خلیفۂ اعلیٰ حضرت ضیغم ملت علامہ محمود جان جام جود ھپوری علیہ الرحمہ


 ولادت:
حضرت مولانا محمود جان صاحب پشاور کی سرزمین پر ایک شریف ونجیب خاندان میں پیداہوئے، اس خاندان کے لوگ علم و ہنر شجاعت و جوانمردی اور ایثار و سخاوت کے اوصاف سے مالامال تھے،ان کی مہمان نوازی ضرب المثل تھی،صاحبان حکومت و اقتدار بھی خاندان میں پیداہوئے۔
والد گرامی:
آپ کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی حافظ غلام رسول صاحب علیہ الرحمہ ایک جید عالم دین اور استاذ الاساتذہ تھے،اطراف و اکناف میں آپ کا علمی فیضان جاری و ساری تھا، کابل، قندھار، بلخ، بخارا، یار قند ،سمر قند سے تشنگان علوم مسافت بعیدہ طے کر کے آتے اور اس ساقی علوم و فنون سے سیرابی حاصل کرتے۔
آپ بہت اچھے واعظ بھی تھے، آپ کے جلسہ وعظ میں ہزاروں سامعین ہوتے، پشاور کے ذی عزت و شرف لوگ آپ کو مدعو کرتے اور تین تین چار چار ماہ تک سلسلہ ٔ وعظ مسلسل رہتا، قاضی و مفتی بھی تھے ،شرعی فیصلہ فرماتے، علما اور فضلاء آپ کے فتاویٰ و قضایاکو بہت عزت کی نظرسے دیکھتے۔
 
حضرت علامہ مفتی غلام رسول علیہ الرحمہ کے پیر و مرشد حضرت شاہ عبد الغفور اخوند قادری علیہ الرحمہ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے، جو صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے، آپ رمضان المبارک میں پیر و مرشد کی طرف سے بڑی عزت و وقعت کے ساتھ ان کے یہاں مدعو ہوتے اور نماز تراویح پڑھاتے، حضرت اخوند قادری علیہ الرحمہ اور بہت سے مسلمان ذوق و شوق سے تراویح میں قرآن مجید سماعت فرماتے۔ 
پشاور کے اطراف میں وہابیت و غیر مقلدیت کی بیخ کنی میں حضرت علامہ مفتی غلام رسول قادری علیہ الرحمہ نے بڑی جد و جہد فرمائی، آپ کے وقت میں مولوی اسماعیل دہلوی نے اس علاقہ میں خوب اپنا سکہ جمایا تھا، اس نے کوٹے ملا صاحب کو جو بہت بڑے معقولی تھے اپنا خلیفہ بنالیا تھا، قوم افغان کے بڑے بڑے سردار ان کے دام تزویر میں پھنس گئے تھے۔
حضرت علامہ مولانا مفتی غلام رسول قادری علیہ الرحمہ نے اپنے پیر و مرشد کے حکم پر وہابیہ غیر مقلدین سے کئی مناظرہ کئے اور ان کے عقائد کفریہ و خیالات باطلہ کو طشت از بام فرمایا، یہاں تک کہ عام لوگوں نے بھی جان لیا کہ یہ فرقہ گمراہ ،بے دین اور خائب و خاسر ہے۔
اگرچہ ایک مدت دراز تک اس مرد مجاہد کو طرح طرح سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انجام کار مولیٰ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو فتح و کامرانی عطا فرمائی اورو ہ علاقہ اس فرقہ کی نجاست سے پاک ہوگیا، اور سینکڑوں مسلمان آپ کے شکر گزار ہوئے۔
 
  ( مضمون تذکرہ ٔ مصنف ’’ ذکر رضا‘‘ از قلم حضرت مولانا ابو المساکین علامہ محمد ضیاء الدین پیلی بھیتی علیہ الرحمہ ۔یہ مضمون کتاب’’ذکر رضا ‘‘کے آخر میں ہے)
