خلیفۂ اعلیٰ حضرت عید الاسلام علامہ مفتی شاہ عبد السلام جبل پوری علیہ الرحمہ
اسمِ گرامی:
حضرت مولانا مفتی شاہ محمد عبدالسلام جبل پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
لقب:
عید الاسلام، جامع الفضائل، قطبِ وقت۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے: عیدالاسلام حضرت مولانا شاہ عبدالسلام جبل پوری بن شاہ مولانا محمد عبد الکریم قادری نقشبندی بن مولانا شاہ محمد عبدالرحمن بن مولانا شاہ محمد عبدالرحیم بن مولانا شاہ محمد عبد اللہ بن مولانا شاہ محمد فتح بن مولانا شاہ محمد ناصر بن مولانا شاہ محمد عبدالوہاب صدیقی طائفی علیہم الرحمہ۔ آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کا خاندانی تعلق حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ سے ہے۔
آپ کے جدِّ اعلیٰ حضرت شاہ عبدالوہاب صدیقی رحمہ اللّٰه سلطنتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں نواب صلابت جنگ بہادر کے ساتھ طائف سے ہندوستان تشریف لائے، اور حیدر آباد دکن میں سکونت اختیار کی۔ یہاں حکومتِ آصفیہ کی جانب سے مکہ مسجد کی امامت اور محکمۂ مذہبی امور کے جلیل القدر عہدے پر مامور ہوئے۔ آپ رحمۃ اللّٰه علیہ کے خاندان میں مسلسل پانچ پشتوں میں پانچویں آصف جاہ کے زمانے تک برابر اس مذہبی منصب پر فائز رہے۔
عید الاسلام حضرت شاہ عبدالسلام جبل پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے محبوب خلیفہ تھے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اور آپ کے شہزادگان کا اس خاندان سے جو قرب رہا وہ انہیں کا خاصہ ہے۔کسی دوسرے گھرانے اور خاندان کو یہ شرف حاصل نہ ہوا۔ انہیں کی محبت میں اعلیٰ حضرت بریلی سے جبل پور تشریف لے گئے اور پھر مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمہ ایک ماہ سے زائد قیام فرما کر ان کو شرف بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا پروفیسر مسعود احمد رقم طراز ہیں:
’’کہ یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام احمد رضا رحمتہ اللہ علیہ سے خلافت حاصل ہے، اور آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی برہان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے، جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجت الاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ اور حضرت مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے‘‘۔۔
(جذباتِ برہان:12)
تاریخ ِولادت:
آپ کی ولادت با سعادت 6؍جمادی الاول 1283ھ ،مطابق 19؍ستمبر 1866ء کو ’’جبل پور‘‘ انڈیا میں ہوئی۔
تحصیل ِعلم:
تین برس کی عمر میں والد ماجد کے ہمراہ جبل پور آئے، اولاً قرآنِ مجید حفظ کیا، پھر درس نظامی اول تاآخر والد ماجد سے پڑھی ۔بعدہ ایک عرصہ تک اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے یہاں حاضر رہے اور حجۃ الاسلام رحمہ اللّٰه کےساتھ اعلیٰ حضرت سے اخذ علوم کیا،3؍ذیقعدہ 1313ھ کو امام اہل سنت رحمۃ اللّٰه علیہ نے اجازت مطلقہ کی سند تحریر فرما کر عنایت فرمائی، اور ’’عید الاسلام‘‘ خطاب عطا کیا۔
بیعت و خلافت:
آپ رحمۃ اللہ علیہ اعلی حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ سے بیعت ہوئے، اور خلافت سے مشرف کیے گئے۔
سیرت و خصائص:
