قمر ملت علامہ قمررضاخان قادری علیہ الرحمہ


 مولد و مسکن:

 حضرت محلہ سوداگران رضا نگر سے متصل محلہ خواجہ قطب بریلی شریف میں بتاریخ 14جولائی1946ءاور ہجری کے اعتبار سے 14 شعبان 1365ھ پیدا ہوئے۔

نام و نسب شریف:

محمد قمر رضا بن محمد ابراہیم رضا بن محمد حامد رضابن امام احمد رضا خاں بن علامہ نقی علی خان بن علامہ رضا علی خان علیہم الرحمۃ الرضوان۔

 تعلیم و تربیت:

 خاندانی دستور کے مطابق چار سال چار ماہ چار دن کی عمر مبارک میں حضرت کی رسم بسم اللہ خوانی ہوئی، اس کے بعد ابتدائی تعلیم والد ماجد مفسر اعظم ہند علیہ الرحمۃ المنان سے ہی حاصل کی، بعد ازیں عربی فارسی اور دینیات کی تعلیم یاد گار اعلیٰ حضرت﷜ جامعہ رضویہ منظر اسلام سے حاصل کی۔

 علی گڑھ روانگی:

دینی تعلیم کے بعد تقریباً 1966ءمیں عصری تعلیم کیلئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لےگئے۔

 بیعت و خلافت:

شعور کی منزل پر پہنچ کر تقریباً 1960ءمیں سرکار مفتیٔ اعظم عالم اسلام علیہ الرحمۃ الرضوانسے بیعت ہوئے، 1984ءمیں اہلِ سلسلہ حضرات کے پُرزَور اصرار پر بیعت و ارشاد کی طرف مائل ہوئے اور حضرت صدر العلماء بدر العرفاءنے سلسلہ رضویہ کے فروغ کیلئے خلافت و اجازت سے نوازا اور تعویذات کی مشق بھی کرائی، علاوہ ازیں علوم دینیات کی تکمیل بھی ان سے ہی کی۔

عقد نکاح:

حضور قمر ملت اعلیٰ حضرت سے نسباً نجیب الطرفین ہیں، ایک تو خود عالم دین بھی ہوئے اور اعلیٰ حضرت سے ایسی قربت، ان دو فضیلتوں کا اجتماع اس بات کا متقاضی تھا کہ حضرت کا ہمسفر اور ہم راز بھی اسی شان کا مالک ہو، چنانچہ یہ تقاضہ بھی پورا ہوا اور حضرت کا نکاح 12 جنوری1975ءمیں نواسئ حضور مفتی اعظم عالم اسلام سے ہوا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی حضرت کے ساتھ نہایت ذمہ داری اور پاسداری سے گزاردی، خود حضرت بھی اس کا اظہار اکثر فرمایا کرتے تھے اس طور پر کہ کوئی بھی کام مثلاً بچوں کی تعلیم و تربیت ، شادی بیاہ اور جملہ خانگی معاملات جو حسن انجام کو پہنچتے اور اس پر کوئی انہیں مبارکباد پیش کرتا تو بطور چاہت و محبت یوں فرماتے کہ ’’یہ سب میری بیوی کی کرامت ہے‘‘، اور کیوں نہ فرماتے کہ یہ وہی نواسی ہیں کہ جنہیں ایک دفعہ حضور مفتی اعظم ہند نے گود میں اٹھا کر فرمایا ’’یہ بہت خوش نصیب بچی ہے‘‘، سونے پہ سہاگہ یہ رہا کہ یہ نکاح خود حضور مفتی اعظم ہند نے پڑھایا۔

 اولادو امجاد:

 حضرت کے تین شہزادے اور ایک شہزادی ہے چاروں ہی شادی شدہ ہیں۔

 رشد و ہدایت و تبلیغی اسفار:

 مذہب مہذب اہلسنت و جماعت کی ترویج اور نشر و اشاعت کیلئے آپ نے ملک و بیرون ملک کے سفر 1984ءسے تادم زیست فرمائے، جن میں قابل ذکر عراق، عرب، پاکستان، یوپی، سری لنکا کے علاوہ بہار، بنگال، جھارکھنڈ، آسام، گجرات، راجھستان، مہاراشٹر، ایم پی آندھرا پردیش اور کشمیر وغیرہ صوبائی اور ملکی سطح پر آپ نے بیشمار سفر کرکے سلسلہ رضویہ کو بے پناہ فروغ بخشا۔ آپ اکثر دَورے دیہاتوں اور نواحی بستیوں میں فرماتے تھے، چنانچہ آج آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔۲

فضائل و کمالات:

