زکوٰۃ ۔۔۔احکام و مسائل
قرآن کریم کی روشنی میں زکوۃ کی اہمیت
قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾ اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتۡبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّ لَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمۡ اَجۡرُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾ قَوۡلٌ مَّعۡرُوۡفٌ وَّ مَغۡفِرَۃٌ خَیۡرٌ مِّنۡ صَدَقَۃٍ یَّتۡبَعُہَاۤ اَذًی ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیۡمٌ ﴿۲۶۳﴾
(البقرۃ:۲۶۱-۲۶۳)
ترجمہ:جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی کہاوت اس دانہ کی ہے جس سے سات بالیں نکلیں۔ ہر بال میں سو دانے اور اللہ جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا بڑا علم والا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتاتے نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کا ثواب ان کے رب کے حضور ہے اور نہ ان پر کچھ خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے ۔ اچھی بات اور مغفرت اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد اذیت ہو اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾
(آل عمران: ۹۲)
ہرگز نیکی حاصل نہ کرو گے جب تک اس میں سے نہ خرچ کرو جسے محبوب رکھتے ہو اور جو کچھ خرچ کرو گے اللہ اسے جانتا ہے ۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں زکوۃ کی اہمیت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اس سے شر دور فرما دیا۔
بزار میں علقمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا اسلام میں پورا ہونا یہ ہے کہ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔
ابو داؤد میں حسن بصری سے مرسلاً اور طبرانی و بیہقی نے ایک جماعت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کرلو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور بلا نازل ہونے پر دعا و تضرع سے استعانت کرو۔
احادیث کی روشنی میںزکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے لئے سخت وعید
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس کے پاس سونا چاندی ہو اور اس کی زکوٰۃ نہ دے، قیامت کے دن اس زرو سیم کی تختیاں بنا کر جہنم کی آگ میں تپائیں گے۔ پھر ان سے اس شخص کی پیشانی اور کروٹ اور پیٹھ پر داغ دیں گے ۔ جب وہ تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گی، پھر انہیں تپائیں گے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے یونہی کرتے رہیں گے کہ تمام مخلوق کا حساب ہوجائے گا۔
مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے گا، وہ مال روز قیامت گنجے اژدھے کی شکل بنے گا اور اس کے گلے میں طوق ہو کر پڑے گا۔ پھر سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کتاب اللہ سے اس کی تصدیق کی تھی کہ رب عزوجل فرماتا ہے:ترجمہ: ’’جس چیز میں بخل کررہے ہیں ، قریب ہے کہ طوق بنا کر ان کے گلے میں ڈالی جائے قیامت کے دن‘‘۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اژدھا منہ کھول کر اس کے پیچھے دوڑے گا ، یہ بھاگے گا اس سے فرمایا جائے گا ، لے اپنا خزانہ کہ چھپا کر رکھا تھا کہ میں اس سے غنی ہوں جب دیکھے گا کہ اس اژدھے سے کہیں بچائو نہیں ، ناچار اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے دے گا۔ وہ ایسا چبائے گا جیسے نر اونٹ چباتا ہے۔ (رواہ مسلم عن جابر)
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن تونگروں کے لئے محتاجوں کے ہاتھ سے خرابی ہے۔ محتاج عرض کریں گے اے رب ! انہوں نے ہمارے وہ حقو ق جو تو نے ہمارے لئے ان پر فرض کئے تھے ظلماً نہ دئیے، اللہ عزوجل فرمائے گا کہ مجھے قسم ہے اپنی عزت و جلال کی ! کہ تمہیں اپنا قرب عطا کروں گا اور انہیں دور رکھوں گا۔ (رواہ الطبرانی و ابوشیخ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
دو عورتیں خدمت والا سونے کے کنگن پہنے حاضر ہوئیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی زکوٰۃ دیتی ہو۔ عرض کی نہیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کیا چاہتی ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے ۔ عرض کی: نہیں ۔ فرمایا تو زکوٰۃ دو۔
زکوٰۃ کے لغوی معنی:
زکوٰۃ اسلام کا ایک انتہائی اہم رکن ہے۔ زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزگی کے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال پاک ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے، اور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتا ہے زکوٰۃ ہمیشہ صحیح مصرف میں خرچ کرنا چاہیے ، ورنہ دینا نہ دینا برابر ہوجاتا ہے۔