د ینی خد مات:
حضرت مولانا محمود جان جام جودھپوری علیہ الرحمہ تحصیل علوم سے فارغ ہو کر تبلیغ اسلام کی طرف متوجہ ہوئے، اور پشاور سے منتقل ہو کر صوبہ کاٹھیاواڑ کی بستی جام جودھپور میں اقامت پذیر ہوئے، اوائل میں بکمال دلچسپی رد نصاریٰ کی طرف زیادہ توجہ رہی،بڑے بڑے جلسوں میں پادریوں سے مناظرے ہوئے، اور کلمۃ اللہ ھی العلیا کی ضیا اور حقانیت اسلام کے انوار سے ظلمات اباطیل کا نشان تک نہ رہتا،عمر کے آواخر میں رد وہابیہ میں تقریراً و تحریراً کامل حصہ رہا۔
اگر چہ دیگر فرق باطلہ کی شناخت و قباحت بھی مدلل بیان فرماتے، لیکن نصاریٰ اور فرقۂ وہابیہ کا بطلان اعلیٰ پیمانے پر ظاہر فرماتے۔ہندوستان کے علاوہ افریقہ میں بھی تبلیغ اسلام و سنیت فرمائی، مختصر یہ تا زیست پورے جوش و خروش کے ساتھ اسلام و سنیت کی خدمت میں سر گرم رہے، عوام مسلمین کے عقائد و اعمال کی حفاظت و صیانت فرماتے رہے اور اس معاملہ میں مخالفین و معاندین کی مخالفت و عناد کی آپ نے کوئی پرواہ نہ کی اور حتیٰ الامکان احیائے سنیت و اماتت بدعت کی خدمت انجام دی۔
 
بیعت و خلافت:
آپ نے بریلی شریف جا کر جامع شریعت و طریقت ،مجدد دین و ملت ،عظیم البرکت امام اہلسنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی، اور بیعت کے بعد ہی سند خلافت سے بھی نوازے گئے۔
سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے اپنے خلفاعظام کی فہرست میں ۴۵؍واں نمبر پر آپ کا ذکر یوں کیاہے’’ جناب مولانامولوی محمود جان صاحب جام جودھپور، کاٹھیاوار۔ عالم، واعظ، مناظر، مصنف، حامی سنت، مجاز طریقت‘‘ مرتب۔
 
بیعت سے مشرف ہونے اور خلافت سے نوازے جانے کا حال حضرت مولانا محمود جان رضوی علیہ الرحمہ نے خود تحریر فرمایا ہے۔آپ کی ا س تحریر  کے ایک ایک لفظ سے محبت و عقیدت کے آبشار پھوٹتے ہیں ، اس میں اعلیٰ حضرت کے فضائل و مناقب کا بہترین بیان ہے۔نیزیہ تحریر آپ کی نثر نگاری کا ایک عمدہ نمونہ بھی ہے۔لہذا آپ کی مکمل تحریر نقل کی جاتی ہے، آپ لکھتے ہیں:۔
’’ فقیر اپنے رب قدیر کے انعام و اکرام و احسان کا شکریہ کسی طرح ادا نہیں کرسکتا کہ بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، من جملہ اس کے ایک ہی نعمت ایسی ہے کہ عمر صرف ہوجائے اور شمۂ شکر اس کا ادا نہ ہو، وہ یہ کہ ہم کو خاص اپنے حبیب اشرف الانبیاء الکریم علیھم الصلاۃ و السلام کی امت میں پیدا فرماکر فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت سے کیا،پھر وہ مزید صرف بخشا کہ جس کے بیان سے زبان عاجز ہے، یعنی مرشد کامل کی غلامی کا فخر عطا فرمائی، جو علوم ظاہریہ باطنیہ میں یکتا، اہلسنت کا مقتداء، تاج الکملاء، رئیس الفضلاء، زبدۃ الاصفیاء، عمدۃ الاولیاء، محی الشریعہ و الطریقہ، ناصرۃ السنہ السنیہ، مجدد الملۃ، آیۃ من آیات اللہ، ،اعلیٰ حضرت مولانا و سیدنا و مرشدنا مولوی مفتی شاہ احمد رضا خاں صاحب برد اللہ مضعجہ و نور اللہ مرقدہ ہیں۔