جامع الفضائل، قامع الرذائل، حامی السنن، ماحی الفتن، عمدۃ الکرام، عیدالاسلام ،قطبِ وقت، حضرت علامہ مولانا مفتی شاہ محمد عبد السلام جبل پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔آپ امام اہلسنت کے خلیفۂ اعظم تھے، اور آپ سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو غایت درجہ تعلق خاطر تھا، آپ کی دعوت پر اعلیٰ حضرت نے دو ماہ جبل پور میں گذارے۔ آپ کو فقہ و فتاویٰ سے گہرا شغف تھا۔ بایں وجہ آپ نے ایک دار الافتاء قائم فرمایا۔جس سے امت مسلمہ کے مسائل شرعیہ میں راہنمائی فرماتے، اور آئے ہوئے مختلف فیہ مسائل کا صحیح حل نکال کر قوم و ملت کی صحیح رہنمائی فرماتے۔حضرت شاہ عبدالسلام رحمۃ اللّٰه علیہ اپنے وقت کے یگانۂ روزگار عالم دین تھے۔ علم و فضل میں یکتا اور بے مثال تھے۔بہت سے علوم و فنون پر انہیں دسترس حاصل اور کمال حاصل تھا۔ تقریباً 16 زبانیں آپ جانتے تھے، اور ان کے بولنے و سمجھنے میں عبور رکھتے تھے۔آپ نے پوری زندگی اسلام و سنیت کےلئے وقف فرمادی تھی۔ حضرت عیدالاسلام جہاں زبردست خطیب اور بالغ نظر و کہنہ مشق مفتی تھے۔ وہیں اپنے والد ِگرامی حضرت شاہ محمد عبدالکریم نقشبندی رحمۃ اللّٰه علیہ کی طرح طبیبِ حاذق بھی تھے۔ لاعلاج مریضوں کا علاج کرتے، اور وہ اللہﷻ کی قدرت سے شفاء یاب ہوتے۔ ان تمام خوبیوں کےعلاوہ آپ بہترین قلمکار اور مصنف تھے۔ آپ کی تصانیف اور فتاویٰ آپ کی قلمی قوت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔شریعت و معرفت دونوں ہی میں آپ کو اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ آپ کا شمار اپنے وقت باکرامت اور مشہور اولیاء اللہ میں ہوتا تھا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ کو قطب الوقت فرماتےتھے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی آپ سے محبت:
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے دل میں حضرت عید الاسلام کی محبت اور عظمت و بزرگی کا اندازہ آپ کے خطوط سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ اگر تمام خطوط اور واقعات کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائےگی۔ ان میں سے صرف دو خطوط کی بعض عبارات نذرِ قارئین ہیں تاکہ امام اہل سنت کی آپ سے محبت کا اندازہ لگایا جا سکے۔
مکتوب نمبر1:
’’بملاحظۃ جامع الفضائل، قامع الرذائل، حامی السنن، ماحی الفتن، عمدۃ الکرام، مولانا مولوی حافظ و قاری شاہ محمد عبدالسلام دامت معالیہ وبورکت ایامہ ولیالہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ! خیریت سامی کےلئے ہمیشہ دعاء کرتا ہوں، اور مولیٰ عزوجل سے جناب و اولادِ جناب کےلئے خیر و برکت و رفعت و عزت دارین رکھتاہوں‘‘۔
مکتوب نمبر2:
بہت القابات اور دعاؤں کے بعد امام اہل سنت ارشاد فرماتےہیں:
’’السلام علیکم وحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔!صحت مزاج والا سے مطلع فرمائیں، فقیر بے توقیر سوائے دعاء کے کیا کر سکتا ہے۔مولیٰ عزوجل آپ کے وجود ِ مسعود کو اسلام اور سنیت کے حق میں محمود و مسعود رکھے۔فقیر اپنے لئے بھی طالب دعا ہے۔عزیدی مولوی برہان الحق صاحب بعد سلام بمضمون واحد سب احباب اہل سنت کو سلام سنۃ الاسلام‘‘۔
(23؍رجب المرجب 1333ھ)
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ جمادی الآخرہ؍1337ھ کو جبل پور تشریف لائے، اور ایک ماہ سے زائد قیام فرمایا۔ واپسی سے چند دن قبل عیدگاہ کلاں کےجلسۂ عام میں ارشاد فرمایا:
’’کہ اے جبل پور کے مسلمانو! مولانا عبدالسلام کی ذات ِ ستودہ صفات صرف تمہارے لئے ہی نہیں، بلکہ سارے ہندوستان کے لئے ’’عیدالاسلام‘‘ ہے۔ میں آج سے مولانا عبدالسلام کےالقاب میں خطاب ’’عید الاسلام‘‘ کا اضافہ کرتا ہوں۔ یہ خطاب ائندہ آپ کے اسم گرامی کے ساتھ بولا اور لکھا جائےگا‘‘۔
ان مقدس کلمات کے سنتے ہی پورے مجمع نے بلند آواز سے والہانہ انداز میں نعرۂ تکبیر کی صدائیں بلند کر کے پر خلوص محبت کے ساتھ مسرت کا اظہار کیا۔
