عید الفطر کا بیان

عید الفطر کے روز خوشی کا اظہار کرناسنت ہے لہٰذا دائے سنت کی نیت سے ہمیں بھی اللہ عزوجل کے فضل و رحمت پر ضرور اظہارِ مسرت کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر خوشی کرنے کی ترغیب تو ہمیں خود اللہ عزوجل کا سچا کلام دے رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :۔

 قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ 

تم فرماؤ ! اللہ (عزوجل) ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔

ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:

وَ لِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمۡ وَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ

روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمہیں ہدایت فرمائی۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں عیدین کی اہمیت:

ابو انس رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان و نوروز) خوشی کرتے تھے ۔ فرمایا یہ کیا دن ہیں، لوگوں نے عرض کیا ، جاہلیت میں ہم ان دنوں میں خوشی کرتے تھے ۔  فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہیں دئیے ہیں عید الاضحی اور عید الفطر کے دن۔

ابن ماجہ ابو اسامہ رضی اللہ عنہ سے راوی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے ، اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگوں کے دل مریں گے ۔

اصبہانی معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں کہ جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرلے اس کے لئے جنت واجب ہے۔ ذی الحجہ کی آٹھویں، نویں، دسویں راتیں اور عید الفطر کی رات اور شعبان کی پندرہویں رات یعنی شب برات۔

نماز عید کی احکام و مسائل

عیدین کی نماز کس پر واجب ہے؟

مسئلہ: عیدین کی نماز واجب ہے، مگر سب پر نہیں، بلکہ انہیں پر جن پر جمعہ واجب ہے۔

نمازِ عیدین اور جمعہ میں کیا فرق ہے؟

مسئلہ: عیدین کی نماز کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لئے ہیں، صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور عیدین میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی، مگر برا کیا، دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز اور عیدین کا بعد نماز۔ اگر پہلے پڑھ لیا تو برا کیا، مگر نماز ہوگئی، لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں۔ اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت۔

صحیح مسلم میں ہے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ، ایک دو مرتبہ نہیں (بلکہ بارہا) نہ اذان ہوئی نہ اقامت۔

عید کی نماز بلا عذر چھوڑنا کیسا؟

مسئلہ: بلاوجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔

نمازِ عید کس وقت پڑھیں ؟

مسئلہ: نمازِ عید کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوی کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک ہے، مگر عید الفطر میں دیر کرنا اور عید الضحیٰ میں جلدی پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے سے پہلے زوال ہو گیا تو نماز جاتی رہی ۔ (درمختار وغیرہ) زوال سے مراد نصف النہا ر شرعی ہے ۔

عید کی سنتیں اور آداب

عید کے دن مندرجہ ذیل کام سنت ہیں ۔
۱۔حجامت بنوانا

۲۔ناخن ترشوانا

۳۔غسل کرنا

۴۔مسواک کرنا

۴۔اچھے کپڑے پہننا، نئے ہوں تو نئے ورنہ دھلے ہوئے۔

۵۔خوشبو لگانا (جب بھی خوشبو لگائیں تو پاک عطر لگائیں، اسپرٹ سینٹ نہ لگائیں کہ یہ ناپاک ہوتا ہے)

۶۔انگوٹھی پہننا (جب کبھی انگوٹھی پہنیں تو اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ صرف ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی چاندی کی ایک ہی انگوٹھی پہنیں، ایک سے زیادہ نہ پہنیں اور اس ایک انگوٹھی میں بھی نگینہ ایک ہی ہو۔ ایک سے زیادہ نگینے نہ ہوں اور بغیر نگینے کی بھی نہ پہنیں۔ نگینے کے وزن کی کوئی قید نہیں، چاندی یا کسی اور دھات کا چھلایا چاندی کے بیان کردہ وزن وغیرہ کے علاوہ کسی بھی دھات کی انگوٹھی یا چھلا نہیں پہن سکتے)

۷۔نمازِ فجر مسجد محلہ میں پڑھنا۔

۸۔عید الفطر کی نماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھالینا، تین، پانچ، سات یا کم و بیش مگر طاق ہوں۔ کھجوریں نہ ہوں تو کوئی میٹھی چیز کھالیں اگر نماز سے پہلے کچھ بھی نہ کھایا تو گناہ نہ ہوا ۔ مگر عشاء تک نہ کھایا تو عتاب کیا جائے گا۔ عید الا ضحی میں مستحب یہ ہے کہ نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے۔ چاہے قربانی کرے یا نہ کرے اور اگر کھالیا تو کراہت بھی نہیں۔

۹۔نمازِ عید، عید گاہ میں اد اکرن

۱۰۔ عید گا ہ پیدل جان

۱۱۔سواری پر بھی جانے پر حرج نہیں، مگر جس کو پیدل جانے پر قدرت ہو ، اس کے لئے پیدل جانا افضل ہے اور واپسی پر سواری پر آنے میں حرج نہیں۔

۱۲۔نمازِ عید کے لئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عید کو نمازِ عید کے لئے ایک راستے سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔

۱۳۔عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا (افضل تو یہی ہے ، مگر عید کی نماز سے قبل نہ دے سکے تو بعد میں دے دیں)

۱۴۔خوشی ظاہر کرن

۱۵۔کثرت سے صدقہ دینا

۱۶۔عید گاہ کو اطمینان و وقار اور نیچی نگاہ کئے جانا

۱۷۔ایک دوسرے کو مبارک باد دینا

۱۸۔بعدِنماز عید مصافحہ یعنی ہاتھ ملانا اور معانقہ یعنی بغلگیر ہونا ، جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے، بہتر ہے کہ اس میں اظہارِ مسرت ہو

۱۹۔عید الفطر کی نماز کے لئے جاتے ہوئے راستے میں آہستہ سے تکبیر کہیں اور نمازِ عید الضحیٰ کے لئے جاتے ہوئے راستے میں بلند آواز میں تکبیر کہیں۔ تکبیر یہ ہے:۔

 اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلَہ اَلاَّ  اَللّٰہُ وَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ

ترجمہ: ’’اللہ عزوجل بہت بڑا ہے ، اللہ عزوجل بہت بڑا ہے ،اللہ عزوجل کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اللہ عزوجل بہت بڑا ہے اور اللہ عزوجل ہی کے لئے تمام تعریفیں ہیں‘‘۔

نمازِ عید کا طریقہ:

نمازِ عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عید الفطر یا عید الاضحی کی نیت کرکے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے۔ پھر ثناء پڑھے۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑدے ۔ پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے۔ پھر ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے ۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لئے جائیں اور جہاں پڑھنا نہیں ہے وہاں ہاتھ چھوڑ دئیے جائیں۔ پھر امام اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے، پھر رکوع کرے اور دوسرے رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کانوں تک ہاتھ لے جا کر اللہ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی باربغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں، تین پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین دوسری رکعت میں قرأت کے بعد اور رکوع سے پہلے اور ان چھ تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان میں تین تسبیح کے برابر سکتہ کرے۔

بعدِ نماز عید مصافحہ و معانقہ کرے، جیسا کہ عموماً مسلمانوں میں رائج ہے کہ اس میں اظہار مسرت ہے۔

عید کا تحفہ

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عید کے دن 300 مرتبہ

سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ

پڑھے اور فوت شدہ مسلمانوں کی اراوح کو اس کا ثواب ہدیہ کرے ۔ تو ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں۔ اور جب وہ پڑھنے والا خود مرے گا تو اللہ عزوجل اس کی قبر میں بھی ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا۔

Menu