اس دولت کبریٰ سے مالامال ہونے کا مختصر حال یہ ہے کہ قلب حزیں میں مدت دراز سے یہ خیال نہایت استحکام کے ساتھ تھا کہ جب تک مرشد کامل جامع الفضائل نہ ملے گا بیعت نہ کرونگا۔ مثل مشہور ہے’’ جو یندہ یابندہ‘‘ طلب صادق درکار پس یا ر آید در کنار۔ ناگاہ رسالہ ہادی دین و ملت، ماحی بدعت، تحفۂ حنفیہ، جو پٹنہ عظیم آباد سے ماہ بماہ باہتمام حامی سنت، ماحی بدعت جناب مولوی ابو المساکین محمد ضیاء الدین رضوی صاحب متوطن پیلی بھیت مدظلہ ہندوستان و غیر ہندوستان کو اپنے بحر فیض سیراب کرتا تھا نظر سے گزرا۔چونکہ رسالہ دین کا سچا خدمت گزار اور دلچسپ مضامین اور تحقیقات مذہبی کا خزانہ تھا، میں اس کو منگوانے لگا اور نہایت ذوق و شوق سے من اولہا الی آخر ہا اس کا مطالعہ کر کے اعلیٰ اعلیٰ مضامین سے مستفیض ہوتے رہتا تھا۔
 
اس رسالہ راہبر حق میں اس امام اہلسنت، خواص بحر حقیقت کی فضلیت و جلالت علوم دیکھتے دیکھتے دل نے کامل یقین دلایا کہ اس زمانے میں ایسا کامل مرشد ملنا حیطۂ امکان سے خارج ہے۔پس بخت خفتہ جاگا، طالع نے رہبری، مقدر نے یاوری کی ،فوراً چل دیا، مسافت دوردارز قطع کرکے بریلی شریف پہنچ کر حاضر دربار پر انوار و فیض بار ہوا، چہرۂ درخشاں پر نظر پڑتے ہی دل ایسا باغ باغ ہوا کہ پہلو میںسمائے نہیں سماتا تھا، اس وقت کی مسرت کا اندازہ کسی طور نہیں ہوسکتا،مدت دراز کی تمنا بر آئی، سالہا سال کی جیسی خواہش و آرزو تھی، اس سے بڑھ کر قادر بیچون نے نعمت عطا فرمائی، اسی روز اسی ساقیٔ بحر طریقت نے مخصوص توجہ کے ساتھ جام بیعت سے سرشار فرمایا اور اپنا متوالا بنایا، اس کے بعد ہی جملہ سلاسل قادریہ چشتیہ سہروردیہ اور نقشبندیہ کی خلافت کا تاج اس گدا کے سر پر رکھا، انعامات و احسانات و الطاف اس قدر فرمائے جو بیان میں نہیں آسکتے، بوقت رخصت پورا لباس اطہر جو جسم شریف سے شرافت کئے ہوئے تھا ،عنایت فرمایا۔یعنی عمامہ شریف، کرتا، انگرکھا، پائجامہ، جن میںکا ہر ایک بزرگی و برکت سے بھرا ہوا تھا۔چونکہ چاروں سلاسل کی خلافت عطا فرمائی گئی، لہذا چار ہی لباس فاخرہ سے بخشی گئیں۔خلافت نامہ فقیر کی نسبت جو کچھ اس شاہ عالی نے اپنا خیال کرامت مآ ل فرمایا اور جن جن القاب کریمہ سے حقیر کو نوازا ان کا شکریہ بھی ادا نہیں ہوسکتا۔والحمدللہ الواھب الکریم ‘‘ 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
بملاحظہ مولانا المکرم ذی المجد و الکرم حامی سنن، ماحی فتن، مولانا مولوی محمود جان دام ظلھم ،السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!
