امام ابو جعفراحمد بن محمد طحاوی حنفی


امام ابو جعفر طحاوی تیسری صدی کے ایک عظیم محدث اور بے بدل فقیہہ تھے، محدثین اور فقہا کے طبقات میں آپ کا یکساں شمار کیا جاتا ہے، سلف صالحین میں ایسے جامع حضرات کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، جو حدیث اور فقہ دونوں شعبوں میں سند کی حیثیت رکھتے ہوں۔ محدثین آپ کو حافظ اور امام کہتے ہیں، اور فقہاء امام طحاوی کو مجتہد قرار دیتے ہیں۔

شیخ عبد القادر فرماتےہیں کہ آپ ثقہ نبیل اور حدیث کا مسکن تھے۔

امام سیوطی فرماتےہیں کہ آپ حدیث اور فقہ میں امام علوم دینیہ کے ماویٰ اور احادیث نبویہ کے ملجأ تھے۔

حافظ ابو شیرازی کہا کرتے تھے کہ امام ابو جعفر طحاوی اصحاب ابو حنیفہ کی ریاست کی منتہا ہیں(وصی احمد محدث سورتی)۔

ولادت :

آپ کی پیدائش بالاتفاق یکشنبہ ١١/ربیع الاول مصر کے وادی نیل کے کنارے طحانام کی ایک بستی میں ہوئی،اس وجہ سے آپ کو طحاوی کہا جاتاہے۔ البتہ آپ کی سن ولادت میں اختلاف ہے،حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی ٨٥٢ھ) محدث محی الدین ابو محمد عبدالقادر (متوفی ٦٩٦ھ) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (متوفی ١٢٢٩ھ) نے اور مولانا عبدالحئ لکھنؤی (متوفی ١٣٠٤ھ) نے امام طحاوی سے نقل کیا ہے انہوں نے اپنا سال ولادت ٢٣٩ھ بیان فرمایا ہے، اور امام ابو عبداللہ شمس الدین ذہبی (متوفی ٧٤٨ھ) ان سے ٢٣٧ھ نقل فرمایاہے۔

نام و نسب :

آپ کا نام احمد ہے، کنیت ابو جعفر، والد محمد۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہےابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ بن عبد الملک بن سلمۃ بن سلیم بن خباب الازدی المصری الطحاوی الحنفی ہے۔ ازدی چوں کہ آپ کا تعلق یمن کا ایک مشہور قبیلہ ازد سے ہے اس وجہ سے آپ کو ازدی کہا جاتاہے۔

حجری قبیلہ حجر کے ایک شاخ حجر ہے اس وجہ سے آپ کو حجری کہا جاتاہے۔ حجر نام کے تین قبائل تھے (١)حجر بن وحید (٢)حجر ذی امین (٣)حجر ازد امام طحاوی کی جس قبیلہ کی طرف نسبت ہے وہ یہی ہے۔

مصری فتح اسلام کے بعد آپ کے آبا و اجداد مصر کی طرف منتقل ہوگیے تھے اس وجہ سے آپ کو مصری کہا جاتا ہے۔

حصول علم:

علامہ طحاوی نے ابتدائی تعلیم اپنے ماموں ابو ابراہیم بن اسماعیل بن یحییٰ المزنی سے حاصل کی۔چوں کہ آپ کے استاذ علامہ مزنی امام شافعی کے تلمیذ خاص تھے۔ اس لیے ان کی پیروی کرتے ہوئے علامہ طحاوی بھی شروع میں شافعی المسلک تھے۔

پھر جب علامہ احمد بن ابی عمران حنفی مصر میں قاضی کی حیثیت سے تشریف لائے تو علامہ طحاوی ان کے حلقئہ درس میں شریک ہونے لگے اور ان سے متاثر ہوکر حنفی مسلک اختیار کر لیا علامہ طحاوی نے حدیث کے لیے مصر، یمن، حجاز، شام، کوفہ، بصرہ، اور خراسان وغیرہ کا سفر کیا۔

اساتذہ وشیوخ :

امام طحاوی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے ماموں ابو ابراہیم مزنی سے فقہ شافعی پڑھنی شروع کی لیکن آپ کی طبیعت سلیمہ میں جو استدلال کی تلاش اور نظر میں باریک بینی تھی اس نے بہت جلد آپ کا رخ شافعیت سے حنفیت کی طرف موڑ دیا۔

چناں چہ ٢٦٨ھ میں آپ نے مصر جاکر اس وقت کے شہرہ آفاق استاذ ابو جعفر احمد بن ابی عمران موسیٰ بن عیسیٰ سے فقہ حنفی کی تحصیل شروع کردی- احمد بن ابی عمران فقہ حنفی میں زبردست دسترس رکھتے تھے اور دو واسطوں سے ان کا سلسلہ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ سے مل جاتا تھا

اس طرح امام طحاوی کی جو سند امام اعظم سے متصل ہے اس کی تفصیل یہ ہے، احمد بن ابی عمران عن محمد بن سلمہ عن ابی یوسف عن ابی حنیفہ مصر کے بعد امام طحاوی شام چلے گئے اور وہاں شام کے قاضی القضاۃ ابو حازم سے فقہ کی تحصیل کی ان کے علاوہ مصر کے باقی مشائخ سے علم حدیث میں استفادہ کیا۔
اور جس قدر مشائخ حدیث ان کی زندگی میں مصر آئے ان سب سے امام طحاوی نے علم حدیث میں استفادہ کیا جن میں سلیمان بن شعیب کیسانی،ابو موسیٰ یونس بن عبد الاعلی الصدفی وغیرہ کے نام لیے جاتے ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے علم حدیث میں امام طحاوی کے جن مشایخ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں یونس بن عبد الاعلی ،ہارون بن سعید اپلی ،محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم ،بحربن نصر ،عیسی بن مزرود ابراہیم بن ابی داؤد ابو بکر بکار بن قتیبہ اور امام ذہبی نے ان اساتذہ کے علاوہ عبد الغنی بن رفاعہ کا بھی ذکر کیا ہے۔

تلامذہ :

امام طحاوی کی علمی شہرت دور دراز علاقوں میں پھیل چکی تھی، اس لیے آپ سے استفادہ کرنے کے لیے دور دور سے تشنگان علم آتے تھے، جن بے شمار لوگوں نے آپ سے علم حدیث میں سماع حاصل کی، ان میں چند حضرات کے اسماے گرامی یہ ہیں :

ابو محمد عبد العزیز بن محمد الہیتمی الجوہری، حافظ احمد بن القاسم بن عبد اللہ البغدادی المعروف بابن الخشاب، ابو بکر علی بن سعدویہ البروعی، ابو القاسم مسملۃ ابن القاسم بن ابراہیم القرطبی ، ابو القاسم عبد اللہ بن علی الداودی، حسن بن القاسم بن عبد الرحمن المصری، قاضی ابن ابی العوام ، ابو الحسن محمد بن احمد اخمینی ، حافظ ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی المقری، ابو الحسن علی احمد الطحاوی ، ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی صاحب المعجم، حافظ ابو سعید عبد الرحمن بن احمد بن یونس مصری، حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن الحسینی بغدادی میموں بن حمزہ العبیدی وغیرہ۔(الجواہر المضیہ ج١ص١٠٤)

تبدیلی مسلک :

علامہ عبدالعزیز پرہاروی ذکر فرماتے ہیںکہ امام طحاوی ابتداء شافعی المذہب تھے ایک دن انہوں نے کتب شافعیہ میں پڑھا کہ جب حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو نکالنے کے لیے اس کے پیٹ کو چیرا نہیں جائے گا، برخلاف مذہب ابو حنیفہ۔

اور امام طحاوی کو مذہب حنفی پر پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا، امام طحاوی نے اس کو پڑھ کر کہا میں اس شخص کے مذہب سے راضی نہیں۔ جو میری ہلاکت پر راضی ہو پھر انہوں نے شافعیت کو چھوڑ دیا اور حنفی مسلک کو اختیار کیا، اور اس مسلک کے عظیم مجتہد بن گئے۔

مولانا فقیر محمد جہلمی نے اس واقعہ کو ذرا اور تفصیل سے بیان کیا ہے، لکھتے ہیں”فتاوی برہنہ” میں آپ کے انتقال مذہب کا یہ سبب لکھا ہے کہ آپ ایک دن اپنے ماموں سے پڑھ رہے تھے کہ آپ کے سبق میں یہ مسئلہ آیا کہ اگر کوئی حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو برخلاف مذہب امام ابو حنیفہ کے امام شافعی کے نزدیک عورت کا پیٹ چیر کر بچہ نکالنا جائز نہیں۔

آپ اس مسئلہ کے پڑھتے ہی اٹھ کھڑے ہو ئے اور کہنے لگے کہ میں اس شخص کی ہرگز پیروی نہیں کرتا جو مجھ جیسے آدمی کی ہلاکت کی کچھ پرواہ نہ کرے۔ کیوں کہ آپ اپنی والدہ کے پیٹ میں ہی تھے کہ آپ کی والدہ فوت ہوگئ تھیں اور آپ پیٹ چیر کر نکالے گئے تھے، یہ حال دیکھ کر آپ کے ماموں نے آپ سے کہا خدا کی قسم تو ہرگز فقیہ نہیں ہوگا،

پس جب آپ خدا کے فضل سے فقہ و حدیث میں امام بے عدیل اور فاضل بے مثل ہوئے تو اکثر کہا کر تے تھے کہ میرے ماموں پر خدا کی رحمت نازل ہو اگر زندہ ہوتے تو اپنے مذہب شافعی کے بموجب ضرور اپنی قسم کا کفارہ اداکرتے۔

حدیث اور فقہ میں مہارت :

٧٧٠ھ کے بعد امام طحاوی نے مصر کے قاضی ابو عبداللہ محمد بن عبیدہ کی نیابت کا عہدہ قبول کرلیا، امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں قاضی کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور کہنے لگا ابو عبیدہ بن عبداللہ نے اپنی ماں سے اور انہوں نے اپنے باپ سے کونسی حدیث روایت کی ہے۔

جب شرکاے مجلس میں سے کسی شخص کو جواب نہ آیا تو میں نے اپنی سند کے ساتھ وہ حدیث بیان کی “حدثنا بکار بن قتیبہ حدثنا ابو احمد حدثنا سفیان عن عبد الاعلی الثعلبی عن ابی عبید اللہ عن ابیہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ لیغار للمومنین فلیغر وحدثنا بہ ابراہیم بن ابی داؤد حدثنا سفیان بن وکیع عن ابیہ عن سفیان موقوفا” جب آپ مطلوب حدیث کو دو سندوں کے ساتھ مرفوعاً و موقوفا بیان کر چکے تو وہ شخص بے ساختہ کہنے لگا، شام کو میں نے آپ کو فقہا کے میدان میں دیکھا تو تھا اور اب آپ حدیث کے میدان میں ہے بہت کم لوگ ہوں گے جو ان دونوں فنون میں آپ کی طرح جامعیت رکھتے ہوں، آپ نے یہ سن کر فرمایا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا انعام ہے۔

تصانیف :

امام طحاوی کثیر التعداد کتب کے مصنف تھے، مؤرخین اور تذکرہ نگار ہر دور میں آپ کو سراہتے رہے، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، کلام ، تاریخ، رجال، اور مناقب تقریباً تمام موضوعات پر آپ کی تصانیف موجود ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

(١) احکام القرآن (٢) شرح معانی الآثار (٣) مشکل الآثار (٤)اختلاف العلما (٥)کتاب المشروط (٦)الشروط الصغیر (٧)الشروط الاوسط (٨) مختصر الطحاوی فی الفقہ (٩)النوادرالفقہیہ(١٠) کتاب النوادر والحکایات (١١) حکم ارض مکہ(١٢) حکم الفئ والغنائم(١٣) نقص کتاب المدلسین (١٤)کتاب الاشربہ(١٥)الردعلی عیسیٰ بن ابان(١٦) الردعلی ابی عبید (١٧) اختلاف الروایات (١٨) الرزیہ (١٩) شرح الجامع الکبیر (٢٠) شرح الجامع الصغیر(٢١) کتاب المحاضروالسجلات (٢٢)کتاب الوصایاوالفرائض (٢٣) کتاب التاریخ الکبیر (٢٤) اخبار ابی حنیفہ (٢٥)(٢٦) عقیدۃالطحاوی (٢٧)تسویہ بین اخبرناوحدثنا(٢٨)سنن الشافعی (٢٩)صحیح الآثار۔

وصال :

٨٢/بیاسی سال کی عظیم اور پُرشکوہ زندگی گزارنے کے بعد امام طحاوی یکم ذیقعدہ ٣٢١ھ میں وصال فرماگئے۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں:اسی سال مصر میں ان کے شیخ ابوبکر احمد بن عبد الوارث، مرات میں ابو علی احمد بن الباسانی، اصفہان میں ابوعلی الحسن بن محمد، بغداد میں حافظ سعید بن محمد بن کے علاوہ محمد بن الحسن ازوی، محمد بن نوح نیشاپوری، مکحول، بیرونی اور رئیس معتزلہ ابوعلی جبائی انتقال کرگئے(ماخوذ تذکرۃ المحدثین)۔

رب غافر قدیر ہم سبھوں کو امام ابو جعفر طحاوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے فیضان سے مالامال فرمائے، اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے اور مسلک حق یعنی مسلک اعلیٰ حضرت پہ قائم و دائم رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم

 محمد اشفاق عالم امجدی علیمی 

Menu