فضیلۃالشیخ عمر بن سلیم الاعظمی الحسینی

سابق خطیب جامع امام اعظم ،بغداد ،عراق


الحمدللہ الذی تفرد بالبقائ و حکم علیٰ خلقہ بالفناءقال تعالیٰ:کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ(سورۃالانبیاء: ۳۵) و قال ایضاً:کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۶﴾ وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾ والصلوٰۃ والسلام علیٰ فاتح ابواب الخیر و البرکۃ والیقین سیدنا محمد ن القائل ’’الموت تحفۃ المؤمن‘‘۔
فی ھذا الیوم اری الصلوٰۃ شیخ الشیوخ و عالم العلمائ قاضی القضاۃ و مفتی الہند الاعظم مفتی الدیار الھندیۃ العلامۃ الشیخ محمد اختر رضا خاں القادری الحنفی البریلوی شیخ الطریقۃ القادریۃ الذی کان عالما ربانیاً و اعالما مجاہدا و عالما نحریرا خادما للشریعۃ و صلت خدماتہ الیٰ کافۃ انحائ الارض و قد کان حلقۃ الوصل بین علمائ الہند و بین علمائ العرب و المسلمین عامۃ حیث نال الاجازۃ العلمیۃ من سندہ المبارک اغلب علمائ المسلمین۔
کان رحمہ اللہ تعالیٰ قد استدعانی للتدریس فی جامعۃ التی بناہا جامعۃ الرضا و ھی من اکبر الجامعات فی العالم التی تقع فی الھند حیث تشرفت بالخدمۃ فیھا بتدریس الطلبۃ بسنتین متتالیتین و قد رعرفتہ عن کسب۔
عرفتہ انسانا عظیما وعالماً نحریرا مدققا محققا لا یفتر عن الطاعۃ ولایفتر عن التالیف ولا یفتر عن خدمۃ طلاب العلم یسھر لیلہ فی العبادۃ و یقضی نہارہ ما بین التدریس و خدمۃ الطلاب و رعایۃ شئونہم والافتائِ واللقائ بالمریدین و الاحباب۔
کان رحمہ اللہ تعالیٰ مثالا للعالم ربانی وقد شمر صاعد الجد فالف کتبا کثیرا و صنف کتبا عدیدا و قام بتعریب کتب جدہ الامام احمد رضا المجدد بقرن الرابع عشرامام القارۃ الھندیۃ۔ التی بلغت مؤلفاتہ اکثر من الف مؤلف مابین تصنیف و تالیف و رسالۃ صغیرۃ و مابین شرحا علی الصحاح۔
ھذا العالم الربانی الذی ترک لنا تراثا عظیما تراھ الیوم فی مکاتب العالم الاسلامی الکبریٰ فی بغداد و فی الشام و فی مصر و فی الیمن حتیٰ وصلت آثارہ الیٰ کافۃ انحائ الارض رحمہ اللہ تعالیٰ کان لا یفتر عن خدمۃ الشریعۃ ولا یفتر عن اسفار الدعوۃ للہ سبحانہ و تعالیٰ ۔
ودع ھذہ الدنیا بعد صلوٰۃ العصر من یوم الجمعۃ المبارکۃ و ھو یقول ’’اللہ اللہ ‘‘ و قد تناقلت وسائل الاتصال خبر وفاتہ وتشعیعہ و دفن رحم اللہ تعالیٰ و احسن الیہ و اجزل لہ المثوبۃ و جعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ الحمد للہ الذی شرفنا بتدریس بعض کتبہ للطلاب ھنا فی جامعات الباکستان و خصوصاً کتابہ الاخیر الفردۃ فی شرح البردۃ التی شرح فیھا قصیدۃ الامام البوصیری رحمہ اللہ تعالیٰ احسن اللہ الیہ۔ وجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ۔ وبارک فی ولدہ الامجد مولانا الشیخ عسجد و بارک فی ذریتہ و بارک فی تلامیذہ و احبابہ و مریدیہ و جعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ و حشرہ مع الانبیائ والصدیقین والشھدائ والصالحین و حسن اولئک رفیقا۔فالحمد للہ رب العالمین۔

