دامادِ رسول ﷺ،شیر حجازسیدنا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ


سیدنا ابو العاص رضی اللہ عنہ اُن تین خوش بخت فرزندوں میں سے ایک ہیں جنہیں حضور رحمۃً للعالمین ﷺکے داماد بننے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔
آپ کے اَصل نام میںمختلف اقوال پائے جاتے ہیں :”لقیط، ہشم، مہشم،قاسم یا مقسم “راجحقول کے مطابق آپ کا نام ”لقیط “تھا لیکن آپ اپنی کنیت ”ابوالعاص“ سے بہت مشہور ہوئے۔

اِن کا تعلق قریش کے نہایت معزز خاندان بنو عبد شمس سے تھا۔ جناب عبد مناف پہ جاکر اِن کاشجرۂ نسب، امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب ایک ہوجاتا ہے ۔ سلسلہ نسب کچھ اِس طرح ہے:’’حضرت ابوالعاص بن ربیع بن عبد العزی بن عبد ِ شمس بن عبد مناف‘‘(سبل الھدی والرشاد)

آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ ہالہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا،سیدۃ القریش اُم المومنین سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکی حقیقی بہن تھیں۔آپ شرف ِ اسلام وصحابیت سے بہرہ وَر ہوئیں۔سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکے وِصال کے بعد ایک بارآپ رسول اللہ ﷺسے ملنے کے لیے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائیں اور آقاکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ دولت پر حاضر ہوکر اند ر آنے کی اجازت چاہی۔ چونکہ اِن کی آواز سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکی آواز کے مشابہ تھی،جب سماعت مبارک تک یہ آواز پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا یاد آگئیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن کی آواز سُن کرسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:’’ہالہ (رضی اللہ عنہا) ہوں گی ۔جب آپ اندر تشریف لے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن کی بے حد تکریم کی اور دعائے برکت سے نوازا۔‘‘(صحیح بخاری، معرفۃ الصحابہ)

سیدنا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کاشمار قریش کے اُن نوجوانوں میں ہوتا تھا جو صداقت،دیانت،جواںمردی،وسیع تجربہ تجارت اور مال ودولت کے حوالے سے مشہورو معروف تھے۔ہر کوئی اُنھیں رَشک بھر ی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ لوگ اِن کی دیانت اور حُسن معاملہ پر اعتماد کرتے ہوئے اِن کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔اِس لیے تذکرہ نگار وں نے لکھا:”یُقَالُ لَہُ:الْاَمِیْنُ“(حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کوبھی)”امین“کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔(الا صابہ، نسب قریش)

اَمانت دارہونے کے ساتھ ساتھ آپ نہایت درجہ دلیر اور بہادر بھی تھے۔عرب کے لوگوں نے اِن کی شجاعت وطاقت کے اعتراف میں اِنھیں ”جِرْوُ الْبَطْحَائِ“ (شیرحجاز) کا لقب دے رکھا تھا۔(المعجم الکبیر طبرانی)

رحمت ِعالم، خاتم الانبیاءﷺاِن سے بڑی محبت وشفقت فرماتے اور آپﷺجب اِ ن کے گھر تشریف لے جاتے، تو بڑے خلوص اور جذبے سے ملاقات ہوتی۔اِ ن کے اخلاق وعاداتِ حمیدہ کی بدولت اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکی قلبی خواہش پر سیدعالمﷺ نے اِن کا نکاح اپنی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے کیا اور ارشاد فرمایا:”مَا ذَمَمْنَا صِہْرَ اَبِی الْعَاص“ہم ابوالعاص کو داماد بنانے میں کوئی برائی یا عیب نہیںپاتے۔(الاصابہ)

ایک بار، ایک خطبہ میں رسول اللہﷺنے اِن کی تعریف میں فرمایا:”حَدَّثَنِی، فَصَدَقَنِی وَوَعَدَنِی فَوَفَی لِیْ“اُس نے مجھ سے جو بات بھی کی توسچ کہا اور مجھ سے جو وعدہ کیا،وفا کیا۔(صحیح بخاری)

آپ اَزدواجی زندگی میں شریف الطبع،معزز اور وَفادار ثابت ہوئے۔آپ کے لیے کائنات ِ عالَم کے معزز ترین گھرانے کا داماد بننا کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔شادی کو ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا، امامُ الانبیا ء ﷺنے اپنے اعلانِ نبوت کے بعد دعوت ِ حق کا آغاز فرمایا تو امُ المومنین سیدہ خدیجہ و سیدہ زینب رضی اللہ عنہمانے اِظہارِاسلام فرمایا لیکن حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے بعض مصلحتوں کی بناء پر توقف کیا کیوںکہ قریش کے لوگوں نے اپنی امانتوں کے لیے آپ کو اپنا امین بنایاتھا،امانتوں کوان کے مالکان کوواپس لوٹانے سے پہلے آپ نے خاموشی اختیار کرنے میں مصلحت سمجھی۔ایک بار جب آپ ملک شام سے مشرکین کے اَموال لے کر آئے تو اِن سے کہا گیا کہ تمھیں اِسلام اختیار کرنے کی جانب رغبت ہے اِس لیے یہ تمام مال تم لے لو۔ کیوں کہ یہ مشرکین کا مال ہے لیکن آپ نے جواباً فرمایا:”بِئْسَ مَا اَبْدَا بِہِ إسْلَامِی اَنْ اَخُوْنَ اَمَانَتِیْ“  کس قدر بُر ا ہوگا کہ میں اپنے اِسلام کی ابتدا اپنی امانت میں خیانت کرکے کروں۔(السیرۃ النبویہ لابن ہشام)

تاہم اِس عرصہ میں انھوں نے ذات ِرسالت مآبﷺیادین حق کے خلاف کسی سرگرمی میں کبھی کوئی حصہ نہیں لیا۔ایک بار قریش کے چند لوگوں نے سیدنا ابوالعاص کو مجبو ر کیا کہ وہ شہزادیٔ رسول سیدنا زینب رضی اللہ عنہاکو طلاق دے دیں اور قریش کی جس لڑکی سے چاہیں نکاح کرلیں،آپ نے فرمایا:’’اللہ کی قسم!کبھی نہیں ،ایسی حالت میں تو میں اپنی اہلیہ کو چھوڑوں گا نہ اپنی زوجہ کے بدلے قریش کی کسی عورت کو میں پسند کرتا ہوں۔‘‘یہی وجہ تھی کہ رسول اللہﷺ ان کی دامادی کی تعریف فرمایا کرتے تھے۔(العجم الکبیر)

نبوت کے تیرہویں سال سرورِ عالم ﷺ نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہااپنے خاوند کے گھر ہجرت کے بارے میں اپنے رب تعالیٰ کے حکم کی منتظر تھیں۔آپ ہمیشہ اپنی اہلیہ محترمہ سے اچھا برتاؤ کرتے،ہرطرح سے خوش رکھتے لیکن سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکا دِل ہمیشہ اپنے والد گرامیﷺکی یادمیں دھڑکتا رہتا، آپ بے چین رہتیں،یہاں تک کہ اُن کے پاس یہ یقینی خبر پہنچ گئی کہ اُن کے ابا جان رسول اللہﷺانصار کے ہاں رہائش پذیر ہوگئے اور اَنصار آپﷺکو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں۔

2ہجر ی ماہِ رمضان المبارک میں مکہ مکرمہ کے مشرکین، مسلمانوں سے لڑنے کے لیے سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوئے تو ابوالعاص کوبھی اپنے ساتھ شریک کرلیا، حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ کوئی صحت مند شخص لڑائی کو پسند نہ کرنے کے باوجود پیچھے نہیں رہ سکتا تھا کیوں کہ اِس صورت میں مشرکین اُس کو بزدلی کا طعنہ دیتے تھے اور کسی قریشی کے لیے یہ طعنہ بڑے شرم کی بات تھی۔ دونوں لشکر میدان ِ بدر میں جب مقابل آئے توگھمسان کا رَن پڑا،مسلمان جو قلیل تعداد میں تھے،اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنا مقصد بنا کر میدان میں اُترے، آخر کار فتح ونصرت مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ سرکش کافر ومشرک شکست خوردہ ہوئے۔آپ ایک انصاری جانبازسیدنا عبد اللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اَسیر ہوگئے۔ابوالعاص اُن لوگوں میں سے تھے جنھوں نے لڑائی میں عملاً کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔اِنھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار ہونے کو غنیمت جانا۔ قیدیوں کو بیڑیوں میں جکڑے مدینہ منورہ لایاگیا،اِس موقع پر رحمت عالمﷺنے فرمایا:”اِسْتَوْصُوْا بِالْاَسْرَی خَیْرًا“تم قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ابوالعاص اَسیر ہوکر انصار کے پاس تھے،وہ اِن کے ساتھ حُسن سلوک کے ساتھ پیش آتے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ خاندانِ نبوی ﷺمیں اِن کا کیا مقام ہے۔انصار کی طرف سے اِنھیں ہرطرح کی سہولت اور عزت میسر آئی۔آپ انصار کے حُسن اخلاق، شرافت اور حُسن سلوک کے بارے میں بزبان خود بیان کرتے ہیں:”جب میں اَنصار کے پاس حالت ِاَسیری میں تھا، اللہ اُنھیں جزائے خیر عطا کرے،جب بھی دوپہر اور شام کے کھانے کا وقت آتا تھا تو وہ مجھے اپنی ذات پر ترجیح دیتے۔مجھے کھانے کے لیے روٹی دیتے اور خود کھجوریں کھا کر گزارہ کرتے، کیوں کہ اُس وقت اُن کے پاس روٹی کم اور کھجوریں کثیرتھیں، جونہی کسی کے ہاتھ روٹی آتی تو وہ مجھے دے دیتا۔“(المغازی)

سیدہ زینب رضی اللہ عنہاتک خبر پہنچی کہ ابوالعاص، قیدی ہوگئے اور اُن کے ساتھ مزید ستر مشرکین بھی گرفتار ہیں اور اُن قیدیوں کے اہل خانہ فدیہ ادا کرکے اُنھیں چھڑانے کے لیے مدینہ منورہ روانگی کے لیے تیاری کررہے ہیں۔تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہانے بھی حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کے بھائی،اپنے دیور عمرو بن ربیع کے ہاتھ کچھ سامان بھیجا۔ اُس سامان میں ظفار نامی یمنی عقیق کا ایک ہار تھا۔ یہ ہارسیدہ رضی اللہ عنہا کو اُن کی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہانے بوقت شادی تحفہ میں دیا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺکی خدمت ِ اقدس میں یہ ہار پیش کیا گیا تو آپﷺنے دیکھا کر پہچان لیا۔اُس ہار نے خواتین عالم کی سردار سیدہ خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہاکی یاد دِلادی، چشمان کرم سے آنسو جاری ہوگئےی۔ یہ ہار خاندانی،اَزدواجی اور معاشرتی خوشگوار یادوں کو دہرانے کا باعث بنا۔آپ ﷺ نے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا:’’اگر مناسب سمجھوتو اِس قیدی کو چھوڑ دو اور اُس کا مال اِس کو لوٹا دو( کیوں کہ یہ ہار سیدہ زینبﷺکی ماں کی نشانی ہے) ابوالعاص کا فدیہ، یہ ہے کہ وہ مکہ مکرمہ جاکر ( اپنی اہلیہ سیدہ)زینب رضی اللہ عنہاکو مدینہ منورہ بھیج دیں۔“آپ نے اپنے کیے وعدے کو پورا کردکھایا اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکو مدینہ منورہ کی طرف عازمِ سفر کردیا۔حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ کو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے نہایت درجہ محبت تھی جب وہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئیں تو آپ بہت بے چین رہنے لگے ایک بار سفر شام کے دوران بڑی پُردرد آواز میں یہ شعرپڑھ رہے تھے( جن کا مفہوم ہے):”جب میں مقام ِارم سے گزرا تو زینب رضی اللہ عنہاکو یاد کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص کو سیراب کرے جو حرم میں مقیم ہے،(امامُ الانبیا،رسول خدا، صادق و امین ﷺ )کی صاحبزادی کو بہترین جزا دیاور ہر خاوند (اپنی زوجہ میں)اُسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے۔“(طبقات الکبری، الاصابہ)

ماہِ جمادی الاولیٰ 6ہجری میں ایک تجارتی قافلہ شام جارہاتھا کہ” عیص“ کے مقام پر مجاہدین اسلام کی ایک جماعت نے قافلے پر چھاپہ مارا ۔ تمام مال واسباب پر قبضہ کرلیا اور لوگوں کو قیدی بنا لیااُن قیدیوں میں ابوالعاص بن ربیع بھی تھے۔یہ قافلہ بوقت سحر مدینہ منورہ پہنچا تو حضرت ابوالعاص نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکے پاس جاکر پناہ طلب کی،اُنھوں نے بلاتامّل ان کو اپنی پناہ میں لے لیا۔صبح کو جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی شریف میں آئے تو سیدہ پاک رضی اللہ عنہانے بآواز بلند یہ اعلان کیا:”اِنِّی قَدْ اَجَرْتُ اَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیْع“مسلمانو! میں نے ابوالعاص بن ربیع کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔رسول کریم ﷺجب نمازادا فرماچکے تو ارشاد فرمایا:”اے لوگو! کیا تم نے سُنا جو میں نے سُنا ہے“سب نے عرض کیا:”جی یارسول اللہ“۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’مومنین دوسروں کے حق میں ایک ہاتھ کی مثل ہیں اِن میں سے ہرادنیٰ مسلمان کو بھی پناہ دینے کا حق حاصل ہے۔تحقیق ہم نے اُسے (اَمان و)پناہ دی جسے زینب رضی اللہ عنہانے(اَمان و) پناہ دی۔‘‘(طبقات الکبری)

جب آپﷺگھر تشریف لائے تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہاحاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا کہ جو کچھ ابوالعاص سے لُوٹا گیا ہے وہ انہیں واپس کر دیا جائے۔آپ ﷺنے صحابہ کرام سے فرمایا:”تم میرے اور ابوالعاص کے درمیان رشتہ سے واقف ہو اگر تم اِس کا مال واپس کردوگے تو یہ تمہارا احسان ہوگا اور میری خوشی کا باعث ہوگا،اگر نہ کروگے تو یہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے تمہارے لیے،جو تمہارا حق ہے۔“جماعت ِ صحابہ رضی اللہ عنہم کو تو ہر وقت آپﷺکی خوشنودی و رضامطلوب تھی فوراً جس نے جو مال لیا تھا تمام مال واَسباب حضرت ابوالعاص کو واپس کردیا۔ آپ وہ تمام مال واسباب لے کر مکہ مکرمہ پہنچے اور تمام لوگوں کی امانتیں واپس کردیں، پھر اہل مکہ سے مخاطب ہوکر کہا:”اے اہل قریش! اب میرے ذمہ کسی کی کوئی اَمانت یا مال تو نہیں ہے؟ تمام اہل مکہ نے یک زبان ہوکر کہا:’’ قَالُوْا لَا، فَجَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا،فَقَدْ وَجَدْنَاکَ وَفِیًّا کَرِیْمًا“ بالکل نہیں، اللہ تمھیں بہترین بدلہ دے،ہم نے تمھیں پورا حق ادا کرنے والا اور باوفا شخص پایا ہے۔حضرت ابوالعاص نے جب اِہل قریش کا جواب سُنا تو کہا: ’’تو سُن لو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺاُس کے(مقرب) بندے اور(سچے)رسول ہیں ۔“واللہ!میں نے آج سے پہلے اِس طرح اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا تو سُن لو میں مسلمان ہوتا ہوں:”اللہ کی قسم! مجھے اِسلام کے اظہار سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا سوائے اِس فکر کے کہ تم خیال کرنے لگو کہ میں خیانت کرکے تمہارا مال کھاجاؤں گا،اب مجھے اللہ تعالیٰ نے سرخرو کیا ۔جب کہ تمہارا مال تم تک پہنچ چکا اور مجھے اِس سے فراغت مل چکی تو میں نے اِسلام کا اعلان کردیا۔‘‘(السیرۃ النبویہ لابن ہشام)

ماہ ِمحرم الحرام 7 ہجری کو آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور بارگاہِ رسالت مآبﷺمیں حاضر ہوئے۔رسول اللہ ﷺنے سیدہ زینب رضی اللہ عنہاکے ساتھ اِن کے نکاح کی تجدید فرمائی یا نہیں۔اِس میں دو روایتیں ہیں۔

اوّل :یہ کہ تجدید نہیں فرمائی بلکہ نکاح اوّل کو برقرار رکھا۔

دوم :یہ کہ جدید حق مہر کے ساتھ نیا نکاح ہوا۔(الاستیعاب،اسد الغابہ، الاصابہ)

چھ سال کی طویل جدائی کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہااور آپ اکھٹے رہنے لگ گئے اور فیضان نبوت سے فیض یاب ہوتے رہے۔سیدنا ابوالعاص رضی اللہ عنہ کا وسیع تجارتی کاروبار مکہ مکرمہ میں تھا، حُسن معاملہ، دیانت اور اَمانت کی وجہ سے مشرکین کو اِن کے مسلمان ہونے کے باوجود مکہ مکرمہ میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا ۔چناں چہ آپ رسول اللہﷺسے اجازت لے کر پھر مکہ مقدسہ آگئے اور حسب ِ سابق اپنے کاروبار میں مشغول ہوگئے۔مکہ مکرمہ میں قیام کی وجہ سے اُنھیں غزوات میں شریک ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ تاہم صرف ایک سرّیہ میں شرکت کا تذکرہ ملتا ہے جو مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی سرپرستی میں یمن بھیجا گیا تھا۔(اسدالغابہ)

سیدہ پاک زینب رضی اللہ عنہاکے وِصال سے اِنھیں بے حد صدمہ پہنچا لیکن اُنھوں نے صبر واستقامت سے کام لیا اور بچوں کی پرورش وتربیت میں مصروف رہنے لگے۔سیدہ رضی اللہ عنہاسے وفاداری کا حق اُنھوں نے یوں ادا کیا کہ اُن کے بعد کسی دوسری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ وفات سے بیشتر اپنی صاحبزادی کی کفالت و نکاح کے متعلق اپنے ماموں زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو ایک وصیت فرمائی ۔

آپ کے وصال کے متعلق معروف ہے کہ آپ نے امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں ماہ ِذی الحجہ 13 ہجری میں وفات پائی۔ابن مندہ حنبلی کا قول ہے کہ آپ نے امیر المومنین خلیفۃُالمسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتنہ ارتداد کے استیصال میں بھرپور حصہ لیا اور مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کی لڑائی میں مردانہ وار لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔(الاصابہ )

اللہ تعالیٰ آپ پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے اور ہمیں آپ کے اسوۂ کاملہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

Menu