حضرت علامہ ارشد القادری


ایسے تو دنیا میں بہت سے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں مگر چند ہی لوگ ہیں جو اپنی غیر معمولی صلاحیت ، بے لوث دینی خدمات اور اچھے اخلاق و کردار کی وجہ سے بعد از وصال بھی لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ انہی میں ایک ذات بابرکات مناظر اسلام بانی مدارس و مساجد کثیرہ حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ ہیں۔

نام و نسب:

غلام رشید ارشد القادری بن مولانا شاہ عبد اللطیف رشیدی۔

پیدائش :

علامہ ارشد القادری 5/ مارچ 1925ء کو سید پور، ضلع، بلیا، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم گھر پر والد ماجد سے ہی حاصل کی. 1944ء جامعہ اشرفیہ مبارکپور عربی یونی ورسٹی (یوپی) سے درس نظامی مکمل کیا، آپ کے اساتذہ کرام میں خصوصیت کے ساتھ حافظ ملت حضرت علامہ عبدالعزیز محدث مبارک پوری، مولانا محمد سلیمان بھاگلپوری، مولانا عبدالمصطفی ازہری اور مولانا ثناءاللہ کے اسما قابل ذکر ہیں۔

بیعت و طریقت:

خلیفہ اعلی حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے کی۔ اجازت و خلافت خلیفہ اعلیٰ حضرت قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین احمد مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور سرکار پٹنہ حضرت فدا حسین سے ملی۔

آپ نے ہندستان کی عظیم درسگاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور عربی یونی ورسٹی میں جلالۃ العلم حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ ا لرحمہ (حافظ ملت )کی بارگاہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنی پوری زندگی قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لیے وقف کردی تھی۔ آپ قوم و ملت کے سچے رہ بر اور ہم درد تھے. ہر لمحہ قوم و ملت کی فلاح و بہبودی کے لیے کوشاں رہتے تھے، ان کی ترقی کے لیے ہمہیشہ جد و جہد کرتے رہتے تھے. اگر قوم و ملت پر کوئی دقت یا پریشانی آتی تو آپ خود پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ آپ کا ہر ہر قدم ملت کی اصلاح اور دین اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے اٹھتا اور ہر لمحہ ملت کی ہی فکر لگی رہتی۔ آپ امت مسلمہ کو باہم متحد و متفق دیکھنا چاہتے تھے کیوں کہ انھیں اپنے استاذ حضور حافظ ملت کی بارگاہ سے علم و حکمت کے ساتھ یہ انمول موتی بھی ملا تھا کہ ’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ہے‘‘ یہی وجہ تھی کہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کی دیوار میں نقب زنی کرنے والوں سے ہمیشہ بر سر پیکار رہے اور جماعت اہل سنت کو باہم متحد رکھنے کے لیے ہمیشہ جد و جہد کرتے رہے. اور اس سلسلے میں جو بھی سامنے آیا علامہ موصوف نے بھرپور مقابلہ کیا۔

جیسا کہ ہم عصر خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی کو ان کی کوتاہیوں کا احساس دلاتے ہوئے ادبی پیرائے میں اپنے خط کے ذریعے بیدار کرتے ہیں کہ ’’زحمت نہ ہو تو شہرت و برتری کے عرش سے نیچے اتر آئیے تاکہ ہم خاکساران گوشۂ گمنامی آپ سے کچھ باتیں کرسکیں. خوش گوار لب و لہجہ میں جناب سے التماس کررہاہوں کہ ’’مسلم متحدہ محاذ‘‘جو ہماری ہمت اور عزم کا آخری پیمان ہے اس کی طرف غفلت و سرد مہری ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ یا تو اس قدم پر آپ کو حق رفاقت کی ادائیگی سے اپنی دست برداری کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔ یا اب آپ بیچ منجدھار میں چھوڑ کر ساحل کا لطف اٹھا رہے ہیں. حلیفوں کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنا مرگ ننگ سے کم نہیں ہے. میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آپ کی صلاحیتوں سے ہماری توقعات وابستہ تھیں. انھیں انتہائی بے دردی کے ساتھ آپ نے کچل دیا. بے چارگی کے عالم میں مبادا ہماری ہمتوں نے دم توڑ دیا توآپ منھ چھپانے کے لیے نا مرادیوں کا کوئی مدفن تلاش کرلیجئے گا۔

