محافظِ ناموسِ رسالت حضرت غازی عبد القیوم شہید رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ


نام ونسب:اسمِ گرامی:غازی عبدالقیوم خان شہید﷫۔والد کااسم گرامی:عبداللہ خان علیہ الرحمہ۔لقب: غازی ِاسلام،محافظ ناموس مصطفیٰﷺ۔آپ کاتعلق  غیوروبہادرقوم پٹھان سےتھا۔آپ کاتعلق ایک غریب اور مذہبی گھرانےسےتھا۔1932ء میں ان کےوالدِگرامی عبداللہ خان کاانتقال ہوگیا۔

تاریخِ ولادت: غالباً آپ کی ولادت باسعادت 1330ھ مطابق 1912ء کو’’غازی آباد‘‘ضلع ہزارہ میں ہوئی۔

تحصیلِ علم:غازی عبد القیوم خان کو بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کا شوق تھا۔ چھٹی جماعت پاس کرکے گاؤں کے علمائے کرام سے پڑھنا شروع کردیا۔ اکثر قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہتے۔ اسکول چھوڑ کر قرآنِ مجید کی تعلیم کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگئے، صوم و صلوٰۃ کی آخری وقت تک پوری پابندی کرتے رہے۔

سیرت وخصائص: غازی اسلام،شہید اسلام،محافظِ ناموس رسالت ،محسن ِ امت،پیکرِغیرت وحمیت،کشتۂ عشق ومحبت،عاشق رسول حضرت غازی عبدالقیوم شہید﷫۔رسم شبیری اور ضرب حیدری کی یاد تازہ کرنےوالے عاشق جانباز،مصطفیٰ کریمﷺ کےجان نثار،عاشق ِصادق،محافظ  عظمتِ محبوبِ خداﷺ،شمع مصطفیٰﷺ کایہ  بےتاب پروانہ ہزارہ کےایک دور افتادہ گاؤں ’’غازی‘‘کارہنے والااوربہت غریب باپ کابیٹا تھا۔مذہب سےلگاؤ گھٹی میں شامل تھا۔ اس کی بےداغ جوانی پروان چڑھی تو صحیح معنوں میں ایک مسلمان اور صالح جوان کی پاکیزہ  جوانی تھی۔نماز روزہ کسبِ حلال پر عمل اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان خالص اور رسول اکرمﷺ سےبےپاں عقیدت ومحبت ان کےایمان کےاجزائے ترکیبی تھے۔آج کےبرعکس اس وقت برصغیر کےہرمسلمان کی تعمیر انہیں خطوط پرہوتی تھی۔غازی عبدالقیوم شہید﷫ ایک بوڑھے چچا،ضعیف والدہ،اور ایک بیوہ بہن کےکفیل،اور ان کےعلاوہ ایک نئی نویلی دلہن کی آرزؤں اور تمناؤں کےامین تھے۔وقوعہ سےچندعرصہ قبل ان کی شادی ہوئی تھی۔بڑی بڑی کتب،اوراعلیٰ ڈگریوں کےحامل نہیں تھے۔بلکہ ایک ناظرہ قرآن مجید کے تلاوت کرنے والے سیدھے سادے دیہاتی مسلمان تھے۔البتہ بدروحنین،خیبر وکربلا،فاتحین ِ اسلام کےواقعات سنےہوئے تھے۔جانثارانِ اسلام سےوالہانہ عقیدت ومحبت رکھتےتھے۔

انتخابِ خداوندی: جب ان کی عمر 21/22 سال کی ہوئی تو 1934ء میں ان کی شادی کردی گئی۔ شادی کے چند ماہ بعد ان کو کراچی جانے کا شوق پیدا ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے حقیقی چچا رحمت اللہ خان وہاں پہلے سے مقیم تھے اور وکٹوریہ گاڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ چنانچہ یہ کراچی چلے گئے اور اپنے چچا کے ہاں ٹھہرے۔یہاں گھوڑا گاڑی چلاتے تھے۔لیکن ان کا زیادہ تر وقت گھر کےقریبی  مسجد میں تلاوتِ قرآن، ذکر اللہ اور نوافل وغیرہ میں گزرتا تھا۔ وہیں باجماعت نماز بھی اداکرتےتھے۔امام صاحب نےدرس میں نتھورام کی خرافات کابیان کیا،غازی صاحب کی غیرت ایمانی  نےکروٹ لی،اور وہیں مسجد کےصحن میں اللہ تعالیٰ سےعہدکیا کہ اس گستاخ کوجہنم واصل کرکےاللہ کی زمین کواس سےپاک کرونگا۔دوسرے ہی دن بازار سے ایک چاقو خریدا اور نتھو رام ہندو کی آئندہ پیشی کا انتظار کرنے لگے۔

نتھو رام بدانجام کا حشر:یہ 1933ء کے اوائل کا ذکر ہے، جب سندھ صوبہ بمبئی میں شامل تھا، ان دنوں آریہ سماج حیدرآباد(سندھ)کے سیکرٹری نتھو رام نے’’ہسٹری آف اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی،جس میں آقائے دوجہاں،سرکارِ دو عالم ﷺکی شانِ اقدس میں سخت دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا گیا،مسلمانوں میں اس کتاب کی اشاعت کے سبب بڑا اضطراب پیدا ہوا، جس سے متاثر ہوکر انگریز حکومت نے کتاب کو ضبط کیا اور نتھورام پر عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، جہاں اس پر معمولی جرمانہ ہوا اور ایک سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ عدل و انصاف کی اس نرمی نے نتھورام کا حوصلہ بڑھا دیا اور اس نے وی ایم فیرس جوڈیشل کمشنر کےیہاں ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی۔کمشنر کی عدالت نے اس گندہ دہن،شاتم ِرسول کی ضمانت منظور کرلی۔اس سے مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ بہت مضطرب اور فکر مند تھے کہ توہینِ رسالت کے اس فتنے کا سدِّباب آخر کس طرح کیا جائے۔

 ستمبر 1934ء کا واقعہ ہے کہ مقدمۂ اہانتِ رسولﷺکے ملزم نتھورام کی اپیل کراچی کی عدالت میں سنی جارہی تھی، عدالت دو انگریز ججوں کے بینچ پر مشتمل تھی۔ عدالت کا کمرہ وکیلوں اور شہریوں سے بھرا ہوا تھا۔ غازی عبد القیوم اطمینان کے ساتھ دوسرے تماشائیوں کے ساتھ وکلا کی قطار کے پیچھے نتھورام کے برابر والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا کہ عین مقدمے کی سماعت کے دوران وہ اپنا تیز دھار چاقولےکرنتھورام پر ٹوٹ پڑا اور اس کی گردن پر دو بھرپور وار کیے۔نتھورام چاقو کےزخم کھاکرزور سے چیخااورزمین پرلڑکھڑا کر گر پڑا۔غازی عبد القیوم نے پولیس کی گرفت سے بچنے اور فرار ہونے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی۔ اس نے نہایت ہنسی خوشی اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا۔ انگریز جج نے ڈائس سے اتر کر اس سے پوچھا:’’تم نےا س شخص کو کیوں قتل کیا؟‘‘غازی عبد القیوم نے عدالت میں آویزاں جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :’’ کہ یہ تصویر تمہارے بادشاہ کی ہے۔کیا تم اپنے بادشاہ کی توہین کرنے والےکو موٹ کے گھاٹ نہیں اتار دو گے؟ اس ہندو نے میرے آقا اور میرے شہنشاہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے، جسے میری غیرت بردا شت نہیں کرسکی‘‘۔غازی عبد القیوم پر مقدمہ چلا۔ اس نے اقبالِ جرم کیا۔ آخرِ کار سیشن جج نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا۔ غازی عبد القیوم نے فیصلہ سن کر کہا:’’جج صاحب! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے موت کی سزا دی۔ یہ ایک جان کس گنتی میں ہے، اگر میرے پاس ایک لاکھ جانیں بھی ہوتیں، تو ناموسِ رسول ﷺ پر نچھاور کردیتا‘‘۔(شہیدان ناموس رسالت:280)

اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ دین دار مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ غازی عبد القیوم کا قانونی دفاع کرنے کے لیے سامنے آگیا۔ سید محمد اسلم بار ایٹ لا کو عبد القیوم کی پیروی کی سعادت حاصل ہوئی ، لیکن اس مردِ مجاہد(عبد القیوم) نے پہلی ہی ملاقات میں اپنے قانونی مشیر پر واضح کردیا کہ میں نے ماتحت عدالت میں جو اقبالی بیان دیا ہے، اس کے خلاف کچھ کہہ کر اپنی عاقبت خراب نہیں کروں گا۔ سید محمد اسلم نے مقدمے کی تیاری جاری رکھی اور شہادتوں کے سلسلے میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ خواجہ حسن نظامی  وغیرہ  کو بطورِ گواہ طلب کرانے کی درخواست کی تاکہ وہ اسلامی نقطۂ نظر واضح کرسکیں،لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کردی۔ مقدمۂ صفائی کی ساری بنیاد اس نکتے پر رکھی گئی تھی کہ:’’یہ ایک مسلمان کا ایمان و عقیدہ ہےکہ اگر کوئی شخص ناموسِ رسول ﷺپر حملہ کرے ، تو وہ اسے موت کے گھاٹ اتاردیاجائے‘‘۔(ایضا:)

