حضرت  مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری رحمۃ اللہ علیہ


نام و نسب: اسم گرامی: خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری﷫۔

القاب : برہانِ ملت،برہان الدین، برہان السنت،خلیفۂ اعلیٰ حضرت،ممدوحِ اعلیٰ حضرت،مظہرِ شریعت۔

سلسلۂ نسب : حضرت علامہ مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری بن عید الاسلام حضرت علامہ مولانا شاہ عبد السلام جبل پوری بن مولانا شاہ محمد عبد الکریم قادری نقشبندی بن مولانا شاہ محمد عبدالرحمن بن مولانا شاہ محمد عبدالرحیم بن مولانا شاہ محمد عبد اللہ بن مولانا شاہ محمد فتح بن مولانا شاہ محمد ناصر بن مولانا شاہ محمد عبدالوہاب صدیقی طائفی۔علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپ﷫ کا خاندانی تعلق حضرت سیدنا صدیق اکبرسےہے۔نویں پشت میں آپ کے جد اعلیٰ حضرت شاہ عبدالوہاب صدیقی سلطنتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں نواب صلابت جنگ بہادر کے ساتھ طائف سے ہندوستان تشریف لائے،اور حیدر آباد دکن میں سکونت اختیار کی۔یہاں حکومتِ آصفیہ کی جانب سے مکہ مسجد کی امامت اور محکمۂ مذہبی امور کے جلیل القدر عہدے پرمامور ہوئے۔آپ﷫ کے خاندان میں مسلسل پانچ پشتوں میں پانچویں آصف جاہ کے زمانے تک برابر قائم رہا۔

مولانا برہان الحق کے جدامجد مولانا شاہ عبدالکریم(م16/رمضان المبارک 1317ھ)اپنے وقت کے جید عالم اور شیخِ طریقت تھے۔تمام علومِ عقلیہ ونقلیہ کے ماہر کامل اور بالخصوص فقہ اور علم طب میں یگانۂ روزگار تھے۔حضرت برہانِ ملت کے والد گرامی عید الاسلام حضرت شاہ عبدالسلام جبل پوری﷫ اعلیٰ حضرت ﷫ کے محبوب خلیفہ تھے۔اعلیٰ حضرت ﷫ اور آپ کے شہزادگان کا اس خاندان سے جو قرب رہاوہ انہیں کاخاصہ ہے۔کسی دوسرے گھرانے اور خاندان کو یہ شرف حاصل نہ ہوا۔انہیں کی محبت میں اعلیٰ حضرت بریلی سے جبل پور تشریف لےگئے اور پھر مفتیِ اعظم ہند ایک ماہ سے زائد قیام فرماکر ان کو شرف بخشا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا پروفیسر مسعود احمد﷫رقم طراز ہیں۔’’کہ یہ امتیاز صرف آپ کےخاندان کو حاصل ہےکہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام احمد رضا﷫سے خلافت حاصل ہے،اور آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہواکہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی برہان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے،جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجت الاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ اور حضرت مفتی اعظم ہند مصطفیٰ رضا خاں قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے‘‘۔(جذباتِ برہان:12)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت بروز جمعرات 21/ربیع الاول 1310ھ مطابق 13/اکتوبر1894ء کو بعد نماز ِ فجر پیدا ہوئے۔آپ کے جد امجد مولانا شاہ محمد عبدالکریم نقشبندی﷫نماز فجر کےبعد قرآن مجید کی تلاوت فرمارہےتھے۔جب برہان ملت کی دادی محترمہ نے ولادت کی خبر سنائی تو اس وقت آیت کریمہ ’’قدجاءکم برھان من ربکم‘‘ جاری بزبان تھی۔خبر سنتے ہی فرمایا کہ ’’الحمد للہ! برھان آگیا‘‘۔(برھانِ ملت کی حیات و خدمات: 42)

