علامہ تحسین رضا:حیات وخدمات


اعلی حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ کی ہمہ جہت شخصیت اپنی دینی خدمات اور تبلیغی کارناموں کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں مر جع خلائق رہی ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ یہ عظمتیں صرف ان کی ذات تک محدود رہیں بلکہ آپ کے خانوادے میں کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہر دور میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتی رہی ہے جن کی دینی،ملی خدمات اور علمی عبقریت کے آستانے پر عوام سے لے کر خواص تک اپنی محبتوں کا خراج پیش کرنے میں سعادت محسوس کرتے ہیں۔ اور اسے اس خانوادے پر خلاق عالم کی بے پناہ کرم پاشیاں کہنا چاہئے کہ ہر فرد اپنے عہد کا آفتاب و ماہتاب بن کر طلوع ہوا۔اعلی حضرت،استاد زمن،مفتی آفاق مفتی محمد رضا، حجۃ الاسلام، مفتی اعظم ہند ،علامہ حسنین رضا، مفسر اعظم ہند، علامہ ریحان رضا، علامہ سبطین رضا اور تاج الشریعہ وغیرہ قدست اسرارہم وہ ذوات قدسیہ ہیں جو اپنے اپنے عصرمیں مرکزعلم بھی اور مرکز افتاء بھی۔ انہی میں ایک نمایاں، محترم اور معتبر نام صدر العلماء مظہر مفتی اعظم حضرت علامہ تحسین رضا قدس سرہ کا ہے۔

حضرت صدر العلماء کی ولادت با سعادت باسعادت محلہ سوداگران بریلی شریف میں بتاریخ 14 شعبان المعظم 1348ھ مطابق 1930ء کو ہوئی “محمد” نام تجویز ہوا، “تحسین رضا” عرف قرار پایا، شاعری میں تخلص “تحسین” اختیار فرمایا علمائے کرام، مشائخ عظام اور دانشوران قوم و ملت نے بقیۃ السلف، عمدۃالخلف، خیرالاذکیا،زبدۃ الاتقاء، مظہر مفتی اعظم، پیکر علم و عمل، شیخ الحدیث، محدث بریلوی، استاد الاساتذہ اور صدر العلماء جیسے عظیم القابات سے نوازااو یاد کیا۔ خاندان کے بزرگ شخصیات کے زیر سایہ تربیت ہوئی قدرت نے ذہانت و فطانت اورفہم و فراست کی دولت سے نوازا تھا۔ ابتدائی تعلیم تو مقامی مکتب و مدرسہ میں حاصل کی البتہ عربی و فارسی تعلیم کے لئے تقریبا 12 سال کی عمر میں آپ کے والد گرامی حکیم الملت حضرت علامہ حسنین رضا علیہ الرحمہ نےغالبا1360ھ مطابق1941ء میں دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف میں داخل فرمایا۔جہاں آپ پوری توجہ انہماک اور یکسوئی کے ساتھ حضور محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ اور دیگر اساتذہ کی خصوصی عنایت سے بہرہ مند ہوتے رہے۔ اس کے بعد منتہی کتابوں کی تعلیم کے لئے آپ کے والد گرامی علیہ الرحمہ نے غالبا1368ھ مطابق 1949ء میں یادگار اعلی حضرت دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں داخل فرمایا۔ والد ماجد استاذ العلماء کی خواہش و ہدایت کے مطابق منظر اسلام کے نابغہ روزگار درسگاہی علوم و فنون کے فنکار علماء متبحرین وماہرین اساتذہ کرام سے کمال ذوق جذبے اور لگن کے ساتھ پڑھا اور ہمیشہ اپنے ہم سبق ساتھیوں سے امتحانات میں سبقت لیکر فائق وفائزالمرام ہوئے۔