اپیل کی سماعت جسٹس دادیبا مہتا(Dadiba Mehta) اور 9 ارکانِ جیوری کے سامنے شروع ہوئی۔جیوری چھ انگریزوں، دو پارسیوں اور ایک عیسائی ممبر پر مشتمل تھی۔ عدالت کے باہر کم و بیش 25 ہزارمسلمانوں کا ایک بڑا ہجوم فیصلے کا منتظر تھا۔ ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کے بعد غازی عبد القیوم کے پیروکار سیّد محمد اسلم نے صفائی کا موقف پیش کیا۔ انہوں نے مقدمے کے بنیادی نکات اور اقدامِ قتل کے محرکات پر تین گھنٹے تک مدلل بحث کی۔ ان کی تقریر کے بعض حصے اس قدر اہم تھے کہ انہیں قانون و انصاف کی تاریخ میں ہمیشہ زرّیں حروف میں لکھا جائے گا۔انہوں نے ’’اشتعال‘‘کے قانونی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے یہ نکتہ پیش کیا’’ سوال یہ نہیں کہ عبد القیوم کا اقدام ملک کے قانون کے خلاف ہے۔سوال یہ ہے کہ عبد القیوم نے یہ اقدام اشتعال کے عالم میں کیا ہے، تو کیوں نہ اسے وہ کم سے کم سزا دی جائے جس کی اجازت دفعہ 302 کے تحت قانون نے دے رکھی ہے۔اگر موجودہ قانون زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے یا کسی عورت کے معاملے میں قاتل کو ’’اشتعال‘‘ کی رعایت دیتا ہے تو رعایت کا یہ اصول عبد القیوم کے مقدمے میں کیوں قابلِ قبول نہیں ہے! جبکہ ایک مسلمان کے ناموسِ رسول ﷺ پر حملے سے زیادہ اور کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوسکتی‘‘۔وکیل صفائی کی تقریر کے دوران جج نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کے اس اظہارِ خیال سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوگا؟ سید محمد اسلم نے اس موقع پر جواب دیا:’’جنابِ والا!مسلمان ، حکومت اور ہندو اکثریت کو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے ہیں کہ ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کی محبت کیا حیثیت رکھتی ہےاور اس بارے میں مسلمانوں کے جذبات کیاہیں،مگر ان دونوں نے ذرا توجہ نہیں دی۔ اب مجھے عدالت میں یہ واضح کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ جب تک ایک مسلمان بھی زندہ ہے، وہ ناموسِ رسالت ﷺ کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز اور قوت کو ختم کرکے رہے گا۔ اس معاملے میں مسلمان کو تعزیراتِ ہند کی پروا ہے، نہ پھانسی کے پھندے کی‘‘۔

غازی عبد القیوم کے پیروکار سیّد محمد اسلم نے اقدامِ قتل کے لیے اشتعال کے مفہوم کی اہمیت پر جو قانونی نکتہ پیش کیا تھا، اگر وہ تسلیم کرلیا جاتا، تو ناموسِ رسالت ﷺ پر حملہ کرنے کی مذموم تحریک ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی اور آئندہ کوئی اس جسارت کا تصور بھی نہ کرسکتا، لیکن عدالت نے یہ اپیل خارج کردی۔غازی عبدالقیوم کے لیے سزائے موت بحال رہی۔

