فقیہ العصر مفتی اعجاز ولی خان قادری رضوی علیہ الرحمہ

ترتیب : محمد دانش احمد اخترالقادری


ہمارے اسلاف میں سے جن جلیل القدر ہستیوں نے اپنی پوری زندگی ملک و ملت کی بہبود اور تبلیغی مقاصد کے لئے وقف کئے رکھی ان میں سے ایک نام خانوادۂ امام احمد رضا کے چشم و چراغ حضرت مفتی اعجاز ولی خاں الرضوی کا بھی ہے۔ جن کی بے لوث اور پُرخلوص دینی و ملی خدمات نے اطراف و اکناف میں بے شمار نفوس کو منور فرمایا۔ حضرت مفتی اعجاز ولی الرضوی اپنے وقت کے فاضل ، فقیہہ عصر، محدث، مفسر، ماہر اور نظریہ پاکستان کے علمبردار تھے۔

نام ،نسب ، تاریخ پیدائش:

مولانا مفتی اعجاز ولی خاں رضوی بن مولانا سردار ولی خاں بن مولانا ہادی علی خاں بن مولانا رضاعلی خاں (جد امجد امام احمد رضاخاں بریلوی) ۱۱ ؍ ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ ۲۱؍ مارچ ۱۹۱۴ء کو بریلی شریف میں پیداہوئے۔ 

شرف بیعت و اجازت:

آپ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا سے شرف بیعت اورمفتی اعظم سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔

تعلیم و تدریس:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی سے قرآن شریف شروع کیا، حفظ کی تکمیل عبدالقادر بریلوی سے کی، برادر اکبر مولانا تقدس علی خاں رضوی مولانامختار احمد سلطان پوری اورمولانا حسنین رضاخاں سے متوسطات تک تعلیم حاصل کی ،مفتی اعظم ہند مصطفی رضاخاں سے شرح جامی اوروالد گرامی مولاناسردار ولی خاں سے جلالین پڑھی۔ آپ نے درسیات کی تکمیل صدرالشریعہ مولانا امجد علی سے مدرسہ سعیدیہ دادون علی گڑھ میں کی ۔مفتی اعظم ہند نے ۱۳۵۶ھ/۱۹۳۷ء میں سند حدیث عطافرمائی ۔ بعد ازاں الٰہ آباد یونیورسٹی سے فاضل دینیات کی ڈگری حاصل کی۔

تکمیل علوم کے بعد این بی ہائی اسکول بریلی میں تدریس کاسلسلہ شروع کیاکچھ عرصہ دارالعلوم منظراسلام، مظہراسلام بریلی میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۴۵ء میں مدرسہ منہاج العلوم پانی پت تشریف لے گئے اورایک عرصہ دراز فرائض تدریس انجام دینے کے بعدپھر دارالعلوم منظر اسلام بریلی چلے آئے ، بریلی شریف سے فتویٰ نویسی کاآغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعدجامعہ محمدی شریف جھنگ (1947تا1951ء)، دارالعلوم اہلسنت وجماعت جہلم (1953)، جامعہ نعیمیہ لاہور1954ء تا 1960ء جامعہ نعمانیہ لاہور اورجامعہ نظامیہ لاہور کے شیخ الحدیث رہے۔

آپ نے تدریسی دنیا میں بڑا نام پیداکیا بےشمار علما نے آپ سے اکتساب فیض کیا ۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں سے زائد ہے جو اس وقت پاکستان کے علاوہ آزادکشمیر، بھارت، جزائر انڈونیشیا، افریقہ، ماریشس، ایران، افغانستان، کویت، دوبئی اور انگلینڈ میں دین کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ 

قلمی و دینی خدمات:

۱۹۵۴ء میںحضرت داتاگنج بخش ہجویری قدس سرہٗ کے مزار کے قریب جامعہ گنج بخش قائم کیا۔ جامعہ مسجد محلہ اسلام پور میں دارالعلوم حامدیہ رضویہ قائم کیاجوآج بھی جاری و ساری ہے۔ تالیف و تصنیف میں بھی آپ مہارت نامہ رکھتے تھے،  ہمہ وقت مصروفیت کے باوجود نصف درجن سے زائد کتب زیور طبع سے آراستہ ہیں۔

