مختصر تاریخ جماعت رضائے مصطفیٰ


امام احمد رضا فاضل بریلوی ﷫کی جلیل القدر دینی و علمی خدمات اپنے پورے عہد پر چھائی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے حمایت حق اور باطل کی سر کوبی کے لئے جو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ہیں تاریخ کا سینہ اب دن بہ دن ان کے انوار سے درخشاں اور تابناک ہوتا جارہاہے ۔ انہوں نے جو کچھ کیا محض رضائے الہی کی خاطر نہ کہ شہرت و عزت کی خواہش اور نہ صلہ و ستائش کی کوئی ہوس ۔ قلم کی نوک سے علم و فضل اور عشق و عرفان کی ایسی موسلادھار بارش برسائی کہ کشور ہند سے لے کر جزیرۃ العرب تک کی سر زمین جل تھل ہوگئی ۔ ہر دل شکر گزار اور ہر زبان مدح خواں ہوگئی ۔ تقدس رسالت کی جو تحریک آپ نے طوفانوں کی زد پر اٹھا رکھی تھی مخالفتوں کی پیہم یلغار میں بھی بڑھتی اور پھیلتی رہی۔ جس طرح آپ نے تبلیغ اسلام کے لئے متعد د کتب تصنیف کئے ایسے ہی آپ نے جب ہندوستان مخالفین اسلام کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا اور اسلام اور اہل اسلا م کو نست و نابود کرنے والی تحریکیں بڑے زور و شور سے چل رہی تھیں ۔ تو آپ نے احیاء سنت کے لئے آپ نے ١٣٣٩ھ/١٩٢٠ء کو جماعت رضائے مصطفیٰ کے نام سے ایک کل ہند تحریک کی بنیاد ڈالی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک ہند وستان بھر میں چھاگئی ۔

تاسیس جماعت رضائے مصطفیٰ کا مقصد ١٩٢٠ء میں ہندوستان مخالفین اسلام کا اکھاڑا بنا ہوا تھا اسلام اور اہل اسلام کو نیست و نابود کرنے والی تحریکیں بڑے زور وشور سے چل رہی تھیں اس زمانے میں مسلمانوں کی بھی تنظیمیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی کوئی تحریک نہ ہو مسلم قیادت کے حامی اور داعی علماء اور لیڈروں کی کمی نہ تھی جیسے آج مسلم قیادت کا فقدان ہے ایسے ہی صورت اس زمانے میں تھی اور جو مسلم قائدین تھے تو وہ ہندؤوں کے فرمانبردار تھے انہیں اسلام او ر مسلمانوں سے کوئی ہمدردی و تعلق نہ تھا تنظیموں کی لاشیں اپنے سر براہوں کے کندھوں پر چل رہی تھیں ، اور کچھ تنظیمیں سسک سسک کر د م توڑ چکی تھیں مطلق العنانی دیکھ کر مخالفین اسلام نے حملہ اور تیز کر دئے اور مسلم علماء انگریز سامراج کے ایجنٹ بن بیٹھے،نماز ،روزہ، حج و زکوٰۃ کے نام پر مسلمانوں سے پیسہ وصول کیا جاتا تھا پھر وہی پیسہ مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتا ۔ ایسی کسم پرسی کے دور میں امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی شخصیت کو رہا نہ گیا چونکہ وہ خود بھی احیاء سنت کی تحریک تھے قرآن و سنت اور سلف و صالحین کے طریقوں پر سختی سے قائم تھے اور مسلمانوں کو اسی پر عمل کرنے کی تلقین کرتے تھے ، اسلام پر مر مٹنے کے لئے تیار رہتے تھے،ایسے مسلم لیڈروں کے سخت مخالف تھے جو مسلمان ہو کر غیروں کے ہاتھوں میں بکے ہوئے ہوں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، نے ٧/ربیع الآخر ١٣٣٩ھ / ١٩٢۰ء کوجماعت رضائے مصطفیٰ کے نام سے ایک کل ہند تحریک کی بنیاد ڈالی۔اس پر آشوب دور کی ایک جھلک ان الفاظ میں پڑھئے جس نے امام احمد رضا﷫کو جماعت رضائے مصطفیٰ کی تاسیس پر مجبور کر دیا تھا حضرت سید ایوب علی رضوی نائب ناظم جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی رقم طراز ہیں۔ آہ اسلام ۔۔۔وہ اسلام کہ کن نوبتوں ،تکلیفوں کی برداشت سے پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا باغ لگایا ،صحابہء کرام رضی اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس خون سے اسے سینچا ۔آج کن کن مصائب میں مبتلاء ہے ، آج اس میں باغبانوں کا لباس پہن کرایسےلوگ داخل ہوگئےہیں جوباغ اسلام کے پھولوں کو پاؤں تلےمسلناچاہتے ہیں، اس کےغنچوں کوپامال کرناان کی دلی تمنا ہے،اس کے خوشنما نونہالان چمن سردوشمشادکوبیخ وبن سےاکھاڑپھینکناان کی دلی خواہش ۔ کیاایسےوقت میں مسلمانوں پرفرض نہیں کہ ان بیخ کنان اسلام کی بیخ کنی میں جان توڑکوشش کریں؟ہائے!اسلام اس وقت فریادی ہے وہ فریاد کر رہا ہے ۔ ہائے اس کی فریاد کو سننے والے دنیا میں بہت کم نظر آتے ہیں ۔بحمد اللہ تعالیٰ اس زمانہء پر فتن میں اہلسنت نےاس فریاد کو سنااوراس کی حمایت کے لئے جماعت مبارکہ جماعت رضائے مصطفیٰ علیہ الصلوٰۃ والثناقائم کی ۔اہل جماعت نےحمایت اسلام میں نمایاں حصہ لیا ، مصطفےٰکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد ونصرت سے جواس مقدس جماعت کےمقابل آیامنہ کےبل گرا ۔ یہ کتناصاف وستھرامقصد ہے، اورکتناعمدہ واعلیٰ ہے جس سےکوئی شخص منحرف نہیں ہوسکتاجومذہب کا درد رکھتاہواسلام کی محبت اورایمان کاایک حبہ بھی باقی ہو ۔ ایسے ہی مقاصد عالیہ نے جماعت رضائے مصطفیٰ کو مختصر مدت میں بام عروج پرپہنچادیاتھااکثرمسلمانوںکی حمایت جماعت رضائےمصطفی کوحاصل تھی مسلمان جوش وخروش سےاس کی ممبری قبول کر رہے تھے۔

نشاۃ ثانیہ:

امام احمدرضابریلوی﷫کی قائم کردہ تنظیم جماعت رضائےمصطفیٰ کئی انقلابی وہنگامی دورسےگزی،متعددبار سیاسی وقانونی ڈ ھانچہ تبدیل ہوا۔اور ہرباراس نئےعزم کےساتھ جماعت کی سرگرمیوں کوبرق رفتاری سے تیزترکردنیاہے ۔ اورایسے اشخاص تلاش کئےجائیںکہ ان کے وجودسے جماعت مبارکہ اورامت مسلمہ کوفائدہ پہچے۔تاکہ مسلم قوم کی فلاح وبہبودکی جانب قدم جماسکے ۔ ١٩٢٠ء/١٣٣٩ھ سے ١٩٢٦ء/١٣٤٥ھ تک جماعت رضائے مصطفیٰ نےعظیم الشان کارنامے انجام دیئےجن کی مثال نہیںپیش کی جاسکتی ہے۔ ١٩٢١ء کے بعد تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہوتا چلا گیا پھر ١٩٦٠ء /١٣٨٠ ھ میں جماعت رضائے مصطفیٰ نے دم توڑدیا ۔ کچھ عرصہ تک کچھ سردمہری کااثررہا پھرنئےسرےسےجان ڈالنے کی کوشس ہونے لگیں ۔ ابتدأ جماعت رضائےمصطفیٰ کی حیثیت ایک مقامی جمعیت کی تھی،اس جمعیت کےدوبڑےشعبےتھے،علمی اور عملی ۔
اس جمعیت نے دونوں پہلو ؤں پرتاریخ سازکردارسرانجام دیا۔رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ، پورے بر صغیر میں جماعت رضائے مصطفیٰ کی شاخیں قائم ہو گئیں ۔  جماعت کی مرکزی حیثیت بن جانے پراغراض ومقاصد اور قواعد و ضوابط میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے ١٤جمادی الاولیٰ ١٣٨٣ھ /٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو مفتیٔ اعظم مولانا مصطفی رضابریلوی﷫کی سرپرستی، اوربرہان ملت مفتی برہان الحق جبل پوری﷫کے زیراہتمام آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پورپرکل ھند جماعت رضائےمصطفیٰ کاایک اجلاس منعقدہوا ۔جس میں دوبارجماعت کی تاسیس ہوئی اورحسب ذیل دفعات کااضافہ کیاگیا۔
١ ۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کی دائمی سر پرستی حضور مفتئ اعظم بریلوی فرمائیں گے ۔
٢۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ سارے ہند کی کل مقامی،ضلعی،صوبائی،اورکل ہندجملہ تنظیموں کی نگرانی اور جماعت رضائے مصفطی ہوگی ۔ ہندوستان کی ساری سنی تنظیمیں اورجماعتیںکل ہندجماعت مبارکہ کے تحت رہیں گی ۔
٣۔ مختلف سنی تنظیموں کے باہمی اختلاف کی شکل میں کل ہند جماعت مبارکہ کی حیثیت ثالث اور حکم کی ہوگی
٤۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کی جماعت کی تظیم حسب ذیل ہوگی ۔ (ا) ہر شہر میں دارالافتا ء قائم کرنا
(ب) ہر شہر میں دارالقضاء قائم کرنا۔
(ج) ہر جگہ مکاتیب ومدارس اسلامیہ قائم کرنا۔
(د) ہندوستان کےہرمفتی شہر، اور قاضی کا تعلق کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ سے ہوگا ۔
٥ ۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوا کریگا ۔
٦ ۔ کل جماعت رضائے مصطفیٰ کا مرکز دفتر بریلی ہی میں زیر نگرانی مفتئی اعظم رہے گا ۔
٧ ۔ ریلیف کمیٹی، مرکز جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کی زیر نگرانی ، تر میم و تبدیل کے کل اختیارات
سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفیٰ کو حاصل رہیں گے ۔
٨ ۔ ریلیف کمیٹی مرکز جماعت رضائے مصطفیٰ کےعلاوہ اور کوئی ریلیف کمیٹی قائم نہ ہوگی ۔
٩۔ ریلیف کمیٹی جماعت رضائے مصطفیٰ کا کوئی انتخاب نہ ہوا کریگا ۔ بلکہ سر پرست وصدر کل جماعت رضائے مصطفیٰ اپنے اختیارات ِخصوصی سے نامزد فرمایا کریں۔
جبل پور کے اس کل ہند جماعت رضائے مصطفےٰ کےخصوصی اور انقلابی اجلاس سے قبل امام احمد رضا محدث بریلوی ﷫ کے عرس کے موقع پر ٢٦ صفر المظفر ١٣٨٣ھ /١٨جولائی ١٩٦٣ء کو کل جماعت رضائے مصطفیٰ کا مر کزی انتخاب عمل لا یا گیا ۔جس میں حضور مفتئی اعظم بریلوی ﷫ سر پرست ، مفتی برہان الحق جبل پوری ﷫ کو کل ہند کا صدر ، اور مولانا ابو الوفا فصیحی غازی پوری کو ناظم منتخب کیا گیا تھا ۔ بعد ہٗ اجلاس جبل پور میں بقیہ عہد یدار وں کا انتخاب عمل میں آیا ۔
٭نائب صدر اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا مدنی کچھوچھوی
٭نائب صدر دوم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی رفاقت حسین ، احسن المدارس کا نپور
٭نا ظم اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا علی محمد دھوراجی ، راج پیلا بھڑوچ ۔
٭نائب ناظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد الصمد مجنون جبل پوری
٭نائب ناظم و خازن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید حمایت رسول رضوی ،جامع مسجد بریلی
(١) علاوہ ازیں متعدد جلیل القدر علماء کو کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کو ور کنگ کمیٹی کاممرنامزد کیا گیا ۔۔۔۔۔اس طرح حضور مفتئی اعظم بریلوی ﷫ کی سر پرستی میں جماعت رضائے مصطفیٰ کی نشاۃ ثانیہ نے اسلامیان ہند کی مذہبی ، قومی ،اسلامی ضرورت کو پورا کردیا ۔

