رئیس المحدثین حضرت مولانا مبین الدین امروہوی علیہ الرحمہ
امام المفسرين بقيۃ السلف حجۃ الخلف غزالی زمان رازی دوراں حضرت علامہ شاہ الحاج مبین الدین صاحب امروہوی علیہ الرحمہ –
حافظ قرآن، امرود ہر ضلع مراد آباد کے ساکن تھے۔ دارالعلوم حافظیہ سعید یہ ،دادون، ضلع علی گڑھ حضرت صدر الشریعہ مولانا شاہ محمد امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ سے اخذ علوم کیا ۔ خداوند قدوس نے حضرت کو علم ظاہر و باطن سے ایسا سر فراز فرمایا کہ وہ موجودہ دور میں اپنی مثال آپ تھے ۔ مدرسہ اسلامیہ میرٹھ اور دار العلوم شاہ عالم احمد آباد میں مدرس رہے۔ مرجع افاضل مولانا شاہ مصطفی رضا بریلوی مفتی اعظم ہند نے اپنے مدرسہ جامعہ مظہر اسلام کے لئے بعہدۂ صدارت المدرسین آپ کا انتخاب کیا ۔ بریلی شریف مظہر اسلام میں آپ 1959ء سے علم و عرفاں کا دریا بہاتے رہے اور تشنگان علوم کو سیراب فرماتے رہے ۔ مرشد کامل حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کے زیرسایہ رہ کر انھوں نے ایسا روحانی فیض حاصل کیا تھاکہ جس سے ان کی دینوی حیات تو روشن و تابناک تھی ہی ان کی اخروی زندگی بھی تا بندہ درخشندہ رہے گی ۔سیدی و مرشدی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ سے ان کو والہانہ عقیدت و محبت تھی اسی وجہ سے تو آپ کو مفتی اعظم ہند نے آپ کو اپنا خلیفہ بنالیا۔
زندگی کے آخری دور میں آپنے الجامعۃ النعیمیہ، مراد آباد کو منتخب فرمالیا۔ اور آخر دقت تک یہیں رہ کر فیض کا دریا بہاتے رہے ۔ تدریسی مشاغل کے علاوہ یہاں آپ نے تصنیفی کام بھی انجام دیا۔ اور اپنے پیچھے قوم وملت کیلئے ایسے انمٹ نقوش چھوڑے جو آج ملت اسلامیہ کے لئے مشعل راہ ہیں۔1959ء میں حج و زیارت سے مشرف ہوئے ۔
تصنیفی خدمات:
سب سے پہلے آپ نے ایک پادری کے رد میں” افضل المرسلین“ تصنیف فرمائی جو آپ کی تحقیق وتدقیق علم و فضل کا انمول شاہ کار ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و لہ وسلم کی نبیاء والمرسلین پر فضیلت مطلقہ کے اثبات میں ایک کتاب اعلی درجہ کی تحقیق ہے۔ آپ نے پادری کی جہالت و گمراہی کو اس کتاب میں بے نقاب کیا ہے ، اور یہ واضح کر دیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل بتانا پھر اس کو قرآنی آیات سے ثابت کرنا ، آیات قرآنیہ سے نا واقفیت پر مبنی ہے اور پھر بے شمار آیات سے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا افضل المرسلین ہونا ثابت فرمایا ہے ۔
دوسری کتاب ” شہید معظم “ ہے جس میں آپ نے انتہائی محققانہ و عالمانہ انداز میں بہت ہی مختصر طور پر ایک دیو بندی یزیدی کی کتاب” محرم“ کا جواب تحریر فرمایا ہے۔ جس میں دلائل و براہین اور تاریخی حقائق سے ثابت فرمایا کہ امام حسین شہزادہ گل گوں قبارضی اللہ عنہ حق پر تھے۔ یزید اور اس کے حواریوں کو حق پر ماننا غلط ،بے بنیاد، جہالت وبکو اس ہے اور ایسا لکھنے والایزیدی ہے۔ آخری ایام میں آپ داخل درس نظامیہ تفسیر کی نہایت معرکہ الاآراء کتاب” بیضاوی شریف“ کی شرح تصنیف کر رہے تھے ۔ یہ سلسلہ سورۂ فاتحہ کی تفسیر کے اختتام تک ہی پہنچا کہ زندگی نے وفا نہ کیا اور فرشتہ اجل حاضر ہوا ۔
۲۵ جمادی الآخرہ 1408ھ مطابق 14 فروردی1988ء بروز اتوار آپ کا وصال ہو گیا۔ نماز جنازہ بر اور زادۂ حضور مفتی اعظم ہند حضرت علامہ الحاج تحسین رضا خاں صاحب قبلہ دامت برکا تہم القدسیہ شیخ الحدیث جامعہ نور یہ بریلی شریف نے پڑھائی۔ ہزاروں عوام اور سیکڑوں خواص نے نماز جنازہ میں شرکت کی ۔
(بقلم مولوی محمد حسین جامعہ امجدیہ رضویہ ۔۔۔ماخوذ: فقیہ اعظم حضورصدرالشریعہ ،حیات و خدمات)