بعض تصانیف کے مطالعہ سے اذعان و یقین ہوجاتاہے کہ حضرت موصوف گرامی کوعلوم عقلیہ میں دسترس تام و قدرت عام حاصل تھی۔ حضرت کی تصانیف منیفہ وقعات السنان، ادخال السنان، الموت الاحمر وغیرہ کے مطالعہ سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت علوم عقلیہ کے امام اور ان کے ماہر کامل تھے۔ایسے ایسے ایرادات اور ایسی گرفتیں فرمائی ہیںکہ تھانوی صاحب کو بے زبان کردیا ہے ۔ان پر اوران کے حواریوںپر ایسا جمود و تعطل طاری ہوا کہ آج تک لاجواب رہے اورانشاء ا للہ تعالیٰ تاقیامت لاجواب رہیںگے ۔ ارباب تحقیق مذکورہ کتب کا مطالعہ کریں تو میرے بیان کی تصدیق ضرور کریں گے ۔الموت الاحمر حضرت موصوف گرامی کی کتاب مستطاب کفر لزومی و التزامی کے بیان میں ہے۔ اور کفر لزومی و التزامی و کفر فقہی و کلامی میں فرق و تفاوت ہے ۔ صاحب تقویۃ الایمان کے کفریات سب کفر لزومی و فقہی ہیںاور صاحب براہین قاطعہ و صاحب تحذیرالناس و صاحب حفظ الایمان وغیرہ کے کفریات التزامی و کلامی ہیں۔اورلزومی و فقہی پر حضرات فقہاے کرام تکفیر کرتے ہیں اور حضرات متکلمین عظام تکفیرنہیں کرتے اور امام احمد رضا قدس سرہ نے صاحب تقویۃ الایمان کے کفریات بوجوہ کثیرہ ثابت کرنے کے بعد بھی تکفیر قطعی نہیں فرمائی ہے اور فقہاکے نزدیک کافر بتایا ہے ا ورصاحب براہین قاطعہ و تحذیر الناس وغیرہما کی تکفیر قطعی فرمائی ہے ۔
اور امام احمد رضاقدس سرہ نے کتاب لاجواب و مستطاب المعتمد المستند شریف میں ارشاد فرمایا کہ نبوت کامحض امکان ذاتی ماننے پر کافر نہ کہیںگے۔ ہاں خاتم النبیین دو ہونا محال بالذات ہے یعنی جس کے سبب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل محال بالذات ہے ۔اس پر اغیارکو شبہ و اعتراض تھا کہ اس مسئلہ پر دیوبندیوں کی کیوںتکفیر کی گئی ؟ انھیں دو مسئلوں سے متعلق شیخ الاسلام والمسلین سیدنا مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان نے ۱۳۳۷ھ میں الموت الاحمر تصنیف فرمائی جس کاپوراتاریخی نام الموت الاحمر علی کل انحس اکفر ہے اورتاریخی لقب ہشتاد بیدوبند بر مکاری دیوبند ہے اسی کتاب مستطاب میںعلوم عقلیہ میں جولانیت دکھاتے ہوئے اغیارکے شکوک و شبہات واہیہ کاازہاق و ابطال فرمایاہے ۔اورایسا دقیق کلام فرمایاہے کہ علوم عقلیہ میں بڑے بڑے شغل و اشغال رکھنے والے ماہرین دنگ رہ جاتے ہیں۔ صاحب تحذیر و تھانوی معنوی کار د کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ تو بدیہی ہے کہ اس تقدیرپر کہ بعد زمانہ نبوی علی صاحبہ الصلاۃ والسلام بھی کوئی نبی پیدا ہو، ختم زمانی باطل ہوجائے گا ۔ کہ وہ تو یہی تھاکہ آپ سب میں آخری نبی ہیں ( تحذیرالناس صفحہ :۲) اورجب حضور کے بعد اور نبی پیدا ہو تو سب میں آخری نبی کب رہیں گے۔کہ ان سے آخر اور ہوا ۔ غرض اس سے ختم زمانی کا انتفا بدیہی اور اس کے انتفا سے نانوتوی صاحب کاساختہ ختم ذاتی بھی ختم کہ اسے ختم زمانی لازم تھا۔ تحذیرالناس صفحہ ۹؍ ختم نبوت بمعنی معرو ض کو تاخرزمانی لازم ہے اورلازم کے انتفا سے ملزوم کا انتفا لازم تو نہ ختم زمانی رہا نہ ذاتی بچا۔ سب فنا اور خاتمیت بجا اس میںکچھ خلل نہ آیایہ کیسا شدید کفر ہے اور کتنی ڈھٹائی کے ساتھ دیوبندی تعصب و عناد کے مارے ہوئے ہیں؟
تھانوی صاحب آپ تو اب طالب تحقیق ہیں۔ ضروراس پر غور کریںگے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل ان کے بدگویوں کی حمایت نہ لیں گے ۔سادساً یہاںآپ اپنی سمجھ قاصر رہنے پر اللہ کو گواہ کررہے ہیں ۔اس شدید قسم کی حاجت نہ تھی۔ اکابر دیوبند تو اسے سمجھے نہیں۔ آپ کیاسمجھتے؟ ا ب سمجھیے اوربہ لباس باطن نہ سمجھ سکیں تو تھانوی صاحب ظاہری بن کر سمجھیے ۔ تعددامکان،امکان تعدد نہیں۔ جیسے اجتماع امکانات،امکان اجتماع نہیں ۔ حصول فردیت ہر تشخص سے ممکن اور تعدد محال بالذات ممکن کے وجود و عدم دونوںہر وقت ممکن اور اجتماع محال بالذات ہر تضاد میں دونوں ضدیںہمیشہ ممکن کہ ممکن کبھی محال نہیں ہوسکتا ورنہ انقلاب موادلازم آئے گا اور اجتماع محال، جو وقت لیجیے اس میں رات و دن دونوںممکن اور دونوں ہوں یہ محال ہے ۔اس کی نظیر شرعیات میںحل للازواج ہے ۔ عورت ہر نامحرم کے لیے حلال اوراجتماع شرعاً محال تواس امکان ذاتی سے امکان تعددخاتم سمجھنا کیسا باطل خیال۔اتنی نافہمی کے بعداس کی کیا شکایت کہ سب اس عالم سے ایک ہی وقت میںتشریف لے جائیں تو سب خاتم ہوںگے — ایک بھی نہ ہوگاکہ خاتم کامعنی باقرار تحذیرالناس صفحہ ۲؍ یہ ہے کہ سب میں آخری نبی، جب دس بیس ایک ساتھ ہوئے تو سب میں آخر ایک بھی نہ ہوا۔اور حضرت موصوف گرامی علیہ الرحمۃ والرضوان تعددِ امکان، امکانِ تعدد پرتحشیہ فرماتے ہوئے رقم طراز ہیں جس چیزمیں تعدد محال ہے اور علی سبیل البدلیت دویا سو کا احتمال ہے وہاں تعددِ امکان ہوا یعنی متعدد احتمالات ممکن ہیں مگر امکانِ تعدد ناممکن، کہ مفروض یہ ہے کہ اس شی میں تعددمحال ہے ۔
یہ ہیں چند سطور جو کتاب مستطاب الموت الاحمر سے ہدیہ ناظرین کردی گئی ہیںاور اسی قسم کے مباحث جلیلہ پر پوری کتاب مشتمل ہے ۔اس عبارت رشیقہ بدیعہ کے دیکھنے کے بعد ہر ذی علم پر روز روشن کی طرح عیاںہوجائے گا کہ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کو کس قدر علوم عقلیہ میںدسترس و قدرت حاصل تھی۔ (جہان مفتی اعظم۳۴۰۔۳۴۱)
حضور مفتی اعظم ’’الولد سر لا بیہ ‘‘ کی سچی تصویر تھے ، سید نا اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا نے جن علو م ومعا رف کے در یا بہا ئے آپ ان کے شنا ور تھے ، فا رغ التحصیل ہو نے کے بعد با رہ سال مسلسل اما م احمد رضا کی خدمت میں رہے جس کی بدو لت آپ کو ہر فن میں تبحر حا صل تھا ۔
مفتی محمد اعظم صاحب لکھتے ہیں:
مفتی محمداعظم صاحب ٹانڈوی شیخ الحدیث دارالعلوم مظہر اسلام ، بریلی شریف و مفتی رضوی دارالافتا فرماتے ہیں:
ایک بار جب کہ میں رضوی دارالافتا میں بیٹھا مشکوٰۃ شریف کا مطالعہ کررہا تھا کیوںکہ مجھے یہ کتاب پڑھانے کے لیے دی گئی تھی، حدیث جبریل میں جہاں قیامت کے علم کو پانچ ان علوم میں سے بتایاگیا ہے جنھیں بے بتائے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، میں اس حدیث کو کئی بار پڑھا چکاتھا اورطلبہ کو سمجھا چکا تھالیکن مجھے خود سمجھانے کے باوجود حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمۃ سے اس حدیث کو سمجھنے کا شوق ہوا۔ میں نے حضرت مفتی اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے دریافت کیا کہ حضوراس حدیث میں مخلوق کے لیے پانچ علوم کے ذاتی نہ ہونے کی تخصیص ہے تو پانچ ہی کی تخصیص کیوںکی گئی ہے حالاںکہ مخلوق کو کسی چیز کاعلم ذاتی نہیں ؟
حضرت مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا آپ نے کہا ہے کہ علوم خمسہ کی تخصیص کی گئی ، یہاں تخصیص کہاں ہے؟ میں متنبہ ہوا اور سمجھ گیاکہ حضرت نے مجھے اس بات پر تنبیہ کی کہ آپ کو تخصیص نہیں کہنا چاہیے تھاکہ تخصیص علم معانی و بیان میں خاص صورت میں ہوتی ہے، خاص کلمات کے ذریعہ مثلاً نفی اور استثنا کے ذریعہ، کلمہ انما کے ذریعہ اور تقدیم وغیرہ کے ذریعہ ۔ اوریہاں ایسی کوئی صورت نہیں۔ مجھے یہاں تخصیص نہیں بولنا چاہیے تھا، اس کے بعد فوراً حضرت مفتی اعظم نے فرمایا یہ کہیے علوم خمسہ کی تخصیص بالذکر کی گئی۔ اس تنبیہ سے میںنے حضرت مفتی اعظم کے مبلغ علم کی بلندی اور تعمق نظر و فکر کو خوب سمجھ لیا اور میںنے انداز لگالیاکہ حضور مفتی اعظم کا درس نظامی پر گہرا مطالعہ ہے اگرچہ مفتی اعظم کہلاتے ہیں مگر مدرس اعظم بھی ہیں۔ پھر حضرت نے وہ بتایا جو میں جاننا چاہتا تھا حضرت مفتی اعظم نے فرمایا ۔
بے شک عالم کے کسی ذرے کا بھی علم مخلوق کو بے عطاے الٰہی حاصل نہیں کہ علم ذاتی خاص ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ، حدیث شریف کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ پانچ چیزوںکاعلم ذاتی مخلوق کو نہیں اوران پانچ کے سوا معاذ اللہ علم ذاتی مخلوق کو ہے ،اصل میں پانچ کی تحصیص ذکر کے ساتھ اس لیے کی گئی کہ اس زمانے میں کاہن، قائف ( قیافہ شناس )اور ساحر وغیرہ ان پانچ چیزوں کے علم کا دعویٰ کیا کرتے تھے اور وہ گمراہ تھے۔ اس قابل نہیں تھے کہ اللہ عزوجل انھیں ان چیزوں کا علم عطا فرمائے ،جب انھیں اللہ تعالیٰ نے بتایاہی نہیں اور وہ ان علوم کے جاننے کے مدعی تھے توان کے دعوے سے نکلتا تھاکہ انھیں ان چیزں کاعلم ذاتی ہے تو قرآن و حدیث میں ان کا رد کیاگیا کہ اللہ تعالیٰ کے بے بتائے جو یہ دعویٰ کررہے ہیں وہ غلط اور باطل ہے ان علوم کو بھی وہی جانتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ بتائے اور یہ کاہن وغیرہ نہیں جانتے ۔یہ ہے وجہ تخصیص بالذکر کی ۔ (جہان مفتی اعظم۳۶۵)
شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی ، مفتی اعظم کی ایک علمی مجلس کا حال یوں بیان فرماتے ہیں :
شرح ماۃ عامل عبدالرسول کے حاشیے میںعربی کا ایک مقولہ ہے : ’’اَلنَّارُ فِی الشِّتَائِ خَیْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ‘‘ جس کا ظاہری ترجمہ یہ ہے کہ جاڑے میں آگ اللہ اور رسول سے بہتر ہے۔اور ظاہر ہے یہ معنیٰ کفری ہے۔
حاشیہ شرح ماۃ عامل کے مطابق مِنْ یہاںپر قسمیہ ہے ۔تو اب معنیٰ یہ ہوں گے کہ اللہ و سول کی قسم آگ جاڑے میں بہتر ہے۔مگراس توجیہ پر بھی یہ اشکال ہے کہ اللہ کی قسم کھاناتو جائزہے۔مگر رسول کی قسم کھانا جائزنہیں۔ علما کے درمیان اس مسئلہ میںمذاکرہ ہوا۔سب نے اپنے اپنے طر پر جوابات دیئے ۔پھر آخرمیں حضرت مفتی اعظم رضی اللہ عنہ سے استفسار کیاگیا۔حضرت نے ایسا جواب دیاجس سے اس جملہ کی صحیح توجیہ بھی ہوگئی اور اشکال بھی اٹھ گیا۔ حضرت نے فرمایاکہ اس میں تعجب کی کیابات ہے ۔آپ لوگ روزمرہ کے محاورے میں بولتے ہیں۔یہ بات منجانب اللہ ہے۔ اسی طورپر اس جملہ کو سمجھیے۔
حضرت کے ارشاد سے صاف ہوگیاکہ ’’ مِنْ‘‘ یہاں قسمیہ نہیںہے کہ وہ اشکال ہو۔ جو گزرا۔نہ تفضیل کے لیے جیساکہ اس جملے سے ذہن کو دھوکا ہوتاہے ۔بل کہ من یہاں ابتداے غایت کے لیے ہے اورمطلب یہ ہے :اللہ ورسول کی جانب سے آگ جاڑے میں بہتر ہے۔
(جہان مفتی اعظم۳۶۶)
مفتی مجیب اشرف صا حب تحریر فر ما تے ہیں :
ایک روز ایک صاحب حضور سرکارمفتی اعظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضرہوئے،جو دیکھنے میں بظاہر مولوی لگتے تھے، اورا ن کی بات چیت سے ایسا محسوس ہوا کہ متصلب سنّی نہیں ہیں، عقیدے کے اعتبار سے مذبذب ہیں، حضرت والا سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمۃ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد باہر کی بیٹھک میں تشریف فرما تھے، آنے والے صاحب ایک طرف کرسی پر خاموش بیٹھے تھے، کچھ دیر کے بعد حضرت قبلہ نے حسب عادت دریافت فرمایا آپ نے کیسے تکلیف کی؟ انھوں نے عرض کی ایک بات پوچھنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں، اگر آپ اجازت دیں تو عرض کروں۔ حضرت والا نے فرمایا :کیا پوچھنا ہے ؟پوچھیے، اجازت پاکر ان صاحب نے اپناسوال پیش کیا ۔
سوال :رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اہل قبلہ کی تکفیر سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے اورہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کرتے۔اگریہ صحیح ہے تو علما اہل سنت مولانااشرف علی صاحب اور مولانا قاسم صاحب نانوتوی وغیرہ علما دیوبند کی تکفیرکیوں کرتے ہیں، یہ لوگ بھی تو اہل قبلہ ہیں؟
جواب :سوال سن کر حضرت والا کی ایمانی غیرت کو جوش آگیا ، آپ نے پرجلال انداز میں ارشاد فرمایا، جو شخص مطلقاً یہ کہتا ہے کہ اہل قبلہ کی تکفیر خواہ کیسا ہی کفر صریح و قبیح بک جائے جائز نہیں، وہ جھوٹا،جاہل، بے باک اور شریعت پر افترا کرنے و الا ہے ۔ شامی جلد چہارم کا صفحہ دو سو ستہتر (۲۷۳) کھول کر دیکھ لو صاف صاف یہ لکھا ہوا ہے لا خلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان اہل القبلۃ المواظب طول العمر علی الطاعات ،کچھ سمجھے علامہ شامی علیہ الرحمۃ کیا فرما رہے ہیں؟سنو!وہ یہ فرما رہے ہیں کہ ضروریات اسلام کے منکر کے کفر میںعلما ے اسلام میں سے کسی عالم کا احتلاف نہیں ہے اگرچہ منکر اہل قبلہ ہو، جس کی پوری زندگی شریعت کی پابندی کرتے گزری ہو۔
اسی میں ہے:
’’ لاخلاف فیہ کفر المخالف فی ضرویات الاسلام من حدوث العالم وحشر الاجساد و نفی العلم بالجزئیات وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح العزیز‘‘۔
(ج۱۔ص ۳۰۰ باب الامامۃ دارالکتب العلمیہ ،بیروت)
کیا علامہ شامی علیہ الرحمۃ اور دنیا کے تمام علماے اسلام کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک اور سیدنا امام اعظم علیہ الرحمۃ کا قول مقبول معلوم نہیںتھا؟ کہ ان حضرات نے بے سوچے سمجھے اہل قبلہ منکر ضروریات دین کی تکفیر کردینے کو صرف جائز ہی نہیں بل کہ واجب قرار دیا اور فرما گئے ۔’’من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر‘‘ ( منکر ضروریات دین کے کفر اور اس کے عذاب میں جو شک کرے وہ بھی کافر ہے۔(خواہ اہل قبلہ سے ہو یا غیر سے)
کیا مدینہ منورہ کے رہنے والے منافقین جنھو ںنے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دست پاک پر اپنا ہاتھ رکھ کر توحید ورسالت کا اقرار کیا تھا، اور ببانگ دہل کہتے پھرتے تھے کہ ہم مسلمان ہیں وہ اہل قبلہ میں سے نہیںتھے، کلمہ،نماز اور روزے وغیرہ جملہ اسلامی کام کرتے تھے، باجوود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان پر حکم کفر لگایا۔
قرآن ارشاد فرماتا ہے :
{قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ} [سورہ توبہ :۶۶]
ترجمہ:اے منافقو ! بلاشبہہ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے۔اور خود حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان پر کفر کاحکم عائد فرمایا،ان کو مسجد نبوی شریف سے جمعہ کے دن مسجد سے نکال باہر کیا ۔ حضور نے کیا مسلمانوں کو مسجد سے نکالا؟ ہرگز نہیں، بتاؤ! کیا اللہ و رسول جل مجدہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کا اہل قبلہ ہونا معلوم نہ تھا، معاذ اللہ ، معاذ اللہ، استغفر اللہ ، یاد رکھو جو کفر بکے گا اس پر کفر سوا رہوجائے گا، اہل قبلہ ہونا اس کو کفر کی بلا سے ہرگز نہ بچا سکے گا ۔ اگر ایسا نہ ہو تو شریعت سے امان اٹھ جائے ، قبیح سے قبیح کفر بکتاجائے اور سچا پکا مسلمان بن کر گھومتار ہے ، کیا اسی کا نام اسلام ہے ؟انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