اغراض و مقاصد

الف: تنظیم اہل سنت و تبلیغ و حمایت مذہب و ترویج علوم اہلسنت و جماعت و تدابیر ترقی فلاح و صلاح اہلسنت و حسن انتظام ادارھائے تعلیمی وغیرہ۔
ب: قانون نافذ الوقت (موجودہ و آئندہ) میں بغرض فوائد اہلسنت ترمیم و تنسیخ و تبدیل کی کوشش اہلسنت و جماعت کے حقوق مذہبی و ملی و قانونی کا تحفظ و انتظام کرنا اور فوائد عوام الناس مسلمین کے متعلق صحیح حالات سے اراکین انجمن کا گورنمنٹ و ممبران پارلمنٹ اسمبلی کو آگاہ کرنا۔
ج: علوم دینیہ و دنیویہ کی تصنیفات قدیم و جدید کا دارالکتب و دار المطالعہ قائم کرنا، اور نافع کتب و رسائل و جرائد کا حسب ضرورت نشر و اجرا کرنا اور فنون و صنائع کا ان کے ماہرین سے تعلیم دلانا۔
د: نشر و تبلیغ مذہب اہلسنت و جماعت کے وسائل کا حاصل کرنا اور ان سے کام لینا۔ اشاعت مذہب اہلسنت و جماعت دیہات و شہر میں کرنا۔ مسلمانوں میں باہمی اتحاد اور درمیاں برادران اہلسنت خوشگوار تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
ہ: مذہبی دار العلوم کو ایسے شاہراہ ترقی پر چلانا کہ اس کی دینی و دنیوی مکمل تعلیم وتربیت اہلسنت و جماعت میں قرون اولی کے سلف صالحین کا نمونہ پیدا کرے اور دیہات میں مدارس جاری کرانا۔
و: سنن و شعائر اسلام کے اجرا اور بدعات و سئیات کے ابطال و امحاء کی سعی کرنا ۔
ز: تحصیلات و قصبات دیگر بلاد وشہر میں (محلہ وار) سب کمیٹیاں(تحت جماعت) قائم کرنا۔ جتنی جماعتیں ہر جگہ بنیں گی وہ سب اس مرکزی جماعت کے ماتحت رہیں گی اور اس کے قواعد و ضوابط کی پابند رہیں گی اور اپنے اپنے ماحول کے اعتبار سے جو قواعد بنائیں گی اس کی مرکز کو اطلاع دیں گی۔
ح: دارالافتاء اور دار القضاء کا قائم کرنا اور سوالات کے جوابات اور خصومات کے فیصلے حسب مذہب حنفی لکھنے اور کئے جانے کا بند وبست کرنا۔
ط: مساجد و اوقاف اہلسنت و جماعت کا انتظام کرنا اور ان کو صحیح مصارف کے لئے محفوظ کرنا۔
ی: اغراض مندرجہ بالاکے واسطے سرمایہ فراہم کرنا اور مختلف شعبہ جات قائم کرنا اور مقاصد جمعیت کی تکمیل کے لئے جیش رضا کا ران مرتب کرنا اور ان کو اس کی تعلیم و تر بیت دینا۔ تشکیل مجلس عالیہ او ر اس کے اختیارات
١۔ اصلاح و ترقی مرکزی جماعت رضائے مصطفیٰ کی دو بڑی کمیٹیاں ہونگی۔
الف: ایک جماعت عالیہ کہلائے گی اور دوسری مجلس عاملہ کہلائے گی۔
ب: مجلس عاملہ اپنی کاروائیاں مجلس عالیہ کے سامنے رکھے گی ، اور اس سے منظوری لیکر اس کا نفاذ کریگی۔
٢۔ ہر صوبہ کے ممبران مجلس عالیہ صوبہ کے کسی بڑے شہر یا صوبہ کے صدر مقام میں حسب و صوابدید صوبہ کمیٹی کا مرکز بنائیںگے، اور ممبران صوبہ کمیٹی اپنے صوبہ کا دورہ کرکے ضلع دار کمیٹیاں قائم کریںگے اور ان ضلع کمیٹیوں کا صوبہ سے الحاق کریں گے اور ہر ضلع کمیٹی کو ہدایت کریں گے کہ وہ اپنے قصبات و دیہات میں دورہ کر کے کمیٹیاں قائم کرکے اور ضلع سے ان کمیٹیوں کا الحاق کرکے اور صوبہ کو اپنی سب کاروائیوں کی اطلاع دیاکرے۔
٣۔ اضلاع و قصبات و دیہات میں ہر جگہ ممبر سازی کا کام بڑے زور شور سے ہو، اور اس کی آمد نی نصف پہر کمیٹی اپنے مقامی اخراجات کے لئے محفوظ کرے اور باقی نصف اپنے قریبی مرکز کو ماخذ رسید دے اور مرکز نصف آمدنی مرکز کو دے ۔ بڑے مرکز تک یہی سلسلہ جاری رہے۔
الف: ہر ضلع کام کی آسانی کے لئے حلقہ وار کمیٹیاں قائم کرسکتاہے ۔ ممبران مجلس عالیہ اپنا سالانہ چندہ مرادی سے بعجلت بڑے مرکزکو بھیج کر رسید حاصل کریں۔
۬ب: صوبہ ضلع قصبات و دیہات کی کمیٹیوں کو یہ ہدایت کردی جائے کہ وہ اصلاح و ترقی مرکزی جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے پروگرام پر عمل پیرا ہوگی اور ہمیشہ اس کی تائید کریں گی۔
د: جماعت عالیہ کا سالانہ اجلاس بموقع عرس رضوی سال میں ایک بار لازمی ہوا کرےگا ۔ اور بضرورت جماعت عالیہ اور بھی اجلاس بلائے جاسکتے ہیں اور حسب صوابدید اجلاس کا مقام بھی بدلا جاسکتاہے۔
ج: اس سالانہ اجلاس جو مرکز میں ہوا کرے گا پانچ بار تک جو ممبر شریک نہ ہوگا اور نہ اپنی غیر حاضری کا کوئی تحریری معقول عذر مرکز کو بھیجے گا اس کانام بمنظوری ممبران مجلس عالیہ ممبری سے خارج ہوجائے گا۔
ص: تمام تر کمیٹیاں خواہ وہ صوبائی یا ضلع وار ہوں یا قصباتی یا دیہاتی ہوں سب کو اصلاح و ترقی مرکزی جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی جس کی کاپیاں سب کے لئے مرکز مہیا کرےگا۔
ط: موجودہ ممبران مجلس عالیہ اس وقت تک اپنا کام بدستور کرتے رہیں گے جب تک صوبجات کا جدید انتخاب کہ ہو اور صوبجات سے ممبران منتخب شدہ نہ آجائیں آئندہ مجلس عالیہ کے ممبران کو صوبہ بپابندی قواعد و ضوابط خو د انتخاب کرکے مرکز کو بھیجے گا۔
ن: اس انتخاب کے وقت بڑا مرکز مقرر کرکے صوبہ کمیٹی کو اطلاع دے گا اور صوبہ کمیٹی ضلع کمیٹیوں کو مطلع کرےگی اور ہر ضلع اپنی ماتحتی کمیٹیوں کو آگاہ کرےگا۔ سوال: ہر صوبہ سے مجلس عالیہ کے ممبران کی تعداد کیا ہوگی؟ جواب: ہر صوبہ سے زیادہ سے زیادہ دس اور کم از کم دو ممبران مرکزی مجلس عالیہ میں اپنے صوبہ کی نمائندگی کریں گے۔

سرپرست جماعت و بارگاہ اھل دانش میں عریضہ

سرپرست خاص جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے بانی و سرپرست اعلیٰ ، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ تھے، وہ جب تک باحیات رہے ، اس مرکزی محمدی فوج اسلامی کی سرپرستی فرماتے رہے ۔ امام احمد رضا بریلوی ﷫ کے انتقال کے بعد حجۃ الاسلام مولانا مفتی حامد رضا بریلوی ﷫ نے جماعت مبارکہ کی سرپرستی قبول فرمائی ۔وہ جب تک حیات رہے اس کے بال و پرسنوارنے اور ترقی کی منزلوں تک پہنچانے میں لگے رہے۔ آپ کے بعد تاجدار اہل سنت حضور مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا نوری بریلوی ﷫ نے سرپرستی و قیادت فرمائی، حضور مفتی اعظم کے دور میں جماعت رضائے مصطفیٰ کو سخت سے سخت تر مراحل کا سامنا کرنا پڑا۔ سرپرست عمومی مندرجہ ذیل شخصیات ، علمائے کرام اور مشائخ عظام نے حتی الوسیع جماعت کی سرپرستی قبول کرتے ہوئے تعاون کا ہاتھ بڑھائے رکھا۔
١۔ حضور مولانا شاہ سید اسماعیل حسن میاں برکاتی ﷫ ، سجادہ نشین سرکار مارہرہ مطہرہ
٢۔ تاج العلماء حضرت مولانا سید محمد میاں قادری ﷫ ، سرکار کلاں مارہرہ مطہرہ
٣۔ حضرت مولانا مفتی شاہ عبد السلام محمد عبد السلام رضوی جبل پوری ﷫
٤۔ صدر الشریعہ حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی رضوی اعظمی ﷫
٥۔صدر الافاضل مولانا حکیم سید محمد نعیم الدین مرادآبادی ﷫
٦۔ ملک العلماء حضرت مولانا محمد ظفر الدین رضوی بہاری ﷫
٧۔ صدر العلماء مولانا رحم الہی منگلوری ﷫
٨۔ حضرت مولانا محمود جان رضوی جام جودھ پوری ﷫
٩۔ استاذ العلماء حضرت مولانا حسنین رضا خاں بریلوی ﷫ ایڈیٹر ماہنامہ الرضا بریلی
١٠۔ برہان ملت مفتی برہان الحق رضوی جبل پوری ﷫
١١۔ حضرت مولانا امام الدین ﷫ ، کوٹلی لوہاران پنجاب
١٢۔ حضرت مولانا سید محمد آصف رضوی قادری کانپوری ﷫
١٣۔ مولانا محمد عرفان علی رضوی بیسلپوری ﷫
١٤۔ مولانا قاضی ابوالکمال محمد اشہد الدین مرادآبادی ﷫
١٥۔قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد القادری مہاجر مدنی ﷫
١٦۔ مولانا قاضی محمد قاسم سیال کوٹی ﷫
١٧۔ حاجی مفتی جلال الدین لاہوری ﷫
مذکورہ بلا حضرات میں وہ شخصیات بھی ہیں جو اپنے عہد کے جید عالم، فقیہ النفس مفتی ، نکتہ رس مدبر ، اثر انگیز مناظر و واعظ اور سیاسی بصیرت کے حامل تھے ۔ علماء اہل دانش اور قائدین کی خدمت میں آپ جماعت رضائے مصطفیٰ ٰ بریلی کے نظریات اور مقاصد کو بخوبی سمجھ چکے ہونگے ۔ اس کے ملک پر مذہبی اور سیاسی اثرات کیا تھے مزید برآں وضاحت کی ضرورت نہیں جماعت مبارکہ کی قیادت اعلی حضرت فاضل بریلوی ﷫ ، ان کے صاحبزادگان اور دیگر اکابرعلماء اہل سنت نے فرمائی تھی۔ جماعت کا تصور انقلابی تھا ،سپہ سالار جماعت ہندستانی مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی روح سے روشناش کراکر ، ان کے دلوں میں عشق رسول کی شمع کو فروزاں کرناچاہتے تھے اور ساتھ ہی ملک کے سیاسی منظر نامہ پر مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل کی حل کے لئے شدت سے کوشاں تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ جماعت مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم تھا جس کے زیر اہتمام شرعی سماجی اور سیاسی معاملات حل کئے جاتے تھے ملک بھر میں مختلف شاخیں تھیں ۔ افسو س صد افسو س اکابرین دین ملت کی یہ یادگار صرف قصہ ماضی بن کر رہ گئی ہے ۔ عصر حاضر میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت کے جسم میں روح پھوکی جائے اور ملک بھر میں برانچیں پھیلادی جائیں ۔ نہایت درجہ حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان میں ٨٠ فی صد اہل سنت و جماعت کی تعدا د ہے مگر قیادت وہابیوں کے ہاتھ میں ہیں ۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذمہ دار فرد انکار نہیں کر سکتا۔ آپ حضرات آگے آئیں اور ملک و ملت کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لئے جماعت کی دوبارہ تشکیل کریں۔

