فضیلۃالشیخ احمد محمود بجبہ لی(ترکی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمدللہ الذی قال فی کتابہ الکریم ’’کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ۟ ثُمَّ اِلَیۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ‘‘(سورۃالعنکبوت: ۵۷)
الصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد ن الذی نزل فی شانہ :’’اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّہُمۡ مَّیِّتُوۡنَ ‘‘(سورۃالزمر: ۳۰)
و علیٰ آلہ و اصحابہ ’’الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ‘‘(سورۃالبقرۃ: ۱۵۶)

انا فجعنا بموت حضرۃ الشیخ العالم العلامۃ البحر الفھامۃ تاج الشریعۃ والطریقۃ حفید الشیخ مولانا سیدنا مجدد القرن الرابع عشر احمد رضا خان القادری قدس اللہ سرہ مولانا الشیخ اختر رضا خان القادری الحنفی فرحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃواسعۃ۔
و نحن نعزی اہلہ و ذریتہ الطببۃ و اولادہ الصالحین و جماعتہ الاکرمین و اخوانہ المکرمین اعظم اللہ اجرہم و رفع قدرہم و جبر مصیبتہم و رحم میتہم ۔
ولٰکن جبر مصیبۃ مولانا الشیخ محمد اختر رضا خاں بالنسبۃ الیٰ اللہ تعالیٰ ممکن، وھو علیٰ کل شئ قدیر۔ لان ھذا العالم العلام احییٰ السنۃ و امات البدعۃ وخدم الدین فی ھذا الزمان الغریب الفاسد و بالنسبۃ الینا ہذا المصیبۃ لا تجبر و ھذہ الثلمۃ لا تسد۔
مصیبۃ موت العَالِم شئی عظیم۔ لان اللہ تبارک و تعالیٰ یقول فی کتابہ:’’ اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الۡاَرۡضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ‘‘(سورۃ الانبیاء:۴۴)معنی نقص اطراف الارض قال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما:’’خراب الارض و نقصھا فی موت علمائھا و فقھائھا، ھذہ الآیۃ الکریمۃ تفیدنا ان موت العلماء والفقہاءمصیبۃ والنفس فی العالَمِ جمیعہ و تمامہ۔‘‘
وکذاقال امام المجاہد رحمہ اللہ :’’نقص الارض موت العلمائ ، لان بموت العلمائ یقبض العلم کما فی الحدیث الصحیح: ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعاً ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم بقبض العلمائ ، حتی اذا لم یبق عالما اتخذ الناس رؤوسا جھالا، فسئلوا، فافتوا بغیر علم، فضلوا واضلوا (صحیح البخاری: حدیث:۱۰۰)‘‘
نعوذ باللہ من ادراک ھذا الزمان۔ الآن علمائنا موجودون و لٰکن قلیل و علما ء اہل السنۃ والجماعۃ اقل من القلیل فی ھذا الزمان الغریب الفاسد۔
ولذا نحن حزنا کثیرا بموت الشیخ محمد اختر رضا خاں القادری قدس اللہ سرہ ۔ لان ھذاالحزن من علامات الایمان والسعادۃ ذکر الامام الغزالی فی منہاج المتعلمین حدیثا یرویٰ فیہ من لم یحزن بموت عالم فھو منافق۔ فإنہ لا مصیبۃ اعظم من موت العالم و ما من مؤمن یحزن بموت العالم الا کتب اللہ لہ ثواب الف عالم و الف شہید، ھذہ بشارۃ لنا اذا حزن بموت مثل ھذالعالم ۔
العلماء کثیرون ولٰکن کیف نجد عالما مثل الشیخ محمد اختر رضا خان لانہ فی ہذا الزمان بالنسبۃ الیٰ ممیت السنۃ و محیی البدعۃ و منتقص قدر النبی ﷺ کان کالسیف الصارم کان یجادل معھم و یشدد علیہم و یردھم ردا قویا بالکتب والآثار والدروس۔