سلیمان سیٹھ عثمانی صاحب سکرانی تشریف لائے، مگر ایسے وقت میں کہ میں بہت علیل ہوں، میں ان کی خاطر کچھ نہیں کرسکا، ساڑھے چار مہینے کے قریب ہوئے کہ آنکھ دکھنے ہونے کو آتی تھی، جب آج تک لکھنے پڑھنے قابل نہیں، مسائل سنتا جواب لکھوا دیتا، بارہویں کی شام سے علالت شدیدہ لاحق ہوئی،ایسی کبھی نہیں ہوئی، یہاں تک کہ میں وصیت نامہ لکھ دیا کہ اس کے بعد مولیٰ تعالیٰ نے اس بلائے شدید سے نجات بخشی، مگر بقیہ مرض اب تک ہے، اور ضعف اس قدر شدید ہے کہ مسجد جانے میں تمام بدن میں درد ہونے لگتا ہے۔ دعا کا حاجت مند ہوں۔آپ کے اور آپ کے گھر کے لئے دعا کرتا ہوں۔
بھائی سلیمان نے مجھ سے تعویذ مانگا تھا ، میں آج کل لکھ نہیں سکتا،لہذا سب سے بہتر ان کی خاطر ہی میری سمجھ میںآ ّئی کہ خاص اپنے لئے جو عظیم تعویذ ۷۸۴۰ خانے کا تیار کیا تھا ان کی نذر کروں،زندگی اگر باقی ہے تو اپنے لئے اور تیار کرلیا جائے گا،اس تعویذ کے منافع وسعت رزق و بلندی مرتبہ و استقامت دین حق و رحمت الٰہی ہیں۔میں نے بھائی سلیمان صاحب کو وہ چیز دی جو عمر بھر میں صرف اپنے لئے تیار کی تھی،آپ کے فرمانے کی اسی قدر تعمیل کرسکا۔
بھائی مولوی غلام مصطفیٰ صاحب بخیر و عافیت ہیں،اپنے یہاں کی خیریت سے مطلع فرمائے، آپ کی زیارت برسوں میںہواکرتی ہے، اور میں کثیر الاشغال ، جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ’’ قصیدۃ الاستمداد‘‘ کے آخر میں احباب حامیان سنت کے اسما گنائے، ان میں آپ کا نام نامی کہ سونے کے حرفوں میں لکھنے کا تھا سہو ہوگیا،طبع کے بعد یاد آیا، جس کا اب تک افسوس ہے، خیریت سے اطلاع بخشئے، سب احباب کو سلام۔والسلام مع الاکرام
فقیر احمد رضا قادری عفی عنہ
۴؍ ربیع الآخر ۱۳۳۹ھ
( مکتوبات  امام احمدرضا بریلو ی ص:۲۶۔۔ذکر رضاص:۴۱)
مکتوبات گرامی سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب سیٹھ سلیمان صاحب حضرت مولانا محمود جان صاحب کے اہل تعلق میں سے تھے، اور اعلیٰ حضرت کے لئے ان کا خط لے کر آئے تھے، سیٹھ صاحب پر یہ عظیم ترین نوازش و مہربانی اور قدر و منزلت کا ثمرہ تھی جو حضرت مولانا کو اعلیٰ حضرت کی بارگاہ سے حاصل تھی۔
سیدنا اعلیٰ حضرت نے اپنے مکتوب کریمانہ میں جس سہو کا ذکر فرمایا ہے، حضرت مولانا محمود جان صاحب نے اس تعلق سے بڑی عمدہ و نفیس بات تحریرفرمائی ہے،اور اس سہو کو اپنے لئے موجب عزت و کرامت اور باعث فرح و انبساط قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:۔