شعبہ جات:

جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی میں کئی شعبہ تھے ۔ ابتدا صرف اشاعت کتب کا شعبہ تھا ۔ مگر دو سال کے بعد اور کئی شعبہ قائم ہوگئے ، اور ہر شعبہ کا ایک عملہ متعین کردیا گیا ۔ تاکہ ہر شعبہ کا کام اپنے اپنے وقت پر بآسانی ہوتا رہے ،اور اس کام کی رفتار تیز تر ہوتی رہے ، جماعت رضائے مصطفیٰ ٰ کے درج ذیل شعبہ تھے ۔
(١) شعبہ اشاعت کتب
(٢) شعبہ تبلیغ و ارشاد
(٣) شعبہ صحافت
(٤) شعبہ سیاست
(٥) شعبہ دالافتاء

شعبہ اشاعت کتب :

جماعت کا ایک اہم مقصد ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا و دیگر علماء اہلسنت کی کتابوں کو شائع کرنا ۔شعبہ اشاعت کتب کی خدمات اچھی خاصی ہیں ، اس شعبہ کے تحت تقریبا ٥٠٠سو کتابیں شائع ہوئیں ۔ اور وقت فوقتا پوسٹر اور اشتہار ات بھی شائع ہوتے رہے ۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے قلم وتحریر اور خط کو خوب پہنچانتا ہو ۔ اس کام کے لئے حافظ یقین الدین بریلوی کو متعین کیا گیا اور صرف اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی تصانیف کو شائع کرنے کی غرض سے مولانا حسنین رضا بریلوی نے محلہ سوداگران بریلی میں حسنی پریس اپنے والد استاد زمن مولانا حسن بریلوی کے نام سے قائم کیا ۔کتابت کے بعد تصحیح کا مرحلہ ہوتا ہے ۔مولانا حسنین رضا بریلوی کو ہی یہ ذ مہ داری سونپ دی گئی ، کہ طباعت کاکام انجام دلانے کے ساتھ ساتھ پروف ریڈنگ کا بھی کام کریں گے ۔مولانا حسنین رضا بریلوی نے حسنی پریس سے کثیر تعداد میں کتابین شائع کیں ۔ مولانا اعجاز ولی خاں بریلوی نے بھی اشاعت کتب میں حصہ لیا ۔ اور جماعت کا کچھ بار اپنے سروں پر لیا ۔ پوسٹر و غیرہ انہیں کے اہتمام سے شا ئع ہوتے ۔

شعبہ تبلیغ و ارشاد:

جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کا دوسرا اہم ـشعبہ ،شعبہ تبلیغ وارشاد تھا ۔اس شعبہ کے ذریعہ دیگر شہروں اور دیہات میں علماء ومقررین روانہ کئے جاتے تھے ۔ اور باطل فروقوں کے رد کےلئے مناظر بھی بھیجے جاتے تھے ۔ ائمہ مساجد کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا ۔ رمضان کے مہینہ میں حفاظ کی تقرری بھی ہوتی تھی ۔ شعبہ تبلیغ وارشاد میں خصوصیت کے ساتھ یہ لوگ شامل تھے ۔
(١)مناظر اعظم مولانا حشمت علی خان رضوی لکھنوی ﷫
(٢)ملک العلماء مولانا ظفر الدین رضوی بہاری ﷫
(٣)شیر بیشئہ اہل سنت مولانا ہدایت رسول نوری رامپوری ﷫
(٤)مداح الحبیب مولانا جمیل الرحمن خان رضوی بریلوی ﷫
(٥)مولانا قطب الدین برہمچاری معروف پردیسی مولانا ﷫
شعبہ تبلیغ وارشاد کی جد جہد سے نہ جانے کتنے ہند ؤں نے اسلام قبول کیا ، وہابی اور غیر مقلد افراد نے توبہ کی ۔ اور اہل سنت سواد اعظم میں داخل ہوئے ۔ مناظرین کی طلبی جماعت رضائے مصطفیٰ ٰ بریلی کے لئے ایک وہ زمانہ آیا جب مناظرہ کے اکھاڑے بہت سارے کھل گئے، اور ہر طرف سے چیلنج پہ چیلنج کرنے لگے۔ جماعت نے سب کا مقابلہ کیا ۔ اللہ تعالی نے اس اسلامی محمدی فوج کو فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھاکہ مناظر علماء کی طلبی کثرت سے ہوجاتی تھی۔اور لوگ عین وقت پر دفتر صدر رضائے مصطفیٰ بریلی کو مطلع کرتے تھے، اس کے لئے جماعت کے معتمد عمومی قاضی احسان الحق نعیمی نے اخبار ات میں ایک اعلان شائع فرمایا:
دفتر جماعت رضائے مصطفیٰ یہ اطلاع دینا ضروری خیال کرتاہے کہ بسا اوقات ملک کے دور دراز مقامات سے مبلغین اسلام یا مناظرین کی طلب میں خط پہنچتے ہیں ۔ اور ان میں ضرورتیں دکھا کر علماء و مناظرین کو فورا بھیج دینے کی درخواست کی جاتی ہے ۔ اکثر احباب تاروں کے ذریعہ سے مناظرین کو طلب کرتے ہیں اور اتنا تنگ وقت دیتے ہیں کہ اگر مناظرین سے پہلی گاڑی چھوٹ جائے تو وہ وقت پر نہ پہنچ سکے، ایسے اصحاب کی خدمت میں گزارش ہے کہ مناظرہ کی تاریخ کا تعین دفتر جماعت مبارکہ کے مشورہ سے کیا کریں۔ اور اگر اتنا نہ ہوسکے تو کم از کم اتنا ہونا چاہئے کہ مناظرہ یا جلسہ کی تاریخ سے قبل دفتر کو اطلاع سے دیں تاکہ اگر مناظرین ، مبلغین کسی دوسرے مقام پر گئے ہوں، جیساکہ اکثر ہوتا رہتاہے تو دفتر انہیں اطلاع کرکے ٹھیک وقت پر بھیج سکے۔
مذکورہ اطلاع سے یہ بخوبی واضح ہوتاہے کہ جماعت رضائے مصطفیٰ کا طریقہ کا رنہایت عمدہ اور پختہ تھا۔ اس کے مناظرین و مبلغین بھی اسلام کی راہ میں ہر مشقت اٹھانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اور یہ بھی بخوبی معلوم ہوتاہے کہ اس زمانہ میں مناظرین کی طلبی کثرت سے تھی اور جماعت رضائے مصطفیٰ کے مناظرین و مبلغین نے بڑی کامیابی اور جرأت و ہمت سے کا کیا۔
جماعت رضائے مصطفیٰ کے مناظر علماءجماعت رضائے مصطفیٰ کا ایک شعبہ مناظرہکا بھی تھا ۔ چونکہ اسلام دشمن طاقتیں ہر وقت اسلا پر حملہ کر رہی تھیں ، اور نئے نئے لباس میں ملبوس ہو کر بے چارے سیدھے سادے مسلمانوں کو بہکا کر اپنے رنگ میں رنگ لیتے تھے۔ ایک طرف آریہ سماج ہندستان سے اسلام کو میٹنے کے درپے تھے، تو دوسری جانب خود اسلام کے نام لیوا ، اسلام کی بنیادوں کو ہلا رہے تھے ۔ کہیں قادیانیت کے روپ مین کوئی آجا تا ، اور کہیں و ہابیت ، غیر مقلدیت اور دیوبندیت کا روپ دھار کر نکل پڑتا۔۔۔ اسلا م و اہل اسلام کو چیلنج مناظرہ کرتا ، کہ اگر تم میں دم خم ہے تو آؤ میدان میں ۔۔۔غرضکہ ہر چہار جانب سے اسلام دشمنوں کا سیلاب تھا (اور اب بھی ہے)جس کو روکنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کے چیلنج کو قبول کر کے میدان مقابلہ میں اتریں اور ان کے بطلان کو عیاں کردیں۔ اسلام کی بنیاد صرف صداقت اور حقیقت پر رکھی ہوئی ہے، ورنہ اسلام کو اب تک نہ جانے کہاں کہاں پہنچادیا گیا ہوتا ، مگر حقیقت و صداقت کو ٹھکرا یا نہیں جاسکتا ۔ حق کم رہ کر بھی کثرت پر حاوی رہتاہے ، اس کی قلت کے باوجود کثرت خوف زدہ ہوجاتی ہے۔ اسلامی جوش و جذبہ سارے جذبوں پر بھاری رہتاہے۔ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی نے انہیں وجوہات کی بنیادوں پرشعبۂ مناظرہقائم کیا ، اور اس میں اپنے زمانہ کے جید علماء و مناظرین کر رکھا ، جس کی مثال تاریخ نہیں پیش کر سکتی ۔ مناظر اعظم مولانا حشمت علی خاں اور ملک العلماء مولانا ظفر الدین رضوی بہاری اس شعبہ کے صدر تھے۔ ان شخصیات ک امد مقابل اپنے عہد میں ہندستان میں کوئی موجود نہ تھا۔ یہ دونوں اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قدس سرہ کے پروردہ فرزند اور اسلا م کے شیر ببر تھے ۔ مخالفین اسلام کو منٹوں میں زیر کردینا ان کا معمول تھا۔ ا شعبئہ صحافت جماعت رضائے مصطفیٰ کا تیسرا شعبۂ صحافت تھا اس شعبہ کے ذریعہ ہند ستان بھر میں جماعت رضائے مصطفیٰ ٰ کے کار ناموں اور سر گرمیوں کو نشر کیا جاتا تھا ۔ اور جماعت رضائے مصطفیٰ کے خلاف لکھے گئے مراسلوں ، مضامین اور خبر وں کا رد لکھا جاتا تھا ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ کے حامی کئی ایسے اخبار تھے جو اس کی سرگرمیوں کو سراہتے تھے ۔ اور اپنے مؤقر اخبار میں نمایا ں جگہ دیتے تھے مثلا ہفت روزہ دبدبئہ سکندر ی رامپوری ، ہفت روزہ الفقیہ امر ت سر، ہمدم لکھنؤ ،روہلکھنڈ بریلی، روز نامہ سیاست لاہور ،روز نامہ روزانہ اخبار بریلی اور اس وقت کچھ ایسے مجلات بھی تھے ۔ جو ماہ بماہ نکلتے تھے وہ بھی جماعت کی سرگرمیوں کو چھاپنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔جیسے ماہنامہ تحفئہ حنفیہ پٹنہ ، ماہنامہ آفتاب اسلام احمد آباد ، ماہنامہ السواد اعظم مرادا باد وغیرہ ۔ کچھ دنو کے بعد جماعت رضائے مصطفیٰ نے اپنا ایک ترجمان بنا م ماہنامہ یاد گار رضا بریلی جاری کیا ، جو کافی عرصہ تک جماعت رضائے مصطفیٰ کی صحافتی میدان میں خدمات ، اور تعاقبات کی تفصیل دوسرے مقام پر مناسب جگہ پر دیدی گئی ہے ۔شعبہ صحافت میں ادیب شہیر مولانا ابرار حسن حامدی صدیقی تلہر ، مولانا سید حبیب احمد مدنی محسنی ، مولانا نواب حمید احمد خاں بریلوی ایم ، ایل ،جی ، اور مولانا حسنین رضا خان بریلوی ، مولانا محمد احمد خان شاہجہان پوری ، اور مولانا مفتی محمد علی حامدی آنولوی خاص وطور سے قابل ذکر ہیں ۔ شعبئہ سیاست اس شعبہ کے ذریعہ ہند ستان میں اٹھنے والی نئی نئی تحریکات کا تعاقب ہوتاتھا ۔ اور یہ تعاقب ایسی تحریکات کا کیا جاتا تھا ۔ جو سیاست کے نام پر مذہب میں داخل ہوکر اسلام کی بیخ کنی کرتی تھیں ۔ اس شعبہ نے ہند ستان کی سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا ، ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی تحریکات کا بالغ رد کیا ۔ مثلا خلافت کمیٹی ، تحریک ترک موالات ، تحریک گاؤ کشی ، ہند و مسلم اتحاد ، اور تحریک آزاد ی وغیرہ ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ کا یہ مقصد ہر گز نہیں تھا کہ سیا سی اکھاڑے میں آکر اپنا پرچم لہرایا جائے ۔ بلکہ یہ نظریہ تھا کہ سیاست کے ذریعہ اسلام پر حملہ نہ کیا جائے ۔ اور مسلمانوں کا استحصال نہ ہو ، وہ کام انجام پزیر ہوں جو اسلام اور اہل اسلام کے لئے سود مند ہے ۔۔۔۔ ۔۔ جماعت رضائے مصطفیٰ نے جن سیاسی لیڈروں کا رد کیا ، ان میں مسڑر گاندھی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولان عبد الباری فرنگی محلی ، مولانا شوکت علی ، مولانا محمد علی جناح اور مولانا عبد الماجد بدایونی قابل ذکر ہیں ۔ ہند ستانی سیاست پر مذکورہ لیڈر چھائے ہوئے تھے ، ان کا رد کرنا گویا کہ شیر کے منہ میں پنجہ ڈالنا ہے ۔ مگر جماعت رضائے مصطفیٰ کے شعبہ سیاست نے اس کی پروہ کبھی بھی نہ کی ۔ اور اعلاء کلمتہ الحق کا فریضہ ہمیشہ انجام دیا ۔ شعبئہ دارالافتائ بریلی کی شان افتا ء عرصہ ٔ دراز سے معروف تھی ، یہاں پر مولانا رضا علی خان (جد امجد امام احمد رضا)کے دور سے آج تک فتویٰ نویسی کی خدمت چلی آرہی ہے ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ کا یہ چوتھا شعبہ پڑی اہمیت کا حامل تھا ۔ اس رضوی دار الافتا ء سے بر صغیر ہی نہیں بلکہ دیگر بر اعظموں تک فتاویٰ جایا کرتے تھے ۔ ایک عام شخص سے لیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تک ، شریعت کے معاملے میں رضوی دار الافتاء کے دروازے کھٹکھٹاتا تھا ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ نے اس شعبئہ افتاء میں ماہر مفتیان کرام کی رتقرری کی ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے شاگردوں میں نواب مرزا بریلوی ، مولانا مفتی سلطان احمد خاںبریلوی ،مفتی محمدرضاخان بریلوی ، مفتی عبد الرشید بہاری ، مولانا ابرار حسن صدیقی تلہر ، مولانا حشمت علی خان لکھنوی ، مفتی محمد علی حامدی ، فتویٰ نویسی کے فرائض انجام دےتے تھے ۔ ۔۔۔جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے شعبہ رضوی دار الافتاء کے چشمۂ دارالافتاء بریلی کے نام سے مستقل ایک زمانہ تک ہفت روزہ دبدئہ سکندری رامپور میں چھپتے رہے ۔
(١)ماہنامہ تحفئہ حنفیہ پٹنہ میں بھی فتاویٰ شائع ہوتے تھے۔ ان فتاویٰ پر اکژاعلیٰ حضرت یا حجۃ الاسلام مولانا حامد رضاکی تصدیق ہوا لرتی تھی ۔ بعض اخبارات میں یہ دیکھنے کو ملا کہ قارئین اخبار ایک عام سوال شائع کرادےتے ـ’او ر جواب کے لئے عام مفتیان کرام کو اجازت ہوتی ، مگر کوئی مفتی قلم نہ اٹھا تا ‘بالآخر وہ قارلکھتا کہ ”جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے مفتیان کرام سے امید ہے کہ وہ شافی وکافی جواب عنایت کرےں گے ”۔۔۔۔۔۔۔جماعت رضائے مصطفیٰ کے شعبئہ دارالافتاء سے جاری شدہ فتاویٰ کی تعداد لاکھوں کے قریب ہوگی ۔ سب محفوظ نہ رہ سکے ، ہاں جو فتاویٰ اخبار ات میں اور رسائل میں شائع ہوئے وہ آج بھی محفوظ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ سارا ذخیرہ جلد از جلد منظر عام پر آجائے ، اور عامئہ مسلمین اس سے استفادہ کر سکیں ۔ (آمین )

