فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ


پیدائش:

۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۳ء میں ضلع ‘‘بستی (یوپی)’’ کی مشہور آبادی اوجھا گنج میں میری پیدائش ہوئی جو شہر بستی سے ۲۰ بیس کلو میٹر پچھم (مغرب) ‘‘فیض آباد روڈ’’ سے ۲ دو میل دکھن (جنوب میں) واقع ہے۔

نام و نسب:

جلال الدین احمد بن جان محمد بن عبدالرحیم بن غلام رسول بن ضیاء الدین بن محمد سالک بن محمد صادق بن عبدالقادر بن مراد علی۔ غَفَرَاللہُ لَھُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (اللہ عزوجل ان کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین)

خاندانی حالات:

آخر الذکر ضلع فیض آباد ‘‘بڑہر’’ علاقہ کے مشہور و معروف راجپوت خاندان کے ایک فرد تھے جو مراسنگھ کے نام سے یاد کئے جاتے تھے۔ وہ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر جب ایمان کی دولت سے سرفراز ہوئے تو مراد علی کہلائے۔ گھر والوں نے دباؤ ڈال کر اسلام سےبرگشتہ کرنا چاہا تو زمیں داری و تعلقہ داری چھوڑ کر ضلع فیض آباد کی مشہور مسلم آبادی ‘‘قصبہ شہزاد پور’’ میں سکونت اختیار کرلی جن کی اولاد کثیر تعداد میں آج بھی قصبہ مذکور میں آباد ہے۔ ان کی اولاد میں سے ضیاء الدین مرحوم بغرض تجارت ضلع بستی کے مختلف قصبہ اور بازار میں آتے رہے۔ اسی اثنا میں ‘‘اوجھا گنج’’ کے مسلمانوں سے تعلقات پیدا ہوگئے تو دوستوں کے مشورہ سے زمین خرید کر اسی آبادی میں مستقل اختیار کرلی۔

آباء و اجداد:

میرے داد ‘‘عبدالرحیم’’ نہایت سلیم الطبع، پاکباز اور عبادت گزار تھے جو عین جوانی میں انتقال کرگئے ان کے ایک بھائی عبدالکریم حاجی تھے جو زندگی پھر فی سبیل اللہ مسجد کی امامت کرتے رہے اور دوسرے بھائی عبدالمقیم تھے جو بہت متقی اور پرہیزگار تھے اور ‘‘رودھولی’’ کے قریب اپنے سسرال میں رہتے تھے۔ انتقال کے چھ ماہ بعد پانی کے بہاؤ سے متاثر ہوکر ان کی قبر کھل گئی ترو تازہ تھی اور کفن بھی میلا نہ ہوا تھا۔

میرے والد ‘‘جان محمد’’ مرحوم ایک عرصے  تک اپنے گھر فی سبیل اللہ بچوں کو مذہبی تعلیم دیتے رہے اور بابا عبدالکریم نے اپنی زندگی میں انہیں جامع مسجد کا امام مقرر کیا تو محض رضائے الہی کی خاطر بلا تنخواہ زندگی پھر پابندی کے ساتھ نماز پنجگانہ اور جمعہ و عیدین کی امامت فرماتے رہے۔ بڑے متقی و پرہیز گار تھے آج بھی آبادی کے لوگ ان کےتقوی و پرہیزگاری کو یاد کرتے ہیں اور ان کا تذکرہ بڑے احترام سے کرتے ہیں۔

میری والدہ مرحومہ ‘‘بی بی رحمت النساء’’ ایک دیندار گھرانے کی لڑکی تھیں۔ بہت نمازی اور صبح تلاوتِ قرآن مجید کی بے حد پابند تھیں۔ ‘‘دعائے گنج العرش’’ اور ‘‘درود لکھی’’ ان کو زبانی یاد تھی، جن کو روزانہ بلا ناغہ پڑھا کرتیں۔ ۱۴ جمادی الاولی ۱۳۹۹ھ مطابق  ۱۲ اپریل ۱۹۷۹ء کو میں ان کےظاہری سایہ سے محروم ہوگیا۔ خدا تعالی ان کی قبرپر رحمت کے پھول برسائے ۔ انہوں نے میری تعلیم کےبارے میں جو کردار پیش کیا ہے اس کی مثال اس زمانہ میں ملنا مشکل ہے۔ میں ان کےبڑھاپے کا اکلوتا بیٹا تھا اور پہلی بار جب میں ‘‘ناگپور’’ گیا تو ڈھائی سال کے بعد آیا اس درمیان میں انہوں نے میرے پاس آنے کے بارے میں خط تک نہ لکھا تا کہ تعلیمی نقصان نہ ہو۔ فَجَزَ اھَا اللہُ تَعَالٰی خَیْرَ الْجَزَاءِ۔(اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے۔ آمین)

آغاز تعلیم:

عمر کے پانچویں سال میں اپنے والد کے شاگرد مولوی زکریا صاحب مرحوم جو اوجھا گنج ہی میں فی سبیل اللہ اپنے گھر ایک مکتب چلا تے تھے۔ ان سے قاعدہ بغدادی شروع کیا۔ ۱۳۹۵ھ مطابق ۱۹۴۰ء میں سات سال کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا تومولوی محمد زکریا صاحب مرحوم جو حافظ قرآن تو نہ تھے مگر حافظوں کے مثل ان کو قرآن مجید یاد  تھا انہیں سے میں نے حفظ پڑھنا شروع کردیا۔

تعلیم کا شوق اور حفظ قرآن کی تکمیل:

سات اٹھ سال کی عمر میں بھی مجھے پڑھنے کا اس قدر شوق تھا کہ صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے سخت سردی کے زمانہ میں بھی سب سے پہلے مکتب پہنچ جاتا تھا۔ ایک بارجل جانے کے سبب بائیں گھٹنے میں ایسا زخم ہوا کہ میں پاؤں سے چل کر مکتب نہیں جاسکتا تھا ایک پاؤں او دونوں ہاتھوں کی ٹیک سے چل کر برابر مکتب جاتا رہا ایک دن بھی ناغہ نہ کیا۔ بحمد ہ تعالی ثم بکرم حبیبہ الا علی ﷺ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۹۴۴ء میں صرف ساڑھےتین برس کے اندر ساڑھے دس سال کی چھوٹی سی عمرمیں حفظ مکمل ہوگیا بہت سے لوگ مجھے نابالغ حافظ کہتے اور میری کم سنی کے سبب دوسری آبادی کے لوگ مجھے پورا حافظ یقین کرنے میں تامل کرتے۔ بالغ ہونے کےبعد میں نے ۱۹۴۸ء میں سب سے پہلے ‘‘ناگپور’’ تراویح میں قرآن مجید سنایا۔ پھر ۱۹۶۵ء تک مختلف مقامات پر سناتا رہا۔ یہاں تک کہ شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب علیہ رحمۃ والرضوان کے مرید خاص الحاج سیٹھ حیات محمد صاحب مرحوم نے اپنی مسجد واقع حیات نگر، فارسی باڑی محلہ گھاٹ کو پر بمبئی میں زندگی بھر قرآن مجید سنانے کا وعدہ لے لیا جس میں ۱۹۶۶ء سے برابر تراویح پڑھا رہا ہوں۔

تعلیم کا پہلا سفر:

حفظ کی تکمیل کےبعد دور سنانے اور فارسی و عربی پڑھنے کے لیے میں نے ضلع فیض آباد کے قصبہ ‘‘التفات گنج’’ کا پہلا سفر کیا۔ کھانے کا بار پہلے ہمارے ایک رشتہ دار جناب نبی بخش مرحوم نے برداشت کیا۔ پھر سترہ روز ‘‘محلہ باغیچہ’’ کے اہل خیر حضرات کے یہاں جاگیر کھانے کےبعد ایک شخص نے مجھے بھائی بنا لیا۔ (افسوس کہ حدیث ‘‘لا تُجَالِسُوْھُمبد مذہبوں کی صحبت میں نہ بیٹھو’’ پر نہ عمل کرنے کے سبب وہ بعد میں گمراہ ہوگیا۔) میں اس کا کچھ کام بھی کردیا کرتا تھا اور صبح و شام پابندی کے ساتھ پڑھنے بھی جایا کرتا۔  چوں کہ حفظ کے دوران فارغ اوقات میں اردو لکھنا پڑھنا ہم نے خود سیکھ لیا تھا اس لیے التفات گنج میں حفظ کا دور سنانے کے ساتھ میں نے ‘‘فارسی آمد نامہ’’ شروع کردیا جسے مولوی عبدالرؤف صاحب نے پڑھایا اور بانی فیض الرسول شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی قبلہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پیر زادہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب سے  فارسی  کی چھوٹی بڑی بارہ ۱۲ کتابیں پڑھیں اور عربی تعلیم بھی انہیں سے حاصل کی۔

تعلیمی رکاوٹیں:

 ۱۳۶۳ھ اور ۱۹۶۴ء میں مسلسل ہمار ےگھر کئی حادثے پیش آئے جب میراحفظ قریب الختم تھا تو میرے نوجوان بھائی محمد نظام الدین جو گھر کا بار سنبھالے ہوئے تھے اچانک ۴/رمضان المبارک/ ۱۳۶۳ھ کو انتقال کر گئے۔ اس صدمہ سے گھر کے سب لوگ نیم جان ہوگئے۔ پھر آٹھ دس ماہ سے گھر میں دوبار ایسی چوری ہوئی کہ چوروں نے پانی پینے کے لیے گلاس تک نہ چھوڑا۔ پھر ۳۰ / رمضان المبارک/ ۱۳۶۴ھ مطابق۱۹۴۵ء کو موسلا دھار بارش کے ساتھ ہمارے والد کی چھتری پر ایسی بجلی گری کہ ساتھ کے آدمی فوراً مرگئے اور والد صاحب مرحوم اگر چہ بچ گئے مگر اتنے کمزور ہوگئے کہ زیادہ کام کے قابل نہ رہے۔ گھر کے سارے اخراجات کا باروالد ہی پر تھا کہ میرے علاوہ ان کا اور کوئی بیٹا نہ تھا۔ غربت و افلاس نے ہر طرف سے گھیر لیا مگر اس کے باوجود میری تعلیم کو انہوں نے بند نہ کیا۔ آخر مجھ سے گھر کی یہ تنگدستی دیکھی نہ گئی، تو ۱۳۶۵ھ مطابق ۱۹۴۶ء میں ‘‘التفات گنج محلہ باغیچہ’’ کے پرانے رئیس حاجی محمد شفیع صاحب مرحوم جو نہایت متقی، پرہیز گار، صبح تلاوت قرآن مجید کے پابند، شریف الطبع اور مدرسہ کے خزانچی  تھے، میں نے ان کے یہاں دس ۱۰ روپے ماہورار اور کھانے پر اس شرط کے ساتھ ملازمت کرلی کہ صبح و شام دو دو گھنٹے میں پڑھنے بھی جایا کروں گا اس طرح تقریباً ایک سال گزرا اور ہم نے التفات گنج کے مدرسہ کا موجودہ نصاب پورا کرلیا۔ اب گھر کےلوگ اور دوسرے متعلقین میری تعلیم بند کرنے اور مستقل طور پر کسی کام میں لگادینے کی باتیں کرنےلگے یہاں تک کہ والدین نے یہ مسئلہ میرےسامنے رکھا تو ان لوگوں کو میں نے اپنی تعلیم کے جاری رکھنے پر راضی کرلیااس لیے کہ میرے بڑے بھائی محمد نظام  الدین مرحوم نے انتقال سے پہلے کپا تھا کہ میری تمنا تھی کہ ‘‘میں نے تمہیں پڑھنے کے  لیے بریلی شریف بھیجتا اور تمہیں سوچتا کہ ‘‘لوگ مجھے حافظ کہتے ہیں مگر میں تو جاہل ہوں کہ جاہلوں کی طرح میں بھی مسئلہ  مسائل کچھ نہیں جانتا فرق صرف اتنا ہے کہ وہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھتے ہیں اور میں زبانی پڑھتا ہوں’’ اس لیے میں عالم ضرور بنوں گا۔

تعلیم کا دوسرا سفر:

اب مجھے ایسے مدرسے کی تلاش ہوئی کہ جہاں رات میں تعلیم ہوتی ہو اور وہ شہر میں ہوتا کہ میں رات کو پڑھوں اور شہر میں کوئی کام کرکے اپنے والدین کی خدمت بھی کرتا رہوں۔ معلوم ہوا کہ شہر ‘‘ناگپور(سی۔ پی)’’ میں رات کو تعلیم ہوتی ہے تو ۱۹۴۷ء کے ہنگامے کے فوراً بعد جب کہ ٹرین میں مسلم ڈبے مخصوص ہوتے تھے میں ناگپور پہنچ گیا۔ حضرت علامہ ارشدالقادری صاحب قبلہ مدظلہ العالی فاتح جمشید پور اس زمانہ میں ‘‘مدرسہ اسلامیہ شمس العلوم’’ کے صدر المدرسین تھے۔ صبح ۸ بجے سے ۱۲ بجے اور رات ۸ بجے سے ۱۰ بجے تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے۔ بیس پچیس لڑکے ان سے رات میں پڑھتے تھے۔ میں بھی بعد مغرب کھانے کےبعد پڑھنے کے لیے حاضر ہوجاتا اور گیارہ بارہ بجے رات تک پڑھتا پھر اپنی قیام گاہ پر آکر سوجاتا اور صبح سے شام تک کام کرتا جس سے پچیس تیس روپے ماہانہ اپنے والدین کی خدمت کرتا اور اپنے کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کا انتطام کرتا تو اس طرح ناگپور میں میری تعلیم کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔

شرف بیعت:

مجھے مسئلہ مسائل کے جاننے کا بڑا شوق تھا اس لیے  میں بچپن ہی سے ‘‘بہارشریعت’’ کا نام سنتا تھا اور فقہ حنفی کی اس عظیم کتاب کو دیکھ کر اس کے مصنف صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانا حکیم ابو العلا محمد امجد علی صاحب اعظمی قدس سرہ العزیز سے عقیدت رکھتا تھا۔ حضرت علامہ سے معلوم ہوا کہ حضرت صدر الشریعہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان کے خلیفہ ہیں تو ۲۹ جمادی الاولی ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۹۴۸ء کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ میں بھی حضرت سے مرید ہوکر سلسلہ رضویہ میں داخل ہوگیا۔

والد کا انتقال اور دینی خدمات کا آغاز:

ابھی میری تعلیم کا سلسلہ جاری تھا کہ ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ کی ابتدائی تاریخوں میں والد صاحب زیادہ بیمار ہوگئے۔ گھر والوں نے ان سے کہا کہ ‘‘آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ کا ایک ہی فرزند ہے اسے خط بھیج کربلا لیجئے۔’’ فرمایا کہ ‘‘نہیں پڑھائی کا نقصان ہوگا۔’’مگر بقر عید کےبعد جب وہ بہت زیادہ بیمار ہوگئے تو گھر والوں نے ان کی اجازت کے بغیر مجھے ٹیلی گرام دے دیا۔ گومیں گھر کے حالات سےبے خبر تھا لیکن دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، میری طبیعت بہت اچاٹ ہوئی توٹیلی گرام سے پہلے ہی میں ۱۷ ذی الحجہ کو گھر آگیا اور ۲۰ ذی الحجہ ۱۳۷۰ھ مطابق ۱۹۵۱ء کو والد ماجد وصال فرماگئے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

میں گھر والوں کی دلجوئی کی خاطر کچھ دنوں کے لیے مکان پر ٹہر گیا اسی درمیان میں ‘‘دو بولیا بازار’’ جو ‘‘اوجھا گنج’’ سے پانچ کلو میٹر دکھن واقع ہے، وہاں کے مسلمانو ں نے مجھے تقریر کے لیے مجھے بلایا تو میں نے وہاں ایک مدرسہ قائم کردیا۔ لوگوں نے مجھ ہی کو پڑھانے کے لیے مجبور کیا تو کچھ دنوں کے لیے میں نے منظور کرلیا اور جب مدرسہ کا نظام مستحکم ہوگیا تو میں پھر ناگپور جاکر حصول تعلیم میں لگ گیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں ۲۴ شعبان المعظم ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹ مئی ۱۹۵۲ء کو حضرت علامہ ارشد القادری دامت برکاتہم العالیہ نے دس ساتھیوں کے ساتھ مجھے سندِ فراغت عطا فرمائی۔ اس طرح ‘‘اوجھا گنج’’ کی تاریخ میں ہم سب سے پہلے فارغ التحصیل ہوئے دستار بندی کے بعد میں پھر ‘‘دو بولیاں بازار ’’کے مدرسہ میں تدریسی خدمت انجام دینے لگا۔ اور اس کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کی مگر اراکین حوصلہ مندنہ تھے انہوں نے میرا ساتھ نہ دیا۔ مجھے اپنی ترقی کی راہ مسدود نظر آئی تو میں نے استعفی ٰدے دیا۔

جمشید پور میں:

حضرت علامہ نے ہم لوگوں کی دستار بندی کے بعد ناگپور سے جمشید پور جاکر مدرسہ فیض العلوم قائم کیا۔دوبولیا کے مدرسہ فیض العلوم قائم کیا۔دوبولیا کے مدرسہ سے ذی قعدہ ۱۳۷۳ھ مطابق ۱۹۵۴ء میں مستعفی ہوکر حضرت کی طلب پر میں بھی جمشید پور پہنچ گیا۔ اسی زمانہ میں جمشید پور کا تاریخی مناظرہ ہوا جس میں اہل سنت والجماعت کو فتح مبین حاصل ہوئی اور مناظر اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری صاحب قبلہ کو جلیل القدر علمائے کرام نے فاتح جمشید پور کا خطاب عطا فرمایا۔چوں کہ مدرسہ فیض العلوم میں بروقت کسی مدرس کی ضرورت نہ تھی اس لیے مجھے ایک مکتب میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا گیا تو میں دل برداشتہ ہوکر تقریباً پانچ ماہ بعد حضرت علامہ کی اجازت سے گھر چلا آیا۔

بھاؤ پور ضلع بستی میں:

اس زمانہ میں بانی فیض الرسول شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ گیارہویں شریف کی تقریب موضع صمدہ ضلع فیض آباد میں کرتے تھے۔ اور اس وقت شیر بیشہ اہل سنت حضرت علامہ حشمت علی خان صاحب قدس سرہ اکثر شعیب الاولیاء کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔ میں نے حضرت شعیب الاولیاء سے گیارہویں شریف کے موقع پر صمدہ میں ملاقات کی تو حضرت نے بڑی قدر کی اور حضرت شیر بیشہ اہل سنت سےمیرا تعارف کرایا تو وہ بھی بہت عزت سے پیش آئے۔پھر دونوں بزرگوں کے مشورہ سے ‘‘بھاؤ پور’’ ضلع بستی کے مدرسہ قادریہ رضویہ کی تدریسی خدمات کے لیے مقرر کردیا گیا اس طرح میں جمادی الاولی ۱۳۷۴ھ مطابق ۱۹۵۵ء میں بھاؤ پور آگیا۔ وہاں کئی سال پہلے سے حضرت شیر بیشہ اہل سنت کی سر پرستی میں مدرسہ چل رہا تھا۔ لیکن چوں کہ وہاں کی خمیر میں فتنہ ہے اس لیے مجھ سے پہلے بہت سے علماء آئے اور فتنے سے عاجز آکر چلے گئے۔ میں نے وہاں پہنچ کر مدرسہ  کو ترقی دینے کی بھر پور کوشش کی اور رات دن کی دوڑ ڈھوپ سے مدرسہ کو اس منزل پر پہنچا دیا کہ اس سے پہلے کبھی اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی لیکن میری موجودگی میں بھی فتنہ کھڑا ہوگیا تو عاجز آکر ذی قعدہ ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۵۶ء کو میں نےاستعفا دے دیا۔

فیض الرسول میں:

مذہب اہل سنت کی تبلیغ، مسلک اعلی حضرت کی ترویج اور ضلع بستی و گونڈہ کی بڑھتی ہوئی بد مذہبی کی روک تھام کے لیے حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے حضرت شیر بیشہ اہل سنت قدس سرہ جیسے ساحر البیان مقرر اور مناظر کو ہمراہ لے کر بہت سے دیہاتوں کا دورہ فرمایا جن کی تقریر و مناظرے نے پورے علاقہ میں دھوم مچا دی اور اہل سنت میں نئی روح ڈال دی لیکن چوں کہ تعلیم کے مقابلہ میں تقریر و مناظرہ کا اثر زیادہ دیر پا نہیں ہوتا اس لیے حضرت شعیب الاولیاء کی عین تمنا تھی کہ اس علاقہ کے مدارس اہل سنت کے تعلیمی معیار کو زیادہ اونچا کیا جائے تاکہ تعلیم خوب عام ہوجائے اسی لیے آپ اپنے تمام مریدین و معتقدین کو مدرسہ انوار العلوم تلسی پور، انجمن معین الاسلام پرانی بستی اور مدرسہ قادریہ رضویہ بھاؤ پور کی امدا د و اعانت کی تاکید فرماتے تھے لیکن بہاؤ پور کی فتنہ انگیزی کے سبب وہاں مدرسہ چلنے کی امید نہ رہی، انجمن معین الاسلام پرانی بستی کے اراکین نے حضرت مولانا بدر الدین احمد صاحب رضوی جیسے متدین اور محنتی عالم کو کام نہ کرنے دیا اور مدرسہ انوار العلوم تلسی پور جو بہت ترقی پر تھا مگر اختلاف کے سبب وہ بھی نہایت تیزی کے ساتھ انحطاط (زوال) کی طرف جارہا تھا تو حضرت شعیب الاولیاء نےپھر مکتب فیض الرسول کو دارالعلوم فیض الرسول بنانا چاہا کہ ۱۳۵۴ھ مطابق ۱۹۳۵ھ سے ۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ء تک ایک بار دارالعلوم فیض الرسول چل کر پھر مکتب فیض الرسول ہوگیا تھا۔

ذی الحجۃ ۱۳۷۴ھ مطابق جولائی ۱۹۵۵ء میں جب بھاؤ پور میں نئے فتنے کا جنم ہوچکا تھا حضرت نے آدمی بھیج کر مجھے براؤن شریف طلب فرمایا۔ میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ میں اس علاقہ کے مدرسو ں کے چلنے سے ناامید ہوکر اپنے یہاں دارالعلوم چلانے کا ارادہ کرلیا ہے سنا ہے کہ آپ بھاؤ پور میں نہ رہیں گے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ بھاؤپور چھوڑیں لیکن اگر چھوڑدیں تو کہیں دوسری جگہ نہ جائیں بلکہ ہمارے یہاں آئیں کہ بروقت مجھے ایک اچھے عالم کی تلاش ہے۔ میں نے غور و فکر کرنے کے بعد جواب دینے کا وعدہ کیا اور بھاؤ پور پہنچنے کے بعد اس بنیاد پر کہ کبھی اللہ والوں سے بہت زیادہ قرب بھی باعث زحمت ہوجاتا ہے میں نے حضرت کو معذرت نامہ لکھ دیا لیکن جب فتنہ کے سبب بھاؤ پور میں رہنا نا ممکن ہوگیا تو مستعفی ہوکر براؤن شریف آگیا اور یکم ذی الحجہ ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۰؍ جولائی؍۱۹۵۶ء سے باقاعدہ دارالعلوم فیض الرسول کا مدرس ہوگیا اور تقریباً پچیس سال سے مسلسل اسی دارالعلوم فیض الرسول میں اپنے فرائض منصبی کو انجام دے رہا ہوں۔

فیض الرسول کی بنیاد چوں کہ خلوص پر ہے اور حضرت شاہ صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ علماء اور طلبہ کی بڑی قدر کرتے تھے اور ان کے صاحبزادگان علماء اور طلبہ کی عزت کرتے ہیں اسی لیے یہ ادارہ روزہ افزوں ترقی کر رہا ہے اور جب تک حضرت کی اولاد ان کے اصولوں پر عمل کرتی رہے گی اور ان کے نقش قدم کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے گی یقیناً یہ ادارہ ترقی ہی کرتا رہے گا۔ بانی فیض الرسول شیعب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کا ۲۲؍محرم الحرام ؍۱۳۸۷ھ کو وصال ہوا۔ اس طرح بفضلہٖ تعالیٰ گیارہ سال سے زائدان کی خدمت میں رہنے کا موقع ملا جس سے ہمارے دین میں اور زیادہ نکھار پیدا ہوگیا۔

تعلیمی ترقی:

زمانہ طالب علمی میں دن بھر کام کرنے اور صرف رات میں پڑھنے کے سبب کوئی خاص علمی قابلیت پیدا نہ ہوسکی تھی اور پھر فراغت کےبعد کوئی ایسی جگہ نہ مل سکی تھی کہ جہاں میں ترقی کرتا لیکن فیض الرسول کے پرسکون ماحول میں پہنچنے کے بعد حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ کے قول: ‘‘اَدْرَکْتُ الْعِلْمَ بِالْجُھْدَ وَالشُّکْرِ یعنی مسلسل کوشش اور اللہ عزوجل کا شکر کرکے میں نے علم حاصل کیا ’’ اور ‘‘مَابَخِلْتُ بِالافَادَۃِوَمَا اسْتَنْکَفْتُ عَنِ الاسْتَفَادَۃِ یعنی علمی فائدہ پہنچانے اور کسی سے علمی فائدہ حاصل کرنے میں کبھی بخل نہیں کیا’’ کومشعل راہ بناکہ اپنی کاوش اور جدو جہد کو نقطۂ نظر عروج تک پہنچا یا اور افادہ و استفادہ میں بخل و عارنہ کیا ۔ وقت کی قدر کی، اسے ضائع نہ کیا۔ درسی کتابوں کی شروح و حواشی سے گہرا مطالعہ کرنے کے بعد پڑھایا، اساتذہ اور والد کو خوش رکھا، ان کی خدمتیں کیں، ان سے دعائیں لیں اور یقین کیا کہ ‘‘حقیقت میں علم حاصل کرنے کا وقت فراغت کے بعد ہے اور زمانہ طالب علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے’’ تو خدائے تعالی نے مجھے اس منزل پر پہنچا دیا جس کا کبھی تصور نہیں کرسکتا تھا۔ فللہ الحمد (تمام تعریفیں صرف اللہ عزوجل ہی کے لیے ہیں۔)

فتوی نویسی:

دارالعلوم فیض الرسول کی نشاۃ ثانیہ ہونے کے ساتھ استفتاء آنا شروع ہوگے پہلے حضرت مولانا بدرالدین احمد صاحب قبلہ رضوی سابق صدر المدرسین دارالعلوم ہذانے چند فتاوی تحریر فرمائے۔ پھر میں نے ۲۴ ؍صفر  ؍۱۳۷۷ھ مطابق ۱۹۵۷ء کو ۲۴ سال کی عمر میں پہلا فتویٰ لکھا۔ حضرت مولانا فتوی نویسی دلچسپی کو دیکھ کر مستقل طور پر یہ کام میرے سپرد کردیا تو میں فتاوی لکھ کر حضرت مولانا کو دکھالیا کرتا تھا اور پہلے یہ کام میں فارغ اوقات میں کیا کرتا تھا لیکن جب کام بڑھ گیا تو اوقات تعلیم میں سے ایک گھنٹہ پھر دو کھنٹے اور اب تین گھنٹے فتوی نویسی کے لیے مخصوص ہیں۔ ملک اور بیرون ملک سے آئے ہوئے سوالوں کے جوابات لکھنے کے لیے یہ وقت بھی ناکافی ہے مگر فتوی نویسی کے سبب حدیث، تفسیر، اصول فقہ صرف اور نحو ادب اور منطق وغیرہ کے اسباق میری درسگاہ میں پہلے سے بند ہیں میں درس و تدریس سے بالکل الگ نہیں ہونا چاہتا کہ علمی  صلاحیت باقی رکھنے کے لیے میں اسے بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ پھر دارالعلوم کے طلبہ ہماری درسگاہ میں فقہ پڑھنے کے لیے بڑی کوشش کرتے ہیں اس لیے وقت میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود شرح وقایہ اور ہدایہ اولین و آخرین کے اسباق پڑھا دیا کرتا ہوں اورفتوی نویسی کا باقی ماندہ کام رات کو کیا جاتا ہے۔

ایک نہایت ہی اہم نکتہ:

مرید کو اگر پیر سے حقیقت میں خلوص ہوتو پیر کے وصف خاص کا عکس مرید میں پایا جانا ضروری ہے اسی لیے پیر کے وصف خاص کی جھلک اگر مرید میں نہ پائی جائے تو ہم اسے مرید صادق نہیں سمجھتے۔ شعیب الاولیاء حضرت شاہ محمد یار علی صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نماز و جماعت کا بہت اہتمام فرماتے تھے کہ نماز تو نماز ، جماعت تو جماعت اڑتالیس ۴۸ سال تک تکبیر اولی بھی فوت نہ ہوئی تو ان کا جو مرید نماز و جماعت کا اہتمام نہ کرے ہم اسے رسمی مرید کہتے ہیں۔ ہمارے ایک مخلص مرزا جمال بیگ مرحوم نے کہا کہ میری والدہ حضرت شاہ صاحب سے مرید ہیں لیکن میں نے کوئی فیض نہیں دیکھا۔ ہم نے کہا سنا ہے کہ آپ کے علاقہ میں عورت تو عورت کوئی مرد بھی ان کے جیسا نمازی نہیں ہے کیا یہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیض نہیں ہے۔ اور سیدی مرشدی صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض ہے کہ درس و تدریس تصنیف و تالیف اور دارالعلوم کی دیگر مصروفیات کے ساتھ پچیس ۲۵ سال میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فتاوی لکھے جو فل اسکیپ سائز کے ایک ہزار سے زائد صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں اور مستقبل قریب میں فتاوی فیض الرسول کے نام سے چھپ کر منظر عام پر آنے والے ہیں۔(الحمد للہ عزوجل اب اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ )

وعظ و تقریر:

درس وتدریس، تالیف اور فتوی نویسی کے ساتھ ہم نے وعظ و تقریر کی بھی کوشش کی اس لیے کہ جاہل عوام کی تبلیغ کے لیے یہی ایک ذریعہ ہے۔ اس سلسلہ میں صوبہ یوپی کے متعدد اضلاع اور دوسرے صوبہ جات، بہار، اڑیسہ، مدہیہ پردیس، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور راج نیپال کے اجلاس میں بارہا شرکت کا اتفاق ہو اور لوگوں نے ہمارے وعظ کو دلچسپی سے سنا۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ آج کل وعظ و تقریر کے بارے میں ہماری جماعت کا مزاج بہت بگڑ گیا ہے کہ سیرت  النبی ﷺ کے مبارک اسٹیج پر فساق و فجار ہر قسم کے شعراء کثرت سے بلائے جاتے ہیں اور گیارہ بارہ بجے تک فلمی ٹھمری وغیرہ ہر قسم کی طرز کے اشعار پڑھے جاتے ہیں،پھرتھوڑی دیر عالم کی تقریر ہوتی ہے اور آخر میں پھر اشعار پڑھے جاتے ہیں۔ اس طرح تقریر کا جو کچھ اثر ہوتا ہے وہ زائل ہوجاتاہے اور سامعین صرف نغمہ وترنم کا اثر لے کر اپنے اپنے گھر جاتے ہیں۔ بعض جلسوں میں تو اتنے بڑے شعراء بلائے جاتے ہیں جو بڑے بڑے شیخ الحدیث سےبھی بڑے ہوتے ہیں کہ ان سے زیادہ شاعر کی خاطر مدارت ہوتی ہے، لوگ اسے گھیرے رہتے  ہیں اور نہایت ہی اعزاز اور تعظیم و تکریم کے ساتھ اسے رخصت کرتے ہیں۔ میں ایسے جلسوں میں جہاں گویے شاعر حاصل جلسہ ہوں شرکت کرنے سے پرہیز کرتا ہوں کہ مذہبی جلسوں میں مذہبی پیشوا کی ثانوی حیثیت ہونا مذہب اور مذہبی پیشوا دونوں کی موت ہے۔

تصنیف و تالیف:

درس و تدریس اور افتاء وغیرہ کی مصروفیات کے باوجود ہم نے فیض الرسول میں آتے ہی تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ پچیس سال میں چھوٹی بڑی جنتی کتابیں لکھیں وہ یہ ہیں۔

٭مولانا روم علیہ الرحمۃ کی مثنوی شریف کا انتخاب مع ترجمہ و مختصر تشریح۔٭گلدستہ مثنوی ۔٭گلزار مثنوی۔٭آیات قرآنیہ سے ایک عام فہم اور مختصر رسالہ معارف القرآن۔٭سجدہ تعظیم۔٭عوام کے لیے عقائد اور روزمرہ پیش آنے والے نماز، زکوٰۃ اور روزہ وغیرہ کے مسائل میں مختصر اور جامع کتاب انوار شریعت ٭عرف اچھی نماز۔٭حج و زیارت کے مسائل نہایت آسان اور عام فہم کتاب حج و زیارت۔٭آٹھ مختلف فیہ مسائل کا محققانہ فیصلہ۔ ٭بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کا سنیت افروز سلسلہ نورانی تعلیم چار حصے اور ۔٭انوار الحدیث۔

بحمدہ تعالیٰ یہ سب کتابیں کئی بار چھپ کر عوام وخواص سے خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ان تمام کتابوں میں سےسب سے اہم تصنیف ‘‘انوار الحدیث’’ ہےجس کے دو (۲) ایڈیشن ہندوستان میں چھپ چکے ہیں اور تیسرا ایڈیشن رضا پبلی کیشنز لاہور  نے نہایت ہی اعلی پیمانہ پر چھاپ کر اسے چارچاند لگا دیے ہیں۔ استفتاء کی کثرت کے سبب اب فرصت نہیں ملتی اگر موقع ملا تو مرنے سے پہلے چند اہم اور مفید کتابیں لکھنے کی تمنا ہے۔ ہماری جماعت میں تصنیف و تالیف کی بہت کمی ہے۔ دوسرے لوگ قرآن و حدیث کے ترجمے، ان کی تفسیر تشریح، درسی کتابوں کے شروح و حواشی اور ان کےترجمےتاریخ وسیر اور اخلاق و تصوف وغیرہ ہر علم و فن کی کتابیں لکھنے میں پیش پیش ہیں اور ہم بالکل نہ لکھنے کے برابر اس لیے کہ ہماری جماعت کے اکثروہ جلیل القدر علماء جو تصنیف و تالیف کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں اپنا پورا وقت وعظ و تقریر پیری مریدی، میں صرف کرکے اپنی اس عظیم ذمہ داری سے غفلت برتتے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ پیری مریدی اور وعظ و تقریر نہ کریں لیکن ان سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ وقت کی ا س اہم ضرورت پر توجہ دیں اور اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر تصنیفی کام ضرور کریں ورنہ سنیت کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جائے گا۔

سفر حرمین طیبین:

۱۹؍شوال؍۱۳۹۶ھ مطابق ۱۴؍اکتوبر؍۱۹۷۶ء جمعرات کو اس مقدس سفر کے لیے میں اپنے وطن سے روانہ ہوا، اوجھا گنج اورقرب و جوار کے کثیر مسلمانوں نے بہت ہی شکوہ جلوس کے ساتھ رخصت کیا۔ شام تک میں براؤن شریف پہنچا۔ ۲۱ شوال کو شعیب الاولیاء حضرت محمد یار علی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کےمزار مبارک پر حاضری دینے کے بعد میں براؤن شریف سے روانہ ہوا۔ حضرت کے صاحبزادگان اور ‘‘فیض الرسول’’کے علماء و طلبہ نے بہت اعزاز کے ساتھ مجھے رخصت کیا، احباب و اکابر کی دعاؤں کا توشہ جمع کرتے ہوئے ۲۴ شوال کو بمبئی پہنچا۔ حاجی سیٹھ حیات محمد صاحب مرحوم اور جناب سیٹھ ابوبکر خان صاحب زیدت محاسنہ کے یہاں ‘‘محلہ گھاٹ کوپر’’ میں ڈیڑھ ہفتہ قیام رہا۔ پھر ۶؍ ذی القعدہ  بمطابق ۳۰؍اکتوبر کو ‘‘ایم دی اکبر’’ بحری جہاز سے روانہ ہوکر ۱۳؍ذی القعدہ کو عصر کے وقت ‘‘جدہ’’کے ساحل پر اتر گیا۔ دوسرے دن ۱۴ ذی القعدہ کو رات کے وقت مکہ مکرمہ شریف حاضر ہوا اور تقریباً ۲ بجے  کعبہ معظمہ کے طواف سے پہلی بار مشرف ہوا۔

مدینہ طیبہ روانگی:

مکہ شریف میں ایک ہفتہ قیام کرنے کےبعد ۲۲ ذی القعدہ دو شنبہ مبارکہ کو عصر کی نماز پڑھ کر مدینہ طیبہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مغرب کی نماز شہر سے باہر نکل کر چند میل کے فاصلہ پر پڑھی اور عشاء کی نماز منزل بدر میں ادا ہوئی۔ اس طرح رات کو ایک بجے اس مقدس شہر میں داخل ہوگئے جو عشاق کا قبلہ ایمان ہے۔ اور ۲۳ ذی القعدہ فجر کی نماز کے وقت سرکار اعظمﷺ کے مواجہہ اقدس میں روتے ہوئے حاضر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد صاحب قبلہ مدظلہ العالی جن کا سن ولادت ۱۲۹۴ھ ہے۔ وہ دس سال بغداد میں قیام فرمانے کے بعد تقریباً سترہ (۷۰) سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں ساٹھ (۶۰)سے زیادہ حج کرچکے ہیں اور ان کے مریدین اور خلفاء پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے ہیں وہ بعد نماز مغرب روزانہ میلاد شریف کی محفل منعقد کرتے ہیں بعدہ جملہ حاضرین کی ماحضر سے مہمان نوازی فرماتے ہیں۔

دوسرے دن بھی اس مبارک محفل میں شریک ہوا، حضرت کو عشق رسول ﷺ میں سرشار پایا اور ان کی محفل میں ہر طرف مجھے عشق رسول ﷺ ہی کا جلوہ نظر آیا۔ جب مجمع کم ہوا تو میں نے حضرت سے سلام و مصافحہ کیا بہت محبت سے پیش آئے چلتے وقت میں نےبیس ۲۰ ریال نذر پیش کرتے ہوئے فرمایا اس معاملہ میں میرا مسلک ہے کہ طمع نہ کرو منع نہ کرو۔ بہت بزرگ ہستی ہیں خدائے تعالیٰ ان کی حیات مبارکہ کو دراز تر فرمائے۔

مقدس مقامات کی حاضری:

تیسرے دن عزیز گرامی مولانا محمد ابراہیم جو فیض الرسل سے پڑھ چکے ہیں اور فی الحال مدینہ طیبہ میں مقیم ہیں ان سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ لے کر جنت البقیع میں حاضر ہوا۔ خلیفہ سوم امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی، حضرت بی بی فاطمہ، حضرت امام حسن، حضور اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات اور دیگر جلیل القدر صحابہ اور صحابیات رضوان اللہ تعالٰی علیہم  اجمعین کے مزار ہائے مبارکہ کی ویرانی دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ پہلے ان مزاروں پر کیسے شاندار گنبد بنے ہوئے تھے جنہیں نجدی وہابی حکومت نے کھود کر پھینک دیا۔

جنت البقیع کی حاضری کے بعد مقام جنگ احد، بئر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، مسجد قبلتین، مقام جنگ خندق، مسجد قبا اور دیگر مقامات عالیہ کی زیارت کرتے ہوئے باغ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ میں حاضر ہوئے تاکہ حضور ﷺ کے دست اقدس کے لگائے ہوئے کھجور کے دو درخت جواب تک موجود ہیں ان کی زیارت کریں۔ مگر باغ میں ان درختوں کی زیارت نہ ہوسکی، بڑا افسوس ہوا۔ باغ والے سے دریافت کیا گیا تو اس نے بتایا کہ دو ۲ روز پہلے یعنی ۲۲ ذی القعدہ ۱۳۹۶ھ کو پولیس نے کھڑے ہوکر کٹوادیا۔ ہر قوم اپنے پیشوا کی یادگاروں کی حفاظت کا اہتمام کرتی ہے مگر وہابی مسلمان ہونے کے جھوٹے مدعی، سرکار ابد قرارﷺ کی یادگاروں کو مٹانے کے درپے ہیں یہاں تک کہ حضورﷺ کا گنبد خضراء جس کی زیارت مسلمانان عالم کو سکون اور عاشقان رسول ﷺ کے دلوں کا قرار ہے یہ قوم اس کے ڈھانے کا بھی پروگرام بنا رہی ہے۔

حج کے لیے روانگی:

دسویں روز ۲ ذی الحجہ ۱۳۹۶ھ جمعرات کو اس مقدس شہر سے روتے ہوئے رنج و غم سے نڈھال رخصت ہوئے۔ ‘‘منزل بدر’’ میں ظہر کی نماز ادا کی اور چاہا کہ ‘‘مقام جنگ بدر’’ کی زیارت کروں جو ‘‘منزل بدر’’ سے تھوڑے فاصلے پر ہے مگر کوشش کے باوجود بھی ڈرائیور نے موقع نہ دیا جس کا غم زندگی بھر رہے گا۔ مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد حج کی تیاری شروع ہوگئی حج سے پہلے ہم نے منیٰ مزدلفہ اور عرفات کی زیارت کرلی۔ پھر آٹھ ۸ ذی الحجہ سے بارہ ۱۲ ذی الحجہ مناسک حج ادا کرنے کے بعد ‘‘جعرانہ’’ اور ‘‘تنعیم’’ سے عمرے کیے جنت المعلی قبرستان میں حاضر ہوئے بیچ قبرستان میں نیا روڈ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ نجدی حکومت کو صحابہ کرام اور دوسرے بزرگوں کو قبروں پر سڑک بناتے ہوئے رحم نہ آیا۔ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے روضہ مبارکہ ویران کردیا۔ سلطان الہند حضرت خؤاجہ اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کےپیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ الرضوان کا مزار مبارک جو ‘‘مسجد جن’’ کے قریب تھا اس پر پختہ سڑک بنادی۔ ‘‘مسجد شجرہ’’ جہاں حضور ﷺ کے سچے نبی ہونے کی درخت نے گواہی دی تھی اس کے بارے میں ایک بوڑھے عرب سے پوچھا : ‘‘اَیْنَ مَسْجِدُ الشَّجَرَۃ’’ یعنی مسجد شجرہ کہاں ہے؟ اس نے ایک جگہ اشارہ کرتے ہوئے کہا: ‘‘کَانَ عَلٰی ھَذَا الْمَقَامِ فَھُدِمْ یعنی اس جگہ پر تھی تو ڈھادی گئی۔’’ہم نے کہا: ‘‘أَھَذِہِ الْحَکُوْمَۃْ تَھْدَمُ الْمَسْجِد کیا یہ حکومت مسجد ڈھاتی ہے؟’’تو وہ مجھےنیچے سے اوپر تک دیکھتا ہوا چلا گیا اور کوئی جواب نہ دیا۔