’’ قصیدہ الاستمداد کے آخر میں حضور جو اپنے خلفا کے اسماء شمار فرمائے ہیں،ان میں اس فقیر کا نام رہ گیا، جس کے بارے میں اپ نے ایک  مکرمت نامہ میں جو وصال سے نو دس مہینے قبل بندہ کے نام ارسال کیا، یہ رقم فرمایا کہ ’’ سہواً طبع ہونے سے رہ گیا‘‘ فقیر کہتا ہے کہ یہ سہوا حکمت سے بھرا ہوا تھا کہ اس میں عزت فرمائی و قدر افزائی بہ نسبت طبع ہوجانے کے ہزاروں درجہ بڑھی ہوتی ہے۔اس سہو کوجن الفاظ زریں میں تحریر کیا گیا ہےان کا ایک ایک لفظ میرے لئے گوہر بے بہا ہے۔فالحمد للہ علی اعزازہ و انعامہ و اکرامہ و احسانہ‘‘(ذکر رضاص:۴۱)
سرکار اعلیٰ حضرت ،حضرت مولانا محمود جان علیہ الرحمہ کو خلافت نامے اور مکتوب گرامی میں مندرجہ ذیل فضائل جلیلہ اور القاب -عظیمہ سے یاد کیا ہے۔ فاضل کامل، جامع الفضائل، قاطع الرذائل، ماحی بدعت، ہادی مہدی، رشید مہتدی، ذی المجد و الکرم، حامی السنن، ماحی الفتن، سرکار اعلیٰ حضرت نے کسی شخص کے لئے جو تعریفی کلمات یا خطابات ارشاد فرمائے ہیں،وہ یونہی نہیں ہوتے بلکہ حقیقت و واقعیت پر مبنی ہوتے ہیں۔مثلاً آپ نے حضرت محدث سورتی کے لئے ’’ الاسد الاسد الاشد‘‘ حضرت قاضی عبد الوحید صاحب فردوسی عظیم آبادی کے لئے ’’ ندوہ شکن ندوی فگن‘‘حضرت مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی کے لئے ’’ شیر بیشۂ اہلسنت‘‘ حضرت حاجی محمد لعل قادری برکاتی رضوی مدراسی کلکتوی کے لئے ’’ حامیٔ سنت ماحی بدعت‘‘ اور حضرت مولانا عبد القادر صاحب بدایونی کے لئے ’’ تاج الفحول‘‘ کا خطاب تجویز فرمایا( فتاویٰ رضویہ ششم  ص: ۳۶۶)تو بلا شبہ یہ حضرات ان خطابات کے اہل اور ان اوصاف کے حامل تھے۔ رحمۃ اللہ علیھم اجمعین۔
لہذا مذکورہ تعریفی الفاظ و القاب حضرت مولانا محمود جان علیہ الرحمہ کی عظمت شان، علمی جلالت و رسوخ، احیائے سنت و اماتت بدعت کے لئے آپ کی عظیم خدمات اور آپ کا تقویٰ و طہارت ثابت کرتے ہیں،نیز خلافت نامے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ سرکار اعلیٰ حضرت کے معتمد علیہ ہیں،وہ آپ نے فرمایا: تمام برادران اہلسنت اس فقیر کے محب و ہم مذہب ہیں،بعونہ تعالیٰ مولانا کے مسائل و ہدایات و ارشادات پر بےتامل عمل فرمائیں۔باذنہ تعالیٰ ان کو ہادی مہدی و رشید مہتدی پائینگے۔سیدنا اعلیٰ حضرت کا مولانا موصوف کے لئے یہ لکھنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ آپ کی عظمت و فضیلت کاعظیم الشان اعلان ہے۔
تصنیفات و تالیفات:
حضرت مولانا محمود جان صاحب علیہ الرحمہ نے بذریعہ تحریر بھی اسلام کی خدمت فرمائی ۔ اور احقاق حق و ابطال باطل فرمایا۔آپ کی ایک عظیم الشان تصنیف ’’ ایضاح سنت‘‘ ہے، جو ۱۳۳۱ ھ میں طبع ہو کر شائع ہوئی، اس کتاب کے ملنے کا ایک پتہ ’’ جماعت رضائے مصطفیٰ ،محلہ سوداگران،بریلی شریف‘‘ بھی تھا،اس کتاب پرا۶؍ مفتیان عظام و علمائے کرام کی تصدیقات  ہیں،کتاب میں جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے ،ان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں،جن سے کتاب کی اہمیت ووقعت کاتعین ہوتا ہے۔