اللہ ورسول نے کفر واسلام کو خوب سے خوب تر واضح فرمادیا ہے ،تاکہ تلبیس ابلیس کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ اسی لیے فرمادیا ہے قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ (سورہ بقرہ،۲/۲۵۶) ترجمہ: خوب اچھی طرح جدا ہوچکی ہے ہدایت کی راہ گمراہی سے ۔ارشاد ربانی نے واضح کردیا کہ اسلام و کفر دونوں شخص واحد میں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتے، اسلام آئے گاتو کفر رفو چکر ہوجائے گا اورکفر گھسے گا تو اسلام رخصت ہوجائے گا، دونوںمیں تباین کی نسبت ہے ۔ ( یعنی دونوں بیک وقت ایک محل میں جمع نہیںہوسکتے۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں جیسے دن اور رات دونوں ایک ساتھ نہیں پائے جاسکتے ، جہاں دن ہے وہاں رات نہیں، جہاں رات ہے وہاں دن نہیں) اور علما ے ربانیین کو ان میں فرق و امتیاز کی پوری پوری صلاحیت عطا فرمائی گئی ہے ۔ وہ ہرگز کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر نہیں کہہ سکتے۔
علماے کرام کی کتابیں اٹھا کردیکھو معلوم ہوجائے گاکہ ضروریات دین کے منکر کی تکفیر بھی ضروریات دین سے ہے اور اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے ، کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے ،علما کی تصریحات اور ان کے واضح ارشادات سنو!کہیں ارشاد ہوا اجماع الامۃ علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورۃ یعنی جس بات کاضروریات دین سے ہونا معلوم ہے، اس کے منکر کی تکفیر پر پوری امت کا اجماع اور اتفاق ہے)کہیں فرمایا:’’لا نزاع فی اکفار منکر شئی من ضروریات الدین،و ان کان من اہل القبلۃ‘‘ ( یعنی جس بات کا ماننا ضروریات دین سے ہے ، اس کے منکر کے کافرکہنے میں کسی کا اختلاف نہیں وہ منکر اگرچہ اہل قبلہ سے ہو)کہیںعلما نے یوں تصریح فرمائی،’’ خرق الاجماع القطعی الذی صار من الضروریات کفر‘‘ (ایسا قطعی اجماع جو ضروریات دین سے ہے اس کا نہ ماننا کفر ہے )
شامی میں ہے:
وقد شرح فی التحریر فی باب الاجماع بان منکرحکم الاجماع القطعی یکفر عند الحنفیۃ وطائفۃ ۔ (ج۲۔ص ۴۴۰ باب الوتر والنوافل دارالکتب العلمیہ،بیروت )
کیا قرآن و حدیث اورعلما اسلام کی ظاہر و باہر تصریحات سے اندھے ہوکر سب سے الگ اپنی ڈفلی بجا بجا کر اپناراگ الگ الاپوگے؟ استغفر اللہ
میں نے جوکچھ کہا ہے اس سے ظاہر ہوگیاکہ ضروریات دین کے منکر کی تکفیر کرنی اطلاع شرعی یقینی کے بعد واجب ہے ،اگر نہ کرے گا خود کافر ہوجائے گا، اسی لیے تو فرمایا گیا ہے : ’’من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفر‘‘(ج۔۶ص۳۷۰ ردالمحتارباب المرتد،دارالکتب العلمیہ،بیروت)
یعنی ضروریات دین کے منکر کی تکفیر اوراس کے عذاب میں شک کرنے والا بھی کافر ہے ۔ مولوی قاسم اور مولوی اشرف علی وغیرہما کی تکفیر ضروریات دین کے انکار کی وجہ سے کی گئی ہے ۔
مولوی قاسم نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں حضور خاتم الانبیاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا انکار کیا ہے،بل کہ اس عقیدے کو محض عوام کاخیال بتایا ہے ، جب کہ حضور خاتم النبیین کا آخری نبی ہونا ایسا عقیدہ ہے جو بالاتفاق ضروریات دین سے ہے ، چنان چہ فتاویٰ یتیمۃ الدہر،فتاویٰ عالم گیری اور الاشباہ والنظائر میں ہے اذا لم یعرف ان محمدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخر الانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات۔ (الاشباہ والنظائرج۲۔ ص۹۱ کتاب السیر ،باب الردۃ، کراچی)
یعنی جب کوئی شخص حضرت اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو آخری نبی نہ جانے وہ مسلمان ہی نہیں ہے ،کیوںکہ آپ کو آخری نبی ماننا ضروریات ِدین سے ہے ۔ اسی طرح مولوی اشرف علی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں اورمولوی خلیل احمد و مولوی رشید احمد وغیرہم نے براہین قاطعہ میں ایسی ایسی باتیںلکھی ہیں جوضروریات دین کے صریحاً خلاف ہیں۔ اس لیے ان پرحکم کفر قطعی اورجزمی ہے ۔ اہل قبلہ ہونا اور پوری زندگی عبادت و ریاضت میں گزار دینا ان کو حکم کفر سے نہیں بچا سکے گا۔ عزازیل (شیطان ) وہ بیت المعمور(فرشتوںکے قبلہ)کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا تھا وہ بھی اہلِ قبلہ میں سے تھا۔عالم و فاضل، عابد و زاہد تھا جب ضروریات دین کے انکار کرنے کی وجہ سے کفر سے نہ بچ سکا تو ایرے غیر ے کی کیا حقیقت ہے؟مزید تحقیق اور تسلی کے لیے میری کتاب الموت الاحمر کا مطالعہ نافع ہوگا، اور انشاء اللہ تبارک وتعالیٰ سارے شکوک و شبہات دور ہوجائیں گے ۔
سبحان اللہ ، ماشاء اللہ ، حضرت کاکیا علمی استحضار تھا، جواب اتنا مدلل دیا کہ سائل بالکل مطمئن ہوگیا ، مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہی۔ حضرت والا جب وہابیہ کی تکفیر کے مسئلہ پر گفتگو فرما رہے تھے، اس وقت روانی گفتار کے ساتھ چہرہ انور پر علمی جلالت کے آثار، گستاخانِ رسول سے نفرت کا اظہار اور آپ کا پورا وجود محبت رسول سے سرشار نظر آرہا تھا۔
اس وقت حضرت والا جب کتابوں کے حوالے مع اصل عبارت ارشاد فرمارہے تھے تو ایسا محسوس ہورہا تھاکہ کتاب سامنے ہے اور دیکھ کر پڑھتے جارہے ہیں، آج کی گفتگو میں بڑی شگفتگی اور روانی تھی، کہیں رکاوٹ اور تکلف کا احساس نہیں ہوتا تھا، جب کہ آپ گفتگو رک رک کر فرمانے کے عادی تھے، اس کو کرامت سے تعبیر کیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔
جب یہ گفتگو ہورہی تھی تو وہاں چند حضرات اور بھی موجود تھے، حضرت والا کی گفتگو سن کر سبھی لوگ محظوظ ہوئے ۔ دورانِ گفتگو مذکورہ حوالوںکے علاوہ حضرت والا نے اورکئی کتابوںکے نام لیے اوران کتابوں کی طویل عبارتیں بھی پڑھیں، مگر مجھے یاد نہ رہ سکیں، کاش کہ وہ تمام گفتگو ضبطِ تحریر میں آجاتی تو ایک قیمتی علمی سرمایہ ہوتا، اپنی کوتاہی کا مجھے افسوس ہے ۔ (جہان مفتی اعظم۴۷۶۔۴۷۸)
ملی اور قومی کارنامے:
آپ نے ملک وملت کی حفاظت کے لیے اپنی اسلامی سیاسی بصیرت اور قوم مسلم کے عروج و ارتقا کے لیے حسن تدبیر کو بروئے کار لاکر بر وقت رہنمائی فرمائی اور میدان عمل میں تشریف لاکر اپنی رہبری و پیشوائی کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
آپ کا دور نہایت پر آشوب تھا، ایک فتنے کے بعد دوسرے کا ظہور،پیہم غیر شرعی تحریکات اور ملک میں قابض حکمرانوں کا جبر واستبداد۔ ان سب مشکلات سے امت مسلمہ دوچار تھی۔مزید اس پر یہ ہوا کہ مسلمانوں کو ان کے دین اسلام ہی سے برگشتہ کرنے اور اہل اسلام کی تعداد گھٹانے کے لیے مشرکین نے شدھی تحریک شروع کردی جس کے سیلاب میں لاکھوں مسلمان بہہ گئے اور مرتد ہوگئے ۔ ادھر آزادی وطن کی تحریک نے اسلامی امور میں مداخلت شروع کردی ، کبھی تحریک خلافت اور کبھی تحریک ہجرت کا شوشہ چھوڑا گیا جس نے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو بے وطن ، مفلس اور کوڑی کوڑی کا محتاج بنادیا۔ غرض کہ فتنے بے شمار اور قائد و رہبر اقل قلیل۔
ان تما م فتنوں کاڈٹ کر مقابلہ کرنا اور بر وقت رہبری و پیشوائی کرنا، پھر شرعی امور سے آگاہ کرنا۔ یہ وہ تمام خدمات تھیں جن کے لیے آپ نے جماعت رضائے مصطفی کو پلیٹ فارم بنایا اور ہر موقع و مقام پر پہنچ کر مسلمانوں کی دستگیری فرمائی۔ صرف شدھی تحریک کے انسداد کو لے لیجئے جس میں آپ اور آپ کے رفقا نے شہر شہر بستی بستی ، اور قریہ قریہ پیدل سفر کرکے پانچ لاکھ سے زیادہ مرتدین کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔
اس تحریک کے انسداد میں حضور مفتی اعظم کی جہد مسلسل اور جانفشانی کاایک گوشہ شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی کی زبانی ملاحظہ کیجیے:
اس وقت کی مسلمانوں کی ساری تنظیمیں خاموش تھیں ۔ تمام خانقاہوں پر جمود طاری تھا۔ سارے مسلمانوں کے مقتدا بننے والے چپ سادھے تھے ۔ مگر مجدد اعظم کے وارث علم وفضل حضرت مفتی اعظم سے رہانہ گیا ۔ تن بہ تقدیر یکا و تنہا چند اپنے رفقا کو لے کر اس طوفان کا مقابلہ کرنے کے لیے نکل پڑے ۔ چوں کہ اس فتنے کا زور نواح آگرہ میں بہت تھا اس لیے آگرہ کو مرکز بنا کر دیہاتوں کا پیادہ دورہ شروع کردیا۔ جب اطلاع ملتی کہ وہ لیڈر فلاں جگہ گیا ہے ، وہیں پہنچ جاتے ۔ جگہ جگہ اس کا پیچھاکرتے اور ساتھ ہی ساتھ بطور حفظ ما تقدم ان دیہاتوں میں بھی تشریف لے جاتے جہاں ابھی اس کا گزر نہیں ہوا تھا۔ ایک دو دن نہیں برسہا برس اس میں مصروف رہے ۔ گرمی ہو یاجاڑا ہو یابرسات ہو کسی کی پرواہ نہیں کی ۔ نازو نعمت میں پلا ہوا ایک رئیس شہزادہ جو کبھی چند قدم پیدل نہ چلا ہو ، میلوں پیدل چل رہاہے ۔ جاڑوں کی برفیلی ہوائیں، گرمیوں کے لوکے جھکڑ سب کچھ سہتا ہے ۔ بے پڑھے لکھے سیدھے سادے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے جہد مسلسل میں مصروف ہے ۔ پھولوں کی سیج پر سونے والا شہزادہ زمین کے فرش پر سو رہا ہے ۔ نہ کھانے کی پراوہ ، نہ آرام کا خیال ، دھن ہے تو یہ ہے کہ جس طرح ہو مسلمانوں کو بچایا جائے۔ کیا راہ خدا میں اس قسم کے جہاد مسلسل کی اس دور میں اور کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ حضرت مفتی اعظم کا اس ہولناک فتنہ ارتداد کے مقابلے کا کارنامہ تاریخ اسلام کا وہ زریں باب ہے جو ہمیشہ درخشاں رہے گا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس کی تفاصیل آج مل نہیں سکتیں ورنہ دنیا انگشت بدنداں رہ جاتی۔ [جہان مفتی اعظم ص ۳۳۷]
اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے ایک ایسا موقع بھی آیا کہ آپ ۱۱؍مہینے تک اپنے وطن بریلی شریف تشریف نہیںلائے۔
شا رح بخا ری نے اس سلسلہ میں تفصیل سے لکھا ہے ، فر ما تے ہیں :
۱۹۲۰ء بل کہ ایک دو سال پہلے سے ہندوستان سخت سیاسی کشمکش میں مبتلاتھا۔کانگریس ہند واور مسلمانوںکی متحدہ قوت سے انگریزوں پر ضربیں لگا رہی تھی۔خلافت کمیٹی کے کانگریس میں انضمام کے بعد کانگریس ناقابل تسخیر قوت بن چکی تھی ۔ مسلمان اپنے انجام سے بے خبر کانگریس کے دیوانہ وار شریک تھے اور مسلم لیڈران تولیڈران علما نے آنکھ بند کرکے کانگریسی رہنماوں کی تقلید جامدکرلی تھی حتیٰ کہ ایک عالم نے کانگریسی رہنما کے بارے میںیہ تک فرمادیا :
عمرے کہ بآیات واحادیث گذشت
رفتی و نثار بت پرستی کردی
کسی مسلمان کو اپنے انجام کی خبرنہ تھی۔کسی نے یہ سوچنے سمجھنے کی زحمت تک نہ کی کہ کانگریس کامقصد کیا ہے؟ حتی کہ دیوبند کے صدر مدرس مولوی محمود حسن نے بھی کانگریس کے استھان پر اپنے تقدس کی بھینٹ چڑھا دی۔
مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ سے رہا نہ گیا اور سچے نائب رسول اور وقت کے مجدد ہونے کی حیثیت سے مسلمانو ںکو کانگریس سے بچانے کی انتھک کوششیںکیں جن کی دلیل اس وقت کے رسائل اور اشتہارات اور اجلاس شاہد ہیں۔واشگاف الفاظ میں مسلمانو ںکو بتایا کہ کانگریس کامقصد تمھیں ہندوؤں کا غلام بنانا ہے ۔اس وقت کے رسائل اور اشتہارات پڑھیے،آپ کو واضح غیرمبہم الفاظ میں ان سب خطروںکی نشاندہی ملے گی جو آج مسلمانوں کے مقدر بن چکے ہیں،جو مسلسل چالیس سال سے پولس ایکشن کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام ، اموال کی لوٹ کھسوٹ اور شہری حقوق سے مسلسل محرومی کی شکل میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
میرٹھ،ملیانہ، بھاگل پور، کرنیل گنج،نجیب آباد، بنارس وغیرہ میں جو پولس ایکشن ہوا ان سب کی آگاہی پہلے ہی دے چکے تھے۔مسلم لیگ نے تو مطالبہ پاکستان بہت بعد میں کیا ۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے برسوں پہلے اس کااشارہ کردیا اور اس کے مضر اثرات بیان فرمادیے، اس سلسلے میں حضرت مفتی اعظم والد ماجد کے دوش بدوش رہے ۔اس سلسلے کی مفتی اعظم کی تصنیفات طرق الہدیٰ والارشاد وغیرہ کا مطالعہ کریں توآپ لوگوں کو سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔
نام نہاد مسلمان اتنے اندھے بہرے ہوچکے تھے کہ ایک انتہائی بدباطن کانگریسی لیڈر کو جامع مسجد کے منبر پر بٹھایا اور اس سے بھاشن دلوایا ۔انگریز کانگریس کے اس زور و شور سے گھبرا اٹھاتھا۔ ایک بہانے سے اسی لیڈر کو گرفتارکیااور جیل میںلے جاکر شیشے میں اتارااور پھر رہا کردیا۔اس نے جیل سے نکل کر مسلمانو ںکو ہندو بنانے کی تحریک شدھی سنگھٹن کی تحریک چلائی۔ہندو پونجی پتیوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے ۔ وہ بڑے سازوسامان کے ساتھ مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لیے نکلا۔عمدہ سے عمدہ باجے، اچھے سے اچھے گانے والی خوبصورت پری پیکر لڑکیوںکے جھنڈ کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔
تفصیل میں نہ جا کر صرف ایک واقعہ سن لیں،اطلاع ملی کہ آگرہ سے بیس میل کے فاصلہ پر فلاں گاؤں میں اس فتنہ پرور کا پاؤں جم گیا ہے اور وہاں کے مسلمان کچھ لالچ اور کچھ خوف کی وجہ سے مرتد ہونے کے لیے آمادہ ہورہے ہیں۔اطلاع ملتے ہی حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خاں رحمۃ اللہ علیہ اور ایک اور رفیق کو لے کر آگرہ سے چلے۔ جہاں تک ریل تھی، ریل سے گئے اسٹیشن سے پانچ میل دور وہ گاؤں تھا اورکوئی سواری نہیںتھی۔یہ لوگ تیزی سے پیدل وہاں پہنچے ۔جاکر دیکھاکہ ایک مجمع اکٹھا ہے،آگ جل رہی ہے ،گانا دھوم سے ہورہا ہے، متعدد حلوائی کڑھائیوں میں پوریاں چھان رہے ہیں اورکئی نائی استرہ قینچی لیے بیٹھے ہیں۔ایک تخت پر وہ فتنہ پرداز بیٹھاہے ۔ معلوم ہواکہ یہ مجمع ان سب مسلمانوں کا ہے جو مرتد ہونے پرراضی ہیںاورانھیں ہندو بنانے کے لیے یہ جشن ہورہا ہے۔
یہ لوگ کسی خطرے کی پرواہ کیے بغیرمجمع کو چیرتے پھاڑتے اس فتنہ پرور کے پاس پہنچے۔اس سے کہاکہ آؤ مناظرہ کرلو۔اس نے صاف انکار کردیا اورکہا کہ یہ لوگ ہندو ہونے پر راضی ہیں، اب مناظرے کی ضرورت نہیں۔اس پر حضرت شیر بیشہ اہل سنت نے مجمع کے سامنے اسلام کی حقانیت اور بت پرستی کی تردید میں تقریر کی مگرمجمع پر کوئی اثر نہ ہوا۔
حضرت مفتی اعظم کی غیر ت ملی جوش پر آگئی ۔شیر بیشہ اہل سنت سے فرمایا : کہ مجمع والو ںسے کہیے کہ یہ پنڈت مناظرے پر آمادہ نہیں۔تم لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو تم سب لوگ اس پنڈت سے کہو کہ میرے ساتھ اپنی اس جلائی ہوئی آگ میں کودے۔جو آگ سے زندہ بچ کرنکل آئے تم لوگ اس کادین قبول کرلو۔ حضرت شیر بیشہ اہل سنت نے پوری گھن گرج کے ساتھ حضرت مفتی اعظم کے اس ارشادکو ان دیہاتیوں تک پہنچادیا ۔ اس کے بعد ایک جوش و سرمستی کے ساتھ حضرت مفتی ا عظم ہند بڑھ کر اس لیڈر کے تخت پر چڑھ گئے اس کاہاتھ پکڑ کر فرمایا :چل ہم دونوں اس آگ میںکودیں۔ہیبت ِ حق سے وہ تھر تھر کانپنے لگا اور مبہوت دم بخود رہ گیا۔
حضرت مفتی اعظم نے جوش میںآکر اسے گھسیٹنا شروع کیا مگر وہ بہت موٹا تھا۔ ٹس سے مس نہ ہوا۔کچھ دیر تک یہی ہوتا رہا۔گانے والے گانابھول گئے۔حلوائیوں نے پوریاں چھاننی چھوڑ دیں۔سارا مجمع ساکت و جامد دیکھتا رہا ۔ تھوڑی دیرکے بعد اس مجمع میں جو مکھیا وغیرہ قسم کے تھے، تخت کے قریب آئے اور کہا : مولوی جی اسے چھوڑ دو۔ اب ہماری سمجھ میں آگیا کہ تمھارا مذہب حق ہے اور اس کادھرم باطل۔ورنہ یہ آگ میں جانے سے نہ ڈرتا ۔اس کے بعد حضرت مفتی اعظم کے ہاتھوں پر سب نے توبہ کی ،کلمہ پڑھا اور سچے پکے مسلمان ہوگئے۔ حضرت شیر بیشہ سنت نے وہیں اپنے انداز میںخطبہ پڑھا ،نعت پڑھی اور تقریر فرمائی۔اب مجھے کہنے دیجیے۔