زکوٰۃ کے شرعی معنی:
زکوٰۃ شریعت میں اللہ تعالیٰ کے لئے مال کے ایک حصہ کا جو شرع نے مقرر کیا ہے۔ مسلمان فقیر کو مالک قرار دینا ہے اور وہ فقیر نہ ہاشمی ہو نہ ہاشمی کا آزاد کردہ غلام۔
زکوۃ کے احکام و مسائل
زکوٰۃ فرض ہے:
زکوٰۃ فرض ہے اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گناہگار اور مردود الشہادۃ ہے۔
زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے کیا شرائط ہیں؟
زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے چند شرطیں یہ ہیں:(۱) مسلمان ہونا (۲) بالغ ہونا (۳) عاقل ہونا (۴) آزاد ہونا (۵) مالک نصاب ہونا (۶) پورے طور پر مالک ہونا (۷) نصاف قرض سے فارغ ہونا (۸) نصاب کا حاجت اصلیہ سے فارغ ہونا (۹) مال کا نامی ہونا (۱۰) سال گذرنا
۱… مسلمان ہونا: کافر پر زکوٰۃ واجب نہیں، اگر کوئی کافر مسلمان ہوا تو اسے یہ حکم نہ دیا جائے گا کہ کفر کے زمانے کی زکوٰۃ اداکرے۔
۲… بالغ ہونا: نابالغ پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
۳…عاقل ہونا : مجنون پر زکوۃ واجب نہیں، جب کہ جنون پورے سال کو گھیر لے اور اگر سال کے اول و آخر میں اچھا ہوجاتا ہے چاہے بیچ سال میں اچھا نہ ہو تو زکوٰۃ واجب ہے۔ اور جنون اگر اصلی ہو یعنی جنون ہی کی حالت میں بلوغ ہوا تو اس کا سال ہوش آنے سے شروع ہو گا یونہی اگر جنون عارضی ہے مگر پورے سال کو گھیر لیا تو جب افاقہ ہوگا، اس وقت سے سال کی ابتداء ہوگی۔
۴…آزاد ہونا:غلام پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
۵…مالک نصاب ہونا: نصاب سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں، یعنی جتنے مال پر شریعت نے زکوٰۃ مقرر کی ہے اس سے کم مال کا مالک ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔
۶… پورے طور پر مالک ہونا:
پورے طور پر مال کا مالک ہویعنی اس پر قبضہ بھی ہو تب زکوٰۃ واجب ہے، ورنہ نہیں۔
مسئلہ: جو مال گم ہو گیا یا دریا میں گر گیا یا کسی نے غصب کرلیا اور اس کے پاس غصب کے گواہ نہیں یا جنگل میں دفن کردیا تھا اور یہ یاد نہیں رہا کہ کہاں دفن کیا تھا یا انجان کے پاس امانت رکھی تھی اور یہ یاد نہیں رہا کہ وہ کون ہے یا مدیون نے دین سے انکارکردیا اور اس کے پاس گواہ ہیں پھر یہ مال مل گیا تو جب تک نہ ملا تھا اس زمانہ کی زکوٰۃ واجب نہیں۔ اگر ایسے پردین ہے جو دین کا اقرار کرتا ہے مگر ادائیگی میں دیر کرتا ہے یا نادار ہے یا قاضی کے پاس اس کے مفلس ہونے کا حکم ہوچکا ہے یا وہ منکر ہے مگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو جب مال ملے گا گذرے ہوئے سالوں کی بھی زکوٰۃ واجب ہے۔
۷… نصاب کا دین سے فارغ ہونا:
مسئلہ: نصاب کا مالک تو ہے مگر اس پر اتنا دین ہے کہ دین ادا کرنے کے بعد نصاب نہیں رہتا تو زکوٰۃ واجب نہیں چاہے دین بندہ کا ہو (جیسے قرض، زرثمن، کسی چیز کا تاوان) چاہے خدا کا ہو (جیسے زکوٰۃ و خراج) مثلاً کوئی شخص صرف ایک نصاب کا مالک ہے اور دو سال گزر گئے کہ زکوٰۃ نہیں دی تو صرف پہلے سال کی زکوٰۃ تو اس پر دین ہے۔ اس کے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا دوسرے سال کی زکوٰۃ واجب نہیں ہوئی۔
مسئلہ: جو دین میعادی ہو وہ زکوٰۃ سے نہیں روکتا ۔ چونکہ عادتاً دین مہر کا مطالبہ ہوتا، لہٰذا اگرچہ شوہر کے ذمہ کتنا ہی دین مہر ہو جب وہ مالک نصاب ہے تو زکوٰۃ واجب ہے۔
مسئلہ: دین اس وقت زکوٰۃ سے روکتا ہے، جب زکوٰۃ واجب ہونے سے پہلے کا ہو اور اگر نصاب پر سال گزرنے کے بعد دین ہوا تو زکوٰۃ پر کوئی اثر نہیں، زکوٰۃ دینی ہوگی۔
۸…نصاب کا حاجت اصلیہ سے فارغ ہونا: جو مال حاجت اصلیہ کے علاوہ ہو اس میں زکوٰۃ واجب ہے جب کہ وہ نصاب کے برابر ہو۔
حاجت اصلیہ سے کیا مراد ہے؟
مسئلہ: یعنی زندگی بسر کرنے میں جس چیز کی ضرورت ہو، اس میں زکوٰۃ واجب نہیں، جیسے رہنے کا مکان، جاڑے گرمیوں میں پہننے کے کپڑے، خانہ داری کے سامان، سواری کے جانور، آلات ۔ پیشہ وروں کے اوزار، اہل علم کے لئے حاجت کی کتابیں، کھانے کے لئے غلہ۔
۹…مال کا نامی ہونا:
مسئلہ: مال کا نامی ہونا یعنی بڑھنے والا خواہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً یعنی اگر بڑھانا چاہے تو بڑھائے یعنی اس کے پاس یا اس کے نائب کے قبضے میں ہو۔ ہر ایک کی دو صورتیں ہیں۔ وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہو، اسے خلقی کہتے ہیں۔ جیسے سونا چاندی کہ یہ اس لئے پیدا ہوئے ہیں کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں یا اس لئے مخلوق تو نہیں مگر اس سے یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اسے فعلی کہتے ہیں۔ سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیں فعلی ہیں کہ تجارت سے سب میں نمو ہوگا۔
۱۰…سال گزرنا:
مسئلہ: سال سے مراد قمری سال ہے یعنی چاند کے مہینوں سے بارہ مہینے شروع سال اور آخر سال میں نصاب کام ہے ۔ مگر درمیان میں نصاب کی کمی ہوگئی تو یہ کمی کچھ اثر نہیں رکھتی یعنی زکوٰۃ واجب ہے۔
زکوٰۃ کتنے قسم کے مال پر فرض ہے؟
زکوٰۃ تین قسم کے مال پرہے ۔ (۱) ثمن یعنی سونا چاندی (۲) مالِ تجارت (۳) سائمہ یعنی چرائی پر چھوڑے جانور۔
مسئلہ: سونے چاندی میں مطلقاً زکوٰۃ واجب ہے۔ جب کہ بقدر نصاب ہوں اگرچہ دفن کرکے رکھے ہوں یا استعمال میں ہوں۔ تجارت کرے یا نہ کرے۔ اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکوٰۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیت ہو یا چرائی پر چھوڑے جانور۔
کیا موتی اور جوہرات پر بھی زکوٰۃ واجب ہے؟
مسئلہ: موتی اور جواہرات پر زکوٰۃ واجب نہیں اگرچہ ہزاروں کے ہوں ہاں اگر تجارت کی نیت سے لئے تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔
صاحب نصاب کے کتنے مال پر زکوٰۃ واجب ہے؟
مسئلہ: جو شخص نصاب کا مالک ہے اگر درمیان سال میں کچھ اور مال بڑھا تو اس بڑھے ہوئے مال کا سال الگ نہیں بلکہ پہلے مال کا ختم سال اس کے لئے بھی ختم سال ہے، اگرچہ سال پورا ہونے سے ایک ہی منٹ پہلے حاصل ہوا ہو۔
کیا زکوٰہ دیتے وقت نیت کرنا ضروری ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃ دیتے وقت یا زکوٰۃ کے لئے مال الگ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کا ہونا ضروری ہے ۔ نیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر پوچھا جائے تو بلا تامل بتاسکے کہ زکوٰۃ ہے۔
جوشخص سال بھرخیرات کرے اس کے بعد نیت کرے کہ جو کچھ دیا وہ زکوٰۃ ہے کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہوگی؟
مسئلہ: سال بھر تک خیرات کرتا رہا، اس کے بعد نیت کی جو کچھ دیا ہے، وہ زکوٰۃ ہے۔ اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی۔
زکوٰۃ کا مال اگر فقیر لوٹ لیں تو کیا حکم ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃ کا مال ہاتھ پر رکھا تھا کہ فقیروں نے لوٹ لیا تو زکوٰۃ ادا ہوگئی اور اگر ہاتھ سے گر گیا اور فقیروں نے اٹھا لیا مگر یہ اسے پہچانتا ہے اور راضی ہوگیا اور مال برباد نہ ہوا تو ادا ہوگئی۔
کیا زکوٰۃ کا مال مسجد اور مردہ کی تجہیز و تکفین میں لگا سکتے ہیں؟
مسئلہ: زکوٰۃ کا روپیہ مردہ کی تجہیز و تکفین (کفن دفن) یا مسجد کی تعمیر میں نہیں لگا سکتا کہ اس میں فقیر کو مالک کردینا نہیں پایا گیا اگر ان چیزوں میں خرچ کردینا چاہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ فقیر کو مالک کردیں۔ یہ فقیر خرچ کرے، ثواب دونوں کو ہوگا۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر سو ہاتھوں میں دقہ گزرا تو سب کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا دینے والے کو اور اس کے اجر میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
کیا زکوٰۃ دیتے وقت منہ سے زکوٰۃ کہہ کر دینا ضروری ہے؟
مسئلہ: زکوٰہ دینے میں اس کی ضرورت نہیں کہ فقیروں کو زکوٰۃ کہہ کر دے بلکہ صرف زکوٰۃ کی نیت کافی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اور لفظ جیسے ہدیہ ، نذریا بچوں کے لئے مٹھائی کھانے کو تمہیں عید کرنے کو کہہ دیا اور خود نیت زکوٰۃ کی رکھی تو بھی ادا ہوجائے گی۔ بعض محتاج ضرورت مند زکوٰۃ کا روپیہ نہیں لیتے انہیں زکوٰۃ دینے میں زکوٰۃ کا لفظ نہ کہے۔
اگر کوئی شخص اپنی ملکیت سے زائد آئندہ ہونے والی آمدنی کی بھی زکوٰۃ ادا کردے تو اس کا کیا حکم ہے؟
مسئلہ: ایک لاکھ کا مالک ہے اور دو لاکھ کی زکوٰۃ دی اور نیت یہ ہے کہ سال تمام تک اگر ایک لاکھ اور ہوگئے تو یہ اس کی ہے۔ ورنہ آئندہ سال میں محسوب ہوگی تو یہ جائز ہے۔
اگر کسی شخص و شک ہو کہ زکوٰۃ ادا کی ہے یا نہیں تو کیا حکم ہے؟
مسئلہ: اگر شک ہے کہ زکوٰۃ دی یا نہیں تو اب دے۔
زکوٰۃ دینے کے لئے دکیل بنایا مگر وکیل نے زکوٰۃ دیتے وقت زکوٰۃ دینے کی نیت نہ کیا تو کیا زکوٰۃ اد اہوگئی؟
مسئلہ: زکوٰۃ دینے کے لئے وکیل بنایا اور وکیل کو بہ نیت زکوٰۃ مال دیا مگر وکیل نے فقیر کو دیتے وقت نیت نہیں کی، ادا ہوگئی۔ یونہی زکوٰۃ کا مال زمی کو دیا کہ وہ فقیر کو دے دے اور ذمی کو دیتے وقت نیت کرلی تھی تو یہ نیت کافی ہے۔
کیا وکیل مال زکوٰۃ اپنی اولاد یا بیوی کو دے سکتا ہے؟
