بحر العلوم مفتی سید افضل حسین مونگیری قادری رضوی علیہ الرحمہ


حضرت بحرالعلوم کی ولادت صوبہ بہار ضلع مونگیر موضع بواناکے سادات گھرانے میں ہوئی،

بشارت:

نوجوان محقق مولانا مفتی غلام آسی مونس پورنوی نے اپنے ایک مضمون میں اس کا ذکر کیا کہ ”ولادت سے ایک سال قبل ایک بزرگ علامہ حفیظ ﷲ حسینی علیہ الرحمہ نے آپ کے والد سے مل کر آپ کی آمد کا مژدہ سنایا تھا اور افضل حسین نام تجویز فرمایا تھا“

تاریخ ولادت:

تاریخ ولادت 14رمضان 1337ھ مطابق 13جون1919عیسوی بتائی جاتی ہے،

تعلیمی مراحل:

ابتدائی تعلیم بہار کی قدیم دینی درسگاہ مدرسہ فیض الغرباءآرہ بہار متوسطات مدرسہ شمس العلوم بدایوں اور مرکز عقیدت بریلی شریف جامعہ رضویہ منظر اسلام حدیث وتفسیر کی تعلیم مکمل فرمائی، شعبان 1359ھ ستمبر 1940عیسوی محض 21سال کی عمر میں سند فراغت سے نوازے گیے، منقولات و معقولات کے اس قدر جامع ہوئے کہ آپ کے عہد کے علماء و مشائخ معترف ومداح رہے، اور ان کی نظروں میں بحرالعلوم ٹھرے،حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ نے فتویٰ نویسی کا کامل شعور عطا فرمایا نیز اپنی خلافت اجازت سے بھی نوازا،

مشاہیر اساتذہ:

حضور مفتی اعظم ہند کے علاوہ شیخ المحدثین مفتی نورالحسین مجددی، محدث بہار علامہ احسان علی مظفر پوری، مفتی ابرار حسین صدیقی، مفتی ابراہیم سمستی پوری، مولانا ابراہیم آروی،، مولانا اسماعیل آروی، وغیرہ سے آپ نے استفادہ فرمایا،

تدریس وافتاء:
مدرسہ احسن المدارس قدیم کانپور بحیثیت صدرمدرس(کچھ عرصہ) جامعہ رضویہ مظہر اسلام بریلی شریف (چند سال) جامعہ رضویہ منظر اسلام میں شیخ الحدیث وصدر مفتی کی حیثیت سے مسلسل 18سال مامور رہے،

مفتی محمود رفاقتی صاحب تذکرہ علمائے اہلسنت میں لکھتے ہیں: ”کہ 1388ھ شوال المکرم کو مع اہل وعیال پاکستان ہجرت فرماگیے“

پاکستان کے ضلع گجرات میں ایک سال اور پھر مفتی معین الدین شافعی صاحب کی خواہش ہر جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد درمیان میں کچھ عرصہ جامعہ رضویہ سکھر پھر مستقل جامعہ قادریہ رضویہ فیصل آباد میں شیخ الحدیث وصدر شعبہ افتاء کی حیثیت سے بحسن وخوبی اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے،

تصنیف وتالیف:

حضرت بحرالعلوم علیہ الرحمہ نے سو کے قریب اور پچاس سے زائد کتب ورسائل تحریر فرمائے، آپ کی اکثر کتابوں کا تعلق درسیات سے ہے، اردو عربی زبان میں جو شاہکار تصنیفی خدمات آپ نے انجام دی ہیں ناقابل فراموش ہیں،ماضی قریب میں ہمارے یہاں درسیات پر میں جو کام ہونا چاہیئے تھا کماحقہ نہیں ہوسکا، جبکہ درسگاہ میں پڑھائی جانے والی اکثر کتب ہمارے ہی بزرگوں کی تحریر کردہ ہیں،

لیکن سرمایہ کی قلت اور ہماری بے توجہی کے سبب بد عقیدوں نے سرقہ کیا اور ہماری کتب وحواشی کو اپنی جانب منسوب کرنے کی ناپاک کوشش کی، خیر اب چند سالوں سے  اس سلسلے کی کئی کڑیاں منظرعام پر آکے داد و تحسین وصول کرچکی ہیں۔ بہرحال مفتی سید افضل حسین علیہ الرحمہ نے بڑے علمی قلمی یادگار چھوڑے ہیں،علامہ مفتی صدیق ہزاروی نے تذکرہ علمائے اہلسنت میں مندرجہ ذیل کتب شمار کرائے ہیں!

زبدة التوقیت علم توقیت، توضیح الافلاک علم ہیئت، معیار التقویم علم توقیت، نعیار الاوقات علم توقیت، مساحة الدائرة ، البراہین الہندسیہ علی مقادیر الخطوط العشرہ،مصباح السلم شرح سلم، گھڑیاں اور ان کے اوقات کی کہانی، معین البیب فی حل شرح التہذیب، مفتاح التہزیب، اسلعی المشکور فی بحث الشک و المشہور، تعلیقات علی القطبی، عمدةالفرائض فقہ، مرقاة الفرائض فقہ، عید میلاد اور چراغاں، وصیت کے مسائل عسیرہ کا حل بطریق جبر و مقابلہ، رد خلافت یزید، منظر الفتاویٰ، مصباح المنطق، زبدةالقواعد، وقایةالنحو فی ہدایة، الجواہر الصافیہ من من فوائد الکافیہ، منار التوقیت، میزان الدائر و البسیر، ہدایةالحکمة،
ہدایةالمنطق، توضیح الحجة الاولی، التوضیح المنیر فی مبحث الثناة بالتكرير، تکمیل الصرف،ہدایةالصرفدراسة النحو، ہدایة النحو،البیان اسلامی فی شرح ديباجة الجامي، التوضیح المقبول فی في الحاصل و المحصول، القول الاسلم فی مبحث الحسن و القبح من السلم، ترجمہ عبد الرسول شرح مئة عامل منظوم، صبح و شفق،
احس الفتاوی، احسن الاحادیث فی تعد و التلامیذ،

مندرجہ بالا کتب ورسائل اس کا کھلا ثبوت ہے کہ آپ کو یونہی بحرالعلوم نہیں کہا جاتا تھا یا کہا جاتا ہے، بلکہ اس میں صداقت تھی اور ہے، علم نحو صرف بلاغت منطق فلسفہ معانی بیان خصوصا تفقہ فی الدین اور علم توقیت وہئیت میں تو آپ کا کوئی جواب ہی نہیں تھا،

آپ کے شاگرد شہزادہ قطب پورنیہ حضرت مفتی ہاشم یوسفی پورنوی علیہ الرحمہ نے بڑے خوبصورت لب ولہجہ میں آپ کی سیرت وصورت کی تصویر کشی فرمائی ہے،ملاحظہ کریں:

”میانہ قد گول چہرہ گھنی داڑھی آنکھوں پر موٹے فریم کا چشمہ اوقات درسگاہ میں سر پر عمامہ اکثر وبیشتر کھتی رنگ کا کرتا اور سفید پائجامہ میں ملبوس علم وفن کا یہ پیکر اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود درسگاہ میں پڑھائے جانے والے جملہ فنون پر اردو اور عربی زبان میں تحقیقات انیق پر مشتمل ایک گراں قدر کتاب ہمیں دیتے ہوئے نظر آرہے تھے“

حضرت یوسفی صاحب کے دعوے پر دلیل مندرجہ بالا کتابیں ہیں،

ان کتابوں کو ہمیں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری پوری نسل استفادہ کرسکے،

تلامذہ:

بحرالعلوم کے بحر نا پیدا کنار میں ہزاروں علماء نے غواصی کی، یقیناً ان میں ایسے بھی رہے ہونگے کہ جو ڈوبے تو کچھ نہیں تھے اور ڈوب کر اٹھے تو علم وفن فکر ونظر کے زاویے کھلتے چلے گیے، اور اپنے زمانے میں خود بھی روشن ہوئے اور امت کو بھی روشن کر گیے،

ہند وپاک کے چند مشاہیر تلامذہ:

حضرت علامہ مفتی سید عارف نانپاروی، ریحان ملت حضرت علامہ ریحان رضا خان، تاج الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد اختر رضا خان ازہری، حضرت علامہ محمد ابراہیم خوشتر صدیقی، امام علم وفن خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی ابو الخیر محمد حسین قادری ،امام النحو مفتی بلال احمد پورنوی، شمس العلماء مفتی غلام مجتبیٰ اشرفی،حضرت پروفیسر جلال الدین احمد نوری، علامہ عبدالرزاق بھترالوی،عمدةالمحققین مولانا بدر الدین احمد رضوی گورکھپوری،حضرت مفتی محمد احمد جہانگیر خان رضوی، حضرت مولانا عبد اللطیف غزنوی، مفتی حسن منظر قدیری کشنگنجوی، مفتی ہاشم یوسفی پورنوی، شیخ الحدیث مفتی غلام سرور رضوی، علامہ نعیم ﷲ خان رضوی، علامہ صابر القادری نسیم بستوی، علامہ جلال الدین احمد نوری، علامہ محمود احمد قادری، حضرت شیر علی قندہاری رحمھم ﷲ علیھم اجمعین وغیرہ

تاریخ وصال:

آہ! ابھی آپ کے پیر ومرشد حضور مفتی اعظم ہند کے وصال کو ایک سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے، کہ مرید صادق جلیل القدر خلیفہ حضور مفتی اعظم ہند کا انتخاب،خانوادہ اہلبیت کا گل سر سبد، رضوی چمن کا شگفتہ گلاب، علماء کی انجمن کا آفتاب،بزم دانش کا ماہتاب، علوم وفنون کے بحر ذخار، 20رجب المرجب 1402 ھ مطابق 1982عیسوی مفتی صاحب علیہ الرحمہ بھی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے، *اناللہ واناالیہ رٰجعون*

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاونگا
گر ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاونگا

آج بھی رمق شفق باقی ہے ان شاء ﷲ قیامت تک ان کے علم وعرفان کا سمندر ان کے خلفاء تلامذہ اور ان کی تحریر کردہ نقوش کے ذریعہ جاری وساری رہیگا، اور اس سے قیامت تک علم وفضل کے چشمے پھوٹتے رہینگے،ان شاء ﷲ عزوجل

صابررضامحب القادری نعیمی

Menu