کل ھند جماعت رضائے مصطفیٰ کی شاخیں

جماعت رضائے مصطفیٰ کی شاخیں جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کی متعدد شاخیں تھیں ، جو الگ الگ ناموں سے جانی پہچانی جاتی تھیں ، ناموں کے علیحدہ کرنے میں ایک سیاسی حکمت عملی ہے ۔ میرے خیال میں وہ یہ ہے کہ اگر حکومت وقت نے اس تنظیم پر اور اس کی سر گرمیاں پر پابندی عائد کردی ، تو دوسری شاخیں جو دوسرے ناموں سے جانی جاتی ہیں ، ان میں ممنوعہ تنظیم کی سر گرمیاں جاری رہیں۔ عموما ہوتا یہ ہے کہ جس تنظیم و جماعت پر پابندی لگتی ہے ، اس کے ہیڈ آفس اور تمام تر شاخوں کے دفاتر کو سیل کر دیا جاتاہے ۔ مگر ممنوعہ تنظیم کا کام اگر دوسرے نام کی تنظیمیں کر رہی ہیں تو اس میں حکومت دخل اندازی نہیں کرتی ہے ۔ اور ان سر گرمیوں کو اہمیت بھی نہیں دیتی ہے، مگر ممنوعہ تنظیم کے اغراض و مقاصد پورے ہوتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔غالبا یہی حکمت جماعت رضائے مصطفیٰ جے پیش نظر رہی ہوگی ، ویسے اس کی متعدد وجہیں ہوسکتی ہیں۔۔۔جماعت رضائے مصطفیٰ کی شاخوں میں ،مندرجہ ذیل تنظیمیں اہمیت کی حامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے طور پر بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ۔ (١)جماعت انصار الاسلام بریلی (٢)اشاعت الحق محلہ بانس منڈی بریلی (٣)جماعت ظاہرین علی الحق جبل پور (ایم ۔پی) (٤)جماعت اہل سنت جام جودھپور (گجرات) (٥)دارالعلوم اہل سنت و جماعت بریلی (٦)انجمن اہل سنت مراد آباد