لھذا فقدنا کبیر، فقیدنا عظیم قال ایوب السختیانی رضی اللہ تعالیٰ عن جابر التابعی :’’انی اخبر بموت رجل من اہل السنۃ فکانی افقد بعض اعضائی۔‘‘
ھذا الکلام صحیح نحن نشعر بہ و نذوق معنی ھذا الکلام فی انفسنا کانا فقدنا کبیدنا کانا فقدنا عیننا و سمعنا بموت ھذا العالم الجلیل لان العالم من اہل السنۃ والجماعۃ محی السنۃ لایوجد مثلہ فی العالَم الا اقل من القلیل۔
ولذا ورد فی الحدیث :’’موت العالِم کموت العالَم۔‘‘
لان العالَم بدون العلماء کاللحم بدون الملح، و قال ﷺ فی الحدیث:’’لموت قبیلۃ ایسر من موت عالم و موت العالم کلہ ایسر من موت عالم‘‘۔
و قال ابن مسعود والحسن البصری رضی اللہ تعالیٰ عنہما:’’موت العالم ثلمۃ فی الاسلام لا یسدھا شئی مااختلف اللیل والنہار۔‘‘
وورد فی بعض التفاسیر قولہ تعالیٰ :’’وَ النَّجۡمِ اِذَا ہَوٰی‘‘(سورۃ النجم:۱)معناہ یعنی بعالم اذا سکت میتا اللہ تعالیٰ یقسم بموت العالم العامل المخلص مثل الشیخ محمد اختر رضا خاں۔
ولہذاقرب ہلاک الامم بموت ھٰؤلائ العلمائ الاعلام۔ کما سئل سعید ابن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ:’’ما علامۃ ہلاک الناس؟ قال: اذا ھلک علمائھم، ھلکوا۔لان حیاتھم بالعلمائ و قیامھم بھم۔‘‘
و فی الکتاب اخلاق العلماء للآجرّی رحمہ اللہ تعالیٰ علیکم بالعلم قبل ان یذھب فان ذھاب العلم موت اہلہ۔ موت العالمِ نجم طمس۔ موت العالم کسر لا یجبر و ثلمۃ لا تسد لاخیر فی الناس الا بالعلماءو قال سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ:’’لموت الف عابد قائم باللیل صائم بالنہار اھون من موت عالم واحد، یعلم مااحلہ اللہ وما حرمہ و ان لم یزدد علی الفرائض لان عبادۃ العابدین لانفسھم و علم العلمائ للامۃ جمیعھم و ان لم یزدد علی الفرائض، وان زاد علی الفرائض۔‘‘
مثل سیدنا الشیخ محمد اختر رضا خاں ھذا کان یزداد علی الفرائض بالسنن والنوافل والمقربات والدلائل الخیرات والقصیدۃ البردۃ والصلوات الشریفہ کان یعمر جمیع اوقاتہ فی الفکر والذکر والافتاء کان قاضی القضاۃ فی العالم افتیٰ اکثر من خمسۃ آلا ف فتویٰ اسطر الفتاویٰ لنفع العباد۔
ھذا موتہ یعنی موت جمیع العباد لا یساوی موت ھذا العالم الجلیل فرحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ و اعلیٰ درجاتہ و الحقہ بالسابقین فی الدرجات العلیٰ یوم القیامۃ و الحقہ بجدہ سیدنا مولانا احمد رضا خان القادری مجدد القرن الرابع عشر و احییٰ اللہ ذریتہ الطیبۃ و ابقاہ و ابقیٰ ذریتہ الطیبۃ علینا و علی الامۃ الاسلامیۃ احیاء بسنۃ النبویۃ وتجدید طریقۃ جدہ الامجد احمد رضا خان بالردود علیٰ اہل الاھواء والبدع و من لایعرفون قدر النبی ﷺ اللہ تعالیٰ یبقی ھذہ الذریۃ الطیبۃ المبارکۃ علی الامۃ الاسلامیۃ بھذہ الردود ونرجو منھم ان یترجموا کتب سیدنا احمد رضا خان القادری ان یترجموا للعربیۃ، خاصۃ للعربیۃ ۔ حتیٰ یستفید منہ جمیع الامۃ لان بعض الکتب الیٰ الآن بقیت علیٰ الاردویۃ والفارسیۃ، و نحن لانعرف ولھذا نحن نرجو من ھذہ الاسرۃ الطیبۃ المبارکۃ تعریب کتب مولانا السید احمد رضا خان القادری ورحم اللہ سیدنا الشیخ محمد اختر رضا خان القادری۔