مسئلہ: وکیل کو اختیار ہے کہ مال زکوٰۃ اپنے لڑکے یا بی بی کو دیدے جب کہ یہ فقیر ہوں اور لڑکا اگر نابالغ ہے تو اسے دینے کے لئے خود اس وکیل کا فقیر ہونا بھی ضروری ہے مگر اپنی بی بی یا اولاد کو اس وقت دے سکتا ہے جب موکل نے ان کے سوا کسی خاص شخص کو دینے کے لئے نہ کہہ دیا ہو ورنہ انہیں نہیں دے سکتا۔
کیا وکیل مال زکوٰۃ خود لے سکتا ہے؟
مسئلہ: وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ خود لے لے ہاں اگر زکوٰۃ دینے والے نے یہ کہہ دیا ہو کہ جس جگہ چاہو صرف کرو تو لے سکتا ہے۔
کیا وکیل کسی دوسرے کو مالک کی اجازت کے بغیر وکیل بناسکتا ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃ کے وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر اجازت مالک دوسرے کو وکیل بنا دے۔
کیا مال مباح کرنے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے؟
مسئلہ: مباح کردینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ مثلاً فقیر کو زکوٰۃ کی نیت سے کھانا کھلادیا تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ اس لئے کہ یہ مالک کردینا نہ ہوا۔ ہاں اگر کھانا دیدے کہ کھالے یا لے جائے تو ادا ہوگئی، یونہی زکوٰۃ کی نیت سے کپڑا دے دیا تو ادا ہوگئی۔
زکوٰۃ کا مال کسی کی مِلک کرنے میں کس چیز کا خیا ل رکھا جائے؟
مسئلہ: مالک کرنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے کو زکوٰۃ دے جو قبضہ کرنا جانتا ہو یعنی ایسا نہ ہو جو پھینک دے یا دھوکا کھائے ورنہ ادا نہ ہوگی۔ جیسے چھوٹے بچے یا پگل کو زکوٰہ دینے سے ادا نہ ہوگی۔ جس بچے کو اتنی عقل نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کا باپ جو فقیر ہو وہ قبضہ کرلے اس بچے کو وصی یا وہ کہ یہ بچہ جس کی نگرانی میں ہے، وہ قبضہ کرلے۔
سونے چاندی مالِ تجارت کی زکوۃ کا بیان
زکوٰۃ کیلئے سونے چاندی کا کیا نصاب ہے؟
مسئلہ: سونے کا نصاب بیس مثقال ہے یعنی ساڑھے سات تولے اور چاندی کا دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولے۔
اگر سونا چاندی موجود نہیں، مال تجارت موجود ہے تو کیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی؟
مسئلہ: سونے چاندی کے علاوہ تجارت کی کوئی چیز ہو جس کی قیمت سونے چاندی کی نصاب کوپہنچے تو اس پر بھی زکوٰہ واجب ہے ۔ یعنی قیمت کا چالیسواں حصہ اور اگر اسباب کی قیمت تو نصاب کو نہیں پہنچتی مگر اس کے پاس ان کے علاوہ سونا چاندی بھی ہے تو ان کی قیمت سونے چاندی کے ساتھ ملا کر مجموعہ کریں اگر مجموعہ نصاب کو پہنچا تو زکوٰۃ واجب ہے۔ اسباب تجارت کی قیمت سونے کی نصاب کی قیمت سے لگائی تو نصاب نہیں بنتی اور چاندی کی نصاب کی قیمت سے بنائیںتو بن جاتی ہے تو اس سے لگائی جائے جس سے نصاب پوری ہو، جیسے آج کل کے ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت میں چاندی کی کئی نصابیں ہوگی۔ لہٰذا مالِ تجارت کو کو چاندی کی نصاب کی قیمت سے لگائیں گے۔
اگر کسی شخص کے پاس سونا بھی ہے اور چاندی بھی مگر دونوں میں سے کوی بھی نصاب کے برابرنہیں تو اب کیا حکم ہے؟
مسئلہ: سونا بھی ہے اور چاندی بھی اور دونوں میں سے کوئی بھی نصاب کے برابر نہیں تو سونے کی قیمت کی چاندی، چاندی میں ملائیں تو نصاب ہوجاتی ہے اور چاندی کی قیمت کا سونا سونے میں ملائیں تو نہیں ہوتی تو واجب ہے کہ جس میں نصاب پوری ہووہ کریں۔
زکوٰۃ کس حساب سے اد اکرے؟
مسئلہ: زکوٰۃ ہر نصاب و خمس نصاب پر چالیسواں حصہ ہے اور مذہب صاحبین پر نہایت آسان اور فقراء کے لئے نافع یہ ہے کہ فی صد ڈھائی روپے سونے اور چاندی کے نصاب سے اگر کچھ زیادہ ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ نصاب کا پانچواں حصہ سے کم زیادتی ہو تو اس زیادتی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور جب پانچواں حصہ زیادہ وہگا تو اس میں زکوٰۃ ہوگی مثلاً جس کے پاس ساڑھے سات تولے سونا ہے تو اس پر دو ماشے تین رتی سونا زکوٰۃ میں دینا فرض ہے۔ اس کے بعد ساڑھے سات تولہ کا پانچواں حصہ ڈیڑھ تولہ سے زیادہ ہو یعنی نو تولے سونا ہو جائے تو زکوٰۃ بڑھے گی اور نو تولے سے کم یعنی پونے نو تولے میں بھی وہی زکوٰۃ ہوگی جو ساڑھے دس تولے میں تھی۔ اس طرح نو تولے کی زکوٰۃ ساڑھے دس تولے کی زکوٰۃ سے کم تک رہے گی۔ جب ساڑھے دس تولے ہوجائے گا تو زکوٰۃ بڑھے گی۔ اسی طرح چاندی کے نصاب میں ساڑھے باون تولے کی زکوٰۃ تریسٹھ تولے سے کم تک رہے گی۔ جب تریسٹھ تولے چاندی ہوجائے گی تو زکوٰۃ بڑھے گی۔ (فتاویٰ رضویہ )
کیا کرنسی نوٹ پر بھی زکوٰۃ واجب ہے؟
