حضرت مولانا حسنین رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مولانا حسنین رضا خان۔والد کا اسمِ گرامی:استاذِ زمن ،شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: مولانا حسنین رضان بن مولانا حسن رضا خان بن مولانا نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان،بن حافظ کاظم علی خان۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)
تاریخِ ولادت:حضرت مولانا حسنین رضا خان1310ھ/ 2189ءکو بریلی شریف میں پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: حضرت مولانا حسنین رضا خاں حضور مفتی اعظم ہندشاہ محمد مصطفے رضا خان سے صرف چھ ماہ بڑے تھے اور علوم دینیہ کی تحصیل میں دونوں عم زاد ہم سبق رہے ہیں۔ رسم بسم اللہ خوانی کے بعد گھر ہی میں حصولِ تعلیم میں مصروف و مشغول ہوئے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی نے اپنے فرزند اصغر مفتی اعظم کو پڑھانے کے ساتھ مولاناحضرت حسنین رضا کو بھی پڑھانا شروع کیا، اور جب دونوں کی عمریں بارہ برس ہوگئیں، تو اعلیٰ حضرت کثیر البرکت نے 1322ھ/ 1904ء میں دارالعلوم منظر اسلام قائم فرمایا، تو اس دارالعلوم میں ان دونوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حضرت کے تین تلامذہ مزید، ملک العلماء حضرت علامہ ظفرالدین بہاری اور مولانا عبدالرشید عظیم آبادی اور مولانا نواب مرزا، پانچوں تلامذہ سے دارالعلوم منظر اسلام کا آغاز ہوا۔ جامعہ رضویہ منظر اسلام کی طلباء کی استعداد و قابلیت علیٰ وجہ البصیرت نہایت ارفع و اعلیٰ ہواکرتی تھیں۔ خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے دو طالب علم حضرت مفتیِ اعظم ہند جبکہ دوسرے شہزادے مولانا حسنین رضا خان۔ ان دونوں کے امتحان کے حوالے سے ممتحن کی رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ “طلباء نے امتحان بہت عمدہ و اعلیٰ درجہ کا دیا، کل نظم و نسق مدرسہ اور طرز تعلیم و طریقۂ درس و تدریس نہایت فائق و شائستہ ہے۔ اور مدرسین طلباء ہر طرح پر قابل آفرین و تحسین ہیں۔ فارسی کتب درسیہ اور ہدایۃ النحو، کافیہ، شرح جامی، ایسا غوجی، شرح تہذیب، قطبی، ملا حسن، حمدللہ، شرح وقایہ، ہدایہ، نور الانوار، شفاء شریف وغیرہا کتب زیر درس میں جو مقام طلباء کے سامنے امتحاناً پیش کیے گئے۔ عبارتیں صحیح پڑھ کر مقاصد کتاب و مطالب عبارات کو بعض طلباء نے معاً بعض نے تاملاً معقول طور پر اچھی طرح بیان کیا خصوصاً میاں مولوی مصطفیٰ رضا خاں اور میاں مولوی حسنین رضا خاں نے جس عمدگی اور خوبی اورخوش اسلوبی کے ساتھ نہایت بلند مرتبہ کا شاید وباید محققانہ امتحان دیا۔ حق تو یہ ہے کہ وہ انہیں کا حصہ تھا۔ بارک اللہ فی علمھما وفہمھما۔ اتنی قلیل مدت میں اس مدرسہ کا ایسا نمایاں عالی مفاد اور طلباء کاکافی استعداد آپ ہی اپنا نظیر اور روشن دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ خیروبرکت اور روز افزوں ترقی عطا فرمائے۔آمین۔(ممتحن:حضرت عیدالاسلام علامہ عبدالسلام جبلپوری رحمۃ اللہ علیہ)حضرت علامہ حسنین رضا خاں صاحب نے معقولات کی چند کتب، مناظر اہلسنت حضرت علامہ ہدایت رسول صاحب رامپوری سے بھی رامپور جاکر پڑھیں۔ نیز قطب الارشاد حضرت علامہ مفتی ارشاد حسین رامپوری کے درس میں بھی شریک ہوکر مستفاد ہوئے۔
بیعت وخلافت: اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت کے مرید وخلیفہ تھے۔
سیرت وخصائص: استاذالعلماء،سندالفقہاء،رئیس الصوفیاء،شہزادۂ برادرِ اعلیٰ حضرت ،حضرت علامہ مولانا حسنین رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان۔جن کی مادرِ علمی منظرِ اسلام ہو،اور تربیت گاہ مجددِ اسلام کی آغوش ہو،اس کے علم وفضل کاکیا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آپ بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی عالمِ اسلام کی عظیم دینی درسگاہ،منظرِ اسلام میں بحیثیت مدرس خدمت سر انجام دیتے رہے، بحیثیت مدرس تقرر کے لیے سفارش اعلیٰ حضرت قدس سرہ نےفرمائی تھی اور تقرر حجۃ الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خاں نے فرمایا ۔ جامعہ رضویہ منظر اسلام میں تدریسی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ بریلی شریف سے ایک ماہنامہ “الرضا”جاری کیا۔ یہ ماہوار جریدہ بہت معروف ہوا، اعلیٰ حضرت کی حیات میں اس کے متعدد شمارے شائع ہوئے۔ حسنی پریس کی نگرانی اور اعلیٰ حضرت کی تصنیفات کی اشاعت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے پورا کرتے تھے، نیز حالت حاضرہ کے تحت مختلف فتنوں (تحریک ترک موالات، تحریک ہجرت، متحدہ قومیت، ندوہ تحریک، مرزائیت و قادیانیت، فتنہ وہابیت) کی بیخ کنی کے لیے اور اسلامیان ہند کے ایمان و عقائد کو بچانے کے لیے پمفلٹ، رسائل اور کتابچے شائع کرکے مفت تقسیم کرتے تھے حضرت مولانا حسنین رضا خاں بریلوی کے فرزند ارجمند حضرت مولانا سبطین رضا اپنے والد کے کارناموں کو اختصار و اجمال سے یوں بیان کرتے ہیں:”جماعت رضائے مصطفےٰ بریلی کی شاندار خدمات میں آپ کا نمایاں حصہ تھا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ جس میں علماء و مشائخ کے علاوہ شہر و بیرون شہر کے بہت سے روسأ و وکلاء اور بیرسٹران نیز سیاسی لیڈر حکام اور اعلیٰ افسران، امیر و غریب غرض یہ کہ ہر طبقے کے لوگ شامل تھے جو آپ کے علم و فضل کے دل سے معترف تھے اور آپ کا ادب و احترام پوری طرح ملحوظ رکھتے تھے، ان کی نشست گاہ پر صبح سے لے کر شام تک مقامی و بیرونی لوگوں کی آمدو رفت کا تانتا بندھا رہتا تھا”۔
آپ کی مجالس : آپ سے ملنے والوں میں ذاتی احباب کے علاوہ ضرورت مند بھی کثیر تعداد میں ہوتے تھے۔ ہمہ وقت مجلس گرم رہتی مختلف موضوعات پرگفتگو ہوتی ۔مہذب و شائستہ گفتگو فرماتے انداز گفتگو پیارا اور دلپذیر ہوتا اور بات اتنی ٹھوس فرماتے کہ مخاطب کے دل میں اتر جاتی اور وہ مطمئن ہوجاتا، طبیعت اتنی مرنجان مرنج اور شگفتہ پائی تھی کہ کیسا ہی مغموم و متفکر انسان آپ کے پاس آتا لیکن تھوڑی ہی دیر میں سارا رنج و غم بھول جاتا۔ ہر ماحول میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرلینا اور بر وقت و برجستہ دماغ سے ایسی بات نکالنا کہ جو پورے ماحول پر اثر انداز ہو اس میں کمال حاصل تھا۔ غرض یہ کہ برمحل گفتگو حاضر دماغی اور ذہانت بلا کی پائی تھی۔
سماجی خدمات: مسلمانوں اور بالخصوص غریب مسلمانوں سے آپ کو ہمیشہ قلبی تعلق اور گہرا لگاؤ رہا۔ جہاں امرأ و روسأ آپ کی محفل میں ہوتے وہاں بہت سے ضرورت مند غریب بھی بیٹھے نظر آتے، کسی کو نوکری کی تلاش ہے، کسی کو امداد چاہیے، کوئی اپنے مقدمہ میں آپ کی سفارش کا طلبگار ہے، کسی کو اسکول یا کالج میں بچے کی فیس معاف کرانا ہے، غرض یہ کہ ہر قسم کی ضرورتیں لے کر لوگ آپ کی خدمت میں آتے رہتے اور کوئی ضرورت مند کسی وقت بھی آجاتا، آپ اپنے تمام ضروری کاموں کو پس پشت ڈال دیتے، پہلے اس کی سرگذشت سنتے اور اس کا کام کرنے کو تیار ہوجاتے۔ شہر اور اس کے نواح میں تمام سرکاری و نیم سرکاری، محکموں کچہریوں، اسکولوں، کالجوں میں آپ کے جاننے والے آپ سے عقیدت و محبت رکھنے والے بے شمار لوگ موجود تھے، لہٰذا کسی کے نام سفارشی خط لکھ دیا، ضرورت محسوس کرتے، تو بہ نفس نفیس تشریف لے جاتے۔ ضرورت مند نے اگر سواری کا انتظام کرلیا ہے، تو فبہا! ورنہ اپنی جیب خاص سے کرایہ کی ادائیگی کرکے خود ہی سواری کا انتظام کرکے حاجتمند کو ساتھ لے گئے۔کبھی ایسا بھی ہو تاکہ ضعیف العمری کے باوجود پیدل تشریف لے جاتے۔ حاجتمندوں کے کام آنا، زندگی کا بہترین مشغلہ تھا، جو اس وقت تک جاری رہا، جب تک قویٰ میں توانائی باقی رہی۔ بلا مبالغہ سینکڑوں افراد کو ملازمتیں دلوادیں۔ناحق گرفتار ملزمان کو رہا کروادیا۔ جبکہ بعض کی سزائیں معاف کروادیں یا بعض کی سزائیں کم کروادیں۔ مسلمانوں کے آپس میں رنجشیں یا تنازعات و اختلافات میں صلح کرانے کے عملِ حَسن میں صبح تا نصف شب مشغول رہتے۔ مخلوق خدا کی بے لوث خدمت میں گھر کا قیمتی سامان بھی ایثار کرنے سے گریزاں نہیں ہوتے تھے۔ کوئی عاریتاً بھی سامان لیتا اور بعد استعمال واپس نہیں کرتا، تو آپ کبھی تقاضا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی اشارتاًیا کنایتاً بھی توجہ نہیں دلواتے تھے۔ اس ضمن میں بقول مولانا سبطین رضا خاں!کہ میری والدہ (اپنی اہلیہ) کا زیور، ایک صاحب کے عرض کرنے پر اُن کی اہلیہ کے استعمال کے لیے مستعار دیدیا، انھوں نے تاحیات واپس نہیں کیا، جبکہ آپ نے کبھی اُن سے تقاضا نہیں کیا۔ اس سے بہتر آج کی دنیا میں ایثار و قربانی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے ۔احباب میں سےکبھی کسی کی معمولی سی دلشکنی گوارا نہ فرمائی۔جماعت رضائے مصطفےٰ کے پلیٹ فارم سے حضور مفتی اعظم کے شانہ سے شانہ ملاکر اور مفتی سیّد نعیم الدین مرادآبادی کے قدم سے قدم ملاکر شدھی تحریک کے انسداد میں سر دھڑ کی بازی لگادی۔ ہزاروں مسلمانوں کے ایمان کو بچایا۔ اور ان کی مدد کے لیے “جماعت انصار الاسلام”قائم فرمائی۔
وصال :اکیانوے برس کی عمر شریف میں، 5/صفر 1401ھ/ 14دسمبر 1980ء کو بروز اتوار وصال پر ملال فرمایا۔ دوران غسل بآواز بلند، زبان سے اسم جلالت “اللہ” ادا فرمایا۔
ماخذومراجع: معراجِ جسمانی۔مطبوعہ انجمن ضیاء طیبہ