مگر تقسیم ہند کے وقت محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد پاکستان تشریف لے گئے۔ اور وہاں ایک عظیم درسگاہ جامعہ رضویہ مظہر اسلام (فیصل آباد پاکستان) کے نام سے قائم فرمائی تو آپ کا بھی شوق مچلا لہٰذا والد صاحب کی اجازت ملتے ہی آپ بھی پاکستان تشریف لے گئے یہاں رہ کر چھ ماہ کی مختصرسی مدت میں دورہ حدیث مکمل کیا۔ آپ نے خدا داد صلاحیت اوراپنی علمی لیاقت کی وجہ سے اساتذہ کرام خصوصاً محدث اعظم پاکستان کی نگاہ میں مکمل اعتماد حاصل کرلیا۔جس کا اعتراف خود حضرت محدث اعظم پاکستان نے حضور مفتی اعظم ہند کی بارگاہ میں تحریر کردہ اپنی ایک گرامی نامہ میں یوں فرمایا” عزیزم مولانا تحسین رضا خان صاحب سلمہ کی دستاربندی حضور والا کو مبارک ہو۔ دارالعلوم (مظہر اسلام بریلی شریف) میں اسباق جو ان کے سپرد کیے جائیں ان میں مشکوۃ شریف، ان کے پاس ضرور رکھی جائے اور آئندہ سال نسائی شریف اس کے بعد ابن ماجہ پھر مسلم شریف پھرترمذی شریف جب ہرسال حدیث کی ایک کتاب پڑھا لیں تو بعد میں بخاری شریف۔خدا چاہے تو اس طرح تدریجایہ دورۂ حدیث کے اسباق پڑھالیں گے۔ حدیث کے سبق کے علاوہ جو اسباق ان کے مناسب ہوں دیے جائیں۔کوئی چھ ماہ اس جگہ انہوں نے قیام کیا ہےاگر دو سال یہاں قیام ہو جاتا تو خدا چاہے مزید استعداداورقابلیت ہوجاتی۔ ماشاءاللہ سمجھ دار ہیں ہوشیار ہیں”

دیکھیے کس وثوق اور اعتماد سے صلاح پیش کر رہے ہیں اپنے دور کے محدث اعظم، انداز تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو حدیث میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ یقینا حضور محدث اعظم پاکستان کی یہ پر اعتمادسفارش آپ کی اعلی استعداد و صلاحیت اور انتہائی ذہانت و فطانت کے اعتراف کا کھلا ثبوت ہے۔

حضرت صدر العلماء کے اساتذہ کرام:

آپ نے اپنے وقت کے جلیل القدر علما ئے کرام کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا الشاہ محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ (مصنف بہار شریعت) سے اپ نےتفسیر جلالین شریف پڑھی۔ مفتی اعظم ہند علامہ شاہ محمد مصطفی رضا خان علیہ الرحمہ سے آپ نے بھرپور علمی اورروحانی استفادہ کیا۔ بالخصوص حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے اپ نے فتوی نویسی جیسا اہم علم حاصل کیا۔ محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا محمدسردار احمد رضوی علیہ الرحمہ سے علم حدیث کی تکمیل کی انکے علاوہ شمس العلماء مفتی قاضی شمس الدین احمد رضوی جعفری جونپوری (مصنف قانون شریعت)، شیخ المعقولات مولانا سردار علی خان رضوی بریلوی، شیخ الاسلام و المسلمین حضرت علامہ غلام یاسین صاحب رشیدی پورنوی، مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی وقار الدین قادری رضوی،شیخ العلماء مولانا غلام جیلانی رضوی اعظمی علیہم الرحمتہ والرضوان جیسی گراں قدر شخصیات سے اکتساب علم کیا۔

تدریسی مراحل:

حضرت صدر العلماء نے فراغت سے قبل ہی حضور مفتی اعظم ہندکے حکم خاص پر دارالعلوم مظہر اسلام مسجد بی بی والی بریلی شریف میں تدریس کا آغاز فرمادیاتھا۔

پھراگست 1954ء میں حضور محدث اعظم پاکستان کی بارگاہ میں فیصل آباد تشریف لے گئے جہاں چھ ماہ رہ کر دورہ حدیث شریف مکمل کیا۔ واپسی پر دوبارہ پھر دارالعلوم مظہر اسلام میں تعلیم دینے میں مشغول ہوگئے۔ یہاں آپ نے 18 سال تک تدریسی فریضہ انجام دیا۔ اس دوران ہزاروں لوگوں نے آپ سے اکتساب علم کیا۔1975ء میں بعض وجوہات کی بنا پر دارالعلوم مظہر اسلام سے استعفی دے کر آپ حضرت ریحان ملت رحمانی میاں علیہ الرحمہ کی گزارش پر یادگار اعلی حضرت دارالعلوم منظر اسلام میں تشریف لے آئے۔ جہاں آپ نے بحیثیت صدر المدرسین سات سال تک تعلیمی خدمات انجام دیں۔ 1982ء میں جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف کا قیام عمل میں آیا جس کی تعلیمی ذمہ داری آپ کے سپرد کردی گئی۔ آپ تقریبا 23 سال تک بحیثیت شیخ الحدیث جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف میں درس دیتے رہے، پھر حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمہ نے جامعۃ الرضا میں آنے کی گزارش کی آپ نے ان کی بات منظور فرمالی اور وہاں سال نو (تعلیمی سال) کے آغاز یعنی ماہ شوال سے کہ 2005ء میں تھا آپ کا تقررہوا بحیثیت صدر المدرسین وشیخ الحدیث جامعۃ میں تادم وصال دونوں منصب پر فائز رہے۔ جب 2005ء کے شوال سے جامعۃ الرضا میں آپ کی کارگردگی کی ابتدا ہے اور 18 رجب المرجب 1428ھ مطابق3/اگست2007ء میں انتہا ہے تو معلوم ہوا کہ تقریبا دو ڈھائی سال ہی وہاں آپ خدمت دراسات و فرائض صدارت انجام دے سکے۔