پر جوش اور مضطرب مسلمانوں کے لیے یہ وقت بڑی آزمائش کا تھا۔ بالآخر فروری 1135ء میں کراچی کے مسلمانوں نے ایک وفد حکیم الامّت علامہ اقبال ﷫کی خدمت میں لاہور بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وفد میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوکر اس مقدمے کی روداد تفصیل کے ساتھ سنائی۔ اس کے بعد عرض کیا کہ آپ وائسرائے سے ملاقات کریں، اپنے اثر و رسوخ کو کام میں لائیں اور انہیں اس پر آمادہ کریں کہ غازی عبد القیوم کی سزائے موت عمر قید میں بدل دی جائے۔ وفد نے اصرار کے ساتھ کہا کہ آپ نے سعی و توجہ فرمائی تو پوری توقع ہے کہ غازی عبد القیوم کی جانب سے رحم کی اپیل حکومتِ ہند ضرور منظور کرلے گی‘‘۔

رحم کی اپیل پر علامہ اقبال کا جواب: علامہ﷫ وفد کی یہ گفتگو سن کر دس بارہ منٹ تک بالکل خاموش رہے اور گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ وفد کے ارکان منتظر اور مضطرب تھے کہ دیکھیے علامہ کیا فرماتے ہیں۔ توقع یہی تھی کہ جواب اثبات میں ملے گا کہ ایک عاشقِ رسول کا معاملہ دوسرے عاشقِ رسول کے سامنے پیش ہے۔اس سکوت کو پھر علامہ اقبال ﷫ ہی کی آواز نے توڑا۔ انہوں نے فرمایا:’’کیا عبد القیوم کمزور پڑگیا ہے؟‘‘ارکانِ وفد نے کہا:’’نہیں اس نے تو ہر عدالت میں اپنے اقدام کا اقبال اور اعتراف کیا ہے، اس نے نہ تو بیان تبدیل کیا اور نہ لاگ لپیٹ اور ایچ پیچ کی کوئی بات کہی وہ تو کھلے دل سے کہتا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے مجھے پھانسی کے پھندے سے بچانے کی کوشش مت کرو ‘‘۔وفد کی اس گفتگو کو سن کر علامہ کا چہرہ تمتما گیا۔ انہوں نے برہمی کے لہجے میں فرمایا:’’جب وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے، تو میں اس کے اجر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہوسکتا ہوں؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں ، جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مرگیا تو شہید ہے‘‘۔علامہ کے لہجے میں اس قدر تیزی تھی کہ وفد کے ارکان اس سلسلے میں پھر کچھ اور کہنے کی جرأت نہ کرسکے۔ وفد کراچی واپس ہوگیا۔غازی عبد القیوم کو جس دن پھانسی دی گئی، کراچی کی تاریخ میں وہ دن مسلمانوں کے جوش و اضطراب کا یادگار دن تھا۔ دلوں میں یہ جذبہ موجزن تھا کہ کاش، یہ شہادت ہمیں میسر آتی۔

لاہور میں غازی علم دین اور کراچی میں غازی عبد القیوم کے ان واقعات کا علامہ اقبال نے بہت زیادہ اثر قبول کیا تھا اور اپنے اس قلبی تاثر کو تین شعروں میں بیان فرمادیا۔یہ اشعار’’لاہور اور کراچی‘‘ کے عنوان سے’’ ضربِ کلیم‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں مگر غازی عبد القیوم کے لیے رحم کی درخواست کے اس واقعے کی روشنی میں ان اشعار کا مفہوم کچھ اور زیادہ ابھرتا ہے۔

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور

موت کیا شے ہے؟ فقط عالمِ معنیٰ کا سفر

ان شہیدوں کی دیت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ

قدر و قیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کر

آہ اے مردِ مسلمان تجھے کیا یاد نہیں

حرفِ       لا                  تد ع         مع                 اللّٰہ              الھا                         اٰخر

لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے وقتِ جنازہ جلوس نکالے۔لاکھوں نے ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی، ناموسِ رسول ﷺ پر اپنی جان نچھاور کرنے والے اس شہید کو بڑی عزت و تکریم کے ساتھ میوہ شاہ کے قبرستان میں ایک خاص چار دیواری کے اندر دفن کیا گیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی قبرِ انور پر اپنی کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ان کے طفیل ہمارے اوپر بھی رحمت فرمائے۔ ہمیں بھی غازی عبد القیوم خان شہید ﷫ کی طرح ناموسِ رسالت پر مر مٹنے والا بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔

تاریخ شہادت: 13/ذی الحجہ 1353ء بمطابق 19/مارچ 1935ء۔قبر انور میوہ شاہ قبرستان کراچی میں ہے۔

ماخذومراجع: شہیدان ناموس رسالت

  غازی عبد القیوم رحمۃ اللہ علیہ

خطاب : خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند ، مخدوم اہل سنت حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ

Menu