اولٰئک آبائی فجئنی بمثلہم اذا جمعتنا یا جریرالمجامع
بس رہے تھے یہیں سلجوقی بھی تورانی بھی
اہل چین چین میں ایران میں ایرانی بھی
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے
(جہان مفتی اعظم : ۳۳۸)
فضل وکما ل :
شہزا دۂ محدث اعظم شیخ الاسلام حضرت سید محمد مدنی میاں حضور مفتی اعظم ہند کی جلا لت علمی کے تعلق سے رقم طرا ز ہیں :
وہ اسلام کا بطل جلیل اور استقامت کا ایسا جبل عظیم تھاکہ نازک سے نازک وقت میں بھی اس کے پیروں میں لغزش نہ آسکی۔
حضور مفتی اعظم کے ایک فتویٰ کی تصدیق فرماتے ہوئے ایک مرتبہ مخدوم الملت حضور محدث اعظم ہند نے صرف ایک جملہ تحریر فرمایاتھا اوروہ یہ ہے :
’’ہذاحکم العالم المطاع وماعلینا الا الاتباع‘‘ یہ ایک عالم مطاع کا حکم ہے اور ہمارے لیے اتباع کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ کلام کی عظمت متکلم کی عظمت سے پہچانی جاتی ہے اگریہ کسی ایسے ویسے کا کلام ہوتا تو اس لائق نہ ہوتاکہ اس پر کسی کلام کی بنیاد رکھی جائے مگریہ اس کا کلام ہے جو صرف یہی نہیںکہ سید المتکلمین ۔سندا لمحققین ، سرآمد علما و صوفیا، سراج خانوادہ اشرفیہ تھابل کہ خود حضور مفتی اعظم ہندکی بے پناہ عقیدت و محبت اورلازوال نیازمندیوں کا قبلہ و کعبہ تھا۔میراخیال ہے کہ آج تک حضور مفتی اعظم کا تعارف کراتے ہوئے جو کچھ لکھاگیا ہے اورآئندہ جو کچھ لکھا جائے گا ان سب کو اگر ایک پلڑے پر اور حضور محدث اعظم ہند کے قلم سے نکلے ہوئے اس فقرے کو دوسرے پلڑے پررکھ دیاجائے تو اس کا وزن زیادہ ہوگا ۔
ہم اس عظیم فردکے فضل وکمال کا کیا تعارف کراسکیں گے ۔ جسے حضور محدث اعظم ہندجیسی شخصیت کی زبان بھی عالم مطاع واجب الاتباع قرار دے ۔
یہ دلیل ہے کہ حضورمفتی اعظم کی اتباع عین اتباع رسول تھی ورنہ اسے محدث اعظم ہند جیسا فقیہ و محدث واجب قرار نہ دیتا۔عشق رسول کے سمندر میں ڈوب کر زندگی بسرکرنے والے حضور مفتی اعظم کے لیے آل رسول فرزند بتول کی یہ عظیم شہادت کیا کچھ کم اہمیت رکھتی ہے؟ بریلی شریف کے افق سے ا ٹھنے والایہ سحاب رحمت اٹھا اوراٹھتاہی چلاگیا ۔بڑھا اور بڑھتا ہی چلا گیا ۔پھیلا اور پھیلتا ہی چلا گیا ۔ برسا اور برستا ہی چلا گیا ۔دین دیانت اور علم و دانش کی کھیتیاں سرسبز و شاداب ہوگئیں۔امام احمد رضا کی آوازمفتی اعظم کی شکل میںہندو بیرون ہند کے لاتعداد شہروں اور بے شمار قریوں میں پہنچی۔
وہ کنواں نہ تھے کہ لوگ وہاں جاکر پیاس بجھا تے وہ بادل تھے ہر جگہ خود ہی جاکر برس آتے۔اپنوں پر برسے غیروں پر برسے، پہاڑوں پر برسے ، وادیوں پر برسے، صحراؤں پر برسے، شہروں پر برسے،ایوانوں پر برسے، جھونپڑیوںپر برسے، یہی وجہ ہے کہ
جب وہ نگاہوں سے روپوش ہوئے تو دنیا چیخ پڑی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ۰ لاکھ انسانوںکا جم غفیر ہرطرف سے اکٹھاہوگیا ۔ (جہان مفتی اعظم ۲۳۱)
شارح بخاری لکھتے ہیں:
نجدی فرعون ابن سعود نے حجاج پر حج و زیارت کاٹیکس لگادیاتھا۔ اس قارون صفت حریص کو نہ حلال کی پرواہ تھی نہ حرام کی،اس کو اپنی عیاشی کے لیے قارون کا خزانہ درکار تھا۔مگر اس بے برگ وگیاہ ریگستان میں اسے کیاملتا ۔ تواس حریص ننگِ اسلام و مسلمین نے مجبور و بے کس حجاج پریہ ظلم کیا کیاکہ ان حاجیوں پرڈاکے ڈالنے کے لیے ٹیکس لگادیا اورحیرت یہ تھی کہ کتاب و سنت پرعمل کے مدعی اور داعی بننے والے نجدی علما نے اس کے جواز کافتویٰ دے دیا تھا۔
ابن سعود اوردوسرے نجدی حکمرانوںکے جبر وتشدد کا عالم یہ تھا ۔ ایک مزاح پسندناقد نے کہاہے کہ نجدی مملکت میں اللہ عزوجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جناب میں گستاخی کرنے والوں کے لیے جگہ ہے ۔مگرنجدی حکمرانوں پر صحیح تنقیدکرنے والوںکو سزاے موت ہے۔علماے حرمین طیبین رخصت پرعمل کرتے ہوئے خاموش تھے۔
لیکن جب حضرت مفتی اعظم حرمین طیبین حاضرہوئے تو اس ناخدا ترس خونخواردرندے کی قلم رو میں بیٹھ کرمکہ معظمہ میںنجدی ٹیکس کے حرام و گناہ ہونے پر انتہائی مدلل مفصل عربی زبان میں فتویٰ لکھا جس کانام: القنابل الذریہ علی اوثان النجدیہ جسے مطالعہ کرکے علماے حرمین طیبین نے متفقہ طورپرفرمایا ان ہذا الا الہام اور متفقہ طورپر حضرت مفتی اعظم کوامام وقت ،شیخ الہندوالحرم تسلیم فرمایا۔بطور تبرک قرآن و احادیث و فقہ کے سلاسل کی اجازتیں لیں۔ اوراپنے آپ کو مفتی اعظم کے زمرہ تلامذہ میں داخل ہونے پر فخر فرمایا ۔ا سی وجہ سے کہتا رہتاہوں۔ اورشیخ، شیخ الہند ہیں اورہمارے شیخ شیخ العرب والعجم ہیں۔
یہ جلوہ تھا اس اشارے کا جووالدِ مکرم مجدد اعظم نے نو عمری میں دارالقضا کارکن بنایا اوروقت آنے پر دنیا نے چشم سر سے دیکھاکہ اپنے عہد میںپوری دنیاے سنّیت کا امام بنا، سلطان بنا، سرتاج بنا۔
(جہان مفتی اعظم۳۲۶)
محا سن وخصا ئل :
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت کو ان خو بیوں سے بھی نوا زا تھا جہاں عا م طو ر پر انسان نہایت محنت ومشقت کے بعد بھی نہیں پہنچ پا تا ۔پھر ان پر آپ کے کسبی خصا ئل ومحا سن جو آپ کی طبیعت میں ایسے را سخ ہو گئے تھے کہ گو یا یہ آپ کی فطرت میں ودیعت ہے ۔بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنا ن صا حب اعظمی تحریر فر ما تے ہیں :
حضور مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے کسبی کمالات کے لیے تو ایک دفتر کی ضرورت ہے ۔ کیوںکہ وہ ایک بہت بڑے عالم تھے ۔ سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے سب سے بڑے فقیہہ تھے۔ متعدد دینی کتابوں کے بالغ نظر مصنف تھے، اہل دل صوفی اورباکمال بزرگ تھے،بل کہ میرے نزدیک معمولات ذکر و فکر میں ان کی ایک مجتہدانہ شان تھی، وعظ و تقریر نہیں فرماتے تھے، لیکن لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے ان کے چند جملے لمبی لمبی تقریروں پر بھاری تھے۔ داد و دہش اور بذل و عطامیںشاہانہ انداز تھا۔ مدتوں مدرسہ مظہر اسلام ان کے ذاتی صرفہ سے چلتا رہا۔انھوںنے ہزاروں مقدمات کا منصفانہ فیصلہ فرمایا۔ مختصر یہ کہ آپ کی کسبی خصوصیات سے متعلق اسی طرح کے بیسیوں عنوان ہیں اور ہر عنوان قلم سے اپنے حق کا مطالبہ کررہا ہے ۔مگر اس مختصرمضمون میں ان سب کی گنجائش کہاں۔میں اس وقت صرف اتباع شرع و متابعت سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں چند مثالیں پیش کررہا ہوں۔
(۱) جمعہ کے دن مصلیوںکی گردن پھلانگ کر آگے جانے والوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک وعید ہے ۔
’’من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا الی جہنم‘‘
(مشکوٰۃ شریف،حدیث۱۳۹۲۔دارالفکر،بیروت )
جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں، اس نے جہنم کی طرف پل بنایا ۔
اس فرمان والا شان کے بموجب شریعت اسلامیہ کا یہ حکم ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں مصلیوں کی گردن پھلانگ کر آگے جانا شرعاًممنوع اور معصیت ہے ۔ہاں اگلی صف والو ںنے جگہ چھوڑ رکھی ہوتو اسے پُر کرنے کے لیے آگے جایاجاسکتا ہے کہ صف پُر کیے بغیر پیچھے بیٹھ کر ان لوگوںنے اپنی حرمت خود ضائع کی۔
اس شرعی مسئلہ کو مدنظر رکھ کر مندرجہ ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیں:
(۳۰،۳۵) سال پہلے کی بات ہے کہ اشرفیہ کے سابق ناظم الحاج محمد عمر صاحب مرحوم کے خلف الصد ق حضرت مولانا نثاراحمد صاحب غالباً پہلی بار مبارک پور میں حضور مفتی اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو لائے اورآپ کی یہ تشریف آوری بالکل نجی اور بغیر کسی سابقہ اطلاع کے صرف شخصی دعوت پر ہوئی ،اس لیے عوام اہل سنت تو کیا ،اشرفیہ کے لوگوں کو بھی اس کی پیشگی خبرنہ ہوسکی ۔ دن جمعہ کا تھا، جمعہ کے وقت مولانانثار احمد صاحب حضرت کو لے کر اس وقت پہنچے کہ مسجد بھر چکی تھی، موسم گرمی کے تھے اس لیے مصلیوں کی آخری صفیں دھوپ سے بچنے کے لیے بالکل مسجد سے ملی جلی مسجد کی پوربی دیوارکے سایہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔
حضرت کرتا پائجامہ اور غالباً زرد رنگ کی صدری اور دوپلی ٹوپی اوڑھے ہوئے تشریف لائے، گرمی سے بچنے کے لیے تولیہ سر پر ڈال رکھاتھا۔
آج سے لگ بھگ تیس پینتیس سال قبل اہل مبارک پور کے دل میں ، علما و مشائخ کی جو قدرو منزلت تھی، ادھر حضرت کا پرنور چہرہ اور دلکش شخصیت پھر ساتھ میں مولانا نثاراحمد لوگوںنے دیکھتے ہی اندازہ لگالیاکہ کوئی بڑے عالم دین ہیں،اچھے بزرگ ہیں، اور ادھرادھر کھسک کر آگے جانے کے لیے آپ کو راستہ دینے لگے کیوںکہ مسجد میں علما کے ساتھ ان کے احترام عقیدت کا یہی معمول تھا۔لیکن حضور مفتی اعظم دھوپ میں ہی تولیہ بچھا کر سب سے پیچھے بیٹھ گئے اصرار کے باوجود آگے نہیں بڑھے۔ یہ سارا واقعہ ادھر بھی ہورہا تھاجدھر میں تھا ۔ نماز کے بعد میںنے معلوم کرنا چاہا یہ کون بزرگ تھے تو معلوم ہواکہ مفتی اعظم ہند!
غالباً یہ میری پہلی زیارت تھی، دل نے فیصلہ کیا سبحان اللہ! مسئلہ ہم لوگ بھی پڑھتے ہیںلیکن صرف پڑھنے کے لیے اور یہ اللہ والے پرھتے ہیںتو عمل کرنے کے لیے۔
آپ کے اس عمل میں اتباع شریعت کے ساتھ احیاے سنت بھی پائی جارہی ہے ۔ کہ لوگ آج کل اس سے غافل ہیں، اور مسجد میںلوگوںکی گردنیں پھلانگنے میں کوئی خوف نہیں محسوس کرتے ۔
(۲) گزشتہ صفحات میں ہم نے ایک حدیث نقل کی کہ مسجد امور دنیا کے لیے نہیں ہے۔ اسی حدیث کی روشنی میں حضرات علماے شرع نے مسجدمیں کھانے پینے اور سونے، تجارت وغیرہ امور دنیا سے منع فرمایا صرف معتکف کو اجازت ہے،وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ مسجد آلودہ نہ ہو اور اسی لیے یہ مستحب ہے کہ آدمی مسجد میں جب بھی داخل ہو اعتکاف کی نیت کرے اور کچھ ذکرِ الٰہی میں مصروف رہے ۔اگر بہ ضرورت کچھ کھاناپڑے تو معتکف ہونے کی وجہ سے اس کی اباحت ہوگی۔
مسئلہ شرعی ذہن نشین کرلینے کے بعد حضرت کی احتیاط شرعی ملاحظہ ہو۔
ایک دفعہ بریلی حاضری ہوئی ۔اور رات میں قیام کا اتفاق پڑا۔ شہر کے کسی حصہ میں میلاد شریف کی تقریر تھی۔ حضرت کے ساتھ میں بھی شریک جلسہ ہوا جلسہ میلاد ایک مسجد میںتھا اورنہایت مختصر سامعین تھے۔
مجمع کم ہو یا زیادہ میرا بارہا کا یہ تجربہ ہے کہ جس جلسے میںحضور مفتی اعظم یا حضور حافظ ملت ہوں وہ جلسہ بے حد پرکیف ہوجاتا تھا۔ تقریر خوب جمتی تھی اور مقرر اور سامع دونوں ہی کافی محظوظ ہوتے تھے۔
چنان چہ اس جلسہ میں بھی روایت خوانی کے بعد میںنے تقریر شروع کی ۔ مختصر تعداد کے باوجود جلسہ بے حد پرکیف اور کامیاب رہا اورآپ حسب معمول جلسہ میںآنکھیںبند کیے تشریف فرما رہے ۔ کوئی خاص مقام آتاتو آنکھیںکھول کر مقرر کو دیکھ لیتے اور جب بہت تاثر ہوتاتو آنکھیں بھیگ جاتیں اور ڈبڈبائی نظروں سے دیر تک مقرر کو تکتے رہتے۔
ختم وعظ کے بعد صاحب مجلس نے حاضرین کی چائے سے تواضع کی حضرت نے چائے کی پیالی ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا ہم نے مسجد میں داخل ہوتے وقت اعتکاف کی نیت کرلی تھی جس نے نہ کی ہو اب کر لے کہ مسجد میں غیر معتکف کو کھانا پینا منع ہے ۔
بادی النظر میں یہ معمولی ادب ہے ۔لیکن غور سے دیکھا جائے تو جو شخص شریعت کے کسی ادنیٰ درجہ کے ادب پر بھی اس شدت کے ساتھ مواظبت فرمائے ۔ دیگراحکام شرعیہ کی بجا آوری میں اس کاکیا حال ہوگا۔ساتھ ہی اس واقعہ سے رفع شبہ اور ہدایت خلق کے اہتمام کا بھی پتہ چلتا ہے ۔
(جہان مفتی اعظم ۲۴۶۔۲۴۸)
شہزا دۂ صدر الشریعہ مولانا بہاء المصطفیٰ قادری تحریر فر ما تے ہیں :
بندوں کی حاجت روائی آپ کا خاص وصف تھی ۔کئی کئی گھنٹے بیٹھ کر لوگوںکی حاجتوں کو سننا پھراس کا مداوا کرنا، تعویذ کے پردے میں اپنی کرامت و محبوبیت کو چھپانا۔ جن مریضوںکو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، لاعلاج مرض بتایا آپ نے تعویذ دے دیا۔ دم فرمادیاچند روز میںبھلا چنگا ہوگیا ۔
اخترحسین نام کے ایک صاحب سنبھل سے آئے جن کی کمر میں ایک گانٹھ ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں نے کینسر تجویز کرکے آپریشن کرنا بتایا۔ اس غم میں چلنا پھرنا بند ۔بہت لاغر ہوگئے ۔کسی طرح بریلی شریف حاضر ہوئے ۔کیفیت بیان کی حضرت نے ہاتھ رکھ کر دم فرمایا ۔تعویذ دیا چند روز میں کینسر غائب۔ ایسے ایسے کام کے لیے تعویذ لینے آتے کہ سن کر ہنسی بھی آتی تھی مگرکیا مجال کہ حضرت کی پیشانی پر بل آئے۔ عصر کا وقت تنگ ہوگیا تھا، نماز کے لیے اٹھنے والے تھے بل کہ ایک پیر میں جوتابھی پہن لیا تھا، اتنے میں ایک خاتون لسڑ پسڑ کرتی آئیں اور بلا تمہید فریاد کرنے لگیں۔ میاںمیری لڑکی روتے روتے ہلکان ہوگئی اس کی مرغی غائب ہوگئی ہے، تعویذ دے دو ۔ یہ سنتے ہی سب ہنسنے لگے ۔ حضرت نے جلال میں فرمایانماز کی دیر ہورہی ہے۔ میں نماز پڑھوںگا خاتون ڈر کر واپس دروازہ تک پہنچ گئیں۔ آواز دے کر بلایا ۔تعویذ دیا اور فرمایا لوگوںنے اب یہ نکال لیا ہے کہ میاں جس پر ناراض ہوجاتے ہیں اس کا کام یقینا ہوجاتا ہے ۔(جہان مفتی اعظم۳۰۶۔۳۰۷)
حضرت مولانا عبد المبین نعما نی صا حب لکھتے ہیں :
۲؍یا ۳؍ یا۱۹۷۴ء اپریل ء کا واقعہ ہے ،( جب حضور مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ مدرسہ دار القرآن، ذاکر نگر ، جمشید پورکے جلسے میں تشریف لے گئے تھے )کہ مولانا غلام آسی علیہ الرحمہ کا ایک مرید سرکار مفتیِ اعظم کا پاوں دبانے لگا ۔ حضور نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ مولانا غلام آسی صاحب نے عرض کیا، حضور یہ میرے مریدوں میں ہیں ، ان کا نام ہے سیدصاحب۔ یہ سنتے ہی کہ یہ صاحب سادات کرام سے ہیں استغفر اللہ پڑھتے ہوئے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھرپاوں دابنے سے روک دیا، ہر چند وہ اصرار کرتے رہے ، لیکن حضرت نے پھر انھیں خدمت کا موقع نہ دیا ، یہی نہیں بل کہ ان کے ہاتھ کو بوسہ بھی دیا۔
تعظیمِ سادات کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ مولانا سید کاظم پاشا قادری حید ر آبادی جب مبارک پور دار العلوم اشرفیہ میں زیرِ تعلیم تھے اور پھر جامعہ منظرِ اسلام بریلی شریف میں بھی چند سال تھے ، وہیں سے فراغت ہوئی ۔ ان کا کئی بار کا واقعہ ہے کہ کسی جلسے اور کانفرنس میںجب سرکار مفتیِ اعظم تشریف فرما ہوتے اور سید کاظم پاشا صاحب جلسہ گاہ میں کہیں نظر آجاتے تو مفتیِ اعظم ان کو آدمی بھیج کر بلاتے اور اسٹیج پر بٹھاتے باوجود کہ وہ طالب علم تھے ۔
درس وتدریس:
آپ نے فراغت کے بعد ہی سے درس کا سلسلہ شروع فرمادیا تھا، منظر اسلام میں آپ نے مسند تدریس کو رونق بخشی ، آپ کی تدریس کا زمانہ تقریباً چالیس سال ہے ، اس زمانہ میں آپ سے درس لینے والی وہ عظیم ہستیاں بھی ہیں جن کو ہندو پاک کے جلیل القدر علما وفضلا میں شمار کیاجاتا ہے اور جو بجائے خود اساطین ملت شما رکیے جاتے ہیں۔
مثلا: شیربیشہ اہل سنت مناظر اسلام حضرت علامہ مفتی محمد حشمت علی لکھنوی ثم پیلی بھیتی
آپ نے ان کو بخاری شریف کا درس دیا
محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا سرداراحمد صاحب لائیلپوری
ان کو آپ نے قطبی ، رضی اور مطول کا درس دیا۔ [جہان مفتی اعظم ص ۱۰۷]
اسی طرح آپ سے دوسرے فقہا اور علما نے استفادہ کیا۔ اور یہ سلسلہ ۱۳۶۵ھ تک رہا۔ چوںکہ آپ کو فراغت کے بعد سے سیدنا اعلیٰ حضرت نے اپنی خدمت میں رکھ لیا تھا جہاں اعلیٰ حضرت تصنیف وفتویٰ نویسی میں مشغول رہتے تھے، حضور مفتی اعظم آپ کے شریک کار حوالوں کی تتبع تلاش اور اعلیٰ حضرت کے حکم سے تصنیف وتالیف میں مشغولیت ، اس بارہ سالہ مدت میں آپ نے بھی متعدد اہم علمی کتابیں تصنیف فرمائیں اور اعلیٰ حضرت کے علم وفضل سے خوب خوب سیراب ہوئے۔
پھر بھی آپ کے تلامذہ ومستفیدین کی بہت بڑی تعداد ہے ۔
ذات شیخ میں فنائیت:
حضور مفتی اعظم فنافی الشیخ کی منزل رفیع پر فائز تھے ، آپ کے شیخ نے پہلے ہی دن آپ کو اپنی ذات میں اس طرح جذب کرلیا تھا اور مصلیٔ امامت پر بیعت کرکے اور اپنے ملبوسات عطا فرماکر ان پر اپنے انوار وتجلیات کی ایسی بارش فرمائی کہ سرکار نور کا یہ چہیتامرید بھی نوری ہوگیا جس کا اشارہ خود آپ نے اپنے ایک شعر میں فرمایا:
فقط نسبت کا جیساہوں ، حقیقی نوری ہوجاؤں
مجھے جو دیکھے کہہ اٹھے میاں !نوری میاں تم ہو
ہاں اوریہ تعلق بھی نور علی نور ہے کہ سرکار نور نے اپنے فیوض و برکات ظاہری لباس تک ہی محدود نہ رکھے بلکہ آپ کے پورے وجود کو شرسار کردیا جس کی تمثیل یوں عمل میں آئی۔
شہزادۂ سید العلما سید آل رسول حسنین میاں نظمی ما رہروی لکھتے ہیں:
چھ ماہ بعد حضرت نوری میاں صاحب بریلی تشریف لے جاتے ہیں، نومولود کو نہالچہ میںسرکار کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ نوری میاں صاحب بڑی شفقت سے گود میں لیتے ہیں۔ یہ کون ہے؟ یہ چشم و چراغ خاندان برکات کا لخت جگر ہے ۔ جن مبارک ہاتھوں نے اس کے پیدا ہونے کی دعا مانگی تھی ، آج وہی ہاتھ اس پر شفقت برسا رہے ہیں ۔ نوری میاں صاحب کلمہ کی انگلی بچہ کے منہ میں ڈال دیتے ہیں ۔ سبحان اللہ ۔ شاید بچہ کو معلوم ہے کہ میرے والد کے قلم سے یہ شعر نکلا ہے ؎
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا توہے عین نور تیرا سب گھرانا نور کا
یہ نوری گھرانے کے نوری فرد نوری میاں کی انگلی ہے ۔ بچہ بڑے چاؤسے انگلی چوس رہا ہے۔ نوری میاں بڑی شفقت سے مسکراتے ہوئے اپنے خاندان عالی کا نور بچے کے سینے میں انڈیل رہے ہیں۔ قطب مارہرہ کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا ہے کہ یہ بچہ آگے چل کر ولایت کی منزلیں طے کرے گا۔ سچ ہے : ولی را ولی می شناسد
نوری میاں کی ساری دعائیں اس بچے کے حق میں صحیح ثابت ہوئیں اور وہ بچہ آگے چل کر مفتی اعظم کے نام سے مشہور ہوا۔
حضور مفتی اعظم اپنے مرشد کے وصال کے وقت ۱۴؍ سال کے تھے، کیوںکہ سرکار نور کا وصال ۱۳۲۴ھ میں ہوا۔ اس لیے آپ کو اپنے مرشد کی بارگاہ اقدس میں حاضری کا بہت مختصر زمانہ ملا۔ اس قلیل مدت میں آپ نے جتنی مجالس کافیض پایا وہ تو اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں ہی، مگر سرکار نور کے وصال کے بعد آپ کو تقریباً اٹھتر(۷۸) سال کا طویل زمانہ ملا جس میں آپ ہر سال بذوق وشوق بارگاہ مرشد میں حاضری دیتے ۔ حضرت امین ملت صاحب سجادۂ آستانہ عالیہ برکاتیہ بیان کرتے ہیںکہ:
آپ سرکار نور کے مزار اقدس پر حاضر ہوتے اور گھنٹوں مراقب رہتے پھر حضور صاحب البرکات رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضری دیتے ۔ [جہان مفتی اعظم ص ۱۸۴]
استغنا اور بے نیا زی :
مفتی اختصاص الدین اجملی سنبھلی رقم طرا ز ہیں :
سرکار مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان مال و دولت سے قطعاً رغبت نہیں رکھتے تھے۔ ۱۹۷۳ء میں مدرسہ اجمل العلوم کے جلسہ دستار فضیلت میں حضرت قبلہ بحیثیت سرپرست سنبھل تشریف لائے ۔جلسہ کاانتظام و انصرام میرے ہی ہاتھ میں تھا۔ جلسہ سے فراغت کے بعد علماے کرام کی خدمت میں نذرانے پیش کیے گئے ۔ حضرت قبلہ کو بھی میںنے لفافہ پیش کیا ۔ حضرت نے فرمایا مولانایہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا۔ حضوریہ زادِ راہ ہے ۔ ارشاد فرمایا کہ میںنے آپ کے والدماجدحضرت اجمل العلما سے بھی کبھی جلسہ کانذرانہ نہیں لیا اور نہ ہی مولانا یونس صاحب سے لیا ۔ اور میں کسی بھی دینی مدرسہ سے نذرانہ و کرایہ نہیں لیتا ہوں۔یہ مدارس خودامداد و اعانت کے مستحق ہیں، یہ حضرت قبلہ کی انتہائی تقویٰ و احتیاط کی بات تھی۔
اس کے بعد حاجی غلام محمد خاں صاحب سابق ممبر پارلیمنٹ اپنے مکان واقع موضع محمد گنج حضرت قبلہ و دیگر علماے کرام کو لے کر گئے۔ رخصت کے وقت سب علماے کرام کو حاجی صاحب نے نذرانے و کرایے پیش کیے۔سب نے قبول کر لیے ۔حضرت قبلہ کو بھی بطور نذرانہ حاجی صاحب نے ایک سو روپے کا نوٹ پیش کیا ۔ارشاد فرمایاکہ حاجی صاحب مجھے نذرانہ و کرایہ کی کوئی ضرورت نہیںہے۔ اللہ کادیا بہت کچھ ہے۔ حاجی صاحب نے جب زیادہ اصرارکیاتو فرمایاکہ پانچ روپے کانوٹ دے دو، باقی رقم غربا و مساکین کو دے دو، ان کافائدہ ہوجائے گا ۔
اسی طرح ایک مرتبہ شہر امروہہ میںمدرسہ محمدیہ حنفیہ شاہی چبوترہ کے جلسہ دستار بندی میں حضرت قبلہ تشریف لے گئے، بعد اختتام جلسہ حضرت قبلہ کی خدمت میں نذرانہ پیش کیاگیا، ارشاد فرمایا۔مجھ کو نذرانہ وکرایہ کی ضرورت نہیںہے ۔ بعد اصرار شدید صرف پانچ روپے لیے اورپنچانوے روپے مدرسہ کو واپس کردیے ۔ایسا متقی حضرت قبلہ کے سو اس دور میںکون ہوسکتاہے ۔؟(جہان مفتی اعظم۲۶۳)
علامہ قمر الزماں خاں لکھتے ہیں :
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں فتنہ ارتداد ( شدھی سنگھٹن) اپنی پوری قوت کے ساتھ تمام مادی وسائل سے مسلح ہوکر اسلام پر حملہ آور ہوا ۔ ہندووںنے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کردیاکہ ہندوستانی مسلما ن اصلاً ہندو ہیں، مغلوں نے انھیں بزور شمشیر مسلمان کیا تھا، اب مغل ختم ہوچکے ہیں، اس لیے ان کو اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آناچاہیے۔ آگرہ وغیرہ کے ہزاروں مسلمان ہندو بن گئے ۔انھوںنے معاذ اللہ داڑھیاں منڈادیں اور سر پر چوٹیاں رکھنے لگے۔ اس فتنہ ارتدادکو ہندووں کے پنڈت ، سرمایہ دار اور راجاوں کا ہر طرح سے تعاون حاصل تھا۔ ان کاارادہ تھاکہ چند سالوں میں مسلمانان ہند ہندو بن جائیںگے اور اس طرح ان کے اکھنڈ بھارت اوررام راج کا دیرینہ خواب پورا ہوسکے گا۔ ہندو ساہوکاروں نے اپنی تجوریوںکے منہ کھول دیے اور غریب مسلمانوں کو دولت کی لالچ دے کر ہندو بنانے لگے اورجن علاقوںمیں مسلمان ہندو بننے کے لیے تیار نہیں ہوئے ،ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جانے لگے۔ در پردہ اس میں حکومت وقت بھی ملوث تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھاکہ اس طرح سے ہندووںاور مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر تحریکِ آزادی کا راستہ بھی روکاجاسکے گا اورمسلمانوں کی متحدہ قوت کو کمزور بھی کیا جاسکے گا ۔
اسی زمانے میںمتعدد پنڈتوں نے اسلام کے خلاف انتہائی دل آزار کتابیںلکھیں جس میں اسلام کے عقائد ، قرآن عظیم اور پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ کا مذاق اڑایا گیا ۔سوامی شردھا نند کی ستیارتھ پرکاش اورایک اور گستاخ کی کتاب رنگیلا رسول اس دورکی پیداوار تھیں سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ علما ے دیوبند اوران کے ہم خیال مسلم سیاستدانوں نے اسی دور میں انگریزوں کے مقابلے میں ہندومسلم اتحاد کی تحریک چلائی اورسوامی شردھا نند جیسے گستاخ کو دلی کی جامع مسجد کے منبر پر بٹھا کر تقریریں کروائیں اور فتنہ ارتداد سے یکسر آنکھیں بند کرلیں۔
ہندو مصنفین نے اس دور میں دست یاب قرآن عظیم کے تراجم کو سامنے رکھ کر اس طرح کے عنوانات اپنی کتابوںمیں قائم کیے۔ معاذاللہ ۔ مسلمانوں کا خدا مکار ہے ۔
اورنیچے { وَمَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ} [آل عمران :۵۴]
لکھ کر دیابنہ کے ترجمے پیش کردیے جنھوںنے عربی مکرکاترجمہ اردومیں بھی مکر ہی سے کیا تھا۔
مسلمانوںکا خدا ٹھٹھا کرتا ہے ۔ اس سرخی کے نیچے{ اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُ بِہِمْ} [البقرۃ :۱۵] والی آیت لکھ کر استہزا کا وہ ترجمہ لکھا جو اس دورمیں بعض تراجم میںموجود تھا۔ ایسے نازک ترین دورمیں فتنہ ارتداد کے خلاف حضور مفتی اعظم نے سنت صدیقی پرعمل کرتے ہوئے ایک عظیم تحریک چلائی ۔ جماعت رضاے مصطفی کے پلیٹ فارم پر اکابرعلما ے اہل سنت کو جمع فرمایا، متاثرہ علاقوںکادورہ فرمایا ۔پنڈتوں سے مناظرے کیے اور بعض بعض علاقوں میں کئی کئی ماہ خیمہ زن رہ کر ارتداد کے سیلِ رواںکو روکا ، مرتد ہوجانے والے مسلمانوں کو دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل فرمایا۔ آپ کی جماعت کے ساتھ کچھ حجام بھی ہوتے تھے جو دوبارہ اسلام قبول کرنے والوں کے آثارِ ہندو مت کو سروں سے غائب کردیتے تھے۔
یوں تو جملہ علماے اہل سنت حضور مفتی اعظم کے زیر قیادت اس جہادِ عظیم میں شامل تھے مگر اعلیٰ حضرت کے چند عظیم خلفاحضرت صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا قطب الدین برہمچاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مناظرانہ طرزِ استدلال سے حالات کا رخ بدل دیا ۔ اس تحریک میں پنجاب کے ایک عظیم شیخ طریقت عاشق رسول حضرت علامہ پیر جماعت علی محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا سرکار مفتی اعظم کی دعوت پر اپنے رضاکاروںکے ساتھ جو ہمیشہ مسلح ہوتے تھے ان علاقوںکا دورہ فرمایا اورا پنی نظر کیمیا اثر سے ارتداد کے فتنے کو ختم فرمایا ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مفتی اعظم کا عہد شباب تھا اوران کی دعوت پراوران کی قیادت میں معمر علما نے اس جہاد عظیم میں شرکت فرمائی ۔ (جہان مفتی اعظم : ۲۷۴)
امر با لمعروف اور نہی عن المنکر :
امت محمدیہ کی خصو صیا ت میں سے ہے یہ با ت کہ وہ لو گوں کو بھلا ئی کا حکم دے اور برائی سے با ز رکھے ، قرآن کریم نے اس امت کو خیر الامم فر ما یا تو سا تھ ہی یہ ذمہ دا ری بھی سو نپی بلکہ اس کو امت کی فضیلت کا سبب بتا یا ۔ یہ حکم ہر فرد کے لیے ہے اور علما کا منصب تو خا ص طو ر پر یہی ہے ، مگر آج اس چیز سے جو بے اعتنا ئی برتی جا تی ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ حضور مفتی اعظم نے امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں کبھی کسی کی رعا یت نہیں فرما ئی ۔
مفتی عنایت احمد نعیمی بیا ن کر تے ہیں :
ئ۱۹۶۴ء میںراقم السطور کی دستاربندی و فراغت مظہر اسلام بریلی شریف سے ہوئی ہے جلسہ اور مدرسہ کے سرپرست کی حیثیت سے اس جلسہ دستار میں حضرت کی بھی شرکت تھی۔ناظم جلسہ نے افتتاحی تقریر کے لیے مظہرِ اسلام ہی کے ایک نئے مقرر کردہ مدرس کی تقریر کا اعلان کیا دوران تقریر مقررنے حضرت سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے وہ واقعات وحالات جو قبل از قبول ایمان ان سے صادرہوئے تھے بیان کرنا شروع کیا مگر بیان میں ادب والے الفاط کی رعایت نہ تھی مثلاً تھے کی جگہ تھا، کرتے کی جگہ کرتا ایسے الفاظ جو عموماً چھوٹوں کے لیے بولے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ سن کر توبہ و استغفارکرتے رہے ۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھتے رہے۔ جوںہی ان کی تقریر ختم ہوئی حضرت نے گرجدار آواز میں فرمایا مولانا توبہ کیجیے ساتھ ہی وجہ توبہ بھی واضح فرمائی الاسلام یہدم ما کان قبلہ جس کا مطلب یہ کہ قبل از قبول اسلام جو بھی خلاف اسلام معاملات آپ سے صادر ہوئے ان کو بنیاد بناکر حضرت کی شان میں کوئی بھی ایسا لفظ شرعاً استعمال کرنا جائز نہیں جس سے تحقیر شان ہو کیوںکہ بعد ایمان وہ صحابی رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بلند مرتبہ و مقام سے مشرف ومکرم ہوگئے لہٰذا دور کفر کے بھی اگر حالات وواقعات بہ ضرورت بیان کیے جائیںتو ادب ملحوظ خاطر رہنا چاہیے ۔
افسوس کہ آج یہ چیز ہمارے درمیان باقی نہ رہی ۔حضرت کے نگاہوں سے اوجھل ہونے کے بعدہی ہمارے مقرروں اور اسٹیجوں کا عجب حال ہوگیا۔ کتنے واعظین و مقررین دوران خطابت ایسے جملے یاباتیں پیش کرتے ہیں جن کی ضرب براہ راست اسلام کی بنیاد ی باتوں پر پڑتی ہے۔ اولاً تو کوئی ٹوکتا نہیں ۔الا ماشاء اللہ ۔ اور اگرکسی بندہ خدا نے احساس ذمہ داری کے تحت کسی ایسی خطا پر توجہ بھی دلائی تو بجائے ممنون و مشکور ہونے کے جنگ و جدال اوربحث و مباحثہ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے ۔
رو حانیت ، کرامات ،تصرفات:
مفتی عنایت احمد نعیمی بیا ن کر تے ہیں :
بہت سے ذمہ دار اور مستند علماے کرام کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ حضرت کی کرامتوں کا مشاہدہ اپنوں نے تو بار بارکیا ہے ۔مگر غیرمسلموں کے دلوںمیں بھی آپ کی عظمت و بزرگی کے ذریعہ اسلام کی حقانیت کے جلوے آشکار ہوئے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہدایت ان کی قسمت میں نہ آئی ۔
واقعہ : یہ ان دنوںکی بات ہے جب کہ آج کل کی طرح دیہاتوں میں پہنچنا اور وہاں سے شہروں میں پہنچنا آسان نہیں تھا۔ لوگ ریل اسٹیشنوں بس اسٹینڈوں تک بیل گاڑی یا پھر معززین پالکی کے ذریعہ پہنچائے جاتے تھے ۔ مزدور اپنے کندھوں پر اٹھاکرا یک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے تھے۔ حضرت کو خلیل آباد اسٹیشن پہنچ کر کوئی ٹرین پکڑنی تھی، ملنے جلنے والوں اور دست بوسی کے آرزو مندوں کے ہجوم و ازدحام کے سبب ٹرین کی آمد میں بہت کم وقت بچ سکا ۔ پالکی اٹھانے والے کہار سبھی غیر مسلم ڈبریلے کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر خودرو کانٹوں اور جھاڑیوں سے اپنے ننگے پیروں کو بچانے کے لیے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔حضرت نے گھڑی پر نظر ڈالی ٹرین کے معینہ وقت میں لمحہ بہ لمحہ کمی ہوتی جارہی تھی کہ حضرت نے کہاروں سے کہا تم لوگ سیدھے کیوں نہیں چلتے۔ کہار اپنی زبان میں بولے ۔ مہاراج کھیتوں میں کانٹے بھرے ہیں ہم لوگ ننگے پیر ہیں ان کانٹو ں میں سیدھے چلیں گے تو ہمارے پاوں لہو لہان ہوجائیں گے ۔ حضرت نے فرمایا سیدھے چلو ہمیں توکانٹے نظر نہیں آتے، حضرت کے حکم پر پالکی لے کر وہ کھیتوں میں سیدھے دوڑنے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر میں خلیل آباد اسٹیشن آگیا کسی کہارکے پاوں میں کوئی کانٹا نہ چبھایہ غیرمسلم پالکی بردار عالم حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ٹرین نہیں آئی تھی اب حضرت کی ٹرین اپنے وقت معین پرآئی۔ حضرت کو جہاںجانا تھا روانہ ہوئے مگر یہ کہار جس سے بھی ملتے اس سے یہی کہتے کہ یہ بہت بڑے گرو ، بہت بڑے مہاتما ہیں ۔ واپسی میں ان کہاروں نے کہا لاو اب دیکھا جائے کہ ہمارے پیروں میں کانٹے چبھتے ہیں یا نہیں، مگر اب وہ بات کہاں پیر رکھتے ہی کانٹے اپنا کام دکھانے لگے ۔ سچ کہا ہے کسی نے :
کانٹے بھی میرے حکم پر چلتے ہیں دوستو
کرتا نہ دیکھیے میرا حلیہ نہ دیکھیے
بات آپ کی کرامتوں کی آئی تو ایک واقعہ یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو سیف زبان بنادیاتھاجس کے حق میں جو کہہ دیا وہ پورا ہوگیا، اورآپ کی دعاوں کے لیے اجابت بہر استقبال آیا کرتی تھی جوکھلی دلیل اور واضح نشانی تھی کہ آپ مقبول عنداللہ اور مستجاب الدعوات تھے۔ ہمارے شہر اترولہ اور اس کے مضافات کی سرزمین کو بھی حضرت کی قدم بوسی کاشرف حاصل ہوا ہے ۔خوش نصیبی سے یہاں کے کافی لوگ حضرت کے نیاز مندوں ، حلقہ بگوشوں میں داخل و شامل ہیں ،یہیں اترولہ کے مضافات کے ایک صاحب جن کا نام محمد اسلام تھا بڑے کھرے سنّی تھے ۔انھوںنے الہ آباد سے ڈاکٹری پاس کیا تھا۔ جب انھوں نے پریکٹس کا آغاز کرنا چاہاتو اجازت اور دعا لینے کے لیے بریلی شریف اپنے پیرو مرشد کی بارگاہ میں حاضرہوئے اور مطب قائم کرنے کی اجازت طلب کی کہ حضور اجازت اور دعا سے نوازیں حضرت نے دریافت فرمایا آپ کانام کیا ہے ؟ انھوں نے بتایا محمد اسلام حضرت نے برجستہ فرمایا آپ کے مطب کانام شفاے انام ہے ۔اللہ اکبریہ نام اتنا بابرکت و با فیض ہواکہ اترولہ کے سارے ایم۔ بی ۔بی۔ایس ڈاکٹروں کا چراغ ان کے سامنے گل نظر آنے لگا۔اس امر کا مشاہدہ خود راقم السطور نے کیا ہے کہ بڑے بڑے ڈاکٹر بیکار بیٹھے ہیں، کوئی مریض ان کی جانب رخ نہیں کرتا اورڈاکٹر محمد اسلام کے یہاں مریضوںکی بھیڑ لگی ہے۔ یہ ہے جلوہ شفاے انام ڈاکٹر محمد اسلام کا جو درحقیقت فیض ہے اس کامل درویش کا جو لوگوں کا مرکز نظر بنا رہا مفتی اعظم کی حیثیت سے مگر اس کا وہ مرتبہ جسے قرب خداوندی اور عشق رسالت پناہی کا نام دیا جائے بہتوںکی نظر سے اوجھل رہا ، سچ کہا اقبال نے :
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو عقیدت ہو تو دیکھ ان کو ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
(جہان مفتی اعظم ۲۹۴۔۲۹۵)
شا رح بخا ری نے تحریر فر ما یا ہے :
میںنے بریلی شریف کے ایام قیام میں پچیس ہزار مسائل لکھے جن میں دس ہزار کے لگ بھگ وہ مسائل ہیں جن پر حضرت کی اصلاح ہے۔کاش وہ سب محفوظ ہوتے تو ایک اہم خزانہ محفوظ ہوتا ۔ پھر دنیا دیکھ لیتی کہ حضرت مفتی اعظم کا تبحرعلمی، دقت نظر، نکتہ رسی کس حد تک پہنچی ہوئی تھی۔
یہ مجلس عموماً دو تین گھنٹے کی ہوتی۔کبھی چار گھنٹے کی بھی ہوجاتی تھی۔ میں تھک جاتا، اکتا جاتا مگرحضرت مفتی اعظم پر تکان یا اکتاہٹ کاکوئی اثرنہیں نظر آتا ۔ دن بھر کا تھکا ہوا انسان ،رات میں بھی اتنا حاضر دماغ ہو یہ انسانی قوی کے بس کی بات نہیں۔یہ اس کی دلیل ہے کہ حضرت مفتی اعظم ان منتخب روزگار نفوس قدسیہ میں سے تھے جن کا علم بھی لدنی ہوتا ہے اور قویٰ بشری بھی لدنی اور دل و دماغ بھی لدنی ان کا سب کچھ لدنی ہوتاہے ۔اسی مبارک محفل کا ایک حیرت ناک واقعہ یہ ہے کہ سخت سردیوں کے دن تھے۔ حضرت کے لیے انگیٹھی تھی جو کچھ دیر کے بعد ٹھنڈی ہونے لگی، حقے کی آگ بھی ختم ہونے پر آئی، اچانک فرمایااگر کوئلہ اورہوتا تو انگیٹھی ہی گرم ہوجاتی اور تمباکو ابھی پورا جلا نہیں ہے، وہ بھی کام میں آجاتا۔میںنے عرض کیا اندر خادمہ کو آواز دے کر کوئلہ مانگ لوں ۔ فرمایا دن بھر کی تھکی ہاری بے چاری سوگئی ہوگی، جانے دیجیے۔
مظفر پور کے ایک شاہ صاحب کبھی کبھی آکر آستانہ عالیہ پر قیام کرتے، دو دو مہینے تک رہتے، بظاہر ان کاکوئی مقصد معلوم نہیں ہوتا میں نے ایک دوبار پوچھابھی تویہ کہاکہ صرف حضرت کی زیارت کے لیے آجاتا ہوں،جب تک حضرت باہر تشریف رکھتے وہ حضرت کی خدمت میں حاضر رہتے۔مذکورہ بالا گفتگو کے بعد میںنے دیکھاکہ وہ شاہ صاحب بیرونی دروازے سے اندر آئے اورا پنے رومال میں کچھ لائے اس کابھی دھیان نہ آیا کہ دروازہ اندرسے بند ہے یہ کیسے آگئے۔ انھوں نے حاضر ہوکر عرض کیا، حضرت یہ کوئلہ ہے اور انگیٹھی میں انڈیل دیا ۔اورکوئلے چلم میںڈال دیے۔انگیٹھی میں کچھ چنگاریاں رہ گئی تھیں۔ شاہ صاحب کوئلہ ڈال کر بیٹھ گئے۔ حضرت نے فرمایا کہ پنکھا یا دفتی ہوتی تو اسے ہوا کردی جاتی۔ میں اپنے کمرے میں پنکھا یادفتی تلاش کرنے چلا گیامگرنہ پنکھاملا نہ دفتی ملی۔مجھے آنے جانے میں بمشکل دو ڈھائی منٹ لگے ہوں گے واپس آکر دیکھا تو انگیٹھی اورچلم دونوںکے کوئلے دہک رہے ہیں۔مجھے کچھ حیرت ہوئی مگر میں اپنے کام میں لگ گیا۔ بارہ بجے کے بعد حضرت اندرتشریف لے گئے اورہم لوگ اپنے اپنے کمروں میں جاکر سوگئے۔ شاہ صاحب نماز و جماعت کے پابند تھے، ہمیشہ باجماعت نماز پڑھتے تھے مگر اس دن فجر کی نماز میں نہیں تھے ۔مجھے ایک خیال تو ہوا مگر پھر ذہن سے نکل گیا ۔ ناشتے کے وقت ان کی تلاش ہوئی تو غائب اور کھانے میں بھی غائب ۔تحقیق کی تو سب نے بتایا کہ وہ آئے ہی نہیں ہیں۔ اب میرے دماغ میںکھلبلی مچی کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ رات کو جب پھرمسائل سنانے بیٹھا تو پہلے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ شاہ صاحب رات میں کوئلہ لے کر آئے پھر پتہ نہیں کہاں چلے گئے ۔فرمایا چلے گئے ہوں گے آپ اپنا کام کریں۔ میرا ظن غالب ہے کہ یہ حضرت شاہ صاحب کی صورت میں کوئی جن تھے ۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ حضرت کے بکثرت مریدین جن بھی ہیں۔
(جہان مفتی اعظم ۳۲۷۔۳۲۸)
ایک سال بریلی شریف کے ایک حاجی صاحب حج سے واپس آئے تو لوگوں سے دریافت کیا کہ حضرت مفتی اعظم کب حج کے لیے گئے تھے اور واپس ہوئے یا نہیں؟لوگوںنے انھیں بتایا کہ حضرت مفتی اعظم امسال حج کے لیے نہیں گئے تھے ۔انھو ںنے عیدگاہ میں عیدالاضحی کی نماز پڑھائی ہے، میںنے خود پڑھی۔ سب حاضرین نے متفق اللفظ ہوکر یہی بتایا ۔انھوں نے حیرت سے کہا : آپ لوگ کیسی باتیں کررہے ہیں۔میں نے ان کو طواف کرتے دیکھاہے۔مسجد حرام میں،منیٰ میں، عرفات میں ان سے ملاقات کی ہے ۔مدینہ منورہ، مسجد نبوی میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔مواجہہ اقدس میں سلام عرض کرتے ہوئے دیکھاہے، یہ سن کر سارے حاضرین دم بخود رہ گئے۔لیکن سب نے پھریہی کہاکہ تمھیں دھوکاہوا ہوگا۔ حضرت تو امسال دولت کدہ ہی پر رہے حج کے لیے نہیں گئے تھے مگر انھوںنے پھر بتاکید کہا دھوکا کیسا ؟میں قسم کھاکر کہہ سکتاہوںکہ میںنے ان سے وہاں ملاقات کی ہے۔ ان کی دست بوسی کی ۔ بات چیت کی اور بلاکسی شبہ کے مسجدنبوی اورمواجہہ اقدس میں دیکھا ہے ۔اس کاعام چرچا ہوا ۔سب نے ان حاجی صاحب کو یہی بتایا کہ تم جو کہتے ہو سچ ہے مگر حضرت امسال حج کے لیے نہیں گئے تھے۔ حاجی صاحب نے خودیہ واقعہ مجھ سے بیان کیا اور بھی بہت سے لوگوں سے بیان کیا ۔
یہ حاجی صاحب جب حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضرت نے انھیں بہت پیار سے دیکھا ،جاںنواز انداز میں مسکرائے اور حسب عادت ان کے قدم اور آنکھوں کو بوسے دیے ۔حاجی صاحب دم بخود بیٹھے، ٹکٹکی باندھے ،حضرت کو دیکھتے ر ہے ۔کچھ دیر کے بعد حضرت ان سے مخاطب ہوئے اور حرمین طیبین کے حالات پوچھتے رہے اورایک باربڑے محبت آمیز لہجے میں فرمایا : حاجی صاحب ہر بات بیان کرنے کی نہیں ہوتی اس کا خیال رکھیے گا ۔ اسی سے متاثر ہوکر یہ حاجی صاحب مرید ہوگئے۔
پہلے عرس رضوی کی ساری تقریبات درگاہ رضوی کی چھت پر ادا ہوتی تھیں جس سے اترنے کے لیے صرف ایک زینہ تھا۔قل کے وقت بے پناہ اژدحام ہوتا تھا۔قل ختم ہونے کے کم از کم ایک گھنٹے بعد حضرت مفتی اعظم اوپر سے اتر پاتے تھے مگر ایک سال کے قل کے پندرہ منٹ بعد ہم بہت سے لوگوں نے دیکھاکہ حضرت نیچے تشریف لے آئے اور کاشانہ مبارک میں تشریف لے گئے ۔ میںمسجد رضوی کے دروازے پر کھڑا تھاکہ ایک صاحب نے پوچھا کہ حضرت اوپر سے تشریف لے آئے، میںنے انھیں بتایا کہ جی ہاں دولت خانے میں تشریف لے گئے ہیں۔وہ حضرت کی بیٹھک میں تشریف لے گئے۔مگر بیٹھک میں حضرت تشریف فرما نہ تھے۔انھوںنے کچھ دیر انتظار کیا مگر حضرت اندر سے تشریف نہیں لائے، پھرمیرے پاس آئے کہ حضرت کہاں ہیں۔میں نے ان سے کہا کہ اندر کسی ضرورت سے تشریف رکھتے ہوں گے۔ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یہ دیکھاگیاکہ حضرت درگاہ شریف کی چھت سے نیچے تشریف لائے ۔ا نھوں نے مجھے گھور کر دیکھا۔ انھوں نے مجھے جھوٹا سمجھا ہوگا تو حضرت کے ساتھ بیٹھک میںچلے گئے۔اور میں سوچتا رہ گیا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟بہت دیر تک میں سکتے میںکھڑا رہا۔پھر وہ لوگ جنھوںنے پہلی بار اترتے دیکھاتھا میرے پاس آئے اور کہنے لگے:ہم لوگوںکادماغ پھٹ جائے گا۔یہ معاملہ کیا ہے؟ میںنے ان کو سمجھانے کے لیے کہاکہ یہ سرکار غوث اعظم کاکرم ہے کہ اپنی کرامت اپنے نائب کو عطا فرمائی۔
جونا گڑھ کاٹھیاواڑ کے حاجی محمد ابراہیم مارفانی مرحوم نے بتایاکہ مجھے کسی سے مرید ہونے کا شوق زمانے سے تھا۔ پیرکی تلاش میں رہتا۔ جس پیر کی کاٹھیاواڑ میں آمد کی خبر سنتا ان کی خدمت میں حاضر ہوتا مگر کسی سے دل نہ بھرتا ۔ ایک دفعہ سوتے وقت یہ شوق والہانہ انداز میںبیدار ہوا۔اور مجھ پر رقّت طاری ہوگئی۔ روتے روتے میں نے عرض کیا کہ الٰہی مجھے کوئی پیر کامل عطا فرما۔ا سی حالت میں سوگیا۔خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ صورت انسان دوسرے بزرگ کو دکھا کر فرماتے ہیں کہ تیرے پیر یہ ہیں۔ا چھی طرح دیکھ لے۔حاجی ابراہیم نے بتایا کہ اس تنبیہ پر میںنے بہت غور سے ان بزرگ کو دیکھا اوران کے حلیہ جمال کا ہر نقش دل پر کالحجر کرلیا ۔پھرآنکھ کھل گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ اب میں اس سوچ میں پڑگیا کہ یہ بزرگ کون ہیں ؟کہاں کے باشندے ہیں؟ کیانام ہے؟کچھ پتہ نہیں۔ڈھونڈوں تو کیسے ڈھونڈوں ؟ کہاں ڈھونڈوں ؟اب میرا شوق دیوانگی کی حد تک پہونچ گیا اورپورے کاٹھیا واڑ سے مضبوط رابطہ قائم کرلیا کہ جو بھی پیر آئے مجھے خبر کرنا۔ پیر آتے رہے جاتے رہے مگر میرا پیر کوئی نہ نظر آیا ۔اجمیر مقدس حاضر ہوا وہاںبھی پوچھ پوچھ کرہر حاضر ہونے والے پیرکو دیکھا مگر میراقبلہ مقصود کوئی نہ تھا۔
بالآخر یہ خبرملی کہ حضرت مفتی اعظم دھوراجی فلاں تاریخ کو آرہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میںیہ شائبہ بھی نہ تھاکہ یہی وہ بزرگ ہوں گے ۔مفتی اور پیر یہ اس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن چوںکہ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا معتقد تھا اس لیے اس ناطے کہ چلو ان کے وارث ان کے فرزند کی زیارت کرلوں۔ میںدھوراجی گیا ۔جب حضرت کے روے زیبا پر نظر پڑی تو سکتہ طاری ہوگیا۔خواب میں جسے میرا پیر بتایا گیا تھاوہ مفتی اعظم کی شکل میں میرے سامنے جلوہ گر تھا۔ کچھ حیرت و استعجاب، فرحت و انبساط کی ملی جلی کیفیت میں دم بخود کھڑا مرآۃ جمال غوث اعظم کو تکتا رہا ۔جب قویٰ قابو میں آئے تو قریب پہنچ کر قدموں میں گر پڑا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ا پنے دست مبارک سے میرے سر کو پکڑ کر قدموں سے ہٹاتے رہے،فرماتے رہے ،یہ کیاکررہے ہو؟یہ کیاکررہے ہو؟
جب آنسوکے ساتھ طوفانِ شوق تھما تو پہلی درخواست یہی پیش کی کہ مجھے مرید فرمالیں جو بلاتاخیر قبول ہوئی۔اس سفر میں علاقہ کاٹھیاواڑ میں حضرت مفتی اعظم کے پہلے مرید حاجی ابراہیم مارفانی مرحوم تھے۔ (جہان مفتی اعظم۳۳۳۔۳۳۵)
مولانا ساجد علی مصبا حی لکھتے ہیں :
جاؤ پھانسی نہیں ہوگی:
تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم قدس سرہ کی بارگاہ عالیہ میں سرزمیں احمد آباد پر ایک مظلومہ اپنے ننھے ننھے بچوں کی انگلی پکڑے حاضر ہوئی اور اشکوں کی برسات برسانے لگی ۔قدر ے سکون کے بعد اس نے کہا :حضور !بے قصور شوہر کو پھانسی کی سزا ہو گئی ہے ۔آقاے نعمت کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں اور اپنے معمول کے مطابق تعویز دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :جائو پھانسی نہیں ہوگی ؎
نطق کو سو ناز ہے تیرے لبِ اعجاز پر محوِ حیرت ہے ثریارفعتِ پرواز پر
وہ دل دکھی عورت فوراً جیل کی جانب دوڑی اوراپنے شوہر کے گلے میں تعویذ ڈال دیا اور اپنے سر تاج کو ان الفاظ سے تسلی دیتی رہی کہ بریلی کے بہت بڑے بزرگ نے فرمایا ہے کہ جاو پھانسی نہیں ہوگی۔ وقتِ مقررہ پر جلاد آیا اور پھانسی کے روم میں لے گیا۔ ساتھ میں دیگر حکام کے علاوہ جج بھی تھا ۔ گلے میں پھندا ڈال دیا گیا اور جب بٹن دبایا تو بجلی فیل ہو چکی تھی۔ جج نے کہا کہ وقت ختم ہو گیا ، میں مقدمہ کی سماعت پھر کروں گا، ملزم موت کے تختے سے اتر کر کٹہرے میں آیا اور اپنی بے قصوری کا اظہار کرتا رہا ۔ جج کی چشمِ تصور نے اسی پیکر کرم آقا کو دیکھا جس نے فرمایا تھا کہ جاو پھانسی نہیں ہو گی اور رہائی کا پروانہ دے دیا۔ (مفتیِ اعظم کی استقامت و کرامت،ص:-۱۹۹۔۲۰۰ ،جامِ نور دہلی)
جاں بلب بچہ مسکرا پڑا:
حضور مفتیِ اعظم قدس سرہ کی یہ کرامت محدث امروہہ حضرت علامہ مبین الدین علیہ الرحمۃ والرضوان اپنے ایک مبسوط مقالے میں یوں تحریر فرماتے ہیں:شاید آپ کو یاد ہوگا جبل پور کا وہ تاریخی واقعہ کہ جب آپ اپنے مرید کے بے حد اصرار پر جبل پور کے علاقوں میں اپنے چند خادموں کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستہ بڑا پر خطر اور پر پیچ ہے، جگہ جگہ سواری رکتی اور چل پڑتی ، گھوڑا انتہائی پریشان، تانگے میں بیٹھنے والے حضرات اور بھی پریشان، لیکن آپ ایسے ضعف و نقاہت میں بھی تانگے میں اور لوگوں کے ساتھ جلوہ افروز ہیں ۔ لوگوں کو اپنی تکلیف کے ساتھ ساتھ آپ کا زیادہ خیال آرہا ہے ، جگہ جگہ تانگے میں جھٹکے محسوس ہو رہے ہیں ، لوگ اچھل اچھل جاتے ہیں ، تانگہ اپنی رفتار پر آگے بڑھتا جارہا ہے ، چلتے چلتے ایک گاوں سے گزرتا ہے کہ سڑک پر ایک بچہ کھیلتا کودتا اچانک تانگے کے نیچے آجاتا ہے ، تانگے کا پہیہ اس بچے کے سینے اور پیٹ کے درمیان سے اتر جاتا ہے، لوگوں میں غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ، چاروں طرف ہو کا عالم ہے ، پوری سڑک پر سناٹا چھا گیا، ہر انسان اپنی اپنی جگہ پریشان، ہر طرف بے چینی ہی بے چینی نظر آرہی ہے ، ہر دل اداس ہی اداس دکھائی دے رہا ہے۔ سڑک کی پوری دنیا ماتم کدہ بنی ہوئی ہے، باپ دھاڑیں مار مار کر رو رہا ہے، ماں بچے کی حالت دیکھ کر پچھاڑیں کھا رہی ہے۔ کسی کو سکون و چین نہیں ، مگر ہو ہی کیا سکتا تھا ۔ اسی مجمع میں اللہ کا ایک ولیِ کامل ، رسولِ عربی کا سچا عاشق، غوث الوریٰ کا صحیح جانشین ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی کا لختِ جگر اور نورِ بصر ہے ، جن کے چہرہ انور پر عزم و استقلال کی ایک چٹان ہے، تحمل و برد باری کا ایک دریا ہے ، جو انتہائی سکون و اطمینان کی موجیں مار رہا ہے، وہ اس وقت دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ کے لب گل فشاں ہوئے اور آپ نے خادم سے فرمایا: اس بچے کو اٹھا کر لاو۔ کسی کی ہمت نہ ہوئی ، چوں کہ بظاہر اس کے جسم میں جان نہیں تھی، دنیا ظاہر پر نظر رکھتی ہے مگر اللہ کے خاص بندے ظاہر و باطن پر یکساں نظر رکھتے ہیں، وہ حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ قضاے حقیقی نہیں بل کہ قضاے معلق ہے ۔