و نحن نھدی لروحہ الطیبۃ کلمۃ الشھادۃ و کلمۃ التوحید، والفاتحۃ۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ وا شھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
و لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ فی کل لمحۃ و نفس عدد ما وسعہ علم اللہ- اللہ اللہ اللہ جل جلالہ یاۭرب العالمین۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد للہ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا رسول اللہ و علیٰ آلہ و اصحابہ اجمعین۔ اللھم یا رب یا رب او صل نور ثواب ماتلونا و نور ما قران الیٰ روح سیدنا و مولانا محمد ﷺ و بعدہ الی روح سیدنا الامام احمد رضا خان القادری، و الیٰ روح سیدنا محمداختر رضا خان القادری۔ اللھم روح ارواحھم۔ اللھم قدس اسرارہم ۔ اللھم نور ضرائحھم۔اللھم طیب مراقدھم۔ اللھم عطر مشاعرہم ۔ اللھم اعل درجاتھم۔ اللھم کثر مثوباتھم۔ اللھم ضاعف حسناتھم۔ اللھم افض علیھم سجلا من برک و نتفک و جودک و کرمک و انعامک و احسانک و امتنانک الذین انعمت علیھم من النبیین والصدیقین وا لشھداء والصالحین۔ و زدھم شرفا و تعظیما یا رب العالمین، وصلی اللہ تعالیٰ علی سیدنامولانا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔ الحمد للہ رب العالمین، الیٰ شرف روح محمد ﷺ و الیٰ روح سیدنا احمد رضا خان القادری مجدد القرن الرابع عشر، و الیٰ روح الحبیب المبارک سیدنا و شیخنا العلامۃ قاضی القضاۃ محمد اختر رضا خان القادری، الفاتحۃ۔۔۔۔۔۔

الشیخ احمد محمود الملقب جبہ لی،
من ترکیۃ، من تلامیذ الشیخ محمود الآفندی نقشبندی المجددی الخالدی
٭…٭…٭

ترجمہ:

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم والا۔

تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے اپنی کتاب میں فرمایا: ’’ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر ہماری ہی طرف پھروگے۔‘‘(ترجمہ کنزالایمان) اور درود و سلام ہو ہمارے سردار محمد ﷺ پر جن کی شان میں نازل ہوا: ’’بیشک تمہیں انتقال فرمانا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے۔‘‘ (ترجمہ کنزالایمان) اور ان کے آل و اصحاب پر کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں :’’اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ راجِعُوْنَ ‘‘
یقیناً ہم سب دکھی ہیں، حضرت الشیخ العالم العلامہ و البحر الفہامۃتاج الشریعۃ والطریقۃ چودہویں صدی ہجری کے مجدد مولانا سیدنا شیخ احمد رضا خان قادری قدس اللہ سرہ کے نبیرہ، مولانا شیخ اختر رضا خان قادری حنفی کی وفات حسرت آیات سے، اللہ پاک انہیں اپنی رحمت سے وافر حصہ عطا فرمائے۔
ہم تعزیت پیش کرتے ہیں ان کے اہل و اعیال اولادِ صالح ان کی معزز جماعت اور محترم بھائیوں کی خدمت میں۔ اللہ پاک ان سب کو اجر عظیم عطا فرمائے ان کے رتبے کو بلند فرمائے، اور ان کی مصیبت کو دور فرمائے، اور ان کے مرحوم پر رحم فرمائے۔