’’ حبیب خدا  ﷺ کو از اول تا آخر ہر چیز کا علم تھا، غیوب خمسہ کے علم کی بحث ،جب غیوب خمسہ کا علم آپ کو عطا ہوا تو بعض اشیاء کے متعلق لا ادری کیوں فرمایا گیا،اس کا جواب ،روج ارواح اور خوابوں کاحال ’’ غفرلہ ماتقدم من ذ نبہ و ما تاخر‘‘ کا معنیٰ ، تقلید کا معنیٰ اور اس کا وجوب ، حضور نے اپنے رب کوچشم قلب سے دیکھا یاچشم سر سے دیکھا؟ صالحین کی قبروں پر قبہ بنانے اور چادر چڑھانے کا جواز ،تحقیق مسئلہ مفقود‘‘
کتاب ذکر رضا:
آپ نے ۱۳۴۰ھ میں اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد آپ کا منظوم تذکرہ لکھا ،جس کا سن عیسوی کے اعتبار سے تاریخی نام ’’ ذکر رضا‘‘ (۱۹۲۱ء)ہے اور یہی نام مشہور ہے۔اور سن ہجری کے اعتبار سے خلاصۂ سوانح عمری عالم وحید (۱۳۴۰ھ) ہے۔اس کتاب میں حضرت مصنف علیہ الرحمہ نے نظم میں اپنے مرید ہونے اور خلافت پانے کا حال لکھا ہے۔ خلافت نامہ اور اپنے نام اعلیٰ حضرت کا ایک خط بھی نقل کیا ہے، آخر میں خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا ابو المساکین شاہ ضیاء الدین پیلی بھیتی علیہ الرحمہ نے حضرت مصنف کے مختصر احوال لکھے ہیں کہ حو الہ جات میں گزرچکا ہے۔حسام الحرمین پر تصد یق:الصوارم الہندیہ میں حسام الحرمین پر حضرت مولانا محمود جان قادری رضوی جام جودھپوری علیہ الرحمہ کی بھی تصدیق ہے۔
الجواب : و منہ ہدایۃ الحق و الصواب۔ بے شک مرزا غلام احمد قادیانی و قاسم نانوتوی و خلیل احمد انبیٹھی و اشرف علی تھانوی و رشید احمد گنگوہی اپنے اقوال کفریہ و عقائد مردودہ کے سبب کافر و مرتد ہیں۔جو شخص ان کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر اس کے بعد بھی ان کو مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے پر شک کرے یا ان کو کافر کہنے میں توقف کرے بلا ریب وہ بھی کافر و مرتد ہے۔ان لوگوں کے متعلق مکہ معظمہ و مدینہ منورہ زادھم اللہ تعالیٰ شرفاً وتکریماکے مفتیان کرام و فضلائے عظام نے جو حکم صادر فرمایا، جس کا مجموعہ’’ حسام الحرمین ‘‘کے نام سے طبع ہو کر شائع ہوگیا ہے، حق ہے۔ اور تمام امت مصطفویہ علی صا حبہا الصلاۃ و السلام پر اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا فرض قطعی ہے۔
وصال مبارک :
آپ کا انتقال ۳؍ صفر المظفر ۱۳۷۵ھ کو جام جودھپور میں ہوا، اہل عقیدت نے نماز جنازہ میںکثرت سے شرکت کی، عرس پاک میں کثرت سے معتقدین ہر سال شرکت کرتے ہیں اورحصول ثوا ب سے مالا مال ہوتے ہیں۔
( سالنامہ تجلیات رضا بریلی شریف،۲۰۰۵ء۔۔ص: ۱۵۸ تا ۱۶۴ )
٭٭٭
Menu