ریحانِ ملت علامہ ریحان رضا خاں رحمانی میاں علیہ الرحمہ

(ولادت: ۱۹۳۴ء -وصال: ۱۹۸۵ء)


نام و نسب:

ریحان ملت مولانا شاہ مفتی ریحان رضا خاں قادری رضوی بن مفسر اعظم ہند مفتی ابراہیم رضا خاں رضوی بن حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خاں رضوی بن امام احمد رضا خاں قادری برکاتی بریلوی۔

تعلیم و تربیت:

ابتدائی تعلیم والدہ ماجدہ سے گھر میں حاصل کی۔ پھر دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لیا۔ کتب متوسطات پڑھنے کے بعد والد گرامی حضرت مفسر اعظم ہند کی اجازت سے حضرت محدث اعظم ہند پاکستان علامہ سردار احمد رضوی کی بارگاہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے پاکستان تشریف لے گئے۔ تین سال تک منتہی کتب بڑی مستعدی کے ساتھ آپ نے پڑھی اور جامعہ رضویہ منظراسلام بریلی شریف سے جمادی الاولیٰ۱۳۷۵ ھ ؍مارچ ۱۹۵۵ء میں باضابطہ دستار فضیلت اور سند فراغت سے نوازے گئے۔

اساتذہ کرام:

حضور مفتی اعظم ہند شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی، حضور مفسر اعظم ہندشاہ ابراہیم رضا خاں بریلوی، حضرت محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد رضوی لائلپوری، حضرت بحرالعلوم محدث احسان علی مظفرپوری۔

بیعت و خلافت :

آپ کے جد امجد حضرت حجۃ الاسلام (۱۹۴۳ءم) نے صرف پانچ سال کی عمر میں داخل سلسلہ فرماتے ہوئے خلافت بھی عطا فرما دی تھی۔ والد گرامی حضرت مفسر اعظم ہند، نانا جان حضرت مفتی اعظم ہند، قطب مدینہ حضرت مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی (۱۴۰۱ھ) سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔

تدریسی خدمات :

آپ نے جامعہ رضویہ منظراسلام میں تدریسی خدمات انجام دی ہے۔ طلبا کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھایا کرتے تھے۔ طلباء آپ کے درس سے مطمئن رہا کرتے تھے۔ آپ کی بارگاہ سے تعلیمی زیورسے آراستہ ہوکر علوم نبویہ کے طالبان اس وقت مشرق و مغرب میں خدمت دین ومسلک میں مصروف عمل ہیں۔ جن میں چند کے اسماء گرامی یہ ہیں:

حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی اختر رضا خاں بریلوی

حضرت قاضی عبدالرحیم بستوی

علامہ سید محمد عارف رضوی نانپاروی

حضرت مولانا منان رضا خاں منانی میاں

مولانا راشد القادری

مولانا شاہ صوفی عبدالصمد رضوی وغیرہ۔

خلفاء:

علامہ عبدالحکیم شرف قادری (پاکستان)

مولانا توصیف رضا خاں بریلوی

مولانا سبحان رضا خان بریلوی

 سید ضیاء الحسن جیلانی (پاکستان)

سید اسدعلی رضوی

مولانا مختار احمد بہیڑی (بریلی شریف)

محاسن وکمالات:

حضور مفسر اعظم ہند علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد نہ صرف سجادہ عالیہ رضویہ کی زینت اور جائداد موقوفہ کے متولی بنے بلکہ جامعہ رضویہ منظر اسلام کے شیخ الحدیث اور مہتمم بھی بنے۔ آپ کی شخصیت سیاسی دنیا میں بھی ممتاز رہی۔ صوبہ اترپردیش کی مجلس قانون ساز کے ممبر بھی رہے۔ مگر اپناتصلب و تشخص ہر طرح سے برقرار رکھا۔ جامعہ جب مالی بحران کاشکارہواتو آپ نے اپنے گھر کے ساز وسامان کوفروخت کرکے اساتذہ کی تنخواہیں اورطلباء کاخرچ چلایا جب گھریلو سامان بک گئے تولوگوں سے قرض لے کر مدرسہ کی ضروریات کی تکمیل فرماتے تھے ۔ مالی خستہ حالی کے سبب فتح گنج فیکٹری میں ملازمت کرنی پڑی۔جب مالی پریشانیوںسے نجات ملی تو پھر جامعہ میں درس وتدریس کاسلسلہ شروع کیا۔ سلسلہ رضویہ کو فروغ دینے کے لئے غیرملکی اسفار کئے جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا ،نیپال ، افریقہ، ہالینڈ،برطانیہ قابل ذکر ہیں۔

وصال:

۱۸؍ رمضان ۴۰۵اھ /۱۹۸۵ء میںانتقال ہوا۔ حضور اعلیٰ حضرت اورحضور حجۃ الاسلام کے مزار کے درمیانی حصہ میں آخری آرام گاہ بنی۔

Menu