بقول عارفِ رومی: ع : لوحِ محفوظ است پیشِ اولیا
حضور مفتیِ اعظم کے مکرر ارشاد فرمانے پر ایک خادم آگے بڑھا اور اس نے بچے کو حضرت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خدمت میں حاضر کر دیا۔ وہ بچہ جو بظاہر دم توڑتا ہوا نظر آرہا تھا، زندگی کی آخری سسکیاں لے رہا تھا، جو اپنی عمر کی سانس پوری کر کے دنیا کو خیر باد کہنا چاہتا تھاَ حضرت کے ہاتھوں میں ہے۔ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں، ایسے پُر پیچ ماحول میں ، ایسے غم زدہ وقت میں ایک مقدس ذات مفتیِ اعظم کی تھی، جن کے چہرے پر ملکوتی حسن تھا، جن کے لبوں پر خاموش مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ آپ نے اس بچے کے سینے اور پیٹ کے درمیان اپنا دستِ شفا پھیرا ، پھر کیا تھا کہ اچانک وہ مسکرا پڑا ، چہرے پر طمانیت اور آنکھوں میں زندگی کی مسکراہٹ رقص کرنے لگی ، جیسے اس کے زخموں کو مرہم دے دیا گیا ہو، جیسے نکلی ہوئی روح دوبارہ واپس آگئی ہو، جیسے مرجھائے ہوئے درخت پر ہر یالی دوڑ گئی ہو۔ چند ہی لمحوں میں اضطراب کی ساری تلخی سکون کی مٹھاس میں بدل گئی۔ وہ بچہ جو ابھی ابھی زندگی کی آخری سانس لے رہا تھا، دنیا نے اپنے ماتھے کی آنکھوں سے یہ منظر ملاحظہ کیا کہ حضور مفتیِ اعظم کے دستِ شفقت و محبت سے مس ہوتے ہی وہ بچہ اچھل پڑا اور فوراً اپنے گھر کی طرف دوڑا ۔ لوگ اسے بلاتے رہ گئے اور بچہ یہ پیغام دیتا ہوا گھر چلا گیا کہ ؎
مدینے کے گداہوتے ہیں دنیا کے امام اکثر بدل دیتے ہیں تقدیریںمحمد کے غلام اکثر
جب لوگوں نے حضرت کی یہ زبردست کرامت اپنی نظروں سے دیکھی تو یکے بعد دیگرے سبھی لوگ حضرت کے حلقہ بگوش ہوتے گئے۔ (جہان مفتی اعظم۴۲۳)
فقیرغفرلہ القدیرکوحضرت فقیہ اعظم، سیدی وسندی ، مولائی و ملجائی، حامی سنت ،ماحی بدعت، قامع کفر و ضلالت مولانا الحاج مفتی حجۃ الاسلام محمد حامد رضا خاں نوری صاحب قدس سرہ العزیز سے بیعت کا شرف حاصل ہے اور آقاے نعمت سیدی وسندی ، عمدۃالمحققین کا سر کفر و ضلالت ،راس المفتیین مولانا الحاج مصطفی رضا خاں نوری مفتی اعظم صاحب قدس سرہ العزیز سے خلافت کا شرف حاصل ہے ۔
حضرت مفتی اعظم رضی اللہ عنہ سے میں نے عرض کیا۔ حضرت میرے لیے حج بیت اللہ کی دعا فرمادیں۔ حضرت نے دعا فرمادی۔ حضرت کی دعا قبول ہوئی ۔۱۴۰۳ ھ میں حضرت کا وصال ہوگیا۔ میںنے ۱۴۰۳ھ میںحج بیت اللہ کی درخواست گزاری، پہلے ہی سال منظورہوگئی ۔اس وقت لوگوںکو چار چار پانچ پانچ سال لگ جاتے تھے اور درخواست منظورنہ ہوتی تھی ۔بحری جہاز سے جانے کی درخواست گزاری تھی۔میںہاتھ میں بڑا رومال رکھنے کا عادی ہوںجیساکہ بزرگوں کا معمول ہے ۔اپنے اساتذہ کو بھی دیکھا ہے ۔ حضرت مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سنبھل مدرسہ اہل سنت اجمل العلوم کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے ۔مریدین کاسلسلہ جاری تھا تعداد زیادہ تھی میںنے اپنارومال حضرت کے دست مبارک میں دے دیا اور دوسری جانب مرید ہونے والوںکے ہاتھوں میں پکڑا دیا ۔ تبرکاً میںنے اس رومال کو رکھ لیا اور استعمال ترک کردیا تھا۔ جس وقت میں حج کو روانہ ہوا میںنے ۵؍کلوچاول اس رومال میں باندھ دیے۔ سنبھل سے۲۲؍ اگست ۱۹۸۳ء کو روانہ ہوا تھا ۔ نومبر۱۹۸۳ ء کو سنبھل واپس آیا وہ رومال معہ چاول بکس میں رکھ دیا تھا ،چار مٹھی چاول نکالا، پکایا، پتیلی سے باہر نکل جاتاتھا، تین مٹھی پکائے وہ بھی برتن سے باہر، پھر دو مٹھی چاول پکائے ۔یہ برکت تھی حضرت کے دست اقدس کی اور بکس سے باہر نکال کر رومال نہیں دیکھا کہ اب کتنے چاول باقی ہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاواقعہ یاد تھا، ان کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس کے جَو کسی برتن میںتھے ،وہ اس میں سے نکال کر کھاتی رہیں۔ ایک مرتبہ باہر نکال کر دیکھنے لگیں، کتنے باقی رہے ہیں؟ اس کے بعد وہ جَو ختم ہوگئے ۔ میرے چاول ایک وقت کی خوراک کے باقی تھے۔ جدہ میں ایک صاحب نے جو سنبھل کے رہنے والے تھے دعوت کردی تھی، ان کا کھاناکھایا۔ وہ چاول اور دال و مصالحہ وغیرہ مسافر خانہ جدہ پر ہی چھوڑ دیے ۔ (جہان مفتی اعظم۲۸۰)
تعویذ نویسی:
خدمت خلق کے متعدد شعبے ہیں : اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا یہ عمل نہا یت پسند ہیں کہ وہ اس کے بندوں کی خیر خوا ہی میں لگے رہیں : حضور مفتی اعظم کی تعویذ نویسی بھی بلا شبہ محض خدمت خلق کے لیے تھی اور اس میں جو خو بیاں تھیں وہ آپ پر بخو بی منکشف تھیں ، لہذا آپ کی تعویذ نویسی محض ٹا لنے کے لیے نہیں ہو تی بلکہ خا ص اہتما م کے سا تھ فنی اصو ل کے تحت تعویذ رقم فر ما تے تھے ۔
مفتی اشرف رضالکھتے ہیں :
تعویذ نویسی کے لیے علم الاعداد، آیات و اسما کے بر کات و خصوصیات اور نقوش کی چال اور بروج اور سیاروں کی رفتا رو تاثیر کا علم ضروری ہے۔ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ والرضوان کو ان سب میں کمال تھا بل کہ اس فن میں اما م کی حیثیت حاصل تھی ۔سر کار اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ۲۵؍ ہزار طریقوں سے نقش پر کر لیتے تھے۔ آپ اس فن میں اپنے والد مکرم سر کار اعلیٰ حضرت ومرشدکریم ،عارف حق،قطب دوراں،سیدشاہ ابوالحسین احمدنوری قدست اسرارہما العزیزہ کے شاگرد رشید اور مظہراتم تھے۔ بعض نقوش وعملیات خود آپ کے وضع کر دہ ہیں جس کے فوائد و بر کات بیشمار ہیں جس کا نقش بنانے اور پر کر نے میں بڑے بڑے ماہر و عامل کا زہرہ پانی پانی ہو جا تا ہے۔ ان ہی نقوش میں سے ایک تحفہ نو ری بھی ہے جس کے فوائد و بر کات بے شمار ہیں ۔تقسیمِ ہند کے وقت برصغیر میںافراتفری مچی ہوئی تھی،بڑے بڑوں کے قدم اکھڑ گئے تھے،ہر کوئی خوف زدہ تھا،مملکت خدادادہی میں اپنے لئے عافیت وسکون سمجھتاتھا،مسلمان کڑوروںکی جائیدادواملاک کوڑی کے بھائوبنیوں کے حوالے کررہے تھے،مسجد وخانقاہ کی حفاظت وبقا کی عام لوگوں کوپرواہ نہ تھی،ہرکسی کواپنی جان،اولاد،مال ومتاع کی فکر تھی۔حضورسرکارمفتی اعظم نے سب کوڈھارس وتسلی دی ،ثبات قدمی وجوان مردی کی تلقین کی،بھیڑوںکی طرح بھاگنے کی بجائے شیروں کی طرح اپنی جگہ قائم رہنے کاحوصلہ بخشا،حرز نوری جوکہعمل بے نظیر کے نام سے مشہور ہے، بزرگوں اورمشائخ کے معمولات کااہم جز ہے،اسے ترتیب دے کر ہزاروں کی تعدادمیں شائع کرواکر عام کیا،اس کی برکتوں سے عاملین کی جان ومال اورعزت وآبروبفضلہ تعالیٰ محفوظ رہیں۔ اس وقت سے لے کر آج تک لاکھوں کی تعداد میں وہ چھپ رہاہے اوراللہ تعالیٰ کے بندے فائدہ پارہے ہیں۔
جن لوگوں نے سیدی مر شدی حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو تعویذ لکھتے ہوئے دیکھا یا ان کے تعویذ سے فیض پایا، ان میں سے چند کے تاثرات پیش کر رہاہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے فیض کا دریا کس قدر تلاطم خیز تھا؟
شہزادہ خاندان بر کات،مخدومناالکریم، حضرت ڈاکٹر سید محمدامین میاں قادری مارہروی فرما تے ہیں: ۱۹۷۳ء میں مجھے ایک ایسا مرض لاحق ہو اجس کا علاج بڑے بڑے ڈاکٹر نہیں کر سکے۔ والد ماجد نے فرمایا کہ حضرت مفتی اعظم سے نقش منگا و۔ چنان چہ یہی کیا اور اللہ کے فضل سے شفاکلی حاصل ہو گئی ۔
(ماہنامہ استقامت ص بابت ماہ مئی ء ۱۹۸۳)
جانشین حضور مفتی اعظم علامہ الشاہ مفتی اختر رضا خان صاحب قبلہ ازہری مدظلہ النورانی تحریر فر ماتے ہیں : حضرت کے نقوش و تعویذ ات کی بر کتیں بے شمار ہیں ایک بار میرے بچے کو سخت بخار آیا گھر والے گھبرا اٹھے، میں نے حضرت سے تعویذ لیا، بخار بہت جلد اتر گیا ۔
(ماہنامہ استقامت ص مئی ء ۱۹۸۳)
نبیرئہ اعلیٰ حضرت حضرت مولانامفتی ریحان رضا خان رحمانی میاں رحمۃ اللہ تعالی علیہ فر ماتے ہیں :حضرت بعد نماز فجر کچھ دیر آرام فرماتے اور ناشتے سے فارغ ہو کر اپنی نشت گاہ میں تشریف لاتے، آپ کی تشریف آوری سے پہلے ہی حاجت مند وںکا میلہ لگ جاتا تھا جس میںہر قوم اور ہر طبقے کے لوگ آتے تھے ۔آپ ہر ایک سے اس کا مدعا پوچھتے اور اس کی حاجت براری کر تے۔ کتنے لوگ تھے جن کی حاجتیں پوری ہوتیںتو وہ نذرانہ لے کر حاضر ہوتے لیکن آپ یہ کہ کر ان کا نذرانہ واپس فر مادیتے کہ یہاں دعا فروخت نہیں کی جا تی ۔ تعویذ کا سودا نہیں کیا جا تا ہے ۔مفتی اعظم کی تعویذ نویسی بھی ذکر الٰہی کا ایک طریقہ تھا ۔ وہ خدا کا خاص بندہ اپنے خدا کا ذکر بھی کر تا جا تااور ذکر الٰہی کی بر کت سے خدا کے بندوں کی حاجت روائی بھی فر ماتا۔اور یہی تعویذ ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ تبلیغ حق اوراصلاح احوال کا بھی ایک موثر ذریعہ تھا ۔چنان چہ آپ حاجت مندوں میں کو ئی شرعی خامی دیکھتے تو فوراً اسے شرعی مسئلہ بتا تے ۔ مسلک ودین حق پر استقامت، رسول خدا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے محبت ۔بد عقیدگی سے اجتناب ،نماز کی پابندی، شریعت کی پاس داری،وضع قطع اور عادات و اطوار میں بندہ مومن کا امتیاز ، آپ کے خاص مو ضوع تھے ۔کسی کے سر پر ٹو پی نہیں ہو تی تو اسے پہننے کی تلقین فر ماتے۔ کسی کے ہاتھ میں سو نے یا پیتل کی انگو ٹھی ہو تی تو اسے اتر وادیتے اور مسئلہ بتا تے کہ سو نا پہننامردوں کوجائز نہیں ہے ۔ عورتوں کو پر دہ کا سخت حکم فرماتے، کبھی نرمی سے سمجھا تے کبھی ناراض ہو تے تو ڈانٹتے۔ مفتی اعظم کی ذات میں جلال وجمال کا ایک حسین امتزاج تھا، جس پر جلال فرماتے اسے محبت سے نوازتے ۔ یہی و جہ ہے کہ جسے ڈانٹتے وہ کبیدہ خاطر ہو نے کی بجائے خوش ہو تا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ اب میرا کام ہو گیا اوردیکھنے میں بھی آیا کہ جس پر ناراض ہو تے اس کاکام ضرور ہوا۔ (جہان مفتی اعظم۴۰۵۔۴۰۶)
رد بدعات ومنکرات
ہنود کے میلوں میں شرکت :
سوال:ہنود کامشرکانہ میلہ جو بتوںکی پرستش کے لیے ہوتاہے جیسے دسہرہ،جنم اشٹمی درگا پوجا،ہولی وغیرہ جس میں مراسم کفریہ و شرکیہ کے علاوہ ہر قسم کے ناچ تماشے اوردیگر لہو و لعب ہوتے ہیں ایسے میلوں میں مسلمانوں کابہ حیثیت تماشائی شریک ہونا کیساہے؟
جواب:ایسے میلوں میں بہ حیثیت تماشائی جاناحرام حرام حرام اشد حرام ،بہت اخبث نہایت ہی اشنع کام بہ حکم فقہاے کرام معاذ اللہ کفر انجام ہے۔حدیث کا ارشادہے:مَن کثَّرَ سوادقوم فہو منہم۔
(کنزالعمال )
جس نے کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کیا وہ انھیں میں سے شمار ہوگا ۔
خزانۃ الروایات میں ہے:
’’فی الفصول قال الشیخ ابوبکر الطرخانی من خرج الی السدۃ فقد کفر لان فیہ اعلان الکفر وعلی قیاس مسئلۃ السدۃ الخروج الی فیروز المجوس والموافقۃمعہم فی مایفعلونہ فی ذلک الیوم‘‘
فصول میں ہے شیخ ابوبکرطرخانی فرماتے ہیںکہ جو شخص کفارکے میلوں میںگیا تو اس نے کفرکیا ۔ کیوںکہ اس میں اعلان کفرہے۔اورانھیںمیلوں کے حکم میںہیںمجوسیوں کے یوم عید میںجانا۔اوراس دن کے ان کے کاموں میں شمولیت اور موافقت بھی۔
اسی میں ہے:
’’کذلک الخروج فی اللیلۃ التی یلعب فیہاکفرۃ الہند بالنیران والموافقۃ معہم فیما یفعلونہ تلک اللیلۃ فیلزم ان یکون کفرا و کذا الخروج الی لعب کفرۃالہند فی الیوم الذی یدعوہ الکفرۃ والموافقۃ معہم من تزیین البقور والافراس الذہاب الی دور الاثریاء یلزم ان یکون کفراً ‘‘
اوریوںہی جس شب ہندی کفار آگ بازی کرتے ہیں ،اس میں شرکت اور جو افعال انجام دیتے ہیں، ان میں ان کی موافقت سے کفر کالزوم ہوتا ہے ۔یوںہی کفار ہند کے ان میلوں میںجانااوران کے افعال کی موافقت مثلاً گھوڑوں اورگاڑیوںکی آرائش اورمالداروںکے گھروں تک جانا ان امور سے بھی کفر لازم آتا ہے ۔
ان لوگوں پر توبہ، تجدید ایمان،تجدید نکاح لازم، واللہ تعالیٰ ٰ اعلم فتاویٰ بزازیہ میں اس قدر اضافہ کے ساتھ ہے۔
’’واکثرما یفعل ذلک من کان اسلم منہم فیخرج فی ذلک الیوم و یوافق معہم فیما یفعلونہ فی ذلک الیوم فیصیر بذلک کافراً ولا یشعر بہ ‘‘
بسا اوقات ان امور کاصدوران افرادسے ہوتا ہے جومجوسیت کے بعد ایمان لائے وہ اس دن اس میلے میں جاتے ہیں اور انھیں جیسے افعال کرتے ہیںاوروہ اس سے غیر شعوری طورپر کافر ہوجاتے ہیں۔
بحرا لرائق اور شرح فقہ اکبر کی عبارتیںبھی اسی مضمون کی مؤید ہیں۔
کیا ان اقوال میں جذبہ اصلاح و ارشاد ملی و روحانی اوردینی تڑپ کی کارفرمائی نظرنہیںآتی؟ بدعات و منکرات کا استیصال کسی اورشئی کا نام ہے؟اصلاح امت کے لیے صرف ان کی تردیدو ابطال ہی سے کام نہیںلیا ،بلکہ اسلامی فکر سے خوابیدہ قوم کے اذہان کو ہم آہنگ کرتے ہوئے رہ نمائی کا فریضہ بھی انجام دیا ۔بلاشبہ یہ آپ کے روحانی جذبہ دین کی بہترین عکاسی ہے ۔
مشرکوںکے تیوہار کی تعریف:
سوال :زیدنے کہاہولی ان کاپاک تیوہارہے ۔مگریہ اس میں چوری کرتے ہیں۔ یعنی چوری کے مال سے ہولی جلاتے ہیں تو بکرنے جواب دیایہ ان کا ناپاک تیوہارہے ۔لڑکی ابھی گوبر لیپ کر گئی ہے ۔حکم فرمایا جائے۔ زید مذکور خارج از ایمان تونہ ہوا۔
جواب:زید بے قید توبہ کرے ، تجدیدا یمان کرے جس نے مشرکوں کے تیوہار کی تعریف کی ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ہندوؤں کاایمان زبردست ہے یہ کہنا کیسا؟ :
سوال :زید کا وضو کرنے کی جگہ پر چشمہ اور ڈبی میں کچھ روپیہ رہ گیا ۔ اعلان کے بعد ایک شخص نے روپیہ وغیرہ دے دیا ۔اس پر بکرنے یہ بات دیکھتے ہوئے بھی یہ کلمے ادا کیے کہ ہم لوگوں میں کوئی چیز گری ہوئی پالے تو دیتا ہی نہیںاورہندوؤںمیں اس بات کا اتفاق ہے کہ کوئی چیز گری ہوئی پالے تومعلوم ہونے پر دے دیتا ہے ۔تو ہم سے ہندوؤںکاایمان زبردست ہے ۔لاکھ درجے ایمان اچھا ہے ۔بکر پر حکم شرعی فرمایا جائے کہ ایمان ثابت رہا یا نہیں؟
جواب : جس نے وہ بکا وہ توبہ کرے ، تجدید ایمان ،تجدید نکاح کرے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
داڑھی منڈانا :
سوال: زید داڑھی منڈاتا ہے اورکہتاہے کہ اگر محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانے میں ہوتے تو وہ داڑھی منڈاتے۔ایسے شخص پر حکم شرع کیا ہے ؟
جواب :داڑھی شعار اسلام ہے ۔تمام انبیاے کرام کی سنت کریمہ ہے ۔زیدنے وہ کلمہ بکا ، حضور علیہ التحیۃ والثنا پر افترا کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیز کے لیے اپنے پہلے حکم کے خلاف حکم دیتے۔داڑھی منڈانا شعارکفر ہے ۔رکھناشعار اسلام ،شعار اسلام کو میٹنے اور شعار کفار کو اختیارکرنے کا حکم دیتے ؟ والعیاذ باللہ تعالی کفارکی وضع پسند فرماتے۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،اس نے دوسرا کلمہ شنیعہ فظیعہ خبیثہ لعینہ کفریہ بک کر حضور علیہ الصلوٰہ والسلام کی توہین کی ۔والعیاذ باللہ ؎
سوانگ کا مسئلہ :
سوال:زید مومن نے اپنے اہتمام سے سوانگ کرایااور مسجد سے بیس قدم کے فاصلے پر تخت جمایا ،اور شور و غوغا کروایا ۔اس پر بکر کہتا ہے کہ زید پرکفر عائد،اس نے اپنی خوشی سے اپنے اہتمام سے سوانگ کرایا تو کیا ازروے شرع زید کافر ہوگیا اورجن مسلمانوں نے سوانگ دیکھا کیا ان کے نکاح خارج ہوگئے ؟ بعد اختتام یہ بھی کہاکہ رات اس نے نقل اچھی اتاری تو اس طرح دیکھنے اورکہنے والے مسلمانوںکا ایمان درست رہا یا نہیں؟
