امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمہ


نام و نسب اور سکونت:

محقق علی الاطلاق حضرت علامہ امام جلال الدین سیوطی کا نام نامی اسم گرامی عبد الرحمن ہے اور آپ کا لقب ”جلال الدین“ اور کنیت ابو الفضل ہے۔ آپ کا پورا نسب اس طرح ہے: عبد الرحمن جلال الدین بن ابی بکر محمد کمال الدین بن سابق الدین بن عثمان فخر الدین بن محمد ناظر الدین بن سیف الدین خضر بن ابی الصلاح ایوب نجم الدین بن محمد ناصر الدین بن شیخ ہمام الدین سیوطی۔

” سیوط“ کی طرف منسوب ہیں، جس کو” اسیوط “ بھی کہتے ہیں۔ مصر کے گرد و نواح میں دریائے نیل کے مغربی جانب ایک شہر ہے، اسی شہر میں بعد مغرب یکم رجب ۸۴۹؁ ھ میں پیدا ہوئے ۔اپنے زمانہ کے انتہائی باکمال و بے مثال ائمہ فن میں سے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں بے پناہ خوبیوں اور بے شمار خصوصیتوں سے نوازا تھا۔

تحصیل علوم:

آپ کی عمر شریف جب پانچ سال سات ماہ کی ہوئی تو ۸۵۵؁ھ میں آپ کے سر سے والد کی شفقت اور سایہ اٹھ گیا لیکن آپ کے والد ماجد نے علم دین کے حصول کی وصیت فرمائی تھی، چنانچہ والد ماجد کی حسب وصیت علم دین کے حصول میں قدم رکھا اور چند بزرگوں کی سرپرستی میں علم دین حاصل کرنے لگے۔ ان میں شیخ کمال الدین ابن ہمام حنفی بھی تھے ،انہوں نے آپ کی طرف پوری توجہ کی۔ چنانچہ آپ نے آٹھ سال سے کم عمر ہی میں قرآن مجید حفظ کرلیا اور بہت سی درسی و غیر درسی کتابیں اپنے وقت کے جید ترین مختلف علمائے کرام سے پڑھیں۔ شیخ شہاب الدین سے فرائض (علم میراث) حاصل کئے اور شیخ الاسلام علم الدین ،علامہ بلقینی ،علامہ شرف الدین المناوی اور محقق دیار مصر سیف الدین محمد بن محمد حنفی کے حلقہائے درس سے بھی مدتوں استفادہ کیا اور علامہ محی الدین کی خدمت میں چودہ سال تک رہے۔

درس و تدریس اور افتاء:

علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل و تکمیل کے بعد ۸۶۶؁ھ میں باقاعدہ مسند تدریس پر فائز ہوگئے اور ۸۷۱؁ھ میں افتاء کا کام شروع کیا اور ۸۷۲ ؁ھ سے املاء حدیث میں مشغول ہوگئے ۔خود علامہ موصوف ”حسن المحاضرہ“میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے سات علوم تفسیر ،حدیث ،فقہ ،نحو،معانی ،بیان اور علم بدیع میں تبحر و مہارت عطا فرمائی ہے ۔یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے حج کے موقع پر آب زمزم پیا اور یہ نیت کی کہ فقہ میں شیخ سراج الدین بلقینی کے مرتبہ کو اور حدیث میں حافظ ابن حجر کے مرتبہ کو پہنچ جائوں۔

مشہور تلامذہ:

آپ کے حلقۂ درس سے بے شمار جید علماء نے اکتساب علم کیا اور اکناف عالم میں علوم عقلیہ و نقلیہ پھیلاتے رہے ۔ان میں مشہور و معروف تلامذہ یہ ہیں: شمس الدین محمد بن علی بن احمد الدائودی المالکی ،علامہ علی بن محمد بن احمد الخبانی الازہری۔

قوتِ حافظہ:

آپ اپنے زمانہ میں علم حدیث کے سب سے بڑے امام تھے ۔آپ خود فرماتے ہیں کہ مجھے دو لاکھ حدیثیں یاد ہیں اور”الاتقان“کے دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ مذکورہ سات علوم کے علاوہ اصول فقہ، علم جدل، معرفت، انشاء، ترسیل، علم فرائض، علم قرأت اور علم طب میں نے کسی استاد سے نہیں پڑھا البتہ علم الحساب مجھ پر دشوار ترین شیٔ تھی لیکن اب میرے پاس بحمدہ تعالیٰ اجتہاد کے آلات مکمل ہوگئے ہیں میں اس بات کو فخریہ نہیں کہتا بلکہ بطور ذکر نعمت الٰہی بیان کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں اگر میں چاہتا کہ ہر مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھوں اور اس کے انواع و اقسام اور اس کے ادلۂ عقلیہ و نقلیہ اور اس کے نقائص اور ان نقائص کے جوابات اور ہر مسئلہ میں اختلاف مذاہب کے درمیان موازنہ کروں تو بفضلہ تعالیٰ اس کام پر بھی مجھے قدرت ہوتی اور جہاں کہیں ہر قسم کی روایات جمع کی ہیں جس، میں ضعیف و موضوع کا بھی لحاظ نہ کیا تو وہاں ان کا مقصد تحقیق ہرگز نہیں بلکہ مطلقاً روایات کا جمع کرنا ہے اور یہ ان کی عادت ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس میں ہر قسم کی روایتیں جمع فرمادیتے ہیں خواہ وہ صحیح ہوں یا حسن یا ضعیف چنانچہ اس کتاب (لقط المرجان) میں بھی ان کا مقصد تحقیق نہیں، جمع روایات ہے اسی لئے تو انہوں نے یہ فرمایا کہ”اگر میں چاہتا تو ایسی تحقیق کرنے پر قدرت ہوتی ” ایسا ہی کیا ہے“ (یعنی لقط المرجان کی روایات کی تحقیق کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا) کا انہوں نے دعویٰ نہیں فرمایا ہے۔

علمی کارنامے:

امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے مختلف موضوعات پر پانچ سو سے زائد تصنیفات اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ چنانچہ علامہ نووی بستان میں ایک مستند روایت نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:” امام غزالی علیہ الرحمہ کی تصنیفات اور ان کی عمر کا حساب لگایا جائے تو روزانہ کا اوسط سولہ صفحات ہوتے ہیں لیکن محدث ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کا روزانہ کا اوسط اس سے بھی کہیں زیادہ ہے“۔ سب سے پہلے علامہ سیوطی نے ”شرح استعاذہ و بسملہ“ تصنیف کی اور اصول تفسیر میں انتہائی جامع کتاب” الاتقان فی علوم القرآن“ دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس کتاب کی وجہ تالیف خود علامہ موصوف نے اسی کتاب کے دیباچہ میں یوں بیان فرمائی ہے:” مجھے طالب علمی کے زمانہ ہی سے اس بات پر بڑی حیرت و تعجب تھا کہ علمائے متقدمین نے علوم حدیث پر تو بہت سی کتابیں تصنیف کیں لیکن علوم قرآن پر کوئی کتاب نہیں لکھی ۔اتفاقاً ایک دن میں اپنے استاد اور شیخ ابو عبد اللہ محی الدین کو فرماتے سنا کہ انہوں نے علم تفسیر پر ایک بے مثال کتاب مرتب فرمائی ہے، کہ ایسی کتاب ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ چنانچہ مجھے اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ،تو اسے لے کر نقل کیا ۔یہ ایک مختصر رسالہ تھا اس رسالہ میں صرف دو باب تھے ۔ پہلے باب میں تفسیر،تاویل، قرآنی سورتوں اور آیات کے معانی میں اور دوسرا باب تفسیر بالرائے کی شرطوں کے بیان میں۔ پھر ان دو بابوں کے بعد خاتمہ تھا جس میں عالم متعلم کے آداب مذکور تھے۔ اس مختصر رسالہ سے میری تشنگی نہ بجھی اور تشفی نہ ہوئی اس کے بعد قاضی القضاۃ نے اپنے بھائی قاضی القضاۃ جلال الدین کی تصنیف کردہ کتاب ”مواقع العلوم من موقع النجوم“کی طرف رہنمائی کی۔ جب میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا تو اسے اس موضوع پر بڑی عمدہ اور قابل قدر پا۔یا اس کتاب میں مذکورہ بالاعنوان کی ہر قسم کا مختصر بیان تھا ،مگر اس کے باوجود وہ بیان اس قدر ناکافی تھا کہ اس میں مزید اضافے اور وضاحت کی ضرورت تھی چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے میں نے اس موضوع پر ایک کتاب ”التبحیر فی علوم التفسیر“کے نام سے لکھی اس کے بعد اسی موضوع پر دوسری کتاب ”البرہان فی علوم القرآن “کے نام سے تصنیف کی گویا امام سیوطی نے علم اصول تفسیر پر تین جامع کتاب تصنیف فرمائی۔

چند مشہور تصنیفات کے نام:

A الدر المنثور فی التفسیر الماثور بارہ جلدیں B ترجمان القرآن پانچ جلدیں C الناسخ و المنسوخ D الاکلیل فی استنباط النزیل E لباب المنقول فی اسباب النزول F مفحات القرآن فی مہمات القرآن G اسرار التنزیل H تفسیر جلالین نصف اول I التوشیخ علی الجامع الصحیح شرح بخاری J القول الحسن فی الذب علی السنن نسائی کی شرح K زبر الربیٰ علی المجتبیٰ ابن ماجہ کی شرح L کشف الغطاء فی شرح الموطأ موطا کی شرح M القوت المغتذی علیٰ جامع الترمذی ترمذی کی شرح N طبقات O تاریخ الخلفاءP طبقات الحفاظ Q خصائص کبریٰ
مزید تصانیف کی فہرست آپ ہی کی کتاب”حسن المحاضرہ“میں درج ہے ، وہاں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

کرامات:

آپ کے خادم خاص محمد بن علی حباک کا بیان ہے کہ، ایک روز قیلولہ کے وقت فرمایا: ”اگر تم میرے مرنے سے پہلے اس راز کو فاش نہ کرو تو آج عصر کی نماز مکہ معظمہ میں پڑھوا دوں“؟ عرض کیا!” ضرور“ فرمایا:” آنکھیں بند کرلو اور ہاتھ پکڑ کر تقریباً ۲۷ قدم چل کر فرمایا، آنکھیں کھول دو ۔دیکھا تو ہم باب معلی پر کھڑے ہیں حرم پہونچ کر طواف کیا زمزم پیا ،پھر فرمایا کہ اس بات سے تعجب مت کرو کہ ہمارے لئے زمین سمیٹ دی گئی بلکہ زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ مصر کے بہت سے مجاورین حرم ہمارے جاننے والے یہاں موجود ہیں مگر وہ ہمیں نہ پہچان سکے۔ پھر فرمایا چاہو تو میرے ساتھ واپس چلو ورنہ حاجیوں کے ساتھ آجانا۔ عرض کیا! ساتھ ہی چلوں گا ۔چنانچہ ہم باب معلی گئے اور فرمایا آنکھیں بند کرلو ،میں نے آنکھیں بند کرلیں اور مجھے سات قدم دوڑایا اور کہا آنکھیں کھولو جب آنکھ کھولی تو ہم مصر میں موجود تھے۔

زیارتِ رسالتماب اور شیخ السنۃ کا خطاب:

امام سیوطی نے کئی بار حضور اکرم ﷺ کی خواب میں زیارت کی ہے اور حضور ﷺ نے آپ کو یا شیخ السنۃ یا شیخ الحدیث کہہ کر خطاب فرمایا ۔شیخ شاذلی فرماتے ہیں میں نے دریافت کیا کہ آپ کو حضور اکرم ﷺ کی زیارت مبارکہ کتنی بار ہوئی ہے؟ فرمایا ستر (۷۰) سے زیادہ مرتبہ مجھے حضور اقدس ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔

وفات:

تریسٹھ (63) سال کی عمر پاکر ایک معمولی سے مرض ہاتھ کے ورم میں مبتلا ہوکر آخر شب جمعہ ۱۹ جمادی الالیٰ ۹۱۱ھ؁ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور ہمیشہ کے لئے دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

 علامہ مفتی عطاء المصطفیٰ اعظمی 

Menu