آپ کی مصلحت انگیز فراست پر کیا حرف رکھ سکتا ہوں آپ کی بارگاہ بہت اونچی ہے مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ انفرادی اعزاز کی قیمت پر جماعت کی آبرو کو بھینٹ چڑھا دینا کسی طرح بھی قرین مصلحت نہیں ہے۔ کاش! میرے قلم سے آتش سیال کے قطرے ٹپکتے اور میں آپ کے حریم ناز تک اپنے دل رفتہ وار کی تپش پہنچا سکتا۔ میرے پیارے! مرگ انبوہ جشنے دارد۔ وقت آگیا ہے ایک ساتھ اٹھیں اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایمان و اعتقاد کی ہلاکتوں پر فتح پانے کی کوشش کریں۔ میں اپنی اس تلخ تاب تحریر پر آپ سے کوئی معذرت نہیں کرتا کہ اگر صور اسرافیل مجھے مستعار ملی ہوتی تو آپ کی بیداری کے لیے ہنگامۂ محشر برپا کردیتا‘‘ ۔( خط بنام مولانا مشتاق احمد نظامی محررہ 28 نومبر 1986ء بہ حوالہ جام نور کا رئیس القلم نمبر صفحہ نمبر 72 )

علامہ ارشد ا لقادری اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ خوابیدہ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور دینی و ملی شیرازہ بندی کے لیے تنظیم و تحریک کی اہمیت و افادیت نا گزیر ہے. کیوں کہ جو قوم جتنی منظم اور مربوط ہوگی تعمیر و ترقی کے میدان میں وہ اسی قدر ترقیاں کرکے مضبوط و مستحکم ہوگی. جیسا کہ آج سیکڑوں باطل نظریات کی حامل تنظیمیں اور تحریکیں ترقی کی شاہ راہ پر گام زن ہیں. اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے نظام عمل میں کسی قسم کی کوتاہی کو دخیل نہیں ہونے دیتیں. جب کہ ’’جماعت اہل سنت کے درمیان تنظیمی لا مرکزیت اور دستوری قیادت کے فقدان کا ماتم ایک عرصۂ دراز سے کیا جارہا ہے یہاں تک کہ اب ہماری سنجیدہ محفلوں کا موضوع سخن بن گیا ہے. جہاں تک جماعتی شیرازہ بندی کے لیے کوشش کا تعلق ہے ہمارے اکابر نے متعدد بار اس کے لیے کوشش فرمائی. ملک کے طول و عرض سے جماعت کے ذمہ دار رہ نما بھی جمع ہوئے ہیں. پرجوش امنگوں کے سائے میں کل ہند سطح پر جماعتوں کے تنظیمی ڈھانچے بھی تیار کیے گئے لیکن ساری جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے کل ہند سطح پر کئی تنظیمیں ہمارے یہاں معرض و جود میں آئیں اور کوئی تنظیم بھی اپنے لیٹر پیڈ، اپنے سائن بورڈ اور اپنے مخصوص حلقے سے آگے نہ بڑھ سکی ( ماہنامہ پاسبان الہ آبا دستمبر 1979ء)

اس لیے مضبوط و مستحکم تنظیم کی بنا قائد اہل سنت علما و مشائخ اہل سنت کے ساتھ خصوصاً مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی اور پیر طریقت معروف نوشاہی سے تباد لہ خیال کے بعد مکۃ المکرمہ میں ایک عالمی تنظیم ’’الدعوۃ ا لاسلامیۃ ا لعالمیۃ‘‘ کی 1972ء میں بنیاد ڈالی جس کا ہیڈ آفس متعدد سہولتوں کے پیش نظر انگلستان کا مشہور شہر بریڈ فورڈ نام زد کیا گیا جو ’’ورلڈ اسلامک مشن لندن ‘‘ کے نام سے دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں اسلام کی نمائندگی کرتی رہی ہے اور فی الوقت اس تنظیم کے جنرل سکریٹری علامہ قمر الزماں اعظمی مصباحی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ ہیں جو عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کا مقدس فریضہ انجام دے رہے ہیں. ماضی میں اور بھی بہت سے بین الاقوامی مسائل کے حل اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی اس مشن کے ذمہ داروں نے علامہ ارشد ا لقادری کی قیادت میں تبلیغی سفر کیے. چنانچہ 28 دسمبر 1982میں سر زمین ایران پر بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی اور یہاں پر اقلیت میں موجود سنی مسلمانوں کے حالات کا جائزہ لیا توان کی پریشانیوں کو دیکھ کر آپ بے تاب ہو گیے اور پوری دنیا میں ان کی پریشانیوں کے خاتمے کے لیے پیغام پہونچایا ’’اس وقت ایران میں مذہب اہل سنت جس نزع کے عالم میں ہے اگر فوری طور پر اس کی رگوں میں خون فراہم نہیں کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ دس پندرہ سال میں سنی مذہب ایران سے ختم ہوجائے گا۔ تہران جہاں پانچ لاکھ سنی مسلمان آباد ہیں، انہیں آج تک اپنی مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ملی جب کہ وہاں عیسائیوں کے بارہ گرجے، ہندوں کے دو مندر، سکھوں کے تین گرودوارے، یہودیوں کے دو عبادت خانے اور مجوسیوں کے دو آتش کدہ ہیں لیکن سنیوں کی ایک مسجد بھی نہیں ہے جہاں جاکر نماز پڑھ سکیں۔