مسئلہ: نوٹ کی بھی زکوٰۃ واجب ہے ۔ جب تک ان کا رواج اور چلن ہو کہ یہ بھی ثمن اصطلاحی ہیں اور پیسوں کے حکم میں ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت کے نوٹ پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اور اس کے آگے سونے چاندی کے حساب کے قاعدے سے ہے۔
مالِ تجارت پر زکوٰۃ کس قیمت کے حساب سے اد اکرے؟
مسئلہ: مال تجارت میں سال گزرنے پر جو قیمت ہوگی اس کا اعتبار ہے مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت دو سو درہم سے کم نہ ہو۔
جوسامان کرایہ پر دینے کیلئے خریدا گیا کیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے؟
مسئلہ: جو سامان کرایہ پر دینے کے لئے خریدا گیا اس کو بیچنا مقصود نہ ہو تو اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ اسی طرح ہر وہ چیز جس کو بیچنا مقصود نہ ہو بلکہ اس کے ذریعے سے آمدنی کرنا مقصود ہو تو اس کی قیمت پر زکوٰہ نہیں، مثلاً کاریگروں کی مشین کرایہ پر چلانے والوں کی بس، ٹیکسی وغیرہ۔
کیا زکوٰۃ زمین، مکان، دکان پر بھی واجب ہے؟
مسئلہ: اگر کسی شخص نے زمین، مکان یا دکان اس نیت سے خریدی کہ اس کو بیچے گا تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے ، اگر بیچنے کی نیت سے یہ چیزیں نہیں خریدیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
کیا نا بالغ بچیوں کیلئے جو زیور بنایا گیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہے؟
مسئلہ: نابالغ لڑکیوں کا جو زیور بنایا گیا اور انہیں ابھی مالک نہ کیا گیا بلکہ اپنی ہی ملکیت میں رکھا اور ان کے پہننے کے استعمال میں آتا ہے اگرچہ نیت یہ ہو کہ ان کا بیاہ ہونے پر جہیز میں دیں گے، اگر تنہا وہ زیور یا وہ دوسرے مال کے ساتھ نصاب کے برابر ہے تو اسی مالک پر زکوٰۃ واجب ہے۔ اگر وہ زیور نا بالغ لڑکیوں کی ملکیت بنا دیا گیا تو اس کی زکوٰۃ کسی پر واجب نہیں۔ والدین پر اس لئے نہیں کہ وہ ان کی ملکیت نہیں اور لڑکیوں پر اس لئے نہیں کہ وہ نا بالغہ ہیں۔
سائمہ کی زکوۃ کا بیان
تین قسم کے جانوروں میں زکوٰۃ واجب ہے جب کہ سائم ہوں، اونٹ، بکری گائے ، سائمہ وہ جانور ہے جو سال کے زیادہ تر حصے چر کر گزارا کرتا ہو اور اس سے مقصود صرف دودھ اور بچے لینا یا فربہ کرنا ہے۔
اونٹ کی زکوۃ: پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ واجب نہیں او رجب پانچ یا پانچ سے زیادہ ہوں، مگر پچیس سے کم ہوں تو ہر پانچ میں ایک بکری واجب ہے یعنی پانچ ہوں تو ایک بکری دس ہوں تو دو بکری و علی ھذا القیاس۔
مسئلہ: زکوٰۃ میں جو بکری دی جائے وہ سال بھر سے کم کی نہ ہو، بکری یا بکرا جو چاہیں۔
مسئلہ: دو نصابوں کے درمیان میں جو ہوں وہ عفو ہیں، یعنی ان کی کچھ زکوٰۃ نہیں۔
مثلاً سات آٹھ ہوں، جب بھی وہی ایک بکری ہے۔
مسئلہ: پچیس اونٹ ہوں تو ایک بنت مخاض دیں۔ ( یعنی ایک سال سے کچھ زائد عمری کی اونٹنی ) پینتیس تک یہی حکم ہے یعنی وہی ایک بنت مخاض دیں۔ چھتیس سے پینتالیس تک میں ایک بنت لبون (یعنی دو سال سے کچھ اوپر کی اونٹنی) چھیالیس سے ساٹھ تک میں ایک حقہ (تین سال سے کچھ اوپر کی اونٹنی) اکسٹھ سے پچتھر تک ایک جذعہ (یعنی چار سال سے کچھ اوپر کی اونٹنی) چھہتر سے نوے تک دو بنت لبون۔
اکیانوے سے ایک سو بیس تک میں دو حقہ۔ اس کے بعد ایک سو پینتالیس تک دو حقہ اور ہر پانچ میں ایک بکری مثلاً ایک سو پچیس میں دو ایک بکری اور ایک سو تیس میں دو حقہ دو بکریاں و علی ہذا القیاس۔ پھر ایک سو پچاس میں تین حقہ اگر اس سے زیادہ ہوں تو ان میں ویسا ہی کریں، جیسا شروع میں کیا تھا۔ یعنی ہر پانچ پر ایک بکری اور پچیس میں بنت مخاض۔ چھتیس میں بنت لبون یہ ایک سو بچانوے تک کا حکم ہوگا۔ یعنی اتنے میں تین حقہ اور ایک بنت لبون پھر ایک سو چھیانوے سے دو سو تک چار حقہ اور یہ بھی اختیار ہے کہ پانچ بنت لبون دے دیں ۔ پھر دو سو کے بعد وہی طریقہ برتیں۔ جو ایک سو پچاس کے بعد ہے ۔ یعنی ہر پانچ پر ایک بکری پچیس میں بنت مخاض ۔ چھتیس میں بنت لبون۔ پھر دو سو چھیالیس سے دو سو پچاس تک پانچ حقہ و علی ہذا القیاس۔
مسئلہ: اونٹ کی زکوٰۃ میں جو اونٹ کا بچہ دیا جاتا ہے تو ضرور ی ہے کہ وہ مادہ ہو نر دیں تو مادہ کی قیمت کا ہو ورنہ نہیں لیا جائے گا۔
گائے بھینس کی زکوۃ
مسئلہ: تیس سے کم گائیں ہوں تو زکوٰۃ واجب نہیں تیس پوری ہوں تو ان کی زکوٰۃ میں ایک تبیع (یعنی سال بھر کا بچھڑا) یا تبیعہ (یعنی سال بھر کی بچھیا) ہے اور چالیس ہوں تو ایک مُسِن (یعنی دو سال کا بچھڑا) یا مُسِنہ (یعنی دو سال کی بچھیا) انسٹھ تک میں یہی حکم ہے۔ پھر ساٹھ میں دو تبیع یا تبیعہ پھر ہر تیس میں ایک تبیع یا تبیعہ اور چالیس میں ایک مُسِن اور اسی میں دو مُسِن، وعلی ہذا القیاس۔
