خلیفۂ اعلیٰ حضرت قطبِ مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت، مجدد دین و ملت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا سورج جب نصف النہار پر تھا، پورے برصغیر کے عاشقان مصطفیﷺ مرکز اہل سنت بریلی شریف میں آکر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق پیاس بجھا رہے تھے اور فاضل بریلوی بھی بڑی فراخ دلی سے عشق رسولﷺ اور محبت نبیﷺ کے جام بھر بھر کر لٹا رہے تھے۔ ہر کسی کو اپنی اپنی طلب اور حیثیت کے مطابق نوازا جارہا تھا۔ جس کسی کی طبیعت میں جس طرف کا رجحان اور رغبت تھی، اسے اس سے زیادہ مالا مال فرمایا جارہا تھا۔
مثلاً حضرت مولانا امجد علی خان اعظمی علیہ الرحمہ کا مزاج مسائل دینیہ کی طرف زیادہ مائل تھا تو اعلیٰ حضرت کے سامنے زانوے تلمذ طے کرنے کے بعدصدر شریعہ ٹھہرے اور ایسے جامع شریعت کے جن کی بہار شریعت بلا مبالغہ فقہ حنفیہ میں فتاویٰ رضویہ کے بعد سب سے زیادہ مقبول ہوئی اور صرف مقبول ہی نہیں بلکہ دیگر معجم کتب سے بھی بے نیاز کردیتی ہے۔ کیونکہ فقہائے احناف کے تمام حوالہ جات سے مزین ہے۔
حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ کی طبیعت میں تبلیغ اسلام کا رجحان تھا۔ اعلیٰ حضرت کی ارادت و خلافت کے بعد ایسے مبلغ اعظم ٹھہرے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی آپ کو سفیر اسلام کا لقب دیا اور انہوں نے تمام دنیا یورپ،امریکہ،افریقہ اور مشرق بعید وغیرہ میں اسلام کے جھنڈے گاڑھے اور عظمت مصطفیﷺ کے ڈنکے بجائے اور حضور خاتم النبیینﷺ کی ختم نبوت کے منکرین کے پرچم سرنگوں کئے۔
مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ کا رجحان علوم قرآنیہ کی طرف تھا۔ اعلیٰ حضرت سے وابستگی کے بعد ایسے ممتاز قرآن ہوئے کہ آپ کی تفیسر خزائن العرفان اعلیٰ حضرت کے شہرہ آفاق ترجمتہ القرآن کنزالایمان شریف کا لازمی جزو بن گئی اور بقول تاج کمپنی اور دیگر ناشرین قرآن کے اداروں کے، پاک و ہند میں سب سے زیادہ طبع ہونے والی اور پڑھی جانے والی تفیسر ٹھہری۔
مولانا حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمہ کی طبیعت ہندوستان کے ہندو آریہ،دہریہ وغیرہ بدمذہبوں کے رد کی طرف مائل تھی۔ فاضل بریلوی سے وابستہ ہونے کے بعد فن مناظرہ میں ایسے یکتا ہوئے کہ شیر بشیہ اہل سنت ٹھہرے اور آپ کا نام ہی بے دینوں کی شکست کے لئے کافی ہوتا تھا۔
اعلیٰ حضرت کے خلیفہ اکبر و سجادہ نشین حجتہ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان علیہ الرحمہ تو آپ کے حسن و جمال کے ایسے پرتو تھے کہ جہاں سے فقط کا گزر ہوتا تھا تو غیر مسلم صرف آپ کو دیکھ کر اتنے متاثر ہوتے کہ اسلام لے آتے۔
الغرض امام اہل سنت کی مرجع خلائق اور ہمہ جہت شخصیت نے جہاں کثیر تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا ہے‘ وہاںآپ کے تلامذہ و خلفاء کی بھی ایک کثیر تعداد ہے۔ جنہوں نے پورے برصغیر پاک و ہند اور پنجاب و سندھ میں آپ کی تحریک فروغ عشق مصطفیﷺ کے مشن کوپروان چڑھایا۔ بقول محقق عصر علامہ ڈاکٹر محمد مسعود احمد ایم اے پی ایچ ڈی گولڈ میڈلسٹ، امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے خلفاء کی تعداد پچاس سے تجاوز ہے جن میں نمایاں مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان نوری ، ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری ‘ پروفیسر سید محمد سلیمان اشرف علی گڑھ یونیورسٹی‘ علامہ سید محمد محدث کچھوچھوی، مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات اورآپ کے والد ماجد علامہ سید دیدار علی شاہ صاحب الوری (جنہیں غازی علم الدین شہید کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی) مولانا عبدالسلام جبل پوری اور مفتی برہان الحق جبل پوری وغیرہ رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین، خلفائے اعلیٰ حضرت میں ایک بات قابل مشترک تھی اور وہ تھی تحریک پاکستان کی حمایت اور کانگریس کی مخالفت اور اس میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلم لیگ اور قائد اعظم رحمتہ اﷲ علیہ کا ساتھ دیا۔