پھر غار ثور اور غار حرا کی زیارت کے لیے حاضر ہوا تو ان مبارک پہاڑو کی مسجدیں بھی ڈھائی ہوئی نظر آئیں تو اور زیادہ یقین ہوگیا کہ بیشک وہابی صرف نام کے مسلمان ہیں کہ مسجد بنص صریح اللہ تعالیٰ کی ہیں جیسا کہ سورہ جن پارہ میں ۲۹ میں ہے: ‘‘اَنَّ الْمَسٰجِدَلِلّٰہِ’’تو ان کافروں کا ہی شیوہ ہے نہ کہ مسلمانوں کا۔

 حضرت سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہالمتوفی ۱۳۰۴ھ تحریر فرماتے ہیں کہ: ‘‘وہابیوں نے مسجدوں کو ڈھا دیا، بزرگوں کی یادگاروں کو مٹا دیا، جنت المعلی کے گنبدوں کو کھود کر پھینک دیا، مولد النبی ﷺ اور مولد حضرت ابو بکر و مولد حضرت علی رضی اللہ عنہما کے قبوں کو بھی توڑ کر گرادیا ، مسجدوں اور قبروں کو ڈھاتے ہوئے وہابی ڈینگیں مارتے تھے اور ڈھول بجا بجا کر گانا گاتے تھے اور صاحبِ قبر کو بہت گالیاں دیتے تھے یہاں تک کہ بعض لوگوں نے حضرت محجوب (رحمۃ اللہ علیہ) کی قبر پر پیشاب بھی کیا۔’’

حضرت کے اصل الفاظ یہ ہیں: ‘‘بَادَرَ الوَھَابِیُّوْنَ وَمَعَھُمْ کَثِیْرٌ مِنإ النَّاسِ لِھَدْمِ الْمَسَاجِدِ وَمَآثِرِ الْصَّالِحِیْنَ فَھَدِمُوْ ا أَوَّلا مَافِی الْمَعْلٰی مِنَ الْقُبَبِ فَکَانَتْ کَثِیْرَۃً ثُمَّ ھَدَمُوؤا قُبَّۃَ مَوْلِدِ النَّبِیِّ ﷺ وَمَوْلِدَ سَیَّد أَبِی بَکْرِنِ الصِّدیْق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ وَمَوْلِدَ سَیِّدنَا عَلی رَضِیَ اللہُ تعالٰی عَنْہُ وَقُبَّۃَ السَّیِّدَۃِ خَدِیْجَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا وَ تَتَّبَعُوا جَمِیْعَ الْموَاضِعِ الِّتی فِیْھَا آثارُ الصَّالِحِیْنَ وَھم عِنْدَ الْھَدَمِ یَزْجُرُوْن وَیَضْرِبُونَ الطَّبل وَیُغَنُّوْنَ بالعَوافِی شتم القُبُور الَّتِی ھَدَمُوْھَا وَقَالُوْا اِن ھِیَ الاسماءٌ سَمّیتُمُوھَا حَتّی قِیْلَ اِنَّ بَعْضَ النَّاسِ بَالَ عَلی قَبْرِ السَّیِّدِ الْمَحجُوبِ’’۔  (خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد الحرام، ج۲، ص۲۷۸)

اسی طرح مرتد ابو طاہر قرمطی کو جب ۳۲۰ھ عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے زمانہ میں مکہ معظمہ پرغلبہ حاصل ہوا تو اس نے بڑے مظالم ڈھائے یہاں تک کہ مقدس پتھر حجرا سود پر گرزمار کر اس کو توڑ ڈالا اور اکھاڑ کر اپنے دار السلطنت ‘‘ہجر’’ میں لے گیا جو بیس ۲۰ برس کے بعد واپس آیا۔ اور مسجد حرام کے منبر پر کھڑے ہوکر ابوطاہر قرمطی نے کہا: ‘‘أَنَا بَاللہِ وَبِاللہِ أَنَا اَخْلُقُ الْخَلْقَ وَاَفْنَیْھَمْ اَنَا’’ یعنی میں خدا کی قسم اور خدا کی قسم میں مخلوق کو پیدا کرتا ہوں اور ان کو فنا بھی کرتا ہوں۔ (حجۃ اللہ علی العالمین، الباب الثالث فی  أشراط الساعۃ، ص۵۸۹) مگر جب وقت آگیا تو اپنے زمانہ کا فرعون ابو طاہر قرمطی خائب و خاسرہوا، ایسے ہی یہ لوگ خائب و خاسر ہوں گے۔

جب عرب کی مدت اقامت ختم ہوگئی تو ۶۱؍محرم ؍۱۳۹۷ھ مطابق ۷ جنوری ۱۹۷۷ء جمعہ مبارکہ کو مکہ شریف سےروانہ ہوکر جدہ پہنچے پھر ۱۷؍محرم الحرام کو جدہ سے روانہ ہوکر ۲۴؍محرم کو بمبئی آگئے اور یکم؍صفر المظفر؍۱۳۹۷ھ کو بخیر و عافیت اپنے وطن پہنچ گئے۔ دعا ہے کہ حج اور سرکار اقدس ﷺ کے آستانۂ پاک کی حاضری قبول ہو اور بار بار ان مقامات مقدسہ کی زیارت نصیب ہو، خدمت دین میں خلوص ہو اور  ایمان پر خاتمہ ہو۔

آمین بحرمۃ سید المرسلین صلوات اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین

 جلال الدین احمد الامجدی

۱۶؍ ربیع الآخر؍ ۱۴۰۰ھ مطابق ؍ ۴؍ مارچ  ؍۱۹۸۰ء

نوٹ:واضح رہے کہ حضرت علامہ مولانا مفتی جلال  الدین احمد الامجدی علیہ الرحمہ نے یہ حالات زندگی از خود تحریر فرمائے تھے ، حضرت ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۰۰۱ٰ میں اس دارفانی سے دارآخرت کی طرف کوچ فرماگئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

قلمی نگارشارت 

Menu