کل ھند جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے زریں کارنامے

کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے زریں کارنامے اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے جماعتی نظم کے لئے اپنے احباب کے مشوروں سے کل ہند جماعت رضا ئے مصطفی کی بنیاد ١٣٣٩ھ/١٩٢٠ء میں ڈالی ۔ جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کے اغراض و مقاصد حسب ذیل تھے۔ الف: پیارے مصطفی کی عزت وعظمت کا تحفظ ب: بد مذہبوں کی چیرہ دستیوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا۔ ج: متحدہ قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے”فرقہ گاندھویہ”کا تحریری و تقریری رد کرنا۔ د: آریہ اور عیسائیوں کے اعتراضات کے تحریری و تقریری جوابات دینا۔ ہ: فاضل بریلوی امام احمد رضا اور دیگر علمائے اہل سنت کی تصانیف کی اشاعت۔ غیر اسلامی نظریہ ”متحدہ قومیت”کے ہیجانی دور میں اسلامی تشخص کے امتیاز و رحفظ ، فتنہ ارتداد کے انسداد اور عوام میں راسخ الاعتقاد ی پیدا کرنے میں جماعت رضائے مصطفیٰ نے مثالی اور مؤثر کام کیا ۔ حجۃ الاسلام اور حضرت مفتی اعظم کی سر پرستی ، اور نگرانی میں جماعت رضائے مصطفیٰ کے پلیٹ فارم سے و فود تیار کئے گئے۔۔۔١٣٤١ھ/١٩٢٣ء میں متعصب ہندؤں نے سادہ لوح مسلمانوں کو (معاذاللہ )مرتد بنانے کی مہم شروع کی، جس کو ”شدھی سنگٹھن”کا نام دیا گیا۔ علماء اہل سنت نے اس ناپاک تحریک کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، فتئہ ارتداد کا انسداد کرنے والے علماء میں حضرت مفتی اعظم کا اسم گرامی سر فہرست ہے ۔ اسی دوران حضرت مفتی اعظم نے پانچ لاکھ ہندؤں کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا۔ ابتدء جماعت رضائے مصطفیٰ کی حیثیت ایک مقامی جمیعت کی تھی۔ اس جمعیت کے دو بڑے شعبے تھے۔(علمی)۔۔۔(عملی) اس جمیعت نے دونوں پہلوؤں پر تاریخ ساز کر دار سر انجام دیا ۔ رفتہ رفتہ اس کی حیثیت مرکزی بن گئی ۔ پورے بر صغیر میں اس کی شاخیں قائم ہوگئیں۔ اب اس کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط میں بھی وسعت کرنا پڑی۔۔اس غرض کے لئے ١٤ جمادی الاولی ١٣٨٣ھ/٣ اکتوبر ١٩٦٣ء کو حضرت مفتی اعظم کی سر پرستی میں برہان ملت مفتی محمد برہان الحق رضوی جبل پوری کے آستانہ عالیہ سلامیہ جبل پور کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کا اہل اجلاس منعقد ہوا ۔ جس ضروری دفعات کا اضافہ کیا گیا جسکو نشاط ثانیہ کے نام سے یاد کیا گیا۔ اصلاحی آڑ میں مرکزی حکومت ہند نے مسلمانوں کے پرسنل لاء میں ایسی تر میمات کرنے کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں کی مذہبی شخصی آزادی شدید متاثر ہوئی ۔۔۔کانگریس کی ہم نوا جمعیت العلماء ہند اور ندوۃ العلماء نے ان غیر اسلامی ترمیمات کی حمایت کی اہل سنت جو ہندوستان کی کل مسلم آبادی میں سب سے بڑی اکثریت ہیں ، کو یہ ترمیمات کسی حال میں قبول نہ تھیں ،چنانچہ ان کی نمائندہ مذہبی اور سیاسی تنظیموں میں کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء ہند نے نہایت گونجدار اور مؤثر آواز میں ان غیر اسلامی ترمیمات کی مخالفت کی۔عرس رضوی کے موقع پر ٢٦ صفر ١٣٨٣ھ/١٨ جولائی ١٩٩٦ء کو حضرت مفتی اعظم قدس سرہ کی سربراہی میں کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ نے ان ترمیمات کے خلاف ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی بعد میں مفتی اعظم قدس سرہ کی سربراہی میں ہونے والے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کانپور کے اجلاس میں ان ترمیمات کے خلاف مؤث آواز اٹھائی ١٣٤٣ھ/١٩٢٥ء میں منعقد ہونے والی آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس کا انتظام و انصرام جماعت رضائے مصطفیٰ اور جماعت انصار الاسلام بریلی جمعیت اشرفی کچھوچھہ کے رضا کاروں نے نہایت سلیقہ سے کیا ۔ جماعت رضا ئے مصطفی بریلی کا خیمہ عظیم شوکت رکھتا تھا ۔ حضرت مفتی اعظم قدس سرہ کی اس ملکوتی نظام کی ”ہر ایک نے تعریف کی۔ ہندوستان میں فتنہ ارتداد کے زمانہ میں حرمین طیبین پر جب نجدی تسلط ہو ا نجدی نے حرمین شریفن میں جو مظالم ڈھائے ،وہ تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ ہندستان سے ایک وفد اس غرض سے ترتیب دیا گیا کہ وہ نجدیوں کو مظالم سے بعض رکھے ، اس وفد کی تیاری میں حضور مفتی اعظم نے نمایا حصہ لیا۔ اس سلسلہ کی ایک خبر ملاحظہ ہو : فتنہ نجد اور جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی عین اس وقت جبکہ ہندوستان خود میدان جہاد بنا ہوا ہے اور آریہ ، وہابیہ ہند کی شورشوں نے مجاہدین اسلام کو عدیم الفرصت کر رکھا ہے ۔ مسلمانان ہند کی واحد نمائند ہ اور خالص مذہبی جماعت یعنی جماعت رضائے مصطفیٰ نے تر تیب وفد کے لئے تیاری ظاہر کی اور بطل سنت اور شیر اسلام مفتی اعظم ہند نے اس کام (ابن سعود کے پاس وفد بھیجنے)کے لئے جیب خاص سے پانچ سو روپہ کی گراں قدر رقم جماعت رضائے مصطفیٰ کو عطافرمائی ہے۔ ١٩٢٧ء میں ابن سعود کی ظالم حکومت کی وجہ سے سات ہزار زائرین حج بیت اللہ کا اتلاف جان ہو ا۔ ایسی صورت حریمین شریفین میں کبھی بھی نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔جماعت رضائے مصطفیٰ نے ٢٤ جولائی ١٩٢٧ء کو احتجاجی جسلہ خاص کا اہتمام کیا ، جس میں ہندوستان کے چوٹی کے علماء نے شرکت کی اور حسب ذیل تجویزیں پاس ہوئیں ۔ اول: اس سال مناسک حج کے موقع پر حکومت ابن سعود نجدی نے باوجود انواع و اقسام محصول لگا کر حاجیوں سے کثیر روپیہ وصول کرنے کے باوجود ان کے لئے آب رسانی کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا ۔ بایں وجہ سات ہزار غریب الوطن حاجیوں کی عزیز ترین جانیں منی و عرفات کے درمیان شدت پیاس سے بیچین ،تڑپ تڑپ کر نشان اجل ہوگئیں ، اس حادثہ جاں کاہ کی تمام و کمال ذمہ داری حکومت سعود پر عائد ہوتی ہے۔ دوم: یا وجود یکہ جماعت رضائے مصطفیٰ اس سال مسلمانوں کو شرعی وصول کے ماتحت التواء حج کا مشورہ دیا تھا ۔۔۔افسوس کے مسلمانوں نے اس سے غفلت برتتے ہوئے شوق زیارت کے جذبات میں عزم سفر کردیا ، نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ امسال وقوف عرفات بجائے نو ذی الحجہ کے آٹھ ذی الحجہ کو بحکم ابن سعود کیا گیا ۔ ۔۔ اس کی تصدیق واپس آئے ہوئے حجاج اور اردو اخبار سے ہوتی ہے۔ جمعہ مبارکہ کو ٢٩ ذی الحجہ کا ہونا ٢٩ کی رویت سے مستحق تھا، ایسی صورت میں حج کسی طرح نہو ا ۔ جو مسلمان کہ اپنا فریضہ ادا کرنے کی غرض سے حاضر بیت اللہ ہوئے تھے۔ان کا فریضہ ادا نہ ہوا ، فرہ فرض ان پر بدستور قائم رہا۔ اس کا سارا وبال حکومت ابن سعود پر رہا۔ اور اس میں صریح نا فرمانی کی گئی ۔احکام خدا اور رسول کی مسلمانوں کو ان واقعات سے آگاہ ہونا چاہئے۔ ١٩٢٩ء میں حکومت ہند نے شرعی امور میں مداخلت کی ، اور شریعت اسلامیہ میں کسی کی بھی مداخلت ایک غیور مسلمان بر داشت نہیں کر سکتاہے ، اس وقت جماعت رضائے مصطفیٰ کی شاخیں پورے ہندستان میں پھیل چکی تھیں ، حضرت مفتی اعظم کی بہدایت پر بریلی شریف میں ایک مرکزی جلسہ ہوا ۔ جس میں حکومت کی شرعی امور میں مداخلت پر پرزور صدائے احتجاج بلند کی گئی ۔ جلسہ کا انعقاد ٢٠ دسمبر ١٩٢٩ء بعد نماز مغرب زیر صدارت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی ہوا ۔۔۔۔جس میں شرع مطہر کی پابندی پر مقرر یں نے تقریریں کیں ،اور ان لوگوں سے اظہار بیزاری کیا۔ جو شریعت کی پابندی کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں ۔ اس کے بعد اصل مقصد کی طرف توجہ کی گئی ۔ یعنی شاردہ بل”کے متعلق مولانا ابو المعانی محمد ابرارحسن حامدی تلہری مدیر ماہنامہ یادگار رضا بریلی کا ایک ریزو یشن بایں الفاظ پیش ہوا ۔ یہ جلسہ حکومت ہند کو توجہ دلا تا ہے کہ وہ مسلئہ ازدواج میں تقید عمر سے باز رہے۔ اور وہ اس وعدہ کو یاد کرے جو کسی مذہب میں مداخلت نہ کرنے کے متعلق کر چکی ہے ۔ نکاح یا زفاف کے لئے قانونا کوئی مقرر کرنے کا اسے کسی طرح کوئی حق ہے؟ ۔۔۔۔ایسے قوانین ضرور ہماری مذہبی و دینی ازادی سلب کرنے والے ہےں۔ مسلمان ایسے قوانین کو جابرانہ ، اور قانون شرع میں ترمیم یقین کر رہے ہیں ۔ اوراسے دیندار مسلمانوں کی انتہائی دل آزاری ہورہی ہے ، آج حکومت کوان امورمیں جو من وجہ عبادت ہے ابھارا جا رہا ہے ، اگر مسلمان اس پرخاموش رہے ، اور انہون نے ٹھنڈے دل سے تسلیم کر لیا اس پر جیسی بیچینی چاہئے اس کا اظہار نہ کیا تو کل حکومت ایسے امور کی طرف قانون سازی کی طرف متوجہ کی جائیگی ، جو سراسر عبادت ہیں ۔ کس قدر ستم ہے کہ جو قانو ن ہندو چاہتے ہیں اس کا نفاذ تمام کیا جاتا ہے ۔ ہند و مذہب کے خلا ف جو بات نہیں تو کیا ضرور ی ہے کہ وہ اسلام کے خلاف بھی نہ ہو، اسلام نے ہمیں جن بارے میں آزاد کیا ہے ہم اس میں کیوں کوئی قید پسند کرلیں ؟ ۔ویسے ہی ہر قسم کی قیود کیا تھوڑی ہیں ؟ ۔۔۔۔جو روز بروز پابندیاں اختیار کی جائیں۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ نے ہر وہ ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جس سے تبلیغ اسلام ہوتی ہو، اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے کتب شائع کرنے کا اہتمام کیا، اپنے صرفہ سے کتابیں شائع کرکے قوم و ملت تک مفت تقسیم کرتی ، کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ کثیر کتب شائع کرنے پر جماعت مبارکہ مقروض ہوجاتی ۔۔۔جماعت کے صدر دفتر آستانیہ عالیہ قادریہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی سے ماہنامہ یادگار رضاکا اجرا ہوا یہ یاد رہے کہ اس سے قبل اعلی حضرت امام احمد رضا کی سر پرستی میں اور مولانا حسنین رضا خاں کی ادارت میں ماہنامہ الرضا کہ بند ہونے پر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلی کی سرپرستی اور مولانا ابرار حسن تلہری کی ادارت میںماہنامہ یادگار رضاکا اجرا ہوا ۔ ساراخرچہ طباعت جماعت رضائے مصطفیٰ برداشت کرتی تھی ۔ کچھ دنوں بعد حجۃ الاسلام اور مفتی اعظم دونوں شخصیات کے باہم اشتراک و تعاون اور سر پرستی میں شائع ہوتا رہا پھر دونوں بزرگ کی سرپرستی میں ایک عرصہ دراز تک کامیابی کے ساتھ نکلتا رہا ۔ جنرل الیکشن میں ووٹ کا مسئلہ ہندوستان میں مسلمان ہمیشہ سے پریشان کیا جاتا رہا ہے اور الیکشن کے موقع پر تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہیں ، اور ہر پارٹی یہ باور کراتی ہے کہ ہم ہی ہیں مسلمانوں کے اصل محافظ ۔۔۔مگر الیکشن جیت جانے کے بعد کبھی مسلمانوں کی خیریت دوبارہ دریافت نہیں کی جاتی ، اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر مقام پر مسلمانوں کو زیر کیا جائے ، ان کی عزت و عزمت سے کھلواڑ کیا جائے ، شریعت اسلامیہ میں مداخلت کی جائے ۔وغیرہ وغیرہ۔ یہی وہ تمام وجوہ ہیں جن کی بنیادوںپر کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی نے ١٩٦٢ء کے جنرل الیکشن میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا ۔ اور اس موقع سے فرقہ پرست اور جنونی سیاسی پارٹیوں کو سبق سکھانے کی ٹھان لی ، تاکہ مسلمان مستقبل میں فوائد و ثمرات حاصل کر سکیں ، انھیں ووٹ کا جائز حق مل سکے ۔ یہ انقلابی اقدام کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کے بھوج(گجرات)کے منعقد عظیم الشان اجلاس میں دو سو سے زائد شرکت کرنے والے علماء نے اٹھایا ۔ مقتدر علماء کرام میں مولانا سید محمد محدث کچھوچھوی ، مولانا نور اللہ شاہ حسینی حیدر آبادی، مفتی برہان الحق جبل پوری، سید العلماء مولانا سید آل مصطفی مارہری، ڈاکٹر عبد المطلب پیر زادہ ، مفتی عبد القدیر بدایونی ، علامہ مشتاق احمد نظامی ، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمٰن قادری ، مولانا محبوب علی خاں رضوی ممبئی ، نصر اللہ عباسی رضوی، مفتی رضوان الرحمٰن فاروقی اندوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ تین روزہ کانفرنس تھی اورتمامی اجلاس کی صدارت کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ کے صدر مفتی اعظم مولانا مصطفی رضاخاں بریلوی نے فرمائی۔ یہ اجلاس ٢٧/٢٨/٢٩/اپریل ١٩٦٠ء کو بھوج(جو ریاست کچھ کا صدیوں کا دار السلطنت رہاہے اور اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے کرانچی بندرگاہ کے نہ صرف مقابل ہے بلکہ بہت قریب بھی ہے مگر اب یہ علاقہ گجرات صوبہ میں آتاہے)میں منعقد ہوا ۔ اسمیں فیصلہ کیا گیا کہ ایک ریزویشن کے ذریعہ ہند ستان بھر کے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ آنے والے ١٩٦٢ء کے جنرل الیکشن کے لئے کسی پارٹی یا امید وار کو ووٹ دینے کا وعدہ نہ کریں ۔ بلکہ ہر ایک کو یہ صاف جواب دے دیں کہ وہ اپنے مرکزی جمSاعت رضائے مصطفی کے حکم کے مطابق ووٹ دیں گے ۔ کل ہند جماعت رضائے مصطفیٰ بریلی کا فیصلہ نہایت موزوں تھا۔ چونکہ الیکشن کے وقت مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوجاتاہے ۔ اور پھر وہ اہمیت و وقعت چلی جاتی ہے ۔ مذہبی علماء و قائدین کوچاہئے کہ آج متفقہ طور پرایک پلیٹ فارم سے ایسے ہی فیصلہ کئے جائیں ۔ تاکہ بازیگر پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ کا غلط سودا نہ کر سکیں ، اور اس کا صحیح و جائز استعمال ہو۔

Menu