فضیلۃالشیخ عبدالعزیزالخطیب
جانشین ابدالِ شام ،پرنسپل التہذیب انٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ ،دمشق،شام
الحمد للہ رب العالمین! الذی لا یحمد علیٰ مکروھ سواہ ۔ الحمد للہ! المتفرد بالبقاء الذی حکم علیٰ جمیع خلقہ بالانتقال عن دارالفناء احمدہ سبحانہ و تعالیٰ و اشکرہ فی السراء والضراء و اصلی واسلم علیٰ سیدنا محمد و علیٰ آلہ اصحابہ و سلم تسلیما کثیرا ۔امابعد!
فاننا ننعی الی العالم الاسلامی مفتی الھند العلامۃ الشیخ محمد اختر رضا خان البریلوی
بکت المعارف والرسوم فقیدنا
اواہ لوکان البکاء یفیدنا
رزء اصاب المسلمین فصدع
الاکباد منا واستطار قلوبنا
رحل الی اللہ۔ الا رحمک اللہ یا سیدی الشیخ و اسبل علیک سحائب الرحمۃ والرضوان
بادرنا وھو یذکرالموت لانہ موعد للقائہ مع الاحبۃ و سیدنا محمد و صحبہ والمحب لاینسیٰ ابدا موعد لقاء الحبیب یقول علیہ الصلواۃ والسلام :’’تحفۃ المؤمن الموت‘‘و انما قال ذالک :’’لان الدنیا سجن المؤمن‘‘ویقول : ’’الموت کفارۃ لکل مسلم‘‘
یقول سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ :’’اذا ذکرت الموتیٰ فعد نفسک کاحدہ ‘‘
یا احبابنا فی الہند ! یا احبابنا فی العالم الاسلامی! لایعلم الا اللہ ما اصابنا و اصاب المسلمین، ولم یخص الاقربین، حتیٰ عم جمیع الموحدین، ولم یمس الارحام حتیٰ زعزع رجال الاسلام۔
قد سار بروحہ الشریفۃعن عالم الفناء الیٰ ما اعد اللہ لہ من منازل الکرامۃ فی دار البقاء۔ صرف نظرہ العالی عن مظاہر الحیات و استقبل بتمام وجہہ ملکوت ربہ الاعلیٰ قد اختار لنفسہ ما اختارہ اللہ تعالیٰ من الاختصاص بجوارہ الکریم والاتصال بنور وجہہ العظیم ولولا الیقین بان الخیر فی امۃ سیدنا النبی ﷺ الیٰ یوم القیامۃ لما تعزت الانفس فی البقاء بعدہ و للحقن بہ اختیاراما عندہ وما الدہرہ والایام الا کما تریٰ رزیۃ حر او فراق حبیب۔
انھا کلمات ! نسلی بھا خواطرنا علیٰ ما الم بھا من اشتراک فی ھذ القضاء الذی امتحن اللہ بہ صبرنا و صبرکم وابتلیٰ بہ ایماننا و ایمانکم۔
یرحل کل یوم عالم و راء عالم و فقیہ وراء فقیہ کلہ مصیبۃ الراحلین عنا عظیمۃ ورزیۃ الیاس من لقائھم جسیمۃ م حرماننا من آدابھم یذھب بالنفس حسرات!
لقد اخذ العلم عن شیوخ عصرہ و کان رضی اللہ عنہ صداء بالحق لا یخاف فی اللہ لومۃ لائم۔
لحق بجدہ سیدی احمد رضا خان رحمہ اللہ واجلل لہم العطیۃ والثوبۃ۔
اعزی اخواننا فی بقاع الارض برحیل ھذا الامام العالم واسئل اللہ ان یجعلہ فی مقعد صدق عند ملک المقتدر۔
٭…٭…٭
ترجمہ:تمام تعریفیں اس اللہ رب العالمین کے لیے کہ جس کے سوا مصیبت میں بھی کسی کی تعریف نہیں کی جاتی۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جو اکیلا باقی رہنے والی ذات ہے اور جس نے اپنی تمام مخلوق کو دارِفانی سے انتقال کا حکم سنایا۔ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کا شکر ادا کرتا ہوں ہر خوشی اور غم میں، اور خوب خوب درود و سلام کا ہدیہ پیش کرتا ہوں اپنے سردار آقا کریم محمدﷺ پر اور ان کے جمیع آل و اصحاب پر۔ امابعد!