(برہانِ ملت کی حیات و خدمات:31)
تحریکِ ندوہ کی سرکوبی:
ابتداءًیہ تحریک مسلمانوں کے رفاہِ عامہ اور مسلمانوں کو اس وقت کی غیر یقینی صورت حال سے نکالنا، اور ان کےمسائل حل کرنا، اور ان کےلئے متحدہ طور پر آواز اٹھانا تھا۔ یہ ابتدائی اجلاسوں میں ہی راہ حق سے ہٹ گئے تھے۔ اعلیٰ حضرت اور دیگر علماءِ اہل سنت نے بخوبی محسوس کرلیا تھاکہ یہ اتحاد کے نام پر مذہب و مسلک کو لے ڈوبیں گے، حق و باطل کی تمیز مٹ جائے گی۔ صحیح اور غلط کے اصول مسخ ہوجائیں گے۔حلال و حرام کی حد بندی ختم ہو جائے گی۔
جیسا کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نےتحریکِ ندوہ کا ذکر کرتے ہوئے ’’الملفوظ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ندوہ کا عقیدہ یہ ہے کہ وہاں نیچری، قادیانی، رافضی، وغیرہ سب اہل قبلہ ہیں۔ لہذا سب مسلمانان اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں۔ خدا سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ جیسے برٹش گورنمنٹ،کہ اس کی رعیت کے سب مذہب والے ایک سے ہیں۔کوئی مسلمان ایسی بات نہیں کہ سکتا‘‘۔
(الملفوظ حصہ دوم:206)۔
حضرت شاہ عبدالسلام رحمۃ اللّٰہ علیہ شوال 1313ھ مطابق 1895ء کو شہر بریلی میں ندوۃ العلماء کےاجلاس میں حضرت مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی رحمہ اللّٰه کے ساتھ شریک ہوئے۔ اسی اجلاس میں ندوہ کے بارے میں جو تحفظات تھے وہ سب بیان کر دیے اس پر ’’شبلی نعمانی‘‘ جواب دینےکی بجائے الٹا برہم ہوگیا۔ اس نے شعائرِ اسلام، نصابی کتب، علماء اہل سنت، اور بالخصوص اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ پر چوٹیں کیں۔ جب ان حضرات نے شبلی کے انداز ِگفتگو اور طرزِ تقریر پر اعتراض کیا۔ تو شبلی جوش میں کھڑا ہوکر ان بزگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ آپ نے اجلاس سے واک آؤٹ کرتے وقت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا رسالہ ’’سوالات حقائق نمابرؤس ندوۃ العلماء‘‘ پر دستخط کرکے شبلی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا:
’’اس کے ہر سوال کا مفصل جواب دے کر مطمئن کرنا آپ کا اور آپ کے تمام ہم خیال اراکین کا اخلاقی فرض ہے‘‘۔
آپ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے بریلی شریف اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے آپکو سینے سے لگایا اور فرمایا:
’’ماشاء اللہ! آپ نے فقیر کی بہترین نیابت و وکالت فرمائی۔بارک اللہ‘‘۔
(برہان ملت کی حیات وخدمات:34)
اس کے بعد آپ نے ہرجگہ اہل ندوہ کا علمی و عملی تعاقب کیا۔ بالآخر یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے حکم پر پٹنہ تشریف لےگئے۔ اس وقت کے چوٹی علماء پٹنہ کے جلسے میں شریک ہوئے تھے۔اس کا ذکر قاضی عبدالوحید رحمہ اللّٰه نے اپنے قصیدہ ’’آمال الابرار و آلام الاشرار‘‘ میں مفصل کیا ہے۔ یہاں سے اہل ندوہ ناکام ہوئے تو کلکتہ کا رخ کیا۔وہاں پر بھی حضرت عیدالاسلام رحمۃ اللّٰه علیہ نے تعاقب کیا۔ یہاں پر سر چھپانے کی جگہ نہ ملی۔ یہاں سے ناکامی کے بعد بنگلور کا رخ کیا۔ وہاں پہ بھی انہیں حضرت عیدالاسلام کی بدولت ناکامی ہوئی۔ آپ کی کوششوں سے عوام و خواص اس فتنے سے آگاہ ہوگئے۔
(ایضا: 37)
تاریخِ وصال:
14؍جمادی الاولیٰ 1371ھ، مطابق فروری 1952ء،طلوعِ آفتاب سے چند منٹ قبل 6:54 پر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا مزار جبل پور (انڈیا) میں مرجعِ خلائق ہے۔
ماخذ و مراجع:
برہانِ ملت کی حیات و خدمات
خلفاءِ اعلیٰ حضرت
اکرام امام احمد رضا
تخلیقِ پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار