مجاہد ملت حضرت علامہ حبیب الرحمٰن آڑیسوی علیہ الرحمہ


رئیس التارکین مجاہد ملت حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن ہاشمی عباسی رضوی قدس سرہٗ قصبہ دھام نگر بالیسر صوبۂ اڑیسہ میں بتاریخ ۸؍محرم ۱۳۲۲ھ بروز شنبہ بوقت صبح صادق پیدا ہوئے۔ مجاہد ملت علیہ الرحمۃ کا نسبی علاقہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عم رسول انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم سے ہے۔

حصول علوم اسلامیہ

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد کی خواہش کے مطابق دینی تعلیم کے لیے مامور کیا گیا۔ اور ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گھر پر ہی جاری رہا ۔

ماہنامہ تاجدار کائنات رام پور ص ۱۲، فروری ۱۹۸۲ء

۱۳۴۱ھ میں مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں داخلہ لیا۔ چند سال وہاں تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ سبحانیہ کے اساتذہ اور مہتمم مدرسہ سے علوم و فنون حاصل کیے۔ لیکن وہاں کے اساتذۂ کرام مجاہد ملت کے ذہن وصلاحیت کے مطابق زیادہ بافیض ثابت نہ ہوسکے۔ اس بناء پر مجاہد ملت زیادہ دنوں تک وہاں نہ رہ کر اجمیر شریف جامعہ عثمانیہ میں حاجر ہوئے، اساتذۂ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ سے اکتساب کیا۔ اور علم کی تکمیل کی اپنی علمی پیاس بجھاکر جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں صدر الافاضل حضرت مولانا الشاہ نعیم الدین رضوی مراد آبادی قدس سرہٗ کی خدمت گرامی مین حاضری دی اور علوم اکتساب کیا، پھر مراد آباد سے سلسلۂ تعلیم ختم کر کے الہ آباد تشریف لائے یہاں مجاہد ملت کا بحیثیت مدرس اول تقرر ک ہوا۔ اور بہت سےشائقینعلوم نے آپ سے کسب فیض کیا۔

اساتذہ ٔکرام

۱۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ

۲۔ اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری علیہ الرحمہ (متوفی ۱۲۳۶ھ)

۳۔صدر الافاضل حضرت مولانا الشاہ نعیم الدین رضوی مرا آبادی علیہ الرحمہ

۴۔ ماہر علم ادب حضرت مولانا سید حامد حسین علیہ الرحمہ

۵۔ ماہر علم معقولات حضرت مولانا عبدالحئی سرحدی علیہ الرحمہ

۶۔ حضرت مولانا ابو الکافی علیہ الرحمۃ مہتمم مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد

۷۔ حضرت مولانا ظہور حسام مانکپوری علیہ الرحمہ

عقد مسنون

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ کا عقد مسنون دوران تعلیم ۱۳۴۰ھ ۹؍رجب المرجب کو ہوا۔ بعدہٗ حج وزیارت کے لیے تشریف لے گئے۔

بیعت وخلافت

مجاہد ملت علیہ الرحمہ کو شرف بیعت واجازت پہلے حضرت شیخ مخدوم الشاہ علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ سے حاسل ہوئی۔ اور شہزادۂ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا قادری بریلوی قدس سرہٗ نے بھی خلافت واجازت سے سر فراز فرمایا ۔

 بروایت حضرت مولانا محمد انور علی رضوی بہرائچی رضوی، اُستاد دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف

پھر مزید تاجدار اہلسنت حضور مفتئ اعظم حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری قادری بریلوی قدس سرہٗ نے اجازت وخلافت عنایت فرمائی۔ حضرت مجاہد ملت سلسلہ قادریہ، برکاتیہ، رضویہ میں لوگوں کو بیعت فرماتے تھے ۔

 (الف)ماہنامہ تاجدار کائنات رام پور(ب) محمود احمد قادری مولانا: تذکرہ علمائے اہلسنت، ص۸۲

ملک کے طول وعرض میں لاکھوں مریدین و معتقدین مجاہد ملت کے دامن کرم سے وابستہ ہیں۔

حضور مفتی اعظم کے مجدد ہونے پر مجاہد ملت کی تائید

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ حضور مفتی اعظم قدس سرہٗ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ فرمایا۔

‘‘سرکار مفتی اعظم ہند قبلہ ادام اللہ تعالیٰ ظلہٗ النورانی تو اپنے زمانے کے شہنشاہِ اولیاء ہیں۔ فقیران کا کفش بردار ہے یہ ۱۳۹۹ھ چل رہی ہے۔ اگر انہوں نے پندرہویں صدی پائی تو وہ بے شک پندرہویں صدی کے مجدد ہیں ۔

امانت رسول نوری، قادری: ‘‘پندرہویں صدی کے مجدد ص ۱۶، ۱۷

مجاہد تبلیغ حق

حضرت مجاہد ملت ایک عرصہد راز تک مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد کے صدر مدرس رہے بعدہٗ آپ نے تبلیغ حق اختیار کی، مختلف دینی خدمات انجام دیں۔ اسلامی تحریکات سے وابسگتی اور گمراہ فرقوں کی سر کو بی مجاہد ملت کا محبوب مشغلہ تھا۔ ملک بھر میں آپ نے دینی ادارے اور انجمنیں قائم کرنے کا ایک عظیم سلسلہ شروع کیا۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے مجاہد ملت کو دولت علم و عمل سے نوازا تھا وہیں دینوی مال و متاع سے بھی مالا مال کیا تھا۔ آپ کو دیکھ کر ان متقدمین کی یاد تازاہ ہوتی ہے جنہوں نے رئیسانہ زندگی ترک کر کے فقیرانہ فاقہ کو پسند فرمایا اور نفس کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا۔ مجاہد ملت نے کئی دیوبندیوں سے مناظرہ بھی کیا اور اس میں فتح و کامرانی ہوئی۔

چند یادگاریں

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے دین کی خدمت اور اہل باطل کی سرکوبی کے لیے کئی ادارے قائم فرمائے۔ مندرجہ ذیل ادارے آپ کی یادگار ہیں۔

۱۔ جامعہ حبیبہ اترسؤیا الٰہ آباد

۲۔ مسجد اعظم الٰہ آباد اس جامعہ سے متعلق ہے، جو اہل ہنود کے محلے میں واقع ہے۔ اس مسجد کے سلسلے میں کئی بار جیل کی تکلیفیں برداشت کیں۔

۳۔ مکتبہ الحبیب الٰہ آباد کے نام سے عظیم اشاعتی ادارہ کو بھی قائم فرمایا جو روز بروزترقی پذیر ہے۔

۴۔ حبیب المطابع پریس  بھی جدید تقاضوں کے مطابق اہلسنت کی اشاعت کے لیے قائم فرمایا۔

۵۔ مدرسہ عربیہ غوث اعظم پانچپاڑہ کلکتہ اسی ادارے کے تخت اخبار نوائے حبیب بھی نکل رہا ہے۔

۶۔ اسلامی مرکز رانچی، جس کو بجا طور پر آندھیوں کی زد پر عشق کا چراغ کہا جاسکتا ہے اس میں م جاہد ملت نے بیس ہزار روپیہ عطا فرمایا۔

۷۔ تحریک خاکسارانِ حق، یہ ایک تحریک ہے جر ہندوستان کے اجلاسوں، کانفرنسوں کو اہتمام اور شر پسندوں کی شرارت کو دفع کرنے کے لیے قائم فرمائی ہے۔

۸۔ مدرسہ قادریہ حبیبہ بھدرک اُڑیسہ

۹۔ مدرسہ قاسمیہ دھامنگر شریف صوبہ اُڑیسہ

۱۰۔ مدرسہ حبیبیہ سکڑا راد کیلا اُڑیسہ

۱۱۔ مدرسہ غوثیہ حنفیہ بنارس

یہ قابل ذکر ادارےہیں ان کے علاوہ بھی م جاہد ملت کی یادگار ہیں۔ اور یہ سب ادارے اپنے استحکام کے لحاظ سے مانند پہاڑ ہیں۔

رئیس التارکین کہنے کی وجہ تسمیہ

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے ریاست وامارت، اور علم وفضل دونوں طرح کی نعمتوں سے حصہ پایا تھا۔ مگر علم و فضل اور عشق وعرفان کو دنیاوی امارت وریاست پر ہمیشہ غالب رکھا۔ آپ کی زندگی کا سر سری مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحائف ونذر کی صورت میں جو کچھ مجاہد ملت کے پاس ایا اس سب کو اللہ کے راستے میں بے دریغ خرچ فرمادیا کرتے تھے بلکہ مزید گھر سے بھی خرچ فرماتے۔ اسی وجہ سے مجاہد ملت کو زمانے کا رئیس التارکین اور رئیس اعظم اُریسہ کہا جانےلگا۔ جو صرف ایک تعریفی خطاب نہ تھا۔ بلکہ آپ اس کے صحیح مصداق تھے ایک مرتبہ آپ نے پٹنہ میں ہونے والی کانفرنس میں اپنی اہلیہ محترمہ کے تمام زیورات کو لاکر پیش کردیا۔ منتظمین کانفرنس نے جب ان زیورات کو قبول نہ کیا تو ارشاد فرمایا کہ:

‘‘اب تو یہ گھر سے نکل چکا ہے واپس نہیں جا سکتا ہے’’

زیارت وحج

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے پوری زندگی میں متعدد بار کعبۃ المعظمہ اور مدینۃ المنورہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مجاہد ملت نے حضرت شریف حسین والی عرب رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں پہلا حج ادا کیا۔ اس کے بعد وہابی نجدی حکومت کے زمانے میں کئی بار حج ادا فرمائے۔

آخری حج چودہویں صدی ہجری کے اخیر میں ہوا۔ ۱۳۸۷ھ میں جو حج ادا فرمایا اس میں امامِ حرم کے پیچھے نماز نہ پڑھنے پر مباحثہ ہو۔۔۔۔ ۱۳۹۳ء میں حج کےموقع پر بھی ایسا ہی ہوا اور پولیس گرفتار کر کے قاضی کے پاس لے گئی اور نماز جماعت سے نہ پڑھنے پر مباحثہ ومکاملہ ہوا۔ جس میں مجاہد ملت کامیاب ہوئے ۔

عاشق الرحمٰن حبیبی، مولانا: ‘‘مجاہد ملت کا حرف حقانیت’’

ظلم وبربریت کی کہانی مجاہد ملت کی زبانی

۱۳۹۹ھ میں یہ وہابی نجدی عہد حکومت میں چوتھا حج تھا۔ اس میں ہونے والا واقعہ قید و بند اور مصائب وآلام کی صعوبتوں کو خود مجاہد ملت نے مختصر قلم بند فرمایا ہے تحریر فرماتے ہیں۔

میرے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد آٹھویں دن بعد نماز عشاء مواجہ شریف میں سلام کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ وہاں حضرت مولانا الحاج الشاہ سید حامد اشرف جیلانی رضوی مفتی مہار اشٹر سے ملاقات ہوئی۔ سلام عرض کرنے کے بعد جب ہم لوگ لوٹے، اصحاب صفہ کے چبوترے سے گزر چکے تھے۔ پیچھے سے ایک شخص نے آواز دی ‘‘مولانا او مولانا’’ ہم سب متوجہ ہوگئے۔ حضرت مولانا سعید اشرف جیلانی رضوی سے متوجہ ہوکر کہا۔

‘‘آپ پیر ہیں اپنے مریدوں کو منع نہیں کرتے یہ لوگ انسانوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔’’

اس پر میں نے کہا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا جائز ہے۔ اس نے کہا ‘‘قرآن میں ہے یا حدیث میں’’۔ تو میں نے کہا فقہ کی کتابوں میں جائز لکھا ہے۔ اس پر اس نے دھمکایا کہ ‘‘ہم اسے بند کریں گے’’ تو میں نےکہا بند کروگے دیکھا جائےگا۔ یہ کہہ کر ہم لوگ چلے آئے۔