مولانا شیخ محمد اختر رضا خان قادری کی وفات حسرت آیات کا رنج کافور ہونا ممکن ہے، رب قدیر کی ذات سے، کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کیوں کہ اس علامہ دہر نے سنت کو زندہ کیا، بدعت کا قلعہ قمع کیا، اور اس دورِ پر فتن میں خدمت بحسن و خوبی انجام دیا۔ اور ہم سے اس مصیبت کا دور ہونا ممکن نہیں، اور یہ رخنہ پُر نہیں کیا جا سکتا۔
عالم کی موت کا دکھ امر عظیم ہے، کیوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب مقدس میں فرماتا ہے:’’تو کیا نہیں دیکھتے کہ ہم ، زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے آرہے ہیں۔‘‘ (ترجمہ کنزالایمان)
کنارۂ زمین کے نقص کا مطلب سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے فرمایا:’’کہ زمین کی خرابی اور نقصان سے مراد، علما و فقہاکی موت ہے، اور اس آیت کا فائدہ یہ ہے کہ علما و فقہا کی موت پوری دنیا کے لیے مصیبت و نقصان کا سبب ہے۔‘‘
یوں ہی امام مجاہد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ :’’زمین کا نقص علماے کرام کی موت ہے۔‘‘کیوں کہ علما کی موت سے علم اٹھا لیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیثِ صحیح میں وارد ہے: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ علم کو یوں نہیںاٹھائے گا کہ بندوں کے سینوں سے چھین لے گا، ہاں علما کو اٹھا کر علم بھی اٹھا لے گا۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا، تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنا لیں گے، ان سے مسئلہ دریافت کیا جائے گایہ بے علم کے فتویٰ دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔‘‘(حدیث)اللہ کی پناہ اس زمانے سے۔ ابھی ہمارے علما موجود ہیں لیکن تھوڑے ہیں، اور علماے اہل سنت و جماعت تو بہت ہی کم ہیں، اس دورپُر فتن میں۔
اسی لیے ہم شیخ محمد اختر رضا خان قادری کے وصال پر ملال سے بہت رنجیدہ ہیں، کیوں کہ یہ رنجیدگی ایمان و سعادت کی علامات سے ہے۔ امام غزالی نے منہاج المتعلمین میں ایک حدیث بیان کی ہے:’’مروی ہے کہ جو کسی عالم کی موت پر رنجیدہ نہ ہو وہ منافق ہے، اس لیے کہ عالم کی موت سے بڑ ھ کر کوئی مصیبت نہیں، اور جو کوئی مومن -عالم کی موت پر غم کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں ہزار عالموں اور شہیدوں کا ثواب درج فرماتا ہے۔‘‘
یہ ہمارے لیے بشارت ہے جب ہم ان جیسے عالم کی موت پر رنجیدہ ہوتے ہیں۔علما تو بہت ہیں لیکن ہم شیخ محمد اختر رضا خان جیسا عالم کیسے پائیں گے؟ کہ وہ اس زمانے میں مخالفینِ سنت، حامیانِ بدعت اور شان اقدس ﷺ کو گھٹانے والوں کے لیے تیز دھار تلوار تھے۔ یہ ان سے لڑتے تھےان پر سختی کرتے تھے اور ان کی پر زور تردید فرماتے تھے۔ کتابوں کے ذریعے، احادیث کے ذریعے اور درس و تدریس کے ذریعے۔
اسی لیے ہمارا نقصان بڑا ہے ،ہمارا مرحوم عظیم ہے۔ ایوب سختیانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر تابعی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ جب کبھی مجھے کسی سنی آدمی کی موت کی خبر دی جاتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے کسی عضو کو کھو رہا ہوں۔‘‘