صدر العلماء کے چند مشہور تلامذہ و مستفدین:

صدر العلماء کم و بیش 55سال تک تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے میرے خیال میں ہر ذی شعور اندازہ کرسکتا ہے کہ آپ کے تلامذہ کی تعداد کیا رہی ہوگی۔ اگرچہ آپ کے دامن کرم سے وابستہ ہو کر سراب ہونے والے ہزاروں علماء کا شمار مشکل ہے جن میں محقق، مصنف، شیخ الحدیث، مفتی، مدرس، مناظر،اورمقرر بھی شامل ہیں۔ جو پوری دنیا میں پھیل کر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے چند کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
(1) تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خان علیہ الرحمہ(2) نواسۂ مفتی اعظم ہند مولانا خالد علی خان علیہ الرحمہ مہتمم مظہر اسلام بریلی شریف (3)نبیرۂ اعلیحضرت مولانا منان رضاخان منانی میاں مہتمم جامعہ نوریہ بریلی شریف(4)مناظر اعظم فقیہ النفس حضرت علامہ مفتی مطیع الرحمن مضطررضوی پورنوی(5) اشرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی مجیب اشرف ناگپوری (6)فقیہ اسلام حضرت علامہ مفتی ایوب مظہر صاحب پورنوی (7)حضرت علامہ مفتی محمد یامین مرادآبادی مدرس و مفتی جامعہ حمیدیہ بنارس(8) حضرت علامہ محمد ہاشم صاحب پروفیسر معقولات جامعہ نعیمیہ مراداباد (9)استاذ العلماء حضرت علامہ محمد ہاشم رشیدی پورنوی(10) علمبردار اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد رحمت حسین کلیمی پورنوی(11) حضرت علامہ مفتی محمد صالح شیخ الحدیث جامعہ الرضا بریلی شریف(12) مناظر اہلسنت حضرت علامہ صغیر احمد صاحب جوکھنپوری ناظم اعلیٰ جامعہ قادریہ ریچھا بریلی شریف (13) حضرت علامہ محمد حنیف خاں رضوی مرتب جامع الاحادیث و صدر المدرسین جامعہ رضویہ بریلی شریف (14)حضرت علامہ محمد حسین ابوالحقانی (15)حضرت علامہ جید القادری مظفرپوری(16) شہزادہ حضور تاج الشریعہ علامہ محمد عسجد رضا خاں(17) حضرت علامہ تطہیر احمد رضوی بریلی شریف(18) حضرت علامہ عبدالسلام رضوی مدرس جامعہ نوریہ بریلی شریف(19) حضرت علامہ محمد انور علی رضوی مدرس دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف (20) حضرت علامہ ابو القاسم برکاتی رضوی پورنوی۔

تصنیفی خدمات:

چونکہ فراغت کے فورا بعدہی حضور مفتی اعظم ہند نے آپ کو مسندِ تدریس پر بیٹھا دیا تھا لہذا درس و تدریس میں آپ بہت زیادہ مصروف رہے اور اپنی اس مصروفیت کی وجہ سے نہ تو آپ نے تقریرو خطابت میں دلچسپی لی اور نہیں تصنیف وتالیف کیلئے وقت دے سکے۔ آپ کا پہلا شوق درس و تدریس ہی تھا اس کے باوجود کچھ کتابوں پر آپ کی گراں قدر تقریظات اورتبصرے رقم ہیں جن سے قلم کی پختگی اور متانت آشکارا ہے۔ بطور نمونہ مندرجہ ذیل اقتباس پیش ہے۔ جامع الاحادیث مرتبہ حضرت مولانا محمد حنیف خان صاحب رضوی پر آپ نے جو تقریظ تحریر فرمائی اسے ملاحظہ کیجئے اور آپ کی تحریر کی سادگی ،سلاست، روانی، اور خوبصورتی کا اندازہ لگائیے آپ فرماتے ہیں:

” مولانا محمد حنیف خان صاحب صدر مدرس جامعہ نوریہ رضویہ موجودہ دور کے علماء میں ممتاز شخصیت کے مالک ہیں، درس و تدریس کی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف کا مشغلہ بھی بحمدللہ قائم ہے۔ پیش نظر کتاب سے پہلے بھی آپ نے متعدد کتب تصنیف و تالیف فرمائیں جو اہل علم اور عوام میں مقبول ہوئیں، مختلف مقالے ومضامین بھی اپ نے سپرد قلم کیے جن سےانفرادیت کی شان نمایاں ہے۔ پیش نظر کتاب اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی کتب و رسائل خصوصافتاویٰ رضویہ کی بارہ جلدوں میں روایت کردہ حدیث کریمہ کا مجموعہ ہے ۔جس میں تقریبا چار ہزار حدیثیں جمع کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی احادیث کو اعلی حضرت کی تصانیف سے صرف جمع کرنا ہی بہت بڑا کام ہے جو اکیلے ایک ہی آدمی کو انجام دینا دشوارہے جو تدریسی خدمات بھی انجام دیتا ہو کسی دارالعلوم کی نظم و نسق اور انتظامی امور کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہوناکہ اس پر مزید یہ کہ ان سب احادیث کو کتب احادیث سے مطابق کرنا، ان کی سندیں جمع کرنا، ان پر کتب حدیث اور تصانیف امام احمد رضا سے بے شمار فوائد جوتصانیف امام اور فتاوی میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے یکجا کرنا کتنا بڑا کام ہے۔ اس کیلئے کتنے وقت اور محنت کی ضرورت ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جواس منزل سے گزر چکا ہو یا گذر رہا ہو۔ بہرحال میرے خیال میں یہ عظیم خدمت ہے جو مولانا حنیف رضاصاحب انجام دی۔ میں دست بدعا ہوں کہ مولائے کریم ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے اور اس کی بہتر سے بہتر جزا دے آمین بجاہ سید المرسلین”

ضرورت اس بات کی ہے کہ حضرت صدر العلماء کے تمام ملفوظات، تقریظات اورتبصرے یکجا کئے جائیں تاکہ ایک اہم علمی سرمایہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو جائے۔

فتاوی نویسی:

حضرت صدر العلماء کو جہاں دیگر علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی وہی علم فقہ میں ید طولی رکھتے تھے۔ آپ نے درس و تدریس کے علاوہ دارالافتاء میں بھی وقت دیا اور ایک زمانہ تک حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے زیر نگرانی فتاوی تحریر فرمائے جو یقینا اسلامی معلومات ودینیات کابہت بڑا ذخیرہ رہے ہونگے۔افسوس شومیء قسمت سے یہ قیمتی سرمایہ محفوظ نہ رہ سکا۔ حضرت مولانا حنیف خان صاحب رضوی حضرت صدر العلماء کی فتوی نویسی کے تعلق سےلکھتے ہیں:

” میں نے مستقل طور پر کبھی آپ کو فتاوی تحریر فرماتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن آپ کو اس عظیم شخصیت سے شرف تلمذ حاصل تھا جس دنیائے سنیت میں مفتی اعظم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے یعنی شہزادہ اعلی حضرت تاجدار اہلسنت سیدی و مرشدی ذخری لیونی وغدی حضرت مفتی اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے پھربھلاآپ اس میدان میں کیونکر تہی دامن رہتے، میں نے جامعہ نوریہ رضویہ میں خود دیکھا کہ آپ یہاں لکھے جانے والے فتاوی کی اصلاح فرماتے اور نہایت مختصر وموجز الفاظ میں مفتیان کرام کو رائے صواب سے نوازتے۔ “مجھے خود یاد ہے ایک مرتبہ ایک مفتی صاحب نے منصب، معیارولایت کے استدلال میں آیت کریمہ تحریر کی “ان اولیاہ الاالمتقون” جس سے یہ ثابت کرنا تھا کہ اللہ کے ولی متقی و پرہیزگار اشخاص ہی ہوتے ہیں آپ نے نقدو تنقیدفرمائی اور ارشاد فرمایا یہ آیت تو مسجد حرام کی تولیت کے سلسلے میں ہے کہ اولیاہ میں ضمیر باری تعالیٰ کی جانب سے راجع نہیں بلکہ  بلکہ مسجد حرام کی جانب راجع ہے اور سیاق آیت میں اس بات کی صراحت ہے آیت کریمہ یوں ہے۔