السید عمر بن سلیم الاعظمی الحسینی من لاہور الباکستان

٭…٭…٭

ترجمہ:تمام تعریف اس اللہ کے لیے جس کی ذات یکتا ہے بقا میں اور جس نے ساری مخلوق کو فنا کا حکم سنایا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔‘‘ (ترجمہ کنزالایمان)نیز فرمایا:’’زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے ، اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا‘‘(ترجمہ کنزالایمان)اور درود و سلام نازل ہو خیر و برکت اور یقین کے مرکز سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ پر جن کا فرمان عالی شان ہے:’’موت مومن کا تحفہ ہے‘‘(مفہومِ حدیث)
آج مجھے خبر ملی کہ شیخ الشیوخ عالم العلماء، قاضی القضاۃ و مفتی اعظم ہند، شیخ طریقت قادریہ، علامہ محمد اختر رضا خاں قادری حنفی بریلوی کا انتقال پر ملال ہو گیا ہے۔ آپ عالم ربانی مجاہد دوراں اور ماہر علوم اور مفتی شرع تھے۔ آپ کی خدمات پوری دنیا تک پہنچی۔ علماے ہند و عرب اور عام مسلمانوں تک آپ کا دائرۂ کار پھیلا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ اکثر علماے کرام نے آپ کی سند مبارک سے اجازت حاصل کیا۔ حضرت نے مجھے اپنے قائم کردہ جامعہ ’’جامعۃ الرضا‘‘ میں درس و تدریس کے لیے مدعو کیا جس کا شمار دنیا کے بڑے جامعات میں ہوتا ہے، اور وہ ہندوستان میں ہے۔ مسلسل دو سال تک اس میں بچوں کو درس دیتا رہا، دورانِ تدریس میں نے اچھا صلہ دیا۔
اور میں نے شیخ کو جانا کہ آپ ایک عظیم انسان، ماہر عالم، باریک بیں اور محقق ہیں۔ جو طاعت و عبادت میں، تصنیف و تالیف میں اور خدمتِ طلبہ میں کبھی کوتاہی نہ فرماتے، آپ کی ذات عبادت الٰہیہ میں گزرتی اور دن درس و تدریس خدمتِ طلبہ انتظامی امور کی نگرانی کارِ افتاء اور مریدین و احباب سے ملاقات میں گزرتا۔ آپ علماے ربانیین کے لیے ایک بہترین مثال تھے۔
دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئےبہت ساری کتابیں تصنیف و تالیف کیں،اوراپنے دادا، چودہویں صدی کے مجدد، برصغیر ہند کے امام، امام احمد رضا(جن کی تصنیف و تالیف کی تعداد ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ کتب رسائل، اور شروح کی شکل میں۔) کی کتابوں کی تعریب فرمائی۔
اس عالم ربانی نے ہمارے لیے بہت بڑا علمی سرمایہ چھوڑا ہے، جس کا مشاہدہ ہم عالم اسلام کی بڑی بڑی لائبریریوں میں یعنی بغداد، شام، مصر اور یمن وغیرہ میں کر سکتے ہیں، آپ کا فیض دنیا کے کونے کونے میں پہنچا، آپ رحمہ اللہ تعالیٰ خدمت دین اور دعوت الی اللہ کے سفر میں کوتاہی نہیں فرماتے تھے۔
حضرت اس فانی دنیا کو جمعہ کے دن عصر کے بعد الوداع کہہ دیے۔ اس وقت ’’اللہ اللہ‘‘ کا ذکر وردِ زبان تھا۔ پھر میڈیا والوں نے آپ کی وفات، جنازہ اور تدفین کی خبروں کو عام کیا۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور حسن سلوک فرمائے اور عمدہ ثواب عطا فرمائے۔ اور ان کی قبر مبارک کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنائے۔ تام تعریفیں اللہ کے لیے، جس نے ہمیں یہ اعزاز بخشا کہ پاکستان کے جامعات میں حضرت کی کچھ کتابوں کا میں نے درس دیا ہے، خاص کر آپ کی آخری کتاب ’’الفردۃ فی شرح البردۃ-للاامام البوصیری رحمہ اللہ ‘‘ کا۔
اللہ تعالیٰ حضرت پر رحم فرمائے، بہترین بدلاعطا فرمائے، اور ان کی قبر کو روضۃ من ریاض الجنۃ بنائے۔اور آپ کے شہزادے مولانا الشیخ عسجد ، آپ کی ذریتِ مبارکہ اور تلامذہ، احباب اور مریدین میں خوب خوب برکتیں فرمائے۔ اور مزار انور کو روضۃ من ریاض الجنۃ بنائے۔ اور آپ کا حشر انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ فرمائے۔ اور یہ کیا ہی بہترین ساتھی ہیں۔ الحمدللہ رب العالمین

شیخ سید عمر بن سلیم اعظمی حسینی، لاہور پاکستان

Menu