یہ بات صحیح ہے کہ ہمیں اس کا شعور ہے اور اس کلام کے مفہوم کی چاشنی اپنے دل و دماغ میں محسوس کرتے ہیں کہ گویا ہم نے اپنے جگر کو کھو دیا اپنی آنکھ یا کان کو کھو دیا، اس عالمِ ربانی کی موت سے۔ کیوں کہ اہل سنت و جماعت کے ایسے عالم ربانی جو سنتوں کو زندہ کرنے والے ہوں، دنیا میں بہت ہی کم پائے جا رہے ہیں۔
اور حدیث پاک میں آیا ہے: ’’ عالِم کی موت عالَم کی موت کی طرح ہے۔‘‘کیوں کہ دنیا بغیر علما کے ایسے ہی ہے جیسے گوشت بغیر نمک کے ۔ اور نبی اکرم ﷺ نے حدیث پاک میں ارشاد فرمایا:’’کسی قبیلہ کی موت آسان ہے کسی عالم دین کی موت سے، اور پوری دنیا کا ختم ہو جانا ہلکا ہے بہ نسبت کسی عالم کی موت کے۔‘‘ابن مسعود و حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:’’عالم کی موت اسلام میں ایک رخنہ ہے جس کو کوئی چیز پُر نہیں کر سکتی، جب تک کہ لیل و نہار گردش کناں ہے۔‘‘
اور بعض تفسیر کی کتابوں میں آیا ہے کہ فرمانِ باریِ تعالیٰ : ’’اس پیارے چمکتے تارے محمد(ﷺ) کی قسم جب یہ معراج سے اترے‘‘ (ترجمہ کنزالایمان) اس نجم سے مراد وہ عالم ہے جو اللہ کو پیارا ہو جائے۔
یعنی اللہ تعالیٰ شیخ محمد اختر رضا خان جیسے با عمل مخلص عالم کی قسم یاد فرماتا ہے۔ لہٰذا ان جیسے علما کے اٹھ جانے کے سبب امتیں ہلاکت کے دہانے پر پہنچ گئیں۔ جیسا کہ حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا :’’لوگوں کی ہلاکت کی نشانی کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کہ جب ان کے علما ختم ہو جائیں تو یہ ہلاک ہو جائیں گے، کیوں کہ لوگوں کی حیات وا ستحکام علما ہی کے دم سے ہے ۔‘‘
علامہ آجری (علامہ الشیخ ابوبکر الآجری) کی کتاب ’’اخلاق العلماء‘‘ میں ہے:’’تم پر لازم ہے کہ علم حاصل کرو قبل اس کے کہ علم رخصت ہو جائے، کیوں کہ علم کے رخصت کا مطلب اہلِ علم کا رخصت ہو جانا ہے، اور عالم کی موت بے نور ستارہ ہے، عالم کی موت ایسا نقصان ہے جس کی تلافی نہیں، اور ایسا خلل ہے جس کی تکمیل نہیں، لوگوںمیں خیر باقی نہیں رہے گا مگر علما سے ۔‘‘
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ایسے ہزار عابد کا مر جانا جو قائم اللیل اور صائم النہار ہوں ہلکا ہے، اس ایک عالم کی موت سے جو اللہ کی حلال و حرام کردہ اشیاء کا علم رکھتا ہو۔‘‘کیوں کہ عابدوں کی عبادت اپنی ذات کے لیے ہے، اور علما کا علم پوری امت کے لیے۔ خواہ وہ فرائض سے زیادہ عمل نہ کرتے ہوں۔ یا فرائض سے زیادہ عمل کرتے ہوں۔
مثلاً سیدنا الشیخ محمد اختر رضا خان قادری کہ وہ تو فرائض سے زیادہ پر عمل پیرا تھے، یعنی سنن و نوافل اور مستحبات کو ادا کرتے دلائل الخیرات و قصیدہ بردہ کی تلاوت فرماتے، اور درود شریف کا ورد کرتے رہتے تھے، آپ کا پورا وقت ذکر و فکر اور کارِ افتا میں گزرتاتھا۔ آ پ قاضی القضاۃ فی العالم تھے، پانچ ہزار سے زائد فتاوے تحریر کیے، اور سارے فتوے عامۃ المسلمین کے نفع کے لیے تحریر فرمائے۔
