بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیۡمِ


عقا ئد متعلقہ ذات و صفاتِ الٰہی جَلّ جلا لہ


عقیدہ (۱):اﷲ (عزوجل) ایک ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں،نہ ذات میں، نہ صفات میں، نہ افعال میں, نہ احکام میں، نہ اسماء میں،واجب الوجود ہے، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال،قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں، باقی ہے یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں۔وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔

عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔

عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔

عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں  کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ 

عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں۔ 

عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں  نہ زیرِ قدرت داخل۔

عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں۔ 

عقیدہ (۸): صفاتِ الٰہی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ 

عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ 

عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے ، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے۔

Menu