1۔ تسہیل الواضح خلاصہ نحو الواضح2۔رسالہ قانون المیراث3۔تفسیر القرآن المسمیٰ تنویر القرآن علی کنزالایمان 

4۔ترجمہ المکاتب والرسائل شیخ عبدالحق محدث دہلوی5۔ حقوق المجاور۔

سیاسی خدمات:

1937ء میں جب مسلمانان برصغیر نے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا تو مسلم لیگ کی حمایت میں آپ نے زبردست تقاریر کیں۔ 1943ء میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی میں معقولات و منقولات کے استاد مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ دارالافتاء بریلی میں فتویٰ نویسی کی اہم ذمہ داری بھی آپ کو سونپی گئی۔ آپ نے 1944ء میں قیام پاکستان کی قرارداد کے حق میں دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے پہلا فتویٰ جاری کر کے کانگرسی علماء کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔دسمبر 1947ءمیں پاکستان تشریف لانےکے بعد تدریس کے ساتھ سیاسی و تنظیمی معاملات میں بھرپور حصہ لیتے رہے۔

1953ء جب تحریک ختم نبوت چلی تو آپ نے اپنے قائد غازیٔ کشمیر علامہ ابوالحسنات کی قیادت میں اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور پورے ایک سو دن تک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربند رہے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں آپ نے نہ صرف ہزاروں روپے کا سامان مختلف محاذوں پر مجاہدین کے لئے بنفس نفیس لے کر پہنچے بلکہ آپ ہمہ وقت جہاد کے جذبہ سے سرشار سپاہیانہ وردی میں ملبوس رہے۔ حضرت مفتی اعجاز ولی خان صاحب متعدد بار جمیعت علماء پاکستان صوبہ پنجاب کے صدر بلا مقابلہ منتخب ہوتے رہے۔ آپ تادم وصال اسی منصب پر قائم تھے۔ 

سیرت و خصائص:

مفتی صاحب سلف کی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ جو وہ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ وہ منفی طرزعمل سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور حکمت و تدبر و مثبت طریق کار کی تلقین کرتے تھے۔ وہ ایک معتبر عالم دین، ماہر فقہی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ حُسن اخلاق، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، صاف دلی، سادگی، بے نفسی، علم و بردباری اور قوی الحافظہ جیسی علی صفات سے متصف تھے جوکہ ایک عالم کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ فتویٰ نویسی میں فیاض ازل نے اس قدر حصہ وافر عطا فرمایا تھا کہ مشکل سے مشکل جزئیات آپ کے نوک زباں رہتے اور قلم برداشتہ صفحۂ قرطاس پر منتقل فرما دیتے۔ فقہ میں آپ کو وہ بلند مقام حاصل تھا کہ علمائے وقت آپ کو فقیہہ العصر کے نام سے یاد کرتے۔ آپ فتویٰ نویسی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ قوی الحافظہ اس قدر کہ قرآن و احادیث اور فقہا کی عبارات گویا آپ کے صفحات پر لکھی ہوئی تھیں۔ فی البدیہہ تاریخ گوئی میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔

وصالِ پر ملال:

مفتی صاحب کچھ عرصہ صاحب فراش رہے۔ آخر 24 شوال 1393 ہجری بمطابق 19؍ نومبر 1973ء پیر اور منگل کی درمیانی شب 12 بجے علم و فضل کا یہ ماہتاب لاہور کی سرزمین میں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔ نماز جنازہ مفتی اعظم پاکستان ابوالبرکات سید احمد شاہ صاحب نے پڑھائی۔ مفتی اعجاز ولی خان صاحب کا مزار اقدس بہاول پور روڈ، لاہور مولانا غلام محمد ترنم اور مفتی غلام معین الدین کے بائیں جانب واقع ہے۔ ایک صاحبزادے پاشا صاحب اورایک صاحبزادی یادگار ہیں۔

——————————-

ماخذ

تجلیاتِ تاج الشریعہ 

روزنامہ نوائے وقت ،اگست 2013

https://www.nawaiwaqt.com.pk/29-Aug-2013/236069

Menu