مجھے اس وقت ذکر کرنا ہے فاضل بریلوی کے محبوب خلیفہ و مرید فنا فی الرسولﷺ،فدائے مدینہ، عاشق طیبہ اور مدفون مدینہ المنورہ، قطب مدینہ حضرت مولانا الشاہ ضیاء الدین احمد القادری مدنی نور اﷲ مرقدہ کا جوکہ اپنے پیر و مرشد کے جذبہ عشق و محبت رسولﷺ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بعد از زیارت مدینہ شریف کے،یہاں سے واپس جانا گوارا نہیں کیا۔ سرکار دوعالم سید العالمین حضور تاجدار مدینہﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ عاجزانہ التماس کی۔ یار سول اﷲﷺ! اب اپنے در اقدس سے جدا نہ کیجئے اور مزید عرض کی۔
رو رو کے یہاں پہنچا مر مر کے اسے پایا
چھوٹے نہ الٰہی اب در سنگ جاناناں
تو آپ کی گزارشات کو شرف قبولیت سے نوازا گیا اور آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا و آخرت میں مدینہ النبیﷺ کی سکونت سے سرفراز فرما دیا گیا۔ اﷲ اﷲ کیسی خوش قسمتی اور اعلیٰ بخشی ہے جس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔
تجھ سے تجھی کو مانگ کر پالیا سب کچھ ہم نے
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد
۔1915ء میں جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو اس وقت برصغیر پر انگریز قابض تھے اور حجاز مقدس میں حرمین شریفین کی خدمت کی سعادت ترک حاصل کررہے تھے۔ ظاہری طور پر اب کی طرح تیل اور دولت کی فراوانی نہیں تھی۔ لوگ تنگدستی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن محبت و خلوص کا یہ عالم تھا کہ اگر بازار میں ایک دکاندار کے پاس دن میں دو چار گاہک آجاتے اور اس کے پڑوسی دکان والے کے پاس کوئی گاہک نہ آتا تو بعد میں آنے والے گاہک کو دکاندار یہ کہہ کر ساتھ کی دکان والے کے پاس بھیج دیتا کہ بھئی الحمدﷲ صبح سے میری کافی آمدنی ہوچکی ہے جبکہ میرا وہ بھائی ابھی تک فارغ بیٹھا ہے۔ لہذا آپ ان کے ہاں چلے جایئے۔ اﷲ اﷲ کیسے مخلص لوگ تھے اور کیسا بابرکت وقت تھا۔
۔1294ھ بمطابق 1877ء میں سیالکوٹ کے علاقہ کلاس والا میں آپ کی ولادت ہوئی۔ مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمہ آپ کے جد امجد تھے‘ جنہوں نے سب سے پہلے حضرت شیخ احمد سرہندی نقشبندی علیہ الرحمہ کو مجدد الف ثانی کا لقب دیا جوکہ بعد میں آپ کے اسم گرامی کا لازمی جزو بن گیا۔ کچھ ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے گائوں میں حاصل کی پھر مولانا غلام قادر بھیروی کے مکتب میں لاہور داخل ہوئے۔ تکمیل درس نظامی 1315ھ بمطابق 1898ء میں کی۔ جبکہ دورہ حدیث پیلی بھیت (یو پی) میں اس وقت کے معروف محدث حضرت علامہ وصی احمد سورتی علیہ الرحمہ کے ہاں مکمل کیا۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے آپ کے روابط اسی دوران ہوئے، کیونکہ محدث سورتی امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے عقیدت مند تھے اور ہر جمعرات کو بریلی شریف جایا کرتے تھے۔ اور جمعہ کی نماز کے بعد واپسی ہوتی جبکہ مولانا مدنی بھی اپنے محدث استاد کے ساتھ جایا کرتیٖ اس وقت سے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے جذبہ عشق رسالت مآبﷺ سے ایسے متاثر ہوئے اور اعلیٰ حضرت کی عقیدت و محبت کا آپ پر ایسا رنگ چڑھا کہ پھر آپ نے انہی کا طریقہ اختیار کیا۔ اعلیٰ حضرت کو آپ نے مسلسل کئی سال تک قریب سے دیکھا اور آپ کو بے لوث و مخلص پایا تو آپ نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے ارادت کی درخواست کی۔ فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے آپ کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے آپ کو ارادت و خلافت و اجازت سے نوازا۔ بعد فراغت و اجازت بریلی شریف سے براستہ کراچی ہوتے ہوئے بغداد شریف کے لئے 1318ھ بمطابق1900ء روانہ ہوئیٖ 1915ء تک کا عرصہ آپ بغداد شریف میں رہے اور حضور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دربار کی دربانی کی۔
اس دوران آپ پر جذب کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اس وقت وہاں ایک طویل العمر بزرگ سید حسینی کردی علیہ الرحمہ نے آپ پر توجہ فرمائی اور آپ پر عالم ہوش میں واپس آئے تو آپ کو مدینہ شریف کی زیارت کا اشتیاق پیدا ہوا۔ جس کا آپ نے اپنے محسن سید حسینی کردی علیہ الرحمہ سے اظہار کیا تو انہوں نے کچھ نصیحتوں کے ساتھ آپ کو مدینہ عالیہ جانے کی اجازت عطا فرمائی کہ ضیاء الدین احمد ہر حال میں اس شہر مقدس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا،وہاں ذرا سی لغزش سے ساراسفر برباد ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ مدینہ پاک آمد کے بعد آپ اس شہر معطر و منور کے جلوئوں میں ایسے گم ہوئے کہ پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے اور واپسی کا نام تک نہ لیا۔ سرکار غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کی نگاہ کرم اپنے پیر و مرشد اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے روحانی فیض اور سید حسینی کردی علیہ الرحمہ کی دعائوں کا ثمر تھا کہ آپ نے ہمیشہ مدینہ منورہ کے آداب اور فضیلت و حرمت کوملحوظ نظر رکھا اور اسی پر عمل پیرا رہیٖ سوائے حج کے مواقع کے اور دیگر چند ایک اہم شرعی ضرورتوں و مجبوریوں کے آپ کبھی بھی مدینہ پاک سے باہر نہیں گئے اور اسی در کے ہورہے۔
راقم الحروف فقیر شیر زمان القادری 1979ء میں پہلی مرتبہ حجاز مقدس کی زیارت سے بہرہ ور ہوا۔ سعودیہ کے شہر تبوک میں ملازمت کے سلسلہ میں وہاں پر مغربی جرمنی کی معروف کمپنی فلیپ ہولزمان میں بطور کرین آپریٹر جاب ملی، جبکہ کرین کا یہ کام کراچی میں پاکستان اسٹیل ملز میں سیکھا تھا۔
تبوک مدینہ منورہ سے سات سو کلومیٹر دور اردن اور شام کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اپنی کار تھی اور مہینہ میں ایک بار مدینہ پاک کی زیارت ہوجایا کرتی تھی۔ بعد از زیارت حرم نبوی شریف،حضرت قطب مدینہ کی بارگاہ میں بھی حاضری ہوتی۔ اس وقت تک فقیر ابھی تک کسی شیخ طریقت سے بیعت نہیں ہوا تھا۔ اور نمود ونمائش کو دیکھ کر کسی جگہ دل بھی نہیں لگتا تھا کہ پشاور کے ایک مہربان سید صاحب نے ایک طویل استخارہ اس مشکل کے حل کے لئے تجویز کیا اور احقر نے فوراً اس پر عمل کیا تو رحمت خداوندی کو جوش آیا اور حضور تاجدار کائنات ﷺ کے لطف و کرم اور حضور غوث الثقلین محبوب سبحانی قطب ربانی پیران پیر دستگیر محی الدین ابو محمد سیدنا سید شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی علیہ الرحمہ سرکار کے سلسلہ عالیہ قادریہ میں سیدی قطب مدینہ کے ذریعے و توسط سے داخلہ ملا۔ بیعت کے وقت سیدی قطب مدینہ علیہ الرحمہ نے شریعت پر پابندی کا درس دیا۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے۔ طریقت شریعت کے طابع ہیں۔