ذیل کی تحریروں سے بھی علامہ کی تنظیمی سر گرمیوں کا پتا چلتا ہے. چنانچہ سید محمد جیلانی میاں کو وہ برطانیہ سے ارسال کردہ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’ورلڈ اسلامک مشن کی ایک مہم پر کویت جا رہاہوں۔ وہاں سے عراق، شام، سعودی عرب اور ترکی کا پروگرام ہے۔ حکومت برطانیہ کے محکمۂ تعلیم اسلامک مشینری کالج کی منظوری آخری مرحلے میں ہے ( ماہنامہ المیزان بابت اگست 1975ء ص 4) رضا اکیڈمی ممبئی الحاج سعید نوری صاحب کو لکھتے ہیں. آج میں پندرہ دن کے دورے پر ڈھاکہ بنگلہ دیش جارہا ہوں وہاں ااہل سنت کا بین الاقوامی اجتماع ہو رہاہے اس کے بعد ( تنظیم کا ) پورے بنگلہ دیش کے طول و عرض میں مربوط پروگرام ہے (محررہ 10 فروری 1992ء بحوالہ ارشد کی کہانی ارشد کی زبانی ص 31) پروفیسر فاروق احمد صدیقی کو ارسال کردہ اپنے ایک مراسلے میں لکھتے ہیں 5 اکتوبر 1986 کو لیبیا اور برطانیہ کے دورے سے واپس لوٹا تو آپ کا دستی خط موصول ہوا (محررہ خط 12 / نومبر 1986ء سہ ماہی رفاقت پٹنہ۔)

آپ کے قائم کردہ تعلیمی وملی ادارے:

جامعہ فیض العلوم جمشید پور، جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء دہلی کے علاوہ پوری دنیا میں کئی درجن تعلیمی، ملی اور فلاحی ادارے قائم کئے۔

مساجد کا قیام:

فیض العلوم مکہ مسجد جمشید پورکے علاوہ الحمدللہ آپ کے ہاتھوں ملک اور بیرون ممالک درجنوں مساجد کی بنیادیں رکھی گئیں۔

آپ کی تصنیفات:

زلزلہ، زیروزبر، لالہ زار کے علاوہ بھی موصوف دیگر کتابوں کے مصنف ہیں۔

خانوادہ اعلٰی حضرت سے آپ کی بے پناہ محبت:

استاذ محترم حضرت مفتی محمد عابد حسین مصباحی ( شیخ الحدیث جامعہ فیض العلوم جمشید پور و قاضی جھارکھنڈ) حیات علامہ سبطین رضا میں رقم طراز ہیں ” قائد اہلسنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ والرضوان ہمارے دیگر علما و مشائخ اہل سنت کی طرح بزرگوں سے کافی انسیت رکھتے تھے، وہ ان کا بے حد ادب و احترام بجا لاتے تھے، اس معاملے میں آپ کی شخصیت لائق اتباع ہے، کبھی راقم نے خود اپنی نظروں سے دیکھا اور بہت سے واقعات سننے کو ملے۔ انجمن فیضان ملت کی طرف سے دوسری بار جب امین شریعت مدعو ہوے، تو آپ کی تشریف آوری سے چند دن قبل علامہ موصوف نے ایک مجلس میں راقم الحروف سے دریافت فرمایا کہ حضرت علامہ سبطین رضا صاحب کو کس کمرے میں ٹھہراوگے، راقم نے جواب دیا: دوسری منزل کے اس کمرے میں جہاں شمس العلما حضرت مفتی نظام الدین الہ آبادی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث مدرسہ فیض العلوم رہتے تھے، حضرت علامہ نے فرمایا، “نہیں، بلکہ میرے اس کمرے میں ٹھہراؤ، کیونکہ وہ سیدنا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں اور خانوادہ اعلٰی حضرت پر سرکار مدینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نگاہ عنایت و کرم ہے، اس پر ان کا خاص فیضان ہے، اس لیے حضرت کی خاطر تواضع اور ادب واحترام میں کچھ کمی نہ ہو”. چنانچہ حضرت علامہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کی حویلی سے متصل ان کے حجرہ میں ہی راقم الحروف نے حضرت کے قیام کا انتظام فرمایا۔”
(حیات علامہ سبطین رضا)

تاریخِ وصال:

 علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 16 صفر المظفر1423ھ 29 اپریل 2002ء کو ہوا۔آپ کی آخری آرامگاہ جامعہ فیض العلوم (جمشیدپور) کے احاطے میں ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں اپنے بزرگان دین کے فیوض و برکات سے مالا مال فرماے۔آمین

ابر رحمت تیرے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

Menu