آپ کی موت واقعی موت ہے، یعنی جملہ عابدین شب زند ہ دار کی موت، اس عالم ربانی کی موت کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انہیں اپنی رحمت واسعہ سے حصہ عطا فرمائے ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ اورقیامت کے دن بلند مرتبوں میں سابقین کے زمرےمیں شامل فرمائے۔ اور ان کے جد امجد چودھویں صدی کے مجدد سیدنا مولانا احمد رضا خاں سے ملائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ذریت ِ طیبہ کو حیاتِ دراز عطا فرمائے۔ اور ان کی ذریت طیبہ کو ہم پر اور امت اسلامیہ پرباقی رکھے احیائے سنت نبویہ کے لیے اور اپنے جد امجد احمد رضا خان کے مسلک کی تجدید کرنے کے لیےیعنی اہل ہوا وہوس صاحبِ بدعت اور منکرین عظمت نبیﷺ کی پر زور تردید کے لیے۔
اور ہم ان سے امید رکھتے ہیں کہ سیدنا احمد رضا خاں کی کتابوں کا عربی ترجمہ کریں گے تاکہ پوری امت اس سے استفادہ کر سکے اس لیے کہ ان کی بعض کتابیں اب تک اردو یا فارسی زبان میں ہیں، اور ہم اسے جانتے نہیں ہیں۔ لہٰذا ہم اس مبارک خانوادے سے یہی امید کرتے ہیں کہ وہ سیدنا مولانا احمد رضا خاں قادری کی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کریں گے۔
اللہ رحم فرمائے سیدنا شیخ اختر رضا خان قادری پر ہم آپ کی روح پر فتوح کی بارگاہ میں پورے مجمع کے ساتھ کلمہ شہادت و کلمہ توحید اور فاتحہ کا ہدیہ پیش کرتے ہیں:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اشھد ان لاالہ الااللہ وا شھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
و لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ﷺ فی کل لمحۃ و نفس عدد ما وسعہ علم اللہ- اللہ اللہ اللہ جل جلالہ یارب العالمین۔
تمام تعریفیں اللہ کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے اور درود و سلام نازل ہو ہمارے سردار اللہ کے نبی پر اور ان کے تمام آل و اصحاب پر۔ یا اللہ اے میرے پروردگار جو میں نے تلاوت کیا اور جو میں نے پڑھا اس کا نورِ ثواب اور ثواب سیدنا مولانا محمد ﷺ کی روح مبارک کو پہنچا پھر سیدنا امام احمد رضا خان قادری کی روح پاک کو پھر سیدنا محمد اختر رضا خان قادری کی روحِ پر فتوح کو۔
اے اللہ ان کی ارواح طیبات کو سکون عطا فرما، ان کے اسرار کو پاکیزہ فرما، ان کی قبروں کو منور فرما، ان کے مزاروں کو سعید فرما، ان کے مشاعر کو خوش بو دار بنا، ان کے ثواب میں زیادتی عطا فرما، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، اے اللہ ان پر اپنے لطف و مہربانی انعام و اکرام اور احسان و امتنان کے فیضان کو جاری و ساری فرما، ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام فرمایا، یعنی انبیا، صدیقین ، شہدا اور صالحین کے ساتھ، ان کے شرف و بزرگی میں زیادتی فرما، اے کائنات کے پالنہار۔ وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ سیدنا و مولانا محمد ﷺ تسلیما کثیرا۔
الحمدللہ رب العالمین! روح محمد ﷺ کی بارگاہ میں اور چودھویں صدی کے مجدد سیدنا امام احمد رضا خان قادری کی روحِ پاک کو اور سیدنا شیخنا علامہ قاضی القضاۃ محمد اختر رضا قادری کی روح مبارک کو پیش ہے۔ الفاتحہ۔۔۔

احمد محمود ملقب بہ جبہ لی(ترکی) تلمیذ الشیخ محمود الآفندی نقشبندی مجددی الخالدی

Menu