پھر دوسرے دن نماز عشاء اپنی جماعت سے پڑھنے کے بعد جب میں وِتر پڑھنےکھڑا ہوا تو ویسے ہی ایک شخص آیا جو صورت میں غالباً ہندوستانی یا پاکستانی تھا۔ اس نے پوچھا کہ ‘‘تم دیر سے کیوں آئے تھے اس لیے جماعت کی؟ میں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے پوچھا کہ دیر سے آنے کی وجہ سے جماعت کیا یا ان اماموں کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں؟ میں نے کہا دونوں بات ہے۔ اس پر اس نے جاکر پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس مجھ کو گھسیٹ کر حرم کے کسی پولس افسر کے پاس لے گئی۔ اس سے گفتگو ہوئی میں نے وہاں بھی وہابی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز کہا تو اس نے مسجد نبوی شریف کےخطیب وامام اور قاضی القضاۃ شیخ عبد العزیز کے پاس بھیج دیا۔ اس نے پوچھا تم امام حرم کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے میں نےکہا نہیں۔ اس نےپوچھا کیوں نہیں پڑھتے میں نےکہا۔ اختلاف عقائد کی بناء پر، اس نے پوچھا،کیا اختلاف ہے۔ میں نےکہا ہم توسل بالانبیاء صلاۃ اللہ وسلامہٗ علیہم اجمعین کو جائز کہتے ہیں اور تم اسے (وسیلہ) شرک بتاتو ہو۔ لہٰذا تم میں شرک وعدم شرک کا فرق ہوگیا، فوراً اس نے کاتب (محرر) کو بلواکر کہا۔ اس کا بیان لکھو، اس نے میرا بیان لکھا۔ جب دستخط کرنےکے لیے قاضی القضاۃ عبدالعزیز نے سامنے رکھا تو میں نے کہا۔ مطلقاً امام حرم کے پیچھے نماز پڑھنے سے مجھے انکار نہیں ہے بلکہ حرم کا جو امام وہابی ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام سمجھتا ہوں۔۔۔۔ اس لیےمیرے بیان میں امام کے ساتھ لفظ وہابی کا اضافہ کیا جائے۔ تو اس نےکہا کہ ‘‘تم لفظ وہابی کا اضافہ کردو۔’’ میں نےکہا کہ تمہاری تحریر میں کیوں اضافہ کردوں تو قاضی عبدالعزیز نے اپنےہاتھ سےلفظ وہابی کا اضافہ کر کے اور میرے دستخط کراکےچھوٹے قاضی کےپاس بھیج دیا۔ رات زیادہ ہوگئی تھی وہ موجود نہ تھا۔

دوسرےدن بعد نماز عشاءچھوٹےقاضی کےپاس پیشی ہوئی اور اس قسم کی گفتگو اس سے بھی ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ وسیلہ کی کیادلیل ہے؟ میں نےکہا۔ وَابْتَغُوْ اِلَیْہِ الوَسِیلَۃ  تو اس نےکہا کہ اس سے توعمل صالح مراد ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ وہ بھی تو غیر اللہ ہے۔ اس نے دوسرا سوال کیا ہمارے پیچھے نماز نا جائز ہونے کی کیا وجہ ہے۔ میں نے جواب دیا کہ تم مکفر المسلمین ہو، سب مسلمانوں کو بلاوجہ کافر کہتے ہو۔ تمہارے قول کی بناء پر سلف سے لےکر خلف تک (یعنی) آدم علیہ السلام سے لیکر آج تک بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کا کافر ہونا لازم آتا ہے۔ مثلاً توسل انبیاء والمرسلین کو تم شرک کہتے ہو۔ حالانکہ خلف سے لیکر سلف سب اسی پر متفق ہیں اور اسی کے قائل ہیں۔ تمہارے قول کی بنا پر سب مشرک ٹھہرے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ جس کے قول سے سب مسلمانوں کا کافر ہونا لازم آئے وہ قول خود کفر ہے۔ لہٰذا تم پر کفر لازم آتا ہے ‘‘فقہا فرماتے ہیں جس کے قول کی بناء پر قائل پر کفر لازم آئے اس کے پیچھے نماز ناجائز نہیں۔’’

اس نے پوچھا کس مدرسہ میں پڑھے ہو میں نے جواب دیا مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد، جامعہ معینیہ عثمانیہ اجمیرشریف، جامعہ نعیمیہ مراد آباد۔ اس نے سوال کیا کہ تم بریلی کے مدرسہ میں نہیں پڑھے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ اس کے بعد حکم سُنا دیا کہ تم کو حج ادا نہیں کرنے دیا جائے گا۔کیونکہ تم توسل بالانبیا والمرسلین کو جائز سمجھتے ہو یہ شرک ہے تم مشرک ہو، مشرک پر حج کچھ نہیں۔ میں نے کہا، اگر توسل کی بناء پر ایسا مشرک ہوجاتا ہے کہ بغیر حج کیے اس کو واپس بھیج دیا جائے تو شیعہ بھی مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے توسل کرتے ہیں ان کا حج کیسے جائز رکھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ میں نے کہاکہ تمہارے پیچھے نماز پڑھنے سے شرک معاف ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی دین ہے، یہ کوئی مذہب ہے، یہ کوئی اسلام ہے، بغیر توبہ کیے تمہارے پیچھے نماز پڑھنے سے شرک معاف ہوجاتا ہے، لاحول ولا قوۃ اِلَّا بِاللہِ العلی العظیم معاذ اللہ۔

اس پر اس نے حکم لکھ دیا۔ اس کا ملخصاً ہے:

الفقیۃ امتناعہ عن الصلوٰۃ مع الجماعۃ واعتقادۃ بالتوسل بالابنیاء والمرسلین وقدصدر بحقہ الفرار الشرعی۔ رقم ۲۱۶۲؍مورخہ ۱۹، ۱۸، ۱۱، ۱۳۹۹ھـ  لعبدم تمکنۃ والحج وتوحیلہ

اس کے بعد اس نے مجھے جیل بھجوادیا۔ جہاں مجھ کو ہتھکڑی پہناکر تیز دھوپ میں دروازہ کے ساتھ باندھ دیا گیا، اور پتھر مارا گیا۔ جس سے میرے سر میں چکر آگیا کچھ سکون کے بعد میں نے الحمدللہ کہا اس کے بعد طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی گئیں اور حج سے دو تین دن پہلے مجھے جبراً ہندوستان واپس کردیا گیا ۔

ماہنامہ استقامت کانپور، ص ۱۰۱، ۲۰۲، جنوری ۱۹۸۴ء؍۱۴۰۴ھ

مدینہ سے روانگی

حضرت مجاہد ملت کو تین ذالحجہ کی شام کو مدینہ منورہ کی جیل بڑ علی سے مقام ترجیل جدہ منتقل کردیا گیا چھٹی شب کو جدہ سے کراچی برائے ہندوستان روانہ کردیا گیا۔ ۷؍ذی الحجہ بروز دو شنبہ، بوقت پونے چار بجے، سہ پہر کراچی سے روانہ ہوکر منگل کی رات میں بمبئی تشریف لائے ۔

ایضاً ماہنامہ استقامت کانپور، ص ۱۰۱، ۲۰۲، جنوری ۱۹۸۴ء؍۱۴۰۴ھ

مجاہد ملت کی استقامت

موسم حج میں حضرت مجاہد ملت کی ذات گرامی کے ساتھ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا محض نجدی وہابی امام کے پیچھے اسکی بد عقیدگی کی وجہ سے نماز نہ پڑھنے کی بناء پر نجدی حکومت نے مجاہد ملت پر طرح طرھ کے مظائم ڈھائے۔ اسی ۸۰ سال بوڑھے مجاہد کو دھوپ میں کھڑا کیا اور مزید برآں جیل میں بند کردیا۔ اس پر بس نہیں بغیر حج ادا کیے ہندوستا واپس کردیا۔ مگر حضرت مجاہد ملت نے ان تمام مظالم کو محض مذہب حق کی پاسداری اور پیارے آقائے مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچی غلامی میں برداشت کیا۔ اور اس کی اقتداء کرنا گوارہ نہ فرمایا جو نبی کی بارگاہ کا گُستاخ ہو۔ اس کی امامت قبول کرلیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اور جیل میں استقامت کے پیکر بنے رہے۔ مگر پیارے مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شریعت پر دھبّہ نہ آنے دیا۔ آپ آٹھ مرتبہ جیل تشریف لے گئے ۔

بروایت حضرت علامہ سید شاہد علی رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ الاسلامیہ رام پور

نجدی حکومت نے معافی مانگی

جب سارے ممالک نے ملک عرب کے بادشاہِ وقت کو بُرا بھلا کہا۔ دنیا کے سارے جریدوں میں حکومت عرب کے قدم کو شریعت سے ہٹتے ہوئے دیکھا تو ساری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ آخر کار حضرت مجاہد ملت سے معافی کی درخواست کی اور دوسرے حج کےلیے دعوت دی۔ آپ تشریف لےگئے اور شان و شوکت سے بارگاہ نبوی میں حاضری دی۔ نجدی حکومت کو چوں کرنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ امسال بھی نجدی وہابی امام کی اقتداء قبول نہ کی اور اپنی نماز علیحدہ پڑھی۔ مجاہد ملت کو شاہانہ فتح و نصرت نصیب ہوئی۔