پورے عالم اسلام کو مفتیِ ہند علامہ شیخ محمد اختر رضا خان البریلوی کی وفات حسرت آیات کی خبر دیتاہوں۔
معارف و رسوم ہمارے مرحوم کے لیے گریہ کناں ہیں،میں بھی آہ وزاری کرتا اگر آہ و بکا ہمارے لیے مفید ہوتی
مسلمانوں پر ایسی مصیبت نازل ہوئی جس نے ،جگر کو پارہ ہارہ کر دیااور دلوں کا چین لے گیا
آپ اللہ کے جوارِ رحمت میں پہنچ گئے، ہاں ! اللہ آپ پر رحم فرمائے، اور رحمت و رضوان کی برسات فرمائے۔
موت کو یاد کر کے، وہ ہم پر سبقت لے گئے۔ کیوں کہ موت کو احباب اور روحِ کائنات ﷺ اور آپ کے صحابہ سے ملاقات کی گھڑی ہے۔ اور عاشق کبھی بھی محبوب کی ملاقات کی گھڑی کو بھولتا نہیں۔
محبوب کائنات ﷺ فرماتے ہیں:’’موت مومن کے لیے تحفہ ہے۔‘‘آپ نے ایسا فرمایا اس لئےکہ:’’ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے۔‘‘ اور دوسری حدیث پاک میں ہے کہ :’’موت ہر مسلمان کے لیے کفارہ ہے۔‘‘
سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:’’کہ جب مُردوں کو یاد کرو تو خود کو بھی انہی میں شمار کرو۔‘‘
اے میرے ہندی اور عالمی دوستو! ہمیں اور مسلمانوں کو کتنی بڑی مصیبت پہنچی ہے وہ صرف رب جانتا ہے اور یہ دکھ نہ صرف اقربا کو بلکہ تمام موحدین کو ہے۔ اور نہ صرف رشتے داروں کو بلکہ سارے مسلمان اس سے ہل کر رہ گئے ہیں۔
آپ اپنی روحِ مبارک کے ساتھ اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئے، اس منزل کرامت کی طرف جسے اللہ نے دارِ بقاءمیں آپ کے لیے تیار کر رکھا ہے ۔ مناظر حیات سے صرف نظر کر لیے۔ رب اعلیٰ کے فرستادوں کا کامل خوشنودی کے ساتھ استقبال کیے۔ اور اپنے لیے وہی پسند کیے جو اللہ نے خاص آپ کے لیے پسند فرمایا، یعنی جوارِ رحمت اور وصال محبوب حقیقی۔
اس بات کا اگر یقین نہ ہوتا تو امت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں قیامت تک خیر رہے گا، تو جانیں آپ کےبعد باقی رہنے میں تسلی نہ پاتیں، اور آپ سے مل جاتی اس چیز کو پسند کرکے جو آپ کے پاس ہے۔
یہ زمانہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہو۔ یا تو انسان کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے یا محبوب سے جدائی کا غم دیتا ہے۔
یہ چند کلمات ہیں جن سے ہم اپنے دلوں کو تسلی دیتے ہیں، اس دکھ سے جس سے دل رنجیدہ ہوگئے اور اس فیصلے جس سے اللہ نے ہمارے اور آپ کے صبر کا امتحان لیا،ہمارے اور آپ کے ایمان کی آزمائش کیا۔
آئے دن کوئی نہ کوئی عالم یا فقیہ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، ہر جانے والے غم ہمارے لیے عظیم ہے، اور ان سے ملاقات کی نا امیدی کی مصیبت بھی کم نہیں ہے۔ ان کے علوم و معارف سے محرومی دلوں میں حسرتیں پیدا کرتی ہیں۔
آپ نے اپنے دور کے ماہرین علوم و فنون سے علم حاصل کیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صداے حق بلند کرتے رہتے تھے، بلا خوف لومۃ لائم۔
آپ اپنے دادا سیدی احمد رضا خان سے جا ملے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کے ثواب و درجات میں زیادتی فرمائے۔
روے کائنات کے جملہ دینی برادران کی خدمت میں میں تعزیت پیش کرتا ہوں، اس امام عالم ربانی کی رحلت پر۔ اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں رکھے سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور۔