مسئلہ: گائے بھینس کا ایک حکم ہے اور اگر دونوں ہوں تو ملا لیں، جیسے بیس گائیں اور دس بھینس تو زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اور زکوٰۃ میں اس کا بچہ لیا جائے گا۔ جو زیادہ ہوں یعنی گائے زیادہ ہوں تو گائے کا بچہ اور بھینس زیادہ ہو تو بھینس کا بچہ اور کوئی زیادہ نہ ہو تو زکوٰۃ میں وہ بچہ لیں جو متوسط درجہ کا ہو۔
مسئلہ: گائے بھینس کی زکوٰۃ میں اختیار ہے کہ نر لیا جائے یا مادہ، مگر افضل یہ ہے کہ گائے زیادہ ہوں تو بچھیا اور نر زیادہ ہوں تو بچھڑا۔
بھیڑ/بکری کی زکوۃ
چالیس سے کم بھیڑ بکریاں ہوں تو زکوٰۃ واجب نہیں اور چالیس ہوں تو ایک بکری اور یہی حکم ایک سو بیس تک ہے یعنی ان میں بھی وہی ایک بکری ہے اور ایک سو اکیس میں دو بکریاں اور دو سو ایک میں تین بکریاں اور چار سو میں چاربکریاں پھر ہر سو پر ایک بکری اور جو دو نصابوں کے بیچ میں ہے اس کی زکوٰۃ معاف ہے۔
مسئلہ: زکوٰۃ میں اختیار ہے کہ بکری دے یا بکرا جو کچھ بھی ہو یہ ضرور ہے کہ سال بھر سے کم کا نہ ہو۔ اگر کم ہو تو قیمت کے حساب سے دیا جاسکتا ہے۔
مسئلہ: بھیڑ ، دنبہ، بکری میں داخل ہے کہ ایک قسم سے نصاب پوری نہ ہو تو دوسری قسم کو ملا کر لیں اور زکوٰۃ میں بھیڑ دنبہ بھی دے سکتے ہیں مگر سال بھر سے کم کے نہ ہوں۔
مسئلہ: اگر کسی کے پاس اونٹ گائے ، بکریاں سب ہیں مگر نصاب کسی کا پورا نہیں تو نصاب پورا کرنے کے لئے ملائے نہ جائیں اور زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔
مسئلہ: گھوڑے ، گدے، خچر، اگرچہ چرائی پر ہوں تو ان کی زکوٰۃ نہیں۔ ہاں اگر تجارت کے لئے ہوں تو ان کی قیمت لگا کر اس کا چالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیں۔
زکوۃ کن لوگوں کو دینا جائز ہے
مسئلہ : زکوٰۃ کے مصارف سات ہیں:
۱) فقیر ۲) مسکین ۳) عامل ۴) رقاب ۵) غارم ۶) فی سبیل اللہ ۷) ابن السبیل
قفیر سے کیا مراد ہے ؟
مسئلہ: فقیر وہ آدمی ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے یا نصاب کے برابر ہو تو اس کی حاجت اصلیہ میں مستغرق ہو (جیسے رہنے کا مکان ، پہننے کے کپڑے ، خدمت کی لونڈی، غلام، پیشے کے اوزار وغیرہ) جو ضرورت کی چیزیں چاہے کتنی ہی قیمتی ہوں یا اتنے کا قرض دار ہو کہ قرض نکالنے کے بعد جو بچے وہ نصاب کے برابر نہ ہو تو فقیر ہے اگرچہ اس کے پاس ایک تو کیا کئی نصابیں ہوں۔
مسکین سے کیا مراد ہے؟
مسئلہ: مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔
کیا فقیر و مسکین کو سوال کرنا جائز ہے؟
مسئلہ: مسکین کو سوال حلال ہے اور فقیر کو سوال ناجائز ۔ اس لئے کہ اس کے کھانے کو اور بدن چھپانے کو ہے۔ اسے بغیر ضرورت و مجبوری کے سوال حرام ہے۔
عامل کسے کہتے ہیں؟
مسئلہ: عامل وہ ہے جسے بادشاہِ اسلام نے زکوٰۃ و عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو، اسے کام کے لحاظ سے اتنا دیا جائے کہ اس کو اور اس کے مدد گاروں کو متوسط طور پر کافی ہو، مگر اتنا نہ ہوجائے کہ جو وصول کرکے لایا، اس کے آدھے سے زیادہ ہو۔
فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے کیا مراد ہے؟
مسئلہ: فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس کی کئی صورتیں ہیں، جیسے کوئی جہاد میں جانا چاہتا ہے اور سامان اس کے پاس نہیں تو زکوٰۃ کا مال دے سکتے ہیں، اگرچہ وہ کما سکتا ہو ۔ یا کوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں، مگر اسے حج کے لئے سوال کرنا جائز نہیں۔ یا طالب علم جو علم دین پڑھتا ہے اسے بھی زکوٰۃ دے سکتے ہی ۔ بلکہ یہ طالب علم سوال کرکے بھی مال زکوٰۃ لے سکتا ہے جب اس نے اپنے آپ کو اسی کام کے لئے فارغ کر رکھا ہو ، اگرچہ کما سکتا ہو یعنی ہر نیک کام کے لئے زکوٰۃ خرچ کرنا فی سبیل اللہ ہے جبکہ بطور تملیک ہو بغیر تملیک کے زکوٰۃ ادا نہیں ہوسکتی۔
کیا زکوٰۃ کا مال اسلامی مدرسوں میں دیا جاسکتا ہے؟
مسئلہ: بہت سے لوگ زکوٰۃ کا مال اسلامی مدرسوں میں بھیج دیتے ہیں ان کو چاہیے کہ متولی مدرسہ کو بتادیں کہ یہ زکوٰۃ ہے ۔ تاکہ متولی اس کو الگ رکھے اور دوسرے مال میں نہ ملائے ۔ اور غریب طلباء پر خرچ کرے کسی کام کی اجرت میں نہ دے دے ورنہ زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
کیا زکوٰۃ کا مال مسافر کو دے سکتے ہیں؟
مسئلہ: ابن السبیل یعنی مسافر جس کے پاس مال نہ رہا ، وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اگرچہ گھر پر مال موجود ہو، مگر اتنا ہی لے جس سے ضرورت پوری وہجائے، زیادہ کی ضرورت نہیں ۔