شریعت کو سختی سے پکڑنے والا سب فتنوں سے محفوظ اور منزل کا راہی ہوجاتا ہے اور مخالف شریعت گمراہی کے گڑھوں میں گر جاتا ہے۔ یہی ہمارے مشائخ و اسلاف کا طریقہ ہے۔
معروف دانشور‘ مفکر‘ صحافی‘ مذہبی اسکالر اور صاحب تصنیف صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی مرحوم جب پہلی مرتبہ حرمین شریفین کی زیارت سے بہرہ ور ہوئے تو واپسی پر فرمانے لگے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری عمر کتنی ہے تو بلا مبالغہ عرض کروں گا کہ دس دن۔ پوچھنے والا بولے گا کہ جناب آپ لگتے تو پچاس برس کے ہیں ظاہری طور پر لیکن اپنی عمر صرف دس دن بتا رہے ہیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ ہاں واقعی ہی عمر تو میری اتنی ہی ہے لیکن حالت حیات صرف دس وہ دن ہیں جوکہ دیار حبیبﷺمیں گزار آیا ہوں۔ باقی تو سب اس آرزو میں ہے یا جستجو میں۔ اﷲ اﷲ آپ اندازہ لگایئے اس عاشق رسولﷺ کا جس نے اپنی عمر کے پچھتر سال اس مقدس سرزمین پر اس ادائے ناز اور آداب و احترام کے ساتھ گزارے کہ بڑے بڑے مفسر‘ محدث ‘ فقیہ علماء دین اور مشائخ عظام ان پر رشک کرتے تھے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
سیدی قطب مدینہ کی حیات عشق رسولﷺ اور آداب و احترام مدینہ سے مرقوم اور استقامت فی الدین سے عبارت ہے۔ بڑے بڑے واقعات سے بھی آپ کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش نہ ہوئی۔ مختصر اس مقالہ میں ایک صدی سے زیادہ آپ کی طویل حیات مبارکہ‘ حالات و واقعات اور کرامات کا احاطہ ناممکن ہے۔ سرکار کی بارگاہ میں مقبول ہونے‘ برکت کے لئے ایک واقعہ پر اکتفا کرتاہوں۔
کراچی کے ایک صاحب جب پہلی مرتبہ مدینہ منورہ کی حاضری سے فیض یاب ہوئے تو بارگاہ بیکس پناہﷺ میں جہاں اور اپنی ڈھیر ساری گزارشات عرض کیں‘ وہیں یہ عرضی بھی پیش کی کہ یارسول اﷲﷺ ابھی تک کوئی شیخ کامل نہیں ملا۔ سرکار کرم فرمائیں تاکہ مخلص پیر کی بیعت کرلوں‘ کہیں بن مرشد کے موت ہی نہ آجائیٖ بس پھر کیا تھا۔ اسی رات سوئے تو بظاہر تو سوگئے لیکن درحقیقت قسمت بیدار ہوگئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو جہاں کے سردار سرکار ابد قرارﷺ حرم نبوی شریف میں جلوہ افروز ہیں اور باب مجیدی کے دروازے سے آپﷺ باہر تشریف لاتے ہیں کہ سامنے سے مولانا مدنی دوڑتے ہوئے آتے ہیں اورآپ کے قدمین مبارک سے لپٹ کر رو رو کر عرض کرتے ہیں کہ آقا آپ نے کیوں تکلیف فرمائی۔ حکم دیتے تو غلام حاضر خدمت ہوجاتا۔
اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جس شخص پر آقاﷺ اتنے مہربان ہیں کہ اسے نوازنے کے لئے خود تشریف لاتے ہیں تو یہ اس کی قرب بارگاہ کی دلیل ہے۔ اس سے بیعت کرنی چاہئے۔
جب تک بکے نہ تھے تو کوئی پوچھتا نہ تھا
آقا تم نے خرید کر مجھے انمول کردیا
آپ کا آستانہ عالیہ مصر،شام،ترکی،یمن،اردن،برصغیر اور دیگر بلادِ اسلامیہ اور پوری دنیا کے اہل شوق مسلمانوں کی آماج گاہ تھا اور آپ مدینہ المنورہ حاضری دینے والے مہمانان رسولﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ آپ کے ہاں حاضری دینے والوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مختلف مواقع پر حاضر ہوکر آپ سے فیض یابی بھی پائی اور خراج عقیدت بھی پیش کیا جن میں:۔
امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان نوری ، محدث اعظم کچھوچھوی ،حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارک پوری ، مجاہد ملت مولانا حبیب الرحمن الہ آبادی ، شیخ الحدیث مولانا شریف الدین امجدیک، فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی ، شیخ القرآن مولانا عبدالغفور ہزاروی ، علامہ عارف اﷲ شاہ قادری (راولپنڈی)، سابق ایم این اے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفی الازہری( کراچی)، سابق ایم این اے مولانا سید محمد علی رضوی( حیدرآباد)، مفتی محمد حسین قادری ( سکھر)، مفتی تقدس علی خان (پیر جوگوٹھ، سندھ)، مفتی اعظم پاکستان علامہ سید ابوالبرکات قادری( لاہور)، مفتی ظفر علی نعمانی( کراچی)،مفتی وقار الدین قادری( کراچی) مفسر قرآن علامہ سید ابوالحسنات قادری ( لاہور)، علامہ فیض احمد اویسی(بہاولپور)،علامہ منظور احمد فیضی ( احمد پور شرقیہ)،خواجہ قمر الدین سیالوی ، علامہ ارشد القادری( انڈیا)، پیر صاحب تونسہ شریف حضرت نور جہانیاں ( چشتیہ شریف)پیر سید افضل حسین ( علی پور شریف) مولانا سید نور محمد قادری( گجرات)حافظ محمد عالم ( سیالکوٹ) ابوالنور مولانا محمد بشیر (کوٹلی لوہاراں)مولانا ابو داؤد محمد صادق( گوجرانوالہ) مولانا ابراہیم خوشتر صدیقی( افریقہ)، خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی ( کراچی)، خواجہ محمد عبداﷲ جان سرہندی (پشاور) ،قاری مصلح الدین صدیقی( کراچی)،جسٹس مفتی سید شجاعت علی قادری (کراچی)، علامہ سید سعادت علی قادری( ہالینڈ) اور معروف ڈاکٹر حمید اﷲ (پیرس )شامل ہیں۔
آپ کے خلفاء کی بھی ایک طویل فہرست ہے جوکہ پاک و ہند، بنگلہ دیش،یورپ و امریکہ و افریقہ میں خدمت اسلام اور اہل سنت و الجماعت کی ترویج و ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔
رحمتوں، برکتوں اور حرمت والے مہینہ ذوالحجہ کا پہلا جمعہ،ادھر حرم نبوی شریف سے موذن نے جمعہ کی اذان بلند کی اور جب حی الصلوٰۃ پر پہنچا تو ادھر اس عاشق صادق نے جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ انتقال سے چند لمحے قبل آپ کی زبان سے یہ الفاظ سنے گئے کہ:’’ حضور ضعیف ہوگیا ہوں،آپ کی تعظیم کے لئے اٹھ نہیں سکتا، ان مہمانوں کے لئے جگہ چھوڑ دو، یہ خضر علیہ السلام ہیں، یہ ہمارے غوث اعظم آئے ہیں، اور یہ میرے اعلیٰ حضرت تشریف لائے ہیں اور پھر زبان پر کلمہ شریف جاری ہوگیا۔ ان ﷲ وانا الیہ راجعون
آپ کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن علیہ الرحمہ اس عظیم صدمہ کے موقع پر صبر واستقامت کا کوہ گراں ثابت ہوئے۔ اور تمام مراحل بہ احسن و خوبی نبھائے۔ جمعہ شریف کے دن ہی حرم نبوی شریف میں قدیمی محراب عثمانی میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ امامت کے فرائض علامہ سید محمد علی مراد شامی علیہ الرحمہ نے ادا کئے جوکہ آپ کے خلفیہ بھی تھیٖ بعد نماز جنازہ سرکار کے مواجہہ شریف میں جنازہ تھوڑی دیر برکت کے لئے رکھا گیا اور پھر قدمین شریفین ہوتا ہوا بقیع شریف میں اہل بیت رسولﷺ کے قدموں میں دفن کردیا گیا۔ آپ کی وصیت تھی کہ مجھے اہل بیت کے قدموں میں ڈال دینا پھر میں خود ان کے قدموں سے لپٹ جاؤں گا جبکہ چند قبروں کے فاصلے پر آپ کے پیر بھائی مولانا عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمہ بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے قدموں میں آرام فرما ہیں۔
دیگر آپ کی وصیت یہ بھی تھی کہ میرے جنازے کے ساتھ سرکار ابدقرار کی شان میں کہا گیا اعلیٰ حضرت کا نعتیہ وہی قصیدہ پڑھا جائے جو اعلیٰ حضرت کی وصیت کے مطابق اعلیٰ حضرت کے جنازہ کے ساتھ پڑھا گیا تھا۔ یعنی
کعبہ کے بدر الدجیٰ تم پر ہوں کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضحی تم پر ہوں کروڑوں درود