 حضرت نہایت ذہین تھے، ذکاوت تو انہیں اپنے جَدِّ اعلیٰ امام اہلسنت﷜ سے ورثے میں ملی تھی، عربی، فارسی، اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ آپ کوسائنس، ریاضی ، علم الاعداد اور تاریخ گوئی وغیرہ علوم پر یدطولی حاصل تھا، حتیٰ کہ حضور تاج الشریعہ سے بھی اگر کسی نے کہا کہ حضور کسی کتاب کا یا ادارے کا تاریخی نام تجویز فرمائیں تو حضرت بھی یہی فرماتے کہ یہ کام قمر میاں سے لو، شمسی تاریخ سے قمری تاریخ بلا تردد نکال دیا کرتے تھے۔

اپنے آپ میں ایک فعال اور متحرک تنظیم کی حیثیت رکھتے تھے، ہزاروں غیر مسلم آپ کے نورانی چہرے کو دیکھ کر مسلمان ہوگئے،

ایک موقع پر آپ کسی انجان بستی یا گاؤں سے گزر رہے تھے اسی اثناء میں آپ نے گاڑی رکوائی اور فرمایا کہ یہاں کوئی تکلیف زدہ ہے، اور اتر کر خود ہی بغیر کسی رہنمائی کے اس گھر کو پہنچ گئے، اس گھر کے رہائشی بد مذہب تھے ان کا اکلوتا بچہ جو بسببِ عَلالت حالت مرگ کو جا پہنچا تھا، حضرت نے اس پر دم فرمایا وہ اسی وقت ٹھیک ہوگیا، یہ کرامت دیکھ کر سب اسی وقت سُنّی صحیح العقیدہ مسلمان ہوگئے اور حضرت سے بیعت بھی ہوگئے، آپ مُستجابُ الدعوات تھے اور آپ کی دعا نہایت سَریعُ الاثر ہوا کرتی تھی، جس بیمار پر بھی آپ دم فرماتے اگر مشیتِ ایزدی میں اس کی زندگی بصحت و عافیت ہے تو اسی وقت ٹھیک ہوجاتا ، خود اس حقیر کے والدمحترم جو بلڈ پریشر کے شکار تھے ایک دفعہ حضرت نے بذریعہ ٹیلی فون کان میں دعا پڑھی تب سے اب تک بفضلہ تعالیٰ و بحمدہٖ تعالی و بعونہ تعالیٰ بلڈ پریشر کی شکایت نہیں ہوئی، الحمد للہ! خود اس حقیر کے کئی کام انہی کی دعا سے بنے ایسے کام جو بظاہر نا ممکن نظر آتے تھے حضرت کا یہ فرمانا ہوتا تھا کہ ’’ہوجائے گا‘‘ ہو کر ہی رہتا تھا، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک سائل حاضرِ خدمت ہوا اور کہنا ہی چاہتا تھا کہ حضرت نے فوراً فرمایا تیرا یہ مسئلہ ہے اور اس کا حل یہ ہے، اس واقعہ کا یہ حقیر عینی شاہد ہے۔

 آپ نہایت شفیق اور مہربان تھے، اپنے مریدین پر بھی اتنے شفیق تھے جیسے کوئی باپ اپنے حقیقی بچوں پر ہوتا ہے، کئی لوگوں کی شادیاں آپ نے اپنے خرچے پر کرائیں، خدمت خلق کو اپنی حیات کا نصب العین بنا لیا تھا، آپ ایک دارالعلوم بھی اپنی جیب خاص سے چلا رہے تھے، آپ نہایت منکسر المزاج اور شہرت سے دور رہنے والے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے ان معاملا ت کا علم آپ کے اہل خانہ کو بعد از وصال ہوا، المختصر آپ گوناگوں خوبیوں کے مالک تھے جن کا احاطہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن نہیں، چند الفاظ میں آپ ’’اشد اء علی الکفار رحماء بینھم‘‘ اور  ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ‘‘ کی جیتی جاگتی تفسیر تھے یہی وجہ ہے کہ آپ اس شان سے گئے کہ ایک نے خواب میں دیکھا کہ حضور غوث اعظم﷜ کا جنازہ جارہا ہے اور حضرت تاج الشریعۃ دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ قمر میاں کو اعلیٰ حضرت﷜ لینے آئے ہیں۔

 وصالِ پُر ملال:

 25 جون 2012ء بمطابق5 شعبان  1433ھ کو  آپ وصال فرماگئے۔ 27جون بروز بدھ بعد نماز عصر اسلامیہ انٹر کالج میدان میں نماز جنازہ آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کے برادر اکبر حضور تاج الشریعہ بدرالطریقہ حضرت مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری مدظلہ النورانی نے پڑھائی،مغرب کے وقت مزار اعلیٰ حضرت کے اندر تدفین عمل میں آئی۔

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

حیات و خدمات

Menu