کیا زکوٰۃ کا مال ادا کرنے میں صرف اباحت کافی ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃ ادا کرنے میں یہ ضروری ہے کہ جسے دیں اسے مالک بنادیں اباحت کافی نہیں۔ لہٰذا زکوٰۃ کا مال مسجد میں لگانا یا اس سے میت کو کفن دینا یا میت کا دین ادا کرنا یا غلام آزاد کرنا ، پل یا سڑک بنوادینا۔ نہر یا کنواں کھدوادینا۔ ا ن چیزوں میں خرچ کر نا یا کتاب وغیرہ کوئی چیز خرید کر وقف کردینا کافی نہیں اس سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ جب تک کسی فقیر کو مالک نہ بنادیں۔ البتہ فقیر زکوٰۃ کے مال کے مالک ہوجانے کے بعد خود اپنی طرف سے ان کاموں میں خرچ کرے تو کرسکتا ہے۔
کن لوگوں کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے؟
مسئلہ: اپنی یعنی ماں باپ دادا دادی، نانا نانی وغیرہ ۔ ہم جن کی اولاد میں یہ ہے اور اپنی اولاد (یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ ہم) کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔ یونہی صدقہ فطر و نذر شرعی و کفارہ بھی نہیں دے سکتا۔ رہا صدقہ نفل تو وہ دے سکتا ہے، بلکہ بہتر ہے۔
کیا بہو ، داماد، سوتیلی ماں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
مسئلہ: بہو، داماد اور سوتیلی ماں یا سوتیلے باپ یا زوجہ کی اولاد یا شوہر کی اولاد کو زکوٰۃ دے سکتا ہے اور رشتہ داروں میں جس کا نفقہ اس کے ذمہ واجب ہے اسے زکوٰۃ دے سکتا ہے۔جب کہ نفقہ میں محسوب نہ کرے۔
کیا بیوی شوہر کو، شوہر بیوی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟
مسئلہ: بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا البتہ طلاق دینے کے بعد جب کہ عدت پوری ہوچکی ہو تو بعد عدت ختم ہونے کے دے سکتا ہے۔
کیا کسی غنی کی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
مسئلہ: غنی کی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں جب کہ نصاب کی مالک نہ ہو، یونہی غنی کے باپ کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں جب کہ فقیر ہو۔
کیا غنی مرد کے نابالغ اور بالغ بچوں کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ؟
مسئلہ: غنی مرد کے نابالغ بچے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اور غنی کی بالغ اولاد کو دے سکتے ہیں جب کہ یہ فقیر ہوں۔
کن لوگوں کو زکوٰہ دینا واجب نہیں؟
مسئلہ: جو شخص حاجت اصلیہ کے علاوہ نصاب کا مالک ہو اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں یعنی حاجت اصلیہ کے سامان کے علاوہ اتنا مال ہو کہ اس کی قیمت دو سو درہم ہو جائے خود اس مال پر زکوٰۃ واجب نہ ہو، مثلاً چھ تولہ سونا جب دو سو درہم کی قیمت کا ہو تو جس کے پاس یہ ہے اگرچہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں کہ سونے ے نصاب ساڑھے سات تولے مگر اس شخص کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے یا مثلاً جس کے پاس بیس گائے ہیں، جن کی قیمت دو سو درہم ہے تو اس کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اگرچہ بیس گایوں پر زکوٰۃ واجب نہیں۔
حاجت اصلیہ کی مختلف صورتیں کیا ہیں؟
مسئلہ: مکان ، سامان خانہ داری ، پہننے کے کپڑے ، خادم، سواری کاجنور، ہتھیار، اہل علم کے لئے کتابیں جو اس کے کام میں ہوں، یہ سب حاجت اصلیہ میں سے ہیں۔
کیا تندرست صحیح شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
مسئلہ : صحیح تندرست کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اگرچہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو مگر سوال کرنا اسے جائز نہیں
کیا موتی ہیرا وغیرہ جواہر پر زکوٰۃ ہے؟
مسئلہ: موتی ہیرا وغیرہ جواہر جس کے پاس ہوں اور تجارت کے لئے نہ ہوں تو ان کی زکوٰۃ واجب نہیں، مگر جب نصاب کی قیمت کے ہوں تو زکوٰۃ لے نہیں سکتا۔
کیا بنی ہاشم کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
مسئلہ: بنی ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے ۔ بنی ہاشم سے یہاں مراد حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عباس، حضرت عقیل اور حضرت حارث ابن مطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد ہیں۔
اگر کسی شخص کی ماں ہاشمی ہو لیکن باپ ہاشمی نہ ہو تو کیا اس شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟
مسئلہ: ماں ہاشمی بلکہ سیدانی ہو اور باپ ہاشمی نہ ہو تو ہاشمی نہیں، اس لئے کہ شرع میں نسب باپ سے ہے لہٰذا ایسے شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں جبکہ نہ دینے کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔
کس آمدنی سے بنی ہاشم کی مدد کرنا جائز ہے؟
مسئلہ: صدقہ نفل اور وقف کی آمدنی بنی ہاشم کو دے سکتے ہیں۔
جس شخص کو زکوٰۃ دی جائے کیا اس کے لئے فقیر ہونا شرط ہے؟
مسئلہ: جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا کہ انہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوا عامل کے کہ اس کے لئے فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن السبیل اگرچہ غنی ہو، حالت سفر میں جب کہ مال نہ ہو تو وہ بھی فقیر کے حکم میں ہے باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔
تحری سے کیا مراد ہے ؟
مسئلہ: جس نے تحری کی یعنی سوچا اور دل میں یہ بات جمی کہ اس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اور زکوٰۃ دے دی، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مصرف زکوٰۃ ہے یا کچھ حال نہ کھلا تو ادا ہوگئی۔
اگر بے سوچے سمجھے زکوٰۃ دی بعد میں معلوم ہوا کہ اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتے تھے تو کیا حکم ہے؟
مسئلہ: اگر بے سوچے سمجھے دے دی یعنی یہ خیال بھی نہ آیا کہ اسے دے سکتے ہیں یا نہیں۔ اور بعد میں معلوم ہوا کہ اسے زکوٰۃ نہیں دے سکتے تھے تو ادا نہ ہوئی، ورنہ ہوگئی۔
کن لوگوں کو زکوٰۃ دینا افضل ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃوغیرہ صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے بھائیوں، بہنوں کو دے۔ پھر ان کی اولاد کو پھر چچا اور پھوپھیوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر ماموں کو، پھر خالہ کو پھر ان کی اولاد کو پھر اپنے گائوں یا شہر کے رہنے والوں کو۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے صدقے کو قبول نہیں فرماتا جس کے رشتہ داراس کے سلوک کرنے کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے۔
کیا بد مذہب کو زکوٰۃ دینا جائز ہے؟
مسئلہ: بد مذہب کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور اسی طرح ان مرتدین کو بھی دینے سے ادا نہ ہوگی۔ جو زبان سے تو اسلام کا دعویٰ کرے لیکن خدا اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان گھٹائے یا کسی اور دینی امر کا انکار کرتے ہیں۔
کن لوگوں کو سوال کرنا حلال ہے؟
مسئلہ: جس کے پاس آج کے کھانے کو ہے یا تندرست ہے کہ کما سکتا ہے اسے کھانے کے لئے سوال حلال نہیں۔ اور بے مانگے کوئی خود دے دے تو لینا جائز ہے اور کھانے کو اس کے پاس ہے مگر کپڑا نہیں تو کپڑے کے لے سوال کرسکتا ہے یونہی اگر جہاد یا طالب علم دین میں لگا ہے تو اگرچہ تندرست اور کمانے کے لائق ہو اسے سوال کی اجازت ہے۔
بھیک مانگنا کیسا فعل ہے؟
مسئلہ: بھیک مانگنا بہت ذلت کی بات ہے بغیر ضرورت سوال نہ کرے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ بے ضرورت سوال کرنا حرام ہے کہ سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جو سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو غنی بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے غنی کردے گا اور جو صبر کرنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر دے گا اور فرمایا جو بندہ سوال کا دروازہ کھولے گا اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کا دروازہ کھولے گا اور فرمایا کہ جو سوال کرے اور اس کے پاس اتنا سونا ہے کہ جو اسے بے پروا کرے تو وہ آگ کی زیارت چاہتا ہے لوگوں نے عرض کیا وہ کتنا ہے جس کے ہوتے سوال جائز نہیں، فرمایا صبح و شام کا کھانا۔ (ابو دائود، ابن حبان، ابن خزیمہ)
کیا کینسر ہسپتالوں یا فلاحی اداروں میں زکوٰۃ کی رقوم ادا کی جاسکتی ہے؟
مسئلہ: زکوٰۃ کی رقوم صرف اور صرف مسلمان پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں بڑے ہسپتالوں میں اور فلاحی اداروں میں اس چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ مریض یا غریب و نادار کا فنڈ خرچ کردیا جاتا ہے ، لہٰذا اس صورت میں زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔ اگر زکوٰۃ کی رقم واقعی کسی مریض کو دیناچاہتے ہیں یا کسی غریب نادار انسان کو دینا چاہتے ہیں تو خود ہسپتالوں میں جا کر تحقیق کرنے کے بعد جو زکوٰۃ کا صحیح حقدار صحیح العقیدہ مسلمان مریض ہو، اس کو ادا کردی جائے۔ اس طرح زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ یہی حکم فلاحی اداروں کے لئے ہے۔
بینکوں کی طرف سے جو زکوٰۃ کی کٹوتی ہوتی ہے ، کیا اس سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے؟
مسئلہ: بینکوں کی طرف سے جو زکوٰۃ کی کٹوتی ہوتی ہے اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