علم وفضل

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمہ نہایت ذہین، دقیقہ رس، دور اندیش اور معاملہ فہم تھے۔ درس نظامی کے جملہ فنعن میں ماہر کامل اور فائق الاقرآن، علم و فضل کا چرچہ پورے ملک ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ تشنگان علوم کو تشفی بخش درس دیتے تھے۔ مجاہد ملت نے دیوبندیوں سے اپنی حاضر ج وابدی منوالی تھی۔ دیوبندیوں سے کئی مناظرے بھی کیے اور ہر بار فتح ونصرت نے بڑھ کر آپ کے قدم چومے۔

مولوی عبدالسلام نے بھیونڈی کے مناظرہ میں دس سوال کیے۔ مجاہد ملت نے اس کا ایسا شافی جواب دنایت فرمایا جس نےمخالفین کے مُنھ پر تالے کا کام کیا۔ پھر آپنےمزید عبدالسلام لکھنوی پر گیارہ سوال کیے۔ ۱۱؍شوال المکرم ۱۳۹۳ھ مطابق ۷؍نومبر ۱۹۷۳ء بروز چہار شنبہ کو اس کا جواب خودمجاہد ملت نے تحریر فرمایا .

تفصیل کے لیے دیکھئے، مکانز ظفر الدین ۱۳۹۲ھ مطبوعہ مکتبہ الحبیب الٰہ آباد

مگر آج تک ان دیوبندیوں نےجواب نہ دیا۔ ان کے سروں پر یہ سوالات بوجھ کی طرح لدے ہوئے ہیں اور امید ہے کہ صبح قیامت تک جواب نہ دے سکیں گے مجاہد ملت اپنے تمام معاصرین میں ممتاز تھے۔ اسی وجہ سے م ناظرہ کے اجلاس کی صدارت مجاہد ملت کے سپرد کی جاتی تھی۔ بریلی شریف میں ہونے والا تاریخی مناظرہ جس کی صدارت مجاہد ملت ہی نے کی، مناظرہ کی فتح کے بعد محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد رضوی قدس سرہیٗ کے ساتھ ساتھ مجاہد ملت کو مناظرہ کا دولہا بنایا گیا۔ اور حضرت حجۃ الاسلام قدس سرہٗ نے فتح کی مبارک باد اور عمامہ وجبہ عنایت فرمایا ۔

تفصیل کے لیے دیکھئے رود ادِ مناظرہ بریلی مصنفہ فقیہہ محمد حامد شافعی

انتقال پُر ملال

حضرت مجاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کا انتقال ۶ ؍جمادی الاولیٰ ۱۴۱۰ھ؍ ۱۳؍مارچ ۱۹۸۱ء بروز جمعہ شام اسمٰعیل ہوٹل بمبئی میں ہوا۔ وہاں سے نعش مبارک بذریعہ طیارہ کلکتہ لائی گئی۔ پھر وہاں سے آپ کے وطن مالوف کٹک اُریسہ لیجائی گئی۔ اور تیسرے دن اتوار کی شام تقریباً ۵ بجے دھام نگر خانقاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

جنازہ کی کرامت

عام لوگوں کے جنازہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر ذرا تاخیر کے تدفین ہوئی تو بو آنے لگتی ہے۔ مگر مجاہد ملت کے جنازہ شریف کا تو عجیب ہی حال تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ اس قدر طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی نعش مبارک بالکل تروتازہ اور صحیح حالت میں تھی بلکہ بمبئی سے جس تابوت میں مجاہد ملت کو لایا گیا تھا جب وہ کھولا گیا تو پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرات نمایاں تھے۔ جیسا کہ زندوں کی پیشانی پر گرمی سے پسینے کے قطرات نمایا ہوجاتے ہیں۔ جو مجاہد ملت کی حیات جاودانی کی کھلی کرامت تھی ۔

 ماہنامہ تاجدار کائنات رام پور ص ۱۶، فروری ۱۹۸۳ء

 

 

نوٹ: مولانا حبیب الرحمٰن علیہ الرحمہ کا م کاملہ جو عرب شریف میں گرفتاری پر ہوا تھا وہ ‘‘مجاہد ملت کا حرف حقانیت’’ میں درج ہے تفصیل کے لیے اسکی طرف رجوع کریں۔ ۱۲،رضوی غفرلہٗ

 

[9] ۔

Menu