جو اب:سوانگ یا کوئی تماشا کرانا اس کا دیکھنا،اس سے لذت حاصل کرنا، اس کی تعریف کرنا، حرام حرام حرام ہے ۔سوانگ کرنے والے اگر کفر کرتے ہوں،کلماتِ کفریہ بکتے ہوں تو اس صورت میں جو اس سے راضی ہوا اس کی عورت اس کے نکاح سے خارج،اس پرفرض ہے کہ توبہ کرے،تجدید اسلام کرے اور عورت سے پھر سے نئے مہر پر نکاح کرے، وہ سب لوگ جنھو ںنے سوانگ دیکھا،اس کی تعریف کی اشد گنہ گار مستحق نار ہوئے اورتحسین قول وفعل کفرکی ہوتو ان کا بھی حکم ہے کہ پھر سے مسلمان ہوں اور پھر سے نکاح بہ مہر جدید کریں۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ذکر شہادت میں سوگ منانا:
سوال :امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سوگ منانے کو مفتی شرع نے بتایا حرام ہے۔ زیدکہتاہے جب ذکر شہادت ہوتاہے تولوگ روتے ہیں۔ یہ کیوں کر؟کیا سکوت کے عالم میں سنناچاہیے۔نہ خوشی کرے نہ رنج،حکم فرمایاجائے۔
جو اب :سوگ منانا اوربات ہے اور ذکرِ شہادت میں رقت طاری ہونا اور بات ہے ۔ یعنی سوگ منانا حرام ہے صرف بیوی کے لیے شوہرکی وفات پر سوگ تین دن مناناجائز ہے ۔ اور ذکر شہادت میںمحض رقت کے طاری ہونے کی وجہ سے اس پر سوگ کا اطلاق نہیںہوسکتا ) واللہ تعالیٰ اعلم
محرم میں لنگر وغیرہ لٹانے کا حکم :
سوال : محرم میں یہ مشہور کررکھاہے کہ صرف امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی نیاز ہونی چاہیے اور کسی کی نہیں،اورہرے کپڑے پہنناچاہیے ۔اور قلاد جس میں سرخ اورہرے رنگ کے گنڈے پڑے ہوتے ہیں اس کو گلے میں پہننا چاہیے اور عطر وغیرہ نہ لگاناچاہیے اورعشرہ سے تیرہ تک گھرمیںجھاڑو نہ دیناچاہیے اورکام بھی چھوڑ دیناچاہیے۔حکم فرمایا جائے کہ مذکورہ بالا کام درست ہیں؟
جو اب :یہ سب باتیں غلط ہیں۔محرمیوں کی اختراع،ا یسا کہنے اورکرنے والوں پر توبہ لازم،واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ٹائی باندھنا :
بعض لوگ مغربی تہذیب و تمدن پہ اس طور سے فریفتہ ہوتے ہیں کہ اسے اختیار کرنے اور تشہیرکرنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیںکرتے۔ انھیںیہ بھی فکر نہیں ہوتی کہ شریعتِ اسلامیہ نے کیا کیا حدود مقرر کررکھی ہیں۔ نومبرء مطابق شوال ھ میں الجامعۃالاشرفیہ مجوزہ عربی یونیورسٹی کے جشن افتتاح کے موقع پر حضورمفتی اعظم (علیہ الرحمہ) مبار ک پور تشریف لائے۔ایک صاحب انگریزی وضع کے دلدادہ اورجدید تہذیب کی مکمل تصویر ،ٹائی باندھے ہوئے آپ سے ملنے کی غرض سے حاضرِخدمت ہوئے۔جب قریب آئے توحضرت مفتی اعظم نے ان کی ٹائی پکڑی اور پوچھا یہ کیا ہے ؟پھر خود ہی فرمایا۔یہ انگریزوںکی تقلید ہے جسے وہ صلیب کی جگہ استعمال کرتے ہیں،جو قرآن سے متصادم عقیدے پر مبنی ہے ۔آپ نے ان کے گلے سے فوراً ٹائی اتروائی اور توبہ وغیرہ کروائی۔اسی جگہ شمس العلما حضرت مولاناقاضی شمس الدین صاحب جون پوری (علیہ الرحمۃ) نے اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ انگریز چوںکہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو سولی دی گئی ہے اور وہ اپنے اس عقیدے کی بنا پر جگہ جگہ سولی کا نشان بناتے ہیں اوراسے اپنے گلے میں بھی لٹکاتے ہیں۔مگر ان کا یہ عقیدہ قرآن کے بالکل مخالف ہے۔قرآن کا ارشادہے ۔وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ کہ انھیں نہ قتل کیا کیاگیا ،نہ سولی دی گئی ۔بل کہ ان کے لیے ان کی شبیہہ کا ایک بنادیا گیا ۔ بَلْ رَفعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ بل کہ اللہ نے انھیں اپنی طرف اٹھالیا۔ایسی صورت میں ان کا یہ گلے میں سولی لٹکانا، زنّار باندھنے کی طرح ہوا۔ ایسے صلیبی نشان کی جگہ انھوں نے ٹائی کے استعمال کو رواج دیا ہے ،جو کسی طرح ایک مسلمان کے لیے درست نہیںہوسکتا اوراگرا یسا کیاتو اسے توبہ و تجدید ایمان کرنا ہوگا، جیسے بت کے آگے سجدہ کیا تو توبہ و تجدیدایمان کی ضرورت ہے۔
اس طرز اصلاح کی سادگی پرسیکڑوں رعنائیاں قربان ۔یہ ایسی خوبیاں ہیں جن سے ہر کہہ و مہ بہروہ ور نہیںہوتا،بل کہ یہ خاص عطیہ خدا وندی ہے اور مخصوص انعامِ الٰہی۔ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خداے بخشندہ
سوال: زمانہ عرس میں مسجد کی چہار دیواری سے ایک دیوار پر دونوںجانب دونوبتیں مع نضیری بجوائے کیا یہ گناہ نہیں؟اگرہے توایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جو اب : مسجد کی دیوارکو اپنے کام میںلاناحرام نہ کہ اس پر یہ کچھ نجاست ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم
مسجدمیں دنیاوی لغویات:
سوال :مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا،فحش و غیبت، لغویات،خلافِ شرع کام ،لڑائی جھگڑاکرنا کیا حکم رکھتاہے؟
جو اب :مسجد میں دنیا کی باتیںکرنا توناجائز ہے ۔فحش و غیبت کا کیاپوچھنا جوخودحرام ہیں اور مسجد میں سخت تر حرام ۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔
غنیہ میں علامہ ابراہیم حلبی فرماتے ہیں:
’’یجب ان تصان من حدیث الدنیااہ مختصراً‘‘۔
(ص ۶۱۰فصل فی احکام المسجد، لاہور)
دنیاوی باتوںسے مسجدوں کو بچانا واجب ہے۔اسی میں ہے ۔والکلام المباح فیہ مکروہ و یاکل الحسنات کما تاکل البہیمۃ الحشیش ۔(ایضاً ص)مباح کلام مسجدمیں مکروہ ہے۔ وہ نیکیوںکوایسے ہی نگل جاتاہے جیسے چوپایہ گھاس کو۔یہ مضمون خودحدیث شریف میں موجودہے۔یہی علامہ اسی غنیہ میں فرماتے ہیں، کذا ذکرہ صاحب الکشاف۔اسی مضمون کی حدیث صاحب کشاف نے ذکر کی ہے ۔یہاں تک کہ مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کا دریافت کرنا ناجائز ہے ۔حدیث پاک میں فرمایاگیا :
من سمع رجلا ینشد فی المسجد ضالۃ فلیقل لاردہا اللہ علیہ فان المساجد لم تبن لہٰذا۔ (الترغیب والترہیب حدیث۔۴۴۱،دارابن حزم،بیروت)
جو شخص کسی کو مسجد میں گمشدہ چیز کی تلاش میں آواز لگاتے ہوئے سنے توکہے کہ خدا وہ تجھے واپس نہ دلائے کیوںکہ مساجد اس کے لیے نہیں بنائی گئیں۔ ان لوگوںپر توبہ لازم ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔
ان ارشادات راشدہ کی روشنی میںاپنے کردار وعمل کی خبرلیجیے کیاآپ کی روش اس سے ہم آہنگ ہے۔اگرنہیںتواپنے خسارے کاسامان کیوں فراہم کرتے ہیں۔؟
سوال :مسجدمیں چھوٹے بچے ہر وقت پھرتے رہتے ہیں۔ اکثرلوگ اپنے اپنے بچے خودہم راہ لاتے ہیں۔اکثر نمازہوتی ہے اوریہ لوگ شور مچاتے ہیں۔اگرکوئی شخص ان کے والدین سے کہتا یا ان بچوںکو ڈانٹتاہے تووہ لوگ لڑنے پرآمادہ ہوجاتے ہیں ان کا کیاحکم ہے؟
جو اب :جولوگ مساجدمیںاپنے بچوں کولاتے ہیں یا ان کے بچے جاتے ہیں وہ انھیں نہیںروکتے ، روکنے والوں سے لڑتے ہیں،گنہگار ہیں۔اس ارشاد حدیث سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی و مخالفت کرتے ہیں۔حدیث شریف میں فرمایا :
’’جنبوا مساجدکم صبیانکم و مجانینکم و شرائکم و بیعکم و خصوماتکم ورفع اصواتکم واقامۃ حدودکم و سل سیوفکم ‘‘
(غنیۃ المستملی،حلبی کبیرص ۶۱۱بہ حوالہ مصنف عبدالرزاق عن معاذ ابن جبل )
تم اپنی مسجدوںمیں بچوں اور پاگلوںکو نہ داخل ہونے دو۔اس میں خرید و فروخت،لڑائی جھگڑانہ کرو،اس میںآواز بلندنہ کرو،نہ اس میں حدیںقائم کرو اوراس میں اپنی تلواریں نیام سے باہرنہ کرو۔
غنیہ (ص فصل فی احکام المسجد،لاہور)میںہے ۔
’’یجب ان تصان عن ادخال المجانین والصبیان لغیرالصلوٰۃ‘‘
یہ ضروری ہے کہ مسجدیںمجنونوں اوربچوںکونماز کے علاوہ داخل ہونے سے بچائی جائیں۔
ذراچشم دل سے ملاحظہ تو کریں کہ یہ کیسی ضیائیں ہیں جن سے نہاں خانہ دل جگمگاتے جارہے ہیں،افکار کے زاویے روشن ہوتے جارہے ہیں، آنکھیں کھلتی جارہی ہیں۔کیایہ نور اس قابل نہیں کہ اسے دامن میں جگہ دی جائے ۔’’ الکلمۃالحکمۃ ضالۃ المؤمن حیث وجدہا فہو ا حق بہا‘‘۔
(تفسیر ابن کثیرج۔۶؍۳۵)
ایمان کا تاج ہمارے سروں کی زینت ہے ۔سنت کی قبا ہمارے ہی شانوں پر سجنی چاہیے ۔اس خلعتِ بے بہا کے حق دارہم ہی تو ہیں۔ہمارا ہی کاروان فکر شہنشاہ کونین کے گداؤں کی صف اول کا امین ہے۔ہمارے ہی اذہان اس دامن نوری کے فیض کرم کے خوشہ چیں ہیں۔ہماری وابستگی کس در سے ہے کبھی غورکیا؟آہ! جس کی زلف گرہ گیر کی اسیری کادعویٰ ۔اسی سے یہ برگشتہ روی، اسی سے دامن چھڑانے کی سعی، یہی سبب ہے کہ نگاہیں ہماری جانب اٹھتی ہیں۔طنز، طعنہ و تشنیع بھری نگاہیں ۔ ہم کیا تھے کیاہوگئے، ہم خود ہی اس کے سزاوار ہوئے۔لیکن ان سیہ بخت گھٹاؤں میں بھی کامرانی و سرفرازی کی قندیلیںہمیں کو فروزاں کرنی ہیں۔کاروان شوق و عشق کو منزل دوام ہمیں ہی بخشنا ہے ۔
دلیل صبح روشن ہے ستاروںکی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھر اگیا دور گراں خوابی
طاعت پر اجرت :
سوال:ایک شخص نماز جنازہ پڑھانا جانتاہے پھر بھی نہیں پڑھاتا ،بلکہ یہ کہتا ہے کہ گاؤں کی نکاح خوانی کے حقوق مجھے دیے جائیں اورلوگ میری زمین کی لگان میری جانب سے اپنی جیب سے ادا کریں توپڑھاؤں۔ایسے شخص کے واسطے کیا حکم ہے ؟
جو اب :طاعت پراجرت ٹھہراناحرام ہے،یہی اصل مذہب ہے۔متاخرین نے بخوف ضیاع بعض طاعت کا استثنا کیا ہے۔ وہ وہی ہیں جن میں ضرورت ظاہرہ ہے۔پھرخاص طاعت پر عقد کرناتو برا ہی ہے ۔کسی کے نزدیک نہ چاہیے ۔دربارہ اجرت برطاعت شامی میں فرمایا:
’’قد اتفقت کلمتہم جمیعاعلی التصریح باصل المذہب من عدم الجواز ثم استثنوا بعدہ ما علمتہ فہذا دلیل قاطع و برہان ساطع علی ان المفتی بہ لیس ہو جواز الاستیجار علی کل طاعۃ بل علی ما ذکرہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاہرۃ تبیح الخروج عن اصل المذہب۔‘‘
(ردالمحتار ج۔۰ص ،کتاب الاجارہ باب الاجارۃ الفاسدہ ،دارالکتب العلمیہ ،بیروت )
ان تمام فقہاکے الفاظ اس صراحت پر متفق ہیںکہ اصل مذہب یہی ہے کہ طاعت پر اجرت ناجائز ہے۔پھراس کے بعدفقہاے عظام نے کچھ کا استثنا فرمایا ،جسے آپ ابھی جان چکے۔پس یہ اس بات کی دلیل قطعی اور برہان روشن ہے کہ مفتی بہ قول یہ نہیں کہ ہر طاعت پر اجرت لینی جائز ہے ، بل کہ صرف مذکورہ چیزوں پر اجرت لیناجائز ہے کیوں کہ ان میں ایسی واضح ضرورت ہے جو اصل مذہب سے رجوع کو مباح کردیتی ہے۔
پھر صاحب بحرکاقول جوہرہ کے حوالے سے اور شیخ رملی کا حاشیہ بحر کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اقول المفتی بہ جواز الاخذ استحسانا علی تعلیم القرآن لاعلی القراء ۃ المجردۃ کما صرح بہ فی التاتارخانیۃ حیث قال لا معنی لہذہ الوصیۃ ولصلۃ القاری بقرآنہ لان ہذا بمنزلۃ الاجرۃ والاجارۃ فی ذلک باطلۃ وہی بدعۃ ولم یفعلہا احدمن الخلفاء ، و قد ر ذکرنا مسئلۃ تعلیم القرآن علی استحسان یعنی للضرورۃولاضرورۃ فی الاستیجار علی القراۃ علی القبر اہ‘‘۔ (رد المحتار)
میں کہتاہوںکہ مفتی بہ قول یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم دینے پر اجرت لینا استحساناً جائز ہے۔مگر صرف قرآن پڑھنے پر اجرت لینا جائز نہیں،جیساکہ اس کی تصریح تاتارخانیہ میںموجود ہے۔ انھوںنے فرمایا کہ اس وصیت کا کوئی معنی نہیں،اور قاری کا قرآن پڑھنے پر صلہ لینے کا کوئی مطلب نہیں،کیوں کہ وہ اجرت کے مرتبہ میں ہے اوراس پر اجرت کے لین دین کا معاملہ باطل ہے اوریہ ایسی بدعت ہے کہ جسے خلفا میں سے کسی نے نہ کیا۔ رہا تعلیم کا مسئلہ تو ہم نے بتایاکہ وہ استحسان یعنی ضرورت کی بنیاد پر ہے ۔ اور قبر پر قرآن خوانی کے لیے اجرت لینا کوئی ضرورت نہیں۔
پھر اجرت بھی کیسی معقول کہ نکاح خوانی کے حقوق مجھے دیے جائیں۔
نیز فتاویٰ عزیزیہ میں ہے:
قاعدہ اجارہ آنست کہ بر واجب و مندوب منعقدنمی شودو تعلیم القرآن فرض بالکفایہ و مندوب علی العین پس محل اجارہ نیست و تعلیم قرآن را متاخرین جائز داشتہ اند، کہ اجرت بقرآن کرد اما مراد ایشاںہمیںتعلیم است کہ دروے افعالِ دیگر وراے تعلیم مشروط باشند کہ محلِ اجارہ تو انند شد نہ محض تعلیم مثلاًشخصے بباید کہ مرا فلاںآیت تعلیم کنی وایں ازوے مزدوری خواہدکہ ایں اجرت بالاجماع بین المتقدمین و المتاخرین حرام است ۔
اجارہ کاقاعدہ یہ ہے کہ واجب و مستحب پر یہ منعقد ہی نہیںہوتااور تعلیم قرآن فرض کفایہ اورمندوب عین ہے۔ تو یہ محل ا جارہ نہیں اور تعلیم قرآن کو متاخرین نے جائز فرمایا کہ قرآن پراجرت ٹھہرائی ہے ۔اس سے ان کی مراد وہ تعلیم ہے جس میں تعلیم قرآن کے علاوہ دوسرے ایسے افعال بھی مشروط ہوں جو محل اجارہ ہوسکتے ہیں نہ کہ صرف تعلیم قرآن جیسے کوئی شخص آئے کہ مجھے فلاںآیت سکھا دیجیے اوریہ اس سے اجرت طلب کرے تو ایسی اجرت متقدمین و متاخرین دونوںکے یہاں بالاجماع حرام ہے۔
اسی میں فرمایا :
نکتہ درآںکہ اجارہ بر اداے طاعت خواہ فرض باشد خواہ نفل، جائز نیست،آں است کہ شخصے مباشر طاعت شدہ است بحکم وعدہ الٰہی مستحق اجرت اخروی گشتہ۔ پس اگر اجر دینوی از مخلوق برآں طلب نمایداجتماع اجرین و عوضین درحق یک کس بیک فعل لازم خواہدآیدمثل آنکہ شخصے اجیر خاص یک کس قرار یافتہ اورانمی رسد کہ اجیر خاص شخصے دیگر شود درہماں وقت کذا فی الہدایہ
کسی بھی طاعت پر خواہ فرض ہویا نفل اجرت لینا جائز نہیں،اس میںنکتہ یہ ہے کہ جو شخص طاعت بجالایا تو بہ حکم وعدہ الٰہی، اجرت اخروی کامستحق ٹھہرا تو اگر مخلوق سے بھی اس پر اجرت دنیوی طلب کرے تو شخص واحد کے لیے ایک کام کے بدلے دو دوا جر و عوض کا اجتماع لازم آئے گا۔جیسے کوئی شخص کسی خاص آدمی کی ملازمت قبول کرے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی دوسرے شخص کا بھی خاص اسی وقت میں ملازم بن جائے۔ ایسا ہی ہدایہ میں ہے۔
فتاویٰ بزازیہ میں ہے:
’’لایحل اخذ الاجرۃ علی الامۃ والتاذین بالشرط‘‘ اذان و امامت پر مشروط طورپر اجرت لینا جائزنہیں۔
یہاںا مامت صلوٰۃجنازہ پر وہ اجرت ٹھہرا رہاہے ۔ اور اجرت بھی کیا؟نکاح خوانی کے حقوق ، تو یہ ناجائز در ناجائز ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔ ؎
دوستو! تصورات کی دنیا سے باہرنکل کر حقائق کی دنیا میں قدم رکھو،دیکھو تمھارے کردار کے چمن کتنے خزاں رسیدہ ہوگئے۔انھیں بہاروںسے آشنا کرو ،انھیں زندگی کی دھڑکنیں عطا کرو۔یہ تمھاری ہی ذمہ داری تو ہے ۔خواب غفلت میں کیوںپڑے ہو۔
غیر عربی میں جمعہ کا خطبہ پڑھنا :
سوال :جمعہ کا خطبہ غیر عربی میں اردوآمیز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: جمعہ کا خطبہ خالص عربی ہو،خطبہ جمعہ میں کسی اور زبان کی آمیزش مکروہ اور خلافِ سنت ہے۔ اس بدعت سیئہ کی ترویج میں وہی حضرات پیش پیش تھے جو مسنون اور مستحسن امور پر بڑی بے باکی سے ناجائز اور بدعت ہونے کا حکم صادر کرتے ہیں۔مگر اس مکروہ کو ایسا محبوب بنالیا کہ اس کے لیے دور کی کوڑی لاکر اسے رواج دینے کی سعی ناکام میںمبتلاہوئے۔ حضور مفتی اعظم اور شیر بیشہ اہل سنت کے فتاویٰ نے ان کے لبوں پر مہر سکوت ثبت کردی۔اس کے عدم جواز کے سلسلے میں مختلف فتاویٰ اشاعت سے ہم کنار ہوئے۔شیربیشہ اہل سنت نے اپنے رسالہ السنۃ السنیہ فی کون الخطبۃ بالعربیۃ مطبوعہ بریلی میں نقایہ،ہدایہ، کفایہ،مجمع الانہر در منتقی شرح ملتقی، در مختار، فتاویٰ عالمگیری،شرنبلالیہ،حاشیہ درر، مراقی الفلاح برجندی عینی،شرح کنز، رد المحتار، فتح القدیر وغیرہا کتب فقہیہ کے حوالے سے اس بات کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ امام اعظم کے نزدیک قراء ت ، خطبہ اورتشہد پہلے غیر عربی میںجائز مع الکراہت تھے لیکن آپ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات میں اپنے صاحبین کے قول کی جانب رجوع فرمالیا ۔اور عدم جواز کا قول ہی صحیح،مفتیٰ بہ، معتمد اورمختارٹھہرا۔ اس لیے امام صاحب کے قول اول کی بنیاد پر غیرعربی میں جواز خطبہ کی راہ باقی نہ رہی ۔یوں آپ نے مسلکِ حق کے قلعہ کواپنی جولانی اورخداد اد فہم و فراست اورقوت ادراک کے ذریعہ استحکام بخشا ۔ مزید تفصیل کے لیے نفس رسالہ کا مطالعہ کیاجائے۔ فتاویٰ علما الہند علی منع الخطبۃ بغیرالعربیۃمطبوعہ ترکی استنبول میں بھی اس کی تفصیل مذکورہے جس میں امام نووی کی تصنیف روضہ اور فتح المعین ،رد المحتارا ور شرح منہاج کے حوالے سے علامہ رملی وغیرہ کے اقوال قلم بند کیے گئے ہیں۔اور کافی شرح و بسط کے ساتھ اس کا پورا مستحکم ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ غیر عربی میں خطبہ دینا مکروہ اور بدعت سیئہ ہے۔
مزامیرکے ساتھ قوالی:
سوال: کیافرماتے ہیںعلماے دین کہ ایک شخص اپنی خانقاہ کو مسجد سے بہتر بتاتا ہے اور کہتاہے کہ حضور پرنور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔اور فرمایا تو بہت کم زور ہوگیا ہے۔تجھ کونماز معاف ہے۔ہرسال قوالی مزامیر کے ساتھ عرس میں کراتا ہے ۔خود سنتا ہے اور لوگوں کوسنواتاہے ۔ایسا فعل کرنایاایسے کی تعظیم کرنا کیساہے؟
جواب :اس سے اس کی کیاشکایت کہ وہ اپنی خانقاہ کو مسجد سے بہتر بتاتا ہے ،جب وہ اپنے لیے نمازہی معاف جانتا ہے ۔ما علی مثلہ یعد الخطاء جب کہ اس کی عقل کا دیا اس کی کھوپڑی میں ٹمٹما رہا ہے ۔ (المعتمد المستند، رد المحتار، شفا شریف سے ایسے اشخاص کے بارے میںحوالہ جات نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں)اس کا یہ قول صریح کفر ہے،اورحضور پرنورسیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمداً افتراے قبیح،یہ یوںبھی کفرہے۔ا ورفرضیت نماز کاانکارہے،یوںبھی،اس کے قائل کے کافر اور مستحقِ عذابِ نار ہونے میں کیا شک ۔ والعیاذباللہ تعالیٰ، ایسے سے قوالی مع مزامیر سننے سنانے یا کسی حرام کے ارتکاب کی کیاگنجائش؟ بدمذہب کی تعظیم بھی حرام ہے جب تک ایسے لوگ توبہ نہ کریں، مسلمان ان سے میل جول موقوف رکھیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
محترم قارئین! نفس قوالی کے بارے میںتو مختلف مشاہیر امت کے مختلف اقوال ملتے ہیں۔لیکن مزامیرکے ساتھ قوالی کی حرمت پر تو اجماع امت ہے ۔فریقین اس موڑ پر آکرمتفق دکھائی دیتے ہیں۔لیکن جب کہ معاشرہ کی نیرنگی حرمت وحلّت سے بالاترہوکر سوچنے کا عادی ہوچکا ہے۔رقص و سرود اور نغموںکے ہجوم میںمزامیر کے ساتھ قوالی کی حرمت پر کس کی نگاہِ التفات اٹھتی ہے ؟
کیاتثویب بدعت ہے؟:
سوال:اذان کے بعدصلوٰۃ پکارنا کیسا ہے ؟ بعض لوگ اسے بدعت سیئہ کہتے ہیںاوراگرجائزتو ہر وقت کی اذان کے بعد کہہ سکتے ہیںیاکسی خاص وقتمیں ؟اوردیگراوقات میں جائزنہیں ؟
جو اب:صلوٰۃ بعد اذان،اعلام بعد اعلام ہے ۔بلاشبہہ یہ جائز و مندوب و مستحسن ہے۔عامہ کتبِ معتبرہ میں اس کا جواز مزبور اور استحسان مسطورہے۔جو اسے بدعت سیئہ بتاتاہے جھوٹا ہے۔تمام علماے متاخرین پر استحسانِ بدعت سیئہ کاجھوٹا الزام لگاتا ہے ۔بے شک ہر وقت کی اذان کے بعد صلوٰۃ پکارنے کا یہی حکم ہے مگر مغرب کہ اس میں اعلام بعد اعلام کی ضرورت نہیں، لوگ اذان کے ساتھ ہی خود چلے آتے ہیں اور اگر مغرب میں بھی کہیں توحرج نہیں۔اکابرائمہ اورفقہا متاخرین رضوان اللہ تعالیٰ ٰ علیہم اجمعین نے مطلقاً سب نمازوں میں جماعت کے لیے حسبِ عرف عام و عادتِ اہل ہر بلد ( شہر) جوکچھ بھی وہ مقرر کرلیں،تثویب کو جائز ومستحسن فرمایا۔ (درمختار)
یثوب بین الاذان والاقامۃفی الکل للکل بما تعارفوہ الا فی المغرب ۔اہ ملخصاً۔
سوائے مغرب کے سبھی نمازوںمیںاذان و اقامت کے مابین اپنے اپنے عر ف کے مطابق تثویب جائزہے۔ رد المحتار (ج۔ص ،باب الاذان دارالکتب العلمیہ ،بیروت)
میںنہرسے اوراس میں مجتبیٰ سے ہے۔
’’کتنحنح او قامت قامت اوالصلاۃالصلاۃ ولواحد ثواا علاماً مخالفاًلذلک جاز‘‘۔
جیسے کھانس کر یا قامت قامت کہہ کر یاالصلوٰۃ الصلوٰۃ کہہ کر اوراگر اس سے کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ ایجاد کرلیںتوبھی جائز ہے۔
شامی میںیہ عنایہ شرح ہدایہ سے نقل فرمایا :
احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامۃعلی حسب ما تعارفوہ فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع ابقاء الاول یعنی الاصل وہو تثویب الفجر۔وما رآہ المسلمین حسناً فہو عنداللہ حسن۔ (ج۔۲ص ۵۶،باب )
حزم واحتیا ط :
حضرت مولانا عبد المبین نعما نی صا حب لکھتے ہیں :
۱۳؍ ربیع الاول شریف ۱۳۹۴ھ کا واقعہ ہے، صبح کے وقت جب رازؔ الٰہ آبادی صاحب (مرحوم) جو ایک مشہور شاعر اور حضور مفتیِ اعظم ہند قدس سرہ سے بیعت تھے اور غایت درجہ عقیدت رکھتے تھے، خدمتِ اقدس میں آئے اور کچھ روپے پیش کر کے عرض گزار ہوئے کہ یہ چادر شریف کا بچا ہوا روپیہ ہے جو ہر سال ہم لوگ مزارِ اعلیٰ حضرت پر پیش کرتے ہیں، تو سرکار مفتیِ اعظم قدس سرہ نے ارشاد فرمایا:
میں کیوں لوں؟جن لوگوں نے دیا ہے انھیں ہی واپس کر دیجیے۔
راز صاحب نے مزید اصرار کرتے ہوئے عرض کیا، حضور قبول فرما لیں، ان لوگوں نے کہا ہے کہ اس کو مزار شریف پر صرف کر دیا جائے۔ اس پر بھی حضور مفتیِ اعظم نے قبول نہ فرمایااور ارشاد فرمایا:– میں تو چادروں کا یہ انداز پسند بھی نہیں کرتا، چادرِ مزار کا مقصد ہے لوگوں کی نظروں میں امتیاز پیدا کرنا کہ یہ کسی ولی یا بزرگ کا مزار ہے تا کہ زائرین فاتحہ پڑھیں اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ اس مزار پر جو کادم ہو اس کی اس سے امداد کی جائے کہ جب کوئی دوسری چادر پڑے تو وہ پہلی اتار کر اس کو کام میں لائے۔ آج کل حال یہ ہے کہ دس ہزار روپے کی چادر اجمیر شریف جا رہی ہے تو دس ہزار کی بغداد شریف ، اور مقصد چادر ڈالنے والوں کا یہ ہوتا ہے کہ (یہ نمائش کے لیے) ہمیشہ مزار پر پڑی رہے۔اس ارشاد سے حضور مفتی اعظم قدس سرہ کا چادر مزارات سے متعلق معتدل موقف سامنے آتا ہے اور ان کا تقویٰ بھی ظاہر ہے کہ چادر سے بچی ہوئی رقم قبول کرنے سے انکار فرما دیا۔
تقویٰ کی ایک مثال :
۱۵؍ربیع الاول شریف ۱۳۹۴ھ کو ہوڑہ تکیہ پاڑہ میں ہونے والی سرکارِ مدینہ کانفرنس میں شرکت کے لیے سرکار مفتیِ اعظم علیہ الرحمہ بریلی شریف سے بذریعہ پنجاب میل ٹرین تشریف لے جا رہے تھے ، حضور کے ہم راہیوں میں مولانا مفتی ریاض احمد سیوانی اور جناب حاجی محمد فاروق صاحب بنارسی ، جو حضرت کے خاص خادم و مرید اور خلیفہ ہیں اور راقم الحروف نعمانی قادری تھے۔ لکھنو اسٹیشن پر جب ٹرین رکی تو حضور نے کھانے کا ارادہ فرمایا، دروازے پر بیٹھ کر ہاتھ دھونے لگے ، اچانک پیچھے سے کرتے کا دامن گر گیا اور اس میں کچھ کیچڑ لگ گئی جس کی مقدار مشکل سے چوتھائی درہم تھی، میں نے دیکھتے ہی فوراً پیچھے سے دامن اٹھا لیا — جب اس کا احساس ہوا تو استغفراللہ اور لا حول ولا قوۃ الا بااللہ پڑھنے لگے، اس پر دیگر حضرات نے عرض کیا، حضور کرتا پہنے رہیں ، ہم لوگ ابھی دھو دیتے ہیں ، لیکن حضور نے ناراضگی کے ساتھ فرمایاکیسے دھووگے؟پھر کرتا اتار کر دیا اور دریافت فرمایا، کیسے دھلوگے؟مفتی ریاض احمد صاحب نے عرض کیا، حضور نل میںپانی ہے اسی سے دھل دیتے ہیں۔ فرمایا، پہلے اس کو دھوپ میں سکھا لو اور سکھانے کے بعد جو کیچڑ لگی ہے اس کو کھرچ دو پھر دھلو۔ چنان چہ ہم لوگوں نے ایسا ہی کیا ، سکھا کر دھلا گیا پھر خشک کر کے حضرت کو پہنا دیا گیا۔
اول تو کیچڑ کا نجس ہونا قطعی نہیں ، دوسرے پر وہ ایک درہم سے بھی بہت کم تھا جو معاف ہے پھر بھی اس سے پاکی کا اس قدر اہتمام اور وہ بھی سفر میں ، یہ سرکار مفتیِ اعظم ہی جیسے صاحبِ تقویٰ کا کام ہے۔
دوسری بات یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ اس کیچڑ کو فوراً دھل کر تین بار نچوڑ دیا جاتا تب بھی تطہیر کا عمل پورا ہو جاتا ، مگر پہلے خشک کر کے کیچڑ کے جرم کو کھرچ کر دور کرنے کا حکم دیا پھر دھلنے کو کہاتاکہ پانی پڑنے کے بعد کیچڑ کپڑے پر پھیلنے نہ پائے، ہاں کھرچنے کے بعد جو ذرے باقی رہ گئے ہوں گے ان کی مجبوری ہے کہ وہ بغیر پانی کے صاف ہونے والے نہیں، یہ تقویٰ کی اعلیٰ مثال ہے اور ان لوگوں کے لیے باعثِ عبرت بھی جو نجس کپڑوں کی پاکی میں سستی برتتے ہیں۔
داڑھی رکھ کر منڈوانے والے :
جناب فراز الدین صاحب نارکُل ڈانگہ کلکتہ بیان کرتے ہیں، ایک شخص نے عرض کیا؛
اس شخص کا کیا حکم ہے جو داڑھی رکھ کر منڈوا دے؟
مفتیِ اعظم نے اس کا جواب یوں ارشاد فرمایا، داڑھی کا منڈوانا اور مسجد کا ڈھا دینا برابر ہے۔
سائل نے عرض کیا، حضور ایسا کیوں؟
ارشاد فرمایا ، اس لیے کہ جہاں مسجدیں ہوتی ہیں اس کو دیکھ کر ہر ایک سمجھتا ہے کہ یہاں اسلام کے ماننے والے ہیں اور داڑھی کا بھی یہی حال ہے کہ جس کے چہرے پر داڑھی دیکھی جائے گی ، یہ پتہ چل جائے گا کہ یہ مسلمان ہے ، اسلام کا ماننے والا ہے ۔
گویا داڑھی منڈوانااسلام کے نشان کو مٹانا ہے، وہ لوگ جو صبح و شام داڑھیاں مونڈتے ہیں وہ سبق لیں کہ کیسا سنگین و شدید جرم کر رہے ہیں ، اور خدا و رسولِ خدا کی کیسی ناراضی مول لے رہے ہیں۔
(جہان مفتی اعظم: ص۸۹۹تا ۹۰۲)
تصانیف
آپ کی تصانیف میں سے بعض جو راقم الحروف نے مطالعہ کیں اور فتاویٰ مفتی اعظم کی چھ جلدوں میں مرتب کرکے شائع کیں یہ ہیں :
۱۔ وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان ۱۳۳۰ھ
۲۔ ادخال السنان الی حنک الحلقی بسط البنان ۱۳۳۲ھ
۳۔ وقایہ اہل السنۃ عن مکر دیوبند والفتنہ ۱۳۳۲ھ
۴۔ نفی العار عن معائب المولوی عبدالغفار ۱۳۳۲ھ
۵۔ مقتل کذب وکید ۱۳۳۲ھ
۶۔ الموت الاحمر علی کل انحس اکفر ۱۳۳۷ھ
۷۔ القول العجیب فی جواز التثویب ۱۳۳۹ھ
۸۔ الحجۃ الواہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ ۱۳۴۲ھ
۹۔ الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی ۱۳۳۱ھ
۱۰۔ الہی ضرب براہل حرب ۱۳۳۲ھ
۱۱۔ مقتل اکذب واجہل ۱۳۳۲ھ
۱۲۔ طرق الہدیٰ والارشا د ۱۳۴۱ھ
۱۳۔ القسورہ علی ادوارالحمر الکفرۃ ۱۳۴۳ھ
۱۴۔ النکۃ علی مراء کلکتہ ۱۳۳۳ھ
۱۵۔ شفا ء العی فی جواب سوال بمبئی
۱۶۔ وہابیہ کی تقیہ بازی
۱۷۔ طرد الشیطان
۱۸۔ کانگریسیوں کارد
۱۹۔ تنویر الحجہ لمن یحوز بالتواء الحجۃ
۲۰۔ مسائل سماع
۲۱۔ کشف ضلال دیوبند (حواشی وتکمیلات الاستمداد)
تصحیح یقین بر ختم نبیین :
یہ کتاب قا دیا نیوں کے رد میں ہے ۔رضا اکیڈمی ممبئی سے شا ئع ہو ئی تھی ۔
وقعات السنان فی حلق المسماۃ بسط البنان (۱۳۳۰ھ)
یہ کتاب ۷۴؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں مولوی اشرف علی تھانوی کی تصنیف ’’بسط البنان‘‘ اور مولوی قاسم نانوتوی کی یہ تحذیر الناس پر بھر پور تنقید ہے ۔
یہ کتاب اما م احمد رضا لا ئبریری بریلی شریف سے شا ئع ہو ئی تھی ۔
ادخال السنان إلی الحنک الحلقی بسط البنان (۱۳۳۲ھ)
یہ قدیم طرز کے ۸۸؍ صفحات پر مشتمل ہے جو حفظ الایمان کی کفری عبارت کی صفائی میں لکھے گئے رسالہ ’’بسط البنان ‘‘ کا دوسرا رد ہے ۔یہ کتاب مطبع اہل سنت بریلی شریف سے نبیرۂ اعلیٰ حضرت مولانا ابراہیم رضا خاںعر ف جیلا نی میاں کے زیر اہتما م طبع ہو ئی ۔
الرمح الدیانی علی راس الوسواس الشیطانی (۱۳۳۱ھ)
یہ رسالہ گویا ’’حسام الحرمین‘‘ کا خلاصہ ونچوڑ ہے ۔ اس میں ’’تفسیر نعمانی ‘‘ کے مؤلف پر حکم کفر وارتداد ہے ۔ اعلیٰ حضرت اور حضرت صدرالشریعہ علیہما الرحمۃ والرضوان وغیرہما کی اس کتاب پر تصدیقات ہیں ۔ یہ کتاب مطبع رو ز با زا ر اسٹیم پر یس امرتسر سے شا ئع ہو ئی ۔
النکۃ علی مرآۃ کلکۃ (۱۳۳۲ھ)
یہ رسالہ مسئلہ اذان سے متعلق ہے ۔
نفی العار عن معائب المولوی عبدالغفار (۱۳۳۲ھ)
یہ رسالہ ۲۸؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں جمعہ کی اذان ثانی کے متعلق مولوی عبدالغفار خاں رام پوری کی تیسری تحریر کا رد ہے ۔یہ کتا ب بھی مطبع اہل سنت بریلی سے صدر الشریعہ مولانا امجد علی صاحب کے زیر اہتما م طبع ہو ئی تھی ۔
مقتل کذب وکید (۱۳۳۲ھ)
یہ رسالہ ۷۶؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے ۔ اس میں بھی مسئلہ اذان کے متعلق مولوی عبدالغفار رام پوری کی تحریر کا رد ہے ۔
مقتل اکذب واجہل (۱۳۳۲ھ)
یہ رسالہ مولوی عبدالغفار خاں رام پوری کی پانچویں تحریر کا رد ہے ۔ اور مولوی صاحب رام پوری کی اس تحریر کا پہلی تحریروں سے بھی زیادہ اکذب واجہل ہونا اظہر من الشمس کردیاہے ۔
الموت الاحمر علی کل انحس اکفر(۱۳۳۷ھ)
یہ کتاب مکتبۃ الحبیب الٰہ آبا د سے حبیب المطا بع برقی پریس الٰہ آبا د سے ۱۳۹۴ھ میں شا ئع ہو ئی ۔
القول العجیب فی جواز التثویب (۱۳۳۹ھ)
یہ رسالہ اذان کے بعد صلاۃ وسلام پکارنے کے متعلق چند فتاوے کا مجموعہ ہے ۔ یہ رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہو ئی تھی ۔
طرق الہدیٰ والارشاد إلی احکام الامارۃ والجہاد (۱۳۴۱ھ)
اس رسالہ میں جہاد ، خلافت ، ترک موالات ، نان کو آپریشن اور قربانی گاؤ وغیرہ کے متعلق چھ سوالات کے جوابات ہیں ۔یہ کتاب حسنی پریس بریلی سے شائع ہو ئی تھی ۔
حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ (۱۳۴۲ھ)
یہ رسالہ ۴۸؍ صفحات پر مشتمل ہے ،بعض لیڈروں نے حج بیت اللہ سے روکنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی تھی کہ شریف مکہ ظالم ہے اور اس کے مظالم قرامطہ جیسے ہیں ۔ حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے اس رسالہ میں اس کا رد بلیغ فرمایا ۔یہ کتاب رضا اکیڈمی ممبئی سے شا ئع ہو ئی ۔
طرد الشیطان (عمدۃ البیان)
نجدی حکو مت کی جا نب سے حجا ج کرام پر ٹیکس لگا یا گیا تھا جس کے رد میں یہ کتاب عر بی زبا ن میں مکہ مکرمہ کے اندر تصنیف فر ما ئی ۔ ابھی تک یہ کتا ب غیر مطبو عہ تھی ، پہلی مر تبہ منظر عا م پر آرہی ہے ۔
مسائل سماع
یہ رسالہ ۳۲؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں محفل سماع وسرور، راگ ور قص اور مزامیر ومعازف سے متعلق ہے ۔رضا اکیڈمی ممبئی سے شا ئع ہو ا ۔
شفاء العی فی جواب سوال بمبئی ۔
یہ رسالہ غیر مقلدین کے رد میں ہے ۔ اما م احمد رضا لا ئبریری بریلی سے شائع ہو ئی ۔
تنویر الحجہ بالتواء الحجہ
نجدیوں کے مظا لم کی وجہ سے حج کے التواکا مد لل فتو یٰ ہے ۔ جو مطبع اہل سنت وجما عت سے ۱۳۴۵ھ میں شائع ہوا ۔
وہابیہ کی تقیہ بازی
یہ کتاب رضا اکیڈمی ممبئی سے شائع ہو ئی تھی ۔
نمود ظلم مشرکین گا ؤ زور: (۱۹۳۰ء)
یہ کتاب کا نگریسیوں کے رد میں ہے ، یہ قسط وا ر ما ہنا مہ یا د گا ر رضا میں ۱۳۴۹ھ میں شائع ہو ئی ۔
از قلم :علامہ مفتی محمد حنیف خان رضوی بریلوی
امام احمد رضا اکیڈمی ، بریلی شریف