ومالہم الا یعذبھم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام وما کانوا اولیاءہ ان اولیاءہ الاالمتقون ولکن اکثرھم لایعلمون۔ ایک مرتبہ جامعہ نوریہ میں فتاوی نویسی سے متعلق کوئی مفتی صاحب نہیں تھے میں خدمت میں حاضر تھا فرمایا یہ استفتاء آیا ہے تم ہی فتوی لکھ دو میں نے عرض کیا میں نے اس میدان میں کبھی طبع آزمائی نہیں کیا لہذا مجھے تعمیل حکم میں کچھ وقت صرف کرنا ہوگا چونکہ جواب فوراً جانا تھا لہذا حضرت نے فرمایا لائیے ہم ہی لکھ دیتے اور میں نے دیکھا کہ آپ نے قلم برداشتہ فتوی تحریر فرمادیا میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فتوی نویسی آپ کا مشغلہ تو نہیں دیکھالیکن ایسی مہارت حاصل ہے مراجعت کتب کے بغیر ہی آپ فتوی تحریر فرمادیتے ہیں واضح رہے کہ یہ فتوی طلاق سے متعلق تھا اور اس میں نفس حکم بیان کرنے کے ساتھ آیات وغیرہ سے استدلال بھی تحریر فرمایا تھا۔ جامعہ نوریہ کے رجسٹروں میں اس طرح کے پیشتر فتاوی موجود ہیں جو آپ کی تصدیق سے جاری ہوئے ہیں (تجلیات رضا کا محدث بریلوی نمبر،صفحہ185)

کاش کوئی مرد مجاہد صدر العلماء کے ان مختلف جگہوں پر منتشر فتاوی کو یکجا کر لے تو ایک عظیم فقہی سرمایہ محفوظ ہو جائے۔

بیعت وارشاد:

حضرت صدر العلماء محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے درس و تدریس کے علاوہ عوام الناس کے لئے درس قرآن اور حدیث کی محفل کا اہتمام فرماتے جس میں شہر اور مضافات کے لوگ کثیر تعداد میں شریک ہو کر ایمان و عمل میں پختگی پیدا کرتے، تعویذ نویسی کے ذریعہ خلق خدا کی خدمت کرتے اعلی حضرت اور دیگر علماء اہلسنت کی کتابوں کی اشاعت کے لیے آپ نے ایک مکتبہ “مکتبہ مشرق” کانکر ٹولہ بریلی شریف کے نام سے قائم فرمایا تھا ۔جہاں سے درجنوں کتابیں شائع ہوئیں ان مصروفیات کی وجہ سے آپ ہمیشہ سفر کرنے سے گریز ہی فرماتے لیکن لوگوں کے بے حد اصرار اورمزید دین و مسلک کی خدمت لوگوں کی رشد و ہدایت اور فکر رضا کی ترسیل کے لئے ملک اور بیرون ملک کے تبلیغی دورے کئے اور بیعت وارشاد کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی فرمائی آپ قولا بھی مظہر مفتی اعظم تھے اور عملا بھی۔ ایسے مقامات پر بھی اپ نے دورے کیے جہاں سواری اور دیگر سہولیات کا کوئی انتظام نہیں ہوتااپ کے مریدین ومتوسلین کی تعداد لاکھوں ہے۔ تبلیغی دورے کے تعلق سے آپ کے خلف اوسط حضرت صوفی محمد رضوان خان صاحب نوری رقمطرازہیں:

“اباجان لوگوں کی دعوت پر پورے ہندوستان کا سفر فرماتے ایسے مقامات پر بھی جانا ہوتا جہاں سواری کا معقول بندوبست نہیں ہوتا بلکہ ٹرین اور بس سے اتر کر بیل گاڑی یاگھوڑے،ٹانگے سے جانا پڑتا۔ ایک بار حضور تاج الشریعہ جانشیں مفتی اعظم حضرت علامہ اختر رضا قادری نے اباجان سے فرمایا آپ اتنی کمزوری میں بہار، بنگال اور دیہاتی علاقوں کا سفر نہ کیاکریں تکلیف ہوتی ہے اباجان نے جواب دیا کہ جب میں خراب راستوں والے علاقے میں جاتا ہوں تو لوگ بتاتے ہیں کہ پہلے مفتی اعظم ہندیہاں آئے تھے اور اب آپ آئے ہیں۔ تو میں سوچتا ہوں کے 25 سال پہلے حضور مفتی اعظم ہند کس طرح یہاں پہنچے ہوں گے اور بہار کے لوگ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں (تجلیات رضاکا محدث بریلوی نمبر،صفحہ303)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ حضور تحسین ملت کے فیوض وبرکات سے تمام مسلمان کو مستفیض فرمائے اور انکے چھوڑے ہوئے نقوش کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

از:مولانا غلام سرور قادری مصباحی

Menu