تحصیلِ علم:حضرت برہانِ ملت﷫ کی ولادت باسعادت ایک علمی و روحانی گھرانے میں ہوئی۔جہاں شب و روز قال اللہ اور قال رسول اللہﷺکا درس جاری رہتا تھا۔جس گھرانے سے پورا عالم اسلام رشد و ہدایت حاصل کررہاتھا۔لہذا آپ پانچ سال کی عمر کو پہنچتے ہی کافی باشعور و صاحبِ فراست ہوگئےتھے۔اس کم عمری ہی میں آپ اپنے تمام ہم عمر بچوں میں بالکل ممتاز و منفرد اورایک نرالی شان رکھتےتھے۔چونکہ آپ کی والدہ ماجدہ اپنے وقت کی ولیہ اور رابعہ بصریہ تھیں۔سنت و شریعت کی عاملہ اور عشقِ مصطفیٰﷺسے سرشار تھیں۔لہذا ان کی حسنِ تربیت نے علم کی محبت اور حصول ِعلم کا جذبہ آپ کے دل میں پیدا کردیا۔ پانچ برس کی عمر 21/ربیع الاول 1315ھ کو آپ کے جد امجد نے ’’بسم اللہ شریف‘‘  کی افتتاح فرمائی۔عربی والد ماجد سے،فارسی چچا حافظ بشیر الدین صاحب سےپڑھی۔اسی طرح  آپ نے ناظرہ سے لےکر علوم ِ عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل اپنے آبائی مکان جبل پور میں کی۔

اعلیٰ حضرتسے شرفِ تلمذ: حضرت برہانِ ملت﷫ فرماتے ہیں: ’’دورانِ درس،گفتگو کےدرمیان اکثر و بیشتر اعلیٰ حضرت﷫کا ذکرِ خیر ہوتا تو میرادل زیارت اور قدم بوسی کی تمنا میں بےتاب ہوجاتا‘‘۔تکمیلِ علوم کےبعد بھی ایک خواہش باقی تھی کہ مجددِ وقت امام اہل سنت کے بحرِ بےکنار سے کچھ موتی چُنوں۔بالآخرآپ کی یہ تمنا شوال المکرم 1332ھ کے دوسرے ہفتے میں پوری ہوئی۔جب آپ اعلیٰ حضرت ﷫کی خدمت میں پہلی مرتبہ حاضر ہوئے،تو انہوں نے آپ کے چہرے کے خدوخال اور آثار وقرائن سے اول ملاقات میں ہی آپ کی ذہانت و فطانت اور آثارِ سعادت کو محسوس فرمالیا تھا۔اس لئے پہلی ملاقات ہی میں فرمادیا تھا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں برہان الحق،برہان الدین اور برہان السنت بنائے‘‘۔پھر آپ اعلیٰ حضرت  کے دارالافتاء میں بیٹھ کر ارشادات نقل کرتے،اور دارالعلوم منظر الاسلام کے صدر مدرس مولانا ظہو الحسن رامپوری﷫ کے پاس بھی درس میں شریک ہوجاتے۔اسی طرح اعلیٰ حضرت﷫ کےصاحبزادے مفتیِ اعظم ہند﷫ اور حضرت صدرالشریعہ﷫کےساتھ دارالافتاء میں  آپ کا وقت گزرتا۔یہ تینوں حضرات ساتھ ہی کھانا تناول فرماتے۔حضرت برہانِ ملت﷫نے کم و بیش تین سال اعلیٰ حضرت﷫ کی خدمت میں گزارے تمام علوم وفنون میں مزید پختگی اور فتویٰ نویسی میں مہارت حاصل کرلی۔

آپ کو فقہ و فتویٰ میں اس قدر مہارت ہوگئی تھی کہ خود اعلیٰ حضرت ﷫آپ کی فقہ اور افتاء سےمطمئن و خوش تھے،اور آپ کی ذات پر کامل  اعتماد فرمانےلگےتھے۔یہی وجہ تھی کہ جب اعلیٰ حضرت ﷫کو غیر منقسم ہندوستان کےلئے قاضیِ شرع اور مفتیِ شرع کی تقرری کرنا ہوئی تو حضرت صدرالشریعہ ﷫کو قاضیِ شرع اور حضور مفتیِ اعظم ہند اور حضرت برہانِ ملت علیہماالرحمہ دونوں کوان کامعاون مفتیان ِ شرع مقرر فرمایا۔فقہ اور فتاویٰ کے علاوہ امام اہل سے آپ نےہندسہ،ہیئت،زیجات،تکسیر،جفر،مقالہ،توقیت وغیرہ جیسےکثیر علوم وفنون حاصل کیے۔یہی وجہ ہےکہ اعلیٰ حضرت ﷫آپ کو پینتالیس علوم وفنون کی اجازت عطاء فرمائی۔(برہانِ ملت کی حیات وخدمات:46)

جن علمائے کرام سے تحصیل ِ علم کیا ان کے اسمائے گرامی: اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان،مولانا شاہ محمد عبدالکریم،مولانا شاہ محمد عبدالسلام،مولانا قاری بشیر الدین،مولانا عبدالرحمن افغانی،مولانا جلال امیر پشاوری﷭۔

بیعت وخلافت: 1335ھ میں اعلیٰ حضرت﷫ سےبیعت کی سعادت حاصل کی،اور 26/جمادیُ الثانی 1337ھ کو جبل پور میں عیدگاہ کلاں کے جلسۂ عا م میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی﷫ نے آپ کو 45علوم اور 11سلسلوں کی اجازت عطاء فرمائی،اور آپ کے والد ماجد سے ارشاد فرمایا: ’’مولانا عید الاسلام صاحب! برہاں میاں آپ کے جسمانی فرزند ہیں اور میرے روحانی فرزند ہیں۔دورانِ قیام بریلی میں فقیر نے ان کا ذہنی،علمی، عملی جائزہ بخوبی لےلیا ہے۔اخلاق ،تقویٰ، فتویٰ،اتباعِ سنت و شریعت وغیرہا،ہر پہلو سے آزمالیا ہے۔میں اپنے اس روحانی فرزندِ سعادت مند ،برہان الحق کو دستارِ فضیلت سے مزین کرکے45؍علوم اور 11؍سلسلوں کی اجازت دیتا ہوں‘‘۔(ایضا: 54)

سیرت وخصائص: برہانِ ملت،برہان الدین، برہان السنت،خلیفۂ اعلیٰ حضرت ، ممدوحِ اعلیٰ حضرت،مظہرِ شریعت،آفتابِ طریقت،حامیِ سنت، ماحیِ بدعت،حضرت علامہ مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری﷫۔آپ﷫کی خاندانی شرافت،علمی وجاہت،فقہی بصیرت کی گواہی مجدداعظم ﷫نے دی ہے۔اگر آپ کی زندگی کا خلاصہ نکالیں تو آپ حقیقۃً’’عکسِ رضا‘‘ تھے۔فقہ و افتاء وعزم واستقامت،تصلب فی الدین، احقاق حق، وابطال باطل،گیرائی و گہرائی،کلیات و جزئیات پر ملکہ و عبور،اسلاف کی عقیدت،سرکارِ دو عالمﷺسے سچی محبت۔الغرض ہر ہر وصف و خوبی میں اپنے پیر ومرشدکے سچےخلف تھے۔یہی وجہ تھی کہ بہت سے علماء و مفتیان کرام دور دراز علاقوں سے سفر کرکےآپ کی زیارت و استفادہ کےلئے حاضر ہوتے،جنہیں  اعلیٰ حضرت﷫ کی زیارت یا صحبت حاصل ہوئی تھی وہی فرماتے تھے کہ حضرت برہانِ ملت کی زیارت سے اعلیٰ حضرت ﷫ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔

سیاسی بصیرت: حضرت برہانِ ملت﷫ جہاں دینی و علمی  اعتبار سےبلند پایہ عالم ِ دین تھے۔اس کےساتھ ساتھ ملی،ملکی،بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتےتھے۔اسی طرح اہل سیاست کے مکر وفریب اور دنیاوی و سماجی مسائل کی نزاکت کو بخوبی سمجھتے۔اللہﷻ نے آپ کو ایسی سیاسی بصیرت عطاء فرمائی تھی کہ بڑے بڑے سیاسی لوگ اور حکام و افسران آپ کے سامنے تابِ گفتگو نہ رکھتےتھے۔آپ کے زمانے میں دوچار نہیں بلکہ بےشمار قومی و ملی مسائل آئے،اور بعض مسائل میں تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کفر وباطل کی تندو تیز ہوائیں اسلام کو لے اڑیں گی،اور مسلمانوں  کو ان مسائل میں شکست ہوجائے گی۔لیکن حضرت برہان ملت ﷫نے ہر ایک مسئلہ کا جم کر مقابلہ کیااور اہل باطل کو مات دی۔گاؤ کشی کی بات ہو،یا مسلم پرسنل لاءکا مسئلہ،اوقاف کی باز یابی کی بات ہو ،یا فسادات جبل پورمیں شجاعت و بہادری کے کارنامے،ہندو مسلم اتحاد کی بات ہو،یا تحریک ِ پاکستان ہرجگہ اور ہر مسئلے میں آپ نے قوم وملت کی صحیح راہ نمائی فرمائی۔اللہﷻ کی مددسے کامیاب رہے۔

تحریکِ پاکستان میں خدمات: آپ﷫ نے مسلم لیگ کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔جبل پوراور اس کے نواح میں لوگ مسلم لیگ سے بالکل ناواقف تھے۔جو واقف تھےوہ بھی اس میں شمولیت پسند نہ کرتےتھے۔یہ حضرت کی کوششیں تھیں کہ لوگوں کو مسلم لیگ کا ممبر بنایا۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ قائد محمد علی جناح نے جبل پور میں پچاس ہزار کے مجمعِ عام میں خطاب کرتے ہوئے آپ کی بہت تعریف و توصیف فرمائی۔آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’حضرت مولانا صاحب نےہم پر احسانِ عظیم فرمایا کہ لوگوں کے دلوں میں مسلم لیگ کی محبت و اہمیت پیدا کردی۔اور جبل پور سے جانے کےبعد آپ کےنام ایک طویل خط تحریر کیاجس میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا اور شکریے کے الفاظ بارباردہرائے‘‘۔ یہ خط آج بھی محفوظ ہے۔آپ﷫1940ء تا قیام ِ پاکستان جبل پور وغیرہ  میں ’’مسلم لیگ‘‘کے صدر تھے۔1940ء میں قرار دادِ پاکستان کی منظوری کےبعد آپ نے ملک کےطول و عرض میں دورےکئے۔سرحد،پنجاب،سندھ میں تحریکِ پاکستان کی حمایت میں زوردار تقریریں کیں۔اس کےلئے کئی دورےکیے۔(تخلیقِ پاکستان میں علماء اہل سنت کاکردار: 123)

یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ اعلیٰ حضرت میں بعض حیثیتوں سےآپ کوممتاز مقام حاصل تھا۔حضرت صدرالافاضل سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی﷫ اورحضرت برہان ِ ملت﷫سیاسی بصیرت اور اثر ورسوخ کے اعتبار سے نمایاں تھے۔آپ دونوں ہی تحریک ِ پاکستان کے قائدین میں سے تھے۔لیکن قیام ِ پاکستان کے بعد اس کے حالات سے نالاں تھے،اور اس کے کسی منصب کی نظرِ التفات بھی  نہ فرمائی۔کیونکہ یہ ملک جس مقصد کےلئے حاصل کیا گیا تھا۔وہ تھا اسلام۔لیکن ستر سال ہوگئے نظامِ مصطفیٰﷺ اس ملک میں  نافذ نہ ہوا۔وہی جاگیردار،سرمایہ دار،چوہدری اس پر قابض ہوگئےہیں۔یہ حقیقت ہے کہ قیام ِ پاکستان میں علماء ِاہل سنت اور مشائخِ اہل سنت کا کردار بہت اہم ہے۔اگر یہ حضرات تحریکِ پاکستان کی حمایت نہ کرتے تو پاکستان کاخواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوتا۔دوسری طرف کانگریسی ملاں تھے۔جن کی ضمیر فروشی اور ملت فروشی اور ابن الوقتی کا زمانہ معترف ہے۔

حضرت برہانِ ملت﷫ جیسی جامع کمالات شخصیت کےلئے یہ چند صفحات ناکافی ہیں۔آپ﷫ کے تمام علمی کمالات اور کارناموں کےلئے کئی صفحات درکار ہیں۔حضرت برہانِ ملت﷫ کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں ہیں۔صرف فتاویٰ کی 19 ضخیم جلدیں ہیں۔بہت سی کتب ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔درجنوں کتب،ہزاروں تلامذہ و مریدین و خلفاء کے علاوہ آپ نے چار صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں یاد گار چھوڑے ہیں۔آپ کے مزید حالات کےلئے ’’برہان ِ ملت کی حیات و خدمات،تالیف: مولانا عبدالوحید مصباحی دام ظلہ ‘‘کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

تاریخِ وصال:26؍ربیع الاول 1405ھ،مطابق 20؍دسمبر1984ء، شبِ جمعہ،شام سوا چھ بجے واصل باللہ ہوئے۔خانقاہ ِسلامیہ جبل پور مدھیہ پردیش( انڈیا )میں مدفون ہیں۔

قلمی نگارشارت 

شاعری  و متعلقات

حیات و خدمات

Menu