حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ


اسم گرامی:

جنید

کنیت:

ابوالقاسم

القاب:

سید الطائفہ، طاؤس العلماء، سلطان الاولیاء، شیخ الاسلام

سلسلۂ نسب:

حضرت جنید بغدادی بن شیخ محمد بن جنید۔

(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص52)

آپ کے والد شیشہ اور کپڑےکی تجارت کیا کرتے تھے۔وطنِ اصلی ’’نہاوند‘‘ ایران تھا۔پھر بغداد کی طرف ہجرت فرمائی اورمستقل سکونت اختیار کرلی۔

(شریف التواریخ،ج1،ص522)

تاریخِ ولادت:

 آپ کی ولادت باسعادت غالباً 216ھ یا 218ھ کوبغداد میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: 

آپ﷫ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔بہت قلیل عرصے میں ہی آپ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔اکثر اپنے ماموں حضرت  شیخ سری سقطی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سےمستفیض ہوا کرتے،اور فقہ مشہورشافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی(تلمیذ  حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہما)سےحاصل کی جو بغداد کے اَجِلَّہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔جوانی میں ہی آپ کےعلم کاچرچا عام ہوگیا تھا۔حضرت سری سقطی،شیخ ابوثورابراہیم،شیخ حارث محاسبی،محمدبن ابراہیم بغدادی،ابوجعفرمحمدبن علی قصاب،بشر بن حارث،کےعلاوہ آپ نےایک سو بیس سےزائد علماء و شیوخ سےعلمی و روحانی استفادہ فرمایا ۔

نیزشیخ  ابوبکر کسائی  اور آپ﷫ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مُراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا آپ نے سب کے جواب لکھے، کسائی نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔(شریف التواریخ،ج1،ص530)

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ میرے پیر حضرت سری سقطی رضی اللہ عنہ نے مجھے دعا دی اﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے‘‘۔ اسی طرح فرماتے ہیں:’’  جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔نیز فرمایا:’’ خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول اﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت)کی پیروی کرے‘‘۔(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)

بیعت و خلافت:

 آپ اپنے حقیقی ماموں حضرت شیخ سری سقطیرضی اللہ عنہ سے بیعت ہوئےاور خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے۔

 عادات و صفات:

 حضرت جنید بغدادی﷫  سلوک کے اس عظیم منزل پر فائز ہونے کے ساتھ اخلاقِ حسنہ والی صفت سے مزیّن تھے اور اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، مگر جب کبھی آپ کے برادران طریقت آجاتے تو روزہ افطار کردیتے اور فرماتے کہ اسلامی بھائیوں کی خاطر و مدارات نفل روزوں سے افضل ہے۔غریبوں  یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بنتے،امیروں پر فقیروں اور غریبوں کو ترجیح دیتےتھے۔کبھی کسی امیر و وزیر کی تعظیم نہیں کی۔آپ عالمانہ لباس زیب تن فرماتے تھے، ایک بار لوگوں نے عرض کیایا شیخ!  کیا خوب ہو کہ آپ مُرَقَّعْ(گدڑی) پہنیں۔ فرمایا اگر میں جانتا ہوتاکہ مرقع پر تصوف و معرفت  منحصر ہے تو میں لوہے و آگ سے لباس بناتا اور پہنتا، لیکن ہر گھڑی باطن میں یہ ندا آتی ہے ’’ لیس الاعتبار بالخرقۃ انما الاعتبار بالحرقۃ ‘‘ یعنی  معرفت میں خرقہ کا اعتبار نہیں بلکہ (محبتِ الہی میں)جان جلنے کا اعتبار ہے۔(شریف التواریخ: جلد اول،ص528)

خلفاء و تلامذہ: 

شیخ ابوبکر شبلی﷫، ابو محمد الجریری، ابن الاعرابی احمد بن محمد، علی بن بندارابوالحسن الصیرفی، عبد اللہ بن محمد الشعرانی، محمد بن اسود دینوری۔﷭

وصال: 

بروز جمعۃ المبارک 27؍رجب المرجب 297ھ مطابق11؍ اپریل 910ءکو واصل بااللہ ہوئے۔ مزار مبارک مقامِ ’’شونیزیہ‘‘ بغدادِ معلیٰ میں مرجعِ خلائق